دلوں کو متاثر و مسحور وہی بات کرتی ہے، جس میں دو خوبیاں ہوں: ﴿۱﴾حسنِ مضمون ﴿۲﴾حسنِ بیان۔ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے ،دنیا کے بڑے بڑے ادیبوں، ناقدوں، حکما اور دانشوروں نے تسلیم کیا ہے کہ اس میں یہ دونوں خوبیاں بہ درجۂ کمال پائی جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس کلام نے سنگ دلوں کو موم بنا کر رکھ دیا۔ اس کلام کو اس کی اصل نفاست ، سلاست اور حکمت کے ساتھ جب بھی بیان کیا جائے گا، یہ دلوں کو مسحور اور ذہنوں کو منور کرے گا۔
تحریریں وہ زندہ و جاوید ہوتی ہیں،جن کے پیچھے صرف بلاغت و ندرت کا اعجازہی نہ ہو بلکہ کردار کی عظمت بھی کا رفرما ہو۔ کوئی طاقت انھیں محو نہیں کر سکتی ہے ۔ سیّد قطبؒ لکھتے ہیں:
’’کسی مصنف کی تحریریں ایسی ہیں جیسے خوب صورت مورتیاں۔ جب مصنف اپنی تحریروں کی تائید اپنے کردار سے کرتا ہے تو ان میں روح داخل ہوجاتی ہے اور پھر وہ کتابوں کے اندر ہی نہیں رہتیں، بلکہ انسانی آبادیوں کے اندر چلتی پھرتی نظر آنے لگتی ہیں‘‘۔
انسان کی گفتگو خود اُس کی شخصیت کی عکاس ہوتی ہے۔ جب کوئی بات زبان سے باہر نکلتی ہے تو سننے والے کان اور دیکھنے والی آنکھیں اس جانب ٹھہر جاتی ہیں، جہاں سے وہ آواز آرہی ہوتی ہے۔ بس چند لمحات گزرتے ہیں کہ یہ کان، آنکھ اور دماغ یکجا ہوکر فیصلہ کر ڈالتے ہیں۔ اب یا تو یہ بات اپنے مثبت اثرات کے ساتھ قلب میں جاگزیں ہوجاتی ہے یا پھر منفی اثرات کے ساتھ قلب سے دور، بہت دور پھینک دی جاتی ہے۔ جہاں نہ صرف وہ الفاظ بے معنی ہو کر رہ جاتے ہیں، بلکہ وہ شخصیت بھی اپنا وقار کھو بیٹھتی ہے۔ قرآن حکیم کہتا ہے :
وَاَنّھُم یَقُولُونَ مَالَا یَفعَلُونَ ﴿الشعرائ:۲۲۶﴾۔ “اور کہتے وہ ہیں جو کرتے نہیں”۔
یہ وہی بات ہے جو ہم یہاں کر رہے ہیں کہ جب شخصیت جانی پہچانی ہواور اس سے سابقہ بھی پیش آچکا ہو، ایسی حالت میں اس کی زبان سے نکلی ہوئی بات یا تو منفی اثرات مرتب کرتی ہے یا مثبت۔ اس لیے لازم ہو جاتا ہے کہ زبان سے وہی بات ادا کی جائے جو انسان خود اپنے لیے، اپنے گھر والوں کے لیے اور اپنے متعلقین کے لیے پسند کرتا ہو۔ آئیے اب ہم جاننے کی کوشش کریں کہ تحریر و تقریر کے معنی کیا ہیں اور ان کو ادا کرتے وقت کن خوبیوں سے مزیّن ہونا چاہیے۔
بات اُس وقت کہی جائے جب دل سننے کے لیے آمادہ ہوں
حضرت علی ؓ نے فرمایا:
’’دلوں کی کچھ خواہشیں اور میلانات ہوتے ہیں، کسی وقت وہ بات سننے کے لیے تیار ہوتے ہیں اور کسی وقت اس کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ تم لوگوں کے دلوں میں میلان کے وقت داخل ہو اور اس وقت اپنی بات کہو جب سننے کے لیے آمادہ ہوں۔ کیونکہ دل کا معاملہ ایسا ہے کہ جب اسے کسی بات پر مجبور کیا جاتا ہے تو وہ اندھا ہو جاتا ہے ﴿بات کو قبول کرنے سے انکار کر بیٹھتا ہے﴾‘‘
﴿کتاب الخراج ابو یوسف﴾
معلوم ہوا کہ ہر بات ہر وقت لوگوں کے سامنے نہ پیش کی جائے بلکہ پیش کرنے سے پہلے موقع و محل دیکھ لیا جائے۔ اس بات کا بھی لحاظ رکھا جائے کہ جس مجلس میں ہم اپنی بات پیش کر رہے ہیں وہ کس نوعیت کی ہے۔ فائدہ یہ ہوگا کہ جب ہم مجلس کا خیال رکھتے ہوئے اپنی بات کہیں گے تو کیونکہ پہلے سے ہی اُس طرح کی بات لوگ سننے کے لیے آمادہ ہوں گے لہٰذا وہ بات اثر انداز ہو گی۔ اس کے برخلاف جو لوگ موضوع سے ہٹ کر بات لوگوں کے دماغوں میں ٹھونسنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں تو چوں کہ لوگوں کے دل اس جانب مائل نہیں ہوتے ، اس لئے اچھی سے اچھی اور اچھے سے اچھے انداز میںکہی گئی بات بھی ضائع ہوجاتی ہے۔ نہ صرف ضائع ہوجاتی ہے بلکہ لوگوں کا وقت بھی برباد ہوتا ہے۔
حضرت جابر ؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بازار سے گزر رہے تھے، لوگوں نے آپ کو دونوں طرف سے گھیر رکھا تھا۔ آپ کا گزر ایک چھوٹے کان والے مردہ بکری کے بچے سے ہوا۔ آپ قریب گئے اور اس کے کان پکڑ کر فرمایا:”تم میں سے کون اس مردہ بچے کو ایک درہم میں خریدنا پسند کرے گا؟”۔ صحابہ نے عرض کیا: “ہم کسی قیمت پر اس کو خریدنا نہیں چاہتے، یہ ہمارے کس کام آئے گا۔ آپ نے پوچھا: کیا تم پسند کروگے کہ یہ مفت میں تمھیں مل جائے؟ صحابہ نے عرض کیا: یا رسولﷺ اللہ! یہ اگر زندہ ہوتا تب بھی کان چھوٹے ہونے کا عیب اس میں تھا ہی، جب کہ اب یہ مردہ ہے، اس لیے اس کو لینے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا “۔ یہ سن کر نبی ﷺ اکرم نے فرمایا: “اللہ کی قسم! یہ بچہ تمہاری نظر میں جتنا بے وقعت ہے، دنیا اللہ کی نظر میں اس سے کہیں زیادہ بے وقعت ہے۔” ﴿صحیح مسلم﴾
یہ ہے وہ انداز اور موقع و محل جس کے ذریعے اللہ کے رسولﷺ نے صحابہ کرام کے دلوں میں دنیا کی حیثیت واضح کردی۔ یہاں دو باتیں قابل لحاظ ہیں۔ ﴿۱﴾ والدین، اساتذہ، اور وہ لوگ جولوگوں کی تربیت کے لیے مقرر ہوں یا جن پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہو کہ وہ لوگوں کی تربیت کریں، انھیں اگر کوئی اچھی بات ذہن نشیں کرانے کے لیے ذرا سا بھی موقع ملے تو اس سے بھر پور فائدہ اٹھائیں۔ ﴿۲﴾ بات جو ذہن نشیں کرائیں وہ اس انداز میں کہ لوگوں کا قلب و ذہن اس کی طرف پوری طرح یکسو ہو جائے۔
کلام میں محبت و دل سوزی
انداز بیان ہمیشہ شیریں رکھنا چاہیے یہ وہ کلید ہے، جس سے سخت ترین لوگوں کے دل بھی پگھل جاتے ہیں۔ انداز بیان شیریں ہونے کے ساتھ ساتھ جس سے بات کی جائے اس سے انسان محبت بھی رکھتا ہو اور اس کا اظہار اُس پر کھل کر کرنا چاہیے۔ صرف زبان سے نہیں بلکہ اپنے عمل سے بھی۔ اگر یہ دو باتیں انسان کی ذات میں موجود ہوں تو زبان سے نکلی ہوئی بات مخاطب کے دل کی گہرائیوں میں اتر جائے گی۔ بات اس انداز سے بیان کی جائے کہ اس میں حد درجہ مشفقانہ اور خیر خواہانہ جذبہ جھلکتا ہو۔ یہ وہ انداز ہوگا جس سے مخاطب مجال سرتابی نہیں کر سکتا اور جو بات بھی ادا کی جائے گی اس کو نہایت خوش دلی سے عملی جامہ پہنانے کو تیار ہو جائے گا۔ یہ ممکن ہے کہ مخاطب کا عملی اظہار آپ کی بات کے اولین دن سے ہی نہ ہو۔ لیکن یہ ممکن نہیں کہ ہم صبر کے دامن کوبھی نہ چھوڑیں، اپنی بات کو بھی جاری رکھیں اور پھر بھی ہمیں نتائج نہ حاصل ہوں۔
ایک بار آپﷺ نے خاندان قریش کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
“قافلے کا دید بان کبھی بھی اپنے ساتھیوں سے جھوٹ نہیں بولتا، اللہ کی قسم! اگر میں ﴿بفرض محال﴾ تمام لوگوں سے غلط بات کہنے پر آمادہ ہو بھی جاتا تب بھی تم سے غلط بات نہ کہتا۔ اگر ﴿بفرض محال﴾ تمام لوگوں کے ساتھ دھوکا دہی کرتا، تب بھی تمھارے ساتھ دھوکا نہیں کرتا۔ اس ذات کی قسم جس کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، میں تمام لوگوں کی جانب اور خاص طور پر تمھاری جانب اللہ کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہوں۔ جس طرح تم سو جاتے ہو پھر نیند سے بیدار ہوتے ہو، اللہ کی قسم ویسے ہی تم کو مرنا ہے اور مرنے کے بعد جی اٹھنا ہے، تم سے تمھارے کاموں کا حساب لیا جائے گا، تمھیں بھلائی کا بدلہ بھلائی سے اور برائی کا بدلہ برائی سے ضرور دیا جائے گا اور یہ بدلہ یا تو ہمیشہ کی جنت کی شکل میں ہوگا یا ہمیشہ کی جہنم کی صورت میں”۔
معلوم ہوتا ہے کہ مربی اعظم جو بات بھی ادا کر رہے ہیں، اس کے اندر بے انتہا محبت اور دل سوزی موجود ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات نہ صرف قولی بلکہ عملی طور پر بھی اس کا کھلا ثبوت پیش کرتی ہے۔ جب آپﷺ لوگوں کی مدد کرتے، ان کے دکھ درد میں شریک ہوتے، مصائب میں ان کی دل جوئی کرتے، ہمیشہ لوگوں سے خندہ پیشانی سے ملتے، اظہار ِ محبت کے لیے مصافحہ اور معانقہ کرتے، یہ وہی اعمال تھے جس کے نتیجے میں لوگ آپ ﷺ کے گرویدہ ہو جاتے، اپنے ماں باپ سے زیادہ آپﷺ سے محبت کرتے اور آپ کے ہر حکم پر اپنی جان دینے کے لیے تیار رہتے تھے۔ ایک بار ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کے لیے آیا۔ آپﷺ نے دیکھاکہ اس کی ہتھیلیوں پر نشانات پڑے ہوئے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وجہ دریافت کی تو اس نے کہا: یا رسول اللہ میں ایک مزدور آدمی ہوں، کسب حلال کے لیے مجھے پتھر توڑنا پڑتا ہے، اس سخت محنت کی وجہ سے یہ نشانات پڑ گیے ہیں۔ آپ نے یہ بات سنی تو فرط محبت میں اس کے ہاتھ چوم لیے۔ غور فرمائیے، کیا اس شخص کا دل نہ بھر آیا ہوگا۔ اس کا حوصلہ بلند نہ ہوا ہوگا۔ نتیجہ یہ کہ آپ سے محبت میں بے انتہا اضافہ ہو گیا ہوگا۔ یہ ہے وہ سوز ومحبت جو لوگوں کے دلوں کو پگھلانے والا ہے۔ لوگوں میں عیوب تلاش کرنا اور پھر انکا نازیبا انداز سے تذکرہ کرتے پھرنا یہ وہ نقائص ہیں جن سے لوگ آپ سے دور بھاگیں گے۔ ہمیں ہر حال میں لوگوں سے قربت قائم کرنی ہے نہ کہ دوری۔ حضرت علی فرماتے ہیں:
“بہترین عالم وہ ہے جو لوگوں کو اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں کرتا ،نہ اللہ کی نافرمانی کے لیے رخصت دیتا ہے، اور نہ اللہ کے عذاب سے انھیں بے خوف بناتا ہے”۔
تدریج
جس طرح زندگی کے مختلف مراحل میں تدریج لازمی ہے۔ جس طرح ایک انسان کی زندگی خود اس کی واضح اور زندہ مثال ہے کہ بچپن کے بعد جوانی اور جوانی کے بعد بڑھاپا ایک تدریجی عمل ہے اسی طرح زندگی کے ہر کا م میں تدریج لازمی جزہے۔ چاہے وہ تربیت کے تعلق سے ہو، علم کے حوالے سے ہو، ذمہ دار انہ زندگی کے تعلق سے ہویا پھر عقائد و نظریات اور عبادات کے ارتقائی مراحل کے تعلق سے ۔ لہٰذا قول و عمل اور تحریر و تقریر میں بھی ان باتوں کا خیال رکھنا انتہائی ضروری ہے۔ اب یہ تحریر و تقریر میں کس طرح تدریجی عمل جاری رہے گا۔ یہ اُن لوگوں سے متعلق ہے جو یہ جانتے ہیں کہ ہم اپنی بات کن لوگوں کے سامنے پیش کر رہے ہیں۔ وہ جس عملی میدان تک بھی بڑھ چکے ہوں، اس سے آگے کی بات ان کے سامنے بیان کی جانی چاہیے۔ لیکن یہ کام تقریر میں تو ممکن ہے لیکن تحریرمیں دشوار ۔کیونکہ نہیں معلوم کہ کب کس طرح کا شخص اس تحریر کو پڑھنے بیٹھ جائے۔ وہاں پر یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ تحریر کی ترتیب اس انداز کی ہونی چاہیے کہ بات بہ تدریج آسانی کے ساتھ واضح ہوتی چلی جائے اور یہی تحریر کا تدریجی اظہار ہوگا۔
حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں:
“قرآن پاک میں پہلے پہل صرف وہ سورتیں نازل ہوئیں جن میں جنت اور جہنم کا ذکر ہے۔ یہاں تک کہ جب لوگ اسلام کے سایے میں آگئے تو حلال و حرام کی آیتیں نازل ہوئیں۔ اگر پہلے ہی مرحلے میں وہ آیات نازل ہو جاتیں جن میں شراب اور زنا کو حرام قرار دیا گیا ہے تو شاید لوگ پکار اٹھتے: ہم شراب اور زنا کو کبھی نہیں چھوڑیں گے۔ ” ﴿بخاری﴾
ایک مرتبہ عمر بن عبدالعزیز نے اپنے بیٹے کے ایک سوال کے جواب میں فرمایا:
“بیٹے! جلدی نہ کرو، اللہ تعالیٰ نے قرآن میں شراب کی مذمت میں دو بار آیتیں نازل کیں، پھر تیسری بار آیات نازل کر کے شراب کو حرام قرار دیا۔ مجھے اندیشہ ہے کہ اگر میں تدریج کو نظر انداز کر کے یکبارگی لوگوں کو پورے طور پر حق پر آمادہ کرنے کی کوشش کروں تو کہیں لوگ اسے چھوڑ نہ دیں، تو یہ فتنہ پہلے سے بھی بڑا فتنہ ہوگا”۔ ﴿الموافقات﴾
ایک اورواقعے کا تذکرہ کرکے ہم اپنی اس بات کو مکمل کریں گے۔ حضرت معاذ بن جبل کو یمن رو انہ کرتے وقت اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا:
“اے معاذ! تم ایک ایسی قوم کی طرف جا رہے ہو جو اہل کتاب ہے، تم پہلے انھیں توحید اور رسالت کی دعوت دینا۔ جب وہ یہ بات مان لیں کہ اللہ ایک ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے رسول ہیں تو پھر انھیں یہ بتانا کہ اللہ نے دن رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں، جب وہ اس بات کو بھی تسلیم کر لیں تو پھر انھیں یہ بتانا کہ اللہ نے ان پر زکاۃ فرض کی ہے جو ان کے مالداروں سے لی جائے گی اور ان کے فقرائ میں تقسیم کر دی جائے گی”﴿متفق علیہ﴾
زندگی کے مختلف محاظ پر تدریج کو ملحوظ رکھنا چاہیے، فائدہ یہ ہوگا کہ ہماری بات میں اثر پیدا ہوگا اور ہمارے اور دیگر لوگوں کے کردار میں تبدیلی آئے گی۔ اگر اس کا خیال نہ رکھا گیا تو یہ نہ ہمارے لیے ممکن ہے کہ ہم زندگی کے ہر محاذ پر لوگوں کے لیے نمونہ پیش کر سکیں اور نہ لوگوں کے لیے یہ ممکن ہوگا کہ ایک ہی وقت میں وہ اپنی زندگیوں کو سنوار لیں۔ اس کے برخلاف طرز عمل اختیار کرنے سے نقصان یہ ہوگا کہ لوگ ہم پر اور ہم لوگوں پر طعنے کسیں گے، اوروہ ہم سے دور اور ہم ان سے دور ہوتے جائیں گے۔
چند توجہ طلب پہلو
قرآن مجید میں ہے:
“تم نہیں جانتے کہ اللہ تعالیٰ نے کلمہ طیبہ کی مثال اس پاکیزہ درخت سے دی ہے، جس کی جڑ مضبوط ہے اور چوٹی نہایت بلند آسمان پر پہنچی ہوئی ہے۔ وہ ہر وقت اپنے رب کے حکم سے پھل لاتا ہے۔ اللہ لوگوں کے لیے تمثیلات بتلاتا ہے تاکہ وہ سمجھیں اور نصیحت حاصل کریں۔” ﴿ابراہیم:۲۵﴾
اپنی بات پیش کرتے وقت مختلف مثالوں اور تشبیہوں کا استعمال کیا جانا چاہیے۔ یہی طریقہ اللہ تعالیٰ خود قرآن حکیم میں اختیار کرتا ہے اور اسی طرح نبی کریم بھی لوگوں کو اپنی بات سمجھانے کے لیے آسان مثالیں اور تشبیہیں استعمال کرتے تھے۔ ہمیں بھی اس بات کا لحاظ رکھنا چاہیے۔ کیونکہ یہ طریقہ آسان اور عام فہم ہے۔ اس طرح بات جلد ذہن نشیں ہو جاتی ہے۔
چھوٹ سے پرہیز
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے بیان کرتے ہیں، کہ رسولﷺ اللہ نے ارشاد فرمایا”آدمی کے جھوٹے ہونے کے لیے یہ کافی ہے کہ وہ جو کچھ سنے اس کو بیان کرتاپھرے۔” ﴿مسلم﴾
معلوم ہوا کہ ہر وہ بات جو ہم نے سنی اور پڑھی اس کو بغیر علمی تحقیق کے نہ بیان کر دیا جائے۔ اگر اس بات کا خیال نہ رکھا گیا تو آدمی جھوٹوں میں شمار ہوگا۔ اس کی شخصیت مجروح ہوگی اور اس کے زبان و قلم کی اہمیت ختم ہو جائے گی۔ لہٰذا بات پیش کرتے وقت جھوٹ سے لازماً گریز کیا جانا چاہیے۔
قول و عمل میں یکسانی
قول و عمل میں یکسانی ایک لازمی جز ہے۔ اس کے بغیر بات میں تاثیر پیدا ہوہی نہیں ہو سکتی۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ متوجہ کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ:
“اے لوگوجو ایمان لائے ہو، تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو؟ اللہ کے نزدیک یہ سخت نا پسندیدہ حرکت ہے کہ تم کہو وہ بات جو کرتے نہیں” ﴿صف:۲،۳﴾
یہاں یہ بات صاف کردی گئی کہ جو بات بھی ادا کی جائے اس پر خود عمل کیا جائے اور اگر اس پر عمل نہیں کیا جاتا تو نہ صرف وہ بات بلکہ وہ شخص بھی مجروح ہوتا ہے۔ اللہ کی پھٹکار پڑتی ہے اور وہ دنیا اور آخرت میں ناکام و نامراد ہوتا ہے۔ اسی طرف توجہ دلاتے اور ڈراتے ہوئے فرمایاگیا :
“تم دوسروں کو تو نیکی کا راستہ اختیار کرنے کے لیے کہتے ہو، مگر اپنے آپ کو بھول جاتے ہو حالانکہ تم کتاب کی تلاوت کرتے ہو۔ کیا تم عقل سے بالکل ہی کام نہیں لیتے۔” ﴿البقرہ:۴۴﴾
نقطۂ نظر
آج بھی اور آج سے قبل بھی دنیا میں بہت سارے نقطۂ نظر نہ صرف موجود تھے بلکہ موجود ہیں۔ ہم اگر انھی کے ارد گرد گھومتے رہے اور اپنا کوئی واضح نقطۂ نظر نہ رکھا تو پھر ہمارا بات کرنا اور نہ کرنا برابر ہے۔ کیونکہ ہم وہی کچھ کر رہے ہوں گے جو دوسرے لوگ کرتے آئے ہیں، اس لیے ہم اور ہماری بات میں نہ کوئی وزن ہوگا اور نہ کوئی متاثر کرنے والی بات۔ ضروری ہے کہ ہم جو بات بھی کہیں ا ور پیش کریں اس میں ہمارا بحیثیت مسلمان، اسلام کا نقطۂ نظر واضح ہونا چاہیے۔ کیونکہ قرآن کہتا ہے کہ قوموں کے عروج و زوال کی بساط اسی وقت پلٹی جاتی ہے جب وہ اخلاقی پستی میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ یہ عروج و زوال کی کہانی نہ مادی قوتوں پر منحصر ہے، نہ سائنس و ٹکنالوجی کا اس میں عمل دخل ہے اور نہ علمی ترقیوںپر ہی اس کا انحصار ہے۔ یہ انسان کے اخلاقی کسب اعمال کا نتیجہ ہے جس کے نتیجے میں قومیں عروج و زوال کی طرف جاتی ہیں۔ لہٰذا ہماری تحریر و تقریر میں وہ عامیانہ رویہ نہ ہونا چاہئے۔ اس سے بچنے کی ہر ممکن سعی و جہد کی جائے، تب ہی ہماری بات اور دوسروں کی بات میں فرق ہوگا۔
مسلسل کوشش
انسان اس دنیا میں سعی وجہد کرنے کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ اس کی نجات اسی میں ہے کہ وہ اس کھوئے ہوئے مقام کو حاصل کر لے جہاں سے وہ کبھی نکالا گیا تھا۔ جنت کے حصول کے لیے لگاتار، مسلسل، بغیر رکے اور ٹھہرے کوشش کرتا چلا جائے۔
مشمولہ: شمارہ مارچ 2012