وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوًّا مِّنَ الْمُجْرِمِینَ وَكَفَىٰ بِرَبِّكَ هَادِيًا وَنَصِیرًا )الفرقان: ۳۱)
(اے محمد، ہم نے تو اسی طرح مجرموں کو ہر نبی کا دشمن بنایا ہے اور تمہارے لیے تمہارا رب ہی رہ نمائی اور مدد کو کافی ہے(
رہ نمائی سے مراد صرف علمِ حق عطا کرنا ہی نہیں ہے، بلکہ تحریکِ اسلامی کو کام یابی کے ساتھ چلانے کے لیے اور دشمنوں کی چالوں کو شکست دینے کے لیے بروقت صحیح تدبیریں سُجھانا بھی ہے۔ اور مدد سے مراد ہر قسم کی مدد ہے۔ حق اور باطل کی کشمکش میں جتنے بھی محاذ کھُلیں، ہر ایک پر اہلِ حق کی تائید میں کمک پہنچانا اللہ کا کام ہے۔ دلیل کی لڑائی ہو تو وہی اہل حق کو حجتِ بالغہ عطا کرتا ہے۔ اخلاق کی لڑائی ہو تو وہی ہر پہلو سے اہلِ حق کو اخلاقی برتری عطا فرماتا ہے۔ تنظیم کا مقابلہ ہو تو وہی باطل پرستوں کے دل پھاڑتا اور اہلِ حق کے دل جوڑتا ہے۔ انسانی طاقت کا مقابلہ ہو تو وہی ہر مرحلے پر مناسب اور موزوں اشخاص اور گروہوں کو لالا کر اہلِ حق کی جمعیت بڑھاتا ہے۔ مادّی وسائل کی ضرورت ہو تو وہی اہلِ حق کے تھوڑے مال واسباب میں وہ برکت دیتا ہے کہ اہلِ باطل کے وسائل کی فراوانی ان کے مقابلے میں محض دھوکے کی ٹٹی ثابت ہوتی ہے۔ غرض کوئی پہلو مدد اور راہ نمائی کا ایسا نہیں ہے جس میں اہلِ حق کے لیے اللہ کافی نہ ہو اور انھیں کسی دوسرے سہارے کی حاجت ہو، بشرطیکہ وہ اللہ کی کفایت پر ایمان واعتماد رکھیں اور ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہ بیٹھے رہیں بلکہ سرگرمی کے ساتھ باطل کے مقابلے میں حق کی سربلندی کے لیے جانیں لڑائیں۔۔ ایمان دل میں ہو تو اس سے بڑھ کر ہمت دلانے والی بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ خداوندِ عالم آپ ہماری مدد اور رہ نمائی کا ذمہ لے رہا ہے۔ اس کے بعد تو صرف ایک کم اعتقاد بزدل ہی میدان میں آگے بڑھنے سے ہچکچا سکتا ہے۔
(تفہیم القرآن، جلد سوم، صفحہ ۴۴۸)
مشمولہ: شمارہ اکتوبر 2021