بھائیوں کے درمیان جائیداد کی تقسیم
سوال: چار بھائیوں نے ایک جائیداد مل کر خریدی۔ اس کی صورت یہ ہوئی کہ سب سے بڑے بھائی نے رقم اکٹھا کی اور پلاٹ تلاش کرنے،ان کا معاملہ کروانے، انھیں خریدوانے اوران کی رجسٹری کروانے میں دل چسپی لی اور اس کام کو انجام تک پہنچایا۔چوں کہ بڑے بھائی کے پاس رقم نہیں تھی، اس لیے انھوں نے ذاتی طور پر پلاٹ نہیں لیا اور تین پلاٹوں کی رجسٹری تینوں بھائیوں کے نام الگ الگ کروادی۔ درمیان کے دو بھائیوں کے پاس بھی رقم نہیں تھی، انھیں سب سے چھوٹے بھائی سے قرض دلوادیا۔اس معاملے کو بیس برس گزر گئے ہیں۔ اب ان پلاٹوں کی مالیت پندرہ گنا بڑھ گئی ہے۔چھوٹے بھائی کا قرض اب تک بھائیوں نے ادا نہیں کیا ہے۔ اب چھوٹے بھائی کا کہنا ہے کہ چوں کہ تینوں پلاٹ میری ہی رقم سے خریدے گئے تھے، اس لیے مجھے اور حصہ دیا جائے۔
دریافت طلب امر یہ ہے کہ کیا چھوٹے بھائی کی بات درست ہے؟ کیااسے کچھ اور حصہ ملنا چاہیے؟ایک بات یہ بھی جاننی ہے کہ یہ سارا معاملہ بڑے بھائی نے کروایا تھا۔ کیا ان کا بھی کچھ حق بنتا ہے؟اور یہ کہ انھوں نے ہی چھوٹے بھائی سے قرض دلوایا تھا۔ کیا قرض کو واپس کرانے کے سلسلے میں ان کی کچھ ذمے داری بنتی ہے؟
براہ کرم ان سوالات کے جوابات مرحمت فرمائیں۔
جواب: کوئی معاملہ کچھ لوگ باہم اشتراک سے کریں تو ابتدا ہی میں اس کی جملہ تفصیلات جزئیات کے ساتھ طے کرلینی چاہئیں۔اسلام نے معاملات میں شفّافیت کا حکم دیا ہے۔اسے ملحوظ نہ رکھا جائے اورمعاملہ گول مول رہے تو بعد میں تنازعات پیدا ہوجاتے ہیں اور خوش دلی سے ان کا نپٹارا نہیں ہوپاتا۔اسی طرح بہتر ہے کہ اسے ضبط ِ تحریر میں لے آیا جائے۔معاملہ زبانی انجام پائے تو بعد میں اس کی تفصیلات ذہن سے محو ہونے لگتی ہیں اور کوئی ثبوت موجود نہ ہونے کی وجہ سے تنازع پیدا ہوجاتا ہے۔اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
یا أَیهَا الَّذِینَ آمَنُوا إِذَا تَدَاینتُم بِدَینٍ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوهُ ( البقرة: ۲۸۲)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو!جب کسی مقرر مدّت کے لیے تم آپس میں لین دین کرو تو اسے لکھ لیاکرو۔
جو مسئلہ بیان کیا گیا ہے اس کا جواب یہ ہے کہ جن بھائیوں کے نام سے پلاٹ خریدے گئے تھے اور ان کے نام سے ان کی رجسٹری ہوئی تھی، انھی کوان کا مالک سمجھا جائے گا۔اگرچہ ان پلاٹوں کی خریداری میں درمیان کے دو بھائیوں کی کچھ رقم نہیں لگی تھی،بلکہ کل سرمایہ سب سے چھوٹے بھائی نے فراہم کیا تھا، لیکن وہ رقم اس سے بہ طور قرض لی گئی تھی اور اس نے قرض ہی کہہ کر وہ دی تھی۔اب چوں کہ ان پلاٹوں کی مالیت بہت بڑھ گئی ہے، اس لیے اس کا یہ کہنا کہ میرے پلاٹ کے علاوہ دوسرے پلاٹوں میں سے بھی مجھے کچھ حصہ دیا جائے، درست نہیں ہے۔ دوسرے پلاٹوں میں اس کا کچھ حق نہ بنتا۔
چھوٹے بھائی نے اپنے دو بھائیوں کو بہ طور قرض جتنے روپے دیے تھے، اب اسے اتنے ہی روپے ان سے واپس لینے کا حق ہے۔ اگرچہ طویل عرصہ گزر جانے کے بعد اس رقم کی مالیت میں خاصی کمی آگئی ہے، لیکن اس کی بنیاد پرمزید رقم یاکسی اور سہولت کا مطالبہ کرنا درست نہیں ہے۔یہ ’ربا‘(سود) ہوگا، جسے اسلامی شریعت میں حرام قرار دیا گیا ہے۔حدیث میں ہے:
کُلُّ قَرضٍ جَرَّمَنَفَعَةً فَھُوَ رِبَا (الجامع الصغیر للسیوطی: ۶۳۱۸ )
ہر وہ قرض جس سے نفع حاصل ہو وہ سود ہے۔
( محدثین نے اس روایت کی سند کو ضعیف قرار دیا ہے، لیکن اس کے بعض شواہد پائے جاتے ہیں اوریہ معناً درست ہے۔)
البتہ دونوں بھائی اپنی آزاد مرضی سے قرض کی واپسی کے علاوہ اپنے بھائی کو جس نے قرض دیا تھا، مزید کچھ دینا چاہیں تو دے سکتے ہیں۔اللہ کے رسولﷺ کا معمول تھا کہ جب کسی سے قرض لیتے تو اسے واپس کرتے وقت کچھ بڑھا کر دیتے تھے۔
سب سے بڑے بھائی نے یہ معاملہ کروانے اور اسے انجام تک پہنچانے میں سرگرم کردار ادا کیا تھا۔انھوں نے اپنے بھائیوں کی سرپرستی کا حق ادا کیا۔ اس پر وہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے اجر کے مستحق ہوں گے۔ لیکن چوں کہ انھوں نے اپنے نام سے کوئی پلاٹ نہیں خریدا تھا، اس لیے اب ان کا کچھ حصہ نہ ہوگا، الّا یہ کہ دوسرے بھائی انھیں صلہ رحمی کے طور پر کچھ دے دیں۔
جو رقم چھوٹے بھائی نے قرض کے طور پر دی تھی، اسے جلد واپس ملنا چاہیے تھا۔اگربھائیوں نے بغیر کسی معقول عذر کے اس کی واپسی میں تاخیر کی تو انھوں نے اچھا نہیں کیا۔اب انھیں واپس کردینا چاہیے۔بڑے بھائی کی یوں تو کوئی ذمے داری نہیں بنتی،یہ قرض لینے والوں اور قرض دینے والے کا آپسی معاملہ ہے، لیکن چوں کہ انھوں نے قرض دلوانے میں تعاون کیا تھا، اس لیے اب اس کی واپسی میں بھی اپنا تعاون پیش کریں تو بہتر ہوگا اور معاملہ خوش اسلوبی سے اختتام پذیر ہوجائے گا۔
قرض کی واپسی میں نا مناسب تاخیر سے بچنے کے لیے بہتر ہوتا ہے کہ قرض کی واپسی کی مدت بھی اسی وقت متعین کرلی جائے۔البتہ اگر معاشی تنگی کے باعث وہ وقت پر دینے کی پوزیشن میں نہ ہو تو اس کے ساتھ نرمی کا معاملہ کرتے ہوئے اسے مناسب مہلت بھی دی جائے۔
بار بار پیشاب آنے کی صورت میں کیا کیا جائے؟
سوال: ہمارے ایک عزیز بہت بیمار رہتے ہیں۔ پچاسی(۸۵) برس عمر ہے۔ پنج وقتہ نمازی ہیں۔ ان کو پیشاب بہت آتا ہے۔ رات میں کبھی کبھی بستر پر بھی ہو جاتا ہے۔ سب کے مشورے سے وہ رات میں پیمپر باندھ لیتے ہیں۔ دن کے اوقات میں بار بار پیشاب کرنے باتھ روم جاتے ہیں، جو گھر سے تھوڑی دور پر ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پیمپر باندھ لیں تو کہتے ہیں کہ نماز کیسے پڑھوں گا؟
براہ کرم رہ نمائی فرمائیں، اس صورت میں کیا کیا جائے؟
جواب: نماز کی شرائط میں سے ہے کہ نمازکی جگہ اور نمازی کا جسم اور کپڑے پاک ہوں اور وہ با وضو ہو۔البتہ اگر اس معاملے میں کوئی عذر ہو تو بہ قدر عذر گنجائش ہوگی۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْساً اِلّاَ وُسْعَھَا (البقرة: ۲۸۵)‘‘اللہ تعالیٰ کسی پر اس کی طاقت سے بڑھ کر ذمے داری کا بوجھ نہیں ڈالتا۔’’ اور جن چیزوں سے وضو ٹوٹ جاتا ہے ان میں سے پیشاب، پاخانہ اور ریاح خارج ہونا بھی ہے۔
اگر کسی شخص کو مرض یا بڑھاپے کی وجہ سے پیشاب روکنے پر قدرت نہ ہوتو اس کیفیت کو’سلس البول‘کہا جاتا ہے۔
اس کی ایک صورت یہ ہو سکتی ہے کہ پیشاب کے قطرے مسلسل ٹپکتے ہوں۔ جتنی دیر میں ایک فرض نماز پڑھی جا سکتی ہو اتنی دیر بھی قطروں کا ٹپکنا بند نہ ہوتا ہو۔ایسے شخص کے لیے حکم یہ ہے کہ وہ ہرفرض نماز کا وقت شروع ہونے پر وضو کرلے،پھر اس وضو سے جتنی چاہے فرض یا نفل نمازیں پڑھے اور قرآن مجید کی تلاوت کرے۔جب تک اس نماز کا وقت رہے گا وہ باوضو سمجھا جائے گا۔البتہ دوسری نماز کا وقت شروع ہونے پر اسے دوبارہ وضو کرنا ہوگا۔
اسے’استحاضہ ‘( ایام ِ حیض کے علاوہ خون آنا)کے مسئلے پر قیاس کیا گیا ہے، جس کا ذکر حدیث میں موجود ہے۔حضرت عروہ بن زبیرؒ حضرت عائشہؓ سے روایت کرتے ہیں: ایک خاتون نے اللہ کے رسولﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر سوال کیا: مجھے استحاضہ کا خون مسلسل آتا ہے۔ پھر کیا میں نما ز چھوڑ دوں؟ آپ نے جواب دیا: ’’نہیں یہ تو کسی رگ کا خون ہے، حیض کا نہیں ہے۔ جب حیض آنے لگے تب نماز چھوڑو اور جب حیض ختم ہوجائے تو خون دھونے اور غسل کرنے کے بعد نماز پڑھا کرو۔‘‘عروہ نے مزیدبیان کیا: ’’پھر ہر نماز کے لیے وضو کر لیا کرو، یہاں تک کہ ایام ِ حیض آجائیں۔‘‘ ( بخاری: ۲۲۸، مسلم: ۳۳۴)
اسی پر قیاس کرتے ہوئے یہی حکم ان لوگوں کے لیے بیان کیا گیا ہے جن کو مسلسل پیشاب آنے یا ریاح نکلنے کا مرض ہو،یا ان کے زخموں سے مسلسل خون رِستا ہو۔ابن قدامہؒ نے لکھا ہے:
’’خلاصہ یہ کہ مستحاضہ عورت اور وہ شخص جسے مسلسل پیشاب یا مذی آنے کا مرض ہو یا وہ زخمی جس کے زخم سے مسلسل خون رِس رہا ہو، یاان جیسے دیگر لوگ،جس شخص سے کوئی ایسی چیزمسلسل خارج ہو رہی ہو جس سے وضو ٹوٹ جاتا ہو اور اس کے لیے اپنی طہارت باقی رکھنا ممکن نہ ہو،وہ متاثرہ جگہ کو دھوئے گا،اسے باندھ لے گا اور حتّیٰ الامکان کوشش کرے گا کہ گندگی باہر نہ نکلے، پھر ہر نماز کے لیے وضو کرے گا۔‘‘ ( المغنی)
اگر پیشاب کے قطرے مسلسل، یہاں تک کہ دوران ِ نماز بھی نکل رہے ہوںاوران سے کپڑا(پاجامہ یا لنگی وغیرہ) آلودہ ہو رہا ہو توکپڑے کو دھونا ضروری نہیں،اس کے ساتھ نماز پڑھی جا سکتی ہے۔ لیکن اگر قطروں کا ٹپکنا مسلسل نہ ہو، درمیان میں اتناوقفہ رہتا ہو کہ اس میں نما زادا کی جا سکتی ہو توکپڑے کو دھوکر، یا دوسرا پاک کپڑا پہن کر نماز پڑھنا ضروری ہے۔
اگر کسی شخص کو پیشاب کرنے کے بعد کچھ دیر تک قطرے آتے ہوں ( مسلسل نہ ٹپکتے ہوں) تو مناسب یہ ہے کہ وہ نیکر یا چڈّی استعمال کرے اور اس کے اندر ٹیشو پیپر، روئی یا کپڑے کا ٹکڑا رکھ لے۔ جب تک اس کے بیرونی حصے پر پیشاب کی تری کا اثر ظاہر نہ ہو،وضو ٹوٹنے کا حکم عائد نہ ہوگا۔
آج کل پیمپر کااستعمال بچوں اور بڑوں دونوں کے لیے عام ہوگیا ہے۔ یہ چڈّی کی طرح کاایک زیر جامہ لباس ہے،جسے پہنا دیا جاتا ہے تو پیشاب اسی میں جذب ہوتا رہتا ہے اور باہر نکل کر بستر یا بیرونی لباس کو گندا نہیں کرتا۔ اس کا حکم یہ ہے کہ اگر پیمپر پر ایک درہم (یعنی ہتھیلی کی گہرائی کی مقدار) کے برابر نجاست لگی ہو اور وقت ِ ضرورت اسے بہ آسانی جسم سے الگ کردینا ممکن ہو تو اس کے ساتھ نماز پڑھنا درست نہیں۔ البتہ اگر پیشاب آنے کی شکایت اتنی زیادہ ہو کہ ایک پیمپر ہٹاتے اور دوسرا پہناتے ہی وہ بھی پیشاب سے آلودہ ہوجاتا ہو توپھر اسے بدلنے کی ضرورت نہیں۔ اس کے ساتھ نماز پڑھی جا سکتی ہے۔اسی طرح اگر پیمپر بار بار تبدیل کرنے میں بہت زیادہ مشقّت ہو تو یہ زحمت اٹھانے کی ضرورت نہیں۔ اس کے ساتھ نماز پڑھنے کی گنجائش ہے۔ فتاویٰ عالم گیری میں ہے:
’’ایک ایسا مریض جس کے نیچے ناپاک کپڑے ہوں،اگر اس کی حالت ایسی ہو کہ جیسے ہی کوئی کپڑا بچھایا جائے فوراً ناپاک ہوجاتا ہو،تووہ اسی حالت میں نماز پڑھ لے گا۔ یہی حکم اس صورت میں بھی ہے جب ناپاک کپڑا بدلوا کر دوسرا کپڑا پہنانے کی صورت میں وہ(دوسرا کپڑا) ناپاک نہ ہوتا ہو، لیکن اسے بدلوانے میں بہت زیادہ مشقّت ہوتی ہو۔ فتاویٰ قاضی خاں میں بھی یہی بیان کیا گیا ہے۔‘‘ ( الفتاویٰ الھندیة: ۱؍ ۱۳۷، باب ۱۴، فی صلاة المریض)
یہی حکم اس شخص کے لیے بھی ہے جس کو مسلسل ریاح خارج ہونے کا مرض ہو۔
مشمولہ: شمارہ جنوری 2022