پوری اسلامی تاریخ میں مسلمانوں کی غالب ترین اکثریت اہل سنت کی رہی ہے، اس مکتبِ فکر میں آج چار فقہی مسالک ہیں، لیکن ہماری علمی تاریخ میں ان کے علاوہ اور بھی فقہی مسالک پائے گئے ہیں جو آج ناپید یا معدوم ہوچکے ہیں۔ ان مسالک کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ کتاب وسنت کا فہم اور حالات ومسائلِ زمانہ پر ان کی تطبیق گو کہ بہت سے شرعی قواعد کی پابند ہے، لیکن اس کے باوجود ہماری تاریخ میں فقہی آرا کا ذخیرہ بہت وسیع اور نہایت گوناگوں ہے، اصول وقواعد شریعت نے کتاب وسنت کے فہم اور فقہی آرا کی تشکیل میں راہنمائی تو کی ہے لیکن ان کو کسی تنگنائے میں محدود نہیں کیا ہے۔
چند مسالک کی بقا اور دیگر مسالک کے معدوم ہوجانے کے اسباب کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کے متعدد علمی وحقیقی اسباب ہیں، جن کی دریافت اور تحلیل وتجزیہ ممکن ہے، صرف حکومتوں کی منشا ہی کو اس کا سبب بتانا نہایت غلط ہے، گوکہ حکومتوں کے عروج وزوال کے نتیجہ میں کسی علمی مکتب فکر وگروہ کو مواقع میسر آنا اور دوسرے کے لیے مواقع فراہم نہ ہونا بھی ایک حقیقت ہے، لیکن یہی ایک تنہا سبب نہیں ہے۔
اسلامی تاریخ کی ابتدائی دو صدیوں میں اسلامی فتوحات کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا گیا، متعدد ممالک فتح ہوئے، اور صحابہ وتابعین نے وہاں علوم اسلامی کو خوب فروغ دیا، حجاز، کوفہ، بصرہ، خراسان، شام، مصر ومغرب (افریقہ کا مغربی علاقہ) میں بہت سے علمی مراکز کی داغ بیل پڑی، متعدد علمی وفقہی مکاتب فکر کا آغاز ہوا، اور پورے عالم اسلام کے ہر حصہ میں اسلامی علوم بالخصوص فقہ کا دور دورہ ہوا۔
اس تحریر میں ہم جس ‘معدوم ہونے’ کی بات کررہے ہیں اس سے مراد ان کا بس بطور مسلک ختم ہونا ہے، ورنہ ان مسالک اور ان کے عالی مقام ائمہ وعلما کی بہت سی آرا آج بھی محفوظ ومحترم ہیں، عصر حاضر میں ان سے استفادہ بھی کیا جاتا ہے، یہاں تک کہ متعدد مسائل میں ان کی آرا کو رائج مسالک کی آرا پر ترجیح بھی دی گئی ہے۔
اہل سنت کے ان معدوم ہوچکے مسالک کی خاصی تعداد ہے، لیکن ہم یہاں صرف ان مسالک کا ہی تذکرہ کریں گے جن کا ذکر امام سیوطی نے اپنی کتاب ‘الحاوی للفتاویٰ’ میں کیا ہے، انھوں نے تحریر فرمایا ہے:
‘‘اس ملتِ شریفہ میں مسالک کل چار ہی نہیں رہے ہیں، صحابہ، تابعین، تبع تابعین اور بعد کے طبقات میں مجتہدین بے شمار ہوئے ہیں، جن کے اپنے مسالک تھے، ماضی میں کم از کم دس تو ایسے مسالک تھے جن کے ائمہ کی باقاعدہ تقلید ہوتی تھی اور جن کے مسالک مستقل فقہی کتابوں میں مدون تھے، ان دس میں چار تو مشہور ورائج فقہی مسالک ہیں، ان کے علاوہ امام سفیان ثوریؒ (وفات:161ھ)، امام اوزاعیؒ (وفات:157ھ)، امام لیث بن سعدؒ (وفات:175ھ)، امام اسحاق بن راہویہؒ (وفات:238ھ)، امام ابن جریر طبریؒ (وفات:310ھ) اور امام داود اصفہانیؒ (وفات:272ھ) کے بھی مستقل فقہی مسالک تھے، جن کے مطابق فتاوی دیے جاتے اور عدالتوں میں فیصلے ہوتے، پھر پانچویں صدی ہجری کے بعد رفتہ رفتہ یہ مسالک ختم ہوگئے، اس لیے کہ ان کے عالی مقام اصحابِ افتا وفقہا رخصت ہوتے گئے، اور ان کے شایان شان جانشین نہیں پائے گئے۔’’
زیر نظر تحریر میں ہم سیوطیؒ کے ذکر کردہ ان چھ مسالک پر ہی گفتگو کریں گے، بس امام اسحاق ابن راہویہ کی جگہ ہم ان کے ہم عصر ایک دوسرے امام، امام ابو ثور ابراہیم بن خالد کلبی بغدادیؒ (وفات:240ھ) کے مسلک کا تذکرہ کریں گے اس لیے کہ ان کا مسلک امام ابن راہویہؒ کے مسلک سے کہیں زیادہ رائج اور مشہور تھا، اس موقع پر یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ ان مسالک میں متبعین کی تعداد اور ان مسالک کی عمر کے اعتبار سے باہم خاصا فرق ہے۔
ان مسالک پر ہماری گفتگو کے دو حصے ہوں گے، پہلے حصہ میں ہم ان مسالک کا تذکرہ کریں گے، اِن کے ائمہ، اُن کی جلالتِ شان اور ان کے مشہور تلامذہ پر روشنی ڈالیں گے، نیز یہ واضح کریں گے کہ ان کی تقلید کس علاقہ اور زمانہ میں ہوتی تھی، پھر دوسرے حصہ میں ہم ان داخلی وخارجی اسباب پر گفتگو کریں گے جن کی وجہ سے یہ مسالک ناپید ہوگئے۔
امام اوزاعیؒ کا مسلک
امام عبد الرحمان بن عمرو اوزاعیؒ عظیم امامِ فقہ تھے، دمشق میں پیدا ہوئے اور زندگی کا بڑا حصہ وہیں گزارا، وفات بیروت میں پائی، ان کے علمی مقام کا اندازہ اسی سے کیا جاسکتا ہے کہ امام مالک بن انسؒ (وفات:179ھ) نے ایک موقع پر اپنے فتوے کے مقابلے میں ان کے فتوے کو ترجیح دی، اور ارشاد فرمایا: ‘‘اوزاعی کی رائے صحیح ہے۔’’ بلکہ امام مالکؒ کے نزدیک تو ان کا مقام امام سفیان ثوریؒ اور امام ابو حنیفہؒ سے بھی بلند تھا، ایک موقع پر امام مالک سے ان تینوں حضرات کی بابت سوال کیا گیا تو انھوں نے فرمایا کہ‘‘ ان میں سب سے بلند مقام اوزاعی کا ہے۔’’
ابن ابی حاتم ؒ(وفات:327ھ) نے اپنی کتاب ‘الجرح والتعدیل’ میں خلفا کے نام امام اوزاعیؒ کے متعدد خطوط نقل کیے ہیں، جن میں ان کو مسلمانوں کے مصالح کی جانب متوجہ کیا گیا ہے، وہ حکم رانوں کے سامنے بلا خوف وتردد حق بات کہتے، ابن ابی حاتمؒ نے ہی لکھا ہے کہ عباسی عہد کے امیر شام عبد اللہ بن علی عباسی نے امام اوزاعیؒ سے بنو امیہ کو قتل کرنے کا حکم دریافت کیا، آپ نے فرمایا : ‘‘ناجائز ہے۔’’ اسی امیرِ شام نے دعوی کیا کہ خلافت بنو ہاشم کا ہی حق ہے تو آپؒ نے فرمایا:
‘‘اگر خلافت رسول اکرم ﷺ کی اولاد کے لیے خاص ہوتی تو حضرت علیؓ تحکیم پر راضی نہ ہوتے۔’’
(یعنی وہ اپنے اور حضرتِ معاویہؓ کے درمیان اختلافات میں دو لوگوں کو حکم نہ بناتے کہ وہ جو فیصلہ کردیں وہ انھیں منظور ہوگا)۔
ابن ابی حاتمؒ نے ان کی زندگی کے ایک خاص گوشے پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے کہ انھوں نے متعدد مواقع پر لبنان کے اہلِ ذمہ (غیر مسلم آبادی) کو حکم رانوں سے انصاف دلانے میں نہایت اہم کردار ادا کیا، اسی لیے ان کی وفات پر جب اپنے اس امامِ عالی مقام کا جنازہ لے کر مسلمان نکلے تو ایک جانب عیسائیوں کی بڑی تعداد تھی، دوسری طرف یہودی تھے اور تیسری طرف قبطیوں کی ایک جماعت بھی اس جنازہ کے ہم رکاب تھی۔
ابنِ عساکرؒ (وفات:571ھ) نے تاریخ دمشق میں لکھا ہے کہ امام اوزاعیؒ نے فتوی دینے کا آغاز 113ھ میں کیا، آپ نے متعدد کتابیں تصنیف کیں، افسوس وہ سب ایک زلزلہ میں تباہ ہوگئیں، امام ذہبیؒ (وفات:748ھ) امام اوزاعیؒ کے فقہی ورثہ کا ذکر کرتے ہوئے اپنی کتاب ‘سیر أعلام النبلاء’ میں لکھتے ہیں:
‘‘ان کے یہاں بہت سی ایسی بیش بہا فقہی آرا پائی جاتی ہیں جو کسی اور کے یہاں نہیں ملتیں، فقہ اسلامی کی عظیم کتابوں میں ان کی یہ آرا موجود ہیں، ان کا ایک مستقل فقہی مسلک تھا، جس پر فقہائے شام واندلس ایک طویل عرصہ تک کاربند رہے، پھر یہ مسلک ختم ہوگیا۔’’
