اپریل ۱۹۴۶ء میں جماعتِ اسلامی کا کل ہند اجتماع الہ آباد کے محلہ ہروارہ میں منعقد ہوا تھا۔ اس وقت نہ ہمارا ملک تقسیم ہوا تھا اور نہ جماعتِ اسلامی تقسیم ہوئی تھی۔ اس اجتماع میں میری شرکت ایک ایسا واقعہ ہے جس کو بھلایا نہیں جا سکتا۔ اس اجتماع نے میری سپاٹ زندگی میں رنگ بھرا اور مجھے مدرسہ و خانقاہ سے نکال کر میدانِ کارزار میں لا کھڑا کیا۔ اس وقت میری حیثیت جماعت کے متاثر یا ہمدرد کی تھی۔ میں ایک طویل علالت سے صحت یاب ہو کر خانقاہ مجیبیہ، پھلواری شریف میں آرام کر رہا تھا اور ابھی کمزوری باقی تھی۔ ڈاکٹر نور العین صاحب پھلواری نے جو جماعتِ اسلامی کے ایک قدیم رکن تھے، مجھے ترغیب دی کہ میں اس اجتماع میں شرکت کروں۔ میں نے اپنے ضعف کا عذر پیش کیا، کہنے لگے کہ ہم لوگ آپ کے ساتھ ہوں گے اور آپ کو کوئی تکلیف پہنچنے نہ دیں گے۔ لیجیے کمزوری کا عذر ختم ہوا۔ ان کے ساتھ میں بھی اجتماع میں شریک ہوا ۔ افسوس ڈاکٹر نور العین اب جماعت کے رکن نہیں رہے۔
یہ دیکھ کر مری آنکھوں میں آگئے آنسو
کہ جس نے راہ دکھائی وہ ہٹ گیا پیچھے
ہاں تو میں یہ کہہ رہا تھا کہ میں اس اجتماع میں شریک ہوا۔ اس اجتماع میں شرکت سے پہلے یا اس کے بعد میں کسی شخصیت سے متاثر نہیں ہوا۔ بلکہ مجھے مولانا سید ابو الاعلی مودودی کی کتابوں نے متاثر کیا۔ میں مولانا کی کئی کتابیں پڑھ چکا تھا اور یاد آتا ہے کہ اس وقت میں نے “سیاسی کشمکش” کے تینوں حصے پڑھ لئے تھے اور اسی زمانے میں “الجہاد فی الاسلام ” بھی مطالعے میں آئی تھی۔ جس چیز نے میری آنکھیں کھول دیں وہ‘اکمیت الٰہ’کے عقیدے کی تشریح اور اقامت دین کے فرض ہونے کی تصریح تھی۔ اگرچہ میں نے علوم دینیہ کی تکمیل کرلی تھی اور اس وقت مدرسہ شمس الہدی پٹنہ (بہار) میں مدرّس تھا لیکن اللہ تعالیٰ کی تشریعی حاکمیت اور اقامت دین کی فرضیت اس طرح سامنے نہیں تھی جس طرح مولانا مودودی کی کتابوں میں تھی۔ تاریک کمرے میں برقی بلب روشن کر دیا جائے تو پورا کمرہ روشن ہو جاتا ہے ۔ اسی طرح مولانا کی کتابوں کے برقی بلب نے میرے دل و دماغ کو روشن کر دیا تھا اور انسان کا مقصد زندگی میرے سامنے چمک اُٹھا تھا۔ دل نے یہ گواہی دی تھی کہ اسلام کا یہ وہ سبق ہے جو میں بھول گیا تھا اور جسے علوم دینیہ کے مدارس بھی بھولے ہوئے ہیں۔ میں اس سے پہلے جماعتِ اسلامی کے کسی بڑے اجتماع میں شریک نہیں ہوا تھا۔ اس شرکت نے کتابی علم کے عملی مشاہدے کا موقع فراہم کیا۔ میں نے اس اجتماع میں جو کچھ دیکھا وہ اس سے پہلے کسی جلسے میں نہیں دیکھا تھا۔ اجتماع کے انتظامات، نظم وضبط، کارکنوں کی سرگرمی، ان کا خلوص، شرکائے اجتماع کی باہمی محبت، اسلامی اخوت، مرحمت و مواسات، نصب العین کا شعور، ذمہ داریوں کا احساس ، مقصد زندگی کے حصول کی تڑپ اور لگن، سب کے سب ایک ہی رنگ میں رنگے ہوئے تھے اور اس کو صبغة اللہ کے سوا اور کیا کہا جا سکتا تھا۔ اللہ کا رنگ اور اس کے رنگ سے کس کا رنگ اچھا ہے ۔ مجھے جس چیز نے بے حد متاثر کیا وہ پنج وقتہ نمازوں کا اہتمام تھا۔ جی ہاں پنج وقتہ نمازوں کا اہتمام۔ اقبال نےکہا ہے:
صفیں کج دل پریشان سجدہ بے ذوق
که جذب اندروں باقی نہیں ہے
لیکن وہاں اس کا مشاہدہ اس کے بر عکس تھا۔ صفیں سیدھی، دل مطمئن، سجده با ذوق که جذب اندروں چھایا ہوا تھا۔ دل نے پکار کر کہا تھا۔ “اچھا تو یہ ہے جماعتِ اسلامی!”
میرے تاثرات ایک نظم میں ڈھل گئے تھے اور وہ نظم ایک مشاہدہ کے عنوان سے اخبار “کوثر” لاہور میں شائع ہوئی
میرے لئے وہ ایک تاریخی نظم ہے ۔
(یادگار مجلہ، چھٹا آل انڈیا اجتماع جماعتِ اسلامی، ص۲۰۰-۲۰۰۱)
مشمولہ: شمارہ نومبر 2024