اذان اور دعوت میں تعلق

(5)

قریش کے رئیس آنحضرتؐ کی خدمت میں بادشاہی اور سرداری اس شرط کے ساتھ پیش کررہے تھے کہ وہ ان کے بتوں کوبرا نہ کہیں۔ لیکن آپؐ نے ان کی اس درخواست کو ہمیشہ ٹھکرادیا، کیونکہ آپؐ کی دعوت کا مقصد محمدﷺ کی انسانی بادشاہی نہ تھی، بلکہ روئے زمین پرخدائے واحد برحق کی بادشاہی کا قیام تھا، اسی لئے اسلام دین و دنیا او ر جنت ارضی اور جنت سماوی اور آسمانی بادشاہی اور زمین کی خلافت کی دعوت لے کر اول ہی روز سے پیدا ہوا، اس کے نزدیک عیسائیوں کی طرح خدا اور قیصر دو نہیں ہے، ایک ہی شہنشاہ علی الاطلاق ہے، جس کے حدود حکومت میں نہ کوئی قیصر ہے اور نہ کسریٰ اسی کا حکم عرش سے فرش تک اور آسما ن سے زمین تک جاری ہے وہی آسمان پر حکمران ہے، اور وہی زمین پر فرماں رواں ہے۔   وَھُوَ الّذِیْ فِی السَّمآئِ اِلٰہُ وَ فیِ الْاَرْضِ اِلٰہُ (سورئہ زخرف آیت ۱۰) ترجمہ : (اور وہ وہی ہے جو آسمان میں معبود ہے اور وہی زمین میں بھی معبود ہے) وہ دیویوں اور دیوتائوں اور نمرودوں اور فرعونوں کو ایک ساتھ ان کے آستانوں اور ایوانوں سے نکالنے کے لیے آیا تھا اور اس بات کی منادی کرتا تھا کہ آسمان ہو یا زمین دونوں میں ایک ہی خدا کی حکومت ہوگی، اس کے لیے آسمان میں نہ کوئی دیوی ہوگی نہ دیوتا ہوگا، اور نہ اس کی زمین پر کوئی قیصر ہوگا اور نہ کسریٰ جو اس کی دعوت کی راہ کا روڑ ا بنے گا ، اس کو راہ سے ہٹایا جائے گا، اور جو اس کو روکنے کے لیے تلوار اٹھائے گا، وہ تلوار سے گرایا جائے گا۔(منقول سیرت النبیؐجلد۷ صفحہ۳۰)

علامہ سید سلیمان ندویؒ انسانی زندگی میں سیاست کی اہمیت و ضرورت کو واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں، (کسی جماعت کو منظم جماعت بنانے اور اس کی حفاظت کے لیے کسی قانون کو چلانے اور پھیلانے کے لیے ایک قوت عاملہ یا قوت عامرہ کی ضرورت فطرت انسانی کا تقاضہ ہے،اسی لیے جب سے انسانی تاریخ معلوم ہے ، کوئی ایسی جماعت نہیں بتائی جا سکتی جو کسی سردار کے بغیر وجود میں آئی ہو، انسانی گروہ جب محض خاندان تھاتو خاندان کا بڑا اس کا سردار تھا، اور اس کی زبان کا ہر حکم قانون تھا، جب خاندان نے جماعت کا روپ بھرا تو جماعت کا چودھری اس کا حاکم و آمر بنا، پھر جماعت نے آگے بڑھ کر قوم کی صورت اختیار کی تو  رہنمائی کا پیغام لئے ہوئے ہے اس لیے انسانی زندگی کے جتنے تقاضے ہیں ان تمام تقاضوں میں اسلام کی رہنمائی ہے، اس لحاظ سے انسانی زندگی کا کوئی ایک شعبہ بھی ایسا نہیں دکھایا جا سکتا جس میں اسلام کی ہدایت موجود نہ ہو، اور یہ بھی حقیقت ہے کہ انسانی زندگی میں جو چیز جتنی لازمی اور ضروری ہے وہ  اسلام کی تعلیم میں بھی اتنی ہی لازمی و ضروری ہے،چنانچہ انسانی زندگی میں سب سے لازمی چیز اس کا عقیدہ ہے، اسلئے اسلام نے بھی اس کو لازمی قرار دیا ہے، اور اسلام کی بنیاد ہی عقیدہ پرہے، انسانی زندگی میں دوسری اہم چیز کسی کی پوجا پرستش ہے، اسلام نے اس ضرورت کا انتظام عبادات کی تعلیم دیکر کیا ہے، چنانچہ یہ عبادات کا نظام ایساجامع ہے، جو ایک انسان کو مکمل طور سے اللہ ہی کی بندگی سے جوڑے رکھتا ہے،اور غیر اللہ کی بندگی سے دور رکھتا ہے۔ انسانی زندگی کی ایک اہم ضرورت اچھے عمل کو اختیار کرنا ، اور برُے عمل سے بچنا ہے، اسلام نے اس ضرورت کا انتظام معروف کا حکم دے کر، اور منکر سے منع کرکے کیا ہے، معروف و منکر کا دائرہ بہت وسیع ہے جو پوری انسانی زندگی کو شامل ہے ، اس کو حلال و حرام کے نام سے بھی سمجھا جا سکتا ہے، اسی طرح اچھے اعمال اور برے اعمال سے بھی سمجھا جا سکتا ہے۔اسلام میں دینی سیاست و حکومت کی کتنی اہمیت ہے ، مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کی ایک تحریر سے اچھی طرح سمجھا جا سکتا ہے، جو آپؒ نے اپنی کتاب سیرت سید احمد شہید ؒ میں تحریر فرمایاہے، چنانچہ سیرت سید احمد شہید جلد اول کے چند صفحات من وعن نقل کئے جا رہے ہیں۔

’’ رسول اللہ ﷺ کا دُنیا میں ایک بہت بڑا کام اور آپ ﷺ کی بعثت کا ایک اہم مقصد انسانوں پر اللہ کی حکومت اور شریعت کا قائم کرنا، زمین میں آسمانی نظام سیاست و اخلاق  و معاشرت کا جاری کرنا تھا ، پشاور کے فاتح اور ۱۳ ویں صدی کے امیر المومنین کی زندگی میں اتباع نبوی کی یہ حیثیت بہت نمایاں نظر آئے گی اور اسی چیز نے مشائخ اُمّت میں اس جوان کا سر اُونچا کردیا ہے۔ مصلحین اور علماء و مشائخ نے بلا شبہ اسلام کی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں، اور دے رہے ہیں ، ہزاروں بندگان خدا کو ان سے ہدایت ملی، ہزاروں کو ان کی وجہ سے کلمہ نصیب ہوا، ہزاروں کے خاتمے اچھے ہوئے، آج بھی رسول اللہ ﷺ کا یہ فیض ان سے جاری ہے لیکن ان سب کے حلقے اور عمل کے دائرے محدود ہیں۔ سید صاحب ؒ نے اس نکتہ کو اچھی طرح سمجھا کہ حکومت الٰہی کے قیام اور اسلامی نظام حیات و قوانین و حدود کے اجرا اور ماحول کی تبدیلی کے بغیر یہ سب کوششیں ’ کندہ و کاہ برآوردن‘ ثابت ہوں گی صرف چند خاص لوگوں کی اصلاح ہوگی، لیکن ضرورت فضا بدلنے اور جڑ مضبوط کرنے کی ہے، آپ ؒ اسی نقشہ پر کام کرنا چاہتے  تھے جس پر رسول اللہ ﷺ اور آپ ﷺ کے خلفاء راشدین ؓ نے کیا ، اور تجربہ یہ زیادہ اور پائدار کامیابی اسی کو ہوئی اور قیامت تک اسلام کی ترقی کے لئے وہی نظام عمل ہے ۔ اسلام صرف خواص کا مذہب نہیں اور چند منتخب لوگوں کا ان پر عمل کرنا کافی نہیں ، اسی طرح اسلام عیسائیت کی طرح چند عقائد و رسوم کا نام نہیں، وہ پوری زندگی کا نظام ہے، وہ زمانے کی فضا، طبیعت بشری کا مذاق اور سواداعظم کا رنگ بدلنا چاہتا ہے اور عقائد کے ساتھ ساتھ اخلاق و معاشرت زندگی کے مقاصد و معیار، زاویہ نظر اور انسانی ذہنیت کو بھی اپنے قالب میں ڈھالنا چاہتا ہے، یہ اسی وقت ہوسکتا ہے کہ اس کو مادی و سیاسی اقتدار حاصل ہو، صرف اسی کو قانون سازی اور تنفیذ کا حق ہو، اسی سے صحیح نمائندے دنیا کے لئے نمونہ ہوں ، اسلام کے مادی اقتدار کا لازمی نتیجہ اس کا روحانی اقتدار اور صاحب اقتدار جماعت کے اخلاق و اعمال کی اشاعت ہے، اسی حقیقت کو قرآن نے اس طرح بیان کیا ہے :  اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰھُمْ فِی الْاَرضِ اَقَامُوْا الصَّلٰوۃَ وَ آتَوُا الزَّکوٰۃَ وَ اَمَرُوْا بِالمعٰرُوْف وَ نَھَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ وَ لِلِّٰہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِ۔ (۲۲:۴۱)  ’’یہ مظلوم وہ ہیں کہ اگر ہم نے  زمین میں انھیں صاحبِ اقتدار کردیا،  ( یعنی انکا حکم چلنے لگا ) تو نماز قائم کریں گے ادائے زکوٰۃ میں سرگرم ہونگے ، نیکیوں کا حکم دیں گے، بُرائیوں سے روکیں گے اور تمام باتوں کا انجام کاراللہ ہی کے ہاتھوں میں ہے‘‘۔

شرعی حکومت کے بغیر شریعت پر پورا عمل بھی نہیں ہوسکتا ، اسلام کے نظم ِ عمل کا ایک مستقل حصہ ایسا ہے جو حکومت پر موقو ف ہے۔ حکومت کے بغیر قرآن مجیدکا ایک پورا حصہ ناقابل ِ عمل رہ جاتا ہے۔ خود اسلام کی حفاظت بھی قوت کے بغیر ممکن نہیں ، مثال کے طور پر اسلام کا پورا نظام مالی و دیوانی و فوج داری معطل ہوجاتا ہے، اسی لئے قرآن غلبہ و عزّت کے حصول پر زور دیتا ہے ، اور اسی لئے خلافتِ اسلامی بہت اہم اور مقدس چیز سمجھی گئی اور اس کو اکابر صحابہ ؓ نے رسول اللہ ﷺ کی تجہیز و تکفین پر مقدم رکھا ، جسے بہت سے کوتاہ نظر نہیں سمجھتے اور اسی کی حفاظت کے لئے حضرتِ حُسین ؓ نے اپنی قربانی پیش کی تاکہ اسکا مقصد ضائع نہ ہو اور وہ نا اہل ہاتھوں میں نہ جانے پائے۔ امربالمعروف اور نہی عن المنکر اسلام میں جس قدر اہم فریضہ ہے ، وہ اس سے ظاہر ہے کہ اُمّت کی بعثت کا مقصد یہی بتایا گیا ہے ۔  کُنْتم خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ (سورئہ ال عمران آیت ۱۱۰) ’’ تم بہترین قوم ہو جو لوگوں کے لیے ظاہر کی گئی ہے تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو۔‘‘اور قیامت تک کے لیے مسلمانوں پر یہی فرض قرار دیا گیا ہے:وَلْتَکُمْ مِنْکُمْ اُمَّۃُ یَّدْعُوْنَ اِلیٰ الْخَیْرِ وَیَاْمَرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ (۳:۱۰۴)’’ تم میں ایک ایسی جما عت رہنی چاہیے جو بھلائی کی طرف دعوت دیتی رہے، نیکی کا حکم کرتی رہے اور برائی سے روکتی رہے‘‘۔

اہل علم جانتے ہیں امر ونہی کے لفظ میں اقتدار اور تحکم کی شان ہے ، یہ نہیں فرمایا کہ وہ بھلائی اختیار کرنے کے لیے درخواست و عرض کریں گے ، پس امر ونہی کے لیے سیاسی اقتدار اور مادی قوت کی ضرورت ہے اور امت کا فریضہ ہے کہ وہ اس کا انتظام کرے ۔ صحیحین کی مشہور حدیث ہے :  مَنْ رَأی مِنْکُمْ مُنْکَراً فَلْیُغَیِّرْہُ بِیَدِہٖ فَاِنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِہٖ فَاِنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِہٖ وَذٰلِکَ اَضْعَفُ لْاِیْمَانِ ’’تم میں سے کوئی شخص کوئی برا کام دیکھے ، اسے ہاتھ سے روک دے اگرہاتھ سے نہ روک سکے تو زبان سے روکے، اگر زبان سے بھی نہ روک سکے تو دل سے برا سمجھے اور یہ آخری درجہ ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے‘‘۔ظاہر ہے  تَغْیِیْرِ بِاْلیَدِ (ہاتھ سے بدل دینے اور عملی اصلاح) کے لیے قوت و اقتدار کی ضرورت ہے، زبان سے روکنے کے لیے قوت و آزادی کی ضرورت ہے، اگر یہ کچھ نہیں تو تیسرے درجہ پر قناعت کرنی پڑے گی، جو ایمان کا آخری درجہ ہے اور جس کے بعد بعض روایات کے مطابق ایک ذرہ برابر بھی ایمان نہیں رہ جاتا، مشاہدہ اور تجربہ ہے کہ غلامی میں دل سے برا سمجھنا اور زشت و نیک کا احساس بھی جاتا رہتا ہے۔(منقول : سیرت سید احمد شہید، جلد اول صفحہ ۵۶  تا  ۵۹)

سیرت سید احمد شہید ؒ ہی میں مولانا سیدابو الحسن علیٰ ندوی ؒ تحریرفرماتے ہیں۔( اسلام کی خدمت اور نوع انسانی کی سعادت کا ایک ہی لائحہ عمل ہے، جو اس کتاب میں بتایا گیا ہے اور وہ وہی ہے جس کے مطابق جناب رسولﷺ اور آپ کے خلفائے راشدین اور بعض مجددین امت نے عمل کیا، یعنی دنیا میں اسلامی شریعت اور خلافت کا صحیح نظام قائم کرنا اور اسلام کے اخلاقی ، روحانی،مادی، سیاسی غلبہ کی کوشش کرنا، اسی طرح سے مسلمانوں کی منزل مقصود کا بھی صرف ایک ہی راستہ ہے، اور وہ وہی راستہ ہے جس سے امت کا پہلا قافلہ منزل تک پہنچا ہے، ) لَنْ یُصْلِحَ آخِرَ ھٰذِہِ الْاُمَّہِ اِلّاَمَا اَصْلَحَ اَوَّ لُھَا۔ (اس امت کے پچھلوں کی اصلاح صرف وہی چیز کر سکتی ہے جس نے اگلوں کی اصلاح کی تھی ، یعنی دین خالص اور اس کی پیروی) (منقوع سیرت سید احمد شہیدؒ جلد اول صفحہ ۴۳)

اسی جلد میں ایک اور مقام پر مولانا علی میاں ندویؒ تحریر فرماتے ہیں، (دین کا قیام سلطنت سے ہے اور وہ دینی احکام جن کا تعلق حکومت سے ہے، سلطنت کے نہ ہونے سے صاف ہاتھ سے نکل جاتے ہیں، اور مسلمانوں کے کام کی خرابی اور سرکش کفار کے ہاتھ سے ان کی ذلت و نکبت اور شریعت مقدسہ کے شعائر کی بے حرمتی اور مسلمانوں کے معابد و مساجد کی جو تخریب ہوتی ہے وہ بخوبی ظاہر ہے۔ (سیرت سید احمد شہید جلد۱ صفحہ ۴۲۲) اسی طرح سورئہ ال عمران کی آیت ۱۰۴  وَلْنکُنْ مِنْکُمْ اُمَّۃُ یَّدْعُوْنَ اِلٰی الْخَیْرِ وَ بَامُرُوْنَ بِالْمَعرُوف وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرْ وَاُولٰٓیِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ (ال عمران آیت ۱۰۴)  ترجمہ : اور ضرور تم میں ایک ایسی جماعت ہونی چاہئے جو بھلائی کی دعوت دے، اور معروف کا حکم دے اور منکر سے روکے) سیرت سید احمد شہیدؒ میں مولانا علی میاں ندویؒ   مذکورہ آیت کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں ، (لیکن یہ یاد رہے کہ امر  (حکم) اور نہی (ممانعت) کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں، اہل علم جانتے  ہیں کہ امرو نھی کے لفظ میں اقتدار و تحکم کی شان ہے، یہ نہیں فرمایا کہ وہ بھلائی اختیار کرنے کے لئے درخواست وعرض کریں گے، پس امر و نہی کے لیے سیاسی اقتدار اور مادی قوت کی ضرورت ہے اور امت کا فریضہ ہے کہ وہ اس کا انتظام کرے۔ (منقول سیرت سید احمد شہید جلد۱ صفحہ ۵۷)

برصغیر ہندوپاک کے فکری و علمی رہنما شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کی ایک تحریر سے بھی اسلام میں، اسلامی سیاست و حکومت کی اہمیت و ضرورت  اچھی طرح واضح ہوتی ہے، جو آپؒ نے اپنی شہرہ آفاق کتاب  حُجَّۃ اللہِ الْبالغہ  میں تحریر فرمایا ہے۔چنانچہ وہ تحریر متن و ترجمہ کے ساتھ پیش کی جارہی ہے ۔

’’ جان لے کہ مسلمانوں کی جماعت میں کئی مصلحتوں کی وجہ سے ایک خلیفہ ہونا واجب ہے کہ اس کے موجودگی کے بغیر یہ مصلحتیں پوری نہیں ہوسکتی اور یہ مصلحتیں کئی ہیں ان کی دو قسمیں ہیں ایک وہ قسم ہے جو کہ شہری ریاست کی طرف لوٹتی ہیں۔ یعنی افواج کا دفاع کرنا جو کافروں سے جنگ کریں اور ان کو مغلوب کریں اورظالم کو ظلم سے روکنا اور جھگڑ ے چکانا وغیرہ ہم ان حاجات کی پہلے وضاحت کرچکے ہیں۔ مصلحتوں کی دوسری قسم وہ ہے جو کہ ملت کی طرف لوٹتی ہے اور وہ یہ کہ دین اسلام کا دوسرے تما م ادیان  پر عظمت ظاہر کرنا اور یہ تب ہی ہوسکتا ہے جب کہ مسلمانوں میں ایک خلیفہ ہو جو ملت سے خروج و بغاوت کرنے والے کو روکے۔ دین میں جس کو حرام قرار دیا گیا ہے اس کے ارتکاب کرنے والے پر سختی کرے ، اور جو فرض قرار دیا گیا ہے اس کے چھوڑنے والے پر سختی سے باز پرس کرے۔ دوسرے تمام ادیان کو نیچا دکھائے اور ان سے جزیہ وصول کرے اور وہ ذلیل ہوں ۔ اگر ایسا نہ ہوا تو کافر و مسلم درجہ میں برابر ہوجائیں گے اور ان دونوں فرقوں میں سے کسی ایک کی ترجیح و افضلیت ظاہر نہ ہوگی اور نہ انہیں کوئی سرکشی سے روکنے والاہوگا‘‘۔( حجۃ اللہ البالغہ : جلد دوم، صفحہ ۳۷۰)

(جاری)

مشمولہ: شمارہ اپریل 2018

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau