وطن سے محبت کا جذبہ انسان کی سرشت میں داخل ہے۔ انسان جہاں رہنے لگتا ہے،وہاں سے اسے فطری طور پر لگائو اور اپنائیت ہوجاتی ہے۔حضرت یوسف كے لیے ملکِ مصر میں عفت اور عصمت کے ساتھ رہنا دوبھر کر دیا گیا۔ طبقۂ شرفاء کی بیگمات نے انہیں بار بار پریشان کرنا شروع کر دیا تو انہوں نے دعا میںقید خانے كو ترجیح دی۔ غور طلب یہ پہلو ہے کہ انہوں نے ملکِ مصر سے چلے جانے، یا کم از کم اس شہر سے نکل جانے اور اپنے گھر واپس لوٹ جانے کی تمنّا نہیں كی۔ انہوںنے دعا مانگی ’’اے میرے رب،قید مجھے منظور ہے بہ نسبت اس کے کہ میں وہ کام کروں جو یہ عورتیں مجھ سے چاہتی ہیں۔‘‘ یہ دلیل اس بات کی ہے کہ اب مصر ان كا وطن هوچكا تھا۔ انہوں نے مصر میں رہتے ہوئے زنداں میں جانا پسند فرمایا، مگر اسے چھوڑ کرجانے کی تمنا نہیں کی۔ جب انہیںمصرکی خدمت کا موقع ملا تو انہوں نے اس میں بھرپور حصہ لیا۔ خزائنِ ارض کی ذمے داری پر مامور ہوکر انہوں نے ملک کی آبادی کو قحط کی تباہ کاریوں سے بچایا۔
جب وہ قوت واقتدار کے بامِ عروج پر پہنچ گئے اس وقت اگر چاہتے تو بڑی آسانی سے واپس اپنی جائے پیدائش کنعان لوٹ جاتے اور اپنے والدین اور بھائیوں کے ساتھ وہاں پُر سکون زندگی گزارتے،مگر آپ نے ایسا نہ کرکے مصر کو ہی اپنا مسکن بنایا اور اپنے والدین اور اہلِ خاندان کو بھی وہاں بلا کر بسا دیا۔
حالانکہ وہ جانتے تھے کہ جس ملک میں وہ اپنے خاندان والوں کو بسا رہے ہیں وہ غیر اسلامی ملک ہے،یہاں کی بیشتر آبادی دولتِ ایمان سے محروم ہے۔
فریضه دعوت
دعوتی فریضے کی ادائیگی ہر مسلمان کے ذمے ضروری ہے۔ حکمت اور عمدہ نصیحت کے ذریعے سارے انسانوں کو دینِ حق کی طرف بلانا امت کا فرضِ منصبی ہے ۔حضرت یوسفؑ نے بھی سخت سے سخت حالات میں اس ذمے داری سے غفلت نہیں برتی۔انہیں ظالمانہ طور پر غلام بنایا گیا تھا۔ غلاموں کی منڈی میں انہیں فروخت کیا گیا۔ گویا ظاہری اعتبار سے شروع سے ہی ان کا سماجی رتبہ اور مقام کمزور تھا۔ مگر انہوں نے دعوتی سرگرمی جاری رکھی،حتی کہ قید خانے میں بھی یہ عمل جاری رہا۔ بلکہ قیدخانے میں انہوں نے اپنی موجودگی کو نتیجہ خیز بنایا جب دو نوجوان قیدیوں نے آکر ان سے اپنے خواب کی تعبیر پوچھی تو انہیں تعبیر بتانے سے پہلے ان کے سامنے دین کی دعوت رکھی۔حضرت یوسفؑ کے ساتھ ہی دو نوجوان قید خانے میں لائے گئے تھے۔صحیح پتہ نہیں چل پاتا کہ کس وجہ سے وہ قید خانے میں لا ڈالے گئے تھے۔ بہرحال دونوں نے یہاں خواب دیکھے اور سارے قیدیوں کو چھوڑ کر صرف حضرت یوسفؑ سے اپنے خوابوں کی تعبیر پوچھنے آئے۔ انہوں نے یقینا حضرت یوسفؑ کی ذات میںخوش اخلاقی، نیکی اور وقار کا حسین امتزاج دیکھا ہوگا۔حضرت یوسفؑ نے اس موقعے سے فائدہ اٹھایااور ان کے سامنے صحیح عقیدے یعنی توحید کی دعوت پیش کی۔
سب سے پہلے وہ اپنے دونوں مخاطبوں کے دلوں میں اپنے تئیں اعتماد کے جذبات پیدا کرتے ہیں۔ اس کے لیے وہ اللہ کی خاص نعمت یعنی تاویلِ احادیث کا علم بہ روئے کار لاتے ہیں۔ انہیں بتاتے ہیں کہ تمہارا کھانا آنے سے پہلے ہی تمہیں یہ اطلاع دے دی جائے گی کہ کھانے میں آج کیا بنا ہے اور آیا کھانا لذیذ ہے یا نہیں۔ان دونوں نے بہت بار اس چیز کا مشاہدہ کیا تھاکہ یوسفؑ وقت سے پہلے واقع ہونے والے واقعات کا درست اندازہ لگا لیتے ہیں۔پھر وہ مزید یقین دہانی کے لیے انہیں بتاتے ہیں کہ یہ علم اللہ کی جانب سے الہام شدہ ہے۔ وہی معبودِ حقیقی هے جو غیب اور شہادت سب کا علم رکھتا ہے اور اس کی اس صفت میں کوئی اس کا شریک یا ہمسر نہیں ہے۔
یہ پہلا موقعہ ہے جب کہ حضرت یوسف ہم کو دینِ حق کی تبلیغ کرتے نظر آتے ہیں۔ اس سے پہلے ان کی داستانِ حیات کے جو ابواب قرآن نے پیش کیے ہیں ان میں صرف اخلاقِ فاضلہ کی مختلف خصوصیات مختلف مرحلوں پر ابھرتی رہی ہیں،مگر تبلیغ کا کوئی نشان وہاں نہیں پایا جاتا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے مراحل محض تیاری اور تربیت کے تھے۔ نبوت کا کام عملاً اس قید خانے میں ان کے سپرد کیا گیا اور نبی کی حیثیت سے یہ ایک نمائندہ تقریرِ دعوت ہے۔
پھر وہ ان کے سامنے بیان کرتے ہیں کہ وہ انبیاء ورسل کے ایک جلیل القدر خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں۔یہ بھی پہلا موقعہ ہے کہ انہوں نے لوگوں کے سامنے اپنی اصلیت ظاہر کی۔ اس سے پہلے ہم دیکھتے ہیں کہ وہ نہایت صبر وشکر کے ساتھ ہر اُس صورتِ حال کو قبول کرتے رہے جو انہیں پیش آئی۔ جب قافلے والوں نے ان کو پکڑ کر غلام بنایا،جب وہ مصر لائے گئے،جب انہیں عزیزِ مصر کے ہاتھ فروخت کیا گیا،جب انہیں جیل بھیجا گیا،ان میں سے کسی موقع پر بھی انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ میں ابراہیم واسحاق علیہما السلام کا پوتا اور یعقوب علیہ السلام کا بیٹا ہوں۔ ان کے باپ دادا کوئی غیر معروف لوگ نہیں تھے۔ قافلے والے خواہ اہلِ مدین ہوں یا اسماعیلی،دونوں ان کے خاندان سے قریبی تعلق رکھنے والے تھے۔ اہلِ مصر بھی کم از کم حضرت ابراہیمؑ سے تو ناواقف نہ تھے۔ بلکہ حضرت یوسفؑ جس انداز سے ان کا اور حضرت یعقوبؑ اور اسحاقؑ کا ذکر کرتے ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ تینوں بزرگوں کی شہرت مصر میں پہنچی ہوئی تھی۔ لیکن حضرت یوسف نے کبھی باپ دادا کا نام لے کر اپنے آپ کو ان حالات سے نکالنے کی کوشش نہیں کی جن میں وہ پچھلے چار پانچ سال کے دوران مبتلا ہوتے رہے تھے۔
غالباً وہ خود بھی اچھی طرح سمجھ رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ جو کچھ انہیں بنانا چاہتا ہے اس کے لیے ان حالات سے گزرنا ضروری ہے۔ مگر اب انہوں نے محض اپنی دعوت وتبلیغ کی خاطر اس حقیقت سے پردہ اٹھایا کہ میں کوئی نیا اور نرالا دین پیش نہیں کر رہا ہوں،بلکہ میرا تعلق دعوتِ توحید کی اُس عالمگیر تحریک سے ہے جس کے ائمہ ابراہیمؑ واسحاقؑ ویعقوبؑ ہیں۔ ایسا کرنا اس لیے ضروری تھا کہ داعیِ حق کبھی اس دعوے کے ساتھ نہیں اٹھا کرتا کہ وہ نئی بات پیش کر رہا ہے جو اس سے پہلے کسی کو نہیں سوجھی،بلکہ پہلے قدم ہی پر یہ بات کھول دیتا ہے کہ میں اس ازلی وابدی حقیقت کی طرف بلا رہا ہوں جو ہمیشہ اہلِ حق پیش کرتے رہے ہیں۔(تفهیم القرآن)
حكمتِ تبلیغ
پھر حضرت یوسفؑ نے جس طرح اپنی تبلیغ کے لیے موقع نکالا اس سے ہم کو حکمتِ تبلیغ کا ایک ہم سبق ملتا ہے۔ دو آدمی اپنا خواب بیان کرتے ہیں اور اپنی عقیدت مندی کا اظہار کرتے ہوئے اس کی تعبیر پوچھتے ہیں۔جواب میں آپ فرماتے ہیں کہ تعبیر تو میں تمہیں ضرور بتادوں گا مگر پہلے یہ سن لو کہ اس علم کا مأخذ کیا ہے جس کی بنا پر میں تمہیں تعبیر دیتا ہوں۔ اس طرح ان کی بات میں سے اپنی بات کہنے کا موقع نکال کر آپ ان کے سامنے اپنا دین پیش کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ فی الواقع کسی شخص کے دل میں تبلیغِ حق کی دھن سمائی ہوئی ہو اور وہ حکمت بھی رکھتا ہو تو کیسی خوبصورتی کے ساتھ وہ گفتگو کا رخ اپنی دعوت کی طرف پھیر سکتا ہے۔ جسے دعوت کی دھن لگی ہوتی ہے وہ موقعے کی تاک میں رہتا ہے اور اسے پاتے ہی اپنا کام شروع کر دیتا ہے۔ البتہ بہت فرق ہے حکیم کی موقع شناسی میں اور اُس نادان مبلغ کی بھونڈی تبلیغ میں جو موقع ومحل کا لحاظ کیے بغیر لوگوں کے کانوں میں زبردستی اپنی دعوت ٹھونسنے کی کوشش کرتا ہے اور پھر جھگڑالوپن سے انہیں الٹا متنفر اور بدظن کرکے چھوڑتا ہے۔ (تفهیم القرآن)
اس سے یہ بھی معلوم کیا جاسکتا ہے کہ لوگوں کے سامنے دعوتِ دین پیش کرنے کا صحیح ڈھنگ کیا ہے۔ حضرت یوسفؑ چھوٹتے ہی دین کے تفصیلی اصول اور ضوابط پیش کرنے شروع نہیں کر دیتے،بلکہ ان کے سامنے دین کے اس نقطۂ آغاز کو پیش کرتے ہیں جہاں سے اہلِ حق کا راستہ اہلِ باطل کے راستے سے جدا ہوتا ہے یعنی توحید اور شرک کا فرق۔ پھر اس فرق کو وہ ایسے معقول طریقے سے واضح کرتے ہیں کہ عقلِ عام رکھنے والا کوئی شخص اسے محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ خصوصیت کے ساتھ جو لوگ اس وقت ان کے مخاطب تھے ان کے دل ودماغ میں تو تیر کی طرح یہ بات اترگئی ہوگی کیونکہ وہ نوکر پیشہ غلام تھے اور اپنے دل کی گہرائیوں میں اس بات کو خوب محسوس کر سکتے تھے کہ ایک آقا کا غلام ہونا بہتر ہے یا بہت سے آقائوں کا۔ اور سارے جہان کے آقا کی بندگی بہتر ہے یا بندوں کی بندگی۔پھر وہ یہ بھی نہیں کہتے کہ اپنا دین چھوڑو اور میرے دین میں آجائو،بلکہ ایک عجیب انداز میں ان سے کہتے ہیں کہ دیکھو اللہ کا یہ کتنا بڑا فضل ہے کہ اس نے اپنے سواہم کو کسی کا بندہ نہیں بنایا،مگر لوگ اس کا شکر ادا نہیں کرتے اور خواہ مخواہ خود گھڑ گھڑ کر اپنے رب بناتے اور ان کی بندگی کرتے ہیں۔
پھر وہ اپنے مخاطبوں کے دین پر تنقید بھی کرتے ہیں، مگر نہایت معقولیت کے ساتھ اور دل آزاری کے ہر شائبے کے بغیر۔ بس اتنا کہنے پر اکتفا کرتے ہیں کہ یہ معبود جن میں کسی کو تم ان داتا ،کسی کو خداوندِ نعمت، کسی کو مالکِ زمین اور کسی کو ربِ دولت یا مختارِ صحت ومرض وغیرہ کہتے ہو،یہ سب خالی خولی نام ہیں،ان ناموں کے پیچھے کوئی حقیقی انداتائی وخداوندی اور مالکیت وربوبیت موجود نہیں ہے۔ اصل مالک اللہ تعالیٰ ہے جسے تم بھی کائنات کا خالق ورب تسلیم کرتے ہو اور اس نے ان میں سے کسی کے لیے بھی خداوندی اور معبودیت کی کوئی سند نہیں اتاری ہے۔ اس نے تو فرمانروائی کے سارے حقوق واختیارات اپنے ہی لیے مخصوص رکھے ہیں اور اسی کا حکم ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو۔(تفهیم القرآن)
پھر اپنے آباء واجداد کی ملت کے خدوخال نمایاں کیے کہ یہ ملتِ توحید ہے اور یہی دینِ حق ہے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بھی واضح کیا کہ عقیدۂ حقہ کی پیروی کی توفیق انسان کو مل جائے تو یہ اس کے حق میں نعمتِ عظمیٰ ہے اور یہ موقعہ ربِ کریم نے تمام انسانوں کے لیے فراہم کیا ہے۔مگر اکثر لوگ اللہ کی اس نعمت کا شکریہ ادا نہیں کرتے اور اللہ کی وحدانیت کے اقرار سے پھرے رہتے ہیں۔
شرك كی تردید
اس طرح حضرت یوسفؑ نے وہ فیصلہ کن دلیل دی ہے جس کی چوٹ سے ہمیشہ کفر وشرک کے گھروندے مسمار ہوئے ہیں اور جس نے ہمیشہ سلیم الفطرت انسانوں کو سوچنے پر مجبور کیا ہے۔ وہ یہ کہ آیا بہت سارے مالک بہتر ہیں یا ایک اللہ جو تنہا سب پر قدرت رکھتا ہے۔ حضرت یوسفؑ نے ان دونوں کو ’’یاصاحبی السجن‘‘ کے پیارے خطاب سے مخاطب کیا اور یہ روشن حقیقت ان کے سامنے رکھ دی۔ یہ سوال فطرتِ انسانی سے کیا گیا ہے۔ اس کی مخاطب راستی پر قائم عقلیں ہیں جو بہ خوبی جانتی ہیں کہ انسانیت کی شقاوت کا سب سے بڑا سبب یہی ہے کہ ہر زمانے اور جگہ پر اس نے کئی خدائوں کا سہارا تھاما، اور اس کی سعادت وخوش بختی کا سرچشمہ ومنبع ہمیشہ سے یہی رہا ہے کہ ایک اللہ کی رسّی پکڑ لی،اورتخلیق،ربوبیت،الوہیت اور دیگر تمام صفات میں اسی کو یکتا وفردا سمجھا۔ یہی اصلاً عقیدۂ توحید ہے۔(تفہیم القرآن:۲/۴۰۲-۴۰۴۔فی ظلال القرآن:۳/۱۹۸۹)
حضرت یوسفؑ کے اس طرزِ عمل سے مترشح ہوتا ہے کہ اقلیت کی حیثیت سے جینے والے مسلمان فرد یا جماعت کی بھی یہ بنیادی ذمے داری ہے کہ وہ جہاں رہے حقیقی اسلام کے تعارف کا ذریعہ بنے۔وہ اسلام جو دنیا کے لیے رحمت ہے،جوحق پرستی اور عدل کا داعی ہے۔ جو تہذیب وتمدن کی آبیاری کرتا ہے اور انسانیت کی بنیاد پر نوعِ انسانی کو مشرف ومکرم قرار دیتا ہے۔اقلیتی مسلمانوں کو اپنے قول وعمل سے اسلامی اقدار واخلاق کی ترجمانی کرنی چاہیے اور لوگوں کو اپنے کردار کی بلندی کا گرویدہ بنانا چاہیے۔ وہ ملک کی غیر مسلم اکثریت کو حکمت اور موعظتِ حسنہ کے ذریعے اسلام کے قریب لائیں،انہیں ان کے خالقِ حقیقی سے آگاہ کریں۔ وقتِ ضرورت انہیں سمجھانا پڑے اور نوبت بحث کی آجائے تو اس میں احسن طریقے کو ترجیح دیں۔ اسلام کی حقیقی دلکش تصویر لوگوں کے سامنے پیش کرنا ہر مسلمان کی ذاتی ذمے داری ہے۔
ہر فردِ ملت پر كارِدعوت اس کی قدرت اور علم کے بہ قدر فرض ہے۔ اگر کوئی دین کی صرف ایک بات جانتا ہے تو اسے بھی دوسروں تک پہنچانا اس پر واجب ہے۔اللہ کے رسولﷺ کا ارشادِ گرامی ہے کہ ایک آیت ہی کیوں نہ ہو،میرے طرف سے وہ بھی لوگوں کو پہنچا دو۔‘‘(بلغوا عنی ولوآیۃ)(صحیح بخاریؒ: ۳۴۶۱) قرآنِ کریم کو ہم دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس میں فوز وفلاح کو انہی لوگوں کے اندر محصور کیا گیا ہے جو خیر کی طرف بلاتے ہیں،بھلائیوں کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں۔ارشادِ باری ہے:(وَلْتَکُن مِّنکُمْ أُمَّۃٌ یَدْعُونَ إِلَی الْخَیْرِ وَیَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ وَأُوْلَـئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُون)(آلِ عمران،۱۰۴)’’تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہی رہنے چاہئیں جو نیکی کی طرف بلائیں،بھلائی کا حکم دیںاور برائیوں سے روکتے رہیں۔ جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے۔‘‘
انسانی دنیا میں تنوع:
اللہ نے یہ کارخانۂ کائنات خود کار طریقے پر نہیں چلا دیا ہے کہ اس میں ایک شکل اور سائز کی چیزیں دھڑادھڑ بن کر نکل رہی ہیں۔ ہر انسان خاص رجحانات اور خاص شکل وصورت لے کر پیدا ہوتا ہے۔ کسی جگہ کے لوگ مکمل طور پر خراب نہیں ہوتے اور نہ مکمل طور پر اچھے ہوتے ہیں۔ یہاں آزر کے گھر ابراہیمؑ بھی پیدا ہوتا ہے اور نوح کے گھر کافر اولاد بھی۔ غیر مسلم بھی اس قاعدے سے مستثنیٰ نہیں ۔ ان میں بھی کچھ لوگ انصاف پسند ہوتے ہیں، ان کی فطرت میں شرافت ہوتی ہے، نیکی کی طرف لپکتے ہیں اور معاملات میں ایمان دار اور بات کے دھنی ثابت ہوتے ہیں۔ان میں ایسے خیر پسند بھی ہوتے ہیں جو انتخابات کے موقع پر نالائق ہم مذہب کے بجائے لائق مسلمان کو ووٹ دینا پسند کرتے ہیں۔ بہت سے ملکوں میں مسلمانوں کو اونچی سرکاری پوسٹوں(مناصب) پر رکھا جاتا ہے اور حکومت کے حساس شعبوں میں مسلمانوں کی شمولیت یقینی بنائی جاتی ہے۔
یقینا سارے غیر مسلم اچھے نہیں ہوتے۔ ان میں کچھ فتنہ پرور اور شرپسند ہوتے ہیں جو اسلام اور مسلمانوں سے نفرت کرتے ہیں۔ہمارے کہنے کا مدعا بس یہ ہے کہ پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں۔ اس لیے تمام غیر مسلموں پر ایک حکم لگادینا ٹھیک نہیں۔ خود مسلم اقلیتی طبقے کے سبھی لوگ کہاں برابر ہیں؟ ان میں بھی ہر قماش کے اچھے برے لوگ آپ کو مل جائیں گے۔ہم چاہتے ہیں کہ مسلمان اقلیتیں جہاں بھی آباد ہیں وہ ہر غیر مسلم پر اس کے خاص طرزِ عمل کی بنیاد پر کوئی حکم لگائیں اور پھر موافق یا مخالف فیصلہ صادر کریں۔مسلمان اقلیتوں نے جہاں بھی دانش مندی کا ثبوت دیا ہے،وہاں اہلِ وطن نے انہیں سرآنکھوں پر بٹھایا ہے۔ بہت سے اقلیتی طبقے کے لوگ انتخابات میں جیت کر منتخب ہوئے ہیں اور حکومت کے اہم عہدوں پر بہ طور وزیر اور منسٹر فائز رہے ہیں۔
( جاری)
مشمولہ: شمارہ جولائی 2019