اخلاقی حِس، سماجی روایت اور حق پرستی

انسانی شخصیت کی درست معرفت کے لیے اُس کی ماہیت سے متعلق دو اہم صداقتوں — اخلاقی حس اور آزادی انتخاب — کا ادراک ضروری ہے۔ ان میں سے پہلی صداقت کو یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ ہر انسان صالح فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔ فطری طور پر ہر انسان کا وجدان اس حقیقت سے واقف ہوتا ہے کہ اس کا ایک رَب ہے، جس نے اُسے تخلیق کیا ہے اور جو تنہاعبادت کا مستحق ہے۔ اسی طرح اُس کی فطرت اپنے خالق کے سامنے جوابدہی کا احساس بھی رکھتی ہے۔ انسان فطری طور پر یہ بھی جانتا ہے کہ سچائی، دیانت داری، حیا اور عدل و انصاف اچھی خصلتیں ہیںاور انسانی شخصیت کا حسن اِن اوصافِ حسنہ کی موجودگی سے وابستہ ہے۔ ان اچھی صفات کے برعکس، کذب، بددیانتی، بے حیائی اور ظلم و زیادتی ناپسندیدہ ہیں اور انسانی شخصیت کے اندر بگاڑ پیدا کرتی ہیں۔انسان کی اس فطرتِ صالحہ کا زندہ مظہر، انسانی ضمیر ہے جو نیکی اور بدی میں امتیاز کی صلاحیت رکھتا ہے اور نیکی کی طرف انسان کو مائل کرتا رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانی ضمیر کو ’’نفسِ لوامہ‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ قرآنِ مجید کا ارشاد ہے:

لَا أُقْسِمُ بِیَوْمِ الْقِیَامَۃِ o  وَلَا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَۃِo أَیَحْسَبُ الْإِنسَانُ أَلَّن نَجْمَعَ عِظَامَہُ               )القیامہ: ۱-۳)

’’میں قسم کھاتا ہوں قیامت کے دن کی اور قسم کھاتا ہوں ایسے نفس کی جو اپنے اوپر ملامت کرے۔ کیا انسان یہ خیال کرتا ہے کہ ہم (قیامت کے دن) اُس کی ہڈیاں جمع نہ کریں گے۔‘‘

انسانی ضمیر:

مسلمان اہلِ علم، انسانی شخصیت (یعنی نفسِ انسانی) کے سلسلے میں مسلسل غور کرتے رہے ہیں اس لیے کہ نفس کا تزکیہ (جس کے معنی اصلاح اور نشوونما کے ہیں) دین میں اساسی اہمیت رکھتا ہے۔ نفسِ انسانی میں ترقی کے بے پناہ امکانات موجود ہیں۔ ترقی کے مدارج کے سلسلے میں قرآنی ارشادات سے استفادہ کرتے ہوئے، اہلِ علم نے تین درجات کا تذکرہ کیا ہے چنانچہ مولانا اشرف علی تھانویؒ فرماتے ہیں:

’’اگر انسان کا نفس، لہو ولعب (کھیل کود) کی جانب ہو، اس کو نہ نیکی کی طرف رغبت ہو اور نہ نیک کام میں اس کا جی لگے تو ایسے نفس کو ’’نفس امارہ بالسوء‘‘ کہتے ہیں۔ (۲) اگر نیک و بد اور حسن و قبح کا احساس کرے، کبھی کبھی برائی کا مرتکب ہو بیٹھے لیکن فوراً ہی متنبہ ہوکر اپنی خطا کا معترف ہو اور صدورِ عصیان پر اپنے آپ کو ملامت کرے تو ایسے نفس کو نفسِ لوامہ کہتے ہیں۔ (۳) اگر نفس، نیکی کا شائق اور بدی سے بیزار ہو، عبادت و ریاضت پر مائل، صبر و تحمل کا خوگر اور حسنِ اخلاق کا گرویدہ ہو تو ایسے پاک نفس کا نام، نفسِ مطمئنہ ہے۔‘‘

سورہ قیامہ کی مندرجہ بالا آیات کی تشریح بیان کرتے ہوئے جناب شبیر احمد عثمانی لکھتے ہیں:

’’یہاں نفسِ لوامہ کی قسم کھا کر اشارہ فرمایا کہ اگر فطرت صحیح ہو تو خود انسان کا نفس، دنیا ہی میں برائی اور تقصیر پر ملامت کرتا ہے۔ یہی چیز ہے جو اپنی اعلیٰ اور اکمل ترین صورت میں قیامت کے دن ظاہر ہوگی۔‘‘

جناب صلاح الدین یوسف اِن آیات کی تفسیر کے ذیل میں لکھتے ہیں:

’’(بیدار نفس) بھلائی پر بھی (ملامت) کرتا ہے کہ زیادہ کیوں نہیں کی۔ اور برائیوں پر بھی، کہ اُن سے باز کیوں نہیں آتا؟ دنیا میں بھی جن کے ضمیر بیدار ہوتے ہیں، اُن کے نفس انھیں ملامت کرتے ہیں۔ تاہم آخرت میں تو سب کے ہی نفس، ملامت کریں گے۔‘‘

مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ سورہ قیامہ کی مندرجہ بالا آیات کی تشریح بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’کوئی انسان دنیا میں ایسا موجود نہیں ہے جو اپنے اندر ضمیر نام کی ایک چیز نہ رکھتا ہو۔ اس ضمیر میں لازماً، بھلائی اور برائی کا ایک احساس پایا جاتا ہے۔ اور چاہے انسان، کتنا ہی بگڑا ہوا ہو، اس کا ضمیر، اسے کوئی برائی کرنے اور کوئی بھلائی نہ کرنے پر ضرور ٹوکتا ہے، قطعِ نظر اس سے کہ اُس نے بھلائی اور برائی کا جو معیار بھی قرار دے رکھا ہو، وہ بجائے خود صحیح ہو یا غلط۔

یہ (احساس) اِس بات کی صریح دلیل ہے کہ انسان نِرا حیوان نہیں ہے بلکہ ایک اخلاقی وجود ہے، اُس کے اندر فطری طور پر بھلائی اور برائی کی تمیز پائی جاتی ہے۔ وہ خود اپنے آپ کو اپنے اچھے اور برے افعال کا ذمہ دار سمجھتا ہے۔‘‘ (تفہیم القرآن، سورہ قیامہ، حاشیہ:۲)

انسان کے اندر ضمیر اور اخلاقی حس کی موجودگی اتنی واضح اور بدیہی حقیقت ہے کہ اس کا انکار کم ہی لوگوں نے کیا ہے۔ البتہ اس اخلاقی حس کی توجیہ کے سلسلے میں غیب کے قائلین اور غیب کے منکرین کے درمیان، بنیادی اختلاف پایا جاتا ہے۔ جو سوچنے والے خدا کے وجود پر یقین رکھتے ہیں اور غیبی حقائق کو تسلیم کرتے ہیں اُن کے نزدیک اخلاقی حس اللہ کی عطا کردہ نعمت ہے اور انسان کا شرف و امتیاز، اخلاقی حس کی موجودگی سے وابستہ ہے۔ قرآنِ مجید نے اس حقیقت کو مختلف پیرایوں میں بیان کیا ہے:

(۱) أَلَمْ نَجْعَل لَّہُ عَیْنَیْنِo وَلِسَاناً وَشَفَتَیْنِo وَہَدَیْنَاہُ النَّجْدَیْنِo  البلد: ۸-۱۰

’’کیا ہم نے اُس (انسان) کو دو آنکھیں اور ایک زبان اور دو ہونٹ نہیں دیے اور (نیکی اور بدی) کے دونوں نمایاں راستے اُسے نہیں دکھا دیے؟‘‘

(۲) وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاہَاo فَأَلْہَمَہَا فُجُورَہَا وَتَقْوَاہَا o قَدْ أَفْلَحَ مَن زَکَّاہَاo وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّاہَا o (الشمس: ۷-۱۰)

’’اور نفسِ انسانی کی اور اس ذات کی قسم جس نے اُسے ہموار کیا پھر اس کی بدی اور پرہیزگاری اُس پر الہام کردی۔ یقینا فلاح پاگیا وہ جس نے نفس کاتزکیہ کیا اور نامراد ہوا جس نے اُسے دبا دیا۔‘‘

(۳) وَالتِّیْنِ وَالزَّیْتُونِ o وَطُورِ سِیْنِیْنَo وَہَذَا الْبَلَدِ الْأَمِیْنِo لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِیْ أَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ o (التین: ۱-۴)

’’قسم ہے انجیر اور زیتون کی اور طورِ سینا اور اس پُرامن شہر (مکہ) کی۔ ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا۔‘‘

مندرجہ بالا آیتیں، سورہ التین کی ابتدائی آیتیں ہیں۔ سورہ التین کے مضامین کا تعارف کراتے ہوئے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے انسانی ساخت کے اخلاقی پہلو پر اس طرح روشنی ڈالی ہے:

’’انسانوں میں دو قسمیں پائی جاتی ہیں: ایک وہ جو اس بہترین ساخت پر پیدا ہونے کے بعد برائی کی طرف مائل ہوتے ہیں اور اخلاقی پستی میں گرتے گرتے اس انتہا کو پہنچ جاتے ہیں، جہاں اُن سے زیادہ نیچ، کوئی دوسری مخلوق نہیں ہوتی۔ دوسرے، وہ جو ایمان و عملِ صالح کا راستہ اختیار کرکے اس گراوٹ سے بچ جاتے ہیں اور اس مقامِ بلند پر قائم رہتے ہیں جو ان کے بہترین ساخت پر پیدا ہونے کا لازمی تقاضا ہے۔‘‘  (تفہیم القرآن، دیباچہ سورۃ التین)

انسانی  ضمیر اور سماجی روایات:

غیب پر ایمان لانے والے، انسانی شخصیت میں ضمیر کی موجودگی کو اُن علامات میں شمار کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے وجود اور اس کی حکمتِ بالغہ کی جانب اشارہ کرتی ہیں۔ اس کے برعکس جو لوگ غیب کے قائل نہیں ہیں اور اس بنا پر خدا کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے، ان کا دعویٰ یہ ہے کہ انسانی ضمیر، محض سماجی روایات کا نام ہے۔ اُن کے خیال کے مطابق انسانوں کو تجربے نے یہ بتایا کہ انسانی سماج کی بقا اور انسانوں کے درمیان باہمی تعاون کے لیے بعض صفات ناگزیر ہیں (مثلاً سچائی، دیانت داری وغیرہ)۔ اسی طرح لوگوں نے یہ دیکھا کہ جھوٹ اور فریب وغیرہ کے فروغ سے سماجی انتشار پیدا ہوتا ہے چنانچہ انھوں نے سماج کے لیے مفید صفات کو مطلوب ٹھہرادیا اور مضر خصائل کو ناپسندیدہ اور غیرمطلوب قرار دیا۔ آہستہ آہستہ بعض اوصاف کے مطلوب یا غیر مطلوب ہونے کے اس تصور میں تقدس کا رنگ پیدا ہوگیا اور محض سماجی روایات کے بجائے انھیں اخلاقی حس سے تعبیر کیا جانے لگا۔ گویا منکرینِ غیب کے نزدیک جن معیارات کو اخلاقی معیارات کہا جاتا ہے وہ محض اپنی سماجی افادیت کی وجہ سے اختیار کرلیے گئے ہیں اور ایسا نہیں ہے کہ انسان کے وجودِ حیوانی میں ’’فطرتِ انسانی‘‘ نامی شے واقعتا پائی جاتی ہو، جو (سماجی تجربے سے قطعِ نظر) اخلاقی حس کی، بطورِ خود (Innate)موجودگی پر دلالت کرتی ہو۔

مادیت سے متاثر، انسانی ضمیر کی مندرجہ بالا توجیہ کو تسلیم کرنا اس لیے ممکن نہیں ہے کہ ہزار کٹھ حجتیوں کے باوجود، انسان اپنے ان اندرونی احساسات کو نہیں جھٹلا سکتا جو کوئی برا فعل کر گزرنے کے بعد ضمیر کی ملامت کی صورت میں، اس کے اندرون میں نمودار ہوتے ہیں۔ مزید برآں ضمیر انسانی کی مادّی و تجرباتی تعبیر کے غلط ہونے کی قوی تر دلیل، یہ واقعہ ہے کہ جب کسی فرد (مثلاً زید) کو بکر کی بددیانتی یا فریب سے واسطہ پیش آتا ہے تو زید کو سخت شکایت ہوتی ہے اور وہ اپنی شکایت کا اظہار کرتے وقت، اخلاقی معیارات ہی کا سہارا لیتا ہے۔ انسانو ںکا یہ طرزِ عمل اس بات کی دلیل ہے کہ اخلاقی حسن و قبح کے تصورات محض سماجی معاہدے نہیں ہیں جو اجتماعی مفاد کی خدمت کے لیے استوار کرلیے گئے ہوں بلکہ ان اخلاقی تصورات کی جڑیں، انسان کی فطری ساخت میں پیوست ہیں۔ اس اعتبار سے انسان محض حیوانی وجود یا محض سماجی جاندار نہیں ہے بلکہ اس کے وجود کا اصل جوہر، اخلاقی ہے۔

درست تعبیر:

غور سے دیکھیں تو غیب کے منکرین سے انسانی شخصیت اور سماج کو سمجھنے میں، لغزش ہوئی ہے۔ وہ انسانوں کے طرزِ عمل کے مشاہدے سے جو نتیجہ نکالتے ہیں، اس کو اِن الفاظ میں بیان کیا جاسکتا ہے:

’’انسانوں کے درمیان تعاون، اشتراکِ عمل اور بقائے باہم کے لیے بعض قدروں کو اپنا لیا جانا مفید ثابت ہوا ہے، چنانچہ ان قدروں کو لوگوں نے آفاقی حقیقتوں کا درجہ دے دیا ہے۔‘‘

منکرینِ غیب کا نکالا ہوا مندرجہ بالا نتیجہ، امرِ واقعہ کی صحیح ترجمانی نہیں ہے۔ اگر انسان کج فہمی کا شکار نہ ہو تو وہ درجِ بالا موقف کے بجائے، (انسانی سماج کے مشاہدے سے) جو درست نتیجہ اخذ کرے گا، وہ یہ ہوگا:

’’انسانی فطرت، وجدانی طور پرنیکی اور بدی نیز حق و باطل کے امتیاز  سے واقف ہے۔ چونکہ نیک رویہ، حقیقتِ کائنات اور فطرتِ انسانی سے ہم آہنگ ہے، اس لیے جب انسان نیکی کی روش اختیار کرتے ہیں تو سماج میں ہم آہنگی اور استحکام پیدا ہوتا ہے۔ اس کے برعکس بدی او ربرائی، حقیقتِ کائنات اور فطرتِ انسانی سے ٹکراؤ کے ہم معنی ہے چنانچہ انسانوں کا برا طرزِ عمل، سماج میں انتشار اور فساد پیدا کرتا ہے۔ گویا جو رویہ حقیقت کے مطابق ہے، وہی انسانوں کے لیے مفید بھی ہے۔‘‘ قرآنِ مجید اس جانب اشارہ کرتا ہے:

أَنزَلَ مِنَ السَّمَاء  مَاء  فَسَالَتْ أَوْدِیَۃٌ بِقَدَرِہَا فَاحْتَمَلَ السَّیْلُ زَبَداً رَّابِیْاً وَمِمَّا یُوقِدُونَ عَلَیْہِ فِیْ النَّارِ ابْتِغَاء  حِلْیَۃٍ أَوْ مَتَاعٍ زَبَدٌ مِّثْلُہُ کَذَلِکَ یَضْرِبُ اللّہُ الْحَقَّ وَالْبَاطِلَ فَأَمَّا الزَّبَدُ فَیَذْہَبُ جُفَاء  وَأَمَّا مَا یَنفَعُ النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِیْ الأَرْضِ کَذَلِکَ یَضْرِبُ اللّہُ الأَمْثَالَo              (الرعد: ۱۷)                                                 ’’اللہ نے آسمان سے پانی برسایا اور ہر ندی نالہ اپنے ظرف کے مطابق اسے لے کر چل نکلا۔ پھر جب سیلاب اٹھا تو سطح پر جھاگ بھی آگئے۔ اور ایسے ہی جھاگ اُن دھاتوں پر بھی اٹھتے ہیں جنھیں زیور اور برتن وغیرہ بنانے کے لیے لوگ پگھلایا کرتے ہیں۔ اس مثال سے اللہ، حق اور باطل کے معاملے کو واضح کرتا ہے۔ جو جھاگ ہے وہ اڑ جاتا ہے اور جو چیز انسانوں کے لیے نافع ہے وہ زمین میں ٹھیر جاتی ہے۔ اس طرح اللہ مثالوں سے اپنی بات سمجھاتا ہے۔‘‘

جناب شبیر احمد عثمانی، اس آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’آسمان کی طرف سے بارش اتری جس سے ندی نالے بہ پڑے۔ ہر نالے میں اس کے ظرف اور گنجائش کے موافق، خدا نے جتنا چاہا پانی جاری کردیا۔ پانی جب زمین پر رواں ہوا تو مٹی اور کوڑا کرکٹ ملنے سے گدلا ہوگیا۔ پھر میل کچیل اور جھاگ پھول کر اوپر آیا۔

اسی طرح تیز آگ میں لوگ، چاندی، تانبہ، لوہا اور دوسری معدنیات پگھلاتے ہیں تاکہ زیور، برتن اور ہتھیار وغیرہ تیار کریں۔ اس کام میں بھی اس طرح جھاگ اٹھتا ہے مگر تھوڑی دیر بعد، خشک یا منتشر ہوکر، جھاگ جاتا رہتا ہے اور جو اصلی کارآمد چیز تھی (یعنی پانی یا پگھلی ہوئی معدنیات) وہی زمین میں باقی رہ جاتی ہے، جس سے مختلف طور پر لوگ منتفع ہوتے ہیں۔ یہی مثال حق و باطل کی سمجھ لو۔

جب وحی آسمانی، دینِ حق کو لے کر اترتی ہے تو قلوبِ بنی آدم، اپنے اپنے ظرف اور استعداد کے موافق فیض حاصل کرتے ہیں۔ پھر حق اور باطل، باہم بھڑ جاتے ہیں تو میل ابھر آتا ہے۔ بظاہر باطل، جھاگ کی طرح، حق کو دبا لیتا ہے لیکن اس کا یہ اُبال عارضی اور بے بنیاد ہے۔ تھوڑی دیر بعد اس کے جوش و خروش کا پتہ نہیں رہتا، خدا جانے کِدھر گیا۔ جو اصلی اور کارآمد چیز، جھاگ کے نیچے دبی ہوئی تھی (یعنی حق و صداقت) بس وہی باقی رہ جاتی ہے۔‘‘

قرآنِ مجید نے حق کے نافع ہونے کی طرف (اور باطل کے غیر نافع ہونے کی طرف) اشارہ کیا ہے۔ حق اور باطل کا امتیاز، زندگی اور معاملاتِ زندگی کے ہر گوشے میں کیا جانا چاہیے۔ اس قرآنی طرزِ فکر کے مطابق جب انسانی زندگی کے اخلاقی پہلو پر غور کیا جاتا ہے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ وحی الٰہی پر مبنی اخلاقی تعلیمات، محض اس بنا پر واجب التعمیل نہیں ہیںکہ اُن کے اچھے نتائج، دنیا میں نکلتے ہیں۔ اخلاقی تعلیمات کی سماجی افادیت تو اُن کے فیض کا صرف ایک جُز ہے۔محاسنِ اخلاق کو اختیار کرنے کا اصل محرک اُن کا حق و صداقت پر مبنی ہونا ہے۔ جب انسان، انفس و آفاق کے دلائل پر غور کرتا ہے اور وحی الٰہی کے لانے والے پیغمبروں کی بے داغ سیرت کا مشاہدہ کرتا ہے تو اسے اُن کی دعوت کی صداقت پر یقین حاصل ہوجاتا ہے۔ اس یقین کے نتیجے میں وہ یہ جان لیتا ہے کہ پیغمبروں کے ذریعے لائی گئی تعلیمات حق و صداقت پر مبنی ہیں۔ ان تعلیمات کا ایک اہم شعبہ محاسنِ اخلاق سے متعلق ہے۔ چنانچہ وہ اُن کو اختیار کرتا ہے۔ اس طرح حسنِ اخلاق کا اصل محرک حق پرستی کا جذبہ قرار پاتا ہے۔داعیانِ حق جو انبیاء کرام کے اُسوے کی پیروی کرتے ہوئے، انسانوں کو درستگی اخلاق کی تعلیم دیتے ہیں، اُن کی اصلاحی مساعی میں حق پرستی کو اساسی حیثیت حاصل ہونی چاہیے۔  اخلاقی تلقین کے ساتھ ساتھ یہ ضروری ہے کہ درستگی اخلاق کا حقیقی محرک ہمیشہ نظروں کے سامنے رہے، تاکہ انسان، رائج الوقت افادی نقطہ نظر سے متاثر نہ ہو۔

انسانی شخصیت کا دوسرا اہم پہلو — آزادی انتخاب ہے۔ حق وباطل  کے درمیان انتخاب کی آزادی، انسان کی اخلاقی حس سے گہرا تعلق رکھتی ہے۔ آزادی انتخاب کے انسانی وصف کے سلسلے میں آئندہ کسی وقت روشنی ڈالی جائے گی، ان شاء اللہ!

