اسلامی نظام معاش کے خدوخال

(2)

بیت المال:

بیت المال کا قیام اسلام کے اندر اس وجہ سے بھی ہے کہ غریب اور محتاج کی ضرورت  اس سے پوری کی جائے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص زکوٰۃ دینا چاہتا ہے مگر وہ صحیح مستحقین کو نہیں پارہا ہے تو بیت المال کے اندر اپنا مال زکوٰۃ کوجمع کردے پھر امیر المؤمنین پر اس کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ اس کومناسب جگہ پر استعمال کرے ۔الغرض اسلام نے معاشی نظام کو قائم کرنے کے لیے اپنا ایک مکمل نظام بنایا ہے جو تمام پہلو سے کامل اور مکمل ہے ۔

  حصول معاش کے ذرائع ممنوعہ :

ربا : یعنی سود،سود قطعی طور پر حرام ہے ،سود کوقرآن کریم نے سنگین گناہ قرار دیا ہے ،شراب نوشی، خنزیر كاکھانا،بدکاری وغیرہ کے لیے قرآن کریم میںاتنی سخت وعیدنہیں آئی ہے جو کہ سودکے لیے آئی  ہے،ارشادباری ہے ۔

اے ایمان والو اللہ سے ڈرو،اورجو کچھ سود کا بقایا ہے اسے چھوڑ داگر تم ایمان والے ہو،لیکن اگر تم نے ایسا نہیں کیا تو خبر دار ہوجاؤجنگ کے لیے اللہ اور اس کے رسول کے طرف سے ۔(بقره)

دوسری ایت اس متعلق وارد ہے :

احل اللہ  البیع و حرم الربا(البقرہ ۲۷۵)اللہ نے بیع کو حلال اورسودکو حرام قراردیاہے۔

حضرت عبد اللہ ابن مسعود کہتے ہیں کہ ’’رسول اللہ ﷺنے سود لینے والے اور دینے والے اور سودی کاروبار کے لکھنے والے اور معاملہ سود کی گواہی دینے والوں پر لعنت کی اور فرمایا کہ وہ تمام معصیت کے ارتکاب میں برابر ہیں ‘‘  (الترمذی ،کتاب البیوع،۱۲۰۶)

سود کی مذمت صرف اسلام ہی نہیں کرتا ہے بلکہ دنیا کے قدیم معاشروں میں بھی سود کی مذمت کی گئی ہے اور اس کو اچھا نہیں سمجھا گیا ہے ۔

’’ارسطو نے زر کو کڑک مرغی قرار دیا ہے جو انڈا نہیں دیتی ارسطو کے قول کے مطابق زر کو استعمال کرنے کا مقصد ہی یہ تھا کہ مبادلہ

دولت میں آسانی پیدا کی جائے اور انسانی احتیاجات کو پورے طورپر پوراکیا جائے ، غرض ارسطو کا یہ نظریہ تھا کہ روپیہ روپیہ کو نہیں جنتا ، ارسطو کے علاوہ افلاطون بھی سود کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتا تھا ۔روما کے مقنن اور ہندو اور یہودی مصلح بھی سود کو برا سمجھتے تھے ، حتی کہ جاہلیت میں بھی عرب سود کو اچھا نہیں سمجھتے تھے اور سود کی رقم کو ناپاک خیال کرتے تھے ۔‘‘  ( اسلام کے معاشی نظرئے ج۲ص ۲،۴۰۱)

اسلام سودی نظام کی کمر توڑ تا ہے اورعملی طور پر اس کے مکمل خاتمہ کا انتظام کرتا ہے

 قمار:

قمار ؛جوئے کو کہتے ہیں

اسلام نے اس کی بڑی شدت سے مذمت کی ہے اور اس کو شیطانی عمل قرار دیاهے۔ لوگوں کو اس سے بچنے اور دور رہنے کی تلقین کی ہے ، ارشاد باری ہے ۔

انما الخمر والمیسر والانصاب والازلام رجس من عمل الشیطان فاجتنبوہ  لعلکم تفلحون (المائدہ ۹۰)

یہ شراب اور جوا، یہ آستانے اورپانسے،یہ سب گندے شیطانی کام ہیں ، ان سے پرہیزکرواور دوسری جگہ مزید سخت انداز میں فرمایا گیا ہے ۔

یسئلونک عن الخمر والمیسر قل فیھما اثم کبیر ومنافع للناس واثمہا اکبر من نفعھما ۔(البقرہ ۲۱۹)

لوگ آپ سے شراب اور جواکی بابت پوچھتے ہیں ، آپ کہہ دیجیے کہ ان میں بڑا گناہ هےاور لوگوں کے لیے کچھ فائدے بھی ہیں او ر ان كا گناه ، ان  کے فائدے سے بہت زیادہ بڑھاہواہے

لیکن افسوس اس بات پر ہے کہ قرآن سختی اور شدت کے ساتھ اس کام کی ممانعت کرتا ہے مگریہ لعنت آج عام ہوچکی ہے ،پتنگ بازی ،کبوتر بازی کیرم ،تاش ،شطرنج ،ویڈیو گیم ،کرکٹ ،فٹ بال وغیرہ میں فریقین کے درمیان اگر لین دین کی تعین ہوتی ہے ،تو تمام صورتیںقمار میں شامل هیں۔ اللہ ہمیں اس فتنہ عامہ سے محفوظ فرمائے ۔

احتکار:

احتکار ؛یعنی اشیاء کی ذخیرہ اندوزی کرنا

زمانہ جاہلیت میں حصول معاش کے ذرائع میں سے ایک ذریعہ احتکارکا بھی تھا لیکن احتکار کا شمار  اسلام کے نقطہ نظر سے حصول معاش کے ذرائع ممنوعہ میں سے ہوتاہے صراحت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غلہ کے احتکار کی ممانعت فرمائی ہے ،   (سنن البیھقی ، کتاب البیوع )

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غلہ کا احتکار کرنے سے منع فرمایاہے

 استغال

استغال عربی کا لفظ ہے جس کے معنی هیں ’’ناجائز فائدہ اٹھانا ‘‘اس کے اندر کئی طریقے شامل هیں مثلاً چوری ، ڈاکہ زنی ، غصب ، اور لوٹ مار،اللہ تعالی چوری کوجرم  قرار دیتا هے ۔

والسارق والسارقۃ فاقطعو ایدھما جزء انما کسب نکالا من اللہ ۔(المائدہ۳۸۰)

اورچور خواہ مرد ہویا عورت د دونوں کے ہاتھ کاٹ دو ، یہ ان کے کر دار کا بدلہ ہے اور اللہ کی طرف سے عبرت ناک سزاہے

اسی طرح قرآن  ڈاکہ زنی اورلوٹ مار کے متعلق بھی سزا سناتاہے ۔

جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے لڑتے ہیں اور زمیںمیں فساد پھیلانے کے لیے تگ ودوکرتے ہیں ،ان کی سزا یہ هے کہ قتل کیے جائیں،یاسولی پر چڑھائے جائیں ،یاان کے ہاتھ اور پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹ ڈالے جائیں،یاوہ جلاوطن کردیے جائیں ،یہ ذلت و رسوائی تو ان کے لیے دنیامیںہے اور آخرت میں ان کے لیے اس سے بڑی سزاہے

قرآن نے غصب ، چالاکی اور عیاری سے دوسرے کے مال پر قبضه کرنے سےبھی منع کیا۔          (البقرہ ۱۸۸)

اور تم لوگ نہ تو آپس میںایک دوسرے کے مال ناروا طریقے سے کھاؤاور نہ حاکموں کے آگے ان کو اس غرض کے لیے پیش کرو کہ تمہیں دوسروں کے مال کاکوئی حصہ قصدا ظالمانہ طریقہ سے کھانے کا موقع مل جائے۔

الغرض اسلام نے حصول معاش کے تمام وہ ذرائع حرام كیے جن میں ظلم وزیادتی اور استحصال کا امکان ہو  ، یہ ہے اسلام کا وہ نظام جو دنیا كے لیے رحمت ہے۔ایک مسلمان ہونے کے حیثیت سے ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اسلام کے معاشی نظام کواپنی تجارتوں اور اپنے بازاروں میں نافذ کریں ، دوسروں کو بھی اس كے فوائد وثمرات سے آشنا کرائیں ،تاکہ دنیا  چین وسکون کی زندگی بسر کرسکے ۔

حوالہ جات:

۱ ۔اسلام کے معاشی نظریے ج ۲ محمد یوسف الدین

۲  ۔اسلام اور معاشی تحفظ بد الحمید صدیقی

۳ ۔ أسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ عزالدین بن الاثیر

۴  ۔سیرۃ النبی علامہ شبلی نعمانی

۵  ۔سیر الصحابہ ج ۸ملانا سعید انصاری

۶ ۔الطبقات الکبری لابن سعد

۷  ۔قیام امن اور اسلام                                             مولانا کمال اختر قاسمی

۸  ۔مبادی الاقتصاد الداکتور محسون بھجت جلال

۹ ۔ مشکلۃ الفقر وکیف عالجھا الاسلام                                            الدکتوریوسف القرضاوی

۱۰ ۔معاشیات اسلام سید ابو الاعلی مودودی

۱۱۔محاضرات معیشت وتجارت ڈاکٹر محمود احمد انصاری

مشمولہ: شمارہ جون 2019

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau