فقہي مسلک تبديل کرنے کا دل چسپ منظرنامہ

محمد عبدہ کے بارے میں یہ بات بہت مشہور ہے کہ انھوں نے مالکی فقہا کے سامنے زانوے تلمذ تہ کیا لیکن جب افتا کے منصب پر فائز ہوئے تو حنفی مسلک سے وابستہ ہوگئے۔ عثمانی خلافت کے ماتحت کسی بھی علاقے میں مفتی عام کے منصب پر فائز ہونے کے لیے حنفی ہونے کی روایت قائم تھی۔ لیکن شیخ عبدہ کا یہ مسلک بدلنا اس طویل اور مال دار علمی روایت کا ایک حصہ ہے جو اسلامی مسلکی روایت کا ایک اہم امتیاز رہی ہے۔ 

فقہی مسالک کے درمیان چہل قدمی یا مسلک کی تبدیلی کو علمی حلقے کے درمیان محض ایک شوقیہ عمل کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہیے بلکہ اسلامی فقہی عقل کے اندر موجود لچک، رواداری اور باہمی تبادلے کی علامت کے طور پر دیکھنا چاہیے۔ اسلامی روایت کا یہ پہلو وسیع مطالعے کا دروازہ کھولتا ہے کہ ان سیاقات اور احوال کا مطالعہ کیا جائے جو افکار اور مسلکی وابستگی تبدیل کرنے کا محرک بنتے ہیں۔ اس سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوسکتا ہے کہ کیوں کسی ایک وقت میں کوئی ایک مسلک دوسرے مسالک کے مقابلے میں زیادہ ترقی کرتا ہے۔ اسی طرح ہم ان عوامل کو بھی سمجھ سکتے ہیں جو مسلکی تبدیلی میں مثبت یا منفی کردار ادا کرتے ہیں۔ 

یہ انوکھا علمی منظرنامہ ہمیں موقع فراہم کرتا ہے کہ ہم ان تبدیلیوں کی انجینئرنگ کو سمجھ سکیں اور سوالات قائم کریں کہ:  آیا شافعی مسلک کے اعتدال کی وجہ سے لوگ اس کی طرف زیادہ مائل ہوتے رہے ہیں؟ اور کیا حنبلی مسلک کے پختہ ہونے میں تاخیر ہوئی اس وجہ سے اس سے نکلنے والوں کی کثرت ہے؟ کیا افکار کی ارضیات اور علاقوں کی ارضیات میں کوئی تعلق ہے؟ ان سب کی روشنی میں عالم اسلام کے مغرب میں مالکی مسلک کے استقرار اور اس مسلک سے باہر نکلنے کا رجحان کم ہونے کو کیسے سمجھا جاسکتا ہے؟ 

حقیقت یہ ہے کہ ان تمام احوال کے ساتھ معاشی وجہ اور مناصب کی چاہت کے پہلو اور رتبہ و دولت کی خواہش کو نظرانداز کرنا ناممکن ہے۔ لیکن اس میں مبالغہ کرنا یا اسی کو سب کچھ سمجھ لینا زیادتی ہوگی، کیوں کہ مسلک کی تبدیلی کے واقعات کو مادی پہلو کی عینک لگاکر دیکھنے سے ان واقعات کو ہرگز نہیں سمجھا جاسکے گا جب علما نے انعامات اور مناصب کو لینے سے انکار کردیا۔ 

مسلکوں کے درمیان یہ نقل و حرکت درحقیقت ایک ہی گھر کے اندر ہونے والی نقل و حرکت کے مترادف ہے۔ جس میں مکینوں اور متعلقین کے درمیان صحت مند ماحول اور مل جل کر زندگی گزارنے کا مزاج ہوتا ہے۔ اس لیے ایک مسلک سے نکلنے اور دوسرے مسلک میں داخل ہونے کے لمحات جدائی سے زیادہ ایک طبیعی حرکت کے طور پر دیکھے جاسکتے ہیں۔ اس نقل و حرکت کے لیے مسلکوں کے دائرے پوری طرح وسعت رکھتے ہیں جس طرح ارضی وسعتوں میں انسان نقل و حرکت کیا کرتا ہے۔ 

قدیم زمانے میں شیخ ابراہیم بن مسلم صمادی شافعی کو بہت مقبولیت حاصل تھی، لوگ ان کی عظمت و بزرگی پر متفق تھے۔ وہ اللہ سے دعا کرتے تھے کہ ان کو چار لڑکے نصیب ہوں تاکہ وہ لڑکے چاروں مسلکوں میں سے ایک ایک سے وابستہ ہوجائیں چناں چہ ان کے چار لڑکے ہوئے اور وہ اس طرح ہیں:  مسلم مالکی، عبد اللہ حنبلی، موسی شافعی اور محمد حنفی! یہ قصہ مشہور مؤرخ محمد امین محبی نے خلاصۃ الاثر نامی کتاب میں ذکر کیا ہے۔ 

یہ مضمون فقہی اور فکری مسالک کے درمیان نقل وحرکت کے اثرات کا جائزہ لیتا ہے۔ شیخ صمادی کے گھر کی طرح کسی ایک چھوٹے سے گھر کے تناظر میں نہیں، بلکہ وسیع سرزمین اسلام میں پھیلے مشہور فقہی مسالک پر مشتمل عظیم فقہی گھر کے تناظر میں، اور اس سفر میں ہم کچھ گہرے مفاہیم، دل چسپ مظاہر اور عجیب و غریب واقعات پر ٹھہریں گے۔ اس منظرنامے میں شامل علما کی تعداد تقریبًا پانچ سو ہے، جن کو مسلک تبدیل کرنے کا عارضہ لاحق ہوا تھا اور ہمارے پیش نظر جومثالیں ہیں وہ اس فہرست کا محض دس فیصد حصہ ہیں۔ علما کے حالات پر لکھی گئیں کتابوں میں انھی کے نام ہم تک پہنچ سکے اور شاید جن کے نام ضائع ہو گئے ہیں ان کی فہرست اس سے کہیں زیادہ لمبی ہو! 

متنوع محرکات 

نظریاتی طور پر علما نے ایک فقہی مسلک سے دوسرے فقہی مسلک میں منتقل ہونے کے حکم پر گفتگو کی ہے اور ان کی طویل گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ جمہور کے نزدیک اہل علم کے لیے ایک سے دوسرے مذہب میں منتقل ہونا اور جو قول راجح لگے تو اس کی تقلید کرنا صحیح ہے۔ سیوطی نے اس مسئلے پر اپنی کتاب ’’الرد على من أخلد إلى الأرض‘‘ میں اس قول سے استدلال کیا ہے۔ ’’لوگ ہمیشہ (صحابہ کرام سے لے کر بعد تک) علما میں سے جس سے بھی اتفاق ہوتا سوال کرلیتے تھے، وہ کسی متعین مسلک کی قید کا لحاظ نہیں کرتے تھے اور نہ ہی کسی سوال کرنے والے کے سوال کو رد کیا جاتا تھا یہاں تک کہ یہ مسالک وجود میں آئے اور ان کے متعصب مقلدین پیدا ہوئے۔‘‘ 

جہاں تک عملی واقعات کی بات ہے تو بے شمار علما نے اس مسلکی تبدیلی کو اپنایا ہے اور علما و فقہا کے ایک مسلک سے دوسرے مسلک میں منتقل ہونے کی بعض مثالوں کے مطالعے سے اس کے مختلف اسباب برآمد کیے جا سکتے ہیں حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ اس کے تمام اسباب کا احاطہ ناممکن ہے کیوں کہ ہر عالم کے اپنے مخصوص حالات ہوتے ہیں اور اس کے زمانے کے مخصوص سیاق ہوتے ہیں۔ البتہ فقہا کی اکثریت کی مسلکی تبدیلی تحقیق و اجتہاد کے نتیجے میں ان کے موقف کی تبدیلی سے عبارت ہوتی ہے گویا یہ تبدیلی ان کے اس قول کا عملی مصداق ہوتی ہے کہ اجتہاد ضروری ہے اور تقلید پر انحصار نہیں کیا جا سکتا!! 

یہاں ہم فقہی مسلک کی تبدیلی کے کچھ اور اسباب کو پیش کریں گے جو اجتہاد اور تحقیق کے علاوہ ہیں کیوں کہ اجتہاد و تحقیق والا محرک تو تراجم و طبقات کی کتابوں میں صراحت کے ساتھ اکثر ایسے علما کے سلسلے میں مذکور ہے۔ ہم صرف ذاتی اور حالات سے متعلق محرکات کے ذکر پر اکتفا کریں گے اس نوٹ کے ساتھ کہ مسلکی تبدیلی کے اکثر واقعات اسباب اور مخفی محرکات کے ذکر سے خالی ہوتے ہیں۔ ہم کو جن اہم اسباب کا سراغ ملا ہے وہ اس طرح ہیں: 

۱۔ مادی محرکات سےمسلکی تبدیلی 

 بہت سے علما کے اپنے مسلک سے دوسرے مسلک میں منتقل ہونے کی وجہ منصب کی طلب اور اس سے جڑے جاہ و مرتبہ اور دولت کی خواہش تھی۔ یہ معاملہ سنگین ہے اور تکرار کے ساتھ پیش آیا ہے۔ گو کہ تراجم کی کتابوں میں اس پر توجہ بہت کم دی گئی ہے۔ کچھ شیعہ فقہا نے فریضہ خمس سے تعلق ہونے کے پیش نظر اس جانب توجہ ضرور دی ہے، جیسے مرتضی مطہری (وفات:  1400ھ/1979م) وغیرہ نے۔ البتہ سنی حلقوں میں یہ موضوع طبقات اور تراجم کی کتابوں میں بکھرا ہوا ہے اور اسے تلاش کر کے جمع کرنے اور سامنے لانے کی ضرورت ہے چناں چہ آگے ہم اس کی بعض مثالوں کو نمونے کے طور پر پیش کریں گے۔ 

بعض علما نے مادی اسباب کی بنیاد پر مسلکی تبدیلی کے مظہر کا شکوہ کیا ہے جیسے ابن الجوزی نے اپنی کتاب المنتظم میں پانچویں صدی ہجری کے نصف اخیر یعنی گیارہویں صدی عیسوی میں مسالک میں اس قسم کی منتقلی کے پھیل جانے کی طرف اشارہ کیا ہے:  ابن عقیل نے کہا پھر نظام کی حکومت آگئی اور اشعریت کو بڑھاوا دیا جانے لگا تو میں نے دیکھا بہت سے اہل مسلک نے منتقلی شروع کردی اور منافقت کرنے لگے اور اشعری اور شافعی مسلک کا سپورٹ کرنے لگے عزت اور مناصب کی لالچ میں۔ 

اس کے مقابلے میں ہم دیکھتے ہیں بعض علما اپنا مسلک تبدیل کرنے پر بالکل راضی نہیں ہوئے بھلے ہی ان کے سامنے کیسے ہی پیش کش کیوں نہ کی گئی۔ امام ذہبی نے ’’تاریخ الاسلام‘‘ میں نقل کیا ہے کہ دیوان متنبی کے مشہور شارح ابو البقا عکبری حنبلی کہتے ہیں کہ میرے پاس شافعیوں کا ایک گروپ آیا اور کہنے لگا ہمارے مسلک میں آجاؤ تو ہم تم کو مدرسہ نظامیہ میں نحو و لغت کی تدریس کی ذمہ داری دے دیں گے تو میں نے قسم کھا کر کہا کہ اگر تم لوگ مجھے کھڑا کر کے میرے اوپر اتنا سونا انڈیل دو کہ میں اس سے ڈھک جاؤں تب بھی میں اپنے مسلک کو تبدیل نہیں کروں گا۔ 

بسا اوقات دونوں طرح کی مثالیں ایک ہی موقع سے جمع بھی ہوجاتی تھیں۔ امام ذہبی نے یہ بھی نقل کیا ہے کہ عباسی خلیفہ مستنصر نے ایک بڑی خوب صورت اور شاندار مسجد تعمیر کرائی اور لوگ اس کی امامت اور اس کی مسند درس کے لیے نظریں اٹھانے لگے۔ چناں چہ وزیر ابن ناقد نصیر الدین نے قاریوں کی ایک جماعت بلائی، ان میں کچھ حنبلی بھی تھے۔ اس نے کہا اپنا مسلک بدل لو اور امام بن جاؤ تو وہ تیار ہوگئے۔ البتہ بغداد کے شیخ عبد الصمد بن احمد سے جب یہ کہا گیا تو انھوں نے کہا میں اپنا حنبلی مسلک نہیں بدل سکتا۔ ان سے پوچھا گیا کیا شافعی مسلک بہتر نہیں ہے تو انھوں نے جواب دیا کیوں نہیں لیکن مجھے اپنے مسلک میں کوئی خرابی نہیں دکھ رہی جس کی وجہ سے میں اسے چھوڑوں۔ خلیفہ کو جب یہ پتہ چلا تو اس نے ان کے جواب کی تحسین فرمائی اور کہا دوسروں کے بجائے امامت ان ہی کے سپرد کی جائے۔ 

البتہ مادی اسباب کی بنا پر مسلکی تبدیلی کو اس کے اپنے سیاق اور حالات میں رکھ کر سمجھنا ضروری ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ رزق کا اطمینان بخش انتظام ان مسائل میں سے رہا ہے جن کا بہت سے فقہا پر گہرا اثر رہا ہے، اس سے مستثنی صرف وہ چنندہ علما ہیں جو علم کی تجارت نہیں کرتے اور علمی اور مالی آزادی کی تلاش میں رہتے ہیں اور اس سلسلے میں وہ کبھی سلطان اور کبھی مالداروں سے دوری اختیار کرتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ اس انتظام کا راستہ صرف تدریسی مناصب کا حصول ہوتا ہے جس کے اخراجات اٹھانے والے اوقاف کے منتظمین کسی متعین مسلک سے وابستہ ہونے کی شرط لگا دیتے ہیں۔ 

۲۔ منہجی اسباب سے مسلکی تبدیلی 

یہ تبدیلی ہم ہر مسلک کے اہل علم میں دیکھ سکتے ہیں گرچہ کہ یہ زیادہ تر حنبلی فقہا میں دیکھنے کو ملی، جن کا مسلک اپنے ابتدائی دور میں روایات اور آثار پر اعتماد کرنے کے باعث مسلک شافعی سے قریب تر تھا۔ خود امام احمد بن حنبل امام شافعی کے خاص شاگرد تھے چناں چہ حنبلی مسلک سے شافعی مسلک میں تبدیلی آسان اور قریب تھی اور بسا اوقات مسلکی طور سے قابل قبول بھی تھی۔ 

بہر کیف ایک مسلک سے دوسرے مسلک کی طرف منتقلی مسلکی تعصب کی مصیبت سے سلامتی کی بڑی دلیل ہے۔ اور اس کا مطلب دراصل فروعات میں (نہ کی اصول میں) ایک ہی شریعت کے نصوص کو سمجھنے میں ایک مدرسے پر دوسرے مدرسے کو ترجیح دینا تھا اور یہ ہمارے زمانے میں کسی ایک یونیورسٹی سے دوسری میں منتقلی یا متعین مناہج والے کسی ایک علمی مدرسے سے کسی دوسرے علمی معیارات والے مدرسے میں منتقلی کے مانند ہے جب کہ اصل ہدف اور مقصود بالآخر ایک ہی ہو۔ 

۳۔ دشمنی کے سبب مسلکی تبدیلی 

 کبھی ایسا بھی ہوا کہ کسی فقیہ کا اپنے مسلک کے دوسرے فقہا کے ساتھ اختلاف اور پھر اس کی اجتہادی آرا کا ان کے درمیان غیر مقبول ہونا اس فقیہ کے لیے مسلکی تبدیلی کا محرک بن جاتا، خاص کر جب نئے مسلک میں شمولیت اس کو حرکت و آزادی، اجتہاد اور کبھی کبھی ترقی کے کسی قدر وسیع مواقع فراہم کرے۔ 

اس کی ایک مثال وہ ہے جو ابن الجوزی نے حنبلی فقیہ احمد بن علی بن برہان کے حوالے سے نقل کی ہے، جو احمد بن حنبل کے مسلک پر تھے، ابو الوفا ابن عقیل کے ساتھیوں میں تھے، فقہ اور اصول فقہ میں مہارت رکھتے اور بہت ذہین و فطین تھے:  ’’ان کے خلاف ہمارے حنبلی لوگوں نے بہت ناروا سلوک کیا چناں چہ انھوں نے مسلک تبدیل کرلیا اور دو شافعی اماموں (شاشی اور غزالی) کے منہج پر فقہ کی تربیت حاصل کی۔ اور انھوں نے یہ محسوس کیا کہ شافعی مسلک کے لوگ ان کے احترام کا پورا پورا حق ادا کر رہے ہیں پھر ترقی کی اور لوگوں نے ان کو مدرسہ نظامیہ کا مدرس بنادیا۔‘‘ 

داخلی اسباب 

ابن الجوزی کی عبارت پر غور کرتے ہوئے ہم دیکھتے ہیں کہ وہ مسلک بدلنے والے عالم کو ملامت نہ کرکے ان لوگوں کے ناروا اخلاق پر تنقید کرتے ہیں جو ان کے ہم مسلک تھے اور جنھوں نے اپنے ہی ہم مسلک عالم کے ساتھ ناروا برتاؤ کیا تھا اور اس کے نتیجے میں وہ عالم اس مسلک سے کوچ کرگئے تھے۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ مسلک یا گروپ کبھی کبھی اپنے ماننے والوں کی علیحدگی کا ذمہ دار خود ہوتا ہے۔ 

اسی طرح کبھی اس کے برعکس صورتِ حال بھی سامنے آتی ہے کہ ایک آدمی اپنے مسلک سے نکلتا ہے اور پھر نئے مسلک کے لوگوں کی طرف سے ناروا برتاؤ کا سامنا کرتا ہے جیسا کہ ابن الجوزی نے ابو نصر الرفا کے بارے میں نقل کیا ہے جو حنبلی تھے اور پھر شافعی بن گئے اور فقہ میں بڑا کام کیا لیکن بعد میں مدرسہ نظامیہ سے بڑی بے دردی کے ساتھ ان کا اخراج کر دیا گیا۔ 

۴۔ علمی مرتبت کی چاہت میں مسلکی تبدیلی 

 کچھ فقہا نے اپنا مسلک اس چاہت کے تحت تبدیل کیا کہ ان کو بڑے بڑے مدارس میں تدریسی ذمہ داریاں حاصل ہوجائیں جو کسی مخصوص مسلک کے ماتحت ہوتے تھے۔ گویا وہ ایک طرح کی علمی ترقی اور بلند مرتبہ حاصل کرنے کی کوشش ہوتی تھی۔ بسا اوقات وہ مدارس حکومت کے وسائل سے بھی مالا مال ہوتے تھے کیوں کہ ہر مسلک کو اپنے سفر میں کچھ ایسے سنہری موقعے ملتے رہے ہیں جب ان کو خوب رواج، پھیلاؤ اور حکومت کی سرپرستی ملی ہے۔ 

چناں چہ شافعی مسلک جیسا کہ ہم نے ابن عقیل حنبلی کے کلام میں دیکھا وزیر نظام الملک کے دور حکومت سے غالب ہوا، جب کہ اس سے پہلے عباسی دور میں حنبلی مسلک اپنے عروج پر رہا اور ان دونوں سے بھی پہلے عباسی حکومت کے ابتدائی دور میں حنفی مسلک کا دور دورہ رہا اور پھر دوبارہ عثمانی دور میں اس کو مرکزیت حاصل ہوگئی۔ مراکش اور اندلس میں تیسری صدی ہجری کے آغاز سے ہی زیادہ تر مالکی مسلک کو سیادت حاصل رہی جب سے اموی حکومت نے وہاں پڑاؤ ڈالا۔ 

جو فقہا اپنا مسلک چھوڑ کر شافعی مسلک میں داخل ہوئے تاکہ بغداد میں ان کے مدارس میں تدریسی خدمات کا موقع پاسکیں اور پھر ان کے سب سے بڑے مدرسے یعنی مدرسہ نظامیہ بغداد میں تدریسی منصب سے سرفراز ہوئے ان میں ایک مشہور نام ابو بکر بن حبیر السلامی کا ہے جن کے بارے میں ابن کثیر نے البدایہ و النہایہ میں لکھا ہے کہ ’’عالم و فاضل ہستی تھے، حنبلی تھے پھر شافعی ہوگئے تھے اور بغداد کے بہت سے شافعی مدارس میں تدریس کی خدمات پر رہے، خوب ترقی کی اور شہرت پائی یہاں تک کہ مدرسہ نظامیہ میں استاد بن گئے اور آخر عمر تک وہیں رہے یہاں تک کہ وفات پاگئے۔‘‘ 

۵۔ آس پاس کے اثرات کے سبب مسلکی تبدیلی 

ہم کو بہت سے علما کے تراجم میں یہ بھی دیکھنے کو ملا کہ ان میں سے بعض نے اپنے قریبی رشتہ داروں میں سے کچھ اہل علم سے متاثر ہونے کے سبب یا اپنے شیوخ میں سے کسی سے متاثر ہوکر اس کے مسلک کو اختیار کر لیا۔ ایک وجہ سلطان سے قربت حاصل کرنے یا سیاسی اصلاح کے لیے سلطان کے قریب ہونے کی غرض سے بھی فقہا نے اپنے مسلک تبدیل کیے۔ اسی طرح جب وہ کسی ایسے علاقے میں گئے جہاں اپنے مخالف مسلک کو غالب پایا تو موافقت اور ہم آہنگی کی غرض سے اس مسلک کو اختیار کرلیا۔ 

شاید سب سے دل چسپ وجہ یہ ہو کہ کچھ علما نے اپنا مسلک اس وجہ سے تبدیل کر لیا کہ انھوں نے خواب میں دیکھا کہ وہ اپنے مسلک کو چھوڑ کر کسی نئے مسلک میں داخل ہو گئے ہیں۔ اس کی ایک مثال سیوطی بغیة الوعاة میں نقل کرتے ہیں کہ محمد بن محمد علی کاشغری نحو، لغت اور تفسیر میں بہت ماہر تھے اور تصوف سے بھی مناسبت رکھتے تھے۔ وہ یمن آئے اور حنفی مسلک سے شافعی میں منتقل ہوگئے اور فرمایا:  ’’میں نے خواب دیکھا کہ قیامت آگئی اور لوگ جنت میں داخل ہونے لگے تو میں بھی اپنے گروپ کے ساتھ جانے لگا کہ اتنے میں ایک شخص نے مجھے کھینچ لیا اور کہا شافعی حضرات حنفی حضرات سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے۔ چناں چہ میں نے بھی طے کیا کہ میں پہلے جانے والوں میں سے رہوں۔‘‘ 

زبردست کشش 

شافعی مسلک کی طرف منتقلی:  ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دوسرے مسالک سے نکلنے والے فقہا و علما کے لیے سب سے زیادہ پرکشش مسلک شافعی تھا خاص کر حنبلی مسلک چھوڑنے والوں کے لیے۔ اس کے بہت سے اسباب تھے جن میں سب سے اہم سبب امام شافعی کی وفات کے بعد سے عالم اسلام کے قلب کے کئی بڑے شہروں میں ان کے مسلک کا عظیم الشان وجود تھا، اور اسی کے ساتھ خود مختار ریاستوں کے سلاطین کی اس مسلک پر خصوصی عنایت تھی۔ اس کی وجہ سے شافعی مسلک کا اقبال بلند ہوا، ان کے مدارس اور اوقاف کی کثرت ہوئی۔ اس کے علاوہ ان کے کلامی مسلک یعنی اشعریت کے حوالے سے بھی سلاطینِ وقت کی خصوصی عنایت رہی۔ 

پانچویں صدی ہجری کے اوائل سے خراسان اور عراق میں سلجوقی سلطنت کے عہد میں بالخصوص وزیر ںظام الملک کے وقت سے جو خود شافعی مسلک کا پیرو تھا شافعی علما کو جو خصوصی عنایت حاصل تھی اس کا ذکر گزر چکا ہے۔ اسی طرح چھٹی صدی میں ایوبی سلطنت کے دور میں شام و مصر میں شافعی مسلک کا ستارہ خوب بلند ہوا اور پھر ساتویں صدی کے نصف سے دسویں صدی کے ابتدائی دہائیوں تک مملوکی سلطنت میں اس کو خوب ترقی ملی۔ 

اس سلطانی عنایت اور توجہ کے نتیجے میں مشرق و مغرب میں ان کے مدارس کی کثرت اور ان کے اوقاف کے پھیل جانے کے بعد شافعیوں کو قضا، حسبہ اور بہت سے مدارس اور وقف اداروں کی نگہبانی کے مناصب حاصل ہوئے۔ چناں چہ بہت سے حنبلی، حنفی اور مالکی علما خراسان و عراق اور شام و مصر میں شافعی مسلک اختیار کرنے لگے تاکہ ان مناصب میں حصہ پا سکیں۔ 

ساتھ ہی ساتھ منہجی پہلو پر توجہ دینا بھی بہت ہی اہم ہے اور وہ یہ کہ شافعی مسلک کی ایک پہچان معتدل مسلک کے طور پر رہی ہے، حنفی مسلک جس میں رائے اور عقل غالب رہی اور مالکی و حنبلی مسلک جن میں حدیث و روایت کا غلبہ رہا، ان کے درمیان ایک معتدل مسلک کی پہچان شافعی مسلک کو ملی۔ چناں چہ اس اعتدال نے دونوں طرف کے علما کو اپنی طرف کھینچا۔ یہاں ہم اس قسم کی کچھ مشہور مثالوں کا تذکرہ کریں گے۔ 

حنفیوں کا شافعی مسلک اختیار کرنا:  حنفی مسلک سے شافعی مسلک اختیار کرنے والوں میں ایک مثال سیوطی نے بغیۃ الوعاۃ میں ابو الخیر النحوی کے حوالے سے ذکر کی ہے۔ وہ کہتے ہیں:  وہ اصحاب الرای یعنی حنفی مسلک سے تعلق رکھتے تھے اور پھر امام ابو بکر قفال شافعی کی صحبت میں اصحاب الحدیث (شوافع) میں سے ہوگئے۔ 

یہاں سیوطی اس تبدیلی کا سبب شاگرد کا استاد سے متاثر ہونا ذکر کرتے ہیں حالاں کہ یہ کوئی عمومی قاعدہ نہیں تھا چناں چہ ابن عقیل حنبلی نے معتزلہ، اشاعرہ اور شافعیہ سب کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا لیکن اپنے مسلک پر باقی رہے، جب کہ ان کو اپنے دور کے بڑے حنبلی علما کے ساتھ کافی آزمائشوں اور سختیوں کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ 

اسی طرح ذہبی نے سیر اعلام النبلاء میں ابو علی حسن بن اسرافیل النسفی کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’وہ شیخ الحنفیہ و الشافعیہ، علامہ اور ایک بہت بڑی شخصیت کے مالک تھے۔ وہ پہلے حنفی تھے اور پھر شافعی مسلک اختیار کر لیا تھا۔ اسی طرح محمد بن محمد بن علی کاشغری علاقے کی رعایت میں حنفی سے شافعی ہو گئے تھے۔‘‘ 

خاندان سے مختلف مسلکی وابستگی 

جن لوگوں نے اپنے خاندان کی مسلکی وابستگی سے اختلاف کیا یا مسلکی معاملے میں وابستگی کے تنوع کو اختیار کیا ان میں قاضی مؤرخ تقی الدین مقریزی ہیں جن کے بارے میں سخاوی نے الضوء اللامع میں لکھا ہے:  انھوں نے مختلف شیوخ کا طواف کیا اور بڑے بڑے لوگوں سے ملاقاتیں کیں اور ائمہ کی مجلسوں میں شریک ہوئے اور ان سے سیکھا، اپنے نانا کے مسلک کی پیروی کرتے ہوئے حنفی مسلک پر فقہ کی تعلیم حاصل کی اور المختصر پوری یاد کرلی، پھر جب بڑے ہوگئے تو اپنے والد کی وفات کے بعد شافعی مسلک اختیار کرلیا اور اسی پر قائم رہے لیکن ان کا رجحان ظاہریہ کی طرف بھی تھا جب کہ ان کے والد اور دادا حنبلی مسلک سے منسلک تھے۔ 

مالکیوں کا شافعی مسلک اختیارکرنا:  مالکی قدیم فقہا میں سے جن لوگوں نے شافعی مسلک اختیار کیا ان میں ایک ابو علی بن مقلاص الخزاعی المصری ہیں جن کا تذکرہ سیوطی نے حسن المحاضرہ میں اس طرح کیا ہے:  ’’وہ ایک فاضل، زاہد اور ثقہ فقیہ تھے اور مالکی فقہ کے اکابر علما میں شمار ہوتے تھے۔ جب امام شافعی مصر آئے تو وہ ان سے وابستہ ہوگئے اور شافعی فقہ اختیار کرلی۔‘‘ یہاں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ایک شاگرد اپنے عظیم المرتبت اور مؤقر استاد سے متاثر ہوکر اپنا مسلک تبدیل کر لیتا ہے۔ 

اسی طرح صفدی اپنی کتاب الوافی بالوفیات میں امام ابن دقیق العید کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:  ’’شیخ الاسلام تقی الدین ابن دقیق العید، ایک عظیم شخصیت اور قاضی القضاة تھے، وہ مالکی و شافعی دونوں مسلک سے واقف تھے۔ پہلے مالکی تھے اور پھر شافعی ہوگئے تھے۔ انھوں نے کہا میرے اجتہادات شافعی کے اجتہادات سے موافقت رکھتے ہیں سوائے دو مسئلوں کے۔‘‘ یہ منہجی سبب سے مسلک کی تبدیلی کی بھی ایک شاندار مثال ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تبدیلی اجتہاد اور غور و فکر اور صحت مند علمی زندگی کا ایک مظہر تھی۔ 

حافظ ابن حجر اپنی کتاب إنباء الغُمْر میں محمد ابو الخطاب سبط التقی السبکی کے بارے میں لکھتے ہیں:  ’’ان کے والد مالکی قاضی تھے، پھر وہ اپنے ماموؤں کے ساتھ شافعی مسلک میں چلے گئے۔ وہ انھی کے درمیان پلے بڑھے تھے، سو انھی کے مسلک سے وابستہ بھی ہوگئے تھے۔‘‘ یہاں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ خاندانی ماحول کا بھی مسلک کے اختیار پر بڑا اثر رہتا تھا اور یہ صورتِ حال مسلکی تبدیلی میں بہت بار پیش آئی۔ 

اسی طرح سخاوی نے الضوء اللامع میں قاضی عمر بن عبد اللہ بن محمد بن عیسی بن موسی المغربی المصمودی الشافعی تذکرہ کرتے ہوئے لکھا کہ:  ’’ان کے دادا موسی مالکی فقیہ تھے اور ان کے بیٹے (عیسی) بھی مالکی تھے پھر قاضی الطائف ابن المرحل کا انتقال ہو گیا تو عیسی شافعی ہوگئے اور قضا کے مسلک پر فائز ہوئے اور اس کے بعد ان کے بیٹوں نے بھی انھی کی پیروی کی اور شافعی مسلک پر قائم رہے۔‘‘ یہاں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک پورا خاندان اپنی سمت بدل لیتا ہے قضا کے منصب کو حاصل کرنے کے لیے تاکہ اسے بلند مرتبہ اور مادی امتیازات حاصل ہوجائیں۔ 

حنبلیوں کا شافعی مسلک اختیارکرنا:  علما کے تعارف پر لکھی گئی کتابوں کے مطابق اپنا مسلک چھوڑ کر شافعی مسلک اختیار کرنے والوں میں اکثریت حنابلہ کی تھی یہاں تک کہ شافعی مسلک اختیار کرنے والے حنبلیوں کے لیے ایک دل چسپ لقب ایجاد کر دیا گیا اور وہ تھا حنبش، حنبلی اور شافعی سے ملا کر۔ ابن حجر نے اپنی کتاب  نزهة الالباب میں محمد بن احمد بن خلف البندنیجی کے بارے میں لکھا ہے:  ’’وہ حنبلی تھے پھر بعد میں شافعی ہو گئے تھے اور اسی وجہ سے ان کا لقب حنبش پڑ گیا تھا۔‘‘ 

اسی طرح ایک دوسرے حنبلی صاحب جنھوں نے شافعی مسلک اختیار کر لیا تھا اسعد بن احمد الشیبانی ہین جو ابن البلدی کے نام سے معروف ہیں۔ صفدی نے الوافی بالوفیات میں ان کے حوالے سے لکھا ہے کہ:  ’’پہلے وہ احمد کے مسلک پر تھے پھر بعد میں شافعی مسلک میں چلے گئے۔‘‘ 

ابن النجار نے اپنی کتاب تتمة ذیل تاریخ بغداد میں ابو القاسم عمر بن ابو بکر الدباس کے بارے میں لکھا ہے کہ:  ’’وہ حنبلی تھے پھر شافعی مسلک میں چلے گئے تھے اور کلام میں اشعری مسلک اختیار کیا، اور بغداد میں مدرسہ نظامیہ میں قیام کیا، بہت سی احادیث کا سماع کیا اور مدرسہ نظامیہ کے دار الکتب کے اشراف کی ذمہ داری سنبھالی۔‘‘ 

ابن خلکان نے وفیات الاعیان میں امام سیف الدین الآمدی کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا:  ’’وہ فقیہ اور اصولی تھے۔ پہلے مرحلے میں حنبلی تھے، بغداد آئے اور اسی پر عمل پیرا رہے پھر ایک مدت بعد امام شافعی کے مسلک کو اختیار کرلیا۔‘‘ انھی کے بارے میں ذہبی نے السیر میں لکھا کہ:  ’’وہ علامہ مصنف کہنہ مشق سیف الدین الآمدی الحنبلی ثم الشافعی تھے۔ ان کے زمانے میں اصول الدین اور اصول الفقہ میں ان کی ٹکر کا کوئی نہیں تھا۔‘‘ 

قدیم حنبلی فقہا میں شافعی مسلک اختیار کرنے والے آخری لوگوں میں ایک نام دمشق کے محدث برہان الدین ابراہیم بن محمد دمشقی کا ہے جن کا تذکرہ سیوطی نے نظم العقیان میں کیا ہے اور لکھا ہے:  ’’وہ ناجی (نجات یافتہ) کے لقب سے مشہور ہوئے کیوں کہ انھوں نے حنبلی مسلک چھوڑ کر شافعی مسلک اختیار کر لیا تھا۔‘‘ 

 

مشمولہ: شمارہ اکتوبر 2023

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau