سوال: (ان بہت سے سوالات میں سے ایک جو 2002 میں سدرن بیپٹسٹ کنونشن پیسٹرزکانفرنس میں ریورنڈ ڈاکٹر جیری وائنز کے بدنامِ زمانہ بیان کے بعد مجھے موصول ہوئے تھے۔)
یہ سوال میرے لیے ایک بڑی خلش کا سبب ہے۔ اپنے مطالعے اور مقامی امام صاحب کے ساتھ گفتگو سے میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ نے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے اس وقت شادی کی تھی جب ان کی عمر چھ برس تھی، اور جب حضرت عائشہؓ نو برس کی ہوئیں تب ان کی رخصتی عمل میں آئی تھی۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ نکاح کے وقت حضرت عائشہؓ کی عمر نو سال اور رخصتی کے وقت بارہ سال تھی۔ البتہ بخاری اور دیگر روایات کی رو سے چھ سال (نکاح) اور نو سال (رخصتی) کا امکان غالب ہے۔ ہمارے امام صاحب کا بھی یہی کہنا ہے کہ بیشتر علما کا اسی بات پر اتفاق ہے کہ رسول اللہ ﷺسے شادی کے وقت حضرت عائشہؓ کی عمر چھ سال تھی، اور ان کی رخصتی نو سال کی عمر میں ہوئی۔
اس کی واحد وضاحت یہ پیش کی جاتی ہے کہ اُن دنوں عرب میں بچیوں کی کم عمری کی شادی ایک عام سماجی رواج تھا، اور بچیوں سے شادیاں کرنا اس معاشرے میں کوئی غیرمعمولی یا معیوب بات نہیں سمجھی جاتی تھی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آج کے ثقافتی معیارات کی بنیاد پر چودہ سو سال پہلے رسول اللہ ﷺ کے اعمال پر سوال اٹھانا غلط ہے۔ میری ناقص رائے میں، یہ وضاحت تسلی بخش نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے کہ مشرک عرب، یہودیوں اور عیسائیوں میں اس طرح کے کچھ رسم و رواج عام ہوں، لیکن اس سے یہ تو ثابت نہیں ہوتا کہ ایسا کرنا ‘صحیح’ تھا۔ چھ سال کی بچی بہرحال بچی ہوتی ہے۔ نو سال کی بچی بھی بچی ہی ہوتی ہے، قطعِ نظر اس کے کہ اس کا پہلا حیض آیا ہے یا نہیں۔ مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ لڑکیاں اپنے پہلے حیض کے بعد دو سال تک بعض اہم جسمانی تبدیلیوں سے گزرتی ہیں۔ نو سال کی عمر میں، یا بسا اوقات بارہ سال کی عمر میں بھی، لڑکیاں جسمانی یا جذباتی طور پر مکمل طور پر تیار نہیں ہوتی ہیں۔ اُس معاشرے میں ممکن ہے چھ سال کی عمر میں لڑکیوں کی شادی کر دینا درست تصور کیا جاتا ہو، لیکن میرے محدود فہم اور علم کے مطابق، مجھے توقع تھی کہ چھ سال کی بچی سے نکاح کرکے اس رواج کو مستحکم کرنے کے بجائے خدا کے رسولؐ اپنی حکمت و دانائی سے اس قبیح رسم کو بدل دیتے۔ مجھے توقع تھی کہ رسول اللہ ﷺ مسلمانوں کو بچپن کی شادی سے منع کرتے۔ میں نے ہمیشہ یہی پڑھا سنا ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک عظیم ہستی، عادل، مہربان اور شفیق انسان تھے، تاہم یہ صورت حال اس تصویر سے مطابقت نہیں رکھتی۔ یہی خلش مجھے اس کے اخلاقی جواز پر سوال اٹھانے پر مجبور کر رہی ہے۔
جواب: رسول اللہ ﷺ کی زوجہ حضرت عائشہ صدیقہؓ سے نکاح کے بارے میں عموماً جو اعتراضات وارد کیے جاتے ہیں سوال پوچھنے والے نے گویا ان کا خلاصہ پیش کردیاہے۔ مسلم سیرت نگاروں نے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے رسول اللہ ﷺ کے نکاح کے متعدد ممکنہ اسباب پیش کیے ہیں، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ میک ڈونلڈ اور واٹ کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ رسول اللہ کی پہلی زوجہ حضرت خدیجہ ؓکی وفات کے بعد:
’’محمد ﷺ نے جتنے نکاح کیے اور اپنی بیٹیوں کے جو نکاح کروائے ان سب کی سیاسی وجوہات ہیں۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ ان کے دستِ راست اور رفیقِ خاص تھے، وہ بدوی قبائل کی اندرونی سیاست کا خوب علم رکھتے تھے۔ چناں چہ ان قبیلوں کے ساتھ معاملات کرنے میں رسول اللہ ﷺ حضرت ابوبکرؓ سے مشورہ لیا کرتے تھے۔ محمد ﷺ نے ابوبکرؓ کی بیٹی عائشہ ؓسے ان کی کم عمری کے باوجود شادی اس لیے کی تاکہ دونوں کے درمیان رشتہ مزید مضبوط ہو جائے۔‘‘ (تاریخ طبری، جلد ہفتم،مقدمہ از ایم وی میکڈونلڈ، ڈبلیو مونٹگمری واٹ، سنی پریس، 1987، ص 18)
بہت سے دیگر مغربی مستشرقین رسول اللہ ﷺ کی متعدد شادیوں کی وجہ جنسی تسکین کو بتاتے ہیں، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ آپ پچیس سال کی عمر تک کنوارے رہے، پھر اگلے پچیس سال تک محض ایک بیوی حضرت خدیجہ سے وابستہ رہے، جو آپؐ سے عمر میں پندرہ سال بڑی تھیں اور آپ سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے سے پہلے دو بار بیوہ ہوچکی تھیں۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کو چھوڑ کر باقی تمام ازواجِ مطہرات پہلے سے شوہر دیدہ تھیں (حضرت زینب بنت جحش مطلقہ تھیں، جب کہ دیگر تمام امہات المومنین بیوگان)۔ یہ حقائق اس دلیل کو رد کرنے کے لیے کافی ہونے چاہئیں جو ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ یا دیگر ازواجِ مطہرات سے نکاح کے بارے میں پیش کی جاتی ہے۔ اگر جنسی تسکین ہی بنیادی محرک ہوتا، تو رسول اللہ کو اپنے لیے نوجوان باکرہ خواتین منتخب کرنے سے کیا چیز مانع تھی جب کہ یہ اس وقت کے عرب معاشرے کا عام مردانہ تصور بھی تھا!
ایک اور بات جو ذہن میں رکھنی چاہیے وہ یہ ہے کہ اگرچہ قدیم عرب بہترین حافظہ رکھتے تھے، تاہم وہ زمانی حساب کتاب میں بہت کم زور واقع ہوئے تھے۔ ایک ایسی ناخواندہ قوم جس کے پاس کسی قسم کا کیلنڈر یا گھڑی نہ ہو، اُس سے بجا طور پر یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ لوگوں کی پیدائش، موت اور دیگر اہم واقعات کا کوئی صحیح صحیح ریکارڈ نہیں رکھ سکتی۔ یہ لوگ سالگرہ یا برسی نہیں مناتے تھے، ان کے یہاں طویل مدتی منصوبہ بندی کا تو کوئی تصور ہی نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ حدیث اور سیرت کے ماخذ میں اکثر زمانی تفصیلات کے بارے میں اختلافات پائے جاتے ہیں، یہاں تک کہ ان اہم واقعات کے بارے میں بھی مختلف فیہ روایات ملتی ہیں جن کے بارے میں کوئی خیال کرسکتا ہے کہ انھیں تو عوامی حافظے کا حصہ ہونا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ کی وفات کے وقت ان کی عمر کے بارے میں مختلف روایات ملتی ہیں۔ رسول اللہ کی وفات کے وقت عمر مختلف روایات کے مطابق پینسٹھ سال، تریسٹھ سال یا ساٹھ سال تھی۔بعض کے نزدیک رسول اللہ ﷺ نے بعثت کے بعد دس سال مکہ میں قیام کیا جب کہ بعض کا کہنا ہے کہ آپ ﷺ تیرہ سال مکہ میں رہے۔بعض صحابہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو چالیس برس کی عمر میں نبوت ملی اور تریسٹھ برس کی عمر میں آپؐ نے وفات پائی۔حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بعد سب سے پہلے اسلام کس نے قبول کیا، اس بات پر بھی اختلاف ہے۔رسول اللہ ﷺ کی پہلی وحی کون سی تھی، رمضان کی کس رات کو آپؐ پر وحی نازل ہوئی، اور وحی آنے کا سلسلہ کتنے عرصے تک ’’موقوف‘‘ رہا، ان واقعات کے بارے میں بھی روایات مختلف فیہ ہیں۔(تاریخ طبری)
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کی زندگی کے بارے میں خاص طور پر بہت سی اختلافی روایات موجود ہیں۔ رسول اللہ ﷺ سے شادی کے وقت ان کی عمر چھ، سات یا نو سال بیان کی گئی ہے۔ (صحیح بخاری، دارلاندلس، مترجمہ محمد اسد۔ اسد نے ان اختلافات میں تطبیق کی کوشش کی ہے۔) حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات اور ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کی شادی کے درمیان کا عرصہ ایک مستند روایت کے مطابق ایک ماہ اور دوسری روایت کے مطابق دو سال کا ہے۔مختلف روایات کی بنیاد پر ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے شادی اور رخصتی کے بیچ مدت کے بارے میں مختلف قیاسات ہیں۔جن میں تین سال کم سے کم اور پانچ سال زیادہ سے زیادہ ہیں۔ مختلف راویوں سے متعدد روایات موصول ہوئی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی بیٹی حضرت فاطمہ، ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے تقریبا پانچ سال بڑی تھیں اور حضرت فاطمہ کعبہ کی تعمیر نو کے دوران پیدا ہوئیں، جو رسول اللہ ﷺ کی بعثت سے تقریباً پانچ سال پہلے ہوئی تھی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کی ولادت رسول اللہ ﷺ کی بعثت کے وقت ہوئی اور وہ تقریباً چودہ یا پندرہ سال کی عمر میں خانۂ رسولؐ میں شامل ہو گئیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے منقول روایات بھی موجود ہیں کہ وہ نو سال کی عمر میں رسول اللہ ﷺ کے گھر میں شامل ہوئیں۔ ایک اور روایت میں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ یاد کرتی ہیں کہ جب سورة القمر نازل ہوئی تب وہ ایک چھوٹی بچی تھیں، خیال کیا جاتا ہے کہ یہ سورہ بعثت نبوی کے چوتھے سال نازل ہوئی تھی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ کی پیدائش بعثت نبوی کے آس پاس ہوئی تھی اور ہجرت کے بعد رسول اللہ ﷺ سے نکاح کے وقت وہ نوعمر (teenager) تھیں۔ بعض روایات ایسی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ اپنے نکاح کے ابتدائی برسوں میں بچوں سے کھیلا کرتی تھیں۔ جب کہ بعض روایات اسی عرصے کے دوران رسول اللہ ﷺ کی دیگر ازواج کے ساتھ ان کے جذباتی وعلمی تعلق کو اجاگر کرتی ہیں۔
میرا مقصد ان میں سے کسی بھی روایت کی صحت یا عدم صحت پرفیصلہ نہیں ہے، بلکہ یہ بتانا ہے کہ روایات میں اہم واقعات کے بارے میں زمانی اختلافات کا پایا جانا اس بات کی دلیل ہے کہ ان کے وقوع ہونے کے سلسلے میں لوگوں کا حافظہ محض اندازوں پر مبنی تھا۔ یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ مستند روایات کی اسناد کی اکثریت میں پہلی کڑی ان صحابہ کی ہے جو رسول اللہ ﷺ کی وفات کے وقت جوان تھے جب کہ دوسری کڑی تابعین کی ہے جو پہلی کڑی کے مقابلے میں بہت کم عمر تھے۔ لہذا ان اسناد میں دوسری کڑی عام طور پر متعلقہ واقعات کے رونما ہونے کے کئی سال بعد صحابہ سے روایات کی بنیاد پر ہے۔ پھر سے غور کیجیے، ایک ایسی ثقافت میں جہاں تاریخوں کا ریکارڈ نہ رکھا جاتا ہو، اگر واقعات خصوصی طور پر بہت پہلے کے ہوں، تو ان کی یادیں اکثر بہت دھندلا جاتی ہیں۔ یہ بات آج بھی سچ ہے، لیکن آج کے معاشرے میں بھی جہاں ہمارے لیے اپنی یادداشتوں کی تصدیق کرنا بے حد آسان ہے ایسے بہت سارے واقعات رونما ہوجاتے ہیں جن کی درست تاریخیں ہم سے گڈمڈ ہوجاتی ہیں۔ میری بیٹی سارہ نے ایک دن مجھ سے پوچھا کہ اس کی دادی کے انتقال کو کتنا عرصہ ہوچکا ہے، تو میں نے جواب دیا کہ تین سال ہو چکے ہیں۔ لیکن جب میں نے اپنی ماں کا ڈیتھ سرٹیفکیٹ چیک کیا تو معلوم ہوا کہ اس بات کو پانچ سال گزر چکے تھے۔ اسی طرح میری سب سے بڑی بیٹی جمیلہ نے مجھے بتایا کہ اسے نو سال کی عمر میں ایک واقعہ پیش آیا تھا، تاہم بعد میں میری بیوی نے مجھے یقین دلایا کہ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا تھا جب وہ گیارہ سال کی تھی۔
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کی رسول اللہ ﷺ سے شادی اور خانۂ رسولؐ میں شمولیت میں تاخیر کی واضح وجہ یہ ہے کہ وہ ابھی سن بلوغت کو نہیں پہنچی تھیں۔ میں نے نو سال کی عمر میں لڑکیوں کی پہلی زچگی کے خال خال واقعات کے بارے میں سنا ہے لیکن مندرجہ بالا باتوں کی بنیاد پر میں یہی قیاس کروں گا کہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ بلوغت کو پہنچ چکی تھیں، اور پھر کچھ عرصے بعد خانۂ رسولؐ میں شریک ہوئیں۔ شاید یہ عمر بارہ یا تیرہ سال رہی ہوگی۔
بعض لوگوں کے لیے یہ عمر بھی ازدواجی تعلق کے لیے بہت کم لگ سکتی ہے، لیکن حقیقت یہی ہے کہ آج بہت سی لڑکیاں ایسی ہیں جو شادی کی حدود سے باہر اسی عمر میں ازدواجی تعلقات قائم کررہی ہیں۔ کنیکٹیکٹ کے برج پورٹ کے جس علاقے میں میں پلا بڑھا، وہاں بہت سی لڑکیاں اور لڑکے اسی عمر میں جنسی تعلقات قائم کر رہے تھے۔ ان میں سے کچھ تو محض دس گیارہ سال کے ہوتے ہیں۔ مجھے ہمیشہ سے یقین تھا کہ مضافاتی علاقوں یا دیہی علاقوں میں معاملات مختلف ہیں، لیکن اب جب کہ میں کنساس کے ایک چھوٹے سے کالج شہر میں رہتا ہوں اور دیکھتا ہوں کہ یہاں بھی وہی معاملہ ہے۔ میری بیٹیوں کے جونیئر ہائی اسکول میں پچھلے سال پریشان لڑکیوں کے لیے ایک ڈسکشن گروپ منعقد کیا گیا تھا، ان میں سے بیشتر لڑکیاں حاملہ پائی گئیں، اور میری بچیوں کی بعض سہلیوں نے ان سے اعتراف کیا ہے کہ جب وہ آٹھویں اور نویں جماعت کی طالبہ تھیں، اس وقت انھوں نے اسقاطِ حمل کرایا تھا۔(ہمارے مقامی اسکول بورڈ کے علم میں یقیناً یہ بات ہے کہ ہائی اسکول کے بہت سے بچے جنسی تعلقات قائم کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پانچویں جماعت ہی سے انھوں نے جنسی تعلیم کو لازمی طور پر شاملِ نصاب کردیا ہے۔)
رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں والدین کے لیے یہ بات بالکل معقول تھی کہ وہ سن بلوغت کو پہنچنے کے بعد اپنی بیٹیوں کے لیے شوہر تلاش کریں۔ ایک بات تو یہ ہے کہ اس زمانے میں لوگوں کی اوسط عمریں بہت کم ہوا کرتی تھیں۔ ملحوظ رہے کہ رسول اللہ ﷺ کے والد آپؐ کی ولادت سے پہلے ہی فوت ہو چکے تھے، آپ ﷺکی والدہ کا انتقال تب ہوا جب آپؐ چھ سال کے تھے۔ رسول اللہ ﷺ کی تمام اولاد—حضرت فاطمہؓ کو چھوڑ کر—آپؐ کی زندگی ہی میں فوت ہوگئی تھی۔ حضرت فاطمہؓ کی وفات 29 برس کی عمر میں ہوئی۔ اس زمانے میں کسی کا چالیس کی عمر کو پہنچ جانا طویل عمری خیال کیا جاتا تھا، اور چوں کہ نوزائیدہ بچوں کی شرحِ اموات بہت زیادہ تھی، اس لیے یہ خیال کیا جاتا تھا کہ خواتین اور معاشرے کے بہترین مفاد میں یہی بات بہتر ہے کہ وہ بچے پیدا کرنے کے قابل ہوتے ہی شادی کر لیں۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ شادی کے بعد عورت کے پاس کرنے کے لیے زیادہ کچھ نہیں ہوتا تھا۔ ان کے سامنے کوئی بڑا مقصد نہیں ہوتا تھا۔ کوئی ہائی اسکول یا کالج کی ڈگری حاصل کرنے کے کی دوڑ نہیں تھی، اور نہ ہی آج کی طرح ایسی ملازمتیں ہوا کرتی تھیں جن کے حصول کے لیے عمر کا طویل حصہ صرف کردیا جائے۔ اس کے علاوہ اگر وہ چھوٹی عمر میں ماں بن جاتیں تو ان کا پورا خاندان اور قبیلہ ان کے بچوں کی پرورش کرتا تھا۔ ایسے میں یہ بات قابل ِفہم ہے کہ ماں بننے کے لیے بہت زیادہ پختہ شعور یا تربیت کی ضرورت نہیں سمجھی جاتی تھی۔
اپنی بیوی سے اور مشرق وسطیٰ کے اپنے سفر کے دوران، میں ایسی کئی عرب خواتین سے واقف ہوا جنھوں نے بارہ تیرہ سال کی عمر میں شادی کرلی تھی۔ وہ مجھے ان امریکی خواتین کے مقابلے میں جنھیں میں اچھی طرح جانتا ہوں، کسی طرح کم آسودہ یا نفسیاتی طور پر غیر صحت مند نظر نہیں آتی ہیں، بلکہ معاملہ اس کے عین برعکس ہے۔ میری بیوی اور میں سعودی عرب سے تعلق رکھنے والے ایک جوڑے کے قریبی دوست ہیں۔ شوہر کی شادی اٹھائیس سال کی عمر میں ہوئی تھی جب کہ خاتون کی عمر شادی کے وقت تیرہ سال تھی۔ ان کی شادی کو پندرہ سال ہو چکے ہیں اور یہ جوڑا نہایت خوش و خرم اور باہم محبت کرنے والا ہے۔
میری سب سے بڑی بیٹی جب چودہ سال کی ہوئی تب اس نے کم عمری کی شادیوں کے حوالے سے ایک دل چسپ نکتہ پیش کیا۔ جب ہم اس موضوع پر بات کر رہے تھے تو اس نے مجھے یہ کہہ کر چونکا دیا: ’’کاش آج بھی معاملہ ایسا ہی ہوتا۔‘‘ اس نے مجھے بتایا کہ نوجوانوں کو شادی تک کنوارا رہنے کی تلقین کرنا ایک بے حد غیر منصفانہ طریقہ ہے اور پھر کالج کی تعلیم مکمل ہونے تک شادی کرنے سے روکنا مزید ناانصافی ہے۔ اس نے کہا کہ دس سال یا اس سے زیادہ عرصے تک فرد کا جسم اسے ایک بات کہہ رہا ہوتا ہے جب کہ والدین اسے دوسری بات کہہ رہے ہوتے ہیں۔ جب میں نے اسے کہا کہ اب ہم بڑے خاندانوں میں نہیں رہتے ہیں، تو اس نے جواب دیا کہ شاید ہمیں یہ کہنا چاہیے کہ اگر ماضی میں خاندان نوجوانوں کی شادی کے لیے پرائیویسی اور سہولت کو قربان کرنے کے لیے تیار تھے تو شاید پھر سے ہمیں ایسے ہی سماج کی طرف لوٹ جانا چاہیے۔ میں نہیں جانتا کہ جمیلہ کے اس خیال کی کیا افادیت ہے، البتہ اس نے ایک عمدہ نکتہ پیش کیا ہے۔
جہاں تک ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے شادی کے حوالے سے رسول اللہ ﷺ کی جانب سے کسی قابل اعتراض عمل کی حمایت کا تعلق ہے، تو ان کے زمانے کے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے میں اس بات کا قائل نہیں ہوں کہ نوعمر وں کو شادی کی اجازت دینے میں کوئی اخلاقی مسئلہ درپیش ہے۔ بلکہ ہمارے دور میں بھی، مجھے اس میں فطری طور پر کوئی غیر اخلاقی بات نظر نہیں آتی، حالاں کہ جدید حالات ایسی شادیوں کا تصور ہی بہت مشکل بنا دیتے ہیں۔ آج جب کہ بہت سے کم عمر بچوں کا جنسی تعلقات قائم کرنا جدید معاشرے کے نزدیک قابلِ اعتراض نہیں ہے، اور یہ ایک حقیقت ہے، تو میں نہیں سمجھ سکتا کہ یہ نوعمر اگر ایسا شادی کے حدود و تحفظ کے اندر کرتے تو یہ غیراخلاقی کیسے ہوتا؟
اس کے باوجود، بہت سے مسلمانوں کے برعکس، میں یہ ضروری نہیں سمجھتا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے لیے یہ بات لازمی تصور کروں کہ وہ اپنے زمانے سے پوری طرح آگے نکل جاتے۔ میرا ایمان ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک غیر معمولی نیک اور خدا ترس انسان تھے، جو کئی اعتبار سے یقیناً اپنے زمانے سے بہت آگے تھے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ان کا تصورِحیات اپنے زمانے اور ماحول سے پوری طرح لاتعلق ہو۔ مجھے نہیں لگتا کہ ایسی کوئی بھی توقع حقیقت پسندانہ ہوگی کہ رسول اللہ ﷺ اپنے ذاتی فیصلوں میں اس بات کا تعین کرتے ہوئے کہ پندرہ سو سال بعد معاشرہ یا شخصی اخلاقیات جیسی ہوں گی، ان کے مطابق اپنے اعمال و افعال کو ڈھالتے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جب مسلمان اخلاقی و روحانی رہ نمائی کے لیے سیرت کا مطالعہ کرنے بیٹھیں تو انھیں رسول اللہ ﷺکے اعمال کے تاریخی سیاق و سباق کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔
مشمولہ: شمارہ اکتوبر 2023