مسلم اور مومن کا نشانِ سفر اپنی یادگاریں چھوڑ جاتا ہے۔ مسلم اور وہ بھی محمد مسلم جو دنیا سے قلندرانہ اور مومنانہ زندگی گزار کر رخصت ہوا ہو ،جو دوست تو دوست دشمن کو بھی گلے لگاتا ہو، دشمن سے بھی ایسی دوستی کرتا ہو جو دوستی میں بدل جائے، دوستوں کو ایسا دوست اور بھائی سمجھ کر ملتا ہو کہ لوگ بار بار ملنے کی آرزو کریں ؎
ایسا ملا کرو کہ کریں لوگ آرزو
ایسا رہا کرو کہ زمانہ مثال دے
نہ بڑے پن کا کوئی احساس، نہ حسب و نسب کا کوئی خیال، علم و نظر ، بحث و نظر اور نہ خبر و نظر کی تحریر پر کوئی غرور اور گھمنڈ ، قائدوں کا قائد مگر سادگی اور فقیری ایسی کہ جوتے پھٹے ہوئے، شیروانی پرانی، ٹوپی نشانِ زدہ، مگر باتیں ایسی میٹھی اور ملائم کہ مومن کی قرآنی صفت کا شاہکار ہو ؎
نرم دم گفتگو گرم دم جستجو
علامہ اقبال نے ایسے ہی جہاں بینوں کے لئے کہا ہے کہ ؎
جہانبانی سے ہے دشوار تر کارِ جہاں بینی
جگر خوں ہو تو چشم دل میں ہوتی ہے نظر پیدا!
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پر روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا!
اسی نظر کی دین کہئے جو دعوت کے خبر و نظر میں نظر آتا تھاوہ سوز و گداز، وہ شبنم جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک مگر معرکۂ حق و باطل ہو تو وہ طوفان جس سے دریاؤں کے دل دہل جائیں۔
مسز اندرا گاندھی کا زمانہ ہے، لاکھوں پناہ گزینوں کا قافلہ مشرقی پاکستان چھوڑ کر ہندستان کی سرحد میں داخل ہوگیاہے۔ اردو اخبارات کے ۱۵۰ ایڈیٹروں کو پناہ گزینوں کا حال زار دیکھنے کے لئے وزیر اعظم مسز اندرا گاندھی روانہ کرنے والی ہیں۔ اپنی تقریر کے بعد جرأت مردانہ کا ثبوت دیتے ہوئے پوچھا کہ کوئی ہے جو کچھ کہنا چاہتا ہے۔ یہی مرد قلندر جسے دنیا محمد مسلم کے نام سے جانتی ہے اپنی کرسی سے اٹھا اور نہایت بیباکی سے مگر مومنانہ انداز میں لب کشائی کی:
’’جی ہاں میں کچھ کہنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’کہئے۔‘‘مسز گاندھی نے حوصلہ افزائی کی۔
’’میں دونوں ملکوں کے حق میں کہنا چاہتا ہوں کہ ایک دوسرے کی دشمنی کسی فریق کو راس نہیںآئے گی، جو مزا دوستی میں ہے وہ دشمنی میں نہیں کیوں نہ ہم دشمنی کے بجائے دوستی کے لئے ہاتھ بڑھائیں، یہی تمنا اور آرزو ہمارے پرکھوں کی تھی وہ جانتے تھے کہ پاکستان کی شکست و ریخت سے ہندستان کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا بلکہ نقصان ہوگا۔‘‘
مسز گاندھی کی توقع کے خلاف یہ آوازبلند ہوئی مگر ابھی وہ کچھ کہنا چاہتی تھیں کہ سنگم کے ایڈیٹر غلام سرور نے صاحب خبر و نظر کی بر ملا تائید کی اور مسز گاندھی سے کہا:
’’یہ حق و صداقت کی آواز ہے اس پر ملک کے حکمرانوں کو غور کرنا چاہئے۔‘‘
باقی مدیران اردو کے منہ میں تالا لگاہوا تھا۔ شمیم احمد شمیم مدیر آئینہ کشمیر نے مرد قلندر کوکلکتہ میں سمجھانے کی کوشش کرتے ہوئے کہاکہ:
’’مولانا! آپ لوگ قومی دھارے کو نظر انداز کرتے ہیں۔ آج پورے ملک کی رائے کچھ اور ہے اور آپ کی دوکی رایوں سے ملک کا کیا بنتا بگڑتا ہے ؟ ذرا سوچئے۔‘‘
جواب میں مرد قلندر نے کہا: ’’ہم لوگ ایسے درخت کے پتوں کی طرح نہیں ہیں جو اپنی ڈالی سے ٹوٹ گیا ہو اور اپنے آپ کو سرد گرم ہواؤں کے سپرد کردیا ہو، ہم اپنی جڑوں سے پیوستہ ہیں۔‘‘
شمیم صاحب کی آواز بند ہوگئی وہ بغلیں جھانکنے لگے۔
پھر شمیم صاحب کی آنکھیں ملانے کی جرأت نہیں ہوئی۔
اس بندۂ خدانے تحریک خاکسار سے اپنی سماجی زندگی کا آغاز کیا ، پھر اتحاد ملت اور تحریک اسلامی کی راہ پر سوچ سمجھ کر گامزن ہوگیا اور زندگی بھر اپنے وعدے کو دل و جان سے پورا کرتا رہا اور جاتے جاتے اپنے ایسے نقش پا کو چھوڑ گیا کہ جو انمٹ ہے۔ آج بھی لوگ اس راستہ کے مسافر ہیں مگر اس قافلہ حجاز میں وہ مسلم نہیں جسے محمد مسلم کہا جاتا ہے۔
مسلم مجلس مشا ورت کے روح رواں
۸،۹؍ اگست ۱۹۶۴ء کو ایک کل ہند مسلم مشاورتی اجتماع جو دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ میں منعقد ہوا اور جس میں مسلم مجلس مشاورت کی بنیاد پڑی اور جس کی وجہ سے ملک بھر میں اور مسلمانوں کے اندر ایک نیا حوصلہ اور ولولہ پیدا ہوا اور مسلمانوں کی مایوسی، محکومی، مظلومی، مجبوری اور بے کسی میں کمی آئی اور اس مجلس کے وجود سے مسلم جماعتوں میں بھی ایک نئی بیداری پیدا ہوئی وہ نئی بیداری یہ تھی کہ مسلمانوں کو اپنی اخلاقی قوت کے ساتھ خیر امت کی حیثیت سے ابھرنا چاہئے اور کلیدی کردارادا کرنا چاہئے۔ بعد میں مسلم مجلس کا بھی وجود عمل میں آیاجو مشاورت کے ذریعے ہی پروان چڑھی۔ جس کا کردار زیادہ تر سیاسی تھا ، اخلاقی کم لیکن اس جماعت میں بھی اُترپردیش کی حد تک اپنے وجود کا لوہا منوایا اور ڈاکٹر محمد عبد الجلیل فریدی مسلمانوں کے ایک بڑے لیڈر کی حیثیت سے ابھرے اگرچہ وہ پہلے سوسلشٹ نقطہ نظر رکھتے تھے مگر مشاورت میں ان کو مسلمانوں کے دکھ درد اور مسائل میں شریک ہونے پر مجبور کیا اور وہ برسوں اتر پردیش میں مسلمانوں کی سیاسی قوت کے لئے پیش پیش تھے۔ تقریباً ان کے وقت میں ۱۴، ۱۵ ؍ ایم ایل اے مسلم مجلس کے یوپی اسمبلی میں ہوا کرتے تھے۔ بعد میں مسلم مجلس کے صدرذوالفقار اللہ صاحب چودھری چرن سنگھ کی حکومت میں نائب وزیر خزانہ مقرر کئے گئے۔ اس طرح مسلم مجلس نے نہ صرف یوپی بلکہ مرکز تک اپنا وجود ثابت کیا۔اور جہاں تک عبد الجلیل فریدی صاحب کا تعلق ہے انہوں نے پورے ملک میں اپنی قیادت اور سیادت کا پرچم لہرایا۔ موصوف ملا جان محمد اور ڈاکٹر مقبول احمد سے تعلق رکھتے تھے۔ کلکتہ بھی تشریف لاتے تھے کلکتے کے کئی جلسوں کو خطاب بھی کیا تھا۔ مسلم مجلس مشاورت کے ارکان کی کوششوں اور ان کے حوصلوں سے ہی ایک نئی جماعت مسلم پرسنل لاء بورڈ کے نام سے تشکیل پائی۔ جو آج تک سرگرم عمل ہے ۔ شریعت کے تحفظ اور مسلمانوں کے دیگر مسائل مثلاً بابری مسجد وغیرہ کے لئے بورڈ کی جو کارکردگی ہے وہ قابل قدر اور قابل تحسین ہے۔ مسلم مجلس مشاورت اپنے وجود سے مسلمانوں کوآج تک جو حوصلہ افزائی کررہی ہے اس کی بنیاد ڈالنے میں جس شخصیت کا مرکزی کردار ہے اس شخصیت کا نام محمد مسلم ہے۔ یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ مسلمانوں کے بڑے سے بڑے لیڈروں کو سرجوڑ کر بیٹھنے میں کس شخصیت نے ایسے وقت میں کام کیا جب مسلمان بہت پست حوصلہ اور مایوس تھے اور یہ بھی بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ جب مسلمان لیڈروں کے مابین اختلافات میں شدت پیدا ہوجاتی تھی تووہ کون سی شخصیت تھی جو ان کی شدت کو کم کرنے کی حتی الامکان کوشش کرتی اور ایک نقطے پر متحد اور متفق کرنے میں کامیاب ہوتی۔وہ یہی صاحب دعوت و صاحب خبر و نظر ہوتے تھے۔
مولانا ابو الحسن ندوی نے لکھا ہے کہ :
’’جب ان کے اور مشاورت کے صدر اول ڈاکٹر سید محمود کے اندر دوری پید اہوئی تو اس دوری کو کم کرنے کی مولانا مسلم صاحب نے کامیاب کوشش کی ۔ڈاکٹر سید محمود صاحب زندگی کے آخری ایام میں زیر علاج تھے تو مسلم صاحب نے بار بار مجھے ترغیب دلائی کہ میں دلی جاکر ان کی عیادت کا فریضہ انجام دوں۔ میرے دل میں بھی ڈاکٹر صاحب کے لئے زبردست عقیدت اور محبت تھی ، میں بھی جانا چاہتا تھا لیکن بعض چیزیں مانع تھیں جس کی وجہ سے جا نہیں پاتا تھا لیکن مسلم صاحب کی مہربانی ہے کہ ان کے بار بار یاد دلانے سے بالآخر میری آرزو اور مسلم صاحب کی کوشش ۱۶؍اگست ۱۹۷۱ء کو پوری ہوئی اور میں ڈاکٹر صاحب کی خدمت میں پہنچا۔ ‘‘
مولانا علی میاں نے مشاورت کے بارے میں لکھا ہے کہ
’’ جب مجلس میں دو بنیادی خیالات کام کررہے تھے ایک یہ مسلم مجلس مشاورت اس اخلاقی قیادت کے خلاء کو پر کرنے کے لئے وجود میں آئی ہے جو عرصہ سے ہندستان کی سیاست اور ہندو مسلم تعلقات کے میدان میں پایا جاتاتھا اس کو خیر امت اور خادم انسانیت بن کر میدان میں آنا چاہئے اور ملک کی سچی حب الوطنی انسان دوستی، خلوص، دیانت اور محبت کا پیغام دینا چاہئے یہی ڈاکٹر سید محمود صاحب کے دل کی آرزو تھی، اور اسی سے ان کی حقیقی دلچسپی تھی۔ دوسرا خیال یہ تھا کہ مسلمانوں میں قیادت کا ایک خلاء پایاجاتا ہے، ایسی قیادت جو ان کے مسائل کو جرأت اور قابلیت کے ساتھ پیش کرسکے، اورجوان کے مقدمے کی قوت و اعتماد کے ساتھ وکالت کرے، مسلمانوں کا انتشار اس سے دور ہو، اور اکثریت سے دانستہ یا نادانستہ پہونچنے والے نقصانات کا مقابلہ کیا جاسکے، یہ مجلس کے اکثر ارکان کی فکر تھی، اور مجھے اس کے اعتراف میں کوئی تامل نہیں کہ مجلس مشاورت کے کامیاب دوروں نے مجھے اس خیال سے بہت متاثر کیا اور مجھے ایسا نظر آنے لگا کہ کوئی ایک فرد تو اس خلاء کو پر نہیں کرسکے گا، اجتماعی قیادت (Leadership) اس کو بڑی حد تک پر کرسکتی ہے۔ ‘‘
آگے مولانا علی میاں لکھتے ہیں کہ
’’غرض یہ دو طریقۂ فکر تھے، اور یہ کھل کر اس وقت سامنے آگئے جب ۱۹۶۷ء کے انتخابات کا معرکہ سر پر آگیا، ایک فریق جس میں ہمارے دوست ڈاکٹر فریدی پیش پیش تھے ، میں اور مولانا منظور صاحب اور مجلس کے اکثر ارکان اس کے مؤید تھے، یہ مطالبہ کررہا تھا کہ مجلس انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دے، اور خود ڈاکٹر صاحب کے الفاظ میں ’’ایک بار ثابت کردے کہ مسلمانوں نے کانگریس کے لئے خط غلامی نہیں لکھ دیا ہے‘‘ بڑی کشمکش کے بعد یہ تجویز منظور ہوئی، لیکن تجویز کا متن بڑے سلیقہ اورقابلیت کے ساتھ تیار کیا گیا، جس میں ہمارے دوست مولوی محمد مسلم صاحب ایڈیٹر دعوت صحافتی لیاقت اور توازن دماغی قوت کا بہت دخل تھا، اور جس کا رنگ اور اپیل سیاسی سے زیادہ اخلاقی اصول تھی۔(پرانے چراغ ، جلد :اول)
مسلم پرسنل لاء بورڈ اور آل انڈیا اردو ایڈیٹرس کانفرنس میں بھی مسلم صاحب ایک دوسرے کو ملانے، متحد کرنے اور دلوں کو جوڑنے کا کردار ادا کیا کرتے تھے۔
جماعت اسلامی ہند
مولانا مسلم صاحب جماعت اسلامی کے کسی عہدے یا منصب پر فائز نہیں تھے،مرکزی مجلس شوریٰ اور مجلس نمائندگان کے رکن تھے، مجلس شوریٰ جماعت کی فیصلہ کرنے والی باڈی ہے جبکہ مجلس نمائندگان انتخابی باڈی(Electrol Body) ہے۔ مولانا مسلم صاحب دونوں مجلسوں میں اہم کردار ادا کیا کرتے تھے۔ انتخابی سیاست کے موضوع پر جماعت کے اندر اور باہر کشمکش پائی جاتی تھی مسلم صاحب انتخابی سیاست کے حامی اور مؤید تھے۔ لیکن جو لوگ انتخابی سیاست کو پسند نہیںکرتے تھے ان سے ان کے روابط میں کبھی بھی کوئی فرق پیدا نہیں ہوا۔ مولانا انعام الرحمن صاحب بھوپال کے تھے اور مسلم صاحب بھی بھوپال سے تعلق رکھتے تھے۔ دونوں انتخابی سیاست کے بارے میں بالکل مختلف رائے رکھتے تھے لیکن دونوں کے دوستی اور تعلق میں کبھی کوئی فرق نہیں آیا۔ دونوں ایک دوسرےکو بڑی قدرمنزلت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ مسلم صاحب کی یہی مومنانہ اور حکیمانہ صفت تھی کہ اپنے مخالفوں کا دل جیت لیتے تھے اور اپنے دلائل سے قائل کرنے میں کامیاب ہوجاتے تھے۔ بہت سارے ذہین لوگ جو جماعت کے اندر انتخابی سیاست سے چڑھتے اور دور رہتے تھے ان کو مسلم صاحب اپنی نگہ بلندی ، سخن دل نوازی اور جان پرسوزی سے بدلنے میں کامیاب ہوجاتے تھے۔
جماعت کے اندر مسلم صاحب سیاسی شعور پیدا کرنے میں سب سے آگے کی صفوں میں تھے بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ امام تھے اور اپنی زندگی میں ہی وہ فیصلہ کرالینا چاہتے تھے کہ جماعت سلطنت کے میدان میں دخیل اور قوت پذیر ہو اس میںتو اپنی زندگی میں کامیاب ہوگئے تھے کہ جماعت اسلامی ہندستان کے تقریباً سو منتخب پنچایتوں میں حصہ لے۔ جماعت کے اندر ووٹ دینے کی جو پابندی تھی اسے ختم کرنے میں بھی ان کو کامیابی حاصل ہوگئی تھی لیکن ایک سیاسی جماعت کو قائم کرنے میں پیش قدمی (Initiative) کرے اور اس کی حمایت اورتائید کا اعلان کرے یہ چیز ان کی زندگی میں نہیں ہوئی لیکن سابق امیر جماعت ڈاکٹر عبد الحق مرحوم نے اپنی امارت میں مسلم صاحب کا یہ خواب شرمندۂ تعبیر کرنے میں ساری کوششیں اور صلاحتیں جھونک دیں جو ان کی امارت کے بعد مولانا جلال الدین عمری صاحب نے اپنی قیادت اور امارت میں جس طرح اس مسئلے کو سلجھایا اور سب کو ساتھ لیکر دور رس ایک سیاسی فیصلہ کرایا وہ تحریکِ اسلامی ہند کی تاریخ کا ایک سنہرا باب کہا جائیگا۔ مولانا مسلم صاحب اپنی زندگی کے آخری دنوں میں یہ کہا کرتے تھے کہChanger and no changerکواختلاف رکھتے ہوئے ایک دوسرے کو تجربہ کرنے کا اور کام کرنے کا موقع دینا چاہئے۔ غالباً اسی روشنی میں جماعت نے ملت ، ملک اور تحریک کے مفاد میں فیصلہ کیاہے۔ تاریخ تحریک اسلامی میں اس فیصلے کے لئے مولانا محمد مسلم، ڈاکٹر عبد الحق اور مولانا سید جلال الدین عمری کے نام سنہرے حرفوں سے لکھے جائینگے۔ مولانا سید جلال الدین عمری صاحب کی قیادت کو تحریک اسلامی میں ایک خاص جگہ دی جائیگی جو عرصہ دراز تک ناقابل فراموش ہوگی۔
دوسری چیز جو مولانا محمد مسلم صاحب سوچتے تھے وہ یہ تھی کہ
جماعت خدمت خلق او ر مرحمت و مواسات کا ایک ہمہ گیر پروگرام اور منصوبہ بنائے اور مسلمانوں کی تمام جماعتوں میں خدمت خلق کی اسپرٹ پیدا کرے۔ مولانا مسلم صاحب کے زمانے میں جماعت کا شعبۂ خدمت خلق تھا لیکن خدمت خلق کا منظم کوئی پروگرام اور منصوبہ نہیں ہوپاتا تھا۔ ڈاکٹر عبد الحق انصاری صاحب نے اپنے زمانے میں ’’ویژن 16 ‘‘کے نام سے خدمت خلق کا ایک ہمہ گیر پروگرام اور منصوبہ بنایا۔ اس وقت پورے ملک میں صدیق حسن صاحب جو اس ویژن کے روح رواں ہیں اور جن کو ڈاکٹر صاحب اپنی زندگی میں مرکز لائے تھے ،بیماری اور کمزوری کے باوجود سرگرم عمل ہیں اور جو پورے ملک میں بڑے پیمانے پر جاری اور ساری جس کے دور رس اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہ خاکہ بھی مسلم صاحب کا پیش کیا گیا تھاجو ان کی زندگی کے بعد جماعت نے رنگ بھرا۔ مسلم صاحب اپنے انہی کاموں اور کارناموں کی وجہ سے تحریک اسلامی اور ملت میں زندۂ جاوید رہیں گے۔
فقیرانہ زندگی
مسلم صاحب نہ خود نمائی کا جذبہ رکھتے تھے اور نہ خود پرستی کاکوئی رمق ان کی شخصیت میں پائی جاتی تھی۔ وہ فقیرانہ لباس کے ساتھ فقیرانہ زندگی گزارتے تھے۔ پروفیسر محمد سلیم صاحب (پاکستان) ماہر تعلیم نے اپنے ایک مضمون میں ان کا ایک واقعہ لکھا ہے جو پڑھنے کے لائق ہے۔
’’1978ء میں سعودی عرب کے شاہ خالد کی دعوت پر مولانا مسلم عرب گئے، واپسی میں پاکستان بھی آئے اور عزیزوں سے ملے۔ وہی ان کا پھٹا جوتا اور پیوند لگے کپڑے تھے۔ یہاں ان کے عزیز ماشاء اللہ خوشحال آسودہ حال تھے۔ انہوں نے کوشش کی کہ یہ نئے کپڑے پہن لیں مگر وہ اس کے لئے تیار نہیں ہوئے۔ ’’نیا جوتا ہی پہن لیں۔‘‘ اس کے لئے بھی تیار نہیں ہوئے اور کہا ’میرے جوتے پر شاہ خالد کو تو کوئی اعتراض نہیں تھا آپ کو کیا اعتراض ہے۔‘ ایک عزیز نے ان کا جوتا غائب کردیا۔ جب کہیں ملا ہی نہیں تو پھر مجبوراً دوسرا جوتا پہننا پڑا۔ ‘‘
پروفیسر ڈاکٹر محمد سلیم نے ان کی عجیب و غریب شادی کا بھی قصہ بڑے دلچسپ انداز میں پیش کیا ہے جس سے مسلم صاحب کی سادگی جھلکتی ہے:
’’مسلم صاحب کی شادی بھی بڑے ڈرامائی انداز میں ہوئی۔ خاندان کی بچیوں کی ایک تقریب تھی جس میں شرکت کرنے کے لئے قریبی مقامات سے ایک رشتہ دار بچی بھی آئی ہوئی تھی۔ اتفاق سے وہاں مسلم صاحب بھی آنکلے۔ خاکی لباس غبار آلود اور بیلچہ کاندھے پر۔ اس قصباتی لڑکی کے لئے یہ لباس اجنبی تھا۔ اس نے کہا کہ یہ کون شخص ہے میلا کچیلا۔ اور پھر اپنی ہمجولیوں میں مذاقاً کہا۔ ایسے گندے آدمی سے کون شادی کرے گا۔ قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ اس کے والد نے دوسری شادی کرلی تھی۔ نئی ماں لڑکی کو اچھی طرح نہیں رکھتی تھی۔ خاندان کے بزرگ جب جمع ہوئے تو انہوں نے ان کے والد پر دباؤ ڈالا کہ مسئلہ کا حل یہ ہے کہ لڑکی کی شادی کردو۔ اس کی عمر اس وقت 14 سال سے زیادہ نہ تھی۔ آناً فاناًمیں بزرگوں نے مسلم صاحب کو پکڑا اور اس لڑکی سے شادی کردی۔‘‘
مسلم صاحب سے راقم کا دیرینہ تعلق تھا وہ جب کلکتہ آتے تو میرے غربت میں بھی تشریف لاتے۔ ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ جب وہ مولوی لین کے میرے مکان میں تشریف لائے تو میرے دو بیٹے فاروق اور صدیق بہت چھوٹے چھوٹے تھے۔ غالباً ایک کی عمر۵ سال اور دوسرے کی ۸ کی رہی ہوگی۔جب دونوں کوڈنڈوںسے کھیلتے ہوئے دیکھا تو انہیں بڑی خوشی اور مسرت ہوئی ۔فوراًکہاکہ بچے ہوں تو ایسے ہوں جو بہادر ہوں اور حوصلہ مند ہوں۔ مسلم صاحب نے دونوں بچوں کو اپنی دعاؤں سے نوازا۔
۱۹۷۲ء میں مسلم صاحب اور مولانا محمد یوسف صاحب ایک خاص منصوبے کے ساتھ کلکتہ تشریف لائے ۔ دونوں حضرات تقریباً ۱۵ روز کلکتے میں مقیم رہے۔ دونوں حضرات کا مشن تھا ملت کی طرف سے بنگلہ زبان میں ایک ہفتہ وار اخبار نکالا جائے اور بنگلہ زبان میں ترجمہ اور تالیف کے لئے ایک ٹرسٹ قائم کیا جائے دونوں کی رات دن کی کوششوں سے ہفتہ وار میزان کا اجراء عمل میں آیا اور اسلامی بنگلہ پرکاشنی ٹرسٹ قائم کیا گیا جس سے ترجمے اور تالیف کا کام شروع ہوا۔اسی موقع پر راقم ہفتہ وارتحریک ملت کا اقبال نمبر نکالنے کا فیصلہ کیا تھا۔ مسلم صاحب سے جب میں نے گزارش کی کہ علامہ اقبال پر اپنے خیالات راقم کو لکھوادیں تو مسلم صاحب فوراً تیار ہوگئے اور قلم لے کر لکھنے بیٹھ گئے۔
مرد مومن کی تلاش
’’اقبال کو جس مرد مومن کی تلاس تھی اس کی ضرورت واہمیت برابر بڑھتی چلی جارہی ہے۔ ضرورت اب ان کے اشعار کو پڑھنے اور ان پر سردھننے سے زیادہ اس کی ہے کہ خودی سے آشنا مردانِ کار ہرہر ملک اور ہر ہر شہر اور بستی میں پیدا ہوں اور اپنی بصیرت و ہمت سے زمانے کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لیں۔زمانہ اگرچہ کچھ گروہوں کو پامال کرتا رہتا ہے تو اسی کے ساتھ وہ کچھ گروہوں کے اشارے پر حرکت کرنے کے لئے بھی آمادہ رہتا ہے اقبال کا حقیقی اور مطلوبہ مرد مومن وہی ہے جو زمانے کے بے چین اور متحرک گھوڑے کی پیٹھ پر سواری کرے نہ کہ اپنے آپ کو بیکسی کے عالم میں اس کے ٹاپوں کے آگے روندے جانے کے لئے ڈال دے‘‘۔(اقبال نمبر : تحریک ملت کلکتہ: ۱۹۷۲ء)
ایک بد نام زمانہ شخص سے ملاقات
ایک بار مسلم صاحب کلکتہ تشریف لائے اور سابق امیر حلقہ جماعت اسلامی مغربی بنگال مولانا عبد الفتاح صاحب سے میری موجودگی میں کہا کہ کلکتے کے ایک ایسے آدمی سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں جو بدنامِ زمانہ ہو اور شر پھیلا رہا ہو۔ یہ سننے کے بعد میری تجویز کے مطابق ایک ایسے شخص کے پاس مسلم صاحب اور مولانا عبد الفتاح صاحب گئے جو اس وقت نشے کے عالم میں تھا اور پورے شہر میں خاص طور سے مسلمانوں کے محلے میں جوا کھلانے میں بدنام تھا۔ مسلمانوں کے بے شمار گھر اس کی وجہ سے تباہ و برباد ہورہے تھے مہندی بگان کے ایک چھوٹے سے میدان کے سامنے ایک چھوٹے سے کمرے میں وہ شخص بیٹھا ہوا تھا ۔ یہ دونوں حضرات میرے ساتھ ٹوپی ،شیروانی اور پائجامہ میں ملبوس جو دور سے اور قریب سے مولانا ظاہر ہوتے اس کے کمرے میں داخل ہوئے وہ شخص اچنبھا ضرور ہوا لیکن سوچا کہ مولوی مولانا ہونگے جو مسجد یا مدرسے کے لئے چندہ لینے آئے ہوں گے۔ مسلم صاحب نے بیٹھتے ہی اس شخص کو مخاطب کیا کہ
’’میں دہلی سے آیا ہوں اور کلکتے میں ایک خاص کام اور منصوبے کی تکمیل میں لگا ہوں انشاء اللہ تعالیٰ وہ کام آج نہیں کل پورا ہوجائیگا۔ میں آپ کے یہاں نہ کسی دنیاوی غرض سے آیا ہوں اور نہ چندہ لینے آیا ہوں صرف آپ سے ملاقات کا خواہاں تھا ملاقات کے لئے آیا ہوں۔ ‘‘
یہ سننا تھا کہ وہ شخص ہوش میں آگیا اور اس کو سمجھ میں آیا کہ یہ شخص وہ نہیں ہے جسے میں سمجھتا تھا پھر تو وہ چشم براہ ہوگیا اور عزت و تکریم کرنے کے لئے مستعیدہوگیا۔ فورا اپنے ایک ملازم کو بلایا اور چائے لانے کے لئے کہا۔ جب چائے کے آنے کی بات سامنے آئی تومسلم صاحب کشمکش میں مبتلا ہوگئے اور انہوں نے صاف کہا کہ ہم لوگ چائے پی کر آئے ہیں ، چائے پینے کی زیادہ چاہت نہیں ہے، براہ کرم آپ چائے نہ منگوائیں ہم لوگ چائے نہیں پیئں گے (اس کی خاص وجہ یہ تھی کہ حرام پیسے کی چائے تحریک اسلامی کے یہ علمبرداران کیسے حلق سے اتاریں گے۔) مسلم صاحب نے پھر اس شخص سے مخاطب ہوکر کہا کہ
’آپ کا کاروبار کیا ہے؟ ‘
اس شخص نے جواب دیا کہ’’ بتانے کے لائق نہیں ہے۔‘‘
مسلم صاحب نے اس کے شر کے کاموں کو نظر اندا ز کرتے ہوئے کہا کہ ’دنیا میں ہر آنے والوں کو اللہ کے پاس جانا ہوگا اور اس کے سامنے حاضر ہوکر اپنے کاموں کا حساب کتاب دینا ہوگا کیوں نہ ہم جیسے انسان خیر ہی کے کاموں میں اپنی پوری زندگی گزاردیںتاکہ اللہ کے دربار میں سرخ روئی حاصل ہو۔‘‘
اس شخص نے وعدہ کیا کہ وہ مسلم صاحب کی باتوں پر پورا اترنے کی کوشش کریگا۔
پھر مسلم صاحب میری طرف مخاطب ہوئے اور کہنے لگے کہ ان کے کمرے میں درس قرآن کا سلسلہ شروع کرنا چاہئے۔
اس شخص نے کہا: ’’ضرور، ضرور۔‘‘
میں نے پوچھا کہ کب سے؟
اس نے جواب دیا: ’’کل سے۔‘‘
جب میں دوسرے روز جماعت کے کارکنان کے ساتھ اس کے کمرے میں قرآن شریف لے کر داخل ہوا تو اس وقت بھی وہ نشے کے عالم تھا ۔
اس نے کہا کہ اس کمرے میں قرآن پڑھنا یا درس دینا صحیح نہیں ہوگا ۔ کمرے کے سامنے جو فٹ پاتھ ہے وہاں چٹائی بچھوادیتے ہیں آپ لوگ وہاں قرآن پڑھئے اور درس دیجئے۔
تو میں نے عرض کیا کہ ’’آپ بھی شامل ہوں۔‘‘
اس نے جواب میں کہا کہ ’’میں اس حالت میں نہیں ہوں کہ قرآن کے درس میں شامل ہو سکوں۔‘‘
اس طرح کئی ماہ تک ہم لوگ آتے رہے ، درس کی مجلس کی فٹ پاتھ پر ہی ہوتی رہی کبھی اس کے کمرے میں منعقد ہونے کی نوبت نہیں آئی اور نہ اسے شرکت کی توفیق ملی ۔ ایک وقت ایسا آیا جب اس سے میری ملاقات ایک پنچایت میں ہوئی تو میں نے اس سے گزارش کی کہ آپ حج میں چلے جائے تو اس نے صاف صاف کہا کہ میرے پاس ایسا پیسہ نہیں ہے جسے حلال کہا جائے اور میں حج کے لئے جاسکوں۔ تومیں نے یہ تجویز پیش کی کہ آپ کسی رشتے دار سے جس کے پاس حلال پیسہ ہو ممکن ہوں تو قرض لیں اور قرض لے کر جائز کام شروع کریں اور حج جانے کی نیت بھی کریں تو شاید اللہ تعالیٰ آپ کی کمائی میں برکت دے اور فریضۂ حج بھی انجام دینے کی سعادت نصیب ہوجائے۔
ڈاکٹر مقبول صاحب اس شخص کے معالج تھے انہوں نے مجھے بتایا کہ جس شخص کے پاس آپ لوگ درس دینے جاتے تھے اب اس نے شراب پینا چھوڑ دیا ہے تو مجھے سن کر خوشی ہوئی کہ شاید اللہ کے ڈر سے اس نے شراب چھوڑی ہے لیکن ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ اس کا انہوں نے ایک جان لیوا مرض میں مبتلا ہونے کی وجہ سے آپریشن کیا ،آپریشن سے جب وہ ٹھیک ہوگیا تو میں نے اس سے کہا کہ اب تم نے شراب پی تو موت سے قریب ہوجاؤگے تو اس نے خدا کے ڈر سے نہیں موت کے ڈر سے شراب چھوڑی ہے۔ بہر حال وہ شخص دنیا سے رخصت ہوگیا اور اس کا کاروبار بھی اس کے جانے کے بعد ٹھپ ہوگیا ۔
مسلم صاحب اور درد ملت
سقوط ڈھاکہ کے بعد مولانا ابو اللیث صاحب سابق امیر جماعت اسلامی ہند ، مولانا مسلم صاحب کے ساتھ کلکتہ تشریف لائے۔ محسن اسکوائر میں مولانا ابو اللیث صاحب کو ایک جلسے سے خطاب کرنا تھا۔ دفتر حلقہ میں مسلم صاحب نے تقریباً ایک گھنٹے تک میری موجودگی میں انہیں حالات کے پیش نظر مسلمانوں کو حوصلہ دلانے اور ان کو آگے کی طرف قدم بڑھانے پر توجہ مبذول کرانے کی بات کہی اور مولانا سے گزارش کی کہ مسلمانوں کے اندر مایوسی، محرومی اور بے بسی کا بے پناہ احساس ہے انہیں اس احساس سے باہر لانے کی کوشش کرنا چاہئے۔ اسی قسم کی باتیں ایک گھنٹے تک مولانا محترم کو سمجھاتے رہے۔ مولانا کان لگا کر ان کی باتیں سنتے رہے۔ مجھے ایسا لگا کہ مولانا محترم اپنے تقریر کا یہی موضوع رکھے گے۔ لیکن وہاں انہوں نے مسلمانوں کو معنوی زندگی پر زور دیا اور دعوت کی طرف توجہ مبذول کرائی۔ مسلم صاحب کے موضوع کو انہوں نے چھوا بھی نہیں ۔اس واقع سے مجھے ایسا لگا کہ مسلم صاحب حالات حاضرہ سے جڑے رہنا چاہتے تھے اور تحریک کے قائد ہوں یا ملت کے لیڈر سب کو حالات سے جڑے رہنے کی تلقین سے باز نہیں آتے تھے۔ خواہ وہ ان کی باتوں کو سنے یا ان سنی کر دے۔
مولانا انیس الدین مرحوم اور ملا جان محمد
ٹرین کے ایک سفرمیں مولانا مسلم صاحب کے ساتھ رہنے کا موقع ملا میں نے دیکھا کہ وہ آس پاس بیٹھے مسافروں سے ان کا حال چال ایسا جاننا چاہتے ہیں جیسے پہلے سے ان لوگوں سے ان کی ملنا جلنا ہے اور ضرورت پڑتی تو کسی مسافر کی خدمت سے باز نہیں آتے۔ یہ ٹرین پٹنہ کی طرف جارہی تھی اور پٹنہ ہی میں ہم لوگوں کو اترنا تھا یہاں اردو ایڈیٹرس کانفرنس کا پہلا اجلاس ہونے والا تھا۔ میں بھی مدعو تھا۔ سفر کے دوران میں نے مولانا مسلم صاحب کو اپنا تحریک ملت کا پہلا شمار ہ پیش کیا۔ اس شمارے میں میں نے ملا جان محمد صاحب کی حیات و خدمات پر ایک مضمون شائع کیا تھا۔ میرا مضمون دیکھ کر انہیں بڑی خوشی ہوئی اور کہا کہ ملت کے ایسے لوگوں پر ضرور لکھنا چاہئے جو ملت کے لئے اپنی زندگی میں کام کرتے تھے ملا جان محمد ان میں سے ایک تھے جو مشاورت کی تشکیل میں حصہ لیا تھا اور اس کو پروان چڑھانے میں بھی اپنا رول ادا کیا تھا۔ مسلم صاحب نے ملا صاحب کی خوبیاں بیان کرتے ہوئے کہا کہ ایسے لوگ ملت کے لئے ضروری ہے۔ ایسے لوگوں کی زندگیوں کو پیش کرنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ دوسرے لوگ بھی ان سے سبق لینگے اور ان کے دل میں بھی شاید ملت کی بہی خواہی کا جذبہ پیدا ہوگا۔ کانفرنس سے پہلے مولانا مسلم صاحب محترم انیس الدین مرحوم سابق امیر حلقہ جماعت اسلامی ہند بہار کے مکان پر گئے۔ چند دنوں پہلے ہی انیس الدین دہلی میں دنیا سے کوچ کر چکے تھے ۔ انیس الدین صاحب کثیر الاولادتھے ان کی زبردست جماعت اور تحریک کے لئے ان کی بھی زبردست قربانیاں تھیں وہ سرکاری افسر تھے ۔ اکسائز ڈپارٹمنٹ میں ایک بڑے عہدے پر فائز تھے۔ مگر تحریک کے لئے انہوں نے اس ملازمت کو چھوڑ دی تھی اور تحریک سے کچھ اس طرح متاثر ہوئے کہ یہ جو کچھ ان کے پاس پیسے غلط طریقے سے آگئے تھے اس کو بھی انہوں نے ضرورت مندوں کے حوالے کردیا۔ جب ہم لوگ ان کے گھر پہنچنے تو ان کے بچے جو بہت چھوٹے چھوٹے تھے ہم لوگوں کے سامنے آئے۔ مسلم صاحب نے اپنی حیثیت سے کچھ زیادہ روپئے نکال کر بچوں کے ہاتھ میں تھما دیا اور کہا جاکر مٹھائی کھا لینا۔ بچے دوڑے دوڑے زنان خانہ میں چلے گئے ۔ ماں نے بچوں کو روپئے واپس کرنے کے لئے کہا۔ بچے دوڑے دوڑے آئے اور مسلم صاحب کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا ’’ماں نے لینے سے منع کیا ہے۔‘‘یہ سن کر میری آنکھوں میں آنسو آگئے اور میں نے مسلم صاحب کو دیکھا کہ وہ آبدیدہ ہوگئے۔ ایسا محسوس ہوا کہ مسلم صاحب کو انیس الدین مرحوم کی قربانیاں یاد آنے لگیں۔ تھوڑی دیر کے بعد امیر حلقہ ڈاکٹر ضیاء الہدی تشریف لائے اور پھر ان سے ملت اور جماعت کے بارے میں بہت ساری باتیں بیان کرنے لگے۔ اردو ایڈیٹرس کانفرس کے بارے میں بھی کچھ باتیں ہوئیں۔ پھر ہم لوگ اپنے قیام گاہ کی طرف لوٹ گئے۔
مولانا مودودی کا تعزیتی جلسہ
۱۹۷۹ء کی بات ہے ۔دہلی میں مسلم مجلس مشاورت کا اجلاس تھا۔ سوئے اتفاق کہئے کہ میں بھی اس اجلاس میں شرکت کے لئے دہلی گیا ہوا تھا۔ رات گیارہ بجے مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کی موت کی خبر سے جماعتی حلقے میں غم و الم کا سماں پیدا ہوگیا۔ صبح ہی مشاورت کے اجلاس میں شرکت کرنا تھا۔ اجلاس بچوں کے گھر میں شروع ہوا۔ مولانا مفتی عتیق الرحمن عثمانی صاحب صدر مشاورت تھے اور اجلاس کی بھی صدارت فرمارہے تھے۔ اجلاس کے دوران مسلم صاحب نے مجھے ایک پرچی پر لکھ کر دیا کہ
’’صدر محترم! مولانا مودودی کی رحلت کی وجہ سے ممکن ہو تو یہ جلسہ تعزیتی جلسے میں بدل دیا جائے۔ خاکسار محمد مسلم۔‘‘
صدر محترم نے مولانا مسلم کی پرچی پڑھتے ہی اعلان کردیا کہ یہ جلسہ اب تعزیتی جلسے میں بدل دیا جارہا ہے۔ مولانا علی میاں بھی اس موقع پرموجود تھے انہوں نے اس کی تائید کی۔ اور ان کی تقریر سے جلسے کا آغاز ہوا۔ میں اس سے بے حد متاثر ہوا کہ مسلم صاحب نے مولانا عثمانی پر بغیر کوئی زور ڈالے ہوئے ’ممکن‘ کے لفظ کااستعمال کیا اور مفتی صاحب نے بغیر کسی تاخیر کا مولانا مسلم صاحب کی بات مان لی۔ یہ مسلم صاحب کا حسنِ کمال تھا اور ان کی قائدانہ صلاحیت کی جیتی جاگتی تصویر تھی۔
جے پرکاش نرائن اور گاندھی جی
مسلم صاحب اکثر و بیشتر گاندھی جی اور جے پرکاش نرائن کی بارے میں بیان کرتے تھے یہ دو غیر مسلم لیڈرس مثالی شخصیت کے مالک تھے انہوں نے کبھی بھی عہدے اور منصب کی لالچ نہیں کی۔ گاندھی جی کا حال تو یہ تھا کہ وہ اپنے آپ کو کسی پارٹی کا ممبر بھی بنانا نہیں چاہتے تھے۔ جے پرکاش نرائن کو مسز گاندھی نے صدر جمہوریہ ہند کی کرسی کی پیش کش کی لیکن اس بڑے عہدے کو انہوں نے انسانوں کی خدمت کرنے کی وجہ سے قبول نہیں کیا۔ مولانا مسلم صاحب کہتے تھے کہ مسلمانوں میں ایسی شخصیتیں نہیں پائی جاتی ہیں۔ مولانا جب اس بات کو کہتے تھے تو میں ان کی طرف دیکھتا تھا اور سوچتا تھا کہ مسلم صاحب کی بھی حالت ان دو لیڈروں سے ملتی جلتی ہے۔ مسلم نے بھی کبھی عہدے اور منصب کی خواہش تک نہیں کی۔ ایسا لگتا ہے کہ مسلم صاحب یہ تو نہیں کہہ سکتے تھے کہ ان کی طرح لوگ زندگی گزاریں لیکن ہندو لیڈروں کی مثال دے کر مسلمانوں کو یہ سمجھانا چاہتے تھے کہ مسلمانوں کو کم سے کم ایسے لیڈروں سے بھی سبق لینا چاہئے جو مسلمان نہیں ہیں جیسے جے پرکاش اور گاندھی جی وغیرہ۔
مسلم قائدین اور مسلم جماعتیں
مسلمانوں کے تمام بڑے لیڈروں سے اور بڑی جماعتوں سے مسلم صاحب کے خوشگوار تعلقات تھے اور مسلم صاحب ہر لیڈر اور ہر جماعت کی خدمات کو سراہتے تھے اور یہ چاہتے تھے کہ تمام مسلم جماعتیں مل جل کر کام کریں اور یہ کہا کرتے تھے کہ جماعتیں یا تحریکیں کسی طرح بھی امت کا بدل نہیں ہوسکتیںاور نہ امت کے مسائل سے آنکھیں بند کر کے کامیاب ہوسکتیں ہیں۔ جیسے ہی ملت کے مشترک دکھ درد سے ان کا رشتہ کمزور ہوتا ہے تو ایک فرقہ یا مخصوص گروہ بن کر رہ جاتی ہیں اور بعد میں چل کر خود امت بھی ایسے فرقہ یا گروہ کو اپنے سے کاٹ کر پھینک دیتی ہے۔ وہ یہ بھی کہا کرتے تھے کہ سب جماعتیں اگر ملت کے مشترک مسائل میں شامل ہوکر کام کریںگی تو اس سے ملک میں مسلمانوں کا وزن بڑھے گا۔ کوئی ایک جماعت ملت کے سارے مسائل کو نہ حل کرسکتی ہے اور نہ ہی اس کے اندر حل کرنے کی یہ طاقت ہے۔
اس طرح کی بہت ساری باتیں ہیں جو مسلم صاحب کے بارے میں لکھی اور کہی جاسکتی ہیں ۔
سعید ملیح آبادی اور ابراہیم ہوش
سعید ملیح آبادی صاحب آزاد ہند کے ایڈیٹر تھے، ابھی راجیہ سبھا کے ممبر ہیں۔ اپنی صحافت کے زمانے میں جماعت اور تحریک کے سخت مخالف تھے مگر جب مسلم صاحب کلکتہ آتے تو سعید صاحب ان سے ضرور ملنے آتے تھے اور دفتر جماعت میں ملنے آتے تھے۔ سعید صاحب کو بھی یہ احساس نہیں ہوتا تھا کہ وہ ایک ایسی جماعت کے دفتر میں جارہے ہیں جس کو اچھا نہیں سمجھتے اور نہ مسلم صاحب کو یہ احساس ہوتا تھا کہ ایک ایسا شخص ان سے ملنے آرہا ہے جو ان کی تحریک اور مشن کے خلاف ہے۔ میں اکثر و بیشتر دیکھتا تھا دونوں والہانہ انداز میں ملتے تھے اور گھنٹوں ملک و ملت کے مسائل پر گفتگو کرتے تھے۔ سعید صاحب کے جانے کے بعد اگر جماعت کا کوئی رکن سعید صاحب کی شان میں کوئی بات ایسی کرتا تھا جو سعید صاحب کے قول و عمل کے خلاف ہوتی تھی تو مسلم صاحب اسے پسند نہیں کرتے تھے بلکہ اس کا منہ بند کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ کلکتے کی ایک دوسری شخصیت ابراہیم ہوش صاحب کی تھی جو آبشار کے ایڈیٹر تھے اور کمیونسٹ تھے۔ لیکن مسلم صاحب جب بھی کلکتہ آتے تو ان سے ملنے ان کے دولت کدے پر ضرور جاتے۔ کئی بار میں مسلم صاحب کے ساتھ ہوتا اس موقع پر بھی میں دیکھتا تھا دونوں کی زندگیاں دو مختلف مقاصد کے لئے ہیں۔ مگر ایک دوسرے کا نظریہ ملنے جلنے میں، بات چیت کرنے میں آڑے نہیں آتا تھا۔
مسلم صاحب کے ملنے والے مسلمانوں میں نہیں بلکہ ہندوؤں میں بھی تھے۔ کلدیپ نیر، اندر کمار گجرال اور ملک کے دیگر بڑی غیر مسلم شخصیتیں ۔ مسلم صاحب کے دو کمرے والے مکان میں ملنے آیا کرتے تھے۔ ہر آنے والے کی خندہ پیشانی سے خیر مقدم کرنا ان کی شخصیت کا حصہ تھا۔ مسلمانوں میں کوئی ایسا بڑا لیڈر نہیں تھا جو مسلم صاحب کی قابلیتوں اور صلاحیتوں کا معترف نہ ہو۔ سابق وائس چانسلر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سید حامدصاحب نے ان کی موت پر لکھا تھاکہ اگر کوئی ان سے دریافت کرے کہ صحافی کیسا ہونا چاہئے تو بلا تامل مسلم صاحب کا نام لیںگے۔ صحافیوں میں بھی بڑے سے بڑے صحافی مسلم صاحب کے معترف اور معتقد تھے۔ مسلم لیڈروں میں بھی کوئی شخص ایسا نظر نہیں آتا تھا جو مسلم صاحب کے خلاف ہو۔ مولانا علی میاں ، ڈاکٹر سید محمود، ڈاکٹر عبد الجلیل فریدی، مولانا مفتی عتیق الرحمن عثمانی، مولانا منت اللہ رحمانی، مولانا مجاہد الاسلام جیسی شخصیتیں ان کو اپنا دوست اور بھائی کہہ کر پکارتی تھیں۔
مسلم صاحب کی عظیم فکر اور پاک روح کو سلام
مسلم صاحب کی خوبیاں کچھ ایسی تھیں کہ اگر ان کو کوئی بیان کرنے بیٹھے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ بیان کرتا رہ جائے اور وہ ختم ہونے کا نام نہ لیں۔ میرے ذہن میں اس وقت جو چیزیں تھیں انہیں اللہ کے فضل و کرم سے کاغذ کے ٹکڑوں پر اتارنے میں کسی حد تک کامیاب ہوا۔ لیکن ایسی بہت سے واقعات اور ہیں جو اس موقع پر میرے ذہن میں نہیں آرہے ہیں جو مسلم صاحب سے منسلک ہیں انشاء اللہ کسی اور مضمون میں اسے پیش کرنے کی کوشش کروں گا۔ قلم کو یہیں روکتاہوں اور اللہ تعالیٰ سے مسلم صاحب کے لئے دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ مسلم صاحب پر رحم فرمائے،آپ کو بہترین جزا دے،ہم آپ کی پاک روح اور عظیم فکر کو سلام پیش کرتے ہیں۔
مشمولہ: شمارہ ستمبر 2013