یہ جو اللہ تعالی دشمنانِ حق کی مخالفانہ کارروائیوں کا ذکر کرتے ہوئے اپنی مشیت کا بار بار حوالہ دیتا ہے اس سے مقصود دراصل نبی ﷺ کو اور آپ کے ذریعہ سے اہل ایمان کو یہ سمجھانا ہے کہ تمھارے کام کی نوعیت فرشتوں کے کام کی سی نہیں ہے جو کسی مزاحمت کے بغیر احکامِ الہی کی تعمیل کر رہے ہیں۔ بلکہ تمہارا اصل کام شریروں اور باغیوں کے مقابلے میں اللہ کے پسند کردہ طریقہ کو غالب کرنے کے لیے جدو جہد کرنا ہے۔ اللہ اپنی مشیت کے تحت ان لوگوں کو بھی کام کرنے کا موقع دے رہا ہے جنھوں نے اپنی سعی و جہد کے لیے خود اللہ سے بغاوت کے راستہ کو اختیار کیا ہے اور اس طرح وہ تم کو بھی جنھوں نے طاعت و بندگی کے راستے کو اختیار کیا ہے، کام کرنے کا پورا موقع دیتا ہے۔ اگرچہ اس کی رضا اور ہدایت و رہنمائی اور تائید و نصرت تمھارے ہی ساتھ ہے۔ کیوں کہ تم اُس پہلو میں کام کر رہے ہو جسے وہ پسند کرتا ہے۔ لیکن تمھیں یہ توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ اللہ تعالی اپنی فوق الفطری مداخلت سے ان لوگوں کو ایمان لانے پر مجبور کردے گا جو ایمان نہیں لانا چاہتے، یا ان شیاطین جن وانس کو زبردستی تمھارے راستے سے ہٹا دے گا جنھوں نے اپنے دل و دماغ کو اور دست و پا کی قوتوں کو اور اپنے وسائل و ذرائع کو حق کی راہ روکنے کے لیے استعمال کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ نہیں، اگر تم نے واقعی حق اور نیکی اور صداقت کے لیے کام کرنے کا عزم کیا ہے تو تمھیں باطل پرستوں کے مقابلے میں سخت کش مکش اور جدو جہد کرکے اپنی حق پرستی کا ثبوت دینا ہوگا ورنہ معجزوں کے زور سے باطل کو مٹانا اور حق کو غالب کرنا ہوتا تو تمھاری ضرورت ہی کیا تھی، اللہ تعالی خود ایسا انتظام کرسکتا تھا کہ دنیا میں کوئی شیطان نہ ہوتا اور کسی شرک و کفر کے ظہور کا امکان نہ ہوتا۔
(تفہیم القرآن – جلد اول، سورة الانعام – آیت – 112 کی تفسیر میں)
مشمولہ: شمارہ مئی 2024