انسانی شخصیت کی درست معرفت کے لیے اُس کی ماہیت سے متعلق دو اہم صداقتوں — اخلاقی حس اور آزادی انتخاب — کا ادراک ضروری ہے۔ ان میں سے پہلی صداقت کو یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ ہر انسان صالح فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔ فطری طور پر ہر انسان کا وجدان اس حقیقت سے واقف ہوتا ہے کہ اس کا ایک رَب ہے، جس نے اُسے تخلیق کیا ہے اور جو تنہاعبادت کا مستحق ہے۔ اسی طرح اُس کی فطرت اپنے خالق کے سامنے جوابدہی کا احساس بھی رکھتی ہے۔ انسان فطری طور پر یہ بھی جانتا ہے کہ سچائی، دیانت داری، حیا اور عدل و انصاف اچھی خصلتیں ہیںاور انسانی شخصیت کا حسن اِن اوصافِ حسنہ کی موجودگی سے وابستہ ہے۔ ان اچھی صفات کے برعکس، کذب، بددیانتی، بے حیائی اور ظلم و زیادتی ناپسندیدہ ہیں اور انسانی شخصیت کے اندر بگاڑ پیدا کرتی ہیں۔انسان کی اس فطرتِ صالحہ کا زندہ مظہر، انسانی ضمیر ہے جو نیکی اور بدی میں امتیاز کی صلاحیت رکھتا ہے اور نیکی کی طرف انسان کو مائل کرتا رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانی ضمیر کو ’’نفسِ لوامہ‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ قرآنِ مجید کا ارشاد ہے:

لَا أُقْسِمُ بِیَوْمِ الْقِیَامَۃِ o  وَلَا أُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَۃِo أَیَحْسَبُ الْإِنسَانُ أَلَّن نَجْمَعَ عِظَامَہُ               )القیامہ: ۱-۳)

’’میں قسم کھاتا ہوں قیامت کے دن کی اور قسم کھاتا ہوں ایسے نفس کی جو اپنے اوپر ملامت کرے۔ کیا انسان یہ خیال کرتا ہے کہ ہم (قیامت کے دن) اُس کی ہڈیاں جمع نہ کریں گے۔‘‘

انسانی ضمیر:

مسلمان اہلِ علم، انسانی شخصیت (یعنی نفسِ انسانی) کے سلسلے میں مسلسل غور کرتے رہے ہیں اس لیے کہ نفس کا تزکیہ (جس کے معنی اصلاح اور نشوونما کے ہیں) دین میں اساسی اہمیت رکھتا ہے۔ نفسِ انسانی میں ترقی کے بے پناہ امکانات موجود ہیں۔ ترقی کے مدارج کے سلسلے میں قرآنی ارشادات سے استفادہ کرتے ہوئے، اہلِ علم نے تین درجات کا تذکرہ کیا ہے چنانچہ مولانا اشرف علی تھانویؒ فرماتے ہیں:

’’اگر انسان کا نفس، لہو ولعب (کھیل کود) کی جانب ہو، اس کو نہ نیکی کی طرف رغبت ہو اور نہ نیک کام میں اس کا جی لگے تو ایسے نفس کو ’’نفس امارہ بالسوء‘‘ کہتے ہیں۔ (۲) اگر نیک و بد اور حسن و قبح کا احساس کرے، کبھی کبھی برائی کا مرتکب ہو بیٹھے لیکن فوراً ہی متنبہ ہوکر اپنی خطا کا معترف ہو اور صدورِ عصیان پر اپنے آپ کو ملامت کرے تو ایسے نفس کو نفسِ لوامہ کہتے ہیں۔ (۳) اگر نفس، نیکی کا شائق اور بدی سے بیزار ہو، عبادت و ریاضت پر مائل، صبر و تحمل کا خوگر اور حسنِ اخلاق کا گرویدہ ہو تو ایسے پاک نفس کا نام، نفسِ مطمئنہ ہے۔‘‘

سورہ قیامہ کی مندرجہ بالا آیات کی تشریح بیان کرتے ہوئے جناب شبیر احمد عثمانی لکھتے ہیں:

’’یہاں نفسِ لوامہ کی قسم کھا کر اشارہ فرمایا کہ اگر فطرت صحیح ہو تو خود انسان کا نفس، دنیا ہی میں برائی اور تقصیر پر ملامت کرتا ہے۔ یہی چیز ہے جو اپنی اعلیٰ اور اکمل ترین صورت میں قیامت کے دن ظاہر ہوگی۔‘‘

جناب صلاح الدین یوسف اِن آیات کی تفسیر کے ذیل میں لکھتے ہیں:

’’(بیدار نفس) بھلائی پر بھی (ملامت) کرتا ہے کہ زیادہ کیوں نہیں کی۔ اور برائیوں پر بھی، کہ اُن سے باز کیوں نہیں آتا؟ دنیا میں بھی جن کے ضمیر بیدار ہوتے ہیں، اُن کے نفس انھیں ملامت کرتے ہیں۔ تاہم آخرت میں تو سب کے ہی نفس، ملامت کریں گے۔‘‘

مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ سورہ قیامہ کی مندرجہ بالا آیات کی تشریح بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’کوئی انسان دنیا میں ایسا موجود نہیں ہے جو اپنے اندر ضمیر نام کی ایک چیز نہ رکھتا ہو۔ اس ضمیر میں لازماً، بھلائی اور برائی کا ایک احساس پایا جاتا ہے۔ اور چاہے انسان، کتنا ہی بگڑا ہوا ہو، اس کا ضمیر، اسے کوئی برائی کرنے اور کوئی بھلائی نہ کرنے پر ضرور ٹوکتا ہے، قطعِ نظر اس سے کہ اُس نے بھلائی اور برائی کا جو معیار بھی قرار دے رکھا ہو، وہ بجائے خود صحیح ہو یا غلط۔

یہ (احساس) اِس بات کی صریح دلیل ہے کہ انسان نِرا حیوان نہیں ہے بلکہ ایک اخلاقی وجود ہے، اُس کے اندر فطری طور پر بھلائی اور برائی کی تمیز پائی جاتی ہے۔ وہ خود اپنے آپ کو اپنے اچھے اور برے افعال کا ذمہ دار سمجھتا ہے۔‘‘ (تفہیم القرآن، سورہ قیامہ، حاشیہ:۲)

انسان کے اندر ضمیر اور اخلاقی حس کی موجودگی اتنی واضح اور بدیہی حقیقت ہے کہ اس کا انکار کم ہی لوگوں نے کیا ہے۔ البتہ اس اخلاقی حس کی توجیہ کے سلسلے میں غیب کے قائلین اور غیب کے منکرین کے درمیان، بنیادی اختلاف پایا جاتا ہے۔ جو سوچنے والے خدا کے وجود پر یقین رکھتے ہیں اور غیبی حقائق کو تسلیم کرتے ہیں اُن کے نزدیک اخلاقی حس اللہ کی عطا کردہ نعمت ہے اور انسان کا شرف و امتیاز، اخلاقی حس کی موجودگی سے وابستہ ہے۔ قرآنِ مجید نے اس حقیقت کو مختلف پیرایوں میں بیان کیا ہے:

(۱) أَلَمْ نَجْعَل لَّہُ عَیْنَیْنِo وَلِسَاناً وَشَفَتَیْنِo وَہَدَیْنَاہُ النَّجْدَیْنِo  البلد: ۸-۱۰

’’کیا ہم نے اُس (انسان) کو دو آنکھیں اور ایک زبان اور دو ہونٹ نہیں دیے اور (نیکی اور بدی) کے دونوں نمایاں راستے اُسے نہیں دکھا دیے؟‘‘

(۲) وَنَفْسٍ وَمَا سَوَّاہَاo فَأَلْہَمَہَا فُجُورَہَا وَتَقْوَاہَا o قَدْ أَفْلَحَ مَن زَکَّاہَاo وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّاہَا o (الشمس: ۷-۱۰)

’’اور نفسِ انسانی کی اور اس ذات کی قسم جس نے اُسے ہموار کیا پھر اس کی بدی اور پرہیزگاری اُس پر الہام کردی۔ یقینا فلاح پاگیا وہ جس نے نفس کاتزکیہ کیا اور نامراد ہوا جس نے اُسے دبا دیا۔‘‘

(۳) وَالتِّیْنِ وَالزَّیْتُونِ o وَطُورِ سِیْنِیْنَo وَہَذَا الْبَلَدِ الْأَمِیْنِo لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِیْ أَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ o (التین: ۱-۴)

’’قسم ہے انجیر اور زیتون کی اور طورِ سینا اور اس پُرامن شہر (مکہ) کی۔ ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا۔‘‘

مندرجہ بالا آیتیں، سورہ التین کی ابتدائی آیتیں ہیں۔ سورہ التین کے مضامین کا تعارف کراتے ہوئے مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے انسانی ساخت کے اخلاقی پہلو پر اس طرح روشنی ڈالی ہے:

’’انسانوں میں دو قسمیں پائی جاتی ہیں: ایک وہ جو اس بہترین ساخت پر پیدا ہونے کے بعد برائی کی طرف مائل ہوتے ہیں اور اخلاقی پستی میں گرتے گرتے اس انتہا کو پہنچ جاتے ہیں، جہاں اُن سے زیادہ نیچ، کوئی دوسری مخلوق نہیں ہوتی۔ دوسرے، وہ جو ایمان و عملِ صالح کا راستہ اختیار کرکے اس گراوٹ سے بچ جاتے ہیں اور اس مقامِ بلند پر قائم رہتے ہیں جو ان کے بہترین ساخت پر پیدا ہونے کا لازمی تقاضا ہے۔‘‘  (تفہیم القرآن، دیباچہ سورۃ التین)

انسانی  ضمیر اور سماجی روایات:

غیب پر ایمان لانے والے، انسانی شخصیت میں ضمیر کی موجودگی کو اُن علامات میں شمار کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے وجود اور اس کی حکمتِ بالغہ کی جانب اشارہ کرتی ہیں۔ اس کے برعکس جو لوگ غیب کے قائل نہیں ہیں اور اس بنا پر خدا کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے، ان کا دعویٰ یہ ہے کہ انسانی ضمیر، محض سماجی روایات کا نام ہے۔ اُن کے خیال کے مطابق انسانوں کو تجربے نے یہ بتایا کہ انسانی سماج کی بقا اور انسانوں کے درمیان باہمی تعاون کے لیے بعض صفات ناگزیر ہیں (مثلاً سچائی، دیانت داری وغیرہ)۔ اسی طرح لوگوں نے یہ دیکھا کہ جھوٹ اور فریب وغیرہ کے فروغ سے سماجی انتشار پیدا ہوتا ہے چنانچہ انھوں نے سماج کے لیے مفید صفات کو مطلوب ٹھہرادیا اور مضر خصائل کو ناپسندیدہ اور غیرمطلوب قرار دیا۔ آہستہ آہستہ بعض اوصاف کے مطلوب یا غیر مطلوب ہونے کے اس تصور میں تقدس کا رنگ پیدا ہوگیا اور محض سماجی روایات کے بجائے انھیں اخلاقی حس سے تعبیر کیا جانے لگا۔ گویا منکرینِ غیب کے نزدیک جن معیارات کو اخلاقی معیارات کہا جاتا ہے وہ محض اپنی سماجی افادیت کی وجہ سے اختیار کرلیے گئے ہیں اور ایسا نہیں ہے کہ انسان کے وجودِ حیوانی میں ’’فطرتِ انسانی‘‘ نامی شے واقعتا پائی جاتی ہو، جو (سماجی تجربے سے قطعِ نظر) اخلاقی حس کی، بطورِ خود (Innate)موجودگی پر دلالت کرتی ہو۔

مادیت سے متاثر، انسانی ضمیر کی مندرجہ بالا توجیہ کو تسلیم کرنا اس لیے ممکن نہیں ہے کہ ہزار کٹھ حجتیوں کے باوجود، انسان اپنے ان اندرونی احساسات کو نہیں جھٹلا سکتا جو کوئی برا فعل کر گزرنے کے بعد ضمیر کی ملامت کی صورت میں، اس کے اندرون میں نمودار ہوتے ہیں۔ مزید برآں ضمیر انسانی کی مادّی و تجرباتی تعبیر کے غلط ہونے کی قوی تر دلیل، یہ واقعہ ہے کہ جب کسی فرد (مثلاً زید) کو بکر کی بددیانتی یا فریب سے واسطہ پیش آتا ہے تو زید کو سخت شکایت ہوتی ہے اور وہ اپنی شکایت کا اظہار کرتے وقت، اخلاقی معیارات ہی کا سہارا لیتا ہے۔ انسانو ںکا یہ طرزِ عمل اس بات کی دلیل ہے کہ اخلاقی حسن و قبح کے تصورات محض سماجی معاہدے نہیں ہیں جو اجتماعی مفاد کی خدمت کے لیے استوار کرلیے گئے ہوں بلکہ ان اخلاقی تصورات کی جڑیں، انسان کی فطری ساخت میں پیوست ہیں۔ اس اعتبار سے انسان محض حیوانی وجود یا محض سماجی جاندار نہیں ہے بلکہ اس کے وجود کا اصل جوہر، اخلاقی ہے۔

درست تعبیر:

غور سے دیکھیں تو غیب کے منکرین سے انسانی شخصیت اور سماج کو سمجھنے میں، لغزش ہوئی ہے۔ وہ انسانوں کے طرزِ عمل کے مشاہدے سے جو نتیجہ نکالتے ہیں، اس کو اِن الفاظ میں بیان کیا جاسکتا ہے:

’’انسانوں کے درمیان تعاون، اشتراکِ عمل اور بقائے باہم کے لیے بعض قدروں کو اپنا لیا جانا مفید ثابت ہوا ہے، چنانچہ ان قدروں کو لوگوں نے آفاقی حقیقتوں کا درجہ دے دیا ہے۔‘‘

منکرینِ غیب کا نکالا ہوا مندرجہ بالا نتیجہ، امرِ واقعہ کی صحیح ترجمانی نہیں ہے۔ اگر انسان کج فہمی کا شکار نہ ہو تو وہ درجِ بالا موقف کے بجائے، (انسانی سماج کے مشاہدے سے) جو درست نتیجہ اخذ کرے گا، وہ یہ ہوگا:

’’انسانی فطرت، وجدانی طور پرنیکی اور بدی نیز حق و باطل کے امتیاز  سے واقف ہے۔ چونکہ نیک رویہ، حقیقتِ کائنات اور فطرتِ انسانی سے ہم آہنگ ہے، اس لیے جب انسان نیکی کی روش اختیار کرتے ہیں تو سماج میں ہم آہنگی اور استحکام پیدا ہوتا ہے۔ اس کے برعکس بدی او ربرائی، حقیقتِ کائنات اور فطرتِ انسانی سے ٹکراؤ کے ہم معنی ہے چنانچہ انسانوں کا برا طرزِ عمل، سماج میں انتشار اور فساد پیدا کرتا ہے۔ گویا جو رویہ حقیقت کے مطابق ہے، وہی انسانوں کے لیے مفید بھی ہے۔‘‘ قرآنِ مجید اس جانب اشارہ کرتا ہے:

أَنزَلَ مِنَ السَّمَاء  مَاء  فَسَالَتْ أَوْدِیَۃٌ بِقَدَرِہَا فَاحْتَمَلَ السَّیْلُ زَبَداً رَّابِیْاً وَمِمَّا یُوقِدُونَ عَلَیْہِ فِیْ النَّارِ ابْتِغَاء  حِلْیَۃٍ أَوْ مَتَاعٍ زَبَدٌ مِّثْلُہُ کَذَلِکَ یَضْرِبُ اللّہُ الْحَقَّ وَالْبَاطِلَ فَأَمَّا الزَّبَدُ فَیَذْہَبُ جُفَاء  وَأَمَّا مَا یَنفَعُ النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِیْ الأَرْضِ کَذَلِکَ یَضْرِبُ اللّہُ الأَمْثَالَo              (الرعد: ۱۷)                                                 ’’اللہ نے آسمان سے پانی برسایا اور ہر ندی نالہ اپنے ظرف کے مطابق اسے لے کر چل نکلا۔ پھر جب سیلاب اٹھا تو سطح پر جھاگ بھی آگئے۔ اور ایسے ہی جھاگ اُن دھاتوں پر بھی اٹھتے ہیں جنھیں زیور اور برتن وغیرہ بنانے کے لیے لوگ پگھلایا کرتے ہیں۔ اس مثال سے اللہ، حق اور باطل کے معاملے کو واضح کرتا ہے۔ جو جھاگ ہے وہ اڑ جاتا ہے اور جو چیز انسانوں کے لیے نافع ہے وہ زمین میں ٹھیر جاتی ہے۔ اس طرح اللہ مثالوں سے اپنی بات سمجھاتا ہے۔‘‘

جناب شبیر احمد عثمانی، اس آیت کی تفسیر بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’آسمان کی طرف سے بارش اتری جس سے ندی نالے بہ پڑے۔ ہر نالے میں اس کے ظرف اور گنجائش کے موافق، خدا نے جتنا چاہا پانی جاری کردیا۔ پانی جب زمین پر رواں ہوا تو مٹی اور کوڑا کرکٹ ملنے سے گدلا ہوگیا۔ پھر میل کچیل اور جھاگ پھول کر اوپر آیا۔

اسی طرح تیز آگ میں لوگ، چاندی، تانبہ، لوہا اور دوسری معدنیات پگھلاتے ہیں تاکہ زیور، برتن اور ہتھیار وغیرہ تیار کریں۔ اس کام میں بھی اس طرح جھاگ اٹھتا ہے مگر تھوڑی دیر بعد، خشک یا منتشر ہوکر، جھاگ جاتا رہتا ہے اور جو اصلی کارآمد چیز تھی (یعنی پانی یا پگھلی ہوئی معدنیات) وہی زمین میں باقی رہ جاتی ہے، جس سے مختلف طور پر لوگ منتفع ہوتے ہیں۔ یہی مثال حق و باطل کی سمجھ لو۔

جب وحی آسمانی، دینِ حق کو لے کر اترتی ہے تو قلوبِ بنی آدم، اپنے اپنے ظرف اور استعداد کے موافق فیض حاصل کرتے ہیں۔ پھر حق اور باطل، باہم بھڑ جاتے ہیں تو میل ابھر آتا ہے۔ بظاہر باطل، جھاگ کی طرح، حق کو دبا لیتا ہے لیکن اس کا یہ اُبال عارضی اور بے بنیاد ہے۔ تھوڑی دیر بعد اس کے جوش و خروش کا پتہ نہیں رہتا، خدا جانے کِدھر گیا۔ جو اصلی اور کارآمد چیز، جھاگ کے نیچے دبی ہوئی تھی (یعنی حق و صداقت) بس وہی باقی رہ جاتی ہے۔‘‘

قرآنِ مجید نے حق کے نافع ہونے کی طرف (اور باطل کے غیر نافع ہونے کی طرف) اشارہ کیا ہے۔ حق اور باطل کا امتیاز، زندگی اور معاملاتِ زندگی کے ہر گوشے میں کیا جانا چاہیے۔ اس قرآنی طرزِ فکر کے مطابق جب انسانی زندگی کے اخلاقی پہلو پر غور کیا جاتا ہے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ وحی الٰہی پر مبنی اخلاقی تعلیمات، محض اس بنا پر واجب التعمیل نہیں ہیںکہ اُن کے اچھے نتائج، دنیا میں نکلتے ہیں۔ اخلاقی تعلیمات کی سماجی افادیت تو اُن کے فیض کا صرف ایک جُز ہے۔محاسنِ اخلاق کو اختیار کرنے کا اصل محرک اُن کا حق و صداقت پر مبنی ہونا ہے۔ جب انسان، انفس و آفاق کے دلائل پر غور کرتا ہے اور وحی الٰہی کے لانے والے پیغمبروں کی بے داغ سیرت کا مشاہدہ کرتا ہے تو اسے اُن کی دعوت کی صداقت پر یقین حاصل ہوجاتا ہے۔ اس یقین کے نتیجے میں وہ یہ جان لیتا ہے کہ پیغمبروں کے ذریعے لائی گئی تعلیمات حق و صداقت پر مبنی ہیں۔ ان تعلیمات کا ایک اہم شعبہ محاسنِ اخلاق سے متعلق ہے۔ چنانچہ وہ اُن کو اختیار کرتا ہے۔ اس طرح حسنِ اخلاق کا اصل محرک حق پرستی کا جذبہ قرار پاتا ہے۔داعیانِ حق جو انبیاء کرام کے اُسوے کی پیروی کرتے ہوئے، انسانوں کو درستگی اخلاق کی تعلیم دیتے ہیں، اُن کی اصلاحی مساعی میں حق پرستی کو اساسی حیثیت حاصل ہونی چاہیے۔  اخلاقی تلقین کے ساتھ ساتھ یہ ضروری ہے کہ درستگی اخلاق کا حقیقی محرک ہمیشہ نظروں کے سامنے رہے، تاکہ انسان، رائج الوقت افادی نقطہ نظر سے متاثر نہ ہو۔

انسانی شخصیت کا دوسرا اہم پہلو — آزادی انتخاب ہے۔ حق وباطل  کے درمیان انتخاب کی آزادی، انسان کی اخلاقی حس سے گہرا تعلق رکھتی ہے۔ آزادی انتخاب کے انسانی وصف کے سلسلے میں آئندہ کسی وقت روشنی ڈالی جائے گی، ان شاء اللہ!

مشمولہ: شمارہ اپریل 2016

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223