جس وقت دنیا کے ہر شخص کے ذہن و فکر پر کرونا وائرس چھایا ہوا تھا،بیس اداروں پر مشتمل معروف عالمی تحریک آکسفیم ایک اور مہلک وائرس کی کی تفتیش میں جٹی تھی۔ چند دنوں قبل آکسفیم نے اس تباہ کن وائرس کے عالمگیر اثرات کی طویل تحقیقات پر مبنی تجزیاتی رپورٹ جاری کی۔ جس کا عنوان ہے:
The Inequality Virus [عدم مساوات کا وائرس]
اس وائرس کی تباہ کاریوں کے کچھ نمونے اسی رپورٹ کے حوالے سے ملاحظہ فرمائیے۔
٭۱۸ مارچ تا ۳۱ دسمبر۲۰۲۰ کے دوران میں دنیا کے ارب پتیوں کی دولت میں تاریخی اضافہ (3.9 ٹریلین ڈالر) درج ہوا۔
٭ دنیا کے دس بڑے ارب پتیوں نے کوویڈ بحران کے دوران جو‘ اضافی دولت ‘کمائی وہ اس رقم سے کہیں زیادہ ہے جو دنیا کی پوری آبادی کو کوویڈ بحران سے پیدا ہونے والے معاشی مسائل سے نجات دلاسکے۔
٭انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ دنیا کے تمام ممالک میں امیر و غریب کی خلیج میںایک ساتھ تیز اضافہ ہوا۔
٭دنیا کے۱۰۰۰ سب سے متمول سرمایہ داروں نے حکومتوں کی مدد کے سہارے کوویڈ بحران کے ’’مالی نقصان‘‘ کی تلافی صرف ۹ ماہ میں کرلی۔اندازہ یہ ہے کہ عام آبادی کم از کم دس سال اس معاشی زلزلے سے ابھر نہ پائے گی۔
٭امریکہ کی ۲۵بڑی کارپوریشنوں نے گذشتہ سال کے مقابل۲۰۲۰ میں ۱۱ فی صد زیادہ منافع کمایا۔
اس دوران ہمارے خطے کا حال اور حکومتوں کا رویہ زیادہ غیر متوازن رہا۔ یہ حقائق بھی ملاحظہ فرمائیے۔
٭امسال ۲۰ کروڑ لوگ خط غربت عبور کرکے مفلسی کی کھائی میں گریں گے جن کی دو تہائی تعداد جنوبی ایشیا اور مشرقی ایشاء میں ہوگی۔
٭ مارچ تا دسمبر ۲۰۲۰ کے دوران ملک کے امیر ترین سرمایہ دار مکیش امبانی کی دولت میں ۹۰ کروڑ روپیے فی گھنٹہ کی رفتار سے دوگنا اضافہ ہوا اور انھوں نے عالمی فہرست میں ۲۱ ویں مقام سے چھٹے مقام پر چھلانگ لگائی۔
سماجی تفریق کی بھینٹ چڑھتے ان حالات میں محسوس ہوتا ہے کہ معاشرے کی ٹوٹتی معیشت کو تھامنے کے لیے باہمی تعاون کی ضرورت آج کہیں زیادہ ہے۔ سماج کے کم زور طبقات کا سہارا بننا سب کی ذمہ داری ہے۔
تم میں سے ہرشخص نگراں ہے اور ہر ایک سے اس کے ماتحتوں کے بارے میں سوال ہوگا۔
کلکم راع وکلکم مسؤل
فکر خیزی و ذمہ داری کے اسی احساس پر مشتمل ایک عمدہ ماڈل کا تعارف پیش نظر ہے۔
پس آغاز
وانمباڑی، شمالی تامل ناڈو کے ترو پتورضلع کا ایک چھوٹا شہر ہے۔ تامل ریاست بذات خود زبان و کلچر کے حوالے سے نمایاں شناخت رکھتی ہے اور اس ریاست میں وانمباڑی شہر اپنی منفرد پہچان رکھتا ہے۔ اسی لیے اسے تامل ناڈو میں ثقافتی جزیرہ (کلچرل آئیلینڈ) کی حیثیت حاصل ہے۔ وانمباڑی شہر اپنی لیدر مصنوعات کے حوالے سے ملک و بیرون ملک میں معروف ہے۔ چمڑے کی صنعت نے شہر کے سماج کو معاشی آسودگی بھی عطا کی ہے۔یہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔اردو یہاں کی اکثریتی زبان ہے۔ معاشی آسودگی اور ۷۴ فی صد خواندگی کے باوجود یہاں کا معاشرہ معاشی تفاوت اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل سے پاک نہیں۔ کچھ ایہی سے مسائل ۴۵ سال قبل ایک اجتماعی کاوش کا سبب بنے جو اسلامی بیت المال۔ وانمباڑی کہلایا۔
پس منظر اور قیام
متوسط اور غریب طبقات سے وابستہ کسی شخص کے سامنے اگر ہنگامی ضرورت آکھڑی ہو اور کوئی مناسب سہارا موجود نہ ہوتو اپنے رہے سہے وسائل کھودینے، سود کے جال میں پھنسنے، اور مزید کربناک غربت کا شکار ہوجانے کے سوا کوئی چارہ نہیں بچتا۔ شہر کو اس اذیت سے نجات دینے کے لیے۱۹۷۱ میں ایک منصوبے پر کام کا آغاز ہوا۔ امنہ محمد ابراہیم صاحب، اپاپلے عبید الرحمان صاحب، ملیالم عبدالحمید صاحب، ٹی حاجی عبد اللہ صاحب، محمد یوسف صاحب، ٹی عبدالرحیم اور جناب حاجی سراج الدین اس منصوبے کے روح رواں تھے۔
۲۸ نومبر ۱۹۷۲ کو تاج کلب میں ادارے کا باضابطہ قیام عمل میں آیا۔ ابتدائی قیام کے بعد ادارے کی ترقی میں جناب ایچ عبدالرقیب، جناب سی طفیل احمد، جناب عبداللہ باشا، مولوی نری فضل الرحمٰن، ٹی محمد اسماعیل صاحب اور دیگر ممبران کی انتھک کاوشوں کا بڑا دخل ہے۔
منصوبے کے مطابق اسلامی بیت المال (IBM) نہ تو رفاہی ادارہ (چیریٹیبل انسٹی ٹیوٹ) قرار دیا گیا اور نہ ہی مکمل مائکرو فائنانس انسٹی ٹیوشن۔ بلکہ خدمات فراہم کرنے والا (سروس اورینٹیڈ) غیر نفع رساں ادارہ قرار پایا۔ آئی بی ایم اپنی اسی شناخت کے ساتھ ۲۰۱۶ تک کام کرتا رہا۔ اس کے بعد ایک فیصلے کے تحت تین ریاستوں پر مشتمل بڑے ادارے سنگامم کے ساتھ اس کا الحاق ہوگیا اور نئے نام اور نئے ضوابط کے ساتھ ایک نئے دور کا آغاز ہوگیا۔ اس قسط میں ہمارے تجزیات کا تعلق ادارے کے صرف پہلے دور سے ہے۔
منصوبے کے تحت آئی بی ایم کے حسب ذیل مقاصد قرار دیے گئے:
- مستحقین کو غیر سودی قرض کی فراہمی
- غریب و نادار لڑکیوں کی شادی کے لیے امداد
- ہنگامی حالات میں ریلیف
- مستحق طلبا کے لیے اسکالرشپ کا سہارا
- چھوٹی بچت اسکیم
جنوری ۱۹۷۳ میں باقاعدہ سوسائٹی ایکٹ کے تحت رجسٹریشن عمل میں آیا اور ادارے کی پیش رفت کا آغاز ہوگیا
ندرت اورانفرادیت
آج بھی ہمارے کئی ملی ادارے جدید ٹیکنالوجی اور آٹومیشن سے دور کاغذی کارروائیوں میں ہی الجھے نظر آتے ہیں۔ جس کے سبب ان کی پروڈکٹیویٹی تشویش ناک حد تک کم ہوکر رہ جاتی ہے۔ لیکن IBM نے کئی سال قبل وانمباڑی جیسے چھوٹے شہر میں اپنی تمام کارروائیوں کو نہ صرف ڈیجیٹلائز کیا بلکہ سنٹرل ڈیٹا بیس سے منسلک کر کے عملاً اپنی سرگرمیوں کو غلطیوں سے پاک بنادیا تھا۔
مزید یہ کہ اکاونٹس، رپورٹنگ اور آڈیٹنگ کا شفاف نظام بھی ملحوظ رکھا۔ سرٹیفائیڈ چارٹرڈ اکاونٹنٹ کے ذریعے آڈیٹنگ کے بعد ان رپورٹوں کوشائع کرنا آئی بی ایم کے سسٹم کا حصہ رہا۔ اس طریقہ کار کو ملحوظ رکھنے سے عوامی اداروں کی ساکھ بڑھتی ہے۔
قرض کی اجرائی کے واضح حدود اور اصول نافذ رہے۔ ۵۰۰۰۰ سے زائد رقم قرض کی اجرائی کے لیے صرف آئی بی ایم کمیٹی مجاز قرار پائی۔ میچیوریٹی پیریڈ، اقساط کی ادائیگی کے اصول، ڈاکیومینٹ کی شرائط (بونافائیڈ، ریسیڈنس پروف، میریج سرٹیفکیٹ، میڈیکل سرٹیفکیٹ) وغیرہ امور تحریراً واضح اور عام کی گئیں۔
منتظمین نے اس بات کو یقینی بنایا کہ انتظامی اخراجات کا بوجھ قرض داروں پر نہ ہو۔ اور یہ کہ ادارہ اپنے اخراجات کا ایک حصہ اپنی جائیدادوں کے کرائے سے اور بقیہ مالیاتی امور عوامی تعاون سے پورا کرے۔
دفتر میں موجود مالیات کی حفاظت کی خاطر سی سی ٹی وی سمیت ضروری وسائل کا استعمال کئی برسوں سے یہاں رائج ہے۔ مختصر یہ کہ جدید وسائل کا استعمال، اصولوں کی پاسداری اور شفافیت اداروں کی کام یابی کی ضمانت ہوتی ہے۔
پیش رفت اور اثرات
بردارم سید احمد مذکر نے اسلامی بیت المال وانمباڑی کے سماجی ومعاشی اثرات کا ۴۰ سالہ جائزہ (قیام تا ۲۰۱۴) اپنے یونیورسٹی کے مقالے میں تفصیلاً پیش کیا۔ اس تحریر کے حسب ذیل تجزیاتی مشمولات کا ماخذ یہی تحقیق ہے۔
آپ نے رینڈم سیمپلنگ، جدید تجزیاتی و شماریاتی تکنیک اور سروے کی بنیاد پر حسب ذیل تین زمروں کے تحت ادارے کی کارکردگی جانچنے کی سعی کی۔
خود انحصاری، وسعت اور شفافیت
u خود انحصاری: یہ جانچنے کے لیے کہ کوئی ادارہ کس قدر خود مکتفی ہے، فائنانشیل سیلف سسٹینبلٹی (ایف ایس ایس) اہم پیمانہ ہے۔ اس کے تحت آپریشنل اخراجات کا تناسب، فی کلائنٹ اخراجات کا تناسب، استفادہ کنندگان اور دفتری اخراجات کا تناسب وغیرہ امور کی شماریاتی پیمائش ہوتی ہے۔
سماجی اور معاشی پیمانوں (سوشل اینڈ اکنامک انڈیکیٹرس) کے تحت آئی بی ایم کا ایف ایس ایس، قومی تناسب کے مقابل کہیں بہتر پایا گیا۔
آئی بی ایم ایف ایس ایس = 114.873 فی صد
قومی اوسط = 89.33فی صد
v وسعت: ۲۰۱۴ تک جملہ استفادہ کنندگان کی تعداد یوں رہی:
اسکالرشپ اور تعلیمی امداد ۱۳۰۴
طبی امداد ۹۹۹
مستحق لڑکیوں کی شادیوں کے لیے امداد ۱۸۹۴
عمومی امداد ۴۶۴
درج بالا اعداد و شمار ایک چھوٹے شہر میں ادارے کی خدمات کی وسعت اور اثرات کو ظاہر کرتے ہیں۔
شفافیت: اس اسٹڈی میں ادارے کی ۴۰ سالہ کارکردگی کو بڑی حد تک شفاف اورانتظامی امور میں متوازن قرار دیا گیا۔ اکاونٹس اور رپورٹس بروقت آڈیٹ شدہ پائی گئیں۔ مختلف مدات کے تحت اخراجات کے تناسب کو سماجی ضروریات کے حوالے سے متوازن پایا گیا۔ رپورٹ یہ بھی کہتی ہے کہ آئی بی ایم اپنے سماجی و معاشی اثرات کے حوالے سے بڑی حد تک کام یاب ادارہ ہے اور اس قابل ہے کہ معاشرے کی معاشی بہتری کے لیے اس ماڈل کو دیگر مقامات پر اپنایا جائے۔
ایک تاثر یہ بھی
آئی بی ایم کے اوقات کار روزانہ صرف تین گھنٹے میں سمٹ جاتے رہے۔ ممکن ہے کام کے حجم کے لحاظ سے تین گھنٹے کافی ہوں۔ لیکن اس دوارنیے میں وسعت ہو تو عین ممکن ہے کہ نئے محاذ، نئی ضرورتوں اور نئی راہوں کا انکشاف ہو۔ ایک تاٗثر یہ بھی ہے کہ سماجی تقاضوں کی بہ نسبت ادارے کی کارکردگی محدود ہے۔ اس میں مزید وسعت کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ مزید یہ کہ ڈیجیٹلائزیشن کے باوجود یہاں قرض فراہمی کا عمل سست ہے۔ اور بسا اوقات آئی بی ایم کئی درخواستوں کو قبول نہیں کرپاتا۔ یہ بات یقیناً سچ ہے کہ سنگامم کے ذریعے نئے دور میں دائرہ کار ضرور پھیلا لیکن انتظامی اخراجات کے حوالے سے آئی بی ایم کی مثبت روایات کوسنگامم جاری نہ رکھ سکا۔
آئی بی ایم نے خود کو مسلم سوسائٹی کی حد تک سمیٹ رکھا ہے۔ ممکن ہے سماجی تقاضوں کے لحاظ سے یہ ترجیح ضروری سمجھی گئی ہو۔ لیکن ادارے کی افادیت کا دائرہ پورے سماج پر محیط پر ہونا چاہیے۔
پیغام عمل
دی ہندو میں شائع سووجیت باگچی کی ایک رپورٹ (۱۵ جولائی ۲۰۱۷)کے مطابق مسلمان دیگر برادران وطن کے مقابل (سکھ اور عیسائیوں کے سوا) زیادہ فیاض و سخی ہیں۔
’’Per household contribution of Muslims is marginally higher than that of Hindus‘‘
رپورٹ کے مطابق عیسائی اور سکھ طبقات مسلمانوں کے مقابلے میں زیادہ عطیات دیتے ہیں۔ لیکن دیگر برادران وطن (جنھیں مجموعی طور پر ہندو کہا جاتا ہے) کے مقابلے میں مسلمان زیادہ سخی ہیں۔
مسلمانوں کی فی نفر عطیات کا تناسب (پر کیپیٹا ڈونیشن کی شرح) سکھوں اور عیسائیوں سے بہرحال کم ہے۔ لیکن آمدنی اور خیرات کا تناسب دیکھا جائے تو عین ممکن ہے کہ مسلمان کہیں زیادہ فیاض ٹھہریں۔ اس لیے کہ مسلمانوں کی پر کیپیٹا آمدنی دیگر طبقات کے مقابل بہت کم ہے لیکن سخاوت کے اعتبار سے فرق بہت معمولی ہے۔ اس رپورٹ میں اس بات کا بھی اعتراف کیا گیا کہ زکوۃ کی اصل مقدار اس سروے میں شامل نہیں جو عین ممکن ہے بہت زیادہ ہو۔
‘‘ The actual Zakat collection is presumably much more than what is indicated by NSS, he said since it is mandatory in Islam to make a religious contribution.’’
واقعہ یہ ہے کہ زکوۃ کا تناسب عمومی چیریٹی کے مقابل کئی گنا زیادہ ہوتا ہے۔ اگر زکوۃ کی اصل مقدار کو شامل کیا جائے تو عین ممکن ہے مسلمان سرفہرست ٹھہریں۔ مسلمانوں کی سخاوت کا سبب رپورٹ یہ بتاتی ہے کہ۔
’’As they are enjoined by religion to give to charity‘‘
خود ملامتی جہاں خودساختہ خواص میں فیشن بن کر پھیل رہی ہو وہاں ضروری ہے کہ ایسے چشم کشا حقائق کے اعتراف کا حوصلہ بھی پیدا ہو۔ جہاں یہ حوصلہ جاگتا ہے وہیں تبدیلیوں کی راہ ہم وار ہوتی ہے۔
ہمارے ملک میں ‘شہری عظمتوں’ کی بلند فصیلوں نے چھوٹی بستیوں کو اپنے گہرے سائے تلے ڈھانپ رکھا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ چھوٹے شہروں نے ہی ملک کو فہم و دانش کے بڑے تحفے دیے۔ یہ بات فرد کے لیے جتنی سچ ہے اجتماعیت کے لیے بھی سچ ہوسکتی ہے۔ وانمباڑی کے آئی بی ایم کا سفر اس بات کا عملی ثبوت ہے۔
ایک اندازے کے مطابق زکوٰۃ، نصف ٹریلین ڈالر خطیر مقدار کے ساتھ دنیا کا سب سے بڑا ڈونیشن ہے۔ جو معیشت کو سالانہ ریچارج کرنے اور دولت کے معکوس بہاؤ کو یقینی بنانے میں بڑا رول ادا کرتی ہے۔ زکوٰۃ کی افادیت کو اب بیشتر ماہرین تسلیم کررہے ہیں۔ لیکن حاملین زکوٰۃ اس سسٹم کی خوب صورتی سے بڑی حد تک نا آشنا ہیں۔
دوسال قبل پروفیشنلس کی تنظیم اے ایم پی نے نیشنل زکوٰۃ سروے کا اہتمام کیا تھا۔ سروے ٹیم کے بقول ۲۰۰ شہروں کے ۴۵۸۹ افراد نے سروے میں حصہ لیا۔ موٹے طور پر یہ بات سامنے آئی کہ ۳۰ فی صد لوگ زکوٰۃ کے تصور ہی سے نا آشنا ہیں۔ ۴۰ فی صد لوگ زکوٰۃ کو باضابطہ محسوب نہیں کرتے۔ ۵۵ فی صد لوگوں کو اس بات کی کوئی فکر نہیں تھی کہ ان کی زکوٰۃ کیا واقعی مستحقین تک پہنچ رہی ہے۔ ۶۰ فی صد لوگ بالعموم چند منتخبہ افراد کو ہرسال رقم تھما کر فریضہ زکوٰۃ کو نپٹادینے کے عادی ہیں۔ ۷۵ فی صد لوگ زکوٰۃ کے اجتماعی سسٹم کو ضروری سمجھتے ہیں۔ لیکن صرف ۱۵ فی صد لوگ اس طریقہ کار پر کسی نہ کسی صورت عمل پیرا ہیں۔
مختصر یہ کہ ان ۷۵ فی صد سمجھ دار لوگوں کو ۱۵ فی صد اقلیت کے ساتھ شامل ہونے کے لیے رضامند کیا جائے تو یہی ایک بڑا انقلابی کام ہوگا اور عین ممکن ہے کہ اسی تبدیلی کے ذریعے کئی اجتماعی ترجیحات عملی جامہ پہن سکیں۔
سیدنا عثمان نے ایک کنویں کی شکل میں انفاق کا جو چشمہ۱۴صدی قبل جاری کیا تھا وہ ترک دور میں پھیل کر ہزاروں درختوں پرمشتمل باغ بن گیا اور آج اعلیٰ ترین کوالٹی کے کھجوروں کا وسیع فارم ہے۔ آج بھی یہ باغ عثمان بن عفان (رضی اللہ عنہ) کے نام پر رجسٹرڈ ہے۔ اس کی کئی ملین ریال کی آمدنی حضرت عثمان کی ملکیت ہے جس سے حکومت نے مدینہ میں ایک ہوٹل فندق عثمان بن عفان تعمیر کیا جس کی آمدنی مزید لاکھوں ریال پر مشتمل ہوگی۔
یہ سارا خزانہ آج بھی حضرت عثمان بن عفان (رضی اللہ عنہ) کے ذاتی اکاؤنٹ میں مستقل جمع ہورہا ہے اور اس اکاؤنٹ سے انفاق کی کئی تازہ اور شفاف نہریں مسلسل پھوٹ رہی ہیں۔
دنیا بھر میں پھیلے ایسے‘ باغ’ زبان حال سے سمجھاتے ہیں کہ ’’فکسڈ ڈپازٹس‘‘ اور لانگ ٹرم انویسٹمنٹ حقیقت میں کیا ہوتے ہیں؟
مشمولہ: شمارہ اپریل 2021