قائد تحریک اسلامی مولانا سیّد جلال الدین عمری نے جماعت اسلامی ہند کے اجتماع ارکان منعقدہ ۴ تا ۷/نومبر ۲۰۱۰ کے اختتامی اجلاس میں جو خطاب فرمایاتھا، اسے ’زادِ راہ‘ کی حیثیت حاصل ہے۔ افادۂ عام کی غرض سے اس کے اقتباسات قارئین ‘زندگی نو’ کی خدمت میں پیش کیے جارہے ہیں۔ اِس کی ترتیب و تدوین کا فریضہ مولانا عبدالحق فلاحی نے انجام دیاہے۔ ﴿ادارہ﴾
آٹھ سال بعد جس ذوق وشوق سے ارکان جماعت نے ملک کے طول و عرض سے اس کل ہند اجتماع ارکان میں شرکت کی اس سے آنکھوں کو نور اور دل کو سرور حاصل ہواہے۔ معذور اور بزرگ اصحاب بھی دوسروں کے سہارے یہاں آئے ہیں۔ یہ تحریک سے ان کے گہرے تعلق کی دلیل ہے۔ ناموافق موسم کااتار چڑھائو سب نے برداشت کیا، مگر موسم کی سختی کی کسی نے شکایت نہیں کی۔
یہ اجتماع بخیرو خوبی ختم ہورہاہے، اس پر ہم تہہ دل سے اللہ کاشکر ادا کرتے ہیں۔
جماعت دراصل ایک اجتماعیت کا نام ہے، اس اجتماعیت کی اہمیت کو محسوس کیجیے۔اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کے ماننے والوں کو ایک امت قرار دیاہے ۔فرمایا : وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعاً ﴿تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑو﴾ یہاں ‘اللہ کی رسی’سے مراد اس کا دین اور اس کی کتاب ﴿قرآن﴾ ہے۔
امت بامقصد گروہ کوکہتے ہیں۔ منتشر افراد کے گروہ کو امت نہیںکہتے۔ یہ بامقصد افراد کا گروہ ہے، جس کا اعلان قرآن مجید میں وَکَذَالِکَ جَعَلْنَا کُمْ اُمَّۃً وَّسَطَاًلِّتَکُوْنُوْا شُہَدَائَ عَلٰی النَّاسِ، کے ذریعے کیا گیاہے۔ مگر افسوس ہے کہ یہ ‘امت ِوَسَط’ آج تفرقہ اور اختلافات کاشکار ہے۔ ۵۱ کروڑ کی آبادی بیسیوںطبقات میں بٹی ہوئی ہے۔
جماعت اسلامی چاہتی ہے اور اس کے لیے سعی وجہد بھی کررہی ہے کہ پوری امت اللہ کے دین کی بنیادپر متحدہو۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ خود اس کا نمونہ پیش کرے۔ آپ کی صفوں میں جو اتحاد ہے، وہ بڑا گراں بہاہے اس اتحاد کو ہر قیمت پر باقی رکھیے۔
قرآن اور حدیث میں امت کو جسدواحد کہاگیاہے۔ چنانچہ حدیث میں آتاہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَثَلُ المُؤمِنِیْنَ فَیْ تَواَدِّھِمْ وَ تَرَاحُمِہِمْ وَتَعَاطُفِہِمْ مَثَلُ الجَسَدِ اذَا اشْتَکیٰ عُضُوٌ مِّنْہُ تَدَاعٰی لَہ’ سَائِرُ الجَسَدِبِاالسَّہَرِوَالحُمّٰی۔ ﴿مسلم: کتاب البروالصلۃ والآداب﴾
‘مومنوں کے باہم ایک دوسرے سے محبت کرنے، آپس میں رحم دلی سے پیش آنے اور ایک دوسرے کے تئیں مہرو مروت کا سلوک کرنے کی مثال جسم کی ہے کہ اس کاایک عضو جب تکلیف سے دوچار ہوتاہے تو پورا بدن بے خوابی اور بخار میں مبتلا ہوجاتاہے۔’
اس حدیث میں جس حقیقت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اہلِ ایمان کے درمیان صلاحیتوں کا فرق ہوگا اور وہ مختلف سطح کے کام انجام دیںگے۔کوئی ہاتھ ہوگا، کوئی پیر ہوگا، کوئی کان ہوگا۔ مگر بحیثیت مجموعی وہ ایک جسم ہوںگے۔ سورۂ صف میں غلبۂ دین کی بشارت ہے۔ اس سے پہلے اتحاد کا ذکر ہے۔
اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الذِّیْنَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِہٰ صَفّاً کَأَنَّہُمْ بُنْیَانٌ مَّرَصُوْصٌ ﴿الصّف:۴﴾
‘اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے محبت کرتاہے جو اس کی راہ میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح صف بستہ ہوکر لڑتے ہیں۔’
اس کامطلب یہ ہے کہ غلبۂ دین کے لیے امت کی صفوں میں مضبوط اتحاد کاپایاجانا ضروری ہے۔ جماعت کے اندر کسی بھی مسئلے میں اختلاف کاپایاجانا بعید نہیں ہے۔ لیکن اختلاف کو اپنے حدود میں ہوناچاہیے۔ دستور جماعت میں اختلافات کو حل کرنے کا طریقہ بھی بیان ہواہے اور یہ آپ ہی کا طے کردہ ہے۔اس کی پابندی ہونی چاہے۔ اختلافات حل کرنے کے لیے شوریٰ کا فورم موجود ہے۔ مجلس نمائندگان اور دوسرے فورم موجود ہیں۔ ان کو دستوری حیثیت حاصل ہے۔ ان کے ذریعے جو بات طے ہو اس کا احترام ہونا چاہیے۔
قرآن مجید میں منافقوں کی ایک کم زوری یہ بیان ہوئی ہے کہ امن اور خوف کی کوئی بھی بات ہو وہ اسے پھیلانے لگتے ہیں۔ حالاں کہ ان کے لیے طریقہ یہ تھا کہ وہ اسے اللہ کے رسول اور ’اولوالامر‘ تک پہنچاتے:
وَاِذَا جَائ ہُمْ أَمْرٌ مِّنَ الأَمْنِ أَوِالْخَوْفِ أَذَاعُواْ بِہِ وَلَوْ رَدُّوہُ اِلَی الرَّسُولِ وَاِلَی أُوْلِیْ الأَمْرِ مِنْہُمْ لَعَلِمَہُ الَّذِیْنَ یَسْتَنبِطُونَہُ مِنْہُم ﴿النساء:۸۳﴾
‘یہ لوگ جہاں کوئی اطمینان بخش یا خوفناک خبر سن پاتے ہیں اسے لے کر پھیلادیتے ہیں حالاں کہ یہ اسے رسول اور اپنی جماعت کے ذمے دار اصحاب تک پہنچائیں تو وہ ایسے لوگوں کے علم میں آجائے جو ان کے درمیان اس بات کی صلاحیت رکھتے ہیں کہ اس سے صحیح نتیجہ اخذ کرسکیں۔’
اس سے یہ نتیجہ اخذ کیاجاسکتاہے کہ ہمارے خلوص اور ایمان کا تقاضا ہے کہ تحریک کی طرف سے کوئی اہم فیصلہ یا اقدام ہو اور اس پر مزیدگفتگو کی ضرورت محسوس ہوتو اس کے طے شدہ فورم میں گفتگو ہونی چاہیے، اس سے باہر اظہارِ خیال سے انتشار پیدا ہوتاہے۔ جس سے ہم سب کو بچنا چاہیے۔
رفقاء محترم! تحریکِ اسلامی کے سامنے ایک لمبا سفر ہے۔ اس لمبے سفر کے لیے مجھے اور آپ کو اسی کے لحاظ سے تیاری کرنی چاہیے۔ یہ زندگی بھر کا سفر ہے، نہ ختم ہونے والا سفر ہے۔ اس کاجائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ آپ نے اور ہم نے اس کے لیے کیااور کتنی تیاری کی ہے ؟ ہم اکثر اسے بھول جاتے ہیں اور ذہنوں میں بات محفوظ نہیں رہتی۔ اس سفر کو جاری رکھنے کے لیے آدمی کو اپنے وقت کی، مال کی اور صلاحیت کی قربانی دینی ہوگی۔ اس کی مثالیں خود جماعت میںموجود ہیں۔
جناب افضل حسین صاحب مرحوم ﴿سابق قیم جماعت﴾ اونچے گریڈ کے آدمی تھے۔ وہ چاہتے تو مادی لحاظ سے بہت ترقی کرسکتے تھے، جماعت نے ان سے کہاکہ آجاؤ، وہ آگئے۔ ان سے کہاگیاکہ اپنے آپ کو جماعت کے حوالے کردو، انھوں نے خود کو جماعت کے حوالے کردیا اور پوری زندگی، یوں کہیے، مرتے دم تک اس سے وابستہ رہے اور بے لوث مخصلانہ خدمت انجام دیتے رہے۔ ان کی زندگی سے ہمیں سبق لینا چاہیے۔
تحریک اسلامی کا ہر فرد اس کا سرمایہ ہے۔ تحریک اس سے فائدہ اٹھانا چاہتی ہے۔ خاص طورپر اسے اعلیٰ صلاحیت کے افراد کی ضرورت ہے ۔ لیکن وہ ان کی صلاحیتوں کی قیمت نہیں ادا کرسکتی۔ اس کے لیے انھیں قربانی دینی ہوگی۔
رفقائ محترم! اس وقت میں خود کو اور آپ کو اس بات کی طر توجہ دلاناچاہوںگا کہ اللہ تعالیٰ سے ہمارا تعلق مضبوط سے مضبوط ہو، ہمارے اندر جو کم زوریاں اور خامیاں ہیں ،ان کی جڑ دراصل یہ ہے کہ اللہ سے ہمارا تعلق کمزور پڑگیا ہے۔ اگر آپ دین کاکام کرنا چاہتے ہیں تو اللہ سے تعلق کو مضبوط کیجیے۔ اللہ سے تعلق پیداکریں گے تو دین کی خدمت آسان ہوجائے گی۔
سورہ ٔ مزمل اور سورۂ مدثر دونوں مکی سورتیں ہیں۔ سورۂ مزمل میں تہجد کاحکم دیاگیاہے اور تفصیل سے اس پر روشنی ڈالی گئی ہے اور کہاگیاہے: وَتَبَتَّلْ الَیْہِ تَبْتِیْلاً ’ہر طرف سے کٹ کر اللہ کے ہوجائیے‘ پھر سورۂ مدثر میں کہاکہ دعوت دیجیے۔ بلاشبہ یہ چیلنج کرنے والی سورہ ہے۔ یاد رہے کہ سورہ مدثر کا راستہ سورہ مزمل سے ہوکر گزرتاہے۔ یعنی پہلے مکمل یکسوئی اور خدا سے گہری وابستگی اور بطور خاص تہجد کااہتمام اور پھر کارِ دعوت! یہ حوصلہ اسی وقت پیداہوگا جب سورۂ مزمل سے ہوکر گزرا جائے۔
حضرت موسیٰؑ اور ہارونؑ سے کہا گیا:
اذْہَبْ أَنْتَ وَاَخُوْکَ بِآیَاتِیْ۔ وَلاَ تَنَیاَ فِی ذِکْرِیْ۔ اذْہَبَا اِلٰی فِرْعَوْنَ، انَّہ‘ طَغٰی﴿طہٰ:۲۰/۲۴﴾
‘جا، تو اور تیرا بھائی میری نشانیوں کے ساتھ اور دیکھو،میری یاد میں تقصیر نہ کرنا، جائو تم دونوں فرعون کے پاس کہ وہ سرکش ہوگیاہے۔’
یہ اس بات کی دلیل ہے کہ فرعون وقت سے خطاب کے لیے اللہ کاذکر ضروری ہے۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ اللہ کا دین، دنیا میں غالب ہوتو اللہ سے تعلق کو مضبوط سے مضبوط تر کیجیے۔
اللہ سے تعلق کاتقاضا یہ ہے کہ آخرت کی کامیابی اور وہاں کی فوزو فلاح پر ہماری نظر ہو۔ آخرت کی کامیابی ہی اصل کامیابی ہے۔ یہ دنیا اور اس کی آسائش و راحت چند روزہ ہے۔ ہمیشہ کی زندگی آخرت کی زندگی ہے۔ وہاں کی تکلیف وراحت دائمی اور ابدی ہے۔ اسی کے بارے میں قرآن مجید میں کہاگیاہے:
قَالَ اللّٰہُ: ہٰذَا یَوْمُ یَنفَعُ الصَّادِقِیْنَ صِدْقُہُمْ لَہُمْ جَنَّاتٌ تَجْرِیْ مِن تَحْتِہَا الأَنْہَارُ خَالِدِیْنَ فِیْہَا أَبَداً رَّضِیَ اللّہُ عَنْہُمْ وَرَضُواْ عَنْہُ ذَلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُo ﴿المائدہ: ۵/۱۱۹﴾
’تب اللہ فرمائے گا: یہ وہ دن ہے جس میں سچوں کو ان کی سچائی نفع دیتی ہے۔ ان کے لیے ایسے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، یہاں وہ ہمیشہ رہیں گے، اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے۔ یہی بڑی کامیابی ہے۔‘
اسی کے ساتھ اللہ سے دعا کرتے رہے۔ دعا وہ چیز ہے کہ مایوسی میں سے بھی امید کی کرن پھوٹ جاتی ہے۔
حضرت زکریاؑ کے بارے میں قرآن میں ہے:
ذِکْرُ رَحْمَۃِ رَبِّکَ عَبْدَہُ زَکَرِیَّاoاِذْ نَادَی رَبَّہُ نِدَائ خَفِیّاًoقَالَ رَبِّ اِنِّیْ وَہَنَ الْعَظْمُ مِنِّیْ وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَیْْباً وَلَمْ أَکُن بِدُعَائِکَ رَبِّ شَقِیّاًoوَاِنِّیْ خِفْتُ الْمَوَالِیَ مِن وَرَائِیْ وَکَانَتِ امْرَأَتِیْ عَاقِراً فَہَبْ لِیْ مِن لَّدُنکَ وَلِیّاًo یَرِثُنِیْ وَیَرِثُ مِنْ آلِ یَعْقُوبَ وَاجْعَلْہُ رَبِّ رَضِیّا ﴿مریم:۲-۵﴾
‘یہ ذکر ہے اس رحمت کا جو تیرے رب نے اپنے بندے زکریا پر کی تھی، جب کہ اس نے اپنے رب کو چپکے چپکے پکارا۔ اس نے عرض کیا: اے ہمارے پروردگار! میری ہڈیاں گھُل گئی ہیں اور سر کے بال سفید ہوگئے۔ اے پروردگار! میںکبھی دعا مانگ کر تجھ سے مایوس نہیں ہوا۔ مجھے اپنے پیچھے اپنے بھائی بندوں کی بُرائیوں کاخوف ہے اور میری بیوی بانجھ ہے تو مجھے اپنے فضل سے ایک وارث عطا کردے جو میرا وارث ہو اور آل یعقوب کی میراث بھی پائے۔’
حضرت زکریا نے اپنی دعا میںدراصل یہ کہاکہ :اے میرے رب! میں کیسے کہوں کہ میں دعا کروںگا اور تو نہیں سنے گا۔مجھے یقین ہے تو میری دعا سنے گا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس پیرانہ سالی میں انھیں یحییٰؑ جیسے پیغمبر سے نوازا اور ان سے کہا: یَا یَحْییٰ خُذِ الْکِتَابَ بِقُوَّۃٍ’ ‘اے یحییٰ ! اس کتابِ الٰہی کو مضبوطی سے پکڑ’ آپ اپنے لیے دعا کریں، بیوی بچوں کے لیے دعا کریں، اپنے خاندان کے لیے دعا کریں، خلوت میں بھی دعا کریں اور جلوت میں بھی۔خلوت میں آدمی پوری یکسوئی سے دل سے دعا کرتاہے۔ حضورﷺنے ابوجہل اور عمرؓ کے حق میں دعا کی۔ حضرت عمرؓ کے حق میں آپ کی دعا قبول ہوگئی۔ آپﷺنے حضرت عمرؓ کے لیے یقینا کوشش بھی کی ہوگی۔
آپ یہ دعا بھی کریں کہ ہمارا یہاں اس اجتماع میں آنا عبادت میں شمار ہو اور یہاں ہم نے جو عہد تازہ کیا ہے، اس کے مطابق زندگی گزرے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔
مشمولہ: شمارہ جنوری 2011