(نوٹ: يہ مضمون ۲۰۰۴ ميں شائع ہوا تھا۔ موجودہ صورت حال کے تناظر ميں اس کا اردو ترجمہ نذرِ قاری ہے۔)
عالم عرب اور عالم اسلام میں عام طور سے لوگ ہر موقع پر امریکہ کے اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہونے کی توجیہ کرتے ہوئے سیاسی اور اسٹریٹیجیکل اسباب بیان کرتے ہیں، جیسے انتخابی مہمات پر اثر انداز ہونے والی یہودیوں کی دولت، امریکی رائے عامہ سے کھلواڑ کرنے والا یہودی میڈیا، انتخابات میں یہودیوں کی متحدہ ووٹنگ، پھر عرب خطے میں جس کی امریکہ کے لیے اسٹریٹیجیکل اہمیت ہے، اسرائیل کا ایک خنجر کی طرح پیوست ہونا۔ لیکن جب ہم غور کرتے ہیں تو یہ سب توجیہات سطحی اور حقیقت سے دور معلوم ہوتی ہیں۔ یا زیادہ سے زیادہ ان کی حیثیت ظاہری علامتوں کی ہے جن کے پیچھے زیادہ گہرے اور ٹھوس حقائق کارفرما ہیں۔
انتخابات میں یہودی دولت کا کردار ایسا نہیں ہے جس سے اس سیاسی اجماع کی توجیہ کی جاسکے جو امریکہ کے سیاسی حلقوں میں اسرائیل کو حاصل ہے، یہاں تک کہ اسرائیل کی مدد کرنے کے لیے تمام سیاسی فریق ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ بھی سامنے رہے کہ امریکہ میں یہودیوں کے علاوہ بھی ایسے اہل ثروت ہیں جو یہودیوں سے دولت میں بڑھے ہوئے ہیں۔
یہودی میڈیا کی عمل داری بھی اس امر کی توجیہ کے لیے کافی نہیں ہے، کیوں کہ امریکہ کے تمام عوام عقیدے کی حد تک اسرائیل سے لگاؤ رکھتے ہیں۔ وہ بھی امریکہ جیسے ملک میں جہاں میڈیا کی کثرت اور رائے کی آزادی اس بات کی ضمانت لیتی ہے کہ اگر کوئی مخالف رائے اپنے ہم نوا رکھتی ہے تو وہ بھی کھل کر سامنے آجاتی ہے۔
عرب خطے میں اسرائیل کی پوزیشن بھی امریکی جانب داری کی توجیہ نہیں کرتی۔ کیوں کہ عرب خطے میں امریکی نفوذ کے لیے اسرائیل مددگار ہونے کے بجائے ہمیشہ پریشانیاں بڑھانے کا سبب بنتا رہا ہے۔ یہ بھی سامنے رہے کہ عرب ملکوں کے بعض حکم راں اس معاملے میں اسرائیل سے زیادہ امریکہ کے کام آتے ہیں۔
جہاں تک یہودی ووٹ بینک کی بات ہے تو وہ اس طرح متحد نہیں ہے جس طرح بعض لوگ تصور کرتے ہیں، بلکہ اس میں بھی اختلاف اور تقسیم پائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ایسی بعض امریکی ریاستیں بھی ہیں جہاں یہودی کمیونٹی لگ بھگ پائی ہی نہیں جاتی ہے، وہاں اسرائیل کی جانب داری زیادہ گہری اور مستحکم ہے۔
اسرائیل کے اخبار یروشلم پوسٹ نے اس پر فخر جتایا ہے کہ امریکی ریاست (منی سوٹا) سے امریکی سینیٹ میں 1978 سے ایک یہودی مسلسل نمائندگی کررہاہے جب کہ اس ریاست میں یہودیوں کی تعداد ایک فی صد سے زیادہ نہیں ہے۔ مذکورہ ریاست میں اس منصب کے لیے دو یہودی نام زد ہوئے تھے نورم کولمین اور ویلتسون جو انتخابی مہم کے دوران ہوائی حادثے میں مارا گیا۔ (یروشلم پوسٹ 27/10/2002)
یہ جاننا بھی کافی ہوگا کہ امریکہ میں یہودی تین فی صد سے بھی کم ہیں اور سینیٹ ہاؤس میں وہ محض دس فی صد ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ یہودی ووٹ بینک اہم ترین سبب نہیں ہے۔
جب ہم تاریخ کی طرف رجوع کرتے ہیں اور اس دینی پس منظر کی گہرائی میں جاتے ہیں جو امریکہ اور اسرائیل کے تعلقات کو اساس فراہم کرتا ہے، تب جاکر ان تعلقات کی اطمینان بخش توجیہ ملتی ہے۔ امریکہ اسرائیل تعلقات کے سلسلے میں دستاویزات پر مبنی تاریخی نقطہ نظر پیش کرنے والی دو کتابیں ہمارے پیش نظر ہیں، ایک عربی کتاب ہے ’المسیح الیہودی ‘(یہودی مسیح) جس کے مصنف مصر کے رضا ہلال ہیں اور دوسری کتاب ہے ’Force Gods Hand‘ جس کی مصنفہ امریکہ کی گریس ہیلسل (Grace Halsel) ہیں۔ ہم اپنے اس جائزے میں ان دونوں کتابوں کی فراہم کردہ کچھ معلومات سے استفادہ کریں گے۔
گندی تصویر سے مقدس تصویر تک
ڈیڑھ ہزار سال تک عیسائی دنیا کی نگاہ میں تمام یہودی ’’ملعون گروہ‘‘ کی حیثیت سے دیکھے جاتے رہے، کیوں کہ عیسائیوں کے عقیدے کے مطابق وہ سیدنا مسیح کے قاتل تھے۔ عیسائی دماغ میں نقش اس تصور کی بنا پر یہودیوں نے طرح طرح کے مظالم اور اہانتوں کا سامنا کیا۔
گو کہ اسلامی نقطہ نظر سے یہ تصور ظالمانہ تصور ہے جس کے نتیجے میں ظالمانہ تعاملات پیدا ہوئے، تاہم یہ تصور صدیوں تک باقی رہا۔ اسے انجیل کی متعدد نصوص کی تائید حاصل رہی اور مخصوص سیاسی اور سماجی حالات نے اس کے لیے راہ ہم وار کی۔
لیکن پندرہویں صدی عیسوی میں نفس عیسائیت میں گہری تبدیلیاں ظاہر ہوئیں، کم سے کم مغربی عیسائیت میں یہ تبدیلیاں بہت واضح ہیں۔ اس وقت مغرب میں اصلاحی تحریک برپا ہوئی، جس کے نتیجے میں عام طور پر عیسائی مذہب اور خاص طور سے مغربی کیتھولک کے اندرون میں سیاسی اور اعتقادی پھوٹ پڑ گئی۔
ان تبدیلیوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ جدید عیسائیت جو پروٹسٹنٹ کے نام سے معروف ہوئی وہ یہودیت کی زیر تربیت آگئی۔ تورات یا عہدنامہ قدیم کو پروٹسٹنٹ عیسائیوں کی نگاہ میں انجیل یا عہد نامہ جدید سے زیادہ اہمیت حاصل ہوگئی اور اس کے بعد سے ہی یہودی قوم کی تصویر نئے عیسائیوں کے ذہنوں میں بدلنے لگی۔
چرچ کے اندر ہونے والی ٹوٹ پھوٹ گو کہ نظریاتی رنگ لیے ہوئے تھی، لیکن وہ اس وقت یوروپی اقوام میں سیادت کے لیے ہونے والی کشمکش سے دور نہیں تھی، خاص طور سے فرانس، انگلینڈ اور جرمنی کے درمیان کشمکش سے۔ کیتھولک چرچ فرانس کی طرف جھک گیا، جس کے نتیجے میں انگریز اور جرمن اقوام پروٹسٹنٹ عیسائیت کو اختیار کرنے کی طرف مائل ہوئیں جو چرچ کے تسلط سے آزادی چاہتی تھی۔
یہودیوں کے بارے میں عیسائی نگاہ کی یہ تبدیلی پروٹسٹنٹ تحریک کے بانی پادری مارٹن لوتھر کی تحریروں میں ظاہر ہونے لگی۔ سن 1523 میں لوتھر نے ایک کتاب لکھی جس کا عنوان ہے ’’مسیح یہودی پیدا ہوئے تھے‘‘ (That Jesus Christ was Born a Jew ) اس میں اس نے یہودی عیسائی تعلقات کو بنیادیں دینے والا وہ نقطہ نظر پیش کیا جو عیسائیوں کے اب تک کے نقطہ نظر سے بالکل مختلف تھا، اس نے اپنی کتاب میں کہا:
’’روح قدس کی یہ مشیت تھی کہ کتاب مقدس کے تمام صحیفے تنہا یہود کے راستے سے نازل فرمائے۔ یہود رب کے بیٹے ہیں، اور ہم اجنبی مہمان ہیں۔ ہم پر واجب ہے کہ ہم بخوشی ان کتوں کی طرح ہوجائیں جو اپنے آقاؤں کے دسترخوان پر بچے ہوئے ٹکڑے کھاتے ہیں۔‘‘ (رضا ہلال- ص 63)
بایں ہمہ مارٹن لوتھر یہودیوں کے سلسلے میں اپنے موقف میں دو ٹوک نہیں تھا، بلکہ تردد کا شکار اور ماضی کے بھاری بوجھ سے دبا ہوا تھا۔ چناں چہ جب وہ یہودیوں کو عیسائیت قبول کرنے پر آمادہ کرنے سے مایوس ہوگیا تو اس نے یہودیوں کی مذمت میں ایک دوسری کتاب لکھی جس کا نام تھا ’’یہود اور ان کے جھوٹ کے بارے میں‘‘ ( Von den Juden und Ihren Lügen) بہرحال لوتھر نے عیسائیت کی تاریخ میں یہودیوں کے حق میں ایک رخنہ کھول دیا جو اب تک پھیلتا جارہا ہے۔ دونوں کتابوں پر مبنی دو مکتب فکر بنے۔ مغربی ضمیر میں ان کے درمیان چار صدیوں تک کشمکش جاری رہی، یہاں تک کہ اول الذکر مکتب فکر کے حق میں فیصلہ ہوگیا۔
نوٹ کرنے کی بات یہ ہے کہ اس تاریخی سفر میں عدل اور اعتدال کا گزر نہیں ہوا۔ کہاں یہودی ’’ملعون قوم‘‘ تھے کہاں ’’رب کے بیٹے‘‘ بنادیے گئے۔ وہ گھیتو سے نکال کر سماج کی چوٹی تک پہنچادیے گئے۔ کبھی وہ ایک ’’گندی قوم‘‘ تھے جس پر عیسائیوں نے بہت ظلم کیا اور کہاں وہ ایک ’’مقدس قوم‘‘ بن گئے جن کی وجہ سے عیسائیوں نے ایسی دوسری قوموں پر ظلم ڈھایا جن کا تعلق اس پوری تاریخ سے کچھ نہیں تھا۔
نوٹ کرنے کی بات یہ بھی ہے کہ عیسائی مذاہب میں اس تبدیلی کو قبول کرنے کے سلسلے میں بہت بڑا تفاوت پایا جاتا ہے۔ پروٹسٹنٹ (امریکی اور برطانوی) عیسائیوں نے اس تبدیلیوں کو آخری گہرائی تک اختیار کیا، یہاں تک کہ یہودیت ان کے گوشت اور خون میں شامل ہوگئی، کیتھولک (فرانس، اٹلی اور اسپین) عیسائی کسی قدر تحفظ برتتے رہے، یہی وجہ ہے کہ ویٹیکن نے یہودیوں کو عیسی مسیح کے خون سے 1966 میں جاکر بری قرار دیا۔ جہاں تک ارتھوڈکس (مشرقی یوروپ کی اقوام) عیسائیوں کی بات ہے وہ ابھی تک یہود اور یہودیت کو خدشات بھری نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ یہ تفاوت سیاسی پوزیشن کے فرق کی توجیہ کرتا ہے۔ امریکہ، برطانیا اور اب پروٹسٹنٹ جرمنی بھی یہودی ریاست کے لیے فدا ہیں۔ جنوبی یوروپ میں اسرائیلی پالیسیوں کو لے کر تحفظ پایا جاتا ہے، (خاص طور سے فرانس میں جہاں مغربی کیتھولک اقوام میں سب سے بڑی قوم ہے) جب کہ مشرقی یوروپ اور خاص طور سے روس میں اس ریاست کے سلسلے میں خدشات پائے جاتے ہیں۔ ابھی ہم یہ سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ امریکہ یہودی ریاست پر کیوں فدا ہے؟
عیسائی صہیونیت یہودی صہیونیت سے پرانی ہے
جو لوگ اسرائیل کے ساتھ امریکہ کی جانب داری کو سیاسی اور اسٹریٹیجیکل آنکھوں سے پڑھتے ہیں وہ ایک تاریخی حقیقت کو نظر انداز کردیتے ہیں جو کافی اہمیت کی حامل ہے۔ وہ یہ کہ عیسائی صہیونیت یہودی صہیونیت سے پرانی ہے۔
سن 1844 میں یروشلم میں پہلا امریکی قنصل وارڈر کریسن تعینات کیا گیا۔ اس قنصل نے اپنے لیے جو اہداف طے کیے تھے ان میں ایک ہدف یہ تھا: ’’وہ رب کا کام انجام دے گا، وعدے کی سرزمین میں یہودیوں کے لیے ایک قومی وطن کی تشکیل میں مدد کرے گا‘‘ (رضا ہلال: ص 95) کریسن نے امریکی قیادت سے رابطہ کرنے اور انھیں اس پر ابھارنے کے لیے جان توڑ محنت کی کہ ’’فلسطین کو یہودیوں کا قومی وطن بنادیا جائے تاکہ یہودی امت ایک جگہ جمع ہوجائے، اپنی عبادتیں انجام دے اور ترقی کرے‘‘(رضا ہلال: ص 95) اس نے عثمانی حکم رانوں پر بھی اصرار کیا کہ وہ اس راہ میں مدد کریں لیکن یہ کوشش بے سود رہی۔
کریسن کے نقش قدم پر اینگلو امریکن سیاح ولیم بلیک سٹون بھی چلا۔ اس نے 1878 میں کتاب لکھی جس کا عنوان تھا ’’مسیح آرہے ہیں‘‘ (Jesus Is Coming) اس کے کئی ملین نسخے فروخت ہوگئے اور اس نے امریکی پروٹسٹنٹ عیسائیت پر گہرا اثر ڈالا۔ کتاب کا مرکزی خیال یہ ہے کہ مسیح کی واپسی جس کا عیسائیوں کو صدیوں سے انتظار ہے وہ تبھی ہوگی جب یہودی ارض موعود کو واپس لوٹیں گے۔ سن 1891 میں بلیک سٹون نے اس وقت کے امریکی صدر بنیامین ہریسن کو درخواست بھیجی جس میں مطالبہ کیا کہ یہودیوں کی فلسطین واپسی کے لیے امریکا مداخلت کرے۔ اس درخواست پر امریکہ کی 413 بڑی مذہبی عیسائی شخصیات کے دستخط تھے۔ ان کے علاوہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس، کانگریس کے صدر، سینیٹ ہاؤس کے کئی ارکان اور بڑے اخبارات کے کئی مدیروں کے بھی دستخط تھے۔ (رضا ہلال -ص 97)
’’فلسطین میں یہودیوں کے قومی وطن کا قیام‘‘ یہ وہ خیال ہے جس پر پروٹسٹنٹ عیسائیوں کا ایمان یہودیوں کے ایمان سے پہلے سے ہے۔ وہ اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے یہودیوں سے پہلے کوشاں ہوئے، بلکہ اس وقت کوشاں ہوئے جب کہ یہودیوں کو اس کا یقین ہی نہیں تھا کہ یہ خیال عملی روپ اختیار کرسکتا ہے۔ یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ اگر اس خیال کو امریکی اور برطانوی پروٹسٹنٹ عیسائیوں کی طرف سے اعتقادی سہارا نہیں ملتا تو یہودی اس کے لیے عملی کوششیں نہیں کرتے۔
صہیونی تحریک کے بانی تھیوڈور ہرزل نے جب ’’یہودی ریاست‘‘ کا خیال پیش کیا تو اس کے محرکات دینی نہیں تھے، وہ تو پکا سیکولر نیشنلسٹ تھا۔ اسی لیے وہ اس کے لیے بھی آمادہ تھا کہ یہودیوں کو یوگنڈا، عراق، کینیڈا یا ارجنٹائینا میں وطن دے کر بسادیا جائے۔ لیکن امریکہ اور دیگر ملکوں کے عیسائی صہیونیوں کا معاملہ یہ تھا کہ وہ پہلے دن سے اس پر ایمان رکھتے تھے کہ فلسطین کو یہودیوں کا وطن ہونا ہے اور اسے مسیح کی واپسی کے لیے شرط قرار دیتے تھے۔ انھوں نے یہودی مسئلے کو سیاسی دائرے سے نکال کر اعتقادی دائرے میں رکھ دیا تھا۔ اسی لیے انھوں نے ہرزل کے نرم موقف پر تنقید کی اور 1897 میں بازیل (سویزرلینڈ) میں ہونے والی پہلی صہیونی کانفرنس کو ملامت کا نشانہ بنایا۔ یہاں تک کہ بلیک سٹون نے ہرزل کے پاس عہدنامہ قدیم کا ایک نسخہ بھیجا اور اس کے صفحات پر ان عبارتوں کے اوپر نشان لگایا جن میں نبیوں نے متعین طور پر فلسطین کے بارے میں بتایا تھا کہ وہ ’’منتخب قوم کا منتخب وطن ہے‘‘(رضا ہلال ص 99)
جب یہودی وطن کا آئیڈیا سیاسی طور پر اجاگر ہونے لگا اور بلفور نے اس کے حق میں وعدہ جاری کیا تو بیشتر امریکی سیاست دانوں نے اس آئیڈیا کو اچک لیا اور اس کے ساتھ گہرے دینی عقیدے کا ڈسکورس جوڑ دیا۔ اس کی ایک مثال وہ تقریر ہے جو امریکی کانگریس کی خارجی تعلقات کمیٹی کے صدر هنری كابوت لودج(Henry Cabot Lodge)نے سن 1922 میں بوسٹن شہر میں کی۔ اس نے اپنی تقریر میں کہا:
’’میں اسے ہرگز برداشت نہیں کرسکتا ہوں کہ یروشلم اور فلسطین محمڈن قوم کے قبضے میں رہے— یروشلم اور فلسطین جو یہودیوں کے لیے مقدس ہے اور مغرب میں تمام بڑی عیسائی اقوام کے لیے مقدس ہے، وہ ترکوں کے ہاتھوں میں رہے، یہ بات برسوں سے مجھے ایسی لگتی ہے جیسے تہذیب کی پیشانی پر ایک داغ ہو جسے مٹادینا ضروری ہے۔ (رضا ہلال ص 102)
حالیہ عرصے میں عیسائی بیداری
امریکی عیسائیت کی یہودکاری میں امریکہ کی دینی ثقافت میں ہونے والی گہری تبدیلیوں نے اضافہ کردیا، یہ تبدیلیاں ستر کی دہائی سے اب تک جاری ہیں۔ چرچ جو سماج کے حاشیے اور زاویے میں تھے، سیاسی اور سماجی سرگرمیوں میں کلیدی رول ادا کرنے لگے۔ اس میں میڈیا اور انفارمیشن ٹکنالوجی کے انقلاب کا اثر رہا۔ ٹی وی سے اپنی خدمات پیش کرنے والے چرچوں televised church کا رواج ہوا، روایتی عیسائیت کی جگہ Babtist اور Methodist وغیرہ جیسے بنیاد پرست گروہ پھیلنے لگے۔ امریکہ میں دوبارہ پیدا ہوئے عیسائی (Born Again Christians) کا رجحان تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے۔ عیسائی رجحانات میں یہ رجحان سب سے زیادہ یہودیت کے ساتھ خود کو جوڑتا ہے ساتھ ہی یہودی ریاست کے تقدس کیا علم بردار بھی ہے۔
امریکہ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ 1974 میں وہائٹ ہاؤس میں وہ صدر پہنچ گیا جو اس رجحان کی طرف خود کو منسوب کرنے پر فخر کرتا تھا۔ اور وہ تھا صدر جمی کارٹر، جس نے یہودیوں اور امریکی عیسائیت کے درمیان اعتقادی رابطے کی حقیقت کو بیان کیا۔ اسرائیلی کنیست کے سامنے سن 1979 میں اس نے تقریر کرتے ہوئے کہا تھا: ’’امریکہ کا اسرائیل سے تعلق خاص تعلق سے کہیں زیادہ ہے— ماضی میں بھی اور اب بھی وہ ایک انوکھا تعلق رہا ہے۔ یہ وہ تعلق ہے جسے توڑا نہیں جاسکتا، کیوں کہ وہ امریکی قوم کے وجدان، اخلاق، مذہب اور عقائد میں اپنی جڑیں رکھتا ہے‘‘(رضا ہلال ص 166-167) کارٹر کے بعد اس رجحان کی طاقت بش اول اور پھر بش دوم کی صدارت میں اور بڑھتی گئی۔
بعد ازیں ایک امریکی محقق بش کے تمام بیانات اور تقریروں کا مطالعہ کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ بش ’’بنیاد پرست عیسائی ہے، اس کا یہ عقیدہ ہے کہ ویسٹ بینک اور غزہ پٹی یہودیوں کے لیے خدائی عطیہ ہے جس سے دست بردار ہونا جائز نہیں ہے‘‘۔ یہ وہی عقیدہ ہے جسے بعد میں پیٹ رابرٹسن(Pat Robertson)کی قیادت میں عیسائی گٹھ بندھن نے بیان کیا۔ واشنگٹن کی ایک ریلی میں اس نے اسرائیلی حکم رانوں سے مطالبہ کیا کہ ویسٹ بینک اور غزہ پٹی سے ہرگز دست بردار نہ ہوں، کیوں کہ ایسا کرنا ’’رب کی منشا کے خلاف ہوگا‘‘ صدر بش کی بنیاد پرستی کی دلیل یہ ہے کہ وہ پہلا امریکی صدر ہے جس نے دینی تعلیم کو امریکی ریاست کے بجٹ میں شامل کیا، جس کے بارے میں یہ مانا جاتا ہے کہ وہ سیکولر ریاست ہے اور مذہب کے سلسلے میں غیر جانب دار پوزیشن رکھتی ہے۔ جب مشہور صحافی (جیم لیہرر) Jim Lehrer نے جارج بش سے ایک ٹی وی ڈبیٹ کے درمیان اس کے روز مرہ معمول کے بارے میں پوچھا تو بش کا جواب یہ تھا کہ کتاب مقدس کی تلاوت سے وہ دن کا آغاز کرتا ہے، اپنے کتے کو کھانا کھلاتا ہے اور اپنی بیوی کے لیے کافی تیار کرتا ہے۔ اس نے بار بار اس کی صراحت بھی کی کہ عیسی مسیح اس کے سیاسی ماڈل ہیں۔ یہ امریکہ کی داخلی سیاست کے نئے مظاہر ہیں، جیسا کہ جارج ٹاون یونیورسٹی کے مرکز برائے اسلامی عیسائی تفاہم کے ڈائیرکٹر پروفیسر (جان اسپوزیٹو) نے اپنی نئی کتاب ’’غیر مقدس جنگ‘‘ (Unholy War) میں ذکر کیا ہے۔
میں نے خود صدر بش کو پچھلے سال صاف صاف یہ کہتے ہوئے دیکھا:
’’یہودی اس روئے زمین پر اللہ کی واحد منتخب قوم ہیں‘‘۔
یہ بات درست ہے کہ یہودی ڈیموکریٹک پارٹی میں بھی ہیں، کیوں کہ وہ بھی لبرل اور مذہبی میں منقسم ہیں، اور شاید اس لیے بھی کہ سارے انڈوں کو ایک ٹوکری میں رکھنے میں خطرہ ہوتا ہے، تاہم ادھر یہودی جماعتیں ریپبلکن پارٹی کی طرف جھکنے لگی ہیں، کیوں کہ یہودی قضیے سے اس کی وفاداری سیاسی اور اسٹریٹیجیکل پہلوؤں سے زیادہ، ٹھوس دینی عقیدے سے جڑی ہوئی ہے۔ جب کہ ڈیموکریٹک پارٹی جو لبرل رجحان کی حامل ہے اسرائیل کے ساتھ کسی حد تک ایک دنیوی ریاست کے طور پر تعامل کرتی ہے۔
امریکی عیسائیت کا نیا چہرا
1983 میں امریکی مصنفہ گریس ہیلسل کئی سو امریکی عیسائیوں کے ساتھ مقدس سرزمین کی زیارت کے سفر پر یروشلم پہنچی۔ یہ سفر پادری جیری فالویل (Jerry Falwell) کے خرچ پر تھا۔ امریکی مصنفہ نے نوٹ کیا کہ فالویل نے مسافروں کو جو تحریری مواد تقسیم کیا اس میں کہیں بھی یہ ذکر نہیں تھا کہ یہ عیسائی زائرین اس سرزمین کی طرف جارہے ہیں جہاں سیدنا مسیح پیدا ہوئے تھے اور اپنی دعوت پھیلائی تھی، اس مواد میں سارا ارتکاز اسرائیل پر تھا۔ اس نے یہ بھی نوٹ کیا کہ فلسطین کے عیسائی شہری ہمارے گردوپیش میں ہر جگہ تھے لیکن فالویل نے ان عیسائیوں سے ہماری ملاقات کا کوئی انتظام نہیں کیا تھا۔ (گریس هیلسل ص 59)
اگر ہیلسل زندہ رہتی تو یہ بھی دیکھتی کہ کس طرح سے اسرائیلی فوجیوں نے عیسائی دنیا کی آنکھ کان کے سامنے کنیسہ ولادت Church of the Nativity کا محاصرہ کیا تھا۔ اس وقت اسے معلوم ہوتا کہ نئی عیسائیت کا اس عیسائیت سے کوئی تعلق نہیں ہے جس پر وہ ایمان رکھتی تھی۔
ہیلسل کو تعجب تھا کہ کس طرح بہت سے امریکی عیسائیوں کی نگاہ میں یہودی دوسرے عیسائیوں سے بشمول فلسطینی عیسائیوں سے زیادہ اہم اور قریب تر ہوگئے۔ اسے اس پر بھی تعجب ہوا کہ بعض امریکی عیسائی یہودی اہداف کی تکمیل میں سرخ خطوط کو تجاوز کرنے میں خود یہودیوں سے آگے نکلنے پر آمادہ نظر آتے ہیں۔ سن 1999 میں امریکیوں کا ایک گروہ مسجد اقصی کو ڈائنامیٹ کرنے کی سازش رچ رہا تھا جسے اسرائیلی پولیس نے گرفتار کرلیا۔ (ہیلسل ص 89)
اس میں ہم یہ بھی اضافہ کرسکتے ہیں کہ عیسائی بنیاد پرست اسلام کی تنقیص کرنے اور مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے میں اپنے یہودی حلیفوں سے زیادہ جری ہیں۔ گذشتہ سال اسلام کے بارے میں فرینك گراہم، پیٹ رابرٹسن اور جیری فالویل کے بیانات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے۔
امریکی مصنفہ ہیلسل نے یہ بھی نوٹ کیا کہ امریکہ میں عیسائی بنیاد پرست اسے تو بخوشی گوارا کرلیتے ہیں کہ فرانس، انگلینڈ، جرمن، اٹلی یا خود امریکہ یا دنیا کے کسی اور ملک پر تنقید کی جائے، کیوں کہ یہ ان کی نظر میں سیاسی معاملہ ہوتا ہے، لیکن اسرائیل پر تنقید ان کے نزدیک رب کی شان میں گستاخی کے برابر ہے۔ (ہیلسل ص 80)
میرا ماننا ہے کہ فلسطین اور عالم اسلام میں امریکی پالیسی کو سمجھنے کے لیے اس تاریخی سفر کو پیش نظر رکھنا ہی صحیح طریقہ ہے جس نے پروٹسٹنٹ عیسائیت کو یہودی کاری تک پہنچایا۔ اس پالیسی کے سیاسی اور انتخابی مظاہر تک جاکر رک جانا اب سود مند نہیں رہ گیا ہے۔ صورت حال کا سارا کریڈٹ امریکہ میں یہودی اقلیت کی چالاکی کو دینا دراصل ایک سطحی توجیہ ہے اس تاریخی منظرنامے کی جس کی گہری جڑیں صدر کارٹر کے مطابق ’’امریکی قوم کے وجدان، اخلاق، مذہب اور عقائد میں پیوست ہیں‘‘۔
اب اس تلخ حقیقت کو سمجھ لینے کا وقت آگیا ہے کہ اسرائیل جسے ہم نسل پرستی اور استعمار کا آخری ٹھکانا مانتے ہیں، وہ بیشتر امریکیوں کے ذہنوں میں ایک خدائی منصوبہ ہے جس کی مذمت اور تنقید بھی نہیں گوارا نہیں کی جاسکتی، مزاحمت و مخالفت تو دور کی بات ہے۔ کیا ہم اس کا ادراک کرسکتے ہیں اس وقت جب کہ امریکی سیاست میں مذہب کی اثر اندازی دن بہ دن بڑھتی جارہی ہے۔
مشمولہ: شمارہ نومبر 2023