اسلام کی تعلیم اور اسلام کا تعارف

(خطبہ جمعہ کے لیے وہ مثالی دن ہوگا جب بستی کے غیر مسلم بھی خطبہ جمعہ سننے کےلیے مسجد کے پاس جمع ہوجائیں، اس احساس کے ساتھ کہ یہاں تو زندگی کو روشن کردینے والی سوغاتیں تقسیم ہورہی ہیں۔(

ہماری اس گفتگو میں اسلام کی تعلیم سے مروجہ دینی تعلیم مراد نہیں ہے، جو احکام ومسائل تک محدود رہتی ہے، بلکہ وہ تعلیم مراد ہے جو بتائے کہ اسلام کے مطابق پوری زندگی کیسے گزاری جاتی ہے۔ اسی طرح اسلام کے تعارف سے اسلام کے بنیادی عقائد کا تعارف مراد نہیں ہے، جو غیر مسلموں کو پمفلٹ اور کتابچہ دے کر یا تعارفی تقریر کرکےانجام پائے، بلکہ اسلام کو اس کی تمام تر خوبیوں کے ساتھ ان کے سامنے پیش کرنا ہے، کہ اسلام سے متعلق ان کے ذہنوں پر چھائی ہوئی گرد دور ہوجائے۔

اسلام کی تعلیم ہمیشہ سے مسلمانوں کی سب سے بڑی ضرورت رہی ہے، اور ہمیشہ رہے گی۔ وہ اسلام کےتقاضوں سے واقف ہوں، اسلامی اقدار کی آگہی حاصل کریں، اور اسلامی طرز زندگی سیکھیں، خواہ یہ تعلیم مسجد میں ہو یا مدرسے میں،نصابی کتابوں اور استاذکے ذریعے ہو، ذاتی مطالعے سے ہو،یا وعظ وتقریر سے۔اسلام نہیں جاننا مسلمانوں کی سب سے بڑی بیماری ہے، اور مسلمانوں کی تمام کمزوریوں اور پریشانیوں کا سب سے بڑا سبب ہے۔

ناواقف انسانوں کواسلام سے متعارف کرانا مسلمانوں کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے، لوگ اسلام کی خوبیوں سے واقف ہوں، اس سے آگاہ ہوں کہ اسلام ان کےلیے باعث خیر ہے،وہ ان کی سب سے بڑی ضرورتوں کی تکمیل کا یقینی سامان اور ان کے مشکل ترین مسائل کا بہترین حل ہے، غلط فہمیوں کا پردہ چاک ہوجائےاور اسلام کی روشنی ان کے سامنے آجائے ۔اس وقت دنیا کے بہت سے لوگ اسلام سے ناواقف ہی نہیں بلکہ بدگمان بھی ہیں، اوربلاشبہ بدگمانی سے دوری اور نفرت بڑھتی ہے۔

اس دور میں تعلیم اورابلاغ کے جدید ترین اورتیز اثر وسائل کا استعمال عام طور سے مادہ پرستی کی خدمت کےلیے ہورہا ہے۔ تعلیمی ادارے ایسے افراد تیار کرنے میں مصروف ہیں، جو سرمایہ دارانہ نظام کی خاطر اپنی پوری زندگی وقف کرنے کےلیے تیار ہوں۔اس کے علاوہ حقیقی دنیا سے کاٹ کر ہر وقت گم رکھنے والے طرح طرح کے چھوڑے بڑے اسکرین صحیح معنوں میں بچوں سے بڑوں تک سب کےلیے افیون بنے ہوئے ہیں۔

میڈیا کے ذرائع جہاں دوسرے بہت سے حقائق پر پردہ ڈالنے کا فریضہ انجام دیتے ہیں، اسلام اور اسلام پسند مسلمانوں کی صورت بگاڑ کر پیش کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔

رائج الوقت ساحری دراصل خراب چیزوں کو اچھا بتانے اور اچھی چیزوں کو خراب بتانے کی ہے،  یہ تعارف کی جنگ کا دور ہے۔ اور یہ جنگ اسلام کو سب سے زیادہ درپیش ہے، اہل اسلام کے سامنے جدوجہد کا بہت بڑا میدان یہ ہے کہ اسلام کے غلط تعارف کے مقابلے میں زیادہ قوت اور وضاحت کے ساتھ اسلام کا صحیح تعارف پیش کریں۔اس تعارف میں مسلمانوں کے سماجی رویے کا بہت بڑا کردار ہوگا۔

موجودہ صورت حال میں اسلام کی تعلیم اور غیر مسلموں میں اسلام کے تعارف پر بہت زیادہ توجہ دینا پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہوگیا ہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کے پاس ابلاغ کے جو بھی روایتی اور غیر روایتی، قدیم وجدید طریقے میسر ہیں ان سبھی کا ان دونوںمقاصد کےلیے بھر پور استعمال ہونا چاہیے۔مثال کے طور پر ربیع الاول کے مہینے میں میلاد النبی کے بے شمار جلسے ہوتے ہیں، ان جلسوں کی شرعی حیثیت سے قطع نظر ،واقعہ یہ ہے کہ یہ جلسے مقامی طور پر مسلمانوں کے درمیان ایک طاقت ور ذریعہ تعلیم اور بلند آہنگ ذریعہ ابلاغ کی حیثیت رکھتےہیں،اگر ان میں کی جانے والی تقریریں، اور پڑھی جانے والی نعتیں اسلام کی تعلیم اوراسلام کے تعارف کا ذریعہ بن جائیں، تو ملک وملت پراچھےاثرات پڑنے کی توقع کی جاسکتی ہے۔

اسلام کی تعلیم اور اسلام کے تعارف کےلیے سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کیا جاسکتا ہے، پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا تک سب کی رسائی ممکن نہیں ہے، تاہم سوشل میڈیا میں کچھ نہ کچھ حصہ داری تو ہر کسی کی ہوسکتی ہے۔ لیکن ابھی تک اس کا زیادہ تردینی استعمال وقتی مسائل اور داخلی تنازعات کے حوالے سے ہورہا ہے۔دینی تعلیم اور دینی شعور رکھنے والے افراد کی اچھی خاصی تعداد سوشل میڈیا پر فعال ہے، لیکن اس فعالیت سے اسلام کو راست فائدہ نہیں پہونچ رہا ہے۔برساتی دریا کی طرح زور وشور سے بہتی ہوئی پوسٹوں میں سنجیدہ پیغام بہت کم اور جذباتی رد عمل بہت زیادہ نظر آتاہے۔

خطبہ جمعہ اسلام کی تعلیم کا بہترین ذریعہ ہے، سوشل میڈیا پرنشر کرکے اسے اسلام کی تعلیم و تعارف کا بہترین وسیلہ بھی بنایا جاسکتا ہے، لیکن تعلیم وتعارف کے اس بے نظیر انتظام کا صحیح استعمال نہیں ہوپا رہا ہے۔خطبہ جمعہ کو بامقصد بنانےکے سلسلے میں جتنی ذمہ داری خطیب کی ہے اس سے کہیں زیادہ ذمہ داری مسجدوں کی انتظامیہ کی ہے۔حالیہ صورت حال یہ ہے کہ خطیبوں کو انتظامیہ کا پابند رہنا پڑتا ہے۔اس لئے مسجد وںکی انتظامیہ کا فرض ہے کہ وہ خطیب کو مکمل آزادی دے کہ و ہ صحیح اسلامی تعلیمات پیش کرے، ساتھ ہی مسجد کی انتظامیہ خطیب کو باصرار ترغیب بھی دے کہ وہ پوری تیاری کے ساتھ اپنی اس ذمہ داری کو بہتر طریقے سے انجام دے۔ مسجد کے عام نمازی بھی اس کےلیے ماحول سازی میں حصہ لےسکتے ہیں ۔

خطبہ جمعہ کےلیے وہ مثالی دن ہوگا جب بستی کے غیر مسلم خطبہ جمعہ سننے کےلیے مسجد کے پاس جمع ہوجائیں، اس احساس کے ساتھ کہ یہاں تو زندگی کو روشن کردینے والی سوغاتیں تقسیم ہورہی ہیں۔

لیکن ابھی کم سے کم اتنا تو ضرور ہو کہ ہر جمعہ کو خطبہ سننے والے مسلمانوں کو دینی غذا ملنے کا فرحت بخش احساس ہوا کرے۔

خواتین کا سماج مسجد سے دور ہونے کی وجہ سے اسلامی تعلیم کے مواقع سے بہت زیادہ محروم ہے،ہر طرف چھائی ہوئی کفر والحاد کی فضا میں دین وایمان پر باقی رہنامردوں کی طرح عورتوں کی بھی ضرورت ہے، اور اس کےلیے دین کی تعلیم ناگزیر ہے۔ خطبات جمعہ وعیدین سے استفادے کا انتظام ہو تو بہت بہتر ہے، ورنہ تسلی بخش متبادل کی جستجولازم ہے۔خطبات جمعہ وعیدین کے علاوہ بھی مسجد میں دینی تعلیم کے بہت سے انتظامات ممکن اور مطلوب ہیں، اور ان تک خواتین کی رسائی بھی ہونی چاہیے۔ خواتین کی دینی تعلیم کے سلسلے میں لاپرواہی کبھی درست نہیں رہی، لیکن اس دور میں تو وہ ایک سنگین جرم قرار پائے گی۔

تعلیم اسلام کی رائج شکلوں میں چھوٹے بچوں کی تعلیم کا خاطر خواہ خیال نہیں ہوپاتا ہے۔ مسجد اور مسجد کے باہر مختلف مواقع پر جو تقریریں ہوتی ہیں وہ بڑوں کو مخاطب کرتے ہوئے انھیں کے لب ولہجے میں ہوتی ہیں، دینی کتابیں بھی عام طور سے بڑوں کو سامنے رکھ کر لکھی گئی ہیں، مکاتب میں رائج تعلیم ہو یا خصوصی طور سے سے گھر پر آکر پڑھانے والے مدرسین ہوں وہ بچوں کو کچھ ضروری معلومات تو ذہن نشین کرادیتے ہیں، لیکن اسلامی طرز زندگی اور اسلامی اقدار کی تعلیم کے سلسلے میں بڑی تشنگی رہ جاتی ہے۔اس پہلو پر بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

تعلیم وتعارف کے اس بڑے مقصداور ضروری کام کےلیے ایسے افراد کی تیاری بھی ضروری ہے جوجزوی امور اور فروعی احکام ومسائل سے آگے بڑھ کراسلام کو طریقہ حیات کے طور پر دیکھنے والی نگاہ رکھتے ہوں، اور جو مسلک کا دفاع کرنے کے بجائے اسلام کے تعارف میں موثر کردار ادا کرسکتے ہوں۔بہت بڑی تعداد میں ایسے افراد کی تیاری کا یہ ضروری اور فوری کام دینی مدارس کا بھی ہے، اور دینی جماعتوں کا بھی ہے۔ لیکن سب سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ پوری امت اس کام کی اہمیت کو محسوس کرے اور امت کا ہر فرد اپنے آپ کو اس کےلیے تیار کرے۔ امت کا ہر فرد اسلام کی صحیح تعلیم دینے والا اور اسلام کا بہترین تعارف کرانے والا بن جائے،امت سےنسبت کا یہ ضروری تقاضا ہے۔

مشمولہ: شمارہ جنوری 2020

مزید

حالیہ شمارے

دسمبر 2024

شمارہ پڑھیں

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223