مسجد اقصی کا تعارف

ترجمہ: تنویر آفاقی

مسجد اقصی کے آثار سے مسجد کے منبر و محراب، گنبد، دروازے، مکاتب ومدارس، راہداریاں، چبوترے، کمانیں، پانی کی سبیلیں وغیرہ مراد ہوتی ہیں۔ مسجد اقصی کے مصلّے (نماز گاہیں) سات مساجد پر مشتمل ہیں :  جامع قِبلی، مصلّائے مروانی، مصلائے اقصی قدیم، مسجد گنبد صخرہ، مسجد براق، مسجد مغاربہ اور جامع النساء۔

 مصلّے (نماز گاہیں)

جامع قبلی:  یہ مسجد مسجد اقصی کے جنوب میں، یعنی قبلے کے رخ پر واقع ہے۔ فلسطین میں قبلہ  جنوب کی جانب ہے۔اسی لیے اس کا نام ’مسجد قِبلی‘ ہے۔ امام خطیب نماز جمعہ میں اسی مسجد کے اندر خطبہ دیتا ہے۔ مرد نمازیوں کے لیے بنیادی مسجد کی حیثیت اسے ہی حاصل ہے۔اسے اولاً حضرت عمر بن خطابؓ نے 15ھ میں فتح فلسطین کے موقع پر تعمیر کرایا تھا۔ اس وقت اسے لکڑیوں سے تعمیر کیا گیا تھا اور اس کے اندر 1000 نمازیوں کی گنجائش رکھی گئی تھی۔ مسجد کی موجود عمارت عہد امیہ کی یادگار ہے۔ زلزلے سے متاثر ہونے کے بعد خلیفہ عبدالملک بن مروان نے اس کی مرمت کا کام شروع کیا تھا جسے ولید بن عبدالملک  نے 96ھ میں مکمل کیا تھا۔ اس کے بعد بھی مختلف مسلم سلاطین کے عہدمیں اس کی مرمت و توسیع کا کام ہوتا رہا۔ اس وقت مسجد کا رقبہ تقریباً 4 دونم ( تقریباً 4000 مربع میٹر) ہے، جب کہ لمبائی 80 میٹر اور چوڑائی 55 میٹر ہے۔ اس کے 11 /دروازے ہیں اور تقریباً 5500 نمازی اس کے اندر بہ آسانی نماز ادا کر سکتے ہیں۔فلسطین پر یہودیوں کے قبضے کے بعد سے مسجد قبلی خطرات و حوادث کے حصار میں رہتی ہے۔ یہودی اس کی دیواروں کو کھودنے کی کوشش کرتے رہے ہیں، جس کی وجہ اس کی بنیادیں کم زور ہونے کا اندیشہ ہے۔ 21 اگست 1969ء میں ایک انتہاپسند یہودی ’مایکل ڈینس روہن‘ نے مسجد اقصی کو نذرِ آتش کر دیا تو یہی مسجد آگ کی زد میں آئی تھی۔ اس آگ کی وجہ سے مشرق کی جانب اس کی تینوں راہداریاں آگ کی زد میں آگئی تھیں اور لکڑی کی چھت میں بھی آگ لگ چکی تھی۔  2007ء میں مسجد کے اندر نیا منبر رکھا گیا جو دراصل صلاح الدین کے بنائے ہوئے منبر کی نقل ہے۔

مصلّائے مروانی:  یہ مصلّی (نماز گاہ) مسجد اقصی کے جنوب مشرقی گوشے پر واقع ہے۔ اس مصلے میں 16 راہداریاں ہیں۔ اس کا رقبہ 4000 مربع میٹر سے زیادہ ہے۔ مسجد اقصی کا یہ مصلی رقبے کے اعتبار سے سب سے بڑا ہے۔ صلیبیوں نے اپنے دور میں اس مصلّے کو اسطبل میں تبدیل کر دیا تھا، جسے وہ لوگ ’اسطبلات سلیمان‘ کہتے تھے۔

مصلّائے اقصیٰ قدیم:  یہ مصلّیٰ مسجد قبلی کے نیچے واقع ہے، جس تک سیڑھیوں کی مدد سے نتیچے اترتے ہوئے پہنچا جاتا ہے۔ اس میں جنوب کی جانب دو راہداریاں ہیں۔ اس مصلّے کی تعمیر امویوں نے کی تھی۔ اسے مسجد میں شاہی داخلے کے طور پر استعمال کیاجاتا تھا، کیوں کہ امویوں کے محلات مسجد اقصی کے جنوب کی جانب واقع تھے۔ اس میں اموی دور کے دو مسطّح گنبد بھی ہیں، جو اس کے جنوبی دروازے کے اوپر ہیں۔

مسجد براق:  مسجد براق مسجد اقصیٰ کے جنوب مغربی پہلو میں واقع ہے۔ اسے مسجد براق اس نسبت سے کہا جاتا ہے کہ رسولِ کریمﷺ نے اسی جگہ اپنی سواری براق کو باندھا تھا۔یہ مسجد ایک محراب پر مشتمل ہے، جسے امویوں نے تعمیر کیا تھا۔ اس کے مغربی حصے میں ایک قدیم دروازہ ہے جسے ’باب براق‘ کہا جاتا ہے۔ لیکن یہ دروازہ عہد اموی سے ہی بند ہے۔ موجودہ وقت میں اس مسجد تک پہنچنے کا راستہ پھتر کا بنا ہوا وہ زینہ ہے جو  مسجد اقصی کی مغربی راہداری کی طرف بنا ہوا ہے۔ ہر جمعہ کے روز اسے زیارت کے کھول دیا جاتا ہے۔

مسجدِ مغاربہ:  مسجد مغاربہ مسجد اقصیٰ کے جنوب مغربی گوشے میں اور صحن براق کے جنوبی حصے میں  واقع ہے۔ اس مسجد کے دو دروازے ہیں، ایک مشرق کی سمت اور دوسرا شمال کی جانب، جو کہ بند رہتا ہے۔کہا جاتا ہے کہ اسے صلاح الدین ایوبی  نے  590ھ/ 1193ء میں تعمیر کرایا تھا۔

جامع النساء:   جامع النساء مسجد اقصیٰ کے داخلی حصے میں آتی ہے اور مسجد اقصی کی جنوبی فصیل اور مسجد قبلی کی مغربی دیوار سےلے کر مسجد اقصی کی مغربی فصیل  تک پھیلی ہوئی ہے۔اس مسجد کے تین حصے ہیں۔ مغربی حصہ اسلامی میوزیم کے طور پر مختص ہے۔ درمیانی حصے میں مسجد اقصی کی مرکزی لائبریری ہے اور مشرقی حصہ مسجد قبلی سے متصل ہے جو گودام کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔اس کا زمانہ تعمیر صلیبیوں کا عہد بتایا جاتا ہے۔ صلیبیوں نے اسے چرچ کے طور پر تعمیر کیا تھا، جسے بعد میں صلاح الدین ایوبی نے مسجد میں تبدیل کرکے  خواتین کے لیے مختص کر دیا تھا۔

 مسجد کا سامنے والا حصہ

مسجد اقصیٰ کا اَمامی حصہ فاطمی خلیفہ مستنصر باللہ کے حکم سے 1065ء میں تعمیر کیا گیا تھا۔ یہ حصہ ایک سے زائد راستوں اور چھوٹے چھوٹے ستونوں پر مشتمل ہے۔ صلیبیوں کے دور میں اس حصے کو نقصان پہنچایا گیا تھا، جسے بعد میں صلاح الدین ایوبی نے ٹھیک کرایا تھا۔

مسجد اقصی میں گنبد

گنبد (قبہ) وہ گنبد والی چھوٹی عمارتیں ہیں جو مسجد اقصی کی زمین پر بنی ہوئی ہیں۔

گنبدِ صخرہ:  ایک آٹھ ضلعی عمارت ہے جس کے اوپر ایک سنہرا گنبد بنا ہوا ہے۔اس گنبد کو مسجد اقصیٰ کے دل کی حیثیت حاصل ہے اور مسجد کے اقصی کے درمیانی حصے میں قدرے بائیں طرف کو واقع ہے۔بعض لوگ اسی کو اصل مسجد اقصی تصور کر لیتے ہیں۔ اس کی تاریخ کاسرا عہد امیہ سے ملتا ہے کہ اس کی تعمیر 72ھ / 692ء میں ہوئی تھی۔ اس کے اندرونی حصے  میں ایک چٹان (صخرہ) ہے، اور اسی نسبت سے اسے گنبد صخرہ کہا جاتا ہے۔ روایات میں یہ بھی آتا ہے کہ رسولِ کریمﷺ اسی چٹان سے سفر معراج کا آغاز کیا تھا۔ فی الحال یہاں خواتین کی نماز گاہ ہے۔ عام لوگوں کا اعتقاد یہ ہے کہ یہ چٹان زمین اور آسمان کے درمیان معلق ہے، لیکن درحقیقت چٹان کے نیچے ایک چھوٹا سا غار ہے، جس کی وجہ سے وہ زمین سے اوپر اٹھی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔

گنبدِ سلسلہ: گنبد سلسلہ گنبدِ صخرہ کے دروازے کے عین سامنے ہے۔ اسے اموی خلیفہ عبدالملک بن مروان کے حکم پر 72ھ میں تعمیر کرایا گیا تھا۔ اس گنبد سے متعلق بعض افسانوی روایات وابستہ ہیں، جن کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ صلیبیوں کے زمانے میں اسے نقصان پہنچایا گیا تھا، جسے بعد میں صلاح الدین ایوبی نے مرمت کراکر درست کرایا تھا۔ سولہویں صدی عیسوی میں ترکی سلطان سلیمان قانونی نے اسے قاشانی ترکی ٹائلوں سے آراستہ کرا دیا تھا۔

گنبدِ نحویہ:  یہ گنبد صخرہ کے صحن کے جنوب مغربی حصے میں واقع ہے۔اسے 1207ء میں ایوبی سلطان شرف الدین ابو منصور عیسی ایوبی کے زمانے میں اس لیے  تعمیر کرایا گیا تھا  کہ اس کی حیثیت عربی نحو و صرف کی تعلیم کے لیے مخصوص مدرسے کی حیثیت حاصل ہو۔

گنبدِ ارواح:  یہ گنبد مسجد اقصیٰ کے اندرونی حصے میں گنبد معراج کے قریب واقع ہے۔ اسے عہد عثمانی میں تعمیر کیا گیا تھا۔یہ گنبد سنگ مرمر سے بنے ہوئے  آٹھ ستونوں پر قائم ہے۔

گنبدِ نبی سلیمانؑ:  مسجد اقصیٰ کے اندر شمال کی جانب واقع ہے۔ اسے اموی خلیفہ سلیمان بن عبدالملک نے تعمیر کرایا تھا۔

گنبدِ حضرت خضرؑ:  گنبدِ خضر علیہ السلام مسجد اقصی کے اندرون میں گنبد صخرہ کے شمال مغربی گوشے میں واقع ہے۔اسے بھی عہد عثمانی میں تعمیر کیا گیا تھا۔ اس گنبد کے چھے ستون ہیں۔

گنبدِ معراج:  یہ گنبد مسجد اقصی کے اندر گنبدِ صخرہ کے شمال مغرب میں واقع ہے۔ اسے 1200ء میں والی قدس  امیر عزالدین زنجلی کے حکم سے تعمیر کرایا گیا تھا۔

گنبدِ میزان: گنبد صخرہ کے صحن سے جنوب کی جانب ہے جو کہ مسجد اقصی کے جنوبی دروازے سے متصل ہے۔ اسے عہد مملوکی میں تعمیر کیا گیا تھا۔

گنبد یوسف آغا:  یہ گنبد جامع قبلی کے مغربی جانب واقع ہے۔ اسے عثمانی والی قدس یوسف آغا نے 1092ھ/ 1681ء میں تعمیر کرایا تھا۔

گنبد نبی موسیؑ:  مسجد اقصیٰ کے اندرون میں جنوبی بائکہ (جنوبی دروازے) کے قریب واقع ہے۔اس کی تعمیر عہد ایوبی کے تحت 1250ء میں ہوئی تھی۔ یہ جگہ غالباً ایوبی امراء کی عبادت گاہ کے طور پر مخصوص تھی۔ اس گنبد کے نیچے دیواریں بنا کر نیچے اسے مربع شکل دی گئی ہے۔

گنبدِ محراب نبی ﷺ:  یہ گنبدِ صخرہ کے مغرب میں گنبد معراج کے قریب  واقع ہے۔والی قدس وغزہ محمد بیگ نے 1538ء میں  یہاں محراب نبی تعمیر کرائی  تھی، جو سنگ مرمر سے بنی ہوئی ہے اور مستطیل شکل کی ہے۔بعد میں عثمانی سلطان عبدالمجید ثانی نے 1845ء میں اسی کے اوپر گنبد تعمیر کرایا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ محراب نبیﷺ  وہ  جگہ  ہے جہاں رسولِ کریمؐ نے انبیا علیہم السلام کو نماز پڑھائی تھی۔

گنبدِ یوسف : گنبد صخرہ کے جنوب میں واقع ہے۔ اسے عہد عثمانی میں 1681ء میں تعمیر کیا گیا تھا۔ یہ گنبد یوسف بن ایوب معروف بہ ناصر صلاح الدین ایوبی کی یاد میں تعمیر کرایا گیا تھا۔

گنبدِ عاشقانِ نبی:  مسجد اقصی کے جنوب مشرقی گوشے میں باب عتم کے قریب واقع ہے۔ اس کی تاریخ تعمیر 1817ء ہے۔ اس کا اصل نام ایوان السلطان محمد ثانی تھا۔ موجودہ نام اس لیے پڑا کہ بعض صوفی شیوخ اس کے نیچے جمع  ہو کر ذکر میں مشغول ہوتے تھے۔

گنبد نبی عیسی علیہ السلام:  اسے مہدِ (آغوش) نبی عیسیؑ بھی کہا جاتا ہے۔ اسے حضرت عیسیؑ کی یادگار کے طور پر تعمیر کیا گیا تھا۔ اس گنبد کے نیچے پتھر کا ایک حوض ہے جسے مہدِ نبی عیسیؑ کہا جاتا ہے۔

 مسجد اقصیٰ کے مینار

مینارِ مغاربہ:  یہ سب سے پہلا مینار ہے جسے مسجد اقصیٰ کے اندر 1278ء میں تعمیر کرایا گیا تھا۔ یہ مینار مسجد اقصیٰ کے جنوب مغربی گوشے میں  بابا مغاربہ کے قریب واقع ہے۔ اس عمارت کی تعمیرات کے نگراں اور انجینئر  شرف الدین عبدا لرحمن کے والد فخرالدین خلیلی کی نسبت سے  اسے مینار فخاریہ بھی کہا جاتا ہے۔

مینارِ غوانمہ:  مینار غوانمہ ترتیب کے اعتبار سے  دوسرا مینار ہے جسے شرف الدین عبدالرحمن خلیلی نے 1297۔98ء کےد رمیان  اس وقت کے مملوک سلطان لاجین کے حکم سے تعمیر ا تھا۔

مینارِ باب سلسلہ:  یہ تیسرا مینا رہے جو 1329ء میں شام کے  مملوک حاکم  سیف الدین تنکز ناصری کے حکم سے تعمیر کرایا گیا تھا۔ یہ مینار مسجد اقصی کے مغربی حصے میں واقع ہے۔ اسے مینار محکمہ بھی کہا جاتا ہے۔

مینارِ باب الاسباط:  یہ چوتھا اور آخری مینار ہے جسے 1367ء میں تعمیر کیا گیا تھا۔ اس کا دوسرا نام مینار صلاحیہ  بھی ہے، کیوں کہ کہ مدرسہ صلاحیہ کی جانب واقع ہے۔مسجد اقصی سے یہ شمال کی جانب باب حطہ اور باب اسباط کےد رمیان میں ہے۔

مسجد اقصیٰ کے دروازے

مسجد اقصیٰ کے سولہ دروازے ہیں، جن میں سے کچھ ایک طویل عرصے سے بند رہتے ہیں اور کچھ کھلے رہتے ہیں۔ جو دروازے کھلے رہتے ہیں ان کے نام اس طرح ہیں:  1۔ باب اَسابط (باب اسود)، 2۔ باب حطہ، 3۔ باب ملک فیصل (باب عتم)، 4۔ باب غوانمہ (باب الولید)، 5۔ باب ناظر،  6۔ باب حدید، 7۔ باب قطانین، 8۔ باب مطہرہ، 9۔ باب سلسلہ / باب سکینہ (باب نبی داؤدؑ)، 10۔ باب مغاربہ۔ اسے باب براق اور باب نبیﷺ بھی کہا جاتا ہے، کیوں کہ اس کے بارے میں خیال ہے کہ نبیﷺ شب معراج کو اسی دروازے میں مسجد اقصیٰ میں داخل ہوئے تھے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ فتح قدس کے بعد حضرت عمر بن خطابؓ بھی اسی باب سے مسجد اقصیٰ میں داخل ہوئے تھے۔11۔ باب رحمت و توبہ

دروازے جو طویل عرصے سے بند ہیں:

1۔ باب منفرد، 2۔ باب ثلاثی، 3۔ باب مزدوج، 4۔ باب ذہبی، 5۔ باب جنائز۔

راہداریاں

مسجد اقصی میں دو راہداریاں ہیں۔ ایک مغربی راہداری اور دوسری شمالی راہداری۔اس کے علاوہ مسجد اقصیٰ سے منسوب اور اس کے جوار میں موجود مدارس و مکاتیب بھی بڑی تعداد  ( دس سے زیادہ ) میں ہیں۔ کچھ مغربی راہداری میں ہیں اور کچھ شمالی راہداری کی طرف ہیں۔ بعض مسجد کی چار دیواری سے باہر بھی ہیں، لیکن مسجد سے متصل ہیں۔ مسجد اقصیٰ کے مقدسات میں سے وہ کمانیں بھی ہیں جن کی تعداد 8 ہے۔انھیں بائکہ (جمع بوائک) کہا جاتا ہے۔   یہ کچھ ستون ہوتے ہیں، جن کے اوپری حصے پر تین یا چار محرابیں ہوتی ہیں۔  انھیں مسجدکی خوب صورتی کے لیے تعمیر کیا گیا ہے۔یہ مسجد کے صحن تک لے جانی والے زینوں کی آخری سیڑھی اور صحن کے درمیان واقع ہوتی ہیں۔

( یہ تمام معلومات  https: //www.marefa.org پر موجود مضمون ’معالم المسجد الاقصی‘ سے لی گئی ہیں۔)

مشمولہ: شمارہ دسمبر 2023

مزید

حالیہ شمارے

جولائی 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau