جماعت اسلامی ہند ایک دینی تحریک ہے جس کا نصب العین اقامت دین ہے۔ ہمارے نصب العین کا لازمی تقاضا ہے کہ لوگوں کو خدا پرستی اور ہدایت الہی کے بارے میں واقف کرایا جائے۔ انسانی زندگی کی کام یابی یا ناکامی کا دار و مدار اس پر ہے کہ انسان اللہ کی بندگی اور ہدایت الہی کی پیروی کے لیے تیار ہے یا نہیں۔ خدا کی بندگی اور ہدایت الہی کی طرف دعوت انبیائے کرام کا مشن رہا ہے۔ نبی آخرالزماں کے بعد یہ ذمہ ان لوگوں کی ہے جو اس پر یقین رکھتے ہیں۔ اس لیے جماعت نے اپنی سرگرمیوں میں دعوت الی اللہ کو ہمیشہ بنیادی اہمیت دی ہے۔ موجودہ میقاتی منصوبے میں بھی اسلام کے حق میں رائے عامہ کی مثبت تبدیلی کو اسی اعتبار سے مرکزی اہمیت دی گئی ہے۔
اسلام کے حق میں ذہن سازی کے لیے ضروری ہے کہ لوگوں کی لاعلمی اور غلط فہمی دور کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس کے لیے لازم ہے کہ لوگوں سے رابطے استوار کیے جائیں۔ خدا کی بندگی اور آخرت کی زندگی پر گفتگو کے مواقع پیدا کیے جائیں۔ خدا پرستی کا جذبہ فطری طور پر ہر انسان میں پایا جاتا ہے۔ نجات و فلاح اور نعمت لازوال کی تمنا ہر دل میں مچلتی رہتی ہے۔ انسان کی اسی فطرت کو، جس پر اللہ نے اسے پیدا کیا ہے، بیدار کرنے اور صحیح رخ دینے کی ضرورت ہے۔
اللہ تعالی نے انسان کو احساس بندگی کے ساتھ دنیا چلانے کی ذمہ داری عطا کی ہے۔ اس ذمہ داری کو ادا کرنے کے لیے انسان کو بے شمار صلاحیتوں اور نعمتوں سے نوازا گیا ہے۔ چوں کہ انسان کو عقل و جذبات کے ساتھ ارادے کی آزادی بخشی گئی ہے، اس لیے وہ جو راہ چاہے منتخب کر سکتا ہے۔ چاہے تو اللہ کی ہدایت پر چلے، چاہے تو خواہشات نفس کی پیروی اختیار کرے۔ لیکن خواہشات نفس کی پیروی انسان کو انحراف و تحریف کی طرف لے جاتی ہے۔انحراف و تحریف کے پیچھے عام طور پر بغیا بینھم (ایک دوسرے پر زیادتی) کا جذبہ کام کرتا ہے۔ ہدایت الہی سے انحراف اور اس میں تحریف کی تاریخ بغیا بینھم کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ دنیا کی دیگر قوموں کی طرح ہندوستانی سماج میں بھی یہ تاریخ بار بار دہرائی گئی ہے۔
انسانی سفر کا آغاز علم و ہدایت کی روشنی میں ہوا۔ لیکن بعد کے زمانوں میں زیادتی کی نت نئی صورتیں ایجاد کی گئیں اور انھیں مذہبی جواز فراہم کیا گیا۔ قرآن کہتا ہے کہ ابتدا میں سب لوگ ایک ہی طریقے پر تھے۔ پھر یہ حالت باقی نہ رہی اور اختلافات رونما ہوئے۔ تب اللہ نے نبی بھیجے جو راست روی پر بشارت دینے والے اور کج ر وی کے نتائج سے ڈرانے والے تھے، اور ان کے ساتھ کتاب برحق نازل کی تاکہ حق کے بارے میں لوگوں کے درمیان جو اختلافات رونما ہو گئے تھے، ان کا فیصلہ کرے۔ ان اختلافات کے رونما ہونے کی وجہ یہ نہ تھی کہ ابتدا میں لوگوں کو حق بتایا نہیں گیا تھا۔ نہیں، اختلاف ان لوگوں نے کیا، جنھیں حق کا علم دیا چکا تھا۔ انھوں نے روشن ہدایات پا لینے کے بعد محض اس لیے حق کو چھوڑ کر مختلف طریقے نکالے کہ وہ آپس میں زیادتی کرنا چاہتے تھے۔(كَانَ النَّاسُ اُمَّةً وَّاحِدَةً، فَبَعَثَ اللّٰهُ النَّبِیّٖنَ مُبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَ۪ وَ اَنْزَلَ مَعَهُمُ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ لِیَحْكُمَ بَیْنَ النَّاسِ فِیْمَا اخْتَلَفُوْا فِیْهِؕ؛ وَ مَا اخْتَلَفَ فِیْهِ اِلَّا الَّذِیْنَ اُوْتُوْهُ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَتْهُمُ الْبَیِّنٰتُ بَغْیًۢا بَیْنَهُمْۚ۔ البقرة -۲۱۳)۔
اسی سلسلہ ہدایت کی آخری کڑی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ہے۔ اللہ تعالی نے حکم دیا: آپ صاف بتا دیں کہ یہ حق ہے تمھارے ربّ کی طرف سے، اب جس کا جی چاہے قبول کرے اور جس کا جی چاہے انکار کر دے (وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكُمْ ۖ فَمَنْ شَآءَ فَلْیؤْمِنْ وَّ مَنْ شَآءَ فَلْیكْـفُرْ۔ سورة الکہف: ۲۹)۔ چناں چہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے شبانہ روز کی دعوتی سرگرمیوں کے ذریعے دعوت وتبلیغ کا حق ادا کر دیا۔ داعی الی اللہ کی حیثیت سے آپ کی جانفشانی اس درجہ بڑھی ہوئی تھی گویا کہ اپنی جان گھلا دیں گے (لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ اَلَّا یَكُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ۔ سورة الشعراء-۲)۔ اللہ تعالی نے ہدایت فرمائی کہ اگر یہ لوگ منھ موڑتے ہیں تو آپ پر صاف صاف پیغامِ حق پہنچا دینے کے سوا اور کوئی ذمہ داری نہیں ہے (فَاِنۡ تَوَلَّوۡا فَاِنَّمَا عَلَیۡکَ الۡبَلٰغُ الۡمُبِیۡن۔ سورہ النحل: ۸۲)۔
ہندوستانی سماج سے ہماراتعلق کسی اجنبی اور تماشائی جیسا نہیں ہے۔ ہم اس ملک کے گوشے گوشے میں صدیوں سے آباد ہیں۔ ہماری جڑیں یہاں کے سماج میں پیوست ہیں۔ لیکن صدیوں کی سکونت اور سماجی تعلق کے باوجود ہمارے درمیان مذہبی حوالے سے لاعلمی کا پردہ حائل رہا ہے۔ لاعلمی کا اندھیرا غلط فہمی پھیلانے کے لیے سازگار ہوتا ہے۔ چناں چہ ملک میں فرقہ وارانہ ماحول اور عالمی سطح پر اسلاموفوبیا کے رجحان نے اسلام کے بارے میں بہت ساری غلط فہمیوں کو جنم دیا ہے۔ اس صورت حال کو بدلنے کی ضرورت ہے کیوں کہ اسی میں سب کا بھلا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ برادران وطن سے ہمارے تعلقات میں اضافہ ہو۔ فطری سماجی رشتے مضبوط ہوں۔ سماج میں افہام و تفہیم کی فضا سازگار ہو۔ اورباہمی تعاون کا ماحول پروان چڑھے۔ انسانی برادری، اخلاقی ذمہ داری اور سچی خیرخواہی کا یہی تقاضا ہے۔
ہندوستان کے حالات بظاہردعوت حق کے لیے ناسازگار نظر آتے ہیں۔ اس راہ میں بہت ساری سماجی اور قانونی مشکلات کھڑی کی جارہی ہیں۔ ان سب کے باوجود اس کام کو سہج انداز میں انجام دینے کے لیے بہت سارے فطری مواقع بھی موجود ہیں۔ جن لوگوں سے روز مرہ کا ربط و تعلق ہے، ان کی لاعلمی یا غلط فہمی دور کرنے میں نہ رکاوٹ ہے، نہ مخالفت۔ رکاوٹ اور مخالفت کا ہدف عام طور پر تبدیلئ مذہب ہے۔ ہمارا کام تو ہدایت الہی کے بارے میں لوگوں کی غلط فہمی دور کرنا اور انھیں اصل حقیقت سےباخبر کرنا ہے۔ ہدایت الہی کی قبولیت تو ہر شخص کے اپنے آزاد ارادے اور توفیق الہی پر منحصر ہے۔ دعوت دین کا پہلا قدم یہی ہے کہ دین حق سے ناآشنائی کی دھند ہٹانے کی کوشش کی جائے۔ معقولیت کے ساتھ ہدایت الہی کی حقانیت واضح کی جائے۔ اور اپنے قول و عمل سے حق کی گواہی دی جائے۔ سماجی ربط و ضبط کے دوران غیر شعوری طور پر ایک دوسرے کے مذہب و عقائد اور معاشرتی طور طریقوں کو جاننے سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔ روز مرہ کی سماجی زندگی میں جاری اس دعوتی عمل میں اصل اہمیت برادرانہ تعلقات، معقول انداز گفتگو اور اخلاقی ساکھ کی ہوتی ہے۔ رابطے اور مکالمے کا یہ سارا عمل فطری دعوتی عمل ہے۔ برادران وطن سے معمول کا سماجی ربط و تعلق صرف وابستگان جماعت کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔ عام مسلمانوں کے تعلقات بھی برادران وطن سے کافی وسیع اور گہرے ہیں۔ لہذا، مسلمانوں کو شہادت حق کی اہمیت سے آگاہ کرنا اور اس کام کی طرف متوجہ کرنا بے حد ضروری ہے۔ ہندوستان جیسے کثیر آبادی والے ملک میں ملت کی شمولیت کے بغیر رائے عامہ میں مثبت تبدیلی ممکن نہیں ہے۔
دعوت دین کے پہلو سے ایک اور بات قابل توجہ ہے۔ اسلام جیسا کچھ ہے اسے صداقت و دیانت کے ساتھ ویسا ہی پیش کرنا ہماری دینی ذمہ داری ہے۔ اسلام کی دعوت نہ تو سطحی پروپیگنڈے کی محتاج ہے اور نہ ہی اس میں جھوٹ، فریب، خوف اور لالچ کی کوئی گنجائش ہے۔ اس لیے اسلامی دعوت کے خلاف شکوک و شبہات کی کوئی حقیقی اورقانونی بنیاد نہیں ہے۔ دعوتی پیغام کی تاثیر کا بڑا انحصار قول و عمل کی یکسانیت پر ہے۔ ہمارا قول و عمل حق کا گواہ ہو تو لوگ اثر قبول کریں گے۔ قول و عمل کی یکسانیت سے ظاہر ہونے والی صداقت لوگوں کی رائے پر اثر انداز ہوتی ہے۔ انفرادی رشتوں کے ساتھ one to one گفتگو غلط فہمیوں کے ازالے اور ذہن سازی میں زیادہ کارگر ثابت ہوتی ہے۔ اس لیے رفقائے جماعت کی زیادہ توجہ انفرادی ملاقات و گفتگو پر ہونی چاہیے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی 23 سالہ نبوی زندگی میں دعوت و تبلیغ کے ساتھ ساتھ اصلاح و تزکیہ کی کوشش بھی جاری و ساری نظر آتی ہے۔ اللہ تعالی نے نبی اکرم کی اس ذمہ داری کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ: اللہ نے مومنوں پر بڑا احسان کیا کہ ان کے درمیان انھی میں سے ایک رسول بھیجا جو ان کے سامنے اللہ کی آیتوں کی تلاوت کرے، ان کا تزکیہ کرے اور انھیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے: (لَقَدْ مَنَّ اللّـٰهُ عَلَى الْمُؤْمِنِینَ اِذْ بَعَثَ فِـیهِـمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِهِـمْ یتْلُوْا عَلَیـهِـمْ اٰیاتِهٖ وَیزَكِّـیـهِـمْ وَیعَلِّمُهُـمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَۚ۔ آل عمرآن: ۱۶۴)۔ اس لیے دعوت دین کے ساتھ دوسرا بنیادی فریضہ اصلاح امت کا کام ہے۔ امت کی انفرادی اور معاشرتی اصلاح کا کام تذکیر، تعلیم اور تدریج کا تقاضا کرتا ہے۔ چناں چہ اصل توجہ اس پر ہونی چاہیے کہ ملت کا دینی جذبہ بیدار کیا جائے، انھیں اسلامی نظام حیات سے سے واقف کرایا جائے اور تدریج کے ساتھ ان کی انفرادی اور معاشرتی اصلاح کی جائے۔ اس سلسلے میں غیر ضروری مسلکی مباحث سے گریز کرتے ہوئے دین کے بنیادی تقاضوں کی طرف متوجہ کیا جائے۔
آپ بخوبی واقف ہیں کہ اصلاح کا فطری سفر اپنی ذات اور گھر سے شروع ہوتا ہے، قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا۔ اس لیے پہلا قدم یہی ہے کہ اصلاحی کوششوں کا آغاز اپنی ذات، اپنے گھر اور اپنے وسیع تر خاندانی رشتوں سے کیا جائے۔ لیکن اصلاحی کوششوں کا یہ سفر وہیں رک نہیں جاتا۔ اس کا دائرہ درجہ بدرجہ پھیلتا چلا جاتا ہے۔ ہمیں اپنی اصلاح بھی کرنی ہے اور ملت کی اصلاح بھی کرنی ہے۔ چناں چہ اصلاحی کوششوں کا دوسرا بڑا دائرہ وہ مسلم سماج ہے جس کے درمیان ہمارے شب و روز کے بیشتر اوقات گزرتے ہیں۔ چناں چہ مسلم سماج کی اصلاح سے غفلت کی نہ گنجائش ہے اور نہ ہی اس راہ میں کوئی بڑی رکاوٹ ہے۔ اصلاحی عمل کا اہم پہلو دینی شعور کی بیداری اور اجتماعی اخلاق کی درستی ہے۔ امت کی دینی اور اخلاقی اصلاح کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو ان کے اجتماعی مقصد حیات اقامت دین سے واقف کرانے اور اس کے لیے سرگرم عمل بنانے کی کوشش کی جائے۔ اقامت دین جماعت کا محض تنظیمی نصب العین نہیں ہے۔ اقامت دین تو اصلا پوری امت کا اجتماعی نصب العین ہے۔ چناں چہ جس مقصد کو ہم نے بہت سوچ سمجھ کر اپنایا ہے، وہ پوری امت کا مقصد زندگی بن جائے، اس کی کوشش کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ اسی کے ساتھ مسلمانوں میں انفرادی اور اجتماعی طور پر جو کم زوریاں پائی جاتی ہیں انھیں دور کرنے کی کوشش کرنا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ اجتماعی برائیوں کے سلسلے میں ہمارے سامنے تین آپشن ہیں: یا تو ان کا ازالہ قانونی سماجی قوت سے کریں، یا اس کے لیے رائے عامہ ہم وار کریں، اور بدرجہ آخر آزردہ خاطری کے ساتھ ازالے کی منصوبہ بندی کریں۔ اصلاح امت کی کوششوں کا دعوت دین سے بھی بہت گہرا تعلق ہے۔ ہمارا یہ یقین کہ اسلام انسان کی انفرادی اور جتماعی زندگی کو عدل و راستی سے ہم کنار کرتا ہے، اور فساد و بے راہ روی سے پاک کرتا ہے، اس کی جھلک مسلم سماج میں نظر آنی چاہیے۔ اسلامی معاشرے کا عملی نمونہ رائے عامہ کی مثبت تبدیلی کے لیے بے حد اہمیت رکھتا ہے۔ اس لیے نہ تو دعوت دین سے پہلو تہی کی جا سکتی ہے اور نہ ہی اصلاح امت سے صرف نظر کیا جا سکتا ہے۔ چناں چہ یہ دونوں کام جماعت کی بنیادی و لازمی کام کا حصہ ہیں۔ رفقائے جماعت سے یہی توقع ہے کہ وہ ان کاموں کو اپنے انفرادی تحریکی معمولات زندگی کا حصہ بنانے کی کوشش کریں گے۔
ہم جس اجتماعیت سے وابستہ ہیں اس کا محرک رضائے الہی اور فلاح آخرت کا حصول ہے۔ کہنے کو یہ دو الفاظ ہیں۔ لیکن انھیں برتنا کتنا مشکل ہے اس کا اندازہ ہر شخص ذاتی محاسبے کے ذریعے کر سکتا ہے۔ بے شک رضائے الہی کا جذبہ ہماری اصل پونجی ہے۔ اس جذبے کو سلامت رکھنا ہر فرد جماعت کی ذاتی ذمہ داری ہے۔ ہماری صالحیت کی بنیاد بھی اسی جذبے پر قائم ہے۔ تحریک کی اصل قوت کارکنوں کا اخلاق و کردار ہے۔دوسروں کو خدا کی طرف بلانے والے، ملت کی اصلاح میں سرگرداں رہنے والے، خود اپنے بارے میں بے پروا کیسے رہ سکتے ہیں؟ اس سلسلے میں دوسری اہم بات یہ ہے کہ ہم جس تحریک سے وابستہ ہیں وہ ہمہ گیر تبدیلی کی نقیب ہے۔ تبدیلی کے لیے صالحیت کے ساتھ صلاحیت بھی درکار ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ رفقائے تحریک اپنی صلاحیتوں کو پہچاننے اور پروان چڑھانے کی کوشش کریں۔
تزکیہ و تربیت کی اسی بنیادی اہمیت کی بنا پر شروع سے ہی جماعت نے مقام سے مرکز تک اپنے ارکان و کارکنان کو رہ نمائی فراہم کرنے کا نظام بنایا ہے۔ لیکن اصلا تو یہ ہر فرد جماعت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اصلاح کی کوشش کرتا رہے۔ اللہ تعالی نے انسانی فطرت میں تقوی اور فجور دونوں کی استعداد رکھ دی ہے۔ اپنے اندر خیر کو پروان چڑھانا اور شر پر قابو پانا انسان کے اپنے ارادے پر موقوف ہے۔ یہ کوشش ہر شخص کو خود ہی کرنی ہوگی کیوں کہ اسے ارادے کی آزادی بخشی گئی ہے۔ اسی کوشش پر اس کی فلاح کا انحصار ہے۔ اللہ تعالی نے واضح کر دیا ہے کہ ہر شخص کے اندر برائی اور بھلائی کا رجحان اور اس کی پہچان موجود ہے۔ یقیناً فلاح پاگیا وہ شخص جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کیا اور نامراد ہوا وہ جس نے اُس کو دبا دیا: (وَ نَفْسٍ وَّ مَا سَوّٰىھَا- فَاَلْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَ تَقْوٰىھَا- قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىھَا- وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىھَا-سورہ الشمس)۔
تزکیہ و تربیت کے تین بنیادی پہلو قابل توجہ ہیں : اولین اور بنیادی پہلو تو ایمانی ہے، ہماری نیت، ہمارے عمل کا مرکز ومحور صرف رضائے الہی ہونا چاہیے۔ دوسرا پہلو تحریکی ہے۔ تحریک حالات کو تبدیل کرنے اور موجود کو مطلوب سے بدلنے کی جدوجہد کا نام ہے۔ تبدیلی کی جدوجہد کارکنان تحریک سے بے پایاں صلاحیتوں کا تقاضا کرتی ہے۔ اس لیے ہر رفیق جماعت کو جائزہ لینا چاہیے کہ اللہ تعالی نے اس کے اندر کون سی اور کتنی استعداد رکھی ہے۔ کن خوابیدہ صلاحیتوں کو پروان چڑھانےکے مواقع موجود ہیں۔ اپنی صلاحیت کو پروان چڑھانا اورانہیں بروئے کار لا کر سماجی تبدیلی کے عمل پر اثر انداز ہونا ہماری تحریکی ذمہ داری ہے۔ تیسرے پہلو کا تعلق نظم جماعت سے ہے۔ جماعت سے وابستگی ہمارا شعوری اور اختیاری فیصلہ ہے۔ اس لیے رفقائے جماعت کو از خود نظم جماعت کے تقاضوں کا خوگر بننے کی کوشش کرنی چاہیے۔ نظم جماعت سے وابستگی کے بعد اجتماعی زندگی کے پیچ و خم سے نباہ کرنا بڑے حوصلے کا کام ہوتا ہے۔ ہر شخص کی انا، اس کی خودی آڑے آتی رہتی ہے۔ انسان فطری طور پر اپنی انا، اپنی خودی کو بہت عزیز رکھتا ہے۔ لیکن نظم جماعت سے وابستہ بے شمار کارکنوں کی خودی اگر ایک دوسرے سے ٹکرانے لگے تو نظم جماعت کو برقرار رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے خودی کی پرورش اس طرح کی جائے کہ خود داری پروان چڑھے، نہ کہ خودپسندی کا مرض لاحق ہو جائے۔ اس کے لیے خود شناسی اور خود احتسابی درکار ہے۔ اس عمل میں ہر شخص کا رفیق اس کا اپنا دل، اس کا اپنا ارادہ ہے۔ اجتماعی زندگی کو کام یاب بنانے کے لیے ضروری ہے کہ اپنے اندر رواداری، کسر و انکسار، اور اجتماعی فیصلوں کے احترام کی خو بو پروان چڑھانے کی مسلسل کوشش کی جاتی رہے۔
جو لوگ اپنی اور دوسروں کی اخروی خیرخواہی کے لیے کوشاں ہوں اوراس کے لیے دعوت، اصلاح اور تربیت کے کاموں میں سرگرم عمل ہوں، ان سے یہی توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ مشکلات و مصائب سے دوچار لوگوں کی دستگیری اور دادرسی کے لیے بھی چوکس ہوں گے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خَیْرُالنَّاسِ مَنْ یَّنْفَعُ النَّاس۔ لوگوں میں بہتر وہ ہے جو انسانوں کو نفع پہنچاتا ہے۔ رسول اکرم نے امت کو تلقین فرمائی کہ: مخلوق اللہ کا کنبہ ہے۔ مخلوق میں سب سے زیادہ اللہ کو محبوب وہ بندہ ہے جو اس کے کنبے کے ساتھ حُسنِ سلوک کرے (مشکوٰة)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں دعوت و اصلاح اور تزکیہ و خدمت کے پہلو پوری شان سے جلوہ گر نظر آتے ہیں۔ آپ کی زندگی، نبوت سے پہلے اور بعد دونوں ادوار میں، خدمت خلق کا جیتا جاگتا نمونہ ہے۔ پہلی نزول وحی کے بعد جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر گھبراہٹ کی کیفیت طاری تھی تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے تسلی دیتے ہوئے فرمایا: ہرگز نہیں، اللہ کی قسم! اللہ آپ کو کبھی ضائع نہیں ہو نے دے گا۔ آپ رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کرتے ہیں، لوگوں کے بوجھ اٹھاتے ہیں، ناداروں اور محتاجوں کی مدد کرتے ہیں، مہمان نوازی کرتے ہیں اور مصیبت کے دنوں میں لوگوں کے کام آتے ہیں (بخاری)۔ دراصل خدا کی عبادت اور خلق خدا کی خدمت ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ چناں چہ ایک حدیث میں قیامت کے روز خدا اور انسان کے درمیان ہونے والے ایک مکالمے کا تفصیلی منظر بیان کیا گیا ہے۔ اس مکالمے میں خدا اس شخص کو، جو خلق خدا سے غافل تھا، یاد دلاتا ہے کہ اس نے خدا سے بے اعتنائی برتی جب اس نے بیمار کی عیادت نہیں کی، بھوکے کو کھانا نہیں کھلایا اور پیاسے کو پانی نہیں پلایا۔ اگر وہ ضرورت مند کی حاجت روائی کرتا تو خدا کو وہاں ضرور پاتا (صحیح مسلم)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تلقین فرمائی کہ: ’’بھوکوں کو کھانا کھلاو، بیماروں کی خبرگیری کرو، اور قیدیوں کو رہا کراؤ‘‘(بخاری)۔ اللہ تعالی نے آگاہ فرمایا ہے کہ: جو شخص پاکیزہ ہونے کی خاطر اپنا مال دیتا ہے، حالاں کہ اس پر کسی کا کوئی احسان نہیں ہوتا کہ جس کا بدلہ اُسے دینا ہو، بس وہ تو صرف اپنے ربِّ برتر کی رضا جوئی کے لیے یہ کام کرتا ہے۔اس شخص کا یہ رویہ اللہ تعالی کی خوشنودی کا ذریعہ ثابت ہوگا۔ )الَّذِیْ یُؤْتِیْ مَالَهٗ یَتَزَکّٰی. وَمَا لِاَحَدٍ عِنْدَہٗ مِنْ نِّعْمَةٍ تُجْزٰٓی. اِلَّا ابْتِغَآءَ وَجْهِ رَبِّهِ الْاَعْلٰی۔سورہ لیل)۔
موجودہ میقاتی منصوبے میں دعوت، اصلاح، تزکیہ اور خدمت کو بنیادی اور لازمی کام کے طور ہر ایک ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ دراصل یہ سارے کام ہماری تحریکی شخصیت کے چار اہم پہلو ہیں جو ایک دوسرے سے مربوط و منسلک ہیں۔ اگر کوئی ایک پہلو کم زور ہے تو اس کم زوری کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ان چاروں کام کو کرنے کی صلاحیت ہر رکن و کارکن میں کسی نہ کسی درجہ میں لازما موجود ہے۔ ان چاروں کام کے مواقع بھی ہماری روز مرہ کی زندگی میں اکثر آتے رہتے ہیں۔ بس تھوڑی سی توجہ، منصوبے اور ارادے کی ضرورت ہے۔ بیشتر رفقا کسی نہ کسی صورت میں یہ چاروں کام بلا تکلف انجام بھی دیتے ہیں۔ اگر ان کاموں کے لیے انفرادی منصوبہ سازی کر لی جائے تو بہت اچھی پیش رفت ہو سکتی ہے۔ ان چاروں کاموں کے لیے ہر سطح پر انفرادی اور اجتماعی منصوبہ سازی اور ان پر عمل آوری کو یقینی بنانا اس سطح کے ذمہ داران جماعت کا کام ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں رائے عامہ کی مثبت تبدیلی کے لیے ضروری ہے کہ بنیادی اور لازمی کام کو ہر سطح پر منصوبہ بندی، عمل آوری اور جائزے کی مجلسوں میں زیر غور لایا جائے۔
یہ چاروں کام نہ تو نئے ہیں اور نہ ہی جماعت کے رفقا ان کاموں سے نامانوس ہیں۔ تحریک کی ابتدا سے ہی ان کاموں کو کسی نہ کسی صورت میں انجام دیا جاتا رہا ہے۔ موجودہ میقات میں ان کاموں کو لازمی اور بنیادی قرار دینے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ کام پہلے غیر لازمی یا غیر اہم تھے۔ اس کی غرض یہ ہے کہ ان تمام کاموں کو فرداً فرداً ہر کارکن اپنی معمول کی سرگرمیوں کا لازمی حصہ بنائے گا۔ جماعت کی تنظیمی اکائیاں اپنے اجتماعی منصوبے میں ان سرگرمیوں کو بنیادی اہمیت دیں گی۔ انھیں کاموں سے نئے افراد ملیں گے، سماجی اثر و نفوذ بڑھے گا، تحریک کی توسیع و استحکام میں اضافہ ہوگا اور اس طرح اسلام کے حق میں رائے عامہ کو مثبت بنانے میں خاطرخواہ پیش رفت ہوگی۔ اللہ تعالی ہمیں توفیق عمل بخشے اور ہماری کوششوں کو قبول فرمائے، آمین
مشمولہ: شمارہ مارچ 2025