موجودہ دور میں دینی تعلیم کی اہمیت

مفتی تنظیم عالم قاسمی

بلا شبہ تعلیم وہ بنیادی اینٹ ہے جس پر صالح معاشرے اور ملک و ملت کی پوری عمارت کھڑی ہے ۔ کسی بھی قوم اورطبقہ کی ترقی کا پہلا زینہ تعلیم ہے ۔ تاریخ میں جن لوگوں نے اقوام عالم پر برتری حاصل کی اور پوری دنیا میں اپنی طاقت کا احساس دلایا ، ان کی بنیاد اور اصل سبب تعلیمی میدان میں سبقت ہے ۔ تحصیل علم و فن نے اُنھیں منفرد اور اعلیٰ مقام بخشا ۔ اپنے زمانے کے علاوہ بعد میں بھی وہ نامور ثابت ہوے ۔ ان کے عظیم کارنامے آج بھی سنہرے لفظوں سے لکھے جانے کے قابل ہیں۔

علم بھلائیوں اور نیکیوں کا سرچشمہ بھی ہے اور تمام مفاسد کا مداوا بھی ہے۔ اقتصادی مسائل کا حل بھی اس میں پوشیدہ ہے اور عزت و افتخار کا منبع بھی یہ ہے ؛ اس لئے مذہب اسلام نے اپنے سفر کا آغاز ہی علم سے کیا۔ اور اس نے علم کو جو اہمیت دی ہے ، وہ محتاج بیان نہیں ہے۔ دنیا کے تمام مذاہب میں اسلام کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اس نے علم اور جہل کے درمیان خط فاصل کھینچ کر صاف لفظوں میں بتایا :

قُلْ ہَلْ یَسْتَوِیْ الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ۔ ﴿الزمر : ۹﴾

’’ اے نبی ! آپ پوچھیے کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے دونوں کبھی یکساں ہوسکتے ہیں ؟ ‘‘

ظاہر ہے کہ علم روشنی ہے اور جہالت تاریکی ۔ اندھیرے اور اجالے کا فرق کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں ۔ ایک عام آدمی بھی دونوں کے فرق مراتب اور دونوں کے نفع و نقصان سے باخبر ہے ۔ عبادت اور ذکر و اذکار میں بھی یہ فرق ملحوظ رکھا گیا ۔ ایک ناواقف شخص نماز ادا کرتا ہے یا قرآن کی تلاوت کرتا ہے ، اپنے اخلاص کی وجہ سے یقینا وہ اجر و ثواب کا وہ مستحق ہوتا ہے ۔ لیکن وہ لوگ جن کو خدا کی معرفت حاصل ہے ، نماز میں پڑھے جانے والے کلمات کے معنی و مفہوم اور قرآنی آیات کے رمز شناس ہیں ، ان کی نماز ‘ ان کی تلاوت اور ان کے تمام اعمال خیر میں حقیقی روح پائی جاتی ہے ، خدا کی طرف تیز گامی سے ان کا سفر طے ہوتا ہے اور بہت جلد ان کو رب کی رضامندی نصیب ہوجاتی ہے ۔

علم کا تعلق خواہ دنیا سے ہو یا دین سے ، مذہب اسلام نے دونوں کو قدر کی نظروں سے دیکھا ہے ۔ اسلام بنیادی طور پر کسی بھی ایسے علم کا مخالف نہیں جو انسانیت کے لئے نافع ہو اور نہ وہ کسی زبان کی مخالفت کرتا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زید بن ثابتؓ  کو عبرانی زبان سیکھنے کی ہدایت دی ؛ بلکہ ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کو چھے زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ ان کے علاوہ بھی دیگر بعض صحابۂ کرام کو عربی کے علاوہ مختلف زبانوں پر قدرت حاصل تھی ۔ اگر دوسری قوموں کی زبانیں اور ان کے علوم و فنون ناپاک اورناقابل التفات ہوتے تو نہ صحابۂ کرام کو اس کی ہدایت دی جاتی اور نہ وہ اس کی طرف رخ کرتے۔ لیکن اس سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بحیثیت مسلمان ایک شخص کا اولین فریضہ ہے کہ وہ سب سے پہلے قرآن و حدیث اور دینی علوم و فنون حاصل کرے ۔ تاکہ خدا اور اس کے رسول ﷺ  کی معرفت حاصل ہو اور مقصد حیات کی طرف اس کا سفر آسانی سے طے ہوسکے ۔ دنیوی علوم کا تعلق محض اقتصادیات ومعیشت  سے ہے ۔ اخلاص اور جذبۂ خیر کی بنیاد پر اس کے سیکھنے کی گنجایش رکھی گئی ہے ۔لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اپنی ساری توانائی اس کے پیچھے خرچ کردی جائے اور علوم دینیہ سے چوںکہ بظاہر معاش وابستہ نہیں ؛ اس لیے ان کے ضروری گوشوں سے بھی آنکھیں بند کرلی جائیں۔ یہ جذبۂ اسلامی نہیں ہوسکتا۔ یہ ان لوگوں کا نقطۂ نظر ہے ، جنہوں نے دنیا ہی کو سب کچھ سمجھ رکھا ہے ۔ وہ یہیں کے عیش و عشرت اورکامیابی کو حقیقی کامیابی اور مقصود حیات تصور کرتے ہیں۔ لیکن جن کی نظر موت کے بعد کی زندگی اور جنت کی عظیم ترین نعمتوں پر ہے ، ان کے نزدیک قرآن مجیدکی ایک آیت سیکھنا دنیا کے سارے علوم و فنون سے افضل ہے ۔ وہ کبھی ان ڈگریوں اور عہدوں سے مرعوب نہیں ہوتے ، جن کو جدید ذہنیت کے بعض مسلمانوں نے معراج کا درجہ دے دیا ہے ۔

اسلام جس علم کو واجب اور ضروری قرار دیتا ہے اور جس علم کی بنیادی اور اولین اہمیت ہے وہ علم دین اور علم آخرت ہے ۔ علم دین سے محروم انسان چاہے دنیا کے کیسے ہی اہم اور عظیم الشان علوم و فنون کا فاضل اور ماہر ہو ، دین و شریعت کی نظر میں وہ جاہل ہی ماناجائے گا۔ کیوںکہ علم دین ہی وہ علم ہے جو انسان کو اس کے خالق اور رب کا عرفان عطا کرتا ہے ۔ ذہن و فکر کو صحیح عقائد اور اعلیٰ خیالات کی جلا بخشتاہے ۔ اعمال و افعال کو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا صحیح رخ دے کر اس صراط مستقیم پر گامزن کرتا ہے ۔ جو دائمی نجات اورابدی عزت و افتخار کا باعث ہے ۔ اس لئے قرآن و حدیث میں جہاں کہیں بھی ’’ علم ‘‘ کا لفظ آیا ہے ، مفسرین کی وضاحت کے مطابق تمام جگہوں پر علم دین مراد ہے ، جس کا تعلق قرآن و حدیث اور فقہ کے جاننے اور سیکھنے سے ہے ۔

علم دین کا سیکھنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ اسلام نے جتنے بھی احکام دیے ہیں، ان پر علم کے بغیر عمل نہیں ہوسکتا ۔ نماز کی مثال لیجئے ، اس میں ابتدائ سے سلام پھیرنے تک کچھ سورتیں کچھ دعائیں اور کچھ ذکر و اذکار زبان سے ادا کئے جاتے ہیں اور پھر تھوڑی سی خطا نماز کو فاسد کردیتی ہے۔ نماز جو پہلی اور اہم ترین عبادت ہے ، اس کو ادا کرنے کے لئے علم کی سخت ضرورت ہے ۔ اس کے بغیر وہ ادا نہ ہوگی ، تمام عبادتوں کا یہی حال ہے۔ اسی لیے اسلام کا پہلا سبق ہی علم سے شروع کیا گیا ہے۔ پہلی وحی سورہ ’’ علق ‘‘میں سب سے پہلا لفظ ’’ اقرأ ‘‘ ہے ۔ جس کا مطلب پڑھیے اور اپنی امت کو پڑھنے کی تلقین کیجیے۔ یہ پڑھنا اس لیے ضروری ہے کہ آگے نماز ، روزہ ، زکوۃ ، حج ، نظافت و طہارت ، حلال و حرام وغیرہ پر مشتمل جو اسلامی شریعت کا مکمل اصول دیا جارہا ہے ، اس پر عمل پڑھے بغیر نہیں ہوسکتا۔ اسی لئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقعے پر ارشاد فرمایا : ’’ ولادت کے بعد سے موت تک علم حاصل کرتے رہو ‘‘ —- اس کے لیے عمر کی حد متعین ہے اور نہ کوئی جگہ ۔ جس شہر اور جس علاقے سے بھی علم کی تحصیل ممکن ہو مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے کہ وہ پہلی فرصت میں علم حاصل کریں ۔

علم دین کی اسی اہمیت کے پیش نظر تمام محدثین نے ’’ کتاب العلم ‘‘کے نام سے مستقل باب باندھا ہے ، اور امام بخاریؒ نے اپنی شہرۂ آفاق تالیف ’’ صحیح بخاری ‘‘ میں ’’ کتاب الایمان ‘‘ کے متصلاً بعد ’’ کتاب العلم ‘‘ کا باب قائم کیا ۔ اس لیے کہ علم نہیں تو نماز نہیں ، علم نہیں تو شریعت نہیں، علم نہیں تو خدا کی معرفت نہیں اور علم نہیں تو ایمان کی نظافت اور چاشنی نہیں۔ قرآن کریم نے اہل علم کا اسی لئے بڑا مقام بیان کیا ہے :

یَرْفَعِ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰ مَنُوْا مِنْکُمْ وَالَّذِیْنَ أُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ۔ ﴿المجادلۃ :۱۱﴾

’’ اللہ تم میں سے ایمان والوں کے اور ان کے جنہیں علم عطا ہوا ہے درجے بلند کرے گا ‘‘

اہل علم مؤمنین میں شامل ہیں ۔ پھر بھی قرآن نے خصوصیت سے ان کا تذکرہ کیا ہے ۔ اس لئے کہ دین و شریعت کا علم رکھنے والوں میں خدا ترسی اور للہیت زیادہ پائی جاتی ہے ۔ اس لیے اجر و ثواب اور رفع درجات میں دیگر مؤمنین کے مقابلے میں ان کا مقام بلند ہے۔ دوسری مختلف آیات میں بھی علم کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے اور مختلف انداز سے مسلمانوں کو ابھارا گیا ہے کہ وہ علم دین سیکھیں اور اس پر عمل کریں —رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مختلف ارشادات کے ذریعے علم دین میں منہمک اور مشغول رہنے والے افراد کا بلند مقام ومرتبہ بیان فرمایا ۔ چنانچہ حضرت انسؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

’’ من خرج في طلب العلم کان في سبیل اللہ حتی یرجع ‘‘ ﴿ترمذی ، کتاب العلم ، باب فضل طلب العلم ، حدیث نمبر : ۲۵۷۱﴾

’’ جو بندہ علم کی طلب و تحصیل میں گھر سے نکلا وہ اس وقت تک اللہ کے راستے میں ہے جب تک واپس نہ آئے ‘‘ ۔

ایک دوسری روایتیت میں ہے :

’’ ان اللہ وملائکتہ وأہل السماوات والأرضین حتی النملۃ في حجرہا وحتی الحوت لیصلون علی معلم الناس الخیر ‘‘ ﴿ترمذی ، کتاب العلم ، باب ما جائ في فضل الفقہ علی العبادۃ ، حدیث نمبر : ۲۶۰۹﴾

’’ اللہ تعالیٰ رحمت نازل فرماتا ہے اوراس کے فرشتوں اور آسمان و زمین میں رہنے والی ساری مخلوقات یہاں تک کہ چیونٹیاں اپنے سوراخوں میں اور پانی میں رہنے والی مچھلیاں بھی اس بندے کے لئے دعائے خیر کرتی ہیں ، جو لوگوںکی بھلائی اور دین کی تعلیم دیتا ہے ‘‘۔

ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ ’’جس بندے کو اس حالت میں موت آجائے کہ وہ اس نیت سے علم دین کی طلب و تحصیل میں لگا ہو کہ اس کے ذریعہ اسلام کو زندہ رکھے تو جنت میں اس کے اور پیغمبروں کے درمیان بس ایک درجہ کا فرق ہوگا ۔ ﴿مسند دارمی﴾

علمائے دین کو انبیاء کرام کا وارث اور ان کے حصولِ علم کو جنت کی طرف مسافت طے کرنے سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ ان کے ساتھ دنیا کی تما م مخلوقات کی دعائیں شامل حال رہتی ہیں ۔ یہ اور اس طرح کے دیگر ایسے فضائل بیان کیے گئے ہیں ، جن سے ان کی غیر معمولی اہمیت اور ان کے بلندیٔ مقام کا اندازہ ہوتا ہے اور جس میں دوسرا کوئی ان کا ہمسر نہیں ۔

ان فضائل کا تقاضا ہے کہ مسلمان سب سے پہلے دینی تعلیم حاصل کریں اور اسی میں اپنی کامیابی تصور کریں ۔ اگر مکمل علم حاصل نہ کیا جاسکے اور فضیلت تک تعلیم کسی سے ناممکن ہو تو کم از کم اتنا علم ضرورحاصل کرلیں، جس سے اسلامی زندگی گزاری جاسکے ، حلال و حرام کی تمیز ہو اور یہ معلوم ہوجائے کہ ہمارا اسلام سے کیا تعلق ہے ، وحدانیت اور رسالت کے بنیادی امور کیاہیں ، ایک مسلمان کے لیے کن چیزوں کا جاننا ضروری قرار دیا گیا ہے — اس لیے کہ ان چیزوں کو جانے بغیر شریعت پر عمل نا ممکن ہے اور اہل ایمان کے نزدیک شریعت پر عمل ہی مقصد حیات اور ساری سرگرمیوں کا منبع اور سرچشمہ ہے۔ لیکن یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ دور حاضر میں قرآن کی تعلیم پر انگریزی تعلیم کوفو قیت دے دی گئی ہے — ساری زندگی گزر جاتی ہے ، مگر صحیح طرح سے قرآن مجید پڑھنا نہیں آتا۔ طہارت اور وضو وغسل کے مسائل معلوم نہیں ، نماز کے فرائض و واجبات ، تشہد و درود ، دعائے قنوت اور دیگر ذکر واذکار ٹھیک طرح پڑھنا نہیں جانتے ۔ بلکہ کتنے ایسے لوگ ہیں جو دنیوی علوم و فنون کے ماہر ہیں ، مگر نمازوں کی تعداد رکعت کا بھی انھیں علم نہیں ہے۔ کیا یہ اس بات کی دلیل نہیں کہ مغربی تہذیب سے متأثر ہوکر ہم نے معیار زندگی کو بہتر اور بلند کرنے کی فکر کی ہے ۔ آخرت کی ابدی زندگی کو بہتر بنانے اور روز محشر کی ہولناکیوں سے نجات کی کوئی فکر نہیں ہے ۔دیگر اقوام کی طرح دنیا کی چند روزہ زندگی کو ساری سرگرمیوں کا مرکز بنالیا ہے ۔ موت کے بعد کی زندگی کا ہمیں کوئی احساس نہیں۔ یہ ایمان و یقین کے نہایت کمزور ہونے اور آخرت سے منہ موڑ لینے کا واضح ثبوت ہے ۔

حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے دینی تعلیم سے متعلق مسلمانوں کی کوتاہیوں اور ان کے فاسد خیالات کا ذکر کرتے ہوئے فر مایا:

’’ پس جن کو حق تعالی نے فراغت دی ہے ، وہ اپنے بچوں کو پورا قرآن پڑھائیں اورجن کے دو چار لڑکے ہوں وہ ان میں سے ایک کو حافظ بھی ضرور بنائے۔ حفظ قرآن کی بڑی فضیلت ہے ۔ قیامت میں حافظ کی شفاعت سے ایک بڑی جماعت کی بخشش ہوگی اور اس کے والدین کو ایسا تاج پہنایا جائے گا ، جس کی روشنی سے آفتاب بھی ماند ہوجائے گا ۔ اس سے اندازہ کرلو کہ خود حافظ کی کیا کچھ قدر و منزلت ہوگی ، جب اس کے والدین کی یہ عزت ہوگی۔ اس لیے اس دولت کو بھی ضرور حاصل کرنا چاہیے ۔ مگر جن کو فراغت نہ ہو وہ سارا نہ پڑھیں ، مگر کچھ تو ضرور پڑھ لیں۔ کتنے شرم کی بات ہے کہ مسلمان اپنے مذہب کی کتاب سے بالکل ہی ناآشنا ہوں۔ افسوس آج کل تعلیم یافتہ طبقہ قرآن پڑھانے کو بالکل بیکار اورفضول سمجھتا ہے ۔ چنانچہ رامپور میں ایک جنٹلمین نے اپنے دوست سے کہا کہ آپ بھی اپنے بچے کو انگریزی اسکول میں بھیجیں۔ انھوں نے کہا کہ نصف قرآن پاک اس کا رہ رہا ہے ، وہ ہوجاوے تو بھیجوں۔ انھوں نے پوچھا نصف قرآن پاک کتنے روز میں ہوا ہے ، وہ بولے دو سال میں۔اس نے کہا کہ تم نے اپنے بچے کے دو سال ضائع کیے ، دو سال اور کیوں ضائع کرتے ہو ۔ اس مدت میں یہ ایک دو درجہ تو تعلیم کا طے کرتا ، انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔اس ظالم کو یہ خبر نہیں کہ اس قرآن پڑھنے والے لڑکے نے دو سال میں نہ معلوم جنت کے کتنے درجے طے کرلیے ہیں ۔ کیوںکہ قیامت میں قرآن پڑھنے والے کو حکم ہوگا کہ قرآن پڑھتے جاؤ اور چڑھتے چلے جاؤ ۔ جہاں تمہارا قرآن رک جائے وہیں تم رک جاؤ ۔ بس وہی تمہارا درجہ ہے ۔ تعلیم یافتہ لوگوں کو تو اسکول کے درجوں کی ضرورت ہے ۔ جنت کے درجوں کی کیا ضرورت ہے ۔ اس لیے قرآن کریم پڑھانے کو بیکار سمجھتے ہیں۔ مگر ذرا ٹھہریں ابھی چند دن میں مرنے کے بعد۔ بلکہ مرتے وقت ہی معلوم ہوجائے گا کہ اسکول کے درجوں کی ضرورت تھی یا جنت کے درجوں کی ‘‘ ۔                         ﴿خطبات حکیم الا مت جلد ۲۷صفحہ ۱۶۲﴾

ایک شاعر نے حقیقت کی بہترین ترجمانی کی ہے :

فسوف تری اذا انکشف الغبار

أفرس تحت رجلک أم حمار

’’ غبار جانے دو عنقریب دیکھ لوگے کہ تم گھوڑے پر سوارتھے یا گدھے پر ‘‘

یعنی ابھی تو دنیوی جاہ و عزت کا نشہ چڑھا ہوا ہے ۔ اس لیے جتنا چاہیں دینی تعلیم کو حقارت کی نظروں سے دیکھ لیں ۔ بہت جلد معلوم ہوجائے گا کہ گھوڑے پر سوار تھے یا گدھے پر۔ موت کے بعد جب حقیقت سامنے آئے گی تو افسوس ہوگا کہ ساری عمر ڈاکٹری ، انجنیئری اور دنیوی تعلیم میں گنوادی ، قرآن کا ایک لفظ بھی نہیں پڑھ سکا ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث بھی یاد نہیں کرسکے ، دین کا ضروری علم جو ہر مسلمان پر فرض تھا ، اس سے منہ موڑ کر اسکولوں کی ڈگریاں حاصل کرتے رہے ، آہ ، یہ ڈگری آج کسی کام کی نہیں۔ موت کے بعد ان لوگوں کو شدید مایوسی ہوگی اور لامتناہی افسوس ہوگا ، مگر اس افسوس سے کیا حاصل ؟

دینی تعلیم جس طرح خود حاصل کرنا ضروری ہے ، اسی طرح اپنی اولاد کو بھی اس سے آراستہ کرنا والدین کی ذمہ داری ہے۔ قیامت کے دن ماں باپ سے اولاد کے متعلق سوال کیا جائے گا : ماذا علمتہ وما ذا أدبتہ ؟ ’’ تم نے بچوں کو کیا تعلیم دی اور کیسا ادب سکھایا ؟ ‘‘او لاد کو دنیوی تعلیم سے آراستہ کیا گیا ؛ لیکن دینی تعلیم نہیں دی گئی تو والدین گنہگار ہوں گے اوراو لادکی معصیت میں وہ برابر کے شریک ہوں گے ۔ اس لیے بچوں کو قرآن مجید کی تعلیم دینا ، علم دین سکھانا اور اسلامی آداب سے مزین کرنا بہت ضروری ہے۔ جس نے اپنی اولاد کو ادب سکھایا ، اسلامی تہذیب اور اسلامی تعلیمات سے آراستہ کیا ، اس نے گویا ان کو لازوال نعمت عطا کی ، اس کے بہتر نتائج دنیا و آخرت دونوں جگہ حاصل ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا :

’’ مانحل والد ولدًا من نحل أفضل َمن أدب حسن ‘‘ ﴿ترمذی ، کتاب البر والصلۃ ، باب ما جائ فی أدب الولد ، حدیث نمبر : ۱۸۷۵﴾

’’ والدین کا بہترین عطیہ اولاد کی صحیح تعلیم و تربیت ہے ‘‘ ۔

تربیت بہتر عطیہ اس لئے ہے کہ اولاد کو بہت ساری جائداد اور بلڈنگیں بناکر دی جائیں ۔ ان میں اگر اپنی خوبی نہیں ہے یا ان کی قسمت میں نہیں ہے تو دولت اور ملکیت رفتہ رفتہ کم ہوتی جائے گی اور ایک دن وہ خود محتاج بن جائے گا ۔ لیکن بہتر تعلیم و تربیت کے نتیجے میں ہرجگہ ان کی عزت ہوگی اور وہ ہمیشہ باقی رہے گی ۔ اس کے کم یا چوری ہونے کا سوال نہیں ہے۔ اس لیے وہ شخص جس نے دین و اخلاق سے اپنی اولاد کو محروم رکھا ، اس نے بڑے خیر سے انہیں محروم کردیا ۔

موجودہ دور میں مدارس ومکاتب اور دینی تعلیم کی طرف مسلمانوں کا رجحان بڑی تیزی سے کم ہوتا جارہا ہے ۔ عام طور پر اسکولوں اور کالجوں میں پائے جانے والے مختلف عصری علوم سے اولاد کو آراستہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ یہ اس لیے کہ مدارس میں بچوں کا مستقبل روشن نظر نہیں آتا ۔ وہاں تنخواہیں معمولی ہوتی ہیں ، جن سے معیار زندگی کو بہتر نہیں بنایا جاسکتا ۔ یہ ذہنیت ان لوگوں کی ہے جو اپنی آنکھوں میں دنیا داروں کی عینک لگائے آخرت کی راہ طے کرنا چاہتے ہیں اور جو موجودہ ماڈرن زندگی کے سانچے میں اپنے آپ کو ڈھالنا چاہتے ہیں۔ حالاںکہ اسلام نے اخروی زندگی کو اصل اور دنیا کو مسافر کی طرح عارضی سمجھنے کی تاکید کی ہے۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سادگی کے ساتھ زندگی گزارکر پوری امت کو پیغام دیا ہے کہ آخرت پر نظر رکھنے والوں کے لیے دنیوی آسایش کی ضرورت نہیں ، ان کا ہر قدم دائمی اور ابدی راحت کی طرف اٹھنا چاہیے ۔

اسی کے ساتھ یہ حقیقت بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ قلبی اور ذہنی سکون اور حقیقی راحت کا تعلق پیسوں اور عہدوں سے نہیں ہے ، ورنہ اہل ثروت اچھی تنخواہیں پانے والے اور بڑے بڑے عہدیدار ذہنی تناؤ کا شکا ر ہوکر خود کشی نہیں کرتے ، قرآن و حدیث کے پڑھنے پڑھانے والے اگرچہ بوریہ نشیں ہوتے ہیں ، ان کے پاس اے سی (A.C) اور اعلیٰ آرام دہ چیزیں نہیں ہوتیں ؛ لیکن قدرت کی جانب سے انہیں قرآن اور دین کی برکت سے غیر معمولی سکون اور قابل رشک زندگی نصیب ہوتی ہے ، وہ کم تنخواہیں پاکر بھی خوش اور مطمئن رہتے ہیں۔ وہ کبھی پریشان اور شاکی نہیں رہتے۔ خدا کی مدد ان کے ساتھ شامل حال ہوتی ہے۔ اس لیے کسی مدرسے کے فاضل اور کسی مکتب کے مولوی کے بارے میں آپ کوئی مثال نہیں بتاسکتے کہ پریشانی اور مختلف مصا ئب سے مجبور ہوکر کبھی انھوں نے خود کشی کی ہو ۔

آپ سے یا کسی سے یہ مطالبہ نہیں کیا جاتا کہ اپنے بچوں کو دینی تعلیم ہی کے لیے وقف کردیں۔ ایسا ہوسکتا ہے کہ اپنی اولاد کو حفظ قرآن ، دینیات ، تجوید اور ضروری دینی تعلیم دے کر عصری علوم میں داخل کردیں ، اس سے ان کا ایمان مضبوط ہوگا۔ مستقبل میں بے حیا اورمشرکانہ ماحول سے وہ متأثر نہیں ہوگا۔ اس کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی معرفت کے ساتھ ماں باپ کا ادب و احترام اورچھوٹے بڑے کی تمیز معلوم ہوگی ۔ والدین قیامت کے دن مؤاخذے سے محفوظ رہیں گے ۔ دینی تعلیم کی برکت سے قوت حافظہ میں اضافہ ہوگا اور عصری علوم میں نمایاں مقام وہ حاصل کرسکیںگے۔ آج ہزاروں کی تعداد میں پروفیسر ، انجینئر اور ڈاکٹرس ایسے ہیں جنھوں نے باضابطہ پہلے دینی تعلیم حاصل کی اور پھر عصری علوم کی طرف متوجہ ہوے اور بڑی کامیابی کے ساتھ علمی سفر طے کیے ، دینی تعلیم بقدر ضرورت فرض ہے اور عصری علوم کی صرف اجازت ۔آپ فیصلہ کیجیے کہ کس طرف ہمیں لپکنا اور دوڑنا چاہیے ۔ حضرتِ امیر مینا ئی مرحوم کا یہ شعر کتنا معنی خیز اورحکیما نہ ہے:

کچھ رہے یا نہ رہے پریہ تمنا ہے امیر

آخری وقت سلا مت مرا ایما ں رہے

مشمولہ: شمارہ جولائی 2012

مزید

حالیہ شمارے

جولائی 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau