بے بنیاد صیہونی دعوے

شعیب مرزا

مصنف: فیروز عثمان   مبصر: شعیب مرزا

کیا یہودی فلسطین کے اصل باشندے ہیں؟

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ متعدد یہودی علما اور محققین نے یہ ثابت کیا ہے کہ موجودہ یہودیوں کی بہت بڑی اکثریت نہ تو فلسطین سے تعلق رکھتی ہے اور نہ وہ بنی اسرائیل کی نسل سے ہیں۔ آج کے لگ بھگ اسّی فی صد یہودی خزاری (اشکے نازی) ہیں جن کی جڑیں شمالی قفقاز سے تعلق رکھتی ہیں اور وہ آٹھویں اور دسویں صدی عیسوی کے درمیان یہودی بن گئے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اسرائیلیوں کی بڑی تعداد شمال مشرقی یوروپ کے خزاری ہیں، ان کی کوئی جینیاتی جڑیں عبرانی یہودیوں اور یعقوب کے بارہ قبائل یا اس کی سرزمین فلسطین سے نہیں ملتی ہیں۔

چونکادینے والے انکشافات سے بھرپور کتاب SHATTERING ZIONIST MYTHS (صیہونی دعووں کی بیخ کنی) میں مصنف نے صیہونیوں کی حقیقت کے متعدد گوشوں کی پردہ کشائی کی ہے۔

کتاب کے شروع میں فلسطینی تحریک مزاحمت کے ایک رہ نما ڈاکٹر محمود الظہر نے اس کتاب کے بارے میں اپنا تبصرہ لکھتے ہوئے ایک اہم بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ’’زمین کو ڈی کولونائز کرنے کا آغاز ذہن کو ڈی کولونائز کرنے سے ہوتا ہے‘‘۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ یہ کتاب ذہنوں کو ڈی کولونائز کرنے کا کام کرتی ہے۔ کیوں کہ جب تک حقیقت کو سامنے نہیں لایا جاتا اس وقت تک فلسطینی بیانیے کی حقیقت واضح نہیں ہو سکتی۔ اس کتاب میں مصنف نے صیہونیوں کی تاریخ، ان کے پروپیگنڈے اور ان کی گھڑی ہوئی جھوٹی تصویر کو پیش کیا ہے۔ صیہونیوں اور اسرائیلیوں کی طرف سے پیش کی جانے والی ان تحریف شدہ اور مسخ شدہ بیانیوں کی نشان دہی کرتے ہوئے مصنف نے کتاب کو دعووں اور سوالوں میں تقسیم کیا ہے۔ کتاب میں 55 دعووں اور 45 سوالوں کو موضوع گفتگو بنایا گیا ہے۔ کتاب کے مشمولات کو مصنف نے A to Z project میں تقسیم کیا ہے، جس کا مطلبAl Aqsa to Zionist Project ہے۔ یہ کتاب صیہونیوں کے ان دعووں کی بیخ کنی کرتی ہے جنھیں اسرائیل کی طرف سے ملمع کاری کرکے پیش کیا جاتا ہے اور اس طرح حقیقت کو چھپایا جاتا ہے۔ جب تک حقیقت کو سامنے نہیں لایا جاتا اس وقت تک فلسطینی بیانیے کو صحیح طور سے پیش نہیں کیا جاسکتا ہے۔

یہ کتاب علمی تحقیق پر مبنی ہے، مدلل انداز میں صیہونیوں کی تصویر کو منظر عام پر لاتی ہے اور فلسطینی بیانیے کو بھی مدلل انداز میں پیش کرتی ہے۔ کتاب کو پڑھتے وقت قاری کو یہ محسوس ہوگا کہ مصنف نے کتاب میں کسی بھی طرح کا جانب دارانہ رویہ اختیار نہیں کیا بلکہ مدلل انداز میں اپنی بات کو بیان کیا ہے۔ کتاب میں مصنف اپنی طرف سے وضاحت طلب سوالات کھڑے کرتے ہیں اور پھر ان کے جوابات دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر کیا فلسطینیوں کا یروشلم پر حق ہے؟، ’’کیا اسرائیل اور صیہونیت پر تنقید کرنا یہودیوں کی مخالفت کرنا ہے؟‘‘، ’’انتفاضہ کیا ہے؟‘‘، ’’کیا اسرائیل دوسرے اسٹیٹ کی طرح یہودی اسٹیٹ ہے؟‘‘، ’’عیسائی صیہونیت کیا ہے؟ عیسائیوں کی جانب سے اسرائیل کو بڑے پیمانے پر حمایت کیوں حاصل ہے؟‘‘، ’’BDS کا اثرات کیا ہے؟‘‘ اس طرح کے 45 سوالوں کو مصنف نے ایڈریس کیا ہے اور مدلل انداز میں اس کا جواب دیا ہے۔ اسی طرح بہت سے 55 دعوے ہیں جن کی بیخ کنی کی گئی ہے۔ جیسے صیہونیوں کا یہ کہنا کہ اقصی اور یروشلم سے مسلمانوں کے تعلق کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔

اسی طرح یہ دعاوی کہ اسرائیل نسل پرست ریاست نہیں ہے، اسرائیل میں رہنے والے تمام فلسطینی برابر کے شہری ہیں، اسرائیل میں کسی بھی طرح کے تعصب پر مبنی قوانین نہیں ہیں، اسرائیل میں جنوبی افریقہ کی طرح کسی بھی طرح کا نسلی غلبہ نہیں ہے، یہ تمام دعوے اسرائیل کو نسل پرستی سے پاک بتانے کے لیے پیش کیے جاتے ہیں۔

اسرائیل کی طرف سے یہ بیانیہ کہ کنیسیٹ (Knesset) میں فلسطینیوں کی موجودگی، ووٹ دینے کا حق، ان کی سیاسی جماعتیں اور فلسطینی ججوں کا ہونا اسرائیل پر لگنے والے نسلی امتیاز کے الزام کی نفی کرتا ہے۔ مصنف ان کے جواب میں تاریخ سے دلائل دیتے ہیں اور بیان کرتے ہیں کہ کس طرح سے ہزارہا برسوں سے بس رہے فلسطینیوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔ باہر سے آکر بسنے والے یہودیوں کو وہ حقوق دیے جاتے ہیں جو وہاں پر رہنے والے فلسطینی باشندوں کو نہیں دیے جاتے۔

مثال کے طور پر یہ دعویٰ کہ اسرائیلی ریاست میں کسی بھی طرح کا تعصب نہیں پایا جاتا، اس کے جواب میں مصنف نے جنوبی افریقہ کے وزیر اعلی ڈاکٹر ہینڈریک کا قول نقل کیا ہے کہ ’’اسرائیل جنوبی افریقہ کی طرح ایک نسل پرست ملک ہے۔ ’’ اس کے بعد تفصیل سے اسرائیل کے ان قوانین کی نشان دہی کی ہے جو نسل پرستی کا منھ بولتا ثبوت ہیں۔

اپنی کتاب میں مصنف ایک سوال کھڑا کرتے ہیں کہ کیا اسرائیل نسل کشی کو بڑھاوا دے رہا ہے؟ اس کے جواب میں وہ لکھتے ہیں کہ فلسطنیوں کو مارنا، انھیں جنسی طور پر ہراساں کرنا اور ہمیشہ کے لیے جیل میں ڈالنا، وہ باتیں ہیں جو اسرائیل کی پہچان بن چکی ہیں۔