امام موصوف کے شاگرد ہقل بن زیاد دمشقی کا یہ قول ابو زرعہ دمشقی نے اپنی تاریخ میں بسند نقل کیا ہے کہ: ‘‘اوزاعیؒ نے ستر ہزار سے زائد فتاوی دیے’’، ابن عساکرؒ نے ابو زرعہ رازیؒ (وفات:264ھ) کا یہ قول بھی نقل کیا ہے کہ ‘‘مجھے معلوم ہوا ہے کہ ان کے ساٹھ ہزار فتاوی مدون کیے گئے تھے’’ (یعنی تحریری طور پر محفوظ کیے گئے تھے)، جب کہ ولید کی تصنیفات میں ان کے صرف چار ہزار فتاوی ہی محفوظ ہیں۔’’ یہ ولید بن مزید بیروتیؒ کا تذکرہ ہے، جن کو ابن عساکرؒ نے ‘امام اوزاعی، ان کی مجالس، ان کی روایات اور ان کے فتاوی سے سب سے زیادہ واقف دس لوگوں میں سے ایک’ بتایا ہے۔
امام اوزاعیؒ کا مسلک پہلے شام میں رواج پایا، پھر دوسری صدی ہجری کے نصف آخر سے پہلے اندلس پہنچا، امام ذہبی ‘تاریخ الاسلام’ میں لکھتے ہیں: ‘‘تقریباً 220ھ تک اندلس میں اوزاعی مسلک رائج وغالب رہا، پھر یہ کم زور پڑتا گیا اور اس کی جگہ مالکی مسلک نے لے لی، دمشق میں بھی یہ مسلک 340ھ کے آس پاس تک رائج رہا’’، اس مدت میں شام وبیروت میں آپ کا مسلک ہی سکۂ رائج الوقت تھا، پھر رفتہ رفتہ یہ وہاں ناپید ہوتا گیا، اور وہاں صر ف ان کے جنازے اور بین مذاہب انصاف وتعلقات کے سلسلے میں ان کی خدمات ہی یادگار رہیں۔
اندلس میں یہ مسلک بنی امیہ کے اقتدار (آغاز: 138ھ)سے پہلے ہی رائج ہوگیا تھا، اور پھر ہشام رضا کے عہد تک وہاں اسی کا دور دورہ رہا، ہشام رضا 172ھ میں حکمراں ہوا، اور اپنی وفات (180ھ) تک حکمراں رہا، قاضی عیاض مالکیؒ نے ‘ترتیب المدارک’ میں تحریر کیا ہے: ‘‘امیر اندلس ہشام بن عبدالرحمان الداخل بن معاویہ نے تمام لوگوں کو مالکی مذہب کی تقلید کا پابند کیا، قضا اور فتوے کے لیے بھی اس مسلک کی پابندی لازمی قراردی’’، امام اوزاعیؒ کے شاگرد صعصعہ بن سلام اس مسلک کو لے کر اندلس پہنچے تھے۔
جب کہ شام میں اوزاعی مسلک نسبتاً طویل مدت تک یعنی چوتھی صدی ہجری کے نصف آخر تک رہا، امام ابن تیمیہ نے مجموع الفتاویٰ میں لکھا ہے کہ:
‘‘امام اوزاعیؒ امامِ اہلِ شام تھے، چوتھی صدی ہجری تک اہلِ شام ان کے ہی مسلک پر رہے’’، وہاں اس مسلک کے آخری فقیہ قاضی احمد بن سلیمان بن حذلمؒ تھے، ابن عساکرؒ نے ان کے سلسلے میں لکھا ہے: ‘‘وہ آخری ایسے فقیہ تھے جو جامع دمشق میں اپنے حلقہ میں اوزاعی مسلک پڑھایا کرتے تھے۔’’
امام سفیان ثوریؒ کا مسلک
امام سفیان ثوریؒ جلیل القدر محدث اور عظیم کوفی فقیہ تھے، امام سفیان بن عیینہ (وفات:198ھ) نے ان کے بارے میں کہا تھا: ‘‘میں نے سفیان ثوریؒ سے زیادہ وسیع العلم فقیہ نہیں دیکھا’’،عجلی (وفات:261ھ) نے اپنی کتاب ‘الثقات’ میں لکھا ہے:
‘‘وہ عظیم محدث اور متبع سنت فقیہ تھے، حکم ران وقت کے سامنے حق گوئی میں امتیازی شان رکھتے تھے۔’’
عباسی خلیفہ منصور (وفات:158ھ) نے امام ثوری کو قاضی بنانا چاہا، لیکن آپ نے اس پیش کش کو قبول نہیں کیا، اس منصب سے بچنے کے لیے 155ھ کے اواخر میں آپ نے کوفہ کو خیر باد کہا، اور حکومت کی نظروں سے اوجھل رہتے ہوئے بقیہ عمرعراق وحجاز کے مختلف شہروں میں گزاردی، اسی حال میں 161ھ میں بصرہ میں وفات پائی، ندیم (وفات:384ھ ) نے اپنی کتاب ‘الفہرست’ میں امام ثوری کی مختلف کتابوں کا تذکرہ کیا ہے، امام ذہبی نے ‘سیر أعلام النبلاء’ میں لکھا ہے کہ انھوں نے اپنی موت کے بعد اپنی کتابیں نذرِ آتش کیے جانے کی وصیت کی تھی۔
