سوچتاہوں، بات کہاں سے شروع کروں؟ موضوعِ گفتگو سیّداسعد گیلانی ہیں۔ وہ سیّداسعد گیلانی جو اپنے آپ میں ایک ادارہ تھے۔ ایک ایسا ادارہ، جس سے بہ یک وقت مختلف علم و صلاحیت کے اور ہر میدانِ کار میں ساعی و متحرک رِجال وابستہ تھے اور اس سے ہدایت و رہ نمائی حاصل کرکے اپنے اپنے دائرۂ عمل میں اپنے حصّے کی ذمّے داری نبھارہے تھے۔
سیّداسعد گیلانی جو پاکستان کے علمی وتحریکی حلقوں میں شاہ صاحب کے باوقار نام سے یاد کیے جاتے تھے، ان سے میرے تعارف کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ تحریکِ اسلامی کے داعی وقائد مولانا سیّدابوالاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ سے میری پہلی ، مگر غائبانہ ملاقات شاہ صاحب ہی کی قلمی دعوت پر ہوئی تھی۔ انھی نے ’مولانا مودودی سے ملیے‘ نام کی کتاب لکھ کر ملّتِ اسلامیہ کے بے شمار لوگوں کو مولانا مودودی اور ان کی دعوت کو سمجھنے اور اس سے ذہنی وفکری وابستگی پیدا کرنے کی دعوت دی تھی۔ ان کی یہ دعوت اتنی مقبول ہوئی کہ انسانوں کی ایک بڑی تعداد مولانا مودودی کی اقامتِ دین کی دعوت سے متاثر ہوکر اسلام کے غلبہ و قیام کی جدّوجہد میں لگ گئی۔ آج جہاں جہاں مولانا مودودیؒ اور ان کی دعوت کو جاننے اور ماننے والے موجود ہیں، وہاںوہاں سیّد اسعد گیلانی کو بھی جاننے اور ماننے والے موجود ہیں۔
میں اپنے مطالعے کے دورِ اول میں حکیم الامت حضرت مولانا شاہ اشرف علی تھانویؒ اور مفکر اسلام حضرت مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے علاوہ جن علما، ادیبوں اور مصنفوں سے ذہنی طورپر منسلک رہا اور ان کی تحریروںکو میں نے اپنے لیے آئیڈیل بنایا اور انھیں ہضم کرنے کی کوشش کی، اُن میں مولانا عبدالماجد دریابادی، ڈاکٹر سیّدعبداللہ، رشید احمد صدیقی، ماہر القادری اور مولانا عامر عثمانی کے شانہ بہ شانہ ایک اہم نام سیّد اسعد گیلانی کا بھی ہے۔
ڈاکٹر سیّد اسعد گیلانی نے اپنی ادبی زندگی کاآغاز افسانہ نگاری سے کیاتھا۔ اب سے تین دہائی پہلے کے کسی بھی قابلِ ذکر رسالے کافائل اٹھالیجیے، اس میں آپ کو سیّداسعد گیلانی ضرور موجود ملیں گے۔ اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ ادب کی اِس صنف میں انھوں نے بڑے اہم کارنامے انجام دیے ہیں۔ آدم کے تین بیٹے، چمن آرزو، لہروں کے نیچے، جہنم کے دروازوں پر، چاند کاسلام اور اسعدگیلانی کے منتخب افسانے جیسے اُن کے کئی افسانوی مجموعے ناقدین ادب کی بارگاہ میں ’باریابی ‘ حاصل کرچکے ہیں۔ لیکن تحریکی ضرورتوں اورعصری تقاضوں کے پیش نظر انھوں نے دوسری اصناف میں بھی بہت کچھ لکھاہے۔ تحریک کو جب اور حیثیت سے بھی ضرورت پیش آئی، وہ ہمیشہ اس کے لیے آمادہ وتیار رہے۔ جب ہم ان کی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں؛تو وہ ہمیں کبھی ایک سیرت نگار کی حیثیت سے ملتے ہیں،کبھی ایک سوانح نگار کے طورپر، کبھی ہم انھیں ایک کہانی کار کی شکل میں دیکھتے ہیں؛تو کبھی ہفت روزہ ’جہانِ نو‘ کے صفحات میں ایک مدیر و صحافی کی شکل میں، کبھی وہ جماعت اسلامی پاکستان کی صف قائدین میں کھڑے ملتے ہیں؛ تو کبھی قومی اسمبلی کے رکن کی حیثیت سے ملک کے سیاست دانوں میں اور کبھی ایک باوقار خطیب ومقرر کی حیثیت سے۔ لیکن وہ جہاں اور جس حیثیت میں بھی رہے اپنے علمی اور تحریکی تشخص کے ساتھ رہے۔ کبھی اُنھوں نے ’چلوتم اُدھرکو ہوا ہو جدھر کی‘ کا رویّہ نہیں اختیار کیا۔
سیّداسعد گیلانی جماعت اسلامی پاکستان کے ہر چھوٹے بڑے منصب پر رہے، اس کی ہر سطح کی مجالسِ شوریٰ کی رکنیت کی بھی سعادت اُنھیں حاصل رہی، جہاں اور جس حیثیت میں بھی رہے، انھوں نے ایک دیانت دار اور فعال کارکن کاکردارا ادا کیا۔ اپنے متعدد اسفار میں، میں وہاں کے جن لوگوں سے بھی ملا، سب کو ان کی خدمات کا معترف و مدّاح پایا۔وہ تمام عمر ستایش کی تمنا اور صلہ کی پروا کیے بغیر جماعت کی اقامتِ دین کی مہم میں ساعی وکوشاں رہے۔ نہ کبھی کسی منصب کے خواہاں رہے، نہ کبھی خود کو مشخّص وممیّزکرنے کی کوشش کی۔ جماعت نے جہاں اور جس محاذ پر لگادیا ، پوری یک سوئی اور تن دہی کے ساتھ فرائض کی انجام دہی میں لگے رہے۔ یہاں تک کہ جماعت نے ان کے مزاج اورطبیعت کے علی الرغم انھیں الیکشن میں بھی کھڑا کردیا۔ اِس سلسلے میں فتح بھی ہوئی اور شکست بھی۔ لیکن نہ فتح و کام یابی پر جشن مسرت منایا اور نہ شکست و ناکامی پر کسی قسم کا رنج وغم یا شکوہ و شکایت۔ ظاہر ہے کہ ان کے مخلص و بے لوث ہونے کی یہ ایسی دلیل ہے، جس کی نظیر آج کے دور میں کم یاب ہے۔
جیساکہ میں نے گزشتہ سطور میں کہیں عرض کیاہے کہ سیّداسعد گیلانی سے واقفیت اور ان سے کسی نہ کسی درجے میں ذہنی وابستگی تو مجھے بہت پہلے سے تھی، لیکن ان سے خط و کتابت کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا، جب میں ادارۂ تجلّی دیوبند سے وابستہ ہوا اور اس کے ذمے دار بھائی حسن احمد صدیقی ﴿حسن الہاشمی﴾ نے ادارے سے نکلنے والے پندرہ روزہ جریدے ’اجتماع‘ کی ادارت مجھے تفویض کی۔ لیکن اس میں تسلسل نہیں تھا۔ پھر جب میں نے دیوبندہی سے اپنے مشفق ومحسن ڈاکٹر عبدالرحمن داعی مرحوم کی سرپرستی میں فروری ۰۸۹۱ میں ماہ نامہ ’الایمان ‘جاری کیا تو یہ سلسلہ تسلسل اور مستعدی کے ساتھ اور تادم آخر چلتارہا۔ انھوں نے ’الایمان‘ کے لیے مضامین بھی بھیجے اور شائقین کو ’الایمان‘ کی طرف متوجہ بھی کیا۔ نومبر ۱۹۸۲میں انھی کی ذاتی دعوت پر میں پاکستان گیا تو تقریباً بیس دن لاہور میں ان کا مہمان رہا۔ کراچی، سکھّر اور احمد پورشرقیہ میں مقیم اپنے عزیزوں کے ہاں بہت کم رہنے کا موقع مل سکا۔ اِس موقعے پر انھیں بہت قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا شرف حاصل ہوا۔ تبلیغی جماعت کے مرکز رائے ونڈ، کوٹ رادھا کشن، ڈسکا، جہلم، راول پنڈی، فیصل آباد اور نہ جانے کہاں کہاں کی سیر ان کے طفیل کی۔ کہیں بس سے اور کہیں ان کی کار سے۔ ہر جگہ تحریکِ اسلامی سے ان کی گہری وابستگی، غیرمعمولی اخلاص وللہیت اور رفقا کے ساتھ بے حد ہم دردی و خیرخواہی کے نقوش دیکھنے کو ملے۔ اِسی سفر میں لاہور کے ماڈل ٹاؤن کے ایک پروگرام میں بھی ان کی معیّت میں شرکت ہوئی۔ یہ جلسہ علامہ اقبال کی یاد میں منعقد ہواتھا۔ اِس جلسے میں پہلی اور آخری بارپاکستان کے ہردل عزیز خطیب اورجید عالمِ دین حضرت قاری محمد اشرف ہاشمی کو دیکھنے اور سننے کا موقع ملا۔ جلسے کاآغاز قاری صاحب کے ہی درسِ قرآن سے ہوا۔ درس کیاتھا بس سوزو کیف کاایک مواج سمندر تھا، جو حاضرین کو اپنی رَو میں بہائے لیے جارہاتھا۔ جس وقت قاری صاحب نے حاضرین کو آخرت کی طرف متوجہ کرتے ہوئے اللہ کے حضور جواب دہی کے ذیل میں علامہ اقبال کایہ مشہور قطعہ مثنوی مولانا رومؒ کے مروّجہ لہجے میں پڑھا:
تو غنی ازہر دوعالم من فقیر
روز محشر عذرہاے من پزیر
گرتومی دانی حسابم ناگزیر
ازنگاہِ مصطفی پنہاں بگیر
پورے مجمعے پر گریہ طاری ہوگیا۔ جس طرف بھی آنکھیں اٹھائیں، آنسوؤں کی برسات دیکھنے کو ملی۔ شاہ صاحب ﴿سیّداسعد گیلانی﴾ بھی اس سمندر میں غوطہ زن نظرآئے۔ افسوس کہ اپنی تقاریرو دروس کے ذریعے انسانوں کے قلوب کوفکرِ آخرت سے شرابور کردینے والا، اِسلام کا سچا اور مخلص یہ خادم﴿قاری اشرف ہاشمی﴾ ۱۹۸۴ سے ایسا لاپتاہواکہ اب تک کوئی سراغ نہ لگ سکا۔ بیوی، بچے، اعزہ و اقارب اور دوست احباب سب تڑپ تڑپ کر تھک کر بیٹھ گئے۔ کوئی کہتاہے قادیانیوں نے غائب کردیا، کوئی پرویزیوں، چکڑالویوں کا، کوئی کسی اور کانام لیتاہے۔ طرح طرح کی باتیں سامنے آئیں اور اب تک آتی جارہی ہیں، حقیقت اللہ ہی کے علم میں ہے۔
حضرت قاری اشرف ہاشمی کی تذکیر کے بعد شاہ صاحب نے ناظم جلسہ سے میرے نام کا اعلان کروادیا۔ میں نے نعت وغزل کے چند اشعار سنائے اور تقریباً پندرہ منٹ اقبال سے متعلق اپنے تاثرات بیان کیے۔ آخر میں شاہ صاحب نے تقریباً ڈیڑھ گھنٹے اقبال کے فکر اور فن پر گفتگو کی۔ ان کی گفتگو سے ایسا لگ رہاتھا کہ انھوں نے اقبال کو جتنی گہرائی سے پڑھا اور سمجھاہے، بہت کم لوگوں کو یہ توفیق ہوئی ہوگی۔ان کی حیات کو بھی گفتگو کا موضوع بنایا اور افکار و نظریات اور فنّی کمالات کو بھی۔
۱۹۸۲ کے اِس سفر کے بعد میں جب بھی پاکستان گیا، سیّداسعد گیلانی﴿شاہ صاحب﴾ کا ہی مہمان رہا۔ نومبر ۱۹۸۹ میں جماعت اسلامی پاکستان کے کل پاکستان اجتماع کے موقع پر ادارۂ علم و ادب پاکستان کے زیراہتمام ایک مشاعرہ بھی تھا۔ اس کانظم وانصرام شاہ صاحب ہی کے ذمّے تھا۔ پاکستان کے کئی قدآور شعرا اِس میں مدعوتھے۔ ہندستان سے راقمِ سطور کے علاوہ حضرت حفیظ میرٹھی، حضرت عزیز بگھروی ﴿مرحومین﴾ اور جناب انتظار نعیم مدعو تھے۔ شب میں بڑاکام یاب مشاعرہ ہوا۔ سامعین کی صحیح تعداد تو علم میں نہیں ہے، تاہم تاحدِّ نگاہ سامعین ہی نظرآئے۔ میں مشاعرے کے ایک دو دن کے بعد ہندستانی قافلے کے ساتھ کراچی چلاگیا۔ چوں کہ مجھے شاہ صاحب کے حکم کی تعمیل میں مزید کچھ دنوں وہاں رکنا تھا، بعض دوسرے مقامات سے بھی طلبی تھی، اِس لیے کراچی کے بعد میں اپنے قافلے سے الگ ہوگیا۔ میرے ہم راہ محب مکرم مولانا محمد طاہر مدنی ﴿موجودہ ناظم جامعۃ الفلاح بلریا گنج﴾ بھی تھے۔ لاہور، کراچی اور احمدپور شرقیہ میں ان کی کئی تقریریں ہوئیں، بہت پسند کی گئیں۔ شاہ صاحب نے بے حدپسند فرمایا۔ کئی گفتگوؤںمیں فرمایاکہ انھیں سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر گفتگو کامنفرد اور دل پزیر ملکہ حاصل ہے۔
شاہ صاحب ﴿سیّداسعد گیلانی﴾ جماعت اسلامی سے کب وابستہ ہوے، اس سلسلے میں قطعیت کے ساتھ کچھ نہیں کہاجاسکتا۔ البتہ یہ بات وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ وہ جماعت کے تقسیم کے بعد والے گروپ کے اوّلین لوگوںمیں تھے۔ ان کااصل وطن ہندستانی پنجاب کا مشہور شہر جالندھر ہے۔ لیکن ان کی ابتدائی تعلیم و تربیت بمبئی میں ہوئی تھی۔ یہیں سے انھوںنے گریجویشن بھی کیاتھا۔ ہندستان کے مشہور شاعر، ناقد، محقق اور ماہر لسانیات ڈاکٹر عصمت جاوید اور بمبئی کے بزرگ شاعر حضرت محسن انصاری ان کے اسی دور کے دوستوں میں تھے۔ مرحوم اپنے ان دونوں دوستوں کا تذکرہ بڑی محبت سے کرتے تھے۔ اب تو عصمت جاوید بھی اللہ کو پیارے ہوگئے۔ بڑی عظیم اور قدآور شخصیت کے مالک تھے۔
۳۰/دسمبر ۱۹۸۹ کو جالندھر میں بزم حفیظ جالندھری کے تحت یوم حفیظ جالندھری منایا گیا۔ اس ذیل میں ایک ہندوپاک مشاعرہ بھی تھا۔ مشاعرے کی نظامت کسی وجہ سے بروقت مجھے تفویض ہوگئی۔ میں نے اپنی ابتدائی گفتگومیں ہندستان اور پاکستان کی بعض اُن علمی وادبی شخصیتوں کاتذکرہ کیا، جن کا آبائی وطن کبھی جالندھر رہاہے۔ اس ضمن میں میں نے خصوصیت کے ساتھ ایک ادیب اور سیرت نگار کی حیثیت سے ڈاکٹر سیّداسعدگیلانی کا بھی تذکرہ کیا۔ جب وہ مشاعرہ جالندھر ٹیلی ویژن سے ٹیلی کاسٹ ہوا تو شاہ صاحب نے بھی لاہور میں اُسے دیکھا اور سنا۔ اگلے ہی دن میرے دیوبند کے پتے پر انھوںنے مجھے ایک تفصیلی خط لکھا۔ اس میں یہ بھی لکھا:
’آپ کی تقریر ہی سے یادآیاکہ کبھی میرا وطن جالندھر بھی رہاہے۔ ورنہ میں تو بھولاہوا تھا۔ اس کے بعد تو بچپن کے تمام نقوش اُبھرکر سامنے آگئے۔ بڑا مزہ آیا۔ غالب صاحب کا یہ مصرع بھی رہ رہ کر یاد آیا: ’یادِ ماضی عذاب ہے یارب‘۔
آگے چل کر تحریر فرمایا:
’زندگی میں وطن اور علاقے کو میں نے کبھی اہمیت نہیں دی۔ ہمارے سامنے ہمیشہ مقصد رہاہے، وہ مقصد جس کے لیے ہم سب پیدا کیے گئے ہیں۔‘
ڈاکٹر سیّداسعدگیلانی کے تحریکی انہماک اورنصب العین کے فروغ کے لیے ان کی سرگرمیوں کو دیکھ کر عہدِ صحابہ کے اُن اولوالعزم سپاہیوں کی یاد تازہ ہوجاتی تھی، جنھوںنے اپنا سب کچھ دینِ اسلام کے لیے وقف کردیاتھا اور ہر وقت داعیِ اسلام کے اشارۂ چشم و ابرو کے منتظر رہاکرتے تھے۔ وہ اپنی تحریکی سرگرمیوں کی وجہ سے متعدد بار جیل بھی گئے، وہاں ان کو طر ح طرح کی اذیتیں اور صعوبتیں بھی برداشت کرنی پڑیں، مگر کبھی ان کے پاے ثبات میں تزلزل نہ پیدا ہوا۔ بل کہ ہر بار وہ وہاں سے نیاعزم اور تازہ حوصلہ لے کر نکلے۔ ایک بار انھوںنے بتایاکہ ۱۹۷۳ میں لاہور کے موچی دروازے پر جماعت کا ایک بڑا جلسہ ہوا۔اس میں محترم میاں طفیل محمد صاحبؒ ، پروفیسر عبدالغفوراحمد صاحب اور جناب محموداعظم فاروقیؒ کے ساتھ ان کی بھی تقریر ہوئی۔ یہ وہ زمانہ تھا، جب بھٹو صاحب کا ظلم وستم شباب پر تھا۔ غلام مصطفی کھر ان دنوں پنجاب کے گورنر تھے۔ اللہ جانے شاہ صاحب کی کو ن سی بات ’مزاج یار‘ پر گراں گزری کہ اُنھیں گرفتارکرکے حوالات میں بند کردیاگیا۔ ایک ہفتے کے بعد ہائی کورٹ سے ضمانت پر رہائی کی درخواست منظور ہوئی، ابھی وہ جیل ہی میں تھے کہ پولیس انسپکٹر صاحب گرفتاری کا وارنٹ لے کر پہنچے ہوے تھے۔ اس لیے کہ اس سے ایک ماہ پہلے ان کی ایک تقریر کسی دوسرے مقام پر بھی ہوئی تھی، جو کہ طبع نازک پر گراں گزری تھی۔ لہٰذا تھانے کے احاطے ہی میں انھیں دوبارہ گرفتار کرلیاگیا۔ وہاں سے وہ اس مقام کے جیل میں لے جائے گئے، جہاں کی تقریر کی وجہ سے ان کی گرفتاری عمل میں آئی تھی۔ بڑی سعی و کاوش کے بعد وہاں سے رہائی کا حکم ہوا تو باہر آتے ہی احمد پور شرقیہ ﴿ضلع بہاول پور﴾ کے پولیس انسپکٹر صاحب شرفِ میزبانی حاصل کرنے کے لیے منتظر تھے۔ پتاچلاکہ بہت دنوں پہلے شاہ صاحب نے وہاں بھی کوئی ’کلمۂ حق‘ زباں سے نکال دیاتھا۔ احمد پور شرقیہ میں چند دنوں گزارنے کے بعد محترم سیّد صدیق الحسن گیلانی اور بعض دوسرے رفقا کی تگ و دو سے رہائی کا حکم ملاہی تھاکہ شہر بہاول پور تھانے کے ذمے داروں نے بھی اپنا مہمان بنانا چاہا اور بنایا۔ غرض کہ مہینے سوا مہینے کے اندر انھیں چار بار گرفتار کیاگیا اور جب وہ باہر آئے تو یہ کہتے ہوئے آئے:
شرعِ محبت میں ہے، عشرتِ منزل حرام
شورشِ طوفاں حلال، لذّتِ ساحل حرام
شاہ سیّد اسعد گیلانی ہندستانی مسلمانوں کے لیے اکثر مضطرب رہا کرتے تھے۔ ان کے مسائل سے اُنھیں بڑی دل چسپی تھی۔ آنے جانے والوں سے یہاں کے حالات بڑی توجہ سے سنتے تھے۔ ایک بار ہندستانی مسلمانوں کے حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا:
’تقسیم کافائدہ ہم پاکستان والے اُٹھارہے ہیں اور اس کی قیمت ہندستانی مسلمانوں کو چکانی پڑرہی ہے۔‘
موت سے تقریباً ایک ماہ پہلے انھوں نے مرکزی مکتبہ اسلامی دہلی کے اس وقت کے منیجر بھائی محمد جاوید اقبال صاحب کے نام ایک مکتوب میں تحریر فرمایا:
’’میں ایک خط اور اس کے ساتھ ایک فہرست تصانیف اس لیے ارسال کررہاہوں کہ میں آپ کو اطلاع دوں کہ آپ کو ان تصانیف میں سے جو کتاب بھی اپنے مرکزی مکتبے کی طرف سے شائع کرنے کی ضرورت ہو، آپ بے دریغ شائع کریں، میں اپنی تصانیف پر کسی بھی قسم کی رایلٹی نہیں لوںگا۔ آپ سے درخواست ہے کہ آپ اِن شائع شدہ کتب کی رایلٹی تبلیغ اسلام کے فنڈ میں ڈال دیں۔ میرے لیے بڑی سعادت اور اخروی نجات کا ذریعہ ہوگی کہ میرے حساب میں تبلیغ اسلام کا نام درج ہوجائے۔
﴿۲۹/فروری ۱۹۹۲﴾
ڈاکٹر شاہ سیّداسعد گیلانی عمر کے اعتبار سے ستّر،پچہتّر﴿۷۰،۷۵﴾ کی لپیٹ میں تھے، لیکن حوصلہ ہمیشہ جوانوں جیسا رہا۔ ایک ایک دن میں کئی کئی اجتماعات اور جلسوں میں شریک ہوتے تھے اور متعلقہ موضوع پر سیرحاصل گفتگو کرتے تھے۔ یہ ان کی جواں حوصلگی ہی تھی کہ اس عمر میں آنے کے بعد اور سوسے زیادہ کتابوں کے مصنف یا مولّف ہونے کے باوجود انھوں نے عمر کے بالکل آخری حصے میں سیاسیات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ لیکن انھوںنے کبھی اپنی کارکردگی پرفخر نہیں کیا، ہرخرد وکلاں کے چھوٹے بڑے کام کی تحسین کرنا اور معاملات و تعلقات میںیکساں برتاؤ کرنا ان کا امتیازتھا۔
آج شاہ صاحب اِس دنیا میں نہیں ہیں، لیکن ان کی علمی، دینی اور تحریکی سرگرمیوں کے نقوش باقی ہیں۔ اِن شاء اللہ یہ تادیر زندہ وپایندہ رہیں گے۔ دعاہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی قبرکو نور سے معمور کرے اور اقامتِ دین کے لیے ان کی سعی وکاوش کو ان کے لیے وسیلۂ نجات بنائے۔
مشمولہ: شمارہ نومبر 2010