آج علم کے میدان میں اکیسویں صدی کی صلاحیتوں کا بڑا چرچا ہے۔ یہ کل بارہ ہنر ہیں جن میں سے ایک اہم ہنر ٹیکنالوجی ہے۔ گذشتہ قسطوں میں ہم چھ صلاحیتوں پر گفتگو کر چکے ہیں۔ زیر نظر قسط میں ٹیکنالوجی پر گفتگو کی جائے گی۔
ٹیکنالوجی کیا ہے؟
ٹیکنالوجی کی تعریف یوں بیان کی جاتی ہے: ’’ہر وہ میکانیکی اور غیر میکانیکی عمل جس کے ذریعے سائنسی ایجادات اور معلومات کو انسانی زندگی کے لیے قابل عمل بنایا جا سکتا ہے۔‘‘ بعض تاریخ دانوں کے نزدیک، ٹیکنالوجی کا آغاز اس وقت ہوا جب پہلی بار انسان نے دو پتھروں کو رگڑ کر آگ پیدا کی اور اپنے اس عمل کے ذریعے آگ جلانے کا ہنر حاصل کیا۔ کچھ کا کہنا ہے کہ پہیے کی ایجاد سے ٹیکنالوجی کا آغاز ہوا، اور اس وجہ سے پہیہ آج بھی ٹیکنالوجی کی ایک علامت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
پہیے کی ایجاد کے بعد، علم و ہنر کے میدان میں ٹیکنالوجی کا جو فروغ ہوا، اس میں پرنٹنگ پریس کی بڑی اہمیت ہے۔ یہ بھی ٹیکنالوجی کی ایک اہم علامت ہے۔ ٹیکنالوجی سائنسی معلومات کو انسانی مفادات کے لیے قابل عمل بنانے میں استعمال کی جاتی ہے۔ جیسے جیسے انسانی دماغ نے ٹیکنالوجی پر کام کرنا شروع کیا، اس کے کئی شعبے وجود میں آئے۔ ان میں سے چند اہم یہ ہیں:
میکانیکل ٹیکنالوجی
آٹو موبائل ٹیکنالوجی
میڈیکل ٹیکنالوجی
فوڈ پروسیسنگ ٹیکنالوجی وغیرہ
یہ تو چند بنیادی شعبے ہیں جن میں ٹیکنالوجی مسلسل ترقی پذیر ہے۔ لیکن گذشتہ چند برسوں میں جس ٹیکنالوجی نے دنیا کو بدل دیا ہے اور طاقت کے سر چشموں کو تبدیل کیا ہے، وہ انفارمیشن اینڈ کمیونی کیشن ٹیکنالوجی (Information and Communication Technology, ICT ) ہے۔
انفارمیشن اینڈ کمیونی کیشن ٹیکنالوجی
اس ٹیکنالوجی کے دو اہم حصے ہیں: ایک ہارڈویئر اور دوسرا سافٹ ویئر۔ ماضی میں سافٹ ویئر جیسی کوئی چیز نہیں ہوا کرتی تھی، اور اگر ہوتی بھی تھی تو اسے ٹیکنالوجی کے دائرے میں شامل نہیں کیا جاتا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ٹیکنالوجی کا مطلب عموماً مادی اشیا تک محدود تھا۔ لیکن اب کمپیوٹر کی ایجاد کے بعد معلومات کو اکٹھا کرنا، ان کا تجزیہ کرنا اور زندگی کے مختلف امور میں ان کا استعمال انفارمیشن ٹیکنالوجی بن گیا ہے۔ چناں چہ اکیسویں صدی کی سب سے بڑی ٹیکنالوجی مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence) بن گئی ہے۔ اس ٹیکنالوجی میں مشین سے زیادہ اہمیت معلومات کے تجزیے، تحلیل اور ان کے مناسب استعمال کی ہے، حالاں کہ معلومات کو قابلِ استعمال بنانے میں مشینی دماغ کا ہی کردار ہوتا ہے۔
اکیسویں صدی کے لیے ضروری صلاحیتوں میں جب ٹیکنالوجی کا ذکر کیا جاتا ہے، تو یہی انفارمیشن ٹیکنالوجی مراد ہوتی ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا آغاز ایک کیلکولیٹر سے ہوا تھا، جسے آج کوئی خاص اہمیت حاصل نہیں ہے، لیکن یہی کیلکولیٹر آج سے 100 سال قبل ایک بڑی ایجاد تھی۔ کیلکولیٹر میں استعمال کی جانے والی ٹیکنالوجی نے اپنے مراحل طے کرتے ہوئے آج مصنوعی ذہانت کی شکل اختیار کر لی ہے۔
اب کیفیت یہ ہے کہ مصنوعی ذہانت سے وہ انسان بھی گھبرا رہا ہے جو فطری ذہانت رکھتا ہے۔ اب انسان کا مقابلہ مصنوعی ذہانت اور انفارمیشن ٹیکنالوجی سے ہے۔ اس کا مقابلہ الگورتھمک انٹیلی جنس(Algorithmic Intelligence) سے ہے۔ یہ اور بات ہے کہ مصنوعی ذہانت کی بنیاد محض ڈیٹا یا سابق میں موجود معلومات پر ہے، لیکن ٹیکنالوجی کا یہ نظام بڑی حد تک ذہن کے خلیوں کی ساخت اور ان کے کام کے طریقہ کار سے مطابقت رکھنے کی حد تک پہنچ گیا ہے۔ اس ٹیکنالوجی کے بغیر لگتا ہے کہ آنے والے دور میں کوئی بڑا کام یا کام یابی ممکن نہیں ہے۔
انفارمیشن ٹکنالوجی کی اہمیت
گذشتہ ایک صدی سے طاقت ان ہی ممالک کے پاس مرکوز رہی ہے جو اس ٹیکنالوجی کو مسخّر کرتے ہیں۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے چار بڑے مظاہر — کمپیوٹر، انٹرنیٹ، موبائل فون، اور روبوٹ — ابتدا میں فوج اور دفاع کے شعبے میں بہتر کارکردگی کے لیے استعمال کیے جاتے تھے۔ دنیا میں ان تمام کا مؤثر استعمال سی آئی اے (سنٹرل انٹلی جنس ایجنسی، امریکہ ) اور امریکہ کے شعبہ دفاع نے سب سے زیادہ کیا۔ بعدازاں، انھیں عوام کے لیے عام کیا گیا۔
اکیسویں صدی میں طلبہ کو اس ٹیکنالوجی سے واقف ہونا ضروری ہے۔ اس سے متعلق کچھ باتیں ہم نے گذشتہ قسطوں میں انفارمیشن اور پھر میڈیا کے ضمن میں کی ہے۔آج کے دور میں نہ صرف طلبہ بلکہ ہر کام یاب فرد، پیشہ ور اور دانش ور کے لیے ضروری ہے کہ وہ ٹیکنالوجی کی بنیادوں سے واقفیت حاصل کرے اور اس کا استعمال کرنا سیکھے۔
جو شخص انفارمیشن ٹیکنالوجی سے واقفیت رکھتا ہو وہ اس دنیا میں کئی کارنامے انجام دے سکتا ہے۔ مثلاً، فی زمانہ تعلیم کا حصول ہو یا تجارت کا قیام یا اس میں کام یابی یا دعوتِ دین کا فریضہ ہو، ان کے لیے ٹیکنالوجی بڑی مددگار ثابت ہوتی ہے۔ اور یہ ٹیکنالوجی ہفتوں بھر کا کام منٹوں میں کر دیتی ہے۔
کافی عرصے سے یہ کہا جاتا رہا ہے کہ آئندہ برسوں میں جو شخص کمپیوٹر نہیں جانتا وہ نا خواندہ کہلائے گا۔ لیکن اب اس سے بھی آگے بڑھ کر انفارمیشن ٹیکنالوجی کو جاننے کی ضرورت ہے۔
انفارمیشن ٹکنالوجی سے طلبہ کی محرومی
انفارمیشن ٹیکنالوجی کی اس اہمیت سے واقفیت ہمارے ملک میں محدود طلبہ تک ہی ہے۔ ایسا اس لیے بھی ہے کہ ہمارے تعلیمی نظام میں عدم برابری ایک بہت بڑا سماجی و تعلیمی مسئلہ ہے۔ جو طلبہ شہروں اور اچھے اسکولوں اور کالجوں میں پڑھتے ہیں انھیں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی معلومات تو ہوتی ہیں، لیکن غیر شہری علاقوں میں آباد طلبہ کی معلومات اس میدان میں بہت کم ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ مصنوعی ذہانت کے جتنے فوائد شہری علاقوں کے لوگ حاصل کر رہے ہیں، بھارت کے غریب اور دیہی علاقوں میں رہنے والے افراد ان سے محروم ہیں۔
مصنوعی ذہانت کی ستم رانیاں
آج شہروں میں بھی مصنوعی ذہانت کے ایک مشہور ایپلی کیشن، چیٹ جی پی ٹی کا استعمال کرنے والے افراد کی تعداد بہت کم ہے۔ تاہم، یہ ٹیکنالوجی، جو ڈیٹا (معلومات) کو استعمال کرتی ہے، انسان کو متحیر کرنے والے کارنامے انجام دے رہی ہے۔ جہاں یہ ایک نعمت ہے، وہیں اس کے ذریعے ممکنہ نقصانات اور مسائل کا بھی ذکر کیا جاتا ہے۔ اس کی ایک مثال اے آئی کے ذریعے بنائے جانے والے ڈیپ فیک ویڈیو ہیں۔اس کی ایک ادنی مثال یہ ہے کہ اس ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے کسی بھی شریف اور نیک شخصیت کے جنسی عمل کے ویڈیو بنائے جا سکتے ہیں، جو کہ انتہائی خطرناک ہے۔ ماہرین کی یہ پیشین گوئی بھی ہے کہ مستقبل میں جنگیں اسی ٹیکنالوجی کے ذریعے لڑی جائیں گی۔ آج کی ڈرون ٹیکنالوجی اور اسرائیل کے آئرن ڈوم کی ٹیکنالوجی اسی علم کا نتیجہ ہیں۔ اسی علم کے ذریعے روبوٹ ٹیکنالوجی کام کر رہی ہے، اور اب روبوٹ ہندوستانی دواخانوں میں بھی پیچیدہ آپریشنوں میں استعمال ہو رہے ہیں۔
اے آئی کی مدد سے امراض کی تشخیص میں بھی بڑی نمایاں کام یابیاں حاصل ہو رہی ہیں۔ مثلاً، امراض کی تشخیص کے لیے اب ایک سسٹم کے ذریعے فرد کے جسم میں کچھ لمحے کے لیے خاص برقی رو گزاری جاتی ہے، جس کے نتیجے میں کمپیوٹر جسم کے اندر ہونے والی تبدیلیوں کو حاصل کر کے اپنے سافٹ ویئر میں موجود ڈیٹا سے مطابقت پیدا کرتا ہے اور یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ یہ فرد کن امراض کا شکار ہے یا آئندہ برسوں میں یہ فرد کن امراض کا شکار ہو سکتا ہے۔
اتنا ہی نہیں، اے آئی کی موجودہ مصنوعی ذہانت اس شخص کو لاحق امراض کا علاج بھی تجویز کرتی ہے اور مستقبل میں ہونے والے ممکنہ امراض کا علاج حفظ ماتقدم کی بنیاد پر پیش کر دیتی ہے۔
اے آئی کے سلسلے میں مسلمانوں کی غفلت
اے آئی بنیادی طور پر انٹرنیٹ پر موجود معلومات کو پروسیس کرکے مطلوبہ نتائج پیش کرتی ہے۔ اس صورت حال میں یہ بات بڑی غور طلب ہے کہ ماضی قریب میں مسلمانوں کی جانب سے انٹرنیٹ پر اسلام اور مسلمانوں سے متعلق جتنا ڈیٹا ڈالنا چاہیے تھا، اتنا نہیں ڈالا گیا۔ اور اگر ہے بھی تو زیادہ تر مستشرقین، گم راہ فرقوں اور اسلام دشمن عناصر کا ہے۔ اس لیے اے آئی کا ذہن زیادہ تر اسلام اور مسلمانوں کے متعلق ویسا ہی ہوتا ہے جیسا کہ امریکی اور یورپی دانش وروں کا ہوتا ہے۔ لہٰذا، ابھی بھی دیر نہیں ہوئی ہے، مسلم اداروں اور دانش وروں کو اس پر توجہ کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ مختلف شعبہ ہائے زندگی میں مثبت اور صحت مند مواد پیدا کرکے انٹرنیٹ پر ڈالیں۔
انفارمیشن ٹکنالوجی میں مطلوبہ مہارت
انفارمیشن ٹیکنالوجی کے تحت تین مختلف چیزیں شامل ہوتی ہیں: اول، سافٹ ویئر؛ دوم، کمپیوٹر کا وہ ہارڈویئر جو اس سافٹ ویئر کو انسانوں کے لیے قابل استعمال بناتا ہے (مشین)؛ اور تیسرا، اس ٹیکنالوجی کے استعمال کی مختلف آلات و اشیا جنھیں انگریزی میں “گیجٹس”کہا جاتا ہے۔
ان میں پہلی چیز یعنی سافٹ ویئر خود ایک بڑی ٹیکنالوجی بن چکا ہے۔ مستقبل میں ایسا لگتا ہے کہ لوگوں کو معمولی سافٹ ویئر بنانے کی ٹیکنالوجی سے بھی واقفیت حاصل کرنی پڑے گی تاکہ وہ اپنی ملازمت اور پیشے میں اپنی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کر سکیں اور کام یابی کے منازل طے کریں۔ ویسے آج کی بعض معمولی پروگرامنگ عام لوگ بھی کر لیتے ہیں، مثلاً موبائل فون میں الارم کو سیٹ کرنا بھی ایک ادنیٰ درجے کی پروگرامنگ ہے۔ آج سمارٹ الیکٹرک سویچ آ چکے ہیں جو ریموٹ کنٹرول اور پروگرامنگ کے ذریعے کام کرتے ہیں۔ لیکن آنے والے برسوں میں اس پروگرامنگ کو اگلے درجے تک لے جانے کے لیے کچھ بنیادی ٹیکنالوجی سیکھنی پڑے گی۔
ممکن ہے کہ آئندہ برسوں میں ہر فرد اپنی زندگی کو اے آئی کی مدد سے گزارنا چاہے گا۔ وہ اپنی ماضی کی زندگی کے ڈیٹا کو استعمال کرتے ہوئے مستقبل کا پیٹرن بنانا چاہے گا۔
آج مسلم ملت کو اس ٹیکنالوجی پر گرفت مضبوط کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ لیکن افسوس کہ اس صلاحیت کو حاصل کرتے وقت بیشتر طلبہ کے ذہن میں عارضی اور محدود مفاد پیش نظر ہوتا ہے، یعنی کسی ملٹی نیشنل کمپنی میں ملازمت حاصل کرنا۔ ہمارے طلبہ کو اپنے مقاصد بلند کرنے کی ضرورت ہے کہ اس ٹیکنالوجی کے حصول کے ذریعے ملت کے عروج اور قیامِ دین کے مقصد کو اپنے ذہنوں میں راسخ کریں۔
سافٹ ویئر کے ساتھ ساتھ ہمارے طلبہ کو ہارڈویئر اور گیجٹ بنانے کی صلاحیت حاصل کرنے پر بھی توجہ دینی ہوگی۔
آج کی ٹیکنالوجی پچھلے دور کی طرح نہ تو زیادہ سرمایہ چاہتی ہے اور نہ ہی بہت زیادہ انفراسٹرکچر، بلکہ ذہانت کی ضرورت ہے۔ تو کیوں نہ یہ کام ملت کے افراد کریں۔ آنے والے برسوں میں روبوٹس کی حیثیت کسی زمانے میں جس طرح سائیکلوں کی ہوا کرتی تھی ویسی ہو جائے گی۔ روبوٹک ٹیکنالوجی اب اول جماعت سے پڑھائی جا رہی ہے، بلکہ روبوٹس کے ذریعے ہی طلبہ کو پڑھانے اور انھیں اپنا نالج کنسٹرکٹ کرنے (تدوین علم) کی تربیت دی جا رہی ہے۔
کل تک یہ کہا جاتا تھا کہ روبوٹ میں جذبات (ایموشن) نہیں ہوتے، اس لیے وہ انسانوں کی ان شعبوں میں مدد نہیں کر سکتے جہاں جذبات و احساسات کا خیال رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ لیکن اب ایسے روبوٹ بنائے جا رہے ہیں جو مکمل نہ سہی، کسی حد تک فرد کے جذبات کو محسوس کرکے اپنا رد عمل ظاہر کر سکتے ہیں۔ مثلاً اب بچوں کے ساتھ کھیلنے والے روبوٹ بنائے جا رہے ہیں جو بچوں کی نفسیات کو سمجھ کر کام کریں گے۔ یہ کام فیس ریڈنگ اور ٹیکنالوجی کے دیگر ٹولوں کی مدد سے ممکن بنایا جا رہا ہے۔
ٹکنالوجی اور ملت کا تعلیمی منصوبہ
اس صورت حال میں ملت کو اپنے تعلیمی نظام، اسکول اور ٹیکنالوجی کے حصول پر توجہ دینے اور ایک نیا ماڈیول ترتیب دینے کی ضرورت ہے، جس میں آئی سی ٹی (ITC) کی متناسب شمولیت ہو۔
اسکولوں میں Tinkering Lab اور ٹیکنالوجی کے انکیوبیشن سینٹر بنانے کی ضرورت ہے۔ نئی تعلیمی پالیسی درجہ ہشتم سے ہنر (اسکل) کی تعلیم کو اسکولی نصاب میں شامل کرنے پر زور دیتی ہے۔ ملت کے اسکولوں کو درجہ ہشتم سے کمپیوٹر ٹیکنالوجی کو نصاب میں شامل کرنا چاہیے۔ اتنا ہی نہیں، مدارس اسلامیہ میں اب کمپیوٹر کی تعلیم دی جاتی ہے، لیکن یہ تعلیم ڈیٹا انٹری اور معمولی پروگرامنگ تک محدود ہوتی ہے۔ مدارس کے طلبہ کے متعلق ایک مشاہدہ یہ بھی ہے کہ وہ بہت تیز سیکھنے والے (fast learner) ہوتے ہیں اور ان میں اختراعی (creative) صلاحیت کا رجحان ہوتا ہے۔ مدارس میں آئی سی ٹی کا دخول ملت کے لیے بالیقین فائدہ مند ہوگا۔
مشمولہ: شمارہ اکتوبر 2024