انکشاف: قرآن مجید کے بیشتر معاشرتی احکام عورت اور عورت کے حقوق کے تحفظ کے لیے ہیں۔
’’تین طلاق قانون‘‘ کو معقول اور موزوں قرار دینے کے لیے خواتین کے تحفظ کا عنوان دیا گیا، اور اس کا نام رکھا گیا: ’’ مسلم عورت (شادی پر مبنی حقوق کا تحفظ) ایکٹ ‘‘ The Muslim Woman (Protection of Rights on Marriage) Act۔
اس قانون میں تحفظ دینے کی صورت یہ اختیار کی گئی کہ یک بارگی دی گئی تین طلاقوں کو کالعدم قرار دے دیا گیا، ساتھ ہی اس پر لمبی سزاے قید اور مالی جرمانہ بھی رکھ دیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ تین طلاق کے الفاظ جب کالعدم ہوگئے، تو ان کی حیثیت بے معنی الفاظ کی ہوگئی، کیا بے معنی الفاظ پر سزا دینا اپنے اندر کچھ بھی معقولیت رکھتا ہے؟
تین طلاق پر سزا تو اس صورت میں بھی معقول نہیں ہے جب اسے ایک مانا جائے، تین طلاق پر سزا صرف اس صورت میں معقول ہوسکتی ہے جب اسے تین مانا جائے۔
سراسر غیر معقول ہونے کے علاوہ، ماہرین شریعت ومعاشرت کا یہ بھی ماننا ہے کہ اس قانون سے بے سبب طلاق پر روک لگنے کی امید کم ہے، البتہ اس کی وجہ سے ظلم کی بہت سی نئی شکلیں پیدا ہونے کا اندیشہ زیادہ ہے۔ جس قانون سے غلط روی کی اصلاح کے بجائے باہمی دشمنی کو بڑھاوا ملے اس کی کوکھ سے بے شمار جرائم پیدا ہوجاتے ہیں۔ اس قانون کے مضمرات کو نمایاں کرنے کے لیے تفصیلی مقالہ درکار ہے۔
یہاں اس قانون کا تذکرہ کرنے سے یہ بتانا مقصود ہے کہ خواتین کے حقوق کا تحفظ سماج کا ایسا سلگتا ہوا معاملہ ہے کہ خواتین سے متعلق کسی غیر معقول اور مبنی بر ظلم قانون کو بھی اگر ان کے تحفظ سے جوڑ کر بتایا جائے تو وہ تمام اعتراضوں اور سوالوں کے لیے ایک مسکت جواب بن جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خواتین کے ساتھ ظلم وزیادتی ایک تلخ قدیم عالمی حقیقت ہے، یہ وہ مسئلہ ہے جو ہر معاشرے میں پایا جاتا ہے، اور انسانی ضمیر کے لیے ایک درد انگیز اور تشویش ناک امر بنا ہوا ہے۔
بہرحال ہونا یہ چاہیے کہ محض جذبات کی نگاہ سے دیکھنے کے بجائے ایسی ہر تجویز کا معروضی تجزیہ ہو، کیا وہ واقعی کسی ظلم یا ضرر سے بچانے کا سامان ہے، یا جذبات کو اپیل کرنے والے عنوان کے تحت غلط تشخیص پر بنائی گئی ضرر رساں تجویز ہے؟
قرآنی تعلیمات کا امتیاز
خواتین کے موضوع سے دل چسپی رکھنے والوں کے لیے ان کے تحفظ کا مسئلہ خاصی اہمیت رکھتا ہے۔ میں یہ تحقیق نہیں کرسکا کہ قدیم انسانی لٹریچر میں خواتین کے تحفظ پر کتنا زور دیا گیا ہے، ماہرین کو اس پہلو سے ان کتابوں کا جائزہ لینا چاہیے۔ تاہم قرآن مجید کا مطالعہ کرتے ہوئے اس حوالے سے حیرت انگیز پہلو سامنے آتے ہیں، اور یہ حقیقت بہت نمایاں ہوکر سامنے آتی ہے کہ قرآن مجید سماج میں خواتین کی کم زور پوزیشن کا پورا پورا خیال رکھتے ہوئے انہیں ہر طرح کا تحفظ فراہم کرتا ہے۔ قرآن مجید کا امتیاز یہ بھی ہے کہ وہ تحفظ سے جڑے ہوئے حقیقی مسائل کو ایڈریس کرتا ہے، اور جن مسائل کا تعلق تحفظ سے نہیں ہے، انہیں تحفظ کا مصنوعی رنگ نہیں دیتا ہے۔ ایک اور امتیازی پہلو یہ بھی ہے کہ قرآن مجید تحفظ سے وابستہ کسی مسئلے کو اس طرح ایڈریس نہیں کرتا ہے کہ وہ معاشرے میں کسی اور نئے ظلم کو جنم دے۔
قرآن مجید خواتین کی ہمہ جہتی حفاظت کے مسئلے کو غیر معمولی اہمیت دیتا ہے، اس پر بہت سی آیتیں گواہی دیتی ہیں۔ ذیل میں ہم مثالوں کے ذریعہ واضح کریں گے کہ قرآن مجید نے خواتین کے تحفظ کو یقینی بنانے والی ہدایات کا کتنا اہتمام کیا ہے۔
شوہر کے ظلم سے عورت کی حفاظت
قرآن مجید میں شادی کے عمل کو نتائج کے لحاظ سے احصان کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے، جس کے معنی تحفظ مہیا کرنے کے ہوتے ہیں، شادی کرنے والے مرد کو محصِن (صاد کے نیچے زیر) یعنی تحفظ مہیا کرنے والا، اور شادی کرنے والی عورت کو محصَنۃ (صاد کے اوپر زبر) کہا گیا یعنی وہ جسے تحفظ دیا گیا۔ گویا قرآن مجید کی رو سے شادی کا عمل مرد کی جانب سے عورت کو تحفظ عطا کرنے کا عمل ہے۔
حقیقت میں عورت کا سب سے بڑا محافظ اس کے شوہر کو ہونا چاہیے، لیکن یہ بھی کڑوا سچ ہے کہ انسانی سماج میں عورت سب سے زیادہ خود اپنے شوہر کے ظلم وستم کا نشانہ بنتی ہے۔ قرآن مجید سماج کی اس صورت حال کو ایڈریس کرتے ہوئے شوہر کو بار بار اس کی ذمہ داریاں یاد دلاتا ہے، اور اسے رشتہ زوجیت کے احترام کی تلقین کرتا ہے۔
عمومی ہدایت
قرآن مجید نے بیوی کو شوہر کے ظلم سے محفوظ رکھنے کے لیے عمومی ہدایت دی ہے، کہ شوہر بیوی کو کسی طرح کے ضرر سے دوچار نہ کرے، اور اسے تنگی میں مبتلا کرنے کی نیت سے کوئی غلط حرکت نہ کرے۔
أَسْکِنُوہُنَّ مِنْ حَیْثُ سَکَنْتُمْ مِنْ وُجْدِکُمْ وَلَا تُضَارُّوہُنَّ لِتُضَیِّقُوا عَلَیْہِنَّ (الطلاق:6)
’’اور ان کو رکھو جس طرح اپنی حیثیت کے مطابق تم رہتے ہو اور ان کو تنگ کرنے کے لیے ضرر نہ پہنچاؤ‘‘
حقیقت یہ ہے کہ اگر صرف یہ ایک جامع ہدایت ہوتی تو اس کی رو سے ظلم کے تمام دروازوں کا سد باب لازم ہوجاتا۔ تاہم مہربان رب نے اس معاملے کی حساسیت کے مد نظر ظلم وزیادتی کی الگ الگ صورتوں کے حوالے سے متعدد خصوصی ہدایات بھی دی ہیں۔
ایک صورت
ظلم کی ایک صورت یہ ہے کہ شوہر اپنی بیوی کو ناپسندیدگی، ناراضی یا کسی جذبہ انتقام کی وجہ سے محض تنگ کرنے کے لیے بیوی بناکر رکھے، اور اسے قسم قسم کی زیادتیوں کا نشانہ بنائے۔ اللہ تعالی نے اس رویے کو بہت بڑا گناہ قرار دیا ہے، اور اس پر شدید وعید سنائی ہے۔ اگر بیوی کے ساتھ نباہ کرنے کی صورت نہیں بنتی ہے، تو اسے سلیقے سے رخصت کرے، یا سلیقے سے بیوی بناکر رکھے۔ اسے کسی نقصان سے دوچار کرنے، یا کسی زیادتی کا نشانہ بنانے کی قطعا اجازت نہیں ہے۔
وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَائَ فَبَلَغْنَ أَجَلَہُنَّ فَأَمْسِکُوہُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ سَرِّحُوہُنَّ بِمَعْرُوفٍ وَلَا تُمْسِکُوہُنَّ ضِرَارًا لِتَعْتَدُوا وَمَنْ یَفْعَلْ ذَلِکَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہُ وَلَا تَتَّخِذُوا آیَاتِ اللَّہِ ہُزُوًا وَاذْکُرُوا نِعْمَتَ اللَّہِ عَلَیْکُمْ وَمَا أَنْزَلَ عَلَیْکُمْ مِنَ الْکِتَابِ وَالْحِکْمَۃِ یَعِظُکُمْ بِہِ وَاتَّقُوا اللَّہَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّہَ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیمٌ (البقرۃ: 231)
’’اور جب تم عورتوں کو طلاق دے چکو اور ان کی عدت پوری ہوجائے تو انہیں یا تو حسن سلوک سے نکاح میں رہنے دو یا بطریق شائستہ رخصت کردو اور اس نیت سے ان کو نکاح میں نہ روک رکھو کہ انہیں تکلیف دو اور ان پر زیادتی کرو۔ اور جو ایسا کرے گا وہ اپنا ہی نقصان کرے گا اور خدا کے احکام کو ہنسی (اور کھیل) نہ بناؤ اور خدا نے تم کو جو نعمتیں بخشی ہیں اور تم پر جو کتاب اور دانائی کی باتیں نازل کی ہیں جن سے وہ تمہیں نصیحت فرماتا ہے ان کو یاد کرو۔ اور خدا سے ڈرتے رہو اور جان رکھوکہ خدا ہر چیز سے واقف ہے۔‘‘
دوسری صورت
بیوی پر ظلم کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ شوہر جانتا ہو کہ وہ عدل کے تقاضے پورے نہ کرسکے گا پھر بھی وہ ایک سے زیادہ شادیاں کرلے۔ قرآن مجید میں ایسے ظلم سے روکا گیا ہے، خواہ یہ دوسری شادی یتیم بچوں کی سرپرستی کے نیک ارادے سے کیوں نہ کی جائے۔
وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِی الْیَتَامَی فَانْکِحُوا مَا طَابَ لَکُمْ مِنَ النِّسَائِ مَثْنَی وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَۃً أَوْ مَا مَلَکَتْ أَیْمَانُکُمْ ذَلِکَ أَدْنَی أَلَّا تَعُولُوا (النسائ: 3)
’’اور اگر تم کو اس بات کا خوف ہو کہ یتیموں کے بارے میں انصاف نہ کرسکو گے تو جو عورتیں تم کو پسند ہوں دو دو یا تین تین یا چار چار ان سے نکاح کرلو۔ اور اگر اس بات کا اندیشہ ہو کہ (سب عورتوں سے) یکساں سلوک نہ کرسکو گے تو ایک عورت (کافی ہے) یا لونڈی جس کے تم مالک ہو۔ اس سے تم بے انصافی سے بچ جاؤ گے۔‘‘
تیسری صورت
بیوی پر ظلم کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ کوئی شخص ایک سے زیادہ شادیاں کرے، اور پھر کسی ایک کے ساتھ بے توجہی برتے، قرآن مجید میں اس سے روکا گیا ہے، اور حقوق کی ادائیگی اور عدل کے تقاضے پورے کرنے کی تعلیم دی گئی ہے۔
وَلَنْ تَسْتَطِیعُوا أَنْ تَعْدِلُوا بَیْنَ النِّسَائِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ فَلَا تَمِیلُوا کُلَّ الْمَیْلِ فَتَذَرُوہَا کَالْمُعَلَّقَۃِ وَإِنْ تُصْلِحُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ اللَّہَ کَانَ غَفُورًا رَحِیمًا (النسائ:129)
’’اور تم خواہ کتنا ہی چاہو عورتوں میں ہرگز پوری برابری نہیں کرسکو گے تو ایسا بھی نہ کرنا کہ ایک ہی کی طرف ڈھل جاؤ اور دوسری کو (ایسی حالت میں) چھوڑ دو کہ گویا لٹکادی گئی ہے اور اگر آپس میں موافقت کرلو اور پرہیزگاری کرو تو خدا بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘
چوتھی صورت
ظلم کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ شوہر نے بیوی کو جو کچھ دیا ہے، علیحدگی کی صورت میں اسے واپس لینے کی کوشش کرے۔
قرآن ایک طرف تو اس پر ابھارتا ہے، کہ شوہر بیوی پر خوب خرچ کرے، اور بیوی کے معاملے میں بخل سے کام نہ لے، قنطار کا لفظ صاف صاف یہ بتارہا ہے۔ ساتھ ہی اس بات سے سختی سے روکتا ہے کہ علیحدگی کی صورت میں پہلے سے دیے ہوئے مال میں سے کچھ بھی واپس لے۔
وَإِنْ أَرَدْتُمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَکَانَ زَوْجٍ وَآتَیْتُمْ إِحْدَاہُنَّ قِنْطَارًا فَلَا تَأْخُذُوا مِنْہُ شَیْئًا أَتَأْخُذُونَہُ بُہْتَانًا وَإِثْمًا مُبِینًا۔ وَکَیْفَ تَأْخُذُونَہُ وَقَدْ أَفْضَی بَعْضُکُمْ إِلَی بَعْضٍ وَأَخَذْنَ مِنْکُمْ مِیثَاقًا غَلِیظًا (النسائ: 20، 21)
’’اور اگر تم ایک عورت کو چھوڑ کر دوسری عورت کرنی چاہو اور پہلی عورت کو بہت سا مال دے چکے ہو تو اس میں سے کچھ مت لینا۔ بھلا تم ناجائز طور پر اور صریح ظلم سے اپنا مال اس سے واپس لے لوگے؟ اور تم دیا ہوا مال کیونکر واپس لے سکتے ہو جب کہ تم ایک دوسرے کے ساتھ صحبت کرچکے ہو۔ اور وہ تم سے عہد واثق بھی لے چکی ہے۔‘‘
واضح رہے کہ یہ ہدایت اس مال کے سلسلے میں ہے جو شوہر نے بیوی کو دیا ہے۔ اب اس کے بعد اس کی گنجائش کہاں رہ جاتی ہے کہ شوہر بیوی کا اپنا مال ہتھیانے کی کوشش کرے۔
پانچویں صورت
ظلم کی مذکورہ بالا صورت کی بدترین نوعیت یہ ہے کہ شوہر بیوی کو ناپسند کرتا ہو، لیکن شائستہ طریقے سے چھوڑنے کے بجاے اسے تنگ کرے، اور تنگ کرنے کے پیچھے مقصد یہ ہو کہ بیوی اپنے تمام مالی حقوق سے دست بردار ہوجائے، جو کچھ شوہر نے اس پر خرچ کیا ہے وہ سب واپس کر دے، اور اس طرح بے سروسامانی کے عالم میں شوہر سے علیحدگی لے لے۔ قرآن مجید نے اس سے بھی سختی سے روکا ہے۔
وَلَا تَعْضُلُوہُنَّ لِتَذْہَبُوا بِبَعْضِ مَا آتَیْتُمُوہُنَّ (النسائ:19)
’’اور انہیں اس نیت سے تنگ نہ کرو کہ جو کچھ تم نے ان کو دیا ہے اس میں سے کچھ ہتھیالو۔‘‘
چھٹی صورت
ظلم کی ایک صورت یہ ہے کہ شوہر بیوی کو نہ تو طلاق دے، اور نہ ہی اس سے تعلق رکھے، بلکہ اسے بے تعلق بیوی بناکر رکھ چھوڑے۔ اس کی ایک صورت یہ ہوتی ہے کہ وہ قسم کھالے کہ اپنی بیوی کے پاس نہیں جائے گا۔ اور اس کی دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ اپنی بیوی کو اپنی ماں جیسا قرار دے دے۔ اور اس طرح یہ ظاہر کرے کہ وہ اب بیوی سے دور رہنے کے لیے پابند ہوگیا ہے۔ پہلی صورت کو ایلاء اور دوسری کو ظہار کہتے ہیں۔ جاہلیت کے دور میں یہ دونوں رواج پائے جاتے تھے۔ قرآن مجید نے ایسی تمام صورتوں پر پابندی لگائی۔ کسی عورت کو قانونی طور پر بیوی بنائے رکھنا مگر اس کے ساتھ ازدواجی تعلق کو اپنے اوپر حرام کرلینا اس کے ساتھ کھلی ہوئی زیادتی ہے، قرآن مجید نے ایسے ہر رواج کو ختم کرکے عورت کے تحفظ کی ایک اور راہ دکھائی ہے۔
ساتویں صورت
یہ ظلم کی بہت عام صورت ہے کہ شوہر شوق میں، یا غصے میں، اپنی بدمزاجی کی وجہ سے، یا مردانہ برتری کا سکہ جمانے کے لیے اپنی بیوی کو مارے پیٹے۔ کسی انتہائی ضروری صورت میں بیوی کی حکیمانہ تادیب ایک الگ بات ہے، لیکن بات بے بات پر بیوی پر ہاتھ اٹھانا صریح ظلم ہے۔ قرآن مجید ظلم کی اس صورت کا سد باب کرتا ہے، اور صاف کہتا ہے کہ کسی بدتمیزی کے بغیر بیوی پر ہاتھ اٹھانا تمہارے لیے کسی طرح جائز نہیں ہے۔
فَإِنْ أَطَعْنَکُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَیْہِنَّ سَبِیلًا(النسائ: 34)
’’اور اگر وہ تمہاری بات مان کر اپنی روش درست کرلیں تو پھر ان کو ایذا دینے کا کوئی بہانہ مت ڈھونڈو۔‘‘
آٹھویں صورت
قرآن مجید ظلم کی ایک اور رائج صورت پر پابندی لگاتا ہے، اور وہ یہ کہ شوہر بیوی کے مال پر دست درازی کرے، اور اسے بیوی کی مرضی کے علی الرغم استعمال کرے۔
ایک طرف قرآن مجیدمیں عورتوں کے مالی استحکام کے لیے ایک انتظام یہ کیا گیا ہے کہ نکاح کے عوض شوہر بیوی کو مہر دے۔ یہ مہر عورت کے اندر مالی استحکام کا احساس پیدا کرتا ہے۔اس کے ساتھ ہی قرآن یہ تلقین بھی کرتا ہے کہ بیوی کی قلبی رضامندی کے بغیر شوہر اس میں سے کچھ بھی نہیں لے۔
وَآتُوا النِّسَائَ صَدُقَاتِہِنَّ نِحْلَۃً فَإِنْ طِبْنَ لَکُمْ عَنْ شَیْئٍ مِنْہُ نَفْسًا فَکُلُوہُ ہَنِیئًا مَرِیئًا (النسائ: 4)
’’اور عورتوں کا مہر خوش دلی سے (فرض جانتے ہوئے) ادا کرو۔ ہاں اگر وہ اپنی خوشی سے اس میں سے کچھ تم کو چھوڑ دیں تو اسے ذوق شوق سے کھالو۔‘‘
یہ اصولی بات ہے کہ کسی کا مال اس کی دلی رضامندی کے بنا نہیں لینا ہے۔ لیکن بیوی کے مال کے سلسلے میں اس کی خصوصی ہدایت دینا معنی خیز ہے، اور خواتین کے حقوق کے تحفظ کے سلسلے میں قرآن مجید کے خاص رخ کو واضح کرتا ہے۔
اسلامی شریعت کی رو سے بیوی کتنی ہی خوش حال ہو اور شوہر کیسی ہی تنگی میں مبتلا ہو، مگر شوہر کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کی انجام دہی کے لیے بیوی کے مال میں سے کچھ بھی لے۔ یہاں تک کہ شوہر کی تنگ حالی اور بیوی کی مال داری کے باوجود بیوی کا خرچ اٹھانے کی ذمہ داری شوہر پر رہتی ہے۔ غرض مرد کی زوجیت میں آجانے کے باوجود بیوی کا سارا مال محفوظ رہتا ہے، اور مکمل طور پر بیوی کی ملکیت اور تصرف میں رہتا ہے۔
مطلقہ عورت کے مال کی حفاظت
قرآن مجید کی ہر ہدایت اہم ہوتی ہے، اور جن ہدایات کا بار بار ذکر ہو، وہ بہت زیادہ اہم ہوتی ہیں، ان کی اہمیت کا ہر طرح سے لحاظ ہونا چاہیے۔
قرآن مجید میں مہر دینے کا ذکر مختلف حوالوں سے متعدد مقامات پر کیا گیا ہے، جیسے:
فَآتُوہُنَّ أُجُورَہُنَّ فَرِیضَۃً (النسائ:24)
’’ان کو مہر دو، فریضہ کی حیثیت سے‘‘
وَآتُوہُنَّ أُجُورَہُنَّ بِالْمَعْرُوفِ(النسائ:25)
’’اور دستور کے مطابق انہیں ان کے مہر دو‘‘
إِذَا آتَیْتُمُوہُنَّ أُجُورَہُنَّ(المائدۃ:5)
’’جب تم انہیں ان کے مہر دے دو‘‘
وَلَا جُنَاحَ عَلَیْکُمْ أَنْ تَنْکِحُوہُنَّ إِذَا آتَیْتُمُوہُنَّ أُجُورَہُنَّ(الممتحنۃ:10)
’’اور تم پر کوئی گناہ نہیں ہے کہ تم ان سے نکاح کرو جب تم انہیں ان کے مہر دے دو‘‘
وَآتُوا النِّسَائَ صَدُقَاتِہِنَّ نِحْلَۃً(النسائ:4)
’’اور تم عورتوں کا مہرانہیں خوش دلی سے ادا کرو‘‘
مہر کی ادائیگی کا تذکرہ قرآن مجید میں بار بار اس لیے ہوا ہے کہ عورت کے اس اہم حق کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔ اس اہتمام کا تقاضا ہے کہ مہر کی مقدار قابل لحاظ ہو اور اس کی ادائیگی پوری ذمہ داری کے ساتھ ہو۔ ایسا معاشرہ اللہ کے نزدیک پسندیدہ نہیں ہوسکتا ہے، جہاں مہر مضحکہ خیز حد تک کم رکھنے کا رواج ہو یا جہاں مہر کو معاف کرنے کرانے کا رواج ہو۔
قرآن مجید مہر کے تحفظ پر زور دیتا ہے، اس کی ایک حکمت یہ معلوم ہوتی ہے کہ مہر عورت کے معاشی استحکام کا ذریعہ ہے، جو طلاق کی صورت میں متوقع نقصانات سے تحفظ کا ذریعہ بھی بن سکتی ہے۔
اسی طرح قرآن مجید میں تین بار تاکید کے ساتھ یہ بات کہی گئی ہے کہ طلاق کے وقت شوہر بیوی سے اپنے دیے ہوئے مال کو واپس نہ لے:
’’اور یہ جائز نہیں کہ جو تم ان کو دے چکے ہو اس میں سے کچھ واپس لے لو‘‘ (البقرۃ: 229)
’’اور اگر تم ایک عورت کو چھوڑ کر دوسری عورت کرنی چاہو۔ اور پہلی عورت کو بہت سال مال دے چکے ہو تو اس میں سے کچھ مت لینا۔ بھلا تم ناجائز طور پر اور صریح ظلم سے اپنا مال اس سے واپس لے لوگے؟ اور تم دیا ہوا مال کیونکر واپس لے سکتے ہو جب کہ تم ایک دوسرے کے ساتھ صحبت کرچکے ہو۔ اور وہ تم سے عہد واثق بھی لے چکی ہے‘‘(النساء: 20، 21)
’’اور (دیکھنا) اس نیت سے کہ جو کچھ تم نے ان کو دیا ہے اس میں سے کچھ لے لو‘‘ (النساء:19)
واضح رہے کہ شوہر کو اس کے اپنے دیے ہوئے مال کو مطلقہ بیوی سے واپس لینے سے روکا گیا ہے، کیوں کہ دینے کے بعد وہ مال بیوی کا ہوجاتا ہے۔
رشتے داروں کے ظلم سے عورت کی حفاظت
رشتے داروں کو عورت کے مصالح کا محافظ ہونا چاہیے، لیکن واقعہ یہ ہے کہ خواتین رشتے داروں کے ظلم کا بہت زیادہ شکار ہوتی ہیں۔ رشتے داروں کی طرف سے ظلم کی ایک صورت یہ ہے کہ عورت کسی مرد سے بھلے طریقے سے نکاح کرنے کے لیے راضی ہو، لیکن اس کے رشتے دار اس کے لیے سہولت پیدا کرنے کے بجاے الٹا اس پر جبر کر کے اسے اس مرد سے شادی نہیں کرنے دیں، اور اسے تنگ کریں۔ قرآن مجید نے ایسے ظلم وجبر سے باز رہنے کی ہدایت کی ہے، اور اس نصیحت پر عمل آوری کو ایمان کا تقاضا قرار دیا ہے۔
وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَائَ فَبَلَغْنَ أَجَلَہُنَّ فَلَا تَعْضُلُوہُنَّ أَنْ یَنْکِحْنَ أَزْوَاجَہُنَّ إِذَا تَرَاضَوْا بَیْنَہُمْ بِالْمَعْرُوفِ ذَلِکَ یُوعَظُ بِہِ مَنْ کَانَ مِنْکُمْ یُؤْمِنُ بِاللَّہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ ذَلِکُمْ أَزْکَی لَکُمْ وَأَطْہَرُ وَاللَّہُ یَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ (البقرۃ:232)
’’اور جب تم عورتوں کو طلاق دے چکو اور ان کی عدت پوری ہوجائے تو ان کو ان کے شوہروں کے ساتھ جب وہ آپس میں جائز طور پر راضی ہوجائیں نکاح کرنے سے مت روکو۔ اس (حکم) سے اس شخص کو نصیحت کی جاتی ہے جو تم میں خدا اور روز آخرت پر یقین رکھتا ہے۔ یہ تمہارے لیے نہایت خوب اور بہت پاکیزگی کی بات ہے اور خدا جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔‘‘
جب ظلم کی اس صورت سے اتنی تاکید سے روکا گیا ہے جسے بہت سے معاشروں میں ظلم ہی نہیں سمجھا جاتا ہے، تو ظلم کی صریح شکلوں کے بارے میں قرآن مجید کا موقف جاننا مشکل بات نہیں ہے۔
بیوہ عورت کا تحفظ
اگر رشتے داروں کے ظلم کی بعض شکلیں اتنی زیادہ عام ہوجائیں کہ وہ رواج بن جائیں، اور لوگ اس میں کوئی قباحت محسوس نہیں کریں، تو بھی ظلم ظلم ہی رہتا ہے، وہ نہ رشتے داروں کے کرنے سے جائز ہوتا ہے اور نہ رواج بننے سے اس کی قباحت دور ہوتی ہے، اس طرح کا ایک ظالمانہ رواج جس کا نشانہ ظالم سماج میں بیوہ عورت بنتی ہے، یہ ہے کہ شوہر کے مرنے کے بعد شوہر کے خاندان والے اسے میت کی میراث سمجھ کر اس کے وارث بن بیٹھتے ہیں، اسے اپنی ملکیت سمجھتے ہیںاور اس کی زندگی کے سارے فیصلے اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں۔درج ذیل آیت اس ظالمانہ رواج پر کاری ضرب لگاتی ہے۔
یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا یَحِلُّ لَکُمْ أَنْ تَرِثُوا النِّسَائَ کَرْہًا(النسائ: 19)
’’مومنو! تم کو جائز نہیں کہ زبردستی عورتوں کے وارث بن جاؤ۔‘‘
یتیم لڑکی کا تحفظ
یتیموں کے حقوق کے تحفظ پر قرآن مجید میں بہت زور دیا گیا ہے۔ یتیم لڑکی ایک طرح سے بے سہارا ہوتی ہے، اور اسے زوجیت کا سہارا دینے کے نام پر اس کے استحصال کا بہت زیادہ امکان ہوتا ہے۔ استحصال کی ایک شکل یہ ہے کہ اس سے شادی تو کرلی جائے مگر اس کے مالی حقوق ادا نہیں کیے جائیں۔ قرآن مجید نے اس طرح کے ہر استحصال سے سختی سے منع کیا ہے۔
وَیَسْتَفْتُونَکَ فِی النِّسَائِ قُلِ اللَّہُ یُفْتِیکُمْ فِیہِنَّ وَمَا یُتْلَی عَلَیْکُمْ فِی الْکِتَابِ فِی یَتَامَی النِّسَائِ اللَّاتِی لَا تُؤْتُونَہُنَّ مَا کُتِبَ لَہُنَّ وَتَرْغَبُونَ أَنْ تَنْکِحُوہُنَّ (النسائ: 127)
’’(اے پیغمبر) لوگ تم سے (یتیم) عورتوں کے بارے میں فتویٰ طلب کرتے ہیں۔ کہہ دو کہ خدا تم کو ان کے (ساتھ نکاح کرنے کے) معاملے میں اجازت دیتا ہے اور جو حکم اس کتاب میں پہلے دیا گیا ہے وہ ان یتیم عورتوں کے بارے میں ہے جن کو تم ان کا حق تو دیتے نہیں اور خواہش رکھتے ہو کہ ان کے ساتھ نکاح کرلو۔‘‘
عورت کی عزت وشرف کی حفاظت
سماج کے ہر فرد کا یہ حق ہے کہ وہ عزت کی زندگی گزارے، اس کا دامن چھینٹوں سے محفوظ رہے، اور کوئی اس پر کیچڑ نہ اچھالے، یہ تحفظ سماج میں مرد کو بھی حاصل ہونا چاہیے اور عورت کو بھی۔ تاہم عام سماجی تناظر میں اس کی ضرورت عورت کو زیادہ ہوتی ہے، قرآن مجید میں عورت کی اس ضرورت کا بہت زیادہ خیال کیا گیا ہے۔ جو لوگ پاک دامن عورتوں پر جھوٹی تہمت لگائیں، ان کے لیے دنیا میں سخت سزا بتائی گئی ہے۔
وَالَّذِینَ یَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ یَأْتُوا بِأَرْبَعَۃِ شُہَدَائَ فَاجْلِدُوہُمْ ثَمَانِینَ جَلْدَۃً وَلَا تَقْبَلُوا لَہُمْ شَہَادَۃً أَبَدًا وَأُولَئِکَ ہُمُ الْفَاسِقُونَ (النور: 4)
’’اور جو لوگ پرہیزگار عورتوں کو بدکاری کا عیب لگائیں اور اس پر چار گواہ نہ لائیں تو ان کو اسی درے مارو اور کبھی ان کی شہادت قبول نہ کرو۔ اور یہی بدکردار ہیں۔‘‘
اور ان کے لیے آخرت میں بھی شدید سزا کا ذکر ہے۔
إِنَّ الَّذِینَ یَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ الْغَافِلَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ لُعِنُوا فِی الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ وَلَہُمْ عَذَابٌ عَظِیمٌ۔ یَوْمَ تَشْہَدُ عَلَیْہِمْ أَلْسِنَتُہُمْ وَأَیْدِیہِمْ وَأَرْجُلُہُمْ بِمَا کَانُوا یَعْمَلُونَ۔ یَوْمَئِذٍ یُوَفِّیہِمُ اللَّہُ دِینَہُمُ الْحَقَّ وَیَعْلَمُونَ أَنَّ اللَّہَ ہُوَ الْحَقُّ الْمُبِینُ (النور: 23 – 25)
’’جو لوگ پرہیزگار، بے خبر اور ایمان دار عورتوں پر بدکاری کی تہمت لگاتے ہیں ان پر دنیا وآخرت میں لعنت ہے۔ اور ان کو سخت عذاب ہوگا۔ جس دن ان کی زبانیں ہاتھ اور پاؤں سب ان کے کاموں کی گواہی دیں گے۔اس دن خدا ان کو (ان کے اعمال کا) پورا پورا (اور) ٹھیک بدلہ دے گا اور ان کو معلوم ہوجائے گا کہ خدا برحق (اور حق کو) ظاہر کرنے والا ہے۔‘‘
قابل ذکر بات یہ ہے کہ ان دونوں مقامات پر صرف خواتین کے تعلق سے بات کی گئی ہے، اور ان کے دامن کی حفاظت پر زور دیا گیا ہے۔
اس میں شبہ نہیں ہے کہ دنیا کی یہ سزا اور آخرت کی یہ وعید اس صورت میں بھی ہے جب کوئی کسی مرد پر جھوٹی تہمت لگائے، اور کسی شریف مرد کی عزت کو داغ دار کرنے کی کوشش کرے۔
لیکن سزا اور وعید دونوں کے سلسلے میں صرف عورتوں کے تذکرے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ قرآن مجید میں عورتوں کے تحفظ کو خاص طور سے اہمیت دی گئی ہے، اور یہ پیغام بھی واضح طور سے ملتا ہے کہ عورتوں کے حوالے سے اس مسئلے کی سنگینی کو سماج میں اچھی طرح محسوس کرنا چاہیے، اور عورتوں کے دامن کی حفاظت کو ہر فرد کے رویے میں غیر معمولی اہمیت ملنی چاہیے۔ اس سلسلے میں ادنی سی کوتاہی یا بے احتیاطی سے ڈرنا چاہیے۔
عورت کی شرپسندوں سے حفاظت
مذکورہ ذیل آیتیں خواتین کے تحفظ کے سلسلے میں بہت اہم ہیں:
یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ قُلْ لِأَزْوَاجِکَ وَبَنَاتِکَ وَنِسَائِ الْمُؤْمِنِینَ یُدْنِینَ عَلَیْہِنَّ مِنْ جَلَابِیبِہِنَّ ذَلِکَ أَدْنَی أَنْ یُعْرَفْنَ فَلَا یُؤْذَیْنَ وَکَانَ اللَّہُ غَفُورًا رَحِیمًا۔ لَئِنْ لَمْ یَنْتَہِ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِینَ فِی قُلُوبِہِمْ مَرَضٌ وَالْمُرْجِفُونَ فِی الْمَدِینَۃِ لَنُغْرِیَنَّکَ بِہِمْ ثُمَّ لَا یُجَاوِرُونَکَ فِیہَا إِلَّا قَلِیلًا۔ مَلْعُونِینَ أَیْنَمَا ثُقِفُوا أُخِذُوا وَقُتِّلُوا تَقْتِیلًا(الأحزاب: 59 -61)
’’اے پیغمبر اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے اوپر اپنی بڑی چادروں کے گھونگھٹ لٹکالیاکریں۔ یہ اس بات کے قرین ہے کہ ان کا امتیاز ہوجائے، پس ان کو کوئی ایذا نہ پہنچائی جائے۔ اور اللہ بخشنے والا اور مہربان ہے۔اگر منافق اور وہ لوگ جن کے دلوں میں مرض ہے اور جو مدینے میں بدامنی پھیلانے والے ہیں (اپنے کردار) سے باز نہ آئیں گے تو ہم تم کو ان پر اکسا دیں گے پھر وہاں تمہارے پڑوس میں بہت کم رہ سکیں گے۔ان پر پھٹکار ہوگی۔ جہاں پائے جائیں گے، پکڑے جائیں گے اوربری طرح سے قتل کیے جائیں گے۔‘‘
یہ آیتیں پڑھتے ہوئے صاف معلوم ہوتا ہے کہ عورت کو گھر سے باہر نکلنے کا حق حاصل ہے، ان کے تحفظ کے لیے انہیں گھر میں بند نہیں کیا جائے گا، البتہ گھر سے باہر ان کے تحفظ کے مناسب انتظامات کیے جائیں گے۔ یہ انتظامات دو طرح کے ہوں گے، ایک یہ کہ عورتیں ایسا حلیہ اور لباس اختیار کریں جو ان کے تحفظ میں مددگار ہو، دوسرے یہ کہ شرپسندوں اور ہوس پرستوں کے دل میں سماج اور سماجی اداروں کی جانب سے شدید ردعمل کا خوف رہے۔
(فلا یؤذین) ’’انہیں کوئی ایذا نہ پہونچائی جائے۔‘‘ یہ خواتین کے لیے ایک محفوظ سماج کی ضمانت ہے، یہ شریعت کا مقصود ہے، اس مقصود کی تکمیل کے لیے جتنے زیادہ انتظامات ہوسکتے ہوں، انہیں مہیا کرنا لازم ہے۔ البتہ گھر میں بند کرنے کو تحفظ کا معقول انتظام نہیں سمجھنا چاہیے۔ کیوں کہ عورت کو گھر سے باہر نکلنے کے حق سے یکسر محروم کردینا ایک دوسرا ظلم ہے۔
خواتین کے تحفظ کے سلسلے میں (فلا یؤذین) بہت اہم اصول ہے، اس اصول کی جہاں جہاں ضرورت پیش آئے، اسے برتنا لازم ہوگا، کیوں کہ یہ قرآنی اصول ہے۔
زیادہ غیر محفوظ عورت کی خصوصی حفاظت
اگر کبھی کوئی عورت ناجائز تعلقات میں ملوث پائی جائے، تو وہ سماج میں بہت زیادہ غیر محفوظ سی ہوجاتی ہے، ایسی عورت اگر شادی شدہ ہوتی ہے تو اس کا رشتہ عام طور سے ٹوٹ جاتا ہے، اور اگر غیر شادی شدہ ہوتی ہے تو اس کا رشتہ ہونے میں دشواری ہوتی ہے۔ دل کے بیمار لوگ ایسی عورت کو للچائی نظروں سے دیکھنے لگتے ہیں، اور اس کا اندیشہ ہوتا ہے کہ ایک بار غلطی سامنے آجانے کے بعد وہ برائی کے دلدل میں پھنس جائے، اور گندے لوگوں کی ہوس کا نشانہ بنتی رہے۔ ضروری ہوتا ہے کہ ایسی عورت کو خصوصی تحفظ فراہم کیا جائے۔
قرآن مجید ایسی عورت کے سلسلے میں اس کے رشتے داروں کو ہدایت دیتا ہے کہ اسے گھر میں روک کر رکھا جائے، اور اس وقت تک روک کر رکھا جائے جب تک کہ اس کے لیے اچھا راستہ نہیں نکل آئے، یعنی اس کی کسی جگہ شادی ہوجائے اور وہ شوہر کی حفاظت میں آجائے۔ اس سلسلے میں درج ذیل دونوں آیتوں پر غور کریں:
وَاللَّاتِی یَأْتِینَ الْفَاحِشَۃَ مِنْ نِسَائِکُمْ فَاسْتَشْہِدُوا عَلَیْہِنَّ أَرْبَعَۃً مِنْکُمْ فَإِنْ شَہِدُوا فَأَمْسِکُوہُنَّ فِی الْبُیُوتِ حَتَّی یَتَوَفَّاہُنَّ الْمَوْتُ أَوْ یَجْعَلَ اللَّہُ لَہُنَّ سَبِیلًا۔ وَاللَّذَانِ یَأْتِیَانِہَا مِنْکُمْ فَآذُوہُمَا فَإِنْ تَابَا وَأَصْلَحَا فَأَعْرِضُوا عَنْہُمَا إِنَّ اللَّہَ کَانَ تَوَّابًا رَحِیمًا (النسائ: 15، 16)
’’مسلمانو! تمہاری عورتوں میں جو بدکاری کا ارتکاب کر بیٹھیں ان پر اپنے لوگوں میں سے چار شخصوں کی شہادت لو۔ اگر وہ (ان کی بدکاری کی) گواہی دیں تو ان عورتوں کو گھروں میں رکھو یہاں تک کہ وہ وفات پاجائیں یا خدا ان کے لیے کوئی سبیل پیدا کردے.اور جودونوں تم میں سے بدکاری کریں تو ان کو ایذا دو۔ پھر اگر وہ توبہ کرلیں اور نیکوکار ہوجائیں تو ان کا پیچھا چھوڑ دو۔ بیشک خدا توبہ قبول کرنے والا (اور) مہربان ہے۔‘‘
ان دونوں آیتوں کی تفسیر میں اختلاف رہا ہے۔ تاہم جس تفسیر پر راقم کو شرح صدر ہے وہ یہ کہ دوسری آیت میں تو سماج کے لوگوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ ناجائز تعلقات میں ملوث مرد اور عورت دونوں کی تادیب اور فہمائش کرتے رہیں، تاکہ ان کو توبہ کی توفیق ملے۔ جب کہ پہلی آیت میں اس گناہ میں ملوث عورت کے سلسلے میں خصوصی ہدایت دی گئی ہے کہ اس کی حفاظت کا پورا انتظام کیا جائے، تاکہ وہ پھر کسی اور کے جال میں نہ پھنسے۔ گھر میں روک رکھنے کا عمل بطور سزا قید کرنے کا عمل نہیں ہے بلکہ ایک حفاظتی تدبیر ہے، جو صرف عورتوں کے لیے خاص ہے۔ اگر یہ قید براے سزا ہوتی تو اس گناہ میں ملوث مرد کے سلسلے میں بھی اس سزا کا یا کسی اور سزا کا تذکرہ ہوتا۔ اس تفصیل سے واضح ہوتا ہے کہ یہ سزا نہیں ہے بلکہ عورت کے لیے مخصوص ایک حکم ہے، اور اسی لیے یہ حکم منسوخ نہیں ہوا ہے، بلکہ سزا کے بعد بھی اس حفاظتی تدبیر کی ضرورت برقرار رہے گی۔ اور جن علاقوں میں کسی سزا کا انتظام نہیں ہے، وہاں بھی اس حفاظتی تدبیر کی ضرورت رہے گی۔ ایسی عورت کو زندگی بھر یہ تحفظ فراہم کیا جائے گا، ما سوا اس کے کہ اس کی شادی ہوجائے اور وہ شوہر کے محفوظ ہاتھوں میں پہونچ جائے۔
یہیں سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر کسی لڑکی کی عزت کو واضح طور پر خطرہ لاحق ہو تو قرآنی ہدایات کی رو سے اس کی حفاظت کے خصوصی انتظامات کرنا لازم ہے، یہ انتظام اسے گھر میں روک رکھنا بھی ہوسکتا ہے۔
سماج میں اچھی پہچان کی حفاظت
سماج میں انسانوں کی اچھی اور باعزت پہچان رہے، انہیں عزت کے ساتھ اچھے نام اور اچھے طریقے سے مخاطب کیا جائے یہ ہر انسان کا حق ہے، لیکن بہت سے لوگ محض تفریح طبع کے لیے یا احساس برتری کی تسکین کے لیے اس حق کو غیر اہم سمجھ کر پامال کرتے رہتے ہیں، قرآن مجید نے اس حق کی حفاظت کا اہتمام کیا، اور اس سلسلے میں بہت تفصیلی ہدایات دیں۔
یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا یَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ عَسَی أَنْ یَکُونُوا خَیْرًا مِنْہُمْ وَلَا نِسَائٌ مِنْ نِسَائٍ عَسَی أَنْ یَکُنَّ خَیْرًا مِنْہُنَّ وَلَا تَلْمِزُوا أَنْفُسَکُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِیمَانِ وَمَنْ لَمْ یَتُبْ فَأُولَئِکَ ہُمُ الظَّالِمُونَ (الحجرات: 11)
’’مومنو! کوئی قوم کسی قوم سے تمسخر نہ کرے ممکن ہے کہ وہ لوگ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں سے (تمسخر کریں) ممکن ہے کہ وہ ان سے اچھی ہوں۔ اور نہ اپنے لوگوںپر طنز کرو اور نہ ایک دوسرے پر برے القاب چسپاں کرو۔ ایمان لانے کے بعد فسق کا تو نام بھی برا ہے۔ اور جو توبہ نہ کریں وہ ظالم ہیں۔‘‘
قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس سلسلے میں عام لوگوں کو عام لوگوں کے سلسلے میں ہدایات دینے کے ساتھ ساتھ عورتوں کو عورتوں کے سلسلے میں خاص طور سے مخاطب کیا۔ اس طرح عورتوں کے اس حق کی حفاظت کا خصوصی انتظام کیا۔ یہاں عورتوں کا الگ سے تذکرہ کیوں کیا گیا اس کے سلسلے میں مختلف باتیں ملتی ہیں، تاہم یہ تو واضح ہے کہ اس خصوصی تاکید سے عورتوں کو زیادہ تحفظ مل جاتا ہے۔
تحفظ کے لیے قانون سازی کی ضرورت
یہ سمجھنا درست نہیں ہے کہ خواتین کے تحفظ سے متعلق قرآن مجید کی تعلیمات صرف اخلاقی ہدایات ہیں، اور یہ آیتیں صرف ان لوگوں کے رویے پر اثر انداز ہوسکتی ہیں، جو قرآن پر ایمان رکھتے ہیں، اور ان ہدایات کی قوت نفاذ صرف افراد کے عقیدہ توحید اور خوف آخرت پر منحصر ہے۔واقف کار جانتے ہیں کہ مذکورہ قرآنی تعلیمات مظالم کو روکنے والے سماجی اور قانونی پشتے بھی استوار کرتی ہیں۔ (یہ حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے کہ قانون سے جس قدر مظالم وجرائم کی روک تھام ہوسکتی ہے اس سے کہیں زیادہ روک تھام ایمان کی قوت سے ہوتی ہے۔ قانون کی چار دیواری میں چور دروازوں کی کمی نہیں ہوتی ہے، جب کہ ایمان کی روشنی ہو تو ایک بھی چور دروازہ نظر نہیں آتا ہے)
اس سلسلے میںایک بات یہ ہے کہ یہ ہدایات متعلق افراد کے علاوہ سماج کو بھی مخاطب کرتی ہیں، اور ان امور کے سلسلے میں سماج کا بیدار اور فعال رہنا ضروری قرار دیتی ہیں۔ جب سماج میں ان امور کے سلسلے میں واقعی بیداری اور حساسیت پائی جائے گی، تو بلاشبہ کوئی فرد سماج کے خوف اور دباؤ کی وجہ سے ان تعلیمات کی خلاف ورزی کا خیال دل میں نہیں لائے گا۔
دوسری بات یہ ہے کہ یہ تعلیمات قانون سازی کے لیے وسیع میدان فراہم کرتی ہیں، اور خواتین کے تحفظ کو یقینی بنانے کی خاطر تعزیری سزاؤں کو لازم قرار دیتی ہیں۔ذیل میں درج کچھ قرآنی نصوص پر غور کریں:
’’فلا یؤذین‘‘ عورتوں کو اذیت نہ پہونچائی جائے (الاحزاب۵۹)
’’ولا یحل لکم أن تأخذوا مما آتیتموھن شیئا‘‘ تمہارے لیے حلال نہیں ہے کہ بیویوں کو جو کچھ دیا ہے، اس میں سے کچھ بھی لو(البقرۃ ۲۲۹)
’’ولا تعضلوھن لتذھبوا ببعض ما آتیتموھن‘‘ تم بیویوں کو اس نیت سے پریشان نہ کرو کہ جو تم نے انہیں دیا ہے اس میں سے کچھ ہتھیالو(النساء ۱۹)
’’ولا تمسکوھن ضرارا لتعتدوا‘‘ تم ان پر زیادتی کرنے کے لیے انہیں اپنے پاس روک کر اذیت نہ دو (البقرۃ ۲۳۱)
’’فَلَا تَعْضُلُوہُنَّ أَنْ یَنْکِحْنَ أَزْوَاجَہُنَّ إِذَا تَرَاضَوْا بَیْنَہُمْ بِالْمَعْرُوفِ‘‘ اگر عورتیں اور مرد حسب دستور نکاح کے لیے راضی ہوجائیں، تو عورتوں کو نکاح سے روکنے کے لیے ان پر جبر نہ کرو (البقرۃ ۲۳۲)
’’وَلَا تُضَارُّوہُنَّ لِتُضَیِّقُوا عَلَیْہِنَّ‘‘ اور انہیں ضیق میں ڈالنے کے لیے انہیں ضرر نہ پہنچاؤ (الطلاق ۶)
’’فَإِنْ أَطَعْنَکُمْ فَلَا تَبْغُوا عَلَیْہِنَّ سَبِیلًا‘‘ اگر وہ تمہاری بات مان کر اپنا رویہ درست کرلیں، تو ان پر زیادتی کی کوئی راہ اختیار نہ کرو(النساء ۳۴)
یہ وہ قرآنی تعلیمات ہیں جو ایک فرد کو دوسرے فرد کے ظلم سے بچانے کے لیے دی گئی ہیں، انہیں کسی فرد کے اختیار پر نہیں چھوڑا جاسکتا ہے کہ وہ چاہے تو اخلاقی اور دینی محرک کے تحت ان پر عمل کرے اور چاہے تو نہیں کرے۔ یہ تعلیمات حکومت کی ذمہ داری قرار دیتی ہیں، کہ وہ ایسے ہر ظلم اور زیادتی کو روکنے اور خواتین کو مکمل تحفظ فراہم کرنے کے لیے مناسب تعزیری قوانین بنائے۔
قانون سازی میں معاون فقہی نصوص
خواتین کے ساتھ گھریلو ظلم کے سلسلے میں تعزیری سزاؤں کا ذکر فقہ کی کتابوں میں تفصیل سے نہیں ملتا ہے، تاہم یہ تصور بالکل معدوم بھی نہیں ہے، شوہر کی زیادتی کے حوالے سے کہیں کہیں کچھ رہنمائی ضرور ملتی ہے۔ ذیل میں بطور مثال مختلف مسالک کے کچھ فقہی نصوص ذکر کیے جاتے ہیں:
قال فی البحر: وصرحوا بأنہ إذا ضربہا بغیر حق وجب علیہ التعزیر انتھی۔ أي وإن لم یکن فاحشا۔ الدر المختار وحاشیۃ ابن عابدین (رد المحتار) (4/ 79)
ابن عابدین لکھتے ہیں:’’ صاحب البحر نے کہا: ’’ائمہ احناف نے صراحت کی ہے کہ اگر شوہر نے بیوی کو ناحق مارا تو اس پر تعزیر واجب ہوجائے گی۔‘‘ اس کے بعد ابن عابدین وضاحتی جملہ لکھتے ہیں: ’’خواہ وہ سخت مار نہ بھی ہو۔‘‘(فقہ حنفی)
(ولہا) أی للزوجۃ (التطلیق) علی الزوج (بالضرر) وہو ما لا یجوز شرعا کہجرہا بلا موجب شرعی وضربہا کذلک وسبہا وسب أبیہا، نحو یا بنت الکلب یا بنت الکافر یا بنت الملعون کما یقع کثیرا من رعاع الناس ویؤدب علی ذلک زیادۃ علی التطلیق کما ہو ظاہر الشرح الکبیر للشیخ الدردیر وحاشیۃ الدسوقی (2/ 345)
’’ضرر کے سبب سے بیوی کو شوہر سے طلاق لینے کا حق حاصل ہوجاتا ہے، ضرر سے مراد وہ سختی ہے جو شرعاً جائز نہیں ہے۔ جیسے بلا شرعی سبب کے اس سے دوری اختیار کرنا، اسے مارنا، اور اسے اور اس کے باپ کو گالی دینا، جیسے اسے کتے کی اولاد، کافر کی اولاد، ملعون کی اولاد کہنا جیسا کہ گنوار لوگوں میں چلن ہے۔ ایسے شوہر پر طلاق واقع کرنے کے علاوہ مزید اسے تعزیر بھی کی جائے گی، یہی قوی راے ہے۔‘‘ (فقہ مالکی)
(ص) وبتعدیہ زجرہ الحاکم (ش) یعنی أن الزوج إذا کان یضارر زوجتہ فلہا أن ترفع أمرہ إلی الحاکم فإذا ثبت عندہ أنہ یضاررہا فإنہ یزجرہ عن ذلک ویکفہ عنہا ویتولی الحاکم زجرہ باجتہادہ کما کان یتولی الزوج زجرہا حین کان الضرر منہا کما قالہ ابن عبد السلام وبہذا یعلم أنہ یعظہ فإن لم ینتہ ضربہ کما مر فی الزوجۃ. شرح مختصر خلیل للخرشی (4/ 7)
’’شوہر کی طرف سے زیادتی کی صورت میں حاکم اس کی تادیب کرے گا، یعنی اگر شوہر بیوی کو تنگ کررہا ہو تو بیوی حاکم کے پاس اس کی شکایت کرسکتی ہے، حاکم کے نزدیک اس کا اسے تنگ کرنا ثابت ہوجائے، تو وہ تادیبی کارروائی کے ذریعہ شوہر کو اس حرکت سے روکے گا اور بیوی کو تحفظ دلائے گا، شوہر کی تادیب کے سلسلے میں حاکم اپنی صواب دید سے کام لے گا، جس طرح بیوی کی طرف سے غلط روی کی صورت میں شوہر اپنی صواب دید سے فہمائش کرتا۔ ابن عبدالسلام کی یہی راے ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ حاکم شوہر کو پہلے سمجھائے گا، اور اگر نہ مانے تو اس کی پٹائی کرے گا جیسا کہ بیوی کے سلسلے میں گزرا‘‘ (فقہ مالکی)
قال الشافعی: وعلی السلطان إن لم یرضیا حکمین أن یأخذ لکل واحد منہما من صاحبہ ما یلزم ویؤدب أیہما رأی أدبہ إن امتنع بقدر ما یجب علیہ. الحاوی الکبیر (9/ 607)
’’امام شافعی نے کہا: اگر شوہر اور بیوی ثالثی کرنے والے دونوں حکموں پر راضی نہ ہوں، تو سلطان کی ذمہ داری ہے کہ وہ دونوں میں سے جس کا جتنا حق بنتا ہو وہ اس سے لے کر دلائے، اور اپنی صواب دید سے اس کی مناسب حال تادیب کرے جو ان دونوں میں سے اپنے اوپر واجب حق ادا نہ کرے‘‘(فقہ شافعی)
غرض تمام معتبر فقہی مذاہب کی اس طرح کی متفرق قانونی نوعیت کی ہدایات کو جمع کر کے ان کی مدد سے خواتین کے تحفظ کے لیے ایک جامع اورتفصیلی ضابطہ تعزیرات تشکیل دینا چاہیے، جس میں خواتین پر ظلم وزیادتی کے ان پہلووں کا احاطہ کیا جائے جن کا ذکر خاص طور سے قرآن مجید میں کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی ظلم وزیادتی کی دیگر شکلوں کو بھی اس میں شامل کیا جائے۔ یہ دورِ حاضر میں اسلامی شریعت کی بڑی خدمت ہوگی، اور اس پروپیگنڈے کا جواب بھی ہوگا کہ خواتین کے تحفظ کا انتظام دورِ جدید کی دریافت ہے۔
کیا طلاق ظلم ہے؟
اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ اسلامی معاشرے میں قرآنی ہدایات کے مطابق جو طلاق دی جائے وہ ظلم نہیں ہے۔
طلاق دراصل ایک اضافی چیز ہے، جس معاشرے میں عورت کی اپنی کوئی شخصیت نہ ہو، اور وہ مکمل طور سے مرد پر منحصر ہو، اس کی اپنی نہ کوئی ملکیت ہو، اور نہ کوئی معاشی حیثیت ہو۔ اور وہ شوہر کے بغیر زندگی گزارنے کا تصور ہی نہیں رکھتی ہو، شوہر کو وہ شریک حیات کے بجاے زندگی کا ستون سمجھتی ہو، جس کے ہٹ جانے سے اس کی زندگی کا برباد ہوجانا یقینی ہو، اس معاشرے میں یقینا ًطلاق اس کے لیے قیامتِ صغری ٰسے کم نہیں ہے۔
اگر معاشرے کی صورت حال یہ ہو کہ عورت اپنے والدین کی وراثت میں سے کوئی حصہ نہ پائے، مہر کی رقم نہایت معمولی ہو، طلاق کی صورت میں عورت کو کچھ نہ ملے، بچپن میں اسے مناسب تعلیم نہ ملے، اور بڑے ہونے پر اسے کسی قسم کی معاشی سرگرمی کی اجازت نہ ہو، ستم بالائے ستم یہ کہ مطلقہ عورت کو گری ہوئی نگاہ سے دیکھا جائے، اور اس کی شادی کو بہت مشکل بنادیا جائے۔ تو ظاہر ہے ایسے تنگ نظر سماج میں معاشی لحاظ سے نہایت کم زور عورت کیسے طلاق کا جھٹکا برداشت کرسکے گی؟ ہندوستان کے موجودہ مسلم معاشرے کی صورت ِحال یہی ہے۔
لیکن حقیقی اسلامی معاشرے میں عورت کی اپنی شخصیت ہوتی ہے، اس کے پاس اثاثے، مالکانہ حقوق اور اس کی اپنی محفوظ معاشی حیثیت ہوتی ہے۔ طلاق کی وجہ سے اس کے سماجی رتبے میں کوئی فرق نہیں پڑتا ہے، اس کا نکاح مشکل نہیں ہوتا ہے۔ ایسی عورت کے لیے طلاق تباہ کن حادثہ نہیں ہوتی ہے۔
قرآن مجید میں بیوی پر ظلم سے باز رکھنے کے لیے شوہر کو بہت سی تعلیمات دی گئیں، خود طلاق سے جڑی ہوئی متعدد زیادیتوں کے سلسلے میں اسے بار بار تنبیہ کی گئی۔ لیکن طلاق دینے کو کہیں زیادتی نہیں قرار دیا گیا۔ عام سماجی تناظر میں یہ بات حیرت انگیز لگتی ہے، لیکن اس میں قرآن کے نقطۂ نظر کو سمجھنے کے لیے بڑا سامان ہے۔
قرآن مجید کی رو سے عورت اپنے مالی استحکام کے لیے زیادہ سے زیادہ مہر رکھنے کا مطالبہ کرسکتی ہے۔ یہ قرآن مجید کی طرف سے اس کے لیے ایک مناسب انتظام ہے۔ مہر کی قابل لحاظ رقم شوہر کو بے سبب طلاق دینے سے بڑی حد تک باز رکھ سکتی ہے، اور طلاق کی صورت میں عورت کے لیے معاشی سہارا بنتی ہے۔
طلاق شدہ عورت کے لیے قرآن مجید کا دوسرا انتظام متاع کا ہے۔ قرآن مجید طلاق دینے والے شوہر کو بہت زیادہ سخی اور فیاض ہونے کی تعلیم دیتا ہے۔ اور اس پر متاع کی ادائیگی کو فرض کرتا ہے۔
وَلِلْمُطَلَّقَاتِ مَتَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ حَقًّا عَلَی الْمُتَّقِینَ (البقرۃ: 241)
’’اور طلاق پانے والی عورتوں کے لیے حسب دستور متاع ہے، یہ پرہیزگاروں پر فرض ہے‘‘
یہ متاع شوہر کی حیثیت کے لحاظ سے اتنا ہونا چاہیے کہ ایک قابل لحاظ عرصے تک عورت کی ضرورتوں کی تکمیل ہوسکے۔ اس سلسلے میں فقہانے کم سے کم متاع کی تحدید کی ہے، جو قرآن مجید کے اہتمام کے شایان شان نہیں لگتی ہے۔ اسے طے کرتے وقت یہ دیکھنا ضروری ہے کہ قرآن مجید میں اس کا کتنے اہتمام اور تاکید کے ساتھ بار بار ذکر ہوا ہے۔ اسلامی حکومت اس کے سلسلے میں طلاق دینے والے شوہر کے حالات اور مطلقہ بیوی کی ضروریات کو سامنے رکھ کر مناسب قانون سازی کرسکتی ہے۔ تاکہ متاع کے ذریعہ سے عورت پر پڑنے والے طلاق کے برے اثرات سے تحفظ دیا جاسکے۔ قرآن مجید میں بیوہ کے لیے ایک سال کا انتظام کرنے کی ہدایت موجود ہے۔ متاعا الی الحول غیر اخراج (البقرۃ:240)اس کی روشنی میں مطلقہ کے لیے بھی قابل لحاظ عرصے کے لیے سامان زندگی کا انتظام تو ہونا چاہیے۔
غرض قرآن مجید طلاق کو ظلم قرار نہیں دیتا ہے، کہ اسے روکنے کے اقدامات کیے جائیں۔ البتہ طلاق کے حوالے سے وہ کسی ظلم کی اجازت نہیں دیتا ہے، اور طلاق سے ہونے والے نقصانات کی تلافی کا انتظام بھی کرتا ہے۔ طلاق کے سلسلے میں قرآن مجید کی تعلیمات طلاق میں سے ظلم کے عنصر کو بالکل نکال دیتی ہیں۔ قرآن مجید بندوں کو یہ احساس دلاتا ہے کہ طلاق کا عمل اللہ کی مکمل نگرانی میں انجام پاتا ہے، اس لیے نیت سے لے کر رویہ تک سب کچھ بالکل درست ہونا چاہیے۔
وَإِنْ عَزَمُوا الطَّلَاقَ فَإِنَّ اللَّہَ سَمِیعٌ عَلِیمٌ (البقرۃ: 227)
’’اور اگر وہ طلاق کا فیصلہ کرتے ہیں تو بلا شبہ اللہ سننے والا اور جاننے والا ہے‘‘ سمیع وعلیم کی نگرانی کے احساس کے ساتھ جو کام کیا جائے اس میں ظلم شامل نہیں ہوسکتاہے۔
حقیقت یہ ہے کہ تحفظ کے نام پر طلاق پر پابندی لگانے سے بہت سے خاندانوں میں بدترین قسم کی گھٹن ضرور پیدا ہوجائے گی، لیکن ایک صحت مند اور آزادی سے مالامال معاشرہ ہرگز وجود میں نہیں آسکے گا۔
طلاق کو ظلم قرار دینے والے مرض کی صحیح تشخیص نہیں کرتے ہیں، اسی لیے صحیح علاج بھی تجویز نہیں کرتے ہیں۔ کیوں کہ طلاق ظلم نہیں ہے، ظلم تو معاشرے کی وہ حالت ہے جس میں عورت کو صحیح مقام نہیں ملتا، جس کی وجہ سے طلاق ظلم کی صورت اختیار کرلیتی ہے۔ قرآن مجید معاشرے کے ظالمانہ رواجوں، اور بیمار ذہنیتوں پر بار بار تیشہ چلاتا ہے۔
قرآن مجید میں شوہر اور بیوی کے رشتے کی حفاظت کی بہت سی تدابیر بتائی گئی ہیں، اور جب تک وہ رشتہ باقی رہے اسے بہترین انداز سے برتنے کی بھی ہدایات دی گئی ہیں، تاہم اگر دونوں میں سے کوئی ایک اس رشتے سے باہر آنا چاہے تو اسے اس رشتے کے اندر رہنے کے لیے مجبور نہیں کرتا ہے، خواہ وہ مرد ہو یا عورت ہو۔ کیوں کہ جبر عورت کے حق میں بھی ظلم ہے اور مرد کے حق میں بھی ظلم ہے۔ آزادی وہ بے بہا قدر ہے جس کی قرآن مجید میں حفاظت کی گئی ہے۔ اس انمول قدر سے عورت اور مرد میں سے کسی کو محروم نہیں کیا جاسکتا ہے۔
قرآن مجید مرد اور عورت دونوں کی آزادی کو برقرار رکھتے ہوئے، عورت کی معاشی پوزیشن کو مستحکم کرتا ہے، اور معاشرے کی ایسی تشکیل کرتا ہے کہ طلاق شدہ عورت عزت اور آسانی کے ساتھ زندگی گزارنے کے لیے دوبارہ مناسب ساتھی کا انتخاب کرسکے۔وَإِنْ یَتَفَرَّقَا یُغْنِ اللَّہُ کُلًّا مِنْ سَعَتِہِ وَکَانَ اللَّہُ وَاسِعًا حَکِیمًا(النسائ: 130)
’’اور اگر میاں بیوی (میں موافقت نہ ہوسکے اور) ایک دوسرے سے جدا ہوجائیں تو خدا ہر ایک کو اپنی دولت سے غنی کردے گا اور خدا بڑی کشائش والا اور حکمت والا ہے‘‘
اس آیت کی روشنی میں اہل ایمان پر فرض ہے کہ وہ ایسا معاشرہ تشکیل دیں جہاں اس آیت کی عملی تفسیر دیکھی جاسکے۔ جہاں طلاق کے بعد بھی از سر نو ایک بہتر زندگی کی امنگ باقی رہے۔
طلاق کے سلسلے میں کچھ عملی تجاویز
طلاق کے ضرر سے خواتین کو محفوظ رکھنے کے لیے کچھ عملی تدبیریں یہاں تجویز کی جاتی ہیں، ان پر اہل علم ونظر کے درمیان سنجیدہ گفتگو ہونی چاہیے۔
پہلی بات: ظالمانہ طلاق خواہ وہ ایک ہی کیوں نہ ہو، قابل مذمت عمل ہے۔ سماج کو اس سلسلے میں بہت زیادہ حساس ہونا چاہیے، اور طلاق کے نتیجے میں ہونے والے ضرر کی تلافی کے لیے طلاق دینے والے شخص پر دباؤ ڈالنا چاہیے۔
دوسری بات: سماج میں مہر کی رقم زیادہ رکھنے کا رواج بڑھایا جائے، یہ رقم اتنی زیادہ ہو کہ طلاق کی صورت میں عورت کم از کم ایک سال سے تین سال تک اپنا خرچ اٹھاسکے۔ یہ رقم زیور کی صورت میں نقد بھی ہوسکتی ہے، اور موجل بھی کی جاسکتی ہے، اور طلاق کی صورت میںیہ موجل مہر طلاق کے بعد قسطوں پر بھی دی جاسکتی ہے۔ یہ بہت سی فقہی تحدیدات کی طرح ایک اجتہادی تحدید ہے جس کا مقصد مہر کے کردار کو زیادہ موثر بنانا ہے۔ مہر کا جس اہتمام کے ساتھ قرآن مجید میں بار بار ذکر آیا ہے، اس کا تقاضا یہ ہے کہ وہ ہر کسی کی استطاعت کے بقدر اچھی خاصی بڑی رقم ہو۔ اگر طلاق کے وقت مہر کی اتنی رقم عورت کے پاس نہ ہو، تو متاع کے تحت قابلِ لحاظ رقم اسے ملنی چاہیے۔ اس کی فراہمی کے سلسلے میں طلاق دینے والے شوہر کے خاندان والوں کو بھی حسبِ ضرورت تعاون کرنا چاہیے۔دیت کے سلسلے میں اہلِ خاندان کے تعاون کی شرعی نظیر موجود ہے۔
تیسری بات: مہر کی رقم کی زیادتی کے بالمقابل شادی کے دیگر تمام غیر ضروری اخراجات کو ختم کیا جائے، ولیمہ بھی بہت محدود کردیا جائے۔ بہت سے مواقع پر شادی اور ولیمے کے اخراجات اتنے ہو ہی جاتے ہیں جتنا مہر یہاں تجویز کیا گیا ہے۔ یہ سمجھنا چاہیے کہ مہر فرض ہے اور ولیمہ مستحب ہے۔غرض شادی کی تیاری میں مہر کو سرفہرست ہونا چاہیے، خواہ دوسرے جائز رواج ترک کردیے جائیں۔
چوتھی بات: تعلیم کے علاوہ لڑکیوں کو مختلف ہنر سکھانے کا اہتمام کیا جائے، ایسے ہنر جو بوقتِ ضرورت خود کفیل ہونے میں ان کے معاون ہوسکیں۔
پانچویں بات: لڑکیوں کو معاشی استحکام عطا کرنے والی سرکاری اسکیموں سے بھی حسبِ حال پورا فائدہ اٹھایا جائے۔
چھٹی بات: جس طرح وراثت میں بھائی بھائی کا حصہ معاف نہیں کرتا ہے، اور نہ ہی اس سے یہ توقع لگائی جاتی ہے، اسی طرح عورتیں بھی وراثت میں اپنا حصہ معاف نہ کریں، اسے ضرور لیں۔ یہ انہیں معاشی اور سماجی استحکام دے گا، اللہ تعالی نے وراثت میں لڑکیوں کا حصہ اس لیے تو نہیں رکھا ہے کہ امت میں اسے معاف کردینے کا رواج چل پڑے، اور امت ایک خدائی حکم کی برکت سے خود کو محروم کرلے۔
آخری بات: اگر معاشرے میں خواتین کا اپنے حقوق کو معاف کردینا رواج بن جائے، ہر بہن وراثت کا اپنا حصہ بھائی کو دے دے، اور ہر بیوی شوہر کے حق میں اپنا مہر معاف کردے، تو ایسا رواج ظلم اور منکر بن جاتا ہے، اور اسے بدلنے کے لیے اٹھنا واجب ہوجاتا ہے۔
عورتوں کا تحفظ اورمسلمانوں کی ذمہ داری
اول:قرآن مجید ذہن ساز کتاب ہے۔ قرآن مجید میں خواتین کے تحفظ کی بات کو مختلف پیراؤں سے اتنی بار دوہرایا گیا ہے کہ قرآن مجید پڑھنے والے کا ذہن اور مزاج اس رخ پر دور تک سوچنے لگے، وہ اس مسئلے کی اہمیت اور اس کے ابعاد کو اچھی طرح سمجھنے لگے، اور اس سلسلے میں بہت زیادہ حساس ہوجائے۔ قرآن مجید سے تعلق کا یہ بنیادی تقاضا ہے۔
دوم: قرآن مجید کے موقف کو جان لینے کے بعد مسلمانوں کی یہ ذمہ داری بن جاتی ہے کہ جس طرح قرآن مجید عورتوں کا محافظ ہے، مسلمانوں کو بھی عورتوں کا اور ان کے حقوق اور مفادات کا محافظ ہونا چاہیے، اس باب میں انہیں دوسروں سے پیچھے نہیں بلکہ بہت آگے ہونا چاہیے۔ مسلمان اپنے اوپر عائد ہونے والے عورتوں کے حقوق کا نہ صرف خود خیال رکھیں، بلکہ دنیا کے سامنے عورتوں کے محافظ اور ان کے حقوق کے پاسبان بن کر سامنے آئیں، وہ اپنی دعوت اور اپنے کردار سے یہ بات دنیا کو بتائیں کہ قرآن مجید قیامت تک کے لیے ساری دنیا کی عورتوں کے حقوق کا محافظ ہے۔ اگر دنیا میں کہیں عورتوں پر ظلم ہورہا ہو، تو اس ظلم کو روکنے اور عورتوں کو ظلم سے بچانے کے لیے مسلمانوں کا آگے آنا قرآنی مشن کا حصہ ہے۔
سوم: قرآن مجید نے ظلم کی مختلف صورتوں کو خاص طور سے ذکر کرتے ہوئے عورتوں کے تحفظ سے متعلق واضح تعلیمات دی ہیں، اس بنا پر مسلمانوں پر فرض ہوتا ہے کہ وہ اللہ کی منشا کو سمجھیں اور ظلم وزیادتی کی ہر صورت کو سختی سے رد کردیں، ظلم وزیادتی کی ان صورتوں کو بھی جن کے بارے میں یہ لگے کہ ان کے سلسلے میں قرآن مجید خاموش ہے۔
چہارم: قرآن مجید کی متعدد تعلیمات سے یہ کلی اصول نکل کر آتا ہے کہ ’’عورتوں کو کسی بھی طرح کا ضرر پہنچانا جائز نہیں ہے‘‘ یہ بہت محکم اصول ہے، اسے قرآن مجید کی متعدد آیتوں کی سند حاصل ہے۔ اس لیے ایسے کسی فتوے یا اجتہاد کو قبول عام نہیں ملنا چاہیے جو اس اصول سے ٹکراتا ہو۔
پنجم: قرآن مجید مرد کو اس کی اجازت کہیں نہیں دیتا ہے کہ چونکہ وہ مرد ہے اس لیے وہ عورت کے ساتھ کسی بھی طرح کا ظلم یا جبر روا رکھ سکتا ہے۔ قرآن کی رو سے ایسا معاشرہ قابل قبول نہیں ہے جہاں عورتوں کی جان، مال اور آبرو کسی بھی درجے میں غیر محفوظ ہوں۔ قرآن مجید ایسے معاشرے کی تشکیل کا تصور، اس کے اصول اور اس کے لیے تفصیلی تعلیمات دیتا ہے جس میں عورت کو ہر طرح کے تحفظ کا احساس ہو۔ قرآن مجید کے ماننے والوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ظلم سے پاک معاشرے کی تشکیل کریں، اور اس کا سنجیدہ اور طاقت ور آغاز اپنے گھر سے کریں۔ بلاشبہ وہ گھر بدترین تضاد میں مبتلا قرار پائے گا جہاں قرآن مجید کی وہ آیتیں تلاوت کی جائیں جن میں عورتوںکے ساتھ زیادتی کرنے سے سختی سے منع کیا گیا ہے، اور پھر اسی گھر میں وہ ساری زیادتیاں بھی روا رکھی جائیں۔
رسول پاک ﷺ نے امت کو مخاطب کرکے فرمایا تھا: ’’میں تمہیں عورتوں کے بارے میں اچھے سے اچھے رویے کی وصیت کرتا ہوں، اس وصیت کو مضبوطی سے تھام لو‘‘ (متفق علیہ) یہ عظیم وصیت عورتوں کی حفاظت کرنے والا سماج تشکیل دینے کاطاقت ور پیغام رکھتی ہے۔
مشمولہ: شمارہ اکتوبر 2019