امام ثوری کے مسلک کا آغاز کوفہ سے ہوا تھا، پھریہ مسلک وہاں سے دارالسلطنت بغداد پہنچ گیا، جہاں ان کے شاگرد عبید اللہ بن عبد الرحمان اشجعی قیام پذیر تھے، خطیب بغدادی (وفات:463ھ) نے ‘تاریخ بغداد’ میں ذکر کیا ہے کہ : امام سفیان ثوریؒ کی وفات کے بعد ان کے شاگردوں نے ان کے حلقۂ درس کی ذمہ داری عبید اللہ اشجعیؒ کو دینی چاہی، لیکن انھوں نے معذرت کردی۔’’
اپنی کتاب ‘الباعث الحثیث’ میں ابن کثیرؒ (وفات:774ھ) نے لکھا ہے کہ :
‘‘ امام سفیان ثوری کئی صدیوں تک پانچ متبوعہ مسالک میں سے ایک کے امام کے طور پر جانے جاتے رہے’’، لیکن پانچویں صدی ہجری کے آغاز میں ان کا مسلک بغداد میں باقی نہیں بچا، ابن جوزیؒ نے اپنی کتاب ‘المنتظم’ میں لکھا ہے کہ: ‘عبد الغفار بن عبد الرحمان دینوریؒ (وفات: 405ھ) بغداد میں امام ثوری کے مسلک پر فتوی دینے والے آخری شخص تھے۔’’
امام ثوریؒ کے شاگرد رشید نعمان بن عبد السلام بکری نہایت ممتاز عابد وزاہد اور عظیم الشان محدث وفقیہ تھے، ان کے ذریعے یہ مسلک اصفہان پہنچا، شیراز وجرجان (یہ دونوں خطے آج ایران میں واقع ہیں) میں بھی یہ مسلک رائج رہا۔خراسان، بالخصوص اس کے صدر مقام نیشاپور اور دینور (جو آج شمال مغربی ایران میں واقع ہے) میں بھی اس مسلک کے متبعین تھے۔
امام اوزاعی کی طرح ان کا مسلک بھی شام میں فروغ پایا، اس لیے کہ وہاں بھی امام ثوریؒ کے بہت سے شاگرد تھے، جو اپنے وقت کے امام قرار پائے۔ ان میں عظیم ترین صوفی بشر الحافی(وفات:227ھ) اور معافی بن عمران الازدی(وفات:184ھ) نہایت جلیل القدر تھے، ابن حبان (وفات:354ھ) نے ‘الثقات’ میں بتایا ہے کہ مؤخر الذکر کو ‘‘امام ثوریؒ ‘یاقوتہ’ (گوہرِ نایاب)کہتے تھے۔’’ ابن عساکر کے بقول شام میں اس مسلک کے ممتاز فقہا میں ایک نام قاضی حافظ مکی بن جابار دینوری (وفات:468ھ) کا بھی تھا۔
اس مسلک کے متبعین کئی صدیوں تک پائے جاتے رہے، شمس الدین غزیؒ (وفات:1167ھ) نے اپنی کتاب ‘دیوان الاسلام’ میں لکھا ہے کہ ‘‘ اس مسلک کے مقلدین تقریباً 500ھ تک پائے گئے’’، لیکن غالبا یہ مسلک اس کے بعد بھی خاصے زمانے تک پایا جاتا رہا، اس لیے کہ محدث عبدالرحمان بن حمد صوفی دونی عراقیؒ (وفات:501ھ) کو ابو طاہر سلفی نے اپنی کتاب ‘معجم السفر’ میں اس مسلک کا پیرو بتایا ہے، بلکہ ابن تیمیہؒ نے اپنے زمانہ میں بھی خراسان میں اس مسلک کے مقلدین پائے جانے کی بات لکھی ہے۔
اس طرح یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس مسلک کے خاتمہ میں اس کے حاملین کے زاہدانہ رجحانات کا بڑا کردار ہے، گو کہ اس کاایک اور سبب حکومتِ وقت کا داروگیر کارویہ بھی ہے، جس کے نتیجہ میں اس مسلک کے طلبا کی تعداد کم ہوتی گئی، اس کا فقہی ذخیرہ محفوظ ومدون نہیں ہوسکا، اور اس کی فقہی سرگرمیاں ماند پڑگئیں۔
امام لیث بن سعدؒ کا مسلک
امام لیث بن سعدؒ معروف امام، احادیث وآثار کے بڑے حافظ اور نہایت بلند علمی مقام کے حامل تھے، ان کے مقامِ بلند کا اندازہ امامِ مالکؒ کے شاگرد عبد اللہ بن وہبؒ کے اس جملہ سے ہوتا ہے:‘‘امام مالکؒ اپنی کتابوں میں جہاں بھی یہ جملہ تحریر فرماتے ہیں کہ: مجھے میرے پسندیدہ عالم نے بتایا، تو اس سے ان کی مراد لیث بن سعدؒ ہی ہوتے ہیں، امام شافعیؒ(وفات:204ھ) فرماتے ہیں: ‘‘لیثؒ مالک بن انسؒ سے بڑے فقیہ تھے، لیکن ان کے شاگردوں نے انھیں ضائع کردیا’’، امام شافعیؒ کا یہ قول ابو شیخ اصفہانیؒ (وفات:369ھ) نے ‘طبقات المحدثین بأصفہان’ میں نقل کیا ہے۔
امام موصوف کثیر التصانیف تھے، جیسا کہ امام ذہبیؒ نے ان کے تذکرہ میں لکھا ہے، لیکن یہ تمام تصنیفات معدوم ہوگئیں، صرف ان کا ایک رسالہ ابن مندہ (وفات:475) کی ‘الفوائد’ کے ساتھ شائع ہوتا ہے، اسی طرح ان کے امالی کا ایک مختصر مجموعہ ‘مجلس من فوائد اللیث بن سعد’ کے نام سے شائع ہوتا ہے، ان کے شاگردوں میں ان کے صاحبزادے شعیب اور ان کے پوتے محدث وفقیہ عبد الملک بن شعیب تھے، صاحب زادۂ گرامی شعیبؒ کے بارے میں ابن یونس صدفی (وفات:347ھ) نے لکھا ہے کہ وہ محدث، فقیہ ومفتی تھے۔
اسی طرح ان کے ممتاز شاگردوں میں یہ نام بھی شامل ہیں: عبد اللہ بن صالح الجہنیؒ، حماد بن صفوان بن عتاب غافقی(جن کے بارے میں سمعانی نے لکھا ہے کہ وہ امام لیث بن سعدؒ کے حاضر باش اور ان کے مسلک کے حافظ تھے)، اسحاق بن بکر بن مضر (وفات: 228ھ)، تاریخ ابن یونس میں ان کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ امام لیثؒ کے حلقہ میں فتوے دیا کرتے تھے۔ امام لیثؒ کا مسلک ناپید ہوگیا، گو کہ علمی وفقہی کتابوں میں ان کی علمی وسماجی زندگی کے آثار ونقوش محفوظ رہے۔
امام ابو ثورؒ کا مسلک:
امام ابو ثور کا نام ابراہیم بن خالد کلبیؒ تھا، خطیب بغدادی نے ان کو نہایت ثقہ محدث اور عظیم امام بتایا ہے، احکام سے متعلق آپ کی متعدد تصنیفات ہیں جو حدیث وفقہ کی جامع ہیں، امام احمد بن حنبلؒ (وفات:241ھ) نے ان کی بابت بڑے بلند کلمات ارشاد فرمائے ہیں، ایک موقع پر امام احمد سے کسی نے کوئی فقہی مسئلہ دریافت کیا تو انھوں نے فرمایا: ‘‘اللہ تمھیں اچھا رکھے، کسی اور سے پوچھ لو، فقہا سے پوچھو، ابو ثور سے دریافت کرلو۔’’
امام موصوف پہلے حنفی مسلک کے متبع تھے، پھر امام شافعی جب عراق تشریف لائے تو ان سے کسبِ فیض کیا، خطیب بغدادی لکھتے ہیں: ‘‘وہ پہلے اہل الرأی کی فقہ پر عمل پیرا تھے، اور اہلِ عراق (احناف) کی آرا پر فتوے دیتے تھے، پھر امام شافعی بغداد تشریف لائے تو وہ اہل الرأی کا حلقہ چھوڑ کر اہل الحدیث کی راہ پر گامزن ہوگئے۔’’ لیکن جلد ہی ان کا ایک مستقل مسلک ہوگیا، ندیم نے لکھا ہے: ‘‘انھوں نے ایک نیا مسلک تشکیل دیا، جو امام شافعی کی مختلف آرا سے مستفاد اور ان کے منتخب اقوال پر مشتمل تھا۔’’(امام شافعیؒ اپنی آخر عمر میں مصر میں مقیم رہے، مصر جانے کے بعد ان کی بہت سی آرا تبدیل ہوئیں، مصر سے پہلے کی ان کی آراکو ان کا ‘مسلکِ قدیم’ اور مصر کے زمانۂ قیام کی ان کی آرا کو ان کا ‘مسلک جدید’ کہا جاتا ہے، درج بالا عبارت میں ندیم کی بات کا حاصل یہی ہے کہ امام ابو ثور نے اپنے نو تشکیل مسلک میں امام شافعیؒ کی قدیم وجدید آرا سے منتخب آرا جمع کی تھیں)۔
حافظ ابن عبد البر اندلسی (وفات:463ھ) نے ‘الانتقاء فی فضائل الثلاثۃ الأئمۃ الفقہاء’ میں لکھا ہے کہ ‘‘امام ابو ثورؒ نے متعدد تصانیف سپرد قرطاس کیں، جن میں وہ مختلف آرا ذکر کرکے اپنے نزدیک راجح رائے کے دلائل ذکر کرتے ہیں، معروف فقہا میں ان کا شمار ہوتا ہے’’، ابن عبد البرؒ آگے لکھتے ہیں: ‘‘اپنی تمام تصنیفات میں ان کا رجحان بالعموم امام شافعیؒ کی آرا کی جانب ہوتا ہے۔’’
مسلکِ شافعی سے اسی قربت کی وجہ سے امام ابو ثور ؒ کے مسلک میں کہیں حنفیت، کہیں شافعیت اور کہیں ایک مستقل مسلک کا رنگ نظر آتا ہے، اسی وجہ سے امام نوویؒ (وفات:676ھ) کو ‘تہذیب الاسماء واللغات’ میں اس وضاحت کی ضرورت محسوس ہوئی کہ: ‘‘گو کہ ہم نے امام ابو ثورؒ کا شمار امام شافعی کے شاگردوں، آپ سے کسبِ فیض کرنے والوں اور آپ کی کتابوں واقوال وآرا کو نقل کرنے والوں میں کیا ہے لیکن یہ حقیقت ذہن میں رہے کہ وہ ایک مستقل مسلک کے بانی ہیں، لہٰذا ان کی رائے کو مسلکِ شافعی کا ایک قول نہ سمجھا جائے۔’’ امام نوویؒ نے مزید لکھا ہے کہ علما کی مختلف آرا جمع کرنے والے مصنفین کی یہی رائے ہے، امام نوویؒ نے بہت سے مسائل میں امام ابو ثورؒ کے مسلک کو امام شافعیؒ کے مسلک سے باعتبارِ دلیل زیادہ مضبوط وقوی قرار دیا ہے۔
آپ کے عظیم تلامذہ میں یہ شخصیات بھی شامل ہیں: عبید اللہ بن محمد بن خلف بزارؒ، امام ابن جوزی نے‘المنتظم’ میںانھیں فقہِ ابو ثور کا حامل لکھا ہے، عظیم صوفی حضرت جنید بن محمد بغدادیؒ جو فقہ، تصوف اور حدیث کے بیک وقت امام تھے، اور جن کا خود کا بیان ہے کہ: میں بیس برس کی عمر میں ہی ابو ثورؒ کے حلقۂ درس میں فتوی دینے لگا تھا، حسن بن سفیان شیبانی نسائی ابن عساکر نے انھیں عظیم ادیب وفقیہ بتاتے ہوئے لکھا ہے کہ: ‘‘انھوں نے ادب کی تعلیم نضر بن شمیل سے حاصل کی، اور فقہ میں براہ راست ابو ثور سے کسبِ فیض کیا۔’’
چوں کہ امام ابو ثور کے یہاں امام ابو حنیفہؒ اور امام شافعیؒ کے اقوال کا منتخب مجموعہ ملتا ہے اس لیے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کا مسلک دو مختلف فقہی مناہج (اہل رأی واہل روایت کے مناہج) کے باہم ملنے کا نتیجہ ہے۔ افسوس کہ ان کا مسلک زیادہ عرصہ رائج نہیں رہ سکا، ‘سیر أعلام النبلاء’ میں امام ذہبی نے لکھا ہے کہ: ‘‘ 300ھ کے بعد امام ابو ثور کے متبعین ناپید ہوگئے، جغرافیائی طور پر دیکھیں تو ان کا مسلک ان کے وطن سے باہر ایک محدود علاقے میں پھیلا، اس لیے کہ ندیم نے ان کے فقہی ورثہ کی تصنیفات کے عناوین درج کرتے ہوئے لکھا ہے کہ: ‘‘آذربائیجان اور ارمینیہ کے اکثر لوگ ان کے مسلک کے مقلد تھے۔’’
ظاہری مسلک
اس مسلک کے بانی امام داود بن علی اصفہانیؒ تھے، اس مسلک کے حاملین نصوص کے ظاہر پر تمسک کے قائل ہیں، اور احکام شریعت کے اصولوں میں قیاس کو داخل کرنے کے سخت خلاف ہیں، خطیب بغدادی نے امام داود اصفہانی کو اس رجحان کا پہلا داعی کہا ہے، اسی رجحان کی وجہ سے یہ مسلک دیگر مسالک کے مقابلے ایک بالکل مختلف نوعیت رکھتا ہے، اسی سبب نے دیگر مسالک اور عام فقہی رجحان سے اس مسلک کا علمی رابطہ منقطع کردیا، اور مسلک کی علمی ساخت کو پیچیدہ بنادیا۔
‘سیر أعلام النبلاء’ میں ذہبی نے داود اصفہانی کے بارے میں لکھا ہے: ‘‘امام، بحر العلوم، حافظ حدیث، علامۂ زماں،… پیشوائے اہلِ ظاہر، … امام اسحاق بن راہویہؒ اور امام ابو ثور کلبیؒ سے تحصیلِ علم کی،… کہا جاتا ہے کہ ان کے حلقۂ درس میں چار سو شاگرد شرکت کرتے،… اپنے وقت میں بغداد کے سب سے بڑے عالم وامام تھے۔’’
امام داود نے فقہی ابواب پر منقسم متعدد کتابیں تصنیف کیں، اپنے پیچھے جلیل القدر شاگرد چھوڑے، جن میں سب سے نمایاں نام ان کے صاحبزادے امام ابوبکر محمد بن داود کا تھا، انھوں نے ایک کتاب ‘الانتصار من ابی جعفر’ تصنیف کی، ابو جعفر امام داود کی کنیت تھی، اس کتاب میں انھوں نے اپنے والد ماجد کی آرا پر ہونے والے اعتراضات کا جواب دیا۔ امام داود کے ایک شاگرد عبد اللہ بن مغلس ظاہری بھی تھے، خطیب بغدادی کے بقول: ‘‘مختلف علاقوں میں امام داود کا مسلک انھی کے ذریعے پھیلا۔’’
عالم اسلام کے مشرقی حصہ میں تو اس مسلک کے متبعین پائے جاتے تھے، لیکن مغرب میں اس کو اس وقت فروغ حاصل ہوا جب اندلس میں اس کو عروج ملا، اس مسلک کو اندلس پہنچانے والی پہلی شخصیت عبد اللہ بن قاسم القیسی (وفات:272ھ) کی تھی، جن کے سلسلے میں ابن حزم نے اپنے رسالہ ‘رسالۃ فی فضل الاندلس’ میں لکھا ہے کہ: ‘‘جب ہم عبد اللہ بن قاسم اور منذر بن سعید بلوطی (وفات:355ھ) کا تذکرہ کرتے ہیں تو پھر ان کا ہم سر صرف ابو الحسن بن مغلس [اور ان جیسے معدودے چند علما] کو ہی پاتے ہیں، ان لوگوں کو عبداللہ بن قاسم کے مانند امام داود ظاہری کی صحبت اور ان سے تلمذ کا شرف حاصل تھا۔’’
اندلس میں اس مسلک کی ممتاز شخصیت قاضی القضاۃ منذر البلوطی تھے، جنھوں نے اپنی بعض دستیاب کتابوں میں اندلس کے مالکی ماحول میں اپنے مسلک کا دفاع کیا، فقہ میں اپنے ظاہری رجحان کے باوجود عقائد میں وہ متکلمین کی آرا کی جانب میلان رکھتے تھے۔ ابو الحسن نباہی(وفات:792ھ) نے ‘المرقبۃ العلیا’میں ان کی بابت لکھا ہے: ‘‘وہ مختلف علوم میں درک رکھتے تھے، فقہ میں امام داود ظاہری کے رجحان کے حامل تھے، ان کے مسلک کو ہی بالعموم ترجیح دیتے، ان کی کتابیں جمع کرتے، ان کے اقوال سے استدلال کرتے، اور ان پر عمل کرتے، لیکن جب مجلس قضا میں ہوتے تو اپنے علاقے کے رائج مسلک مالکی مسلک سے عدول نہ کرتے اسی کے مطابق فیصلے کرتے۔’’
اندلس کے بعض علما مختصر مدت کے لیے ہی ظاہری رجحانات کے حامل اوراس مسلک پر عمل پیرا رہے، مثلا امام ذہبیؒ نے حافظ ابن عبد البرؒ (وفات:463ھ کے بارے میں لکھا ہے: ‘‘وہ آغاز میں ظاہری مسلک کے حامل تھے۔’’ حافظ موصوف مالکی مسلک میں اپنے مقامِ بلند کے باوجود بکثرت اپنے مسلک کے خلاف ظاہری یا شافعی آرا کو ترجیح دیتے، ذہبی کہتے ہیں: ‘‘وہ بسا اوقات شافعی مسلک کی آرا کی جانب میلان رکھتے۔’’ ابن حزم ابن عبد البر کے دوست اور حدیث میں ان کے استاذ تھے، لیکن پھر بھی انھوں نے ان کے ظاہری ہونے کا تذکرہ نہیں کیا ہے۔
اندلس میں ظاہری مسلک کے قدیم ائمہ میں آخری شخصیت امام ابن حزمؒ کی تھی، جن کو امام ذہبیؒ نے ‘علوم اسلامیہ کا سرتاج’ قرار دیا ہے، فقہ، اصول فقہ اور فِرق کے موضوع پر انھوں نے چند نہایت مفید اور مؤثر کتابیں تصنیف کیں، جیسے ‘المحلی بالآثار’، الاحکام لأصول الاحکام’ اور ‘الفصل فی الملل والنحل’۔
مغرب واندلس میں موحدین کے عہد حکومت کے کچھ عرصہ میں ظاہری مسلک کا عروج رہا، بالخصوص منصور یعقوب موحدی (وفات:595ھ) کے زمانے میں، جس کے سلسلے میں مقری نے ‘نفح الطیب’ میں لکھا ہے کہ وہ ابن حزمؒ کا بہت قائل تھا،( ابن حزم سے اس کی عقیدت کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ)ایک دن وہ ان کی قبر پر کھڑا ہوا تھا، تھوڑی دیر کے بعد بولا: ‘‘تمام علما ابن حزم کے محتاج ہیں۔’’
ظاہریہ کا یہ مسلک اگرچہ زیادہ عام ورائج نہ ہوسکا لیکن پھر بھی ایک طویل زمانہ تک رہا، یہاں تک کہ ابن تیمیہؒ نے آٹھویں صدی ہجری کے نصف میں لکھا کہ: ‘‘ان کا مسلک ابھی بھی باقی ہے۔’’
پھر ذہبی نے بھی ‘سیر اعلام النبلاء’ میں اس مسلک کے اپنے زمانے میں وجود کی خبر دی: ‘‘آج دنیا میں پانچ مسالک ہیں، جن میں سے پانچواں داودیوں کا(امام داود کے متبعین کاظاہری مسلک) ہے، لیکن وہ ساتھ میں یہ بھی لکھتے ہیں کہ ان کی تعداد اب بہت کم ہے، ابن خلدون (وفات:808ھ) نے اس صدی کے آخر میں ظاہریہ کا حال بیان کرتے ہوئے لکھا ہے: ‘‘پھر اہل ظاہر کا مسلک اپنے ائمہ کے رخصت ہوجانے سے ختم ہوگیا۔’’
امام طبری کا مسلک
امام محمد بن جریر طبریؒ زمانی اعتبار سے وہ آخری امام تھے جنھوں نے ایک مستقل مسلک کی داغ بیل ڈالی، اپنے فقہی ورثہ کو انھوں نے اپنی غیر مکمل کتاب ‘تہذیب الآثار’ میں درج کیا تھا، جس کو خطیب بغدادی نے اپنے نہج کی بے نظیر کتاب قرار دیا ہے۔
فتنۂ خلق قرآن نے بغداد کی صورت حال تبدیل کرکے رکھ دی تھی، اب بغداد بدل چکا تھا، امام طبریؒ اور ظاہریہ کے درمیان پائے جانے والے اختلافات نے انھیں ایک اور طرح کی آزمائش میں مبتلا کردیا تھا، امام داود ظاہری کے صاحبزادے ابوبکر محمد بن داود ظاہریؒ نے ان پر بعض صفات الہیہ کی تاویل کی تہمت لگائی، عوام کے درمیان یہ افواہ بھی پھیل گئی کہ طبری پاؤں پر مسح کو جائز قرار دیتے ہیں، جس کی وجہ سے عوام ان پر شیعیت کی تہمت لگانے لگے۔
امام طبریؒ کی کتابوں میں کہیں بھی صفات میں تاویل نہیں پائی جاتی، بلکہ اس کے برعکس امام ذہبیؒ کہتے ہیں: ‘‘امام موصوف کی تفسیر صفات کی آیات میں سلف کے ایسے اقوال سے بھری ہوئی ہے جن میں صفات کی نفی یا تاویل نہیں ان کا اثبات کیا گیا ہے، اور یہ بتایا گیا ہے کہ یہ صفات مخلوق کی صفات جیسی نہیں ہیں’’، امام ذہبیؒ مزید لکھتے ہیں: ‘‘ان پر قدرے تشیع کا الزام لگایا گیا، لیکن ہمیں تو ان کے یہاں صرف خیر ہی ملتا ہے، بعض حضرات ان کی جانب پیر پر مسح کیے جانے کا قول منسوب کرتے ہیں، لیکن ان کی کتابوں میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔’’
افواہوں اور بدگمانیوں کی اسی فضا میں حنابلہ نے لوگوں کو طبری کی خدمت میں حاضر ہونے اور ان سے احادیث سننے سے روکا، جس پر بقول خطیب بغدادیؒ عظیم محدث ابن خزیمہؒ (وفات:311ھ) نے ان پر تنقید کی اور کہا: ‘‘اس روئے زمین پر میں نے محمد بن جریر (طبری) سے بڑا عالم نہیں دیکھا، لیکن حنابلہ نے ان پر ظلم کیا۔’’
امام طبریؒ کے بہت سے شاگردوں کا تذکرہ ندیم نے کیا ہے، مثلا: ‘المدخل الیٰ مذہب الطبری’ اور ‘الاجماع فی الفقہ علی مذہب ابی جعفر’ کے مصنف احمد بن یحییٰ متکلم (وفات:327ھ)، اس مسلک کے عظیم نمائندے، معروف قاضی، صوفی وادیب معافیٰ بن زکریا نہروانی جریری (وفات:390ھ)جو علم کلام سے لے کر علم نحو تک متعدد علوم کے ماہر تھے، اور ندیم کے بقول ان کی تصنیفات کی تعداد پچاس سے متجاوز ہے، جن میں ‘شرح کتاب الخفیف للطبری’ اور ‘الجلیس الصالح’ شامل ہیں، مؤخر الذکر ان کی مشہور ترین کتاب ہے۔
امام طبریؒ کا مسلک کن کن خطوں وعلاقوں میں رواج پایا یہ تو ہم حتمی طور پر نہیں بتاسکتے، لیکن مؤرخ تاج الدین بن سباعی (وفات:674ھ) نے اس مسلک کے قابل لحاظ حد تک پھیلنے کی بات کہی ہے، سباعی ‘الدر الثمین فی اسماء المصنفین’ میں لکھتے ہیں: ‘‘طبریؒ کا فقہ میں ایک مستقل مسلک تھا، ان کا شمار ممتاز ترین ائمہ میں ہوتا ہے، ان کے علم کو بہت فروغ ملا۔’’
امام طبریؒ کا مسلک ان کی وفات کے بعد زیادہ عرصہ نہیں چلا، ذہبیؒ نے ‘سیر اعلام النبلاء’ میں لکھا ہے کہ ان کا مسلک چوتھی صدی ہجری کے بعد تک رہا۔ اس طرح مسلکی تعصب نے مسالک اربعہ کے علاوہ پائے جانے والے آخری مسلک کو فروغ نہ پانے دیا، اسے معدوم کردیا اور امت ایک ممتاز اصولی وفقہی مکتب فکر سے محروم ہوگئی۔
(جاری)
مشمولہ: شمارہ جولائی 2021