نام کتاب : صبح صادق
نام مصنف: ڈاکٹرتابش مہدی
Rs.150/- قیمت : 144 صفحات:
ملنے کاپتا: :مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز، ابوالفضل انکلیو،نئی دہلی۔ ۵۲۰۰۱۱
جناب تابش مہدی صاحب علمی وادبی حلقوں میں معروف ہیں۔ ‘‘صبح صادِق’’ موصوف کی نعتیہ و منقبتی شاعری کاتیسرا مجموعہ ہے، جسے ادبیات عالیہ اکیڈمی نئی دہلی نے ۸۰۰۲ میں شائع کیاہے۔ اِس مجموعے کا آغاز‘‘حمد باری تعالیٰ’’ سے ہوتاہے۔ اِس حصّے میں تین تخلیقات شامل ہیں۔ دوسرے حصّے کاعنوان ’’نعت ِ رسولِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ ہے۔ یہ کتاب کا سب سے بڑا حصّہ ہے اور اِس میں کُل ۵۵ نعتیں شامل ہیں۔ آخری حصّے کا نام ‘‘مناقب اصحاب النبی(ص)’’ ہے۔ اِس میں تیرہ تخلیقات ہیں، جن میں خلفائے راشدین اور حضرت حسن و حضرت حسین رِضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے محبت و عقیدت کااظہار کیاگیاہے۔
اردو زبان کی منفرد خصوصیت یہ ہے کہ اِس زبان میں اِسلامی علوم کا بڑا بیش قیمت سرمایہ موجود ہے اور اردو نثر اور نظم دونوں پر اِسلامی تصورِ کائنات اور اِسلامی ثقافت کی گہری چھاپ نظرآتی ہے۔ بلاشبہ یہ اردو زبان کی خوش نصیبی ہے۔ اِسی خصوصیت کی بنا پر اردو شاعری میں حمد، نعت اور منقبت کو ہمیشہ ایک اہم مقام حاصل رہاہے۔ مسلمان شعرائ کے علاوہ بہت سے غیرمسلم شعرائ نے بھی نعت گوئی میں حصّہ لیا ہے اور معیاری کلام پیش کیا ہے۔ اِس وقت حکمرانوں کی تنگ نظری اورذوقِ حُسن و زیبائی سے محرومی کی بنا پر اُس کے فروغ کے راستے میں رکاوٹیں حائل ہیں۔ لیکن اردو کے قدردانوںکی ذمہ داری ہے کہ اِن نامساعد حالات میں اِس منفرد زبان کو اپنی کوششوں کے ذریعے زندہ رکھیں۔ اِن کوششوں میں معیاری اردو ادب کی قدر دانی اور حوصلہ افزائی بھی شامل ہے۔ جناب تابش مہدی صاحب کا کلام بلاشبہ اِس قدر دانی کامستحق ہے۔
اچھی شاعری کی خصوصیات بہت سی ہیں، جن کو ماہرین نے بیان کیاہے۔ لیکن ایک عام قاری اپنے سامنے ایک معیا ررکھتا ہے۔ وہ ماہرین کی بحثوں سے تو واقف نہیں ہوتا لیکن جب وہ کسی کلام کو پسند کرتاہے تو اُس کی پسند یدگی کی پہلی وجہ ‘‘حُسنِ کلام’’ کی صفت ہوتی ہے۔ جناب تابش مہدی صاحب کی شاعری میں ہمیں یہ وصف نظرآتا ہے۔ مثال کے طورپر ذیل کے اشعارملاحظہ ہوں:
ہر اک ذرہ ہے تابندہ یہاں کا
فضائے دِل کُشا ہے اور میں ہوں
کوٹھیاں یورپ کی، امریکا کی سب بے کار ہیں
شہرِ طیبہ میں ہمیں کچا مکاں اچھا لگا
خردمندو! سبق لو زندگی کا
مرے آقا کی طرزِ زندگی سے
مانا کہ ہوں زمان ومکاں کے حصار میں
لیکن خیال وفِکر کے غارِ حرا میں ہوں
شہرِ طیبہ میں مجھے میرا جنوں لے آیا
لوگ وحشت میں چلے جاتے ہیں صحرا کی طرف
شادابی رُخِ گل بطحا جو دیکھ لے
شرمندگی سے ہر گلِ تر آب آب ہو
اچھے ادب کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اُس میں مشاہدے کی گہرائی اور احساس کی شدّت نظرآتی ہے۔ شاعر یا ادیب اور اقِ فطرت کامطالعہ کرے یا اِنسانی سماج پر نظر ڈالے یا اِنسانی تاریخ کاجائزہ لے، اگر اُس کا مشاہدہ سرسری نہیں ہے بلکہ عمیق اور گہرا ہے تو وہ ایسے پہلوئوں کااِدراک کرلے گا، جن تک ظاہر ہیں نگاہیں نہیں پہنچ پاتیں۔ مشاہدے کی یہ گہرائی جب شاعر اور ادیب کے احساس کی شکل میں ڈھل جاتی ہے تو اچھا ادب اور اچھی شاعری وجود میں آتی ہے۔ جناب تابش مہدی کے متعدد اشعار اِس کے غمّاز ہیں کہ جِن عظیم ہستیوں کاانھوںنے تذکرہ کیاہے، اُن کی عظمت کے وہ پہلو بھی اُن کے سامنے رہے ہیں، جِن کو بسااوقات نظرانداز کردیاجاتاہے۔ مندرجہ ذیل اشعار میں جناب تابش مہدی صاحب کے کلام کی اِس خصوصیت کوبآسانی دیکھاجاسکتا ہے۔
عظمتِ انسانیت کے پاسباں تھے مصطفےٰ
مصطفےٰوالوں کا ہے لیکن رویّا اور کچھ
ورفعنا لک ذکرک ہے خدا کافرماں
کیسے ممکن ہے کوئی آپﷺ کا ہمتا ہوجائے
جِس نے کبھی اک حرف نہ سیکھاکالجوں اور اسکولوں سے
دنیا نے جینا سیکھا ہے، اُس اُمّی کے اصولوں سے
اُلجھارہی ہے ریب و تذبذب کے جال میں
اے عقلِ فتنہ جو! ترا خانہ خراب ہو
دُشمن فصیلِ شہر تک آبھی گیا مگر
اُمّت نبی کی محو، ثنا و دُعا میں ہے
ادب میں فکر اور فن کی بحث سے ادب کے قارئین واقف ہیں۔ اگر ہم گہرے مشاہدے اور شدّتِ احساس کو معیاری ادب کی ایک بنیادی صفت قرار دیں تو خود بخود اِس نتیجے پر پہنچ جائیںگے کہ معیاری ‘ادب پیغام’ سے خالی نہیں ہوسکتا اور ‘پیغام’ بہرحال کسی متعیّن ‘فکر’ کا ترجمان ہوتا ہے۔ اِس لیے ‘تعمیری ادب’ کے علمبرداروں کو بلاجھجک یہ بات کہنی چاہیے کہ وہ ایک صالح فکر اور تعمیری پیغام کے علمبردار ہیں۔ کوئی حساس شخص جب فطرت اور سماج کا گہرا مطالعہ کرتا ہے تو وہ محض اس مطالعے کے نتائج کے معروضی بیان پر قناعت نہیں کرسکتا۔ وہ اس مطالعے اور مشاہدے کے بعد اپنے قارئین سے ‘کچھ’ کہنا بھی چاہتا ہے۔ جِس حد تک اُس کا یہ پیغام اُس کے حقیقی احساسات پر مشتمل ہوتا ہے۔ اُتنی ہی اُس کے کلام کے اندر جاذبیت پیدا ہوتی ہے۔ جناب تابش مہدی صاحب جو پیغام اپنے قارئین کو دینا چاہتے ہیں ، وہ جگہ جگہ اُن کے اشعار میں جھلکتا ہے :
دِل میں قدرو قیمتِ اِنسان پیدا کیجیے
نسبتِ سرکار کا پہلا تقاضا ہے میاں
سرورِ دیں کامرہونِ منّت ہے وجودِ انسانی
ورنہ انسانوں کو نسبت ہوتی صِرف ہیولوں سے
ایک اُمّی لقب سے اے تابش!
ہم نے سیکھا سبق قیادَت کا
باقی رہے نہ محنت و سرمایہ کا نزاع
نافذ اگر نظامِ رِسالت مآب ہو
نبی کے چاہنے والوں کا جِن میں عکس نہیں
وہ ہوسکیںگی بھَلا ، کیسے پارسا آنکھیں!
کوئی بھی اِنسانی کوشش خامیوں سے خالی نہیں ہوتی، لیکن بڑی خوشی اور اطمینان کی بات یہ ہے کہ نعت گوئی کے میدان میں جناب تابش مہدی صاحب نے حدودِ شریعت کا احترام کیاہے اور کہیں بھی جذباتِ عقیدت کو ‘پاسبانِ عقل’کی نگرانی سے آزاد نہیں ہونے دیا ہے۔ رہی بات زبان و بیان کی تواہلِ علم اس سلسلے میں نشان دہی کرسکتے ہیں۔ صاحبِ کلام سے پوری توقع ہے کہ اُن کے مشوروں اور تبصروں سے فائدہ اُٹھائیںگے۔ ایک عام قاری اِس کتاب میں اپنے ادبی ذوق کی تسکین کاسامان یقینا پائے گا۔ اِس لیے کہ صاحبِ کلام نے جِس اصول کی پابندی کی ہے وہ اُن کے اپنے الفاظ میں یہ ہے:
یہ نعت کی محفل ہے، نہ بڑھ حدّ ادب سے
شایستہ ہو، جو بات بھی نِکلے ترے لَب سے
اور یہ شعر بھی ملاحظہ ہو۔
نعتِ شہِ انام، بڑی احتیاط سے
اے صاحبِ کلام! بڑی احتیاط سے
مشمولہ: شمارہ مئی 2010