اسرائیل نے ہمیشہ حماس کو ایک دہشت گرد تحریک کے طور پر پیش کیا ہے اور مسئلہ فلسطین میں حماس کی مداخلت کو وہ قبول نہیں کرتا ہے۔ اسی لیے اسرائیل نے مسئلہ فلسطین کے حوالے سے حماس کے بارے میں بے بنیاد اور من گھڑت دعوے کیے تاکہ حماس کی خراب شبیہ پیش کرے۔ اس مسئلہ سے تعلق رکھنے والے دعووںاور سوالات کو بھی مصنف نے ایڈریس کیا ہے۔ یہ دعویٰ کہ اسرائیل تو جنگ بندی چاہتا ہے لیکن حماس نہیں۔ اسی طرح یہ دعویٰ کہ اسرائیل نے ہمیشہ امن و سلامتی کی دعوت دی جب کہ حماس نے کبھی نہیں چاہا کہ امن قائم ہو۔ مصنف نے حماس کے قائدین کا یہ بیان نقل کیا ہے کہ وہ امن چاہتے ہیں اور آج اور کل کے بجائے فوری طور پر جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ فلسطین میں حماس کی دخل اندازی والے سوال کو بھی مصنف نے ایڈریس کیا ہے۔ مصنف نے حماس کے چارٹر کا حوالہ دیتے ہوئے حماس کی پوزیشن واضح کی ہے کہ اسرائیل نے فلسطین پر قبضہ کیا ہے اور حماس اسرائیل کے اس قبضے کے خلاف جدوجہد کرنے والی ایک آزاد تنظیم ہے اور اس کا مقصد فلسطینیوں کی آزادی اور صیہونیت کے استعماری منصوبے کے سد باب کے لیے جدوجہد کرنا ہے۔

اسرائیل کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ دہشت گرد نہیں بلکہ امن پسند ریاست ہے۔ اس کے جواب میں مصنف نے اسرائیل میں نافذ انسانیت مخالف قوانین کا ذکر کیا اور پلان ڈلیٹ (Plan Dalet) کا حوالہ دیا ہے جس کے تحت فوجی آپریشن کے آرڈر پر ان مقامات کو نشانہ بنایا گیا جہاں فلسطینی آباد تھے اور زبردستی وہاں کی آبادی کو اجاڑ دیا گیا۔

اسرائیل کا یہ دعویٰ ہے کہ اسرائیل کو میزائیل حملوں کے جواب میں اپنا دفاع کرنے کا حق حاصل ہے۔ یہ ایک ایسا دعویٰ ہے جس کا حوالہ دے کر اسرائیل اپنے آپ کو تباہ کن بمباری سے بری کرنا چاہتا ہے۔ اصل سوال یہ نہیں ہے کہ تباہ کن بم باری کا حق ہے یا نہیں، بلکہ سوال یہ ہے کہ دوسروں کی زمین کو جابرانہ طریقہ سے قبضہ کر لینے کا حق کہاں تک ہے۔ مصنف جواب میں لکھتے ہیں کہ اسرائیل یہ دعوی کرتا ہےکہ اپنے شہریوں کی حفاظت کرنا اسرائیل کا حق ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل جابرانہ طریقہ سے قبضہ کی ہوئی زمینوں کی حفاظت کر رہا ہے اور فلسطینی باشندوں کو ان کی اپنی زمین سے محروم کرنا چاہتا ہے۔

کتاب میں دہشت گردی کیا ہے اور کیا نہیں، کا مختلف طریقے سے جواب دیا ہے۔ اس کا جواب دیتے ہوئے مصنف لکھتے ہیں کہ ’’دہشت گردی صرف بم اور ہتھیاروں کا ہی نام نہیں ہے، لوگوں کو بھوکا رکھنا، ان کو ٹارچر کرنا، طبی ضروریات سے محروم کرنا اور بڑے پیمانے پر معاشی پابندیاں لگانے کی شکلیں اختیار کرنا بھی دہشت گردی میں شامل ہے۔ ’’ اور حقیقت یہی ہے کہ اسرائیل ہر طرح کی دہشت گردی کو اپنا چکا ہے۔

کتاب میں مصنف نے اسرائیل، اسرائیل کا عالمی طور پر اثر، اسرائیل کا فلسطین میں وجود، اسرائیل کا خود کو کولونیل طاقت کے بجائے ایک آئینی اسٹیٹ کے طور پر پیش کرنا، غیر جمہوری عرب ممالک کے بیچ خود کو مثالی جمہوری ملک بتانا، خود کو انسانی حقوق کا پاسبان اور عربوں کو انسانی حقوق کی پامالی کرنے والا بتانا، نکبہ اور اس کے تعلق سے اسرائیل کے دعوے اور اس طرح کے بہت سے سوالوں اور واہموں کا مدلل انداز میں جواب دیا ہے۔

اپریل 2024

مزید

حالیہ شمارے

اپریل 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau