۶۔ اقدار و مقاصد کی مرکزیت
نجات صاحب کا دین کے فہم اور وقت کے شعور کے نتیجے میں یہ احساس تھا کہ دین کو سمجھنے، نئے مسائل میں اجتہاد کرنے اور نئی دنیا کی رہ نمائی کے لیے ہمارے پاس سب سے مؤثر، سب سے مفید اور سب سے یقینی کوئی بنیاد ہے تو وہ اقدار و مقاصد ہیں جن کو دین نے بہت ہی اہمیت کے ساتھ اور ابدی اصول کے طور پر پیش کیا ہے اور جو اسلام کے مطالعے کے لیے ایک منہجی و اصولی فریم ورک کے طور پر پیش کیے جا سکتے ہیں، تاہم واقعہ یہ ہے کہ اقدار و مقاصد کی جانب اس پہلو سے بہت کم توجہ ہوئی۔ فقہ میں مذکور احکام کی حکمتیں بیان کرنے کی غرض سے تو مقاصد پر کافی توجہ رہی لیکن نئے اجتہاد اور شریعت کو از سر نو سمجھنے کے لیے ایک منہج اور فریم ورک کے طور پر اس پر توجہ کم رہی ہے۔ ساتھ ہی روایتی مقاصد میں اقدار کی طرف بھی توجہ بہت کم رہی۔ دور حاضر میں کچھ لوگوں نے اس پہلو سے مقاصد شریعت کی طرف توجہ دی ہے اور روایتی مقاصد کے ساتھ ہی اسلام کے کلی اقدار کو بھی موضوع گفتگو بنایا ہے اور مقاصد کی روایتی فہرست پر بھی نظر ثانی کی ہے۔ اس حوالے سے سر فہرست جس کا نام لیا جا سکتا ہے وہ ابن عاشور ہیں جنھوں نے مقاصد شریعت کو ایک نئی زندگی دی اور مقاصد کی ایک نئی تقسیم پیش کرنے کی بھی کوشش کی اور اقدار کو مقاصد کے سب سے اعلی درجے کے طور بھی پیش کیا۔ طہ جابر علوانی کا نام بھی اس حوالے سے بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ انھوں نے بھی مقاصد شریعت کے باب میں روایتی اپروچ سے مختلف ایک نئی اپروچ پیش کرنے اور مقاصد کے ساتھ ساتھ اقدار کو بھی منہج اور فریم ورک کا حصہ بنانے کی نظریاتی و اصولی کے ساتھ ساتھ عملی و تطبیقی کوششیں کیں۔ اس سلسلے میں نجات اللہ صدیقی کا نام بھی بہت اہم ہے کہ انھوں نے بھی ایک طرف مقاصد کی روایتی تقسیم پر کئی نئے اضافے تجویز کیے نیز کلی و بنیادی اقدار کو اس میں خاص توجہ دی۔ مقاصد کی قدیم فہرست میں نجات صاحب جن مقاصد کا اضافہ تجویز کرتے ہیں وہ درج ذیل ہیں: انسانی عز و شرف، بنیادی آزادیاں، عدل و انصاف، ازالہء غربت اور کفالت عامہ، سماجی مساوات اور دولت و آمدنی کی تقسیم میں ممکن یکسانیت، امن و امان اور نظم و نسق اور بین الاقوامی سطح پر باہم تعامل و تعاون۔ (مقاصد شریعت: ۴۱)۔ باوجودیکہ ان میں سے اکثر کو نجات صاحب سے پہلے بھی کچھ لوگ پیش کر چکے تھے لیکن نجات صاحب کی پیش کش ان کے اپنے مقاصد و اقدار کے تصور کو سمجھنے میں بہت معاون ہے۔
اسی طرح نجات صاحب مقاصد کو فریم ورک کے طور پر اختیار کرنے کے حوالے سے مقاصد میں ایک اور انوکھی درجہ بندی کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں مقاصد کی دو قسمیں ہیں: مقاصد شریعت اور مقاصد تخلیق اور دونوں میں اگر تعارض ہو جائے تو مقاصد تخلیق کو مقاصد شریعت پر ترجیح دینا ہوگی اور یہ درجہ بندی عام طور سے مقاصد شریعت پر کام کرنے والوں کے سامنے واضح نہیں ہوتی تو وہ شریعت میں مطلوب ترجیح سے غافل ہو جاتے ہیں اور غلط موقف پیش کر دیتے ہیں۔ اس کی مثال پیش کرتے ہوئے نجات صاحب ہر شخص کو اجتہاد کی آزادی دینے کو مقصد تخلیق کے طور پر اور لوگوں کو ان کی اغراض و خواہشات کی پیروی سے نکال کر اللہ کی بندگی میں لے جانے کو مقصد شریعت کے طور پر دیکھتے ہیں۔ چوں کہ یہاں دونوں میں تعارض کی کیفیت پیدا ہوسکتی ہے کہ اگر ہر شخص کو اجتہاد کی اور شریعت کو سمجھنے کی آزادی دے دی گئی تو وہ شریعت کو اپنی خواہشات کے تابع کر سکتا ہے۔ ایسے میں مذکورہ بالا ترجیحی اصول کو عمل میں لاتے ہوئے نجات صاحب لکھتے ہیں:
“ہمارا خیال ہے کہ یہاں بھی مقصد تخلیق کے لحاظ اور مقاصد شریعت کی تحصیل کے درمیان توازن بر قرار نہیں رکھا جا سکا۔ اللہ کی حکمت متقاضی ہے کہ ہر مسلمان علم حاصل کرے تاکہ خود فیصلہ کر سکے، یہی تو آزمائش ہے کہ آدمی خواہش کے پیچھے چلتا ہے، یا خدا کی مرضی تلاش کرتا ہے۔ یہ کام اسے کرنے دیجیے۔ اسے ذمہ داری سے غافل نہ بنائیے، نہ اس کا حق سلب کرکے اس کی ذمہ داری خود پوری کرنے کا بیڑا اٹھائیے”۔ (مقاصد شریعت: ۲۹۸)
نجات صاحب دین و شریعت کا سب سے بڑا حاصل اقدار سے واقفیت اور وابستگی کو سمجھتے تھے۔ چناں چہ کلام الہی کا اصل مقصود انھی اقدار اور مقاصد سے وابستگی کو قرار دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں:
“مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ زبانی نعروں کے باوجود معاصر مصلحین امت نے یہ نکتہ نہیں پایا کہ انسانی زندگی میں اصل اہمیت مبادی اور مقاصد سے وابستگی (Commitment)کو حاصل ہے۔ یہی وابستگی ہے جو کلام الہی کی طرف رجوع سے متوقع ہے”۔
آگے وہ واضح طور پر یہ کہتے ہیں کہ آج قرآن پڑھنے والے کو وہ اقدار ضرور ملیں گے جو زندگی کے ہر موڑ پر ان کے لیے مشعل راہ ثابت ہوں۔ وہ کہتے ہیں:
“بے شک آج قرآن پڑھنے یا سننے والے کو اپنے روز مرہ مسائل زندگی کے حل نہیں ملیں گے، مگر عدل پر قائم رہنے، ظلم سے اجتناب کرنے، وعدے پورے کرنے، سچ بولنے، والدین کے ساتھ حسن سلوک اور ان جیسی بنیادی انسانی قدروں سے وابستگی کی خدا کی طرف سے تاکید کا جو اثر ہو سکتا ہے اس کا بدل ممکن نہیں”۔ (معاصر اسلامی فکر: ۱۴)
وہ صرف گفتگو اور تحریروں تک اقدار پر توجہ دینے کے بجائے اقدار کا عملی نمونہ پیش کرنے پر توجہ دلاتے تھے۔ مسلمانوں کے اپنے فرض منصبی یعنی دعوت دین میں کام یاب ہونے کے لیے وہ اسے شرط لازم قرار دیتے تھے چناں چہ وہ کہتے ہیں:
“پس مومنوں کی جماعت کا کام یہ ہونا چاہیے کہ وہ اس یقین سے سرشار، اس عمل صالح کے علم بردار ہوں جو ان قدروں سے تشکیل پایا ہو۔ آزادی و مساوات، عدل و انصاف، ہمدردی و مواسات، تعاون و بہی خواہی، عفت و پاکیزگی برتنے کی چیزیں ہیں۔ ان کا تعلق عملی رویے سے ہے، ان کی تبلیغ اور دوسرے انسانوں کو ان اوصاف سے آراستہ کرکے دنیا کو ان کے مطابق سنوار دینا ان کو کرکے دکھانے ہی کا نتیجہ ہو سکتا ہے”۔ (تحریک اسلامی عصر حاضر میں : ۷۷)
اسی طرح وہ تحریکات اسلامی سے بھی شدید اصرار کے ساتھ یہ درخواست کرتے تھے کہ ان کو اشاعت افکار سے زیادہ اسلامی قدروں کے عملی رواج پر توجہ دینی چاہیے۔ (تحریک اسلامی عصر حاضر میں: ۱۶۴) وہ تحریک اسلامی کو اس جانب متوجہ کراتے ہوئے لکھتے ہیں:
“تحریک اسلامی کے کارکنوں کو نہ صرف عبادات و اخلاق میں بلکہ معاملات دنیا بالخصوص معاشی وسائل اور سیاسی طاقت کے برتنے میں، نیز اپنی معاشرتی زندگی میں للہیت، ترجیح آخرت اور اخوت، مواسات و مرحمت، شورائیت اور مساوات کی اسلامی قدروں کے مطابق اعلی اسلامی کردار کا نمونہ پیش کرنا ہے تاکہ مسلمان عوام ان قدروں کو جذب کر سکیں اور اسلامی نظام کے قیام کی راہ ہم وار ہو سکے”۔ (معاصر فکر اسلامی: ۱۶)
معاشی اور سیاسی امور میں عوام کی دینی قیادت سے بے زاری اور سیکولر قیادت کی طرف جھکاؤ کی وجہ بھی دینی قیادت کا اقدار پر توجہ نہ دینا ہے۔ وہ کہتے ہیں:
“ابھی نہ عوام کا نظام اقدار بدلا ہے، نہ اس بگڑے ہوئے “مذہبی مزاج” کی اصلاح ہوئی ہے جو اسلام کے نام پر لوگوں کو علما اور اسلامی قیادت کے پیچھے لا کھڑا کرتا ہے، مگر معاشی ترقی اور سیاسی استحکام اور امور مملکت کے نظم و انصرام کے سلسلے میں فیصلہ کن طاقت کا حق دار سیکولر قیادت ہی کو سمجھتا ہے”۔ (معاصر فکر اسلامی: ۱۵)
وہ صرف قولی اور عملی یا نظریاتی اور عملی سطح پر اقدار پر توجہ دینے کو بھی کافی نہیں سمجھتے تھے بلکہ اس آگے بڑھ کر ان کا ماننا تھا کہ اصل مطلوب یہ ہے کہ ان اقدار کو اداروں اور رویوں کی شکل میں پیش کیا جائے جو ہمارے زمان و مکان سے مناسبت رکھتے ہوں۔
“I think the crus of the matter is translating values into institutions and behaviours appropriate for our time and place”. (IOK: 31)
نجات صاحب کو جمود اور سرد مہری سے اس قدر بے زاری تھی کہ وہ اقدار کو بھی مطلق کی صفت کے ساتھ دیکھنے کے قائل نہیں تھے۔ ان کا ماننا تھا کہ وقت بدلتے اور معلومات میں اضافہ ہوتے اور احوال و ظروف میں تبدیلی ہوتے اور نئے نئے وسائل اور امکانات کے پیدا ہوتے اقدار کی عملی صورتوں میں تبدیلی ہوتی رہے گی تو پھر اقدار کو بھی مطلق کہنے کے بجائے کیوں نہ کسی قدر لچک دار تعبیر سے موسوم کیا جائے۔ چناں چہ اسی نکتے کو بیان کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:
“انفرادی اور اجتماعی کردار کی تعمیر، سماجی اداروں کی تشکیل اور جدید مسائل میں نئی اسلامی قانون سازی میں ان قدروں کی رہ نما اہمیت مسلم ہے۔ پھر یہی قدریں نظام تعلیم و تربیت میں مقاصد کا درجہ رکھتی ہیں اور مطالعہء حیات میں اسلامی ادیب کے لیے روشنی کا مینار۔ اخلاقی قدروں کی اس کلیدی اہمیت کے پیش نظر ان کے مطلق یا اضافی ہونے کی بحث بہت اہم ہے۔ اسلامی مفکرین جب اخلاقی قدروں کے مطلق ہونے پر زور دیتے ہیں تو ان کی کیا مراد ہوتی ہے؟ کیا اخلاقی قدروں کا مفہوم احوال و ظروف کی تبدیلی کے ساتھ بدلتا اور ان قدروں کے عملی اظہار کے طریقوں میں تبدیلی نہیں ہوتی؟ کیا انھی باتوں کی تعبیر اس طرح مناسب نہ ہوگی کہ اخلاقی قدروں کے تصور میں ارتقا ہوتا رہتا ہے اور اس ارتقا کے امکانات لا محدود ہیں؟” (معاصر اسلامی فکر: ۳۲)
ایک دوسری وجہ اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
مثلاً اسلام مسلمانوں کے مسائل کے حل کے لیے باہمی مشورے کو ضروری قرار دیتا ہے گو اب سے کچھ سال قبل یہ تقریباً ناممکن تھا مگر رسل و رسائل کی سہولت نے اب اس کو کسی قدر آسان کردیا ہے۔ (تحریک اسلامی عصر حاضر میں: ۶۹)
ان کا احساس تھا کہ مسلمان علما اور دانش وران کے پاس اخلاق و اقدار جیسے فلسفیانہ مسائل پر توجہ دینے کے لیے فرصت یا دل چسپی ہی نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں:
“پہلے کی بہ نسبت گذشتہ ان دہائیوں میں مسلمان علما اور دانش وروں کی توجہات زیادہ تر عملی مشکلات حل کرنے اور دور جدید میں اسلامی نظام زندگی کی تفصیلات مرتب کرنے پر مرکوز ہیں۔ فلسفیانہ مسائل اور اخلاق و اقدار پر کوئی بنیادی کام نہیں ہوا جب کہ انیسویں اور بیسویں صدی کے نصف اول میں ایسے کئی اضافات ہوئے تھے”۔
نجات صاحب اقدار کو جدید مسائل میں فریم ورک کے طور پر استعمال کے نہ صرف قائل تھے بلکہ مسلمانوں کے اپنے فکری اور عملی رویے کے لیے وہ ان اقدار کو معیار کے طور پر بھی دیکھنے کے پر زور قائل تھے۔ وہ کہتے ہیں:
“یہ بات انسان کی بنیادی اخلاقی حِس کے خلاف ہے کہ ساری دنیا میں مسلمان ہر طرح کے حقوق چاہیں اور جہاں ان کا اقتدار ہو وہاں غیر مسلم باشندوں کو اسلام کے نام پر جائز حقوق سے محروم کریں”۔ (مقاصد شریعت: ۱۶۰)
نجات صاحب حال کے تجزیے اور مستقبل کی منصوبہ بندی کے لیے بھی اقدار کو معیار کی حیثیت سے دیکھتے تھے۔ چناں چہ ہندتوا کی بڑھتی ہوئی طاقت پر بہت زیادہ فکر مندی ظاہر کرنے کے بجائے وہ بہت اعتماد سے اس کے بارے میں اقدار کے فریم ورک میں پیشین گوئی کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
“ہندتوا کا کوئی مستقبل نہیں ہے کیوں کہ یہ اکیسویں صدی میں انسانیت کے ایک بنیادی اصول سے ٹکراتا ہے یعنی سماجی مساوات۔ ایک ایسا فلسفہء زندگی جو انسانوں کے درمیان ان خصوصیات کی بنیاد پر تفریق کرتا ہے جو انسان کے اختیار سے باہر ہیں اور اس طرح وہ بنیادی انسانی شرف و عزت کو پامال کرتا ہو اب مرد و خواتین کے درمیان قابل قبول نہیں رہ سکتے۔ ہندتوا اس بات سے قاصر ہے کہ وہ اپنے اندر سے برہمن کی افضلیت اور اس کے نتیجے میں ہونے والی دوسری چیزوں کو ختم کر سکے ایک ایسی دنیا میں جہاں صرف علم ہی افضلیت کی قابل قبول بنیاد ہے”۔ (Muslim Minorities in the Twenty First Century: A Case Study of the Indian Muslims: 9)
نجات صاحب کو یہ یقین تھا کہ اقدار میں یہ قوت ہے کہ وہ جدید زمانے میں ایک صالح معاشرہ اور صالح تہذیب کے لیے تمام انسانوں کے مابین قدر مشترک کا مقام حاصل کر سکتے ہیں اور اس طرح اسلام کے پیغام کو (بالخصوص سیاست، معیشت، اور معاشرت وغیرہ کے حوالے سے) آفاقیت عطا کر سکتے ہیں۔
۷۔ انسانیت کے ساتھ اشتراک و تعاون
نجات صاحب اشتراک و تعاون کو بہت زیادہ اہمیت دیتے تھے۔ وہ مشترک کوششوں کی طرف بہت توجہ دلاتے تھے کیوں کہ ان کا ماننا تھا کہ موجودہ مسائل میں اکثر ایسے ہیں جو تمام انسانوں کے درمیان مشترک ہیں، چاہے وہ اقدار کی تلاش کا مسئلہ ہو یا پھر بہتر نظام اور مسائل کے بہتر حل کا معاملہ ہو، کسی ایک قوم یا مذہب کا نہیں بلکہ پوری انسانیت کا ہے اور سب اس طرف کسی نا کسی درجے میں متوجہ بھی ہوئے ہیں تو ایسے میں سب سے الگ تھلگ رہ کر اکیلے اپنے لیے کوشش کرنا عقلمندی کا کام نہیں ہوگا۔ چناں چہ وہ اقدار میں اشتراک و تعاون پر توجہ دلاتے ہوئے لکھتے ہیں:
“ایسا علمی کام کرنے کی ضرورت دیگر مذاہب اور مکاتب فکر کو بھی پیش آرہی ہے۔ ابدی اخلاقی اقدار کے بدلتے حالات میں تقاضے پہچاننے کی کوشش اوروں کو بھی کرنی پڑ رہی ہے۔ ان سے الگ تھلگ رہ کر سوچنے کے بجائے مل جل کر سوچنا زیادہ مفید ہوگا”۔ (معاصر اسلامی فکر: ۳۳)
ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
“ان ہزار برسوں میں بڑی تبدیلیاں آچکی ہیں جن کا دستوری، سیاسی، معاشی اور سماجی امور کی تنظیم اور ضابطہ بندی میں نوٹس لینا ضروری ہے۔۔۔ ہر چیز کے بارے میں معلومات بڑھی ہیں اور ان معلومات کی روشنی میں بہت سے پرانے طریقوں پر نظر ثانی کا سلسلہ جاری ہے، اس عمل میں ہر ملک و ملت کے لوگ شریک ہیں کیوں کہ ان میں سے اکثر امور ایسے ہیں جو عالمی سطح پر تنظیم چاہتے ہیں”۔ (معاصر اسلامی فکر: ۲۸۔۲۹)
نجات صاحب کے نزدیک مسائل کے حل میں اشتراک اس لیے بھی بے حد ضروری ہے کیوں کہ مسائل بھی مشترک ہی ہیں۔ وہ مسائل کے اشتراک پر توجہ دلاتے ہوئے کہتے ہیں:
“اسی طریقے سے عام انسانی اخلاقیات میں گراوٹ غیر مسلم سماج میں آئی ہے تو ہمارے اندر بھی آئی ہے؛ اور غربت، امیر غریب کے درمیان بڑھتے ہوئے فرق اور کرپشن وغیرہ جتنے بھی مسائل آپ گناتے چلے جائیے، سب ہمارے سماج میں بھی ہیں۔ تو یہ احساس ہوتا ہے کہ اس بات سے کام نہیں چلے گا کہ آج یورپ، امریکہ، ہندوستان یا کسی اور ملک کی خرابیوں یا موجودہ مسائل کو گنائیں اور کہیں کہ ان سب کا سبب ایک غلط نظام کی پیروی میں ہے۔ آپ نے دعوت قبول کر لی تو یہ مسائل ختم ہو جائیں گے۔ اب یہ احساس ہو رہا ہے کہ ان مسائل کے عملی حل کے لیے جب تک ہم اور وہ دونوں مل کے کوشش نہیں کریں گے، تب تک ان مسائل میں ہم بھی مبتلا ہوتے جائیں گے۔۔۔ واقعہ یہ نہیں کہ ہم کسی منبر پر کھڑے ہیں اور انسانیت ہمارے سامنے ہے، ہم اسے بتا رہے ہیں کہ تمھارے مسائل اتنے سنگین ہیں، ان سے نکلنے کا حل یہ ہے؛ اس کے بجائے اب یہ احساس ہو رہا ہے کہ مسائل میں ہم اور وہ دونوں شریک ہیں، ان کے پیدا ہونے میں بھی کچھ ہمارا اور کچھ ان کا حصہ ہے۔ ان مسائل میں ذمہ داری تمام تر اس بات پر نہیں ڈالی جا سکتی کہ انھوں نے کلمہ نہیں پڑھا ہے، کلمہ تو ہم نے پڑھ رکھا ہے۔ کہیں کچھ اور خامی بھی ہے، کچھ اور کم زوریاں ہیں جو مسائل پیدا کر رہی ہیں”۔ (اکیسویں صدی میں اسلام، مسلمان اور تحریک اسلامی: ۲۰)
موجودہ دور کی ایک اہم خصوصیت بے انتہا پیچیدگی (Complexity) بتائی جاتی ہے (ملاحظہ ہو ضیاء الدین سردار کی کتاب پوسٹ نارمل ٹائم اور مسلم سوسائٹیز ان پوسٹ نارمل ٹائمز)۔ یعنی چیزیں اب اس سادگی سے سبب اور مسبب کے درمیان نہیں دیکھی جا سکتیں جس طرح قدیم زمانے میں دیکھی جاتی تھیں بلکہ اب ہر ایک چیز نہایت گنجلک اور پیچیدہ نظام کے نتیجے کے طور پر دیکھی جاتی ہے۔ نجات صاحب زمانے کی اس خصوصیت سے پوری طرح واقف نظر آتے ہیں اور ان کے نزدیک معاملات کی پیچیدگیوں کا بھی لازمی تقاضا یہ ہے کہ لوگ اشتراک و تعاون کے ساتھ مسائل کی پیچیدگی کو سمجھنے اور ان کا حل دریافت کرنے کی کوششیں کریں۔ چناں چہ وہ لکھتے ہیں:
“ہم بہت آسانی سے بعض چیزوں کی گہرائی میں جائے بغیر کہہ دیتے ہیں کہ لوگ اخلاقی کم زوری میں مبتلا ہیں، اس لیے زوال پیدا ہو رہا ہے۔ اس کے بہت سے اسباب ہوتے ہیں۔ اب آخرت سے لاپروائی، خدا ناشناسی بھی اسباب ہیں، ان سے انکار نہیں ہے، لیکن اضافی اسباب ڈھونڈیے۔۔۔ یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ سارے مسائل کی جڑیں آخرت کو بھولے رہنے میں ہیں۔ وجہیں اور بھی ہوتی ہیں، اور ان وجہوں پر بحث و مذاکرہ کے لیے اپنے غیر مسلم بھائیوں کے ساتھ ہمیں ملنا چاہیے۔ اگر نہیں ملیں گے تو یہی نہیں کہ ان کے مسئلے حل نہیں ہوں گے، ان کی فیملی برباد ہوگی، ہماری بھی برباد ہوگی، ہمارے مسئلے بھی حل نہیں ہوں گے۔۔۔ یہ چیز بھی اپنے ذہن سے نکال دینی چاہیے کہ ہر مسئلے کا ایک ہی حل ہے اور وہ حل ہمیں معلوم ہے۔ دنیا میں بیشتر مسائل ایسے ہیں کہ ان کا حل دنیا میں کسی کو نہیں معلوم! اس میں جماعت اسلامی کے لوگ بھی شامل ہیں۔ مسائل بہت پیچیدہ ہیں۔ چاہے غربت ہو، ناخواندگی ہو، کرائم ہو، عریانیت و فحاشی ہو۔ ہر مسئلے کے بہت گہرے اسباب ہیں اور ان کو سمجھنے اور پرکھنے کے لیے جتنی روشنی ہمیں میسر ہو، روحانی اثرات میں ہمیں جو کچھ مل سکے، وہ سب کچھ درکار ہے”۔ (اکیسویں صدی میں اسلام، مسلمان اور تحریک اسلامی: ۲۴۔۲۵)
وہ اس حوالے سے بھی اشتراک و تعاون کی دعوت دیتے ہیں کہ نئے مسائل کے حل کسی کے پاس بھی تیار نہیں ہیں مگر حل کی تلاش ہر کسی کو ہے تو سب کو مل کر ہی حل تک پہنچنے کی کوشش کرنا چاہیے۔ وہ لکھتے ہیں:
“اکثر نئے مسائل ایسے ہیں جن کا حل کسی کو نہیں معلوم، سب حل کے متلاشی ہیں۔ مسئلہ اس تلاش میں فعال حصہ لینے کا ہے۔ ہمارا خیال یہ ہے کہ مسلمانوں کو ان مسائل سے اپنی لاتعلقی ختم کرکے انھیں اپنا مسئلہ سمجھنا چاہیے، انھیں اپنی مجالس میں بھی زیر غور لانا چاہیے، ان کا اپنے پریس میں چرچا کرنا چاہیے، اور جب بھی جہاں بھی انھیں دوسرے مذاہب و خیالات کے پیروؤں کے ساتھ مل کر ان مسائل پر تبادلہء خیالات کی دعوت ملے، لبیک کہنا چاہیے” (مقاصد شریعت: ۲۴۲)
نجات صاحب کا ماننا تھا کہ گلوبلائزیشن کے نتیجے میں اشتراک و تعاون بے حد آسان بھی ہو گیا ہے اور ضروری بھی۔ چناں چہ وہ لکھتے ہیں:
“لوگوں کے لیے مشترکہ مقاصد کی خاطر باہم تعاون کرنا پہلے کے مقابلے میں زیادہ آسان ہوگیا ہے۔ ظلم کے خلاف احتجاج ہو یا انصاف کا مطالبہ، دوردراز کے لوگوں کے یک زبان ہوکر اٹھ کھڑے ہوجانے میں اب زیادہ دیر نہیں لگتی۔ دنیا کے سکڑ کر ایک گاؤں جیسی ہوجانے کا نتیجہ یہ ہے کہ زندگی کی معروف بھلائیوں کی طلب میں کوئی پیچھے نہیں رہنا چاہتا۔ کسی کو یہ گوارا نہیں کہ وہ انسانی عز و شرف، بنیادی آزادی، عدل و انصاف اور حاجات زندگی کی تکمیل سے محروم رہے، یا اس کے ساتھ برابری کا برتاؤ نہ کیا جائے”۔ (مقاصد شریعت: ۵۸)
ساتھ ہی نجات صاحب کو یہ شکایت بھی تھی کہ مسلمانوں نے بالعموم ہر شعبے اور ہر میدان میں خود کو دنیا سے الگ کرکے رکھنے کی اور اپنی اکیلے کی دنیا قائم کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ اس طریقے پر سخت تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
“مسلمانوں کی الگ دنیا بنانے، اسی میں سانس لینے اور اسی کو سنوارنے میں منہمک رہنے کا طریقہ نہ جدید ہندوستان میں چلنے والا طریقہ ہے نہ یہ طریقہ ایسے مسلمانوں کو زیب دیتا ہے جو دعوت الہی کو اپنا مقصد وجود جانتے ہوں اور پوری ملت کو شہادت حق کے منصب پر کھڑا کرنا چاہتے ہوں۔ ہمارا مقصد اپنی دنیا بنانا نہیں سب کی دنیا سنوارنا ہے اس طرح کہ ان کی آخرت بھی سنور جائے۔ (تحریک اسلامی عصر حاضر میں: ۸۸)۔
ایک دوسری جگہ مقاصد شریعت کے حوالے سے اس موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے مسلمانوں کو اس طرف متوجہ کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
“مسلمانوں کی یہ کیفیت درست نہیں۔ اس کو بدل کر مسلمانوں کو ذہنی، علمی، جذباتی، عملی، ہر سطح پر مشترکہ انسانی مسائل کے حل کی کوشش میں شریک ہونا چاہیے، جیسا کہ مقاصد شریعت کا تقاضا ہے”۔ (مقاصد شریعت: ۲۴۰)
نجات صاحب کا احساس تھا کہ مسلمانوں نے خود کے دوسروں سے مختلف ہونے پر اتنا زیادہ زور دیا کہ نقاط اتفاق و اشتراک ان کی نظروں سے بالکل اوجھل ہوگئے۔ ایسے میں یہ ضروری ہوگا کہ معاصر انسانیت اور اسلام کے درمیان نقاط اتفاق و اختلاف کی تعیین کی کوشش کی جائے۔ (تحریک اسلامی عصر حاضر میں: ۱۶۷)
علوم کے معاملے میں اپنی الگ دنیا بنانے کے رویے پر تنقید کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:
“ہم نے خود کے دوسروں سے مختلف ہونے پر اس قدر زور دیا ہے کہ ہم یہ بھول ہی گئے کہ ہم کس قدر ایک دوسرے سے مماثلت رکھتے ہیں۔ زندگی کے مجموعی معاملات میں مسلمان کسی بھی دوسری قوم کے مانند ہی ہیں۔ جسم کا معاملہ ہو یا عادات کا، دماغ کا معاملہ ہو یا جدید زندگی کی پریشانیوں کا، سماجی روابط کا معاملہ ہو یا نامعلوم مستقبل کے غیرحتمی حالات کے سامنا کرنے کا۔۔۔ ان سب معاملات میں مسلمانوں اور دوسروں کے درمیان فرق کرنا اور دونوں کو علیحدہ کرنا مشکل ہے۔ یہ مسلمانوں کے اپنے مفاد میں ہوگا کہ وہ اس بات کو سمجھیں کیوں کہ وہ اسی کرہ ارض پر رہ رہے ہیں جس پر بقیہ تمام انسان رہ رہے ہیں۔ جب مسئلہ علوم اور ان کے استعمال کا آتا ہے تو تمام نوع انسانی کو ایک جیسے خطرات کا سامنا ہے”۔ (IOK: 27)
وہ کبھی اسلامی اقدار بالمقابل مغربی اقدار جیسی تعبیر استعمال کر دیا کرتے تھے لیکن بعد میں وہ آفاقی مشترکہ اقدار کی تعبیر کو ہی زیادہ پسند کیا کرتے تھے۔ چناں چہ ایک جگہ کہتے ہیں:
“اس بات کا اہتمام کیا جائے کہ مغربی افکار و اقدار کے بالمقابل اسلامی افکار و اقدار کی موزونیت اور برتری ثابت کی جائے اور ہر چہار سو تسلیم کی جانے لگے۔ کیوں کہ اس میدان میں علیحدہ سے کوئی تبدیلی نہیں آسکتی۔ کم از کم افکار و اقدار کے میدان میں دنیا ایک ہے”۔ (ملک کا موجودہ نظام اور تحریک اقامت دین: ۲۷)
اس کے مقابلے میں بین المذاہب اقدامات کی اہمیت پر گفتگو کرتے ہوئے اقدار میں اشتراک کے حوالے سے وہ کہتے ہیں:
“میں تو یہ بھی دعوی کروں گا کہ (اقدار کے معاملے میں) اسلامی اپروچ دوسری مذہبی روایتوں کی اپروچ سے اصلاً مختلف نہیں ہے تاکہ ایک مشترکہ پلیٹ فارم کا قیام ممکن ہو سکے”۔ (Relevance of Religious tradition: 2)
نجات صاحب اقدار کی بنیاد پر اسلام کے پیغام کی وہ آفاقیت محسوس کرتے تھے کہ پھر دستوری، سیاسی، سماجی، معاشی اور علمی معاملات میں پوری انسانیت کے ساتھ مل کر ایک مشترک لائحہ عمل بآسانی بنایا جا سکے۔ معاشیات، علوم اور تحریک کے موضوعات پر نجات صاحب کے یہاں اہتمام زیادہ رہا ہے اس لیے ان تینوں حوالوں سے قدرے تفصیلی گفتگو کرنا اہم ہوگا۔
معاشیات اور اقدار و اشتراک
نجات صاحب کا ماننا تھا کہ معاشیات میں بھی اسلامی نقطہ نظر سے کام کرنے کا ایک اہم تقاضا یہ ہے کہ اسلام کے مجموعی اقدار کے تحت مخصوص معاشی قدروں کو ابھارا جائے تاکہ معاشیات کے سلسلے میں صحیح اسلامی اپروچ پیش کی جا سکے اور یہ کام نجات صاحب کی نظر میں ابھی بہت ہی کم توجہ حاصل کر سکا۔ وہ اس سلسلے میں گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
“اسلام کے مجموعی اقدار کے پس منظر میں معاشی قدروں کے صحیح مقام کی تعیین کے بعد یہ بات واضح کرنی ہوگی کہ اسلام مطلوبہ معاشی ترقی کے لیے قوی محرکات فراہم کرتا ہے اور اس کا اجتماعی نظام اس کے اہتمام کا ذمہ دار ہے۔ اس موضوع پر اب تک بہت کم لکھا گیا ہے۔ موجودہ لٹریچر عام لوگوں کے لیے کچھ مفید ہو سکتا ہے مگر معاشیات کے ماہرین کے لیے تشفی بخش نہیں ہے”۔ (معاصر اسلامی فکر: ۴۲)
وہ اسلامی بینکنگ اور فائنانس کا بھی اسلامی اقدار کے فریم ورک میں بے لاگ تجزیہ کرنے کی دعوت دیتے تھے۔ ایک جگہ وہ عدل و قسط کے حوالے اسلامی بینکنگ اور فائنانس کا جرأتمندانہ تنقیدی جائزہ پیش کرتے ہیں۔ پہلے یہ سوال اٹھاتے ہیں:
“مالیات کے بارے میں اسلامی تعلیمات اور اصلاحات کے بھی یہی دو ہدف رہے ہیں: اعلی کارکردگی اور قیام عدل و قسط۔ اہم سوال یہ ہے کہ معاصر اسلامک بینکنگ اور فنانس نے ان دونوں مقاصد، بالخصوص مقصد عدل کی تحصیل میں کیا مدد کی؟”
آگے اس پر اپنا بے لاگ تجزیہ ان لفظوں میں پیش کرتے ہیں:
“حقیقت یہ ہے کہ گذشتہ برسوں میں اسلامک بینکنگ اور فنانس کے نام پر جو پیش رفت ہوئی اس میں عدل و قسط کے قیام کو مقصود نہیں بنایا جاسکا۔ جیسا کہ ہم نے اوپر ذکر کیا، گذشتہ نصف صدی کا اسلامی معاشیاتی لٹریچر عدل و قسط کی تلاش سے خالی ہے، الا ماشاء اللہ۔ اس لٹریچر میں ترقی اور اس کے لیے درکار شرطوں پر کچھ روشنی تو ڈالی گئی ہے، مگر قیام عدل کے عوامل اور درکار شرائط کی طرف خاطر خواہ توجہ نہیں کی گئی۔ خاص طور پر مسلمان ماہرین نے یہ سمجھنے کی کوشش نہیں کی کہ مطلوبہ عادلانہ معاشی نظام زر و مالیات کے باب میں کیا جوہری تبدیلیاں چاہتا ہے۔ کہیں بازار کا دباؤ اور کہیں سرکار کا دباؤ، ہم کو محض ظاہری یا آلیاتی (Mechanical) تبدیلیاں کرکے مروّجہ طریقوں کو (ظاہر کے اعتبار سے) اسلامی بنانے پر مجبور کرتا رہا”۔ (مقاصد شریعت: ۲۷۳)
نجات صاحب کا ماننا تھا کہ معاشی نظام میں اصلاح کا راستہ نہ تو ریاست کو بالکل بے دخل کرنا ہے معاشی امور سے اور نہ ہی تجارت کی آزادی سلب کر لینا ہے بلکہ ان دونوں کے اپنے اپنے کردار کے ساتھ اصل کام اقدار اور اخلاقیات کے کردار کو بحال کرنا ہے۔ چناں چہ وہ کہتے ہیں:
“حکومت کو تو رہنا ہی ہوگا ہر حال میں تاکہ کم زوروں کو تحفظ مل سکے اور ضروری حد تک سماجی اصولوں کی پابندی یقینی بنائی جا سکے۔ اسی طرح تجارت کرنے کی آزادی بھی لازمی ہوگی تاکہ نت نئے تجربوں کا موقع فراہم کیا جا سکے۔ لیکن تجارت کی آزادی اور ذاتی ملکیت کے حقوق ایک طرف، حکومتی سرپرستی اور نگرانی دوسری طرف اور ان دونوں کے بیچ اخلاقیات اور اقدار کا ایک کردار ہے۔ لیکن کچھ تاریخی اسباب کی بنا پر معاشیات میں اس کردار کو پورے طور سے نہیں دیکھا جا سکا۔” (Interview)
اس طرح دیکھا جا سکتا ہے کہ نجات صاحب معاشیات کے بنیادی مباحث کے مطالعے میں اقدار اور اشتراک کو اپنے فریم ورک میں غیر معمولی اہمیت دیتے ہیں۔ یہ بات تو واضح ہے کہ اب تک کا اسلامی معاشیات پر ہونے والا کام بہت زیادہ اطمینان بخش نہیں ہے۔ البتہ یہ سوال اہم ہے کہ نجات صاحب کے تجویز کردہ اقدار و اشتراک کے خطوط پر اسلامی معاشیات پر کام کس حد تک ممکن اور ثمرآور ہو سکتا ہے۔ اسلامی معاشیات پر کام کرنے والوں کو اس جانب گفتگو کو آگے بڑھا کر کچھ نئے تجربات ضرور کرنے چاہئیں۔
علم اور اقدار و اشتراک
علوم میں اسلامائزیشن معاصر فکر اسلامی سے دل چسپی رکھنے والوں کا ایک اہم اور پسندیدہ میدان رہا ہے جس پر ہونے والی باقاعدہ اور منظم کوششیں پچاس سال سے زائد عرصے کو محیط ہیں۔ اس عرصے میں اسلامائزیشن کے ڈسکورس میں خود بہت کچھ تبدیلیاں سامنے آئیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ تاحال اسلامائزیشن کی تحریک کسی نتیجہ خیز مرحلے تک پہنچنے میں پوری طرح ناکام ہے۔
دور حاضر کے بیشتر اسلامی مفکرین کی طرح نجات صاحب نے بھی اس کو اپنی دل چسپی کا موضوع بنایا لیکن وہ اپنی انفرادی شان کے ساتھ یہاں بھی کھل کر اختلاف اور تنقید کے ساتھ اس موضوع پر اظہار خیال کرتے رہے۔ وہ اسلامائزیشن کی پوری تحریک پر بنیادی تنقید کرتے نظر آتے ہیں۔ اور دل چسپ بات یہ ہے کہ ان کی تنقید کا فریم ورک یہاں بھی اقدار اور اشتراک ہی کے اصولوں پر قائم ہے۔ نجات صاحب کو اسلامائزیشن کی تحریک سے بنیادی شکایت یہی تھی کہ انھوں نے اشتراک و تعاون اور آفاقیت کو اپنے پورے ڈسکورس میں نظر انداز کر رکھا ہے اور اس اشتراک اور آفاقیت کے لیے لازمی ہے کہ مشترک اور آفاقی اقدار کے فریم ورک میں علوم کی تخلیق اور اس کے استعمال کی کوششیں کی جائیں۔
اس موضوع پر نجات صاحب نے ایک بہت فکر انگیز اور تنقیدی مقالہ اسلامائزیشن آف نالج کے عنوان سے لکھا تھا جس کو اسلامائزیشن کی تحریک کے ترجمان مجلہ میں شائع کیا گیا۔ اس مقالہ سے بعض اقتباسات ملاحظہ ہوں۔
“اگر دنیا کے تمام مسلمان بھی اسلامائزیشن کے لیے پر عزم ہو جائیں تو بھی وہ یہ کام صرف اسی صورت میں انجام دے پائیں گے جب بقیہ انسانیت کے ساتھ وہ تعاون و اشتراک کریں۔ وجہ دراصل وہ نظام اور طریقہ ہے جس میں نئے علم کی تخلیق ہوتی ہے اور ان کا استعمال ہوتا ہے۔ علم کی تخلیق ایک ایسے پروسیس کے ذریعے ہوتی ہے جس میں لاکھوں کروڑوں انسانوں کی زندگی صرف ہوتی ہے جن میں بہت سے ایسے ہوتے ہیں جو اداروں کے لیے کام کر رہے ہوتے ہیں اور پوری دنیا میں بکھرے ہوئے ہوتے ہیں اور علم کے استعمال میں بھی صرف جزوی حد تک ہی ممالک کی حکومتیں یا قوانین اپنا اثر رکھتے ہیں۔ اور یہ معاملہ ہر قسم کے نئے علم کے ساتھ ہوتا ہے صرف ان علوم کے ساتھ نہیں جن کا تعلق صنعتی پیداوار سے ہوتا ہے۔ بچوں کو پالنے کا مسئلہ ہو، نوخیزوں کو سنبھالنے کا مسئلہ ہو، شادی بیاہ کے معاملات ہوں، خاندانی نظام کا معاملہ ہو، پڑوس کا ڈھانچہ ہو، آبادی کی منصوبہ بندی ہوں، مختلف سطح پر حکومتی معاملات ہوں، فائنانس میں عالمی تعاون کا مسئلہ ہو، صحت عامہ کا معاملہ ہو، کرائم اور کریمنلس کو ہینڈٰل کرنا ہو، غربت کا ازالہ ہو یا تنازع کا نپٹانے اور امن کی بحالی کے مسائل ہوں۔۔۔ ہماری زندگی کا ہر شعبہ نئے علم کی تخلیق اور اس کے استعمال سے متاثر ہوتا ہے”۔(IOK: 26)
آگے وہ یہ بھی کہتے ہیں:
“ایک آفاقی اور مشترک اخلاقی ویژن کے لیے یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ کسی ایک ہی میراث کے تابع ہو۔ یہ مانتے ہوئے بھی کہ روحانی حقائق جو صحیح اخلاقی وژن بناتے ہیں وہ قرآن و سنت میں پوری طرح موجود ہیں، تاہم یہ بھی درست ہے کہ آسمان سے بھیجے گئے روحانی حقائق کے باقیات ابھی بھی کرہ زمین میں بسنے والی تمام قوموں کے پاس بھرپور ہیں۔ اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے اخلاقیات سے آراستہ کسی طریقہء علم پر اتفاق رائے بنانا ہوگا اور اس کا بھر پور استعمال کرنا ہوگا”۔ (IOK: 29)
آخر میں وہ کہتے ہیں:
خلاصہ یہ ہے کہ میں ایک ایسی تجدیدی کوشش کی تجویز پیش کرتا ہوں جس کا پہلا قدم یہ ہونا چاہیے کہ کچھ بنیادی مشترک اقدار کو دریافت کیا جائے جو ہر ایک کے لیے یعنی پوری انسانیت کے لیے قابل قبول ہوں۔ ان اقدار میں عدل وقسط، احسان، باہمی تعاون سر فہرست شامل ہوں گے۔ زور اس پر دیا جانا چاہیے کہ علم میں توسیع بھی ہو اور علم کے استعمال میں اخلاقی اقدار کی پاسداری کا پورا خیال بھی رہے۔ (IOK: 31)
اور اس پوری گفتگو میں وہ غیر حتمیت اور تواضع کو لازمی قرار دیتے ہیں جیسا کہ ہم نے شروع ہی میں ان کو نقل کیا تھا کیوں کہ اس میں یہی دو رکاوٹیں سب سے بڑی ہیں۔ ایک یہ کہ ہم کو سب کچھ قطعی طور پر معلوم ہے اور دوسرا یہ کہ صرف ہم ہی کو معلوم ہے۔ اور ان دونوں کا علاج نجات صاحب کے نزدیک غیر حتمیت اور تواضع کو پیدا کرنا ہے۔
تحریک اسلامی، ہندوستان اور اشتراک و تعاون
ہندوستان کے تناظر میں بھی نجات صاحب کا بہت واضح موقف یہی رہا ہے کہ مسلمانوں اور بالخصوص تحریک اسلامی ہند کو ملک کے بقیہ لوگوں کے ساتھ مل کر ملک کے تمام معاملات دستوری، سیاسی، معاشی، سماجی وغیرہ میں مشترک اقدار کی بنیاد پر اشتراک و تعاون کے ساتھ فعال کردار ادا کرنا چاہیے۔ اور ساتھ ہی ان کو ہندوستانی مسلمانوں بشمول تحریک اسلامی ہند سے یہ شکایت بھی رہی کہ انھوں نے ہمیشہ صرف مسلمانوں ہی پر پورا فوکس کیا اور ملک کے اداروں اور مشترک معاملات سے بڑی بے زاری کا برتاؤ روا رکھا۔ اس سلسلے میں وہ ایک طرف ملکی فلاح و بہبود کی منصوبہ بندیوں اور کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی دعوت دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں:
“اس ملک کی فلاح و بہبود سے ہر سطح پر گہری حقیقی عملی دل چسپی لی جائے اور اس طرح لی جائے کہ عام ہندوستانی تحریک اسلامی کے کارکنوں کو بالخصوص اور عامة المسلمین کو بالعموم ملک کے بہی خواہ معماروں اور خادموں کی حیثیت سے جاننے اور پہچاننے لگے۔۔۔ کسی خیر پسند گروہ کے لیے اشتراک عمل کے لیے بنیادیں تلاش کرنا دشوار نہیں۔ تعمیر و ترقی کے ضمن میں جو غور و فکر اور بحث و مباحثہ مسلسل جاری ہے اس میں بھی اپنے مخصوص زاویہ نگاہ سے حصہ لینے کی گنجائش ہے۔ اور اس بات کی بھی کہ تعمیر کے جن اہم پہلوؤں کو ہدایت الہی سے محروم نگاہیں نظر انداز کر رہی ہوں انھیں اپنا میدان کار بنا کر ان کی طرف ملک کی توجہات مبذول کرائیں۔ کنارے کھڑے ہوکر وعظ و ارشاد کے بجائے تعمیر و ترقی کی جد و جہد میں خیالات اور عمل کے ذریعے عام ہندوستانیوں کے ساتھ شریک ہو کر اور انھیں شریک بنا کر ان کومخاطب دعوت بنانا زیادہ مؤثر ہوگا”۔ (تحریک اسلامی عصر حاضر میں: ۸۱۔۸۲)
مسلم نوجوانوں کو اس جانب متوجہ کرتے ہوئے ایک دوسری جگہ کہتے ہیں:
“ہم پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ اسلام انصاف کے ساتھ ترقی کرنے کی پوری طرح حمایت کرتا ہے، اس لیے ہم اسلامی تحریک سے متعلق ہو کر ایک اچھا معاشرہ تخلیق کرنے سے علیحدہ نہیں رہ سکتے۔ ان مقاصد کے حصول کے لیے ہمیں چاہیے کہ ہم اقتصادی ترقی، آمدنی و دولت کی یکساں تقسیم اور دوسرے پروگرام جو چلائے جا رہے ہیں ان کی پوری حمایت کریں اور ان کاموں میں تعاون کریں۔ یہ بات اس وقت اور بھی زیادہ ضروری ہو جاتی ہے جب ہم چاہیں کہ ہماری بات سنی جائے اور ہمارے پیغام کو قبول کیا جائے۔۔۔ اس لیے میں مسلمان نوجوانوں پر زور دوں گا کہ متذکرہ بالا مشنری کام کے ساتھ ساتھ محنت کرنے، قومی مقاصد حاصل کرنے، منصوبوں کو پورا کرنے، تعلیم کے لیے مقرر کیے گئے نشانوں کو مکمل کرنے میں اپنے ہم وطنوں کے ساتھ تعاون کریں”۔ (نئے ہندوستان کی تعمیر اور مسلم نوجوان: ۳۶۔۳۷)
نجات صاحب جب اس اشتراک اور تعاون کی دعوت دیتے ہیں تو اس کے پیچھے ایک اہم محرک ان کا اقدار پر فوکس ہے، زمانے کی تبدیلی کا شعور اور دین کے معاملے میں ان کا فہم ہے جس پر اوپر قدرے تفصیل سے گفتگو کی گئی ہے۔ مثال کے طور پر ملاحظہ ہوں ان کے یہ دو اقتباس:
“ہمارے ذہن میں ہندوستان کی تعمیر کا جو نقشہ ہے وہ ایک ایسے سماج کا ہے جس میں انسان آزاد ہو، اسے ساری سہولیتیں دستیاب ہوں اور جہاں آزادی اور سماجی انصاف کے ساتھ ساتھ اقتصادی ترقی کی ضمانت بھی ہو۔۔۔ یہی بات تحریک اسلامی اور حرکت و عمل کے وطنی محرکات اور امنگوں کے درمیان نقطہ اتصال بن سکتی ہے”۔ (نئے ہندوستان کی تعمیر اور مسلم نوجوان: ۳۳)
“رہا مقاصد اور بنیادی اصولوں کا سوال تو ہم یہ دیکھتے ہیں کہ مساوات، آزادی،عدل، شورائیت وغیرہ اکثر آخری اسلامی قدروں کو ہندوستان بھی اختیار کر چکا ہے۔ اختلاف تعبیر، تقاضوں کی تعیین اور طریقہ حصول میں زیادہ ہے”۔ (ملک کا موجودہ نظام اور تحریک اقامت دین: ۳۶)
فرقہ واریت کے بڑھتے ماحول اور ملت کے دفاع کے موضوع پر بھی وہ اسی فریم ورک میں حل ڈھونڈھتے نظر آتے ہیں۔ چناں چہ وہ لکھتے ہیں:
“اپنی بہترین مدافعت یہ ہوگی کہ ہم عوام سے اپنے بہی خواہانہ اور خادمانہ تعلق میں فرق نہ آنے دیں۔ ملک کی تعمیر و ترقی میں مسلسل اشتراک و تعاون کرتے رہیں۔ بالخصوص کم زور و محروم کی نصرت و حمایت میں کوئی دقیقہ نہ اٹھا رکھیں، یہی رویہ دلوں میں جگہ بنانے اور بے زاری و روگردانی کی جگہ الفت و یگانگت پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے”۔ (تحریک اسلامی عصر حاضر میں: ۸۶)
اس طرح فکر اسلامی کے اصولوں میں مشترکہ اقدار پر خصوصی توجہ اور انسانیت کے ساتھ اشتراک و تعاون کے رویے پر زور دینا بھی اہمیت کا حامل ہوگا۔
خلاصہ
ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی منفرد شخصیت کے مالک تھے۔ وہ تحریک اسلامی کے ایک فعال رکن بھی تھے اور تحریک اسلامی کے بنیادی مسلمات پر نظر ثانی کی جرأت بھی کرتے تھے۔ وہ اسلامی علوم کے ایک عظیم اسکالر بھی تھے لیکن اسلامیات پر گہری اجتہادی نظر بھی رکھتے تھے۔ وہ اسلامی معاشیات کے داغ بیل ڈالنے والوں میں بھی تھے اور اسلامی معاشیات پر جوہری تنقید بھی کرتے تھے۔ وہ علما و مفکرین کا بے حد احترام بھی کرتے تھے اور ان سے بھرپور اختلاف بھی کرتے تھے۔ وہ ایک عظیم مفکر اور بلند پایہ عالم دین تھے۔ ان کی فکر کا خلاصہ سوچنا اور خوب سوچنا اور پھر سوچ پر تنقید کرتے رہنا ہے۔ ان کے طرز فکر میں اسلامی فکر کے میدان میں کام کرنے والوں کے لیے سیکھنے، سمجھنے، اور غور و فکر کرنے کا بہت کچھ سامان موجود ہے۔ یہ مقالہ ان کے افکار کا اصولی و منہجی خلاصہ ہے۔ اس میں سات اصولی و منہجی خطوط پر قدرے تفصیل سے روشنی ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے اس امید کے ساتھ کہ فکر اسلامی کے اصولی اور منہجی فریم ورک پر دل چسپی رکھنے والوں کے لیے غور و فکر کی کچھ نئی جہتیں سامنے آسکیں۔
مشمولہ: شمارہ اگست 2023