ہندو مت کو سناتن دھرم اورویدک دھرم،کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا ہے،ہندو دھرما دی یونیورسل وے آف لائف کے مصنف لکھتے ہیں:
’’ ماضی میں ہندو مت ہمارے مذہب کا نام نہیں تھا،بلکہ یہ مذہب ویدک ماتا ،ویدک دھرم یا سناتن دھرم کے نام سے جانا جاتا تھا، ہمارے اصل (مذہبی) منابعات ہمارے ایمان و عقائد کسی بھی نام سے منسوب نہیں کرتے‘‘ ۱ ؎
ہندو مت متفر ق خیالات و نظریات کا مجموعہ ہے،جس کی خاص وجہ یہی رہی ہے کہ ہمیں آج تک ہندو مت کی کوئی جامع تعریف میسر نہیں ہوسکی ہے۔اس سلسلے میںپنڈت جواہر لال نہرو کی یہ رائے درست معلوم ہوتی ہے کہ ـ’’ حتمی طور پر یہ بھی کہنا مشکل ہے کہ کوئی مذہب ہے بھی یا نہیں ماضی اور اپنی موجودہ صورت میں یہ مذہب بہت سے عقائد و رسوم کا مجموعہ ہے،جو اعلیٰ سے لے کر ادنیٰ سطح پر محیط ہیں اور ان میں سے بہت سے ایک دوسرے کے متضاد بھی ہیں‘‘ ۲ ؎
ہندومت کوئی خاص فلسفہ نظام زندگی یا دستو ر العمل نہیں ہے، بلکہ یہ متعدد افکار و نظریات کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے،ہندو مت میں مختلف فرقے اور گروہ پہلے سے موجود تھے، جنہوں نے ایک طویل تاریخ عمل کے بعد خود کو ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ کرکے ایک نئے مذہب کی تشکیل کی،ہندو مت کی تشکیل میں افراد ،قوموں تہذیبوں کا اہم رول رہا ہے ۔
گاندھی جی اپنے نظریے کو ان الفاظ میں تحریر کرتے ہیں:
یہ ہندو مت کی خوش قسمتی ہے کہ اس کا کوئی سرکاری عقیدہ نہیں ہے اور مجھ سے ہندو عقیدہ کی تعریف پوچھی جائے تو میں سادہ لفظوں میں کہوں گا،غیر متشددانہ ذرائع حق کی تلاش ایک شخص خدا پر اعتقاد نہ رکھتے ہوئے بھی اپنے آپ کو ہندو کہہ سکتا ہے ہندو مت حق کی پرزور تلاش جستجو کا نام ہے۔ ہندو مت تمام مذاہب کے سلسلے میںانتہائی روادار ہے اس کا عقیدہ سب کو اپنی آغوش میں لے لیتا ہے ۔ ۳؎
ایک دوسری جگہ گاندھی جی فرماتے ہیں:میرے خیال میں ہندو مت کی خوبصورتی اس بات میں ہے کہ وہ ہر عقیدہ و خیال پر حاوی ہے۔۔۔ کسی بھی مذہب میں جو جوہر ہیں ،وہ ہندو مذہب میں موجود ہیں ،اور جو کچھ ہندو مت میں نہیں ہے وہ یا تو غیر بنیادی ہے یا غیر ضروری ہے۔ ۴ ؎
ہندو مت قدیم دور سے رائج ایسا مذہب ہے جس کے بانی ،ابتداء اوربنیا د اخبار و آثار کے متعلق کچھ مستند معلومات میسر نہیں ہیں، یہ مذہب ایسی روایت کا مجموعہ ہے جو کسی ایک کتاب سے منسلک نہیں ہے ، نہ کسی پیغمبر سے بلکہ اس کے افکار و خیالات مختلف نوع کے مذ اہب سے ملتے ہیں، ہندو مت واقعی کوئی مذہب نہیں بلکہ ایک تہذیب ہے۔
ہندو مت کی تاریخ
اگرچہ ہندو مت کی بنیاد ہزاروں سا ل پرانی ہے،لیکن قبل ازمسیح کے ہندو مت اور آج کے دور کے ہندوں میں عقائد و رواج کے لحاظ سے کافی فرق ہے اس قدیم مذہب کی کوئی تاریخ نہیں ہے پروفیسر منظور اپنی تصنیف میں اس بات کو واضح کرتے ہیں:
’’یہ امر افسوس ناک ہے کہ دنیا کے اس عظیم و قدیم مذہب کی کوئی تاریخ نہیں خود ہندو فاضلوں نے اس امر کا کھلا اعتراف کیا ہے اس کا بڑا باعث یہ ہے کہ یہ مذہب دوسرے ادیان کی مانند کسی ایک رہنما نبی و رسول ،کتاب اور متعین عقائد اور اعمال کی طرف منسوب نہیں کیا جا سکتا ،متضاد عقائد و اعمال، متضاد کتابیں ،متضاد انسانوں و رسوم و مظاہر کا ایک معجون مرکب ہے ‘‘ ۵؎
مذکورہ بالاحوالہ جات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ہندو مت ایک طریقۂ زندگی اور تہذیب کا نام ہے، اور اس کے خاص عقائد واصول اور احکام و قوانین نہیں، لیکن پھر بھی بعض محقیقین و مفکرین اوردانشوروں نے ہندو مت کی تعریف کے سلسلے میں اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔
اگر ہم ہندو مت کی تاریخ جاننے کی کوشش کرتے ہیں تو انتہائی مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کیونکہ ہندومت کی کوئی مرتب تاریخ نہیں ہے ہمارے پاس ہندو مت کی تاریخ کو جاننے اور بغور مطالعہ کرنے کے لئے قدیم عمارتیں ،پرانے کھنڈرات ،سامان اور سکے وغیرہ ہیں۔
کتب کا مختصر تعارف
قدیم ہندو مت کے محققین و مفکرین کے نزدیک ہندو مذہبی عقائد و اعمال اور روایات کی بنیادی ماخذ مختلف کتب ہیں، ہندومت کی کوئی ایک کتاب نہیں ہے،بلکہ وید،اپنشد،پران، شاستر، براہمن، دھرم سوتر ،رامائن ،مہابھارت گیتا اور اسمرتیاں وغیرہ مختلف کتب ہیں، ان سب کتب میںبعض کو بعض پر فوقیت حاصل ہے لیکن ہندو مت میں ویدوں کو زیادہ افضلیت حاصل ہے ۔
ہندو مت کی کتب درج ذیل ہیں:
وید : ہندومت کی سب سے اہم مقدس کتاب جس میں مختلف نوعیت کے منتر شامل ہیں۔
اپنشد: یہ کتب فلسفہ موضوعات پر مبنی ہیں۔
پران: واقعات و حکایات ، علم ریاضی ،جغرافیہ وغیرہ
منو دھرم شاستر: فقہ کی کتاب،قانون
رامائن: رام اور سیتا کی کہانی
مہابھارت: ایک جنگ کی منظوم داستان اسی میں مقدس کتاب گیتا بھی شامل ہے۔
گیتا: اخلاقی نصیحتوں اور فلسفیانہ مباحث پر مشتمل ہے۔
اصطلاحات
منڈل: کتاب،حصہ
کانڈ: کتاب،حصہ
ادھیائے: باب
سرگ: باب
منتر،شلوک: شعر،verse
سکت: نظم
موجودہ ہندو مت میں یہی تمام کتب وید،اپنشد، پران، دھرم شاستر، رامائن ،مہابھارت،گیتا شامل ہیں ،یہ کتب الگ الگ موضوعات پر مشتمل ہیں ، ان میں سب سے زیادہ مستند وید ہیں ،ہندو مت کی کتب کو آٹھ حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
(۱)شروتی: شروتی سے مراد وہ تحریریں ہیں جو رشیوں، منیوں سے سنی گئی ہوں یا نازل کی گئی ہوں ان کتابوں کو الہامی(شروتی) سمجھا جاتا ہے ان میں وید اور اپنشد شامل ہیں۔
(۲)سمرتی: وہ تحریریں جو یاد کی جائیں،شروتی کے بعد اسمرتی کو سب سے زیادہ اہمیت دی گئی ہے، یہ کتب الہامی نہیں مانی جاتی ہیں، لیکن ان کی اہمیت ہندوں کے یہاں بہت زیادہ ہے مثلاً منواسمر تی
(۳):اتہاس : یہ وہ کتابیں ہیں جن میں تاریخ بیان کی گئی ہے، ان میں مہابھارت اور رامائن شامل ہیں۔
(۴)پران:پران میں رشیوں،دیوی دیوتاؤں، کی سوانح حیات اور واقعات ، اور کہیں کہیں مذہبی احکا م و اخلاقی تعلیمات کا بھی ذکر موجود ہے۔
(۵)دھرم شاستر و سوتر:یہ وہ کتابیں جو معاشرتی و مذہبی قوانین سے متعلق ہیں، دھرم سوتر میں انسانی اخلاقی حقوق و فرائض اور خانگی زندگی سے متعلق ہیں۔کہیں کہیں اعمال و رسوم کا تذکرہ بھی پایا جاتا ہے، ان میں منو دھرم شاستر ،ارتھ شاستر اور دیگر کتب شامل ہیں۔
(۶) آگم اور تانتر:یہ قانون فلسفہ اور علم الہیات پر مبنی مختلف رشیوں منیوں کی کتابوں کا مجموعہ ہے، جو شیو مت اور جین کے یہاں مستند اور الہامی مانی جاتی ہیں۔
(۷)درشن:ان میں ہندوں کے ایک خاص فلسفیانہ نظام کی کتابیں شامل ہیں۔
(۸)ویدک لٹریچر:اس میں وید ، اپنشد برہمنا اور ویدک علوم کی چھ کتابیں اور ویدانگ شامل ہیں۔
یہ چھ علوم درج ذیل ہیں:
۱۔ شکشا ۲۔ کلپا ۳۔ویاکرن ۴۔نرکت
۵۔چھند ۶۔جیوتش
یہ سبھی کتب اتہاس ،دھرم شاستر،پران اورا ٓگم درشن وغیرہ ہر ایک کتاب شروتی (الہامی) اور سمرتی (غیر الہامی) کسی ایک زمرے میں ضرور آتی ہے،بعض کتب ایسی ہیں جس میں ہندوں کے مختلف علماء کا اختلاف ہے کہ آیا وہ کتب شروتی میں شامل ہیں یا سمرتیوں میں، وید اور اپنشد شروتی یا الہامی کتب میں شمار کئے جاتے ہیں جبکہ بقیہ کتب کو بالعموم شروتی کا حصہ مانا جاتا ہے۔
وید۔ ہندو مت کی سب سے مقدس اور اہم کتاب وید ہے،وید چار ہیں،رگ وید،یجر وید،سام وید،اتھروید،ویدوں کے متعلق ہندو محقیقین وپنڈتوں کا یہ عقیدہ ہے کہ یہ دنیا کی سب سے قدیم کتب ہیں،اور وید کو خدا کا کلام ،خدا کا ذاتی علم مانتے ہیں۔وید لفظ ود سے نکلا ہے جس کے معنی اس چیز کو جان لینا ہے جو پہلے سے معلوم نہ تھی۔ ۶ ؎ وید کے معنی علم اور گیان کے بھی ہیں۔ ۷ ؎
وید اور قرآن کے مصنف رقم طراز ہیں
(وید وہ ہے )جس کے ذریعے علم حاصل کرتے ہیں جس میں ہر طرح کا گیان (علم) ہے جس کے ذریعے جملہ اشیاء واسباب کا حصول ہوتا ہے ۸ ؎
رادھا کرشنن اپنی تصنیف میں لکھتے ہیں:
آج انسان عقل وخرد اور فہم ودانش کے جس معیار پرپہنچا ہوا ہے،وید اس کے اولین اوصاف و مظاہر کے علمبردار ہیں ۔ ۹؎
ویدوں کا معنی کوئی کتاب نہیں ویدوں کے معنی ہیں مختلف زمانوں میں مختلف رشیوں اور منیوں کے ذریعے تیار و ترتیب کردہ روحانی حقائق کے مجموعے کے علم (گیان )کو جاننا ۔
ویدوں میں ہندو اقوام کے تصورات،عقائد و اعمال،رسومات ،روایات، قدرت ہیت، فلکیات، موسیقی اور دیگر منظوم و منثور کلام کے مجموعے کا نام وید ہے۔
مشہور محقق B.B paliwalاپنی کتاب میں وید کا تعارف یوں کرواتے ہیں:
’’وید ہندوستان کی ثقافت سے متعلق وہ کتب ہیں جس میں مذہب،سائنس، قدرت ،ہیت ، فلکیات، موسیقی، وغیرہ سبھی علوم درج ہیں،وید قادر المطلق خدا کی آواز بالفاظ دیگر یہ علم الہامی ہیں، موجودہ وید شروتی کہلاتے ہیں،جس کے معنی سننے کے ہیں یعنی وہ علم قدیم رشیوں نے اپنے مراقبے اور ریاضتوں کے بنا پر خدا سے حاصل کیا۔ ۱۰ ؎
رگ وید۔سب سے قدیم وید ہے،جو آریوں کے ابتدائی مذہب کو جاننے کا مستند ذخیرہ ہے، با اختلاف آراء رگ وید کے منتروں کی تعداد دس ہزار پانچ سو باون(۱۰۵۵۲) دس ہزاراور کسی نے پانچ سو نواسی(۱۰۵۸۹) بیان کی ہے ۔دس ہزار چار سو دو(۱۰۴۰۲) سے لے کر دس ہزار چھ سو اٹھائیس (۱۰۶۲۸) تک ہے ۱۱ ؎
رگ ویدکی ۱۰ منڈلوں (ابواب) میں تقسیم ہے اور یہ نظم (اشعار) میں ہے اس میں خداؤں کی تعریف اور بزرگی کے گیت ہیں،اور دیوی دیوتاؤں کو مخاطب کرکے ان سے دعائیں کی گئی ہیں،رگ و ید میں سورگ،نرک، گناہ نیکی،کائنات ارضی و سماوی ،جنگ و معرکہ آرائی،مذہبی،سماجی،معاشی اور خانگی زندگی، بلی و قربانی،رہائشی و غذائی عکاسی ،ہواؤں ،دریا و فضاؤں فصلوں اور باغوں کے دلکش منظر،قدیم ہندوستان کی تاریخ،اخلاقی و روحانی قدروں کی نشان دہی بہت اچھوتے انداز میں پیش کی گئی ہے۔
مشہور مؤرخ اپنی تصنیف میں لکھتے ہیں
’’ رگ وید کی نظمیں مختلف زمانوں کی تصنیف ہیں، اور مختلف زمانوں کی نمائندگی کرتی ہیں ان کا ادبی معیار بھی مختلف ہے، سوائے چند نظموں کے باقی سب دیوتاؤں کے حضور مناجاتیں ہیں۔جن میں قدرتی طاقتوں کو دیوتاؤں کی مجازی شکل میں پیش کیا گیا ہے،تاکہ دیوتا ان سے متاثر ہوکر اپنے پجاریوں کو روحانی اور مادی برکتوں سے نوازیں صرف وہ مناجاتیں جن میں دیوتا مخاطب نہیں ہیں ایسی ہیں جو راجاؤں کی فیّاضی اور قبائلی خانہ جنگی نیز عوام کی زندگی اور عادات پر تھوڑی بہت روشنی ڈالتی ہیں‘‘ ۱۲؎
ویدوں کے اجزاء
وید کو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے،یہ تقسیم زمانہ تصنیف اور موضوعات کے لحاظ سے ہے۔
سمہتا۔ چاروں ویدوں کا پہلا حصہ سمہتا کہلاتا ہے، جس کے معنی مجموعے کے ہیں یہ ویدوں کے اصل اشعار اور سب سے قدیم حصہ ہے، اس حصے میں زیادہ تر مظاہر فطرت کی حمد و ثنا اور قربانی میں پڑھے جانے والے منتر ہیں اسکے علاوہ قدیم دیوی دیوتاؤں کا ذکر ملتا ہے۔
برہمنا۔ ویدوں کا دوسرا حصہ برہمنا کہلاتا ہے اس سے ہمیں یگیہ یعنی قربانی آگ کی مدد سے کی جانے والی عبادات اور دیگر مذہبی رسوم کی تفصیل ملتی ہے۔
سمہتا اور برہمنا کی خصوصیات کرم کانڈ یعنی رسوم اور اعمال سے متعلق بتائی جاتی ہے کیونکہ ان دونوں کا استعمال بنیادی طور پرمذہبی رسوم کی تفصیل ملتی ہے۔
آرنیکا۔تیسرا حصہ آرنیکا ہے جو موضوع کے اعتبار سے برہمنا ادب کی طرح ہے۔
اپنشد۔ویدوں کاآخری اور چوتھا حصہ اپنشد کہلاتا ہے جس میں فلسفیانہ قسم کے مباحث ہیں،اپنشد کے آخری دو حصے جنان کانڈ گیان کانڈ بھی کہلاتے ہیں کیونکہ ان کتب میں علم و دانش اور فلسفے سے متعلق بحث کی گئی ہے۔
یجر وید۔ یہ اصل رگ وید سے ہی ماخوذ ہے اس وید میں ۲۰ کتا بیں ہیں جنہیں کانڈ کہتے ہیں،یجر وید میں نظم و نثر دونوں طرح کے منتر ہیں،اس وید میں یگیہ (قربانی )کے احکامات و ہدایات کے منتر ہیں اور کچھ مذہبی رسومات سے متعلق ہیں جو خاص مواقع پر پڑھے جاتے ہیں ۔
شکلا یجر وید (سفید یجر وید)
کرشنا یجر وید(سیاہ یجر وید)
شکلا یجر وید ۴۰ ابواب پر مشتمل ہے جس کو ادھیائے کہتے ہیں کرشنا یجر وید ۵ کانڈ پر منقسم ہے،جس کے ذیلی ابواب پرپاٹھک کہلاتے ہیں۔
یجر وید میں دیوتاؤں کا تذکرہ کے ساتھ ساتھ کنواں آگ پہاڑ ہوا نالہ وغیرہ کا تذکرہ ہے اس کے علاوہ قربانی میں استعمال ہونے والی اشیاء مثلاً گھی،دودھ،اناج، لکڑی وغیرہ کا ذکر ملتا ہے۔
یجر وید میں ہے ’’تم چاول ہو دیوتاؤں کو سیر کرو اندر جانے والی سانس کے لئے ،تجھ کو باہر جانے والی سانس کے لئے تجھ کو تمام جسم میں ساری سانس کے لئے تجھ کو پیستا ہوں،نہایت عمدہ لمبی عمر کو حاصل کرنے کے لئے تجھ کو قائم کرتا ہوں۔ ۱۳؎
یجر وید چونکہ رگ وید کے منتروں سے ماخوذہے اس لئے رگ وید کے منتروں کی مانند یجر وید میں کہیں کہیں مذہبی ،سماجی ، معاشی تعلیمات و احکام اور دیوتاؤں کی التجا ئیں ہیں یجر وید کا آخری باب جس میں ایثار و اخلاص اور روحانی تعلیمات موجود ہیں۔
سام وید۔ ویدوں کے تیسرے حصے کا نام سام وید ہے، اس وید میں شاعر اوروہ گیت جو پجاری حضرات بموقع قربانی مختلف اوقات میں پڑھتے ہیں ان گیتوں کو بھجن کے انداز میں پڑھا جاتا ہے۔
سام وید کی چا رشاخیں ہیں
۱۔ کوتھماkauthama ۲۔ رناینیاRanayaniya ۳۔جمینیا/تلاوکارہjaiminya/Talavakara ۴۔شتائیناShatyayna
اتھر وید۔ یہ وید چوتھا اور آخری وید ہے یہ وید طویل عرصے بعد وجود میں آیا،اس وید میں مذہبی رسو ما ت ہیں۔اتھر وید کی دو شاخیں ہیں۔۱۔ شانگ،۲۔ پیتپالدا
دونوں شاخیں ۲۰ کانڈوں (کتابوں) پر مشتمل ہیں۔اس وید میں سام وید کے بمقابل رگ وید کے منتر دیوتا،جادو ٹونے علاج و معالج اور یونانی جڑی بوٹیوں سے متعلق ہیں، لیکن ان کے علاوہ مذہبی فلسفہ خانگی و سماجی زندگی حیات و موت تاریخ و جغرافیہ ایثار و قربانی وغیرہ پر بھی بہت سے منتر ملتے ہیں۔
اتھروید کے تعلق سے البیرونی لکھتے ہیں:
’’ اتھر وید میں سمدھی کے احکام بیان کئے گئے ہیں اس کی نظم پہلے دونوں ویدوں کی نظموں سے مختلف ہے،اور نظم کی اس قسم کو بھار کہتے ہیں یہ ناک سے آواز نکالنے جیسے انداز میں پڑھی جاتی ہے دوسرے ویدوں کے مقابلے اس کی طرف ہندوں کی توجہ کم ہے، لیکن اس میں بھی آگ کی قربانیوں کے علاوہ میت اور میت کے لئے جو احکام ہیں، ان کو بیان کیا گیا ہے ۔‘‘ ۱۴؎
اپنشد۔ ویدوں کے بعد اپنشد کو اہم مانا جاتا ہے لفظ اپنشد تین لفظوں کا مرکب ہے اپا۔نی۔ شد اپا کے معنی قریب،نی بمعنی نیچے،اور شد کے معنی ہیں بیٹھنا یعنی اپنشد کے لفظی معنی ہیں استاد کے قریب بیٹھنا یعنی اپنشد وہ ادب ہے جس میں دنیا جہاں کے پوشیدہ رازوں کا انکشاف کیا گیا ہے ۱۵ ؎
سنسکرت ہندی شبد کوش میں اپنشد کے لفظی معنی پر اسرار علم یا راز سے معمور اصول اور اصطلاحی تعر یف ہے برہمن گرنتھ کے ساتھ منسلک کچھ تصنیفات جن کا خاص مقصد ویدوں کے باریک و گہرے مفاہیم کی ترجمانی کرنا ۱۶؎
ہندوستان کی قدیم دانش کا ماخذ اپنشد کو قرار دیا جاتا ہے،اس میں ویدوں کی تشریح منفرد اسلوب میں ملتی ہے،اپنشدوں کو ویدوں کا ماحصل سمجھا جاتا ہے،اس کا خاص موضوع اخلاقیات و فلسفہ اور مذہبی معاملات ہیں اور تمام تعلیمات خدا (برہما) اور روح (آتما) کے اردگرد گھومتی ہے، اپنشدوں میں ہمہ اوست اور وحدت الوجود کی تعلیمات بکثرت موجود ہے۔
ہر اپنشد ایک خاص وید سمہتا سے متعلق ہوتا ہے اور اسے اس وید کی فلسفیانہ تعلیمات کا لب لباب سمجھا جاتا ہے ویدوں کی طرح اپنشدوں میں بھی اختلافات موجود ہیں، روایتی طور پر اپنشدوں کی تعداد ۱۰۸ بتائی گئی ہے ،ہندو اکثریت میں ۱۰ اپنشدوں کو خاص اہمیت دی گئی ہے انھیں دشواپنشد یعنی دس اپنشد بھی کہا جاتا ہے۔جو مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔ ایتریہ اپنشد رگ وید
۲۔ ایش اپنشد یجر وید
۳۔ کٹھ اپنشد یجر وید
۴۔ تیتریہ اپنشد یجر وید
۵۔ برہدارنیک اپنشد یجر وید
۶۔ چھاندوگیہ اپنشد سام وید
۷۔ کین اپنشد سام وید
۸۔ پرشن اپنشد اتھر وید
۹۔ منڈک اپنشد اتھر وید
۱۰۔ منڈوکیہ اپنشد اتھر وید
ان اپنشدوں میں وید اور ویدوں کی تفسیر برہمن کا حصہ بھی بن گئے ہیں مثلاً برہدارنیک اپنشد کو ست پتھ برہمن اور سفید یجر وید میں شامل کیا گیا ہے اسی طرح ایش اپنشدیجر وید کا چالیسواں ادھیائے ہے۔
ویدوں کے بعد ویدوں کے متعلق تین قسم کے گرنتھ وجود میں آئے۔
۱۔براہمن گرنتھ ۲۔آرنیک گرنتھ ۳۔اپنشد گرنتھ
براہمن گرنتھ ان لوگوں کے لئے ہے جو خانگی زندگی بسر کریں ،آرنیک گرنتھ جنگلوں میں بود و باش اختیار کرنے والوں کے لئے وجود میں آئے،اور اپنشد ان لوگوں کے لئے ہیں جو سنیاس کے ساتھ اپنا سفر زندگی شروع کریں۔
پران۔ ہندو مت کی کتب میں وید اور وید کے بعد پران کو مقد س تسلیم کیا جاتا ہے، ویدوں کو الہامی مانا جاتا ہے اور اپنشد اور پران کو ان کی تفسیر و توضیح قرار دیتے ہیں۔
وامن شیورام آپٹے پران کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’پران کا لغوی معنی پرانا ،قدیم ،پرانی تاریخ یا بیان کو ہی پران کہا جاتا ہے،کچھ مشہور مذہبی کتب جو تعداد میں ۱۸ ہیں اور ویاس جی کے ذریعے تالیف کردہ مانی جاتی ہیں، اور جو قدیم ہندو مذہبی کہانیوں کے مجموعوں کا خزانہ ہیں‘‘ ۱۸ ؎
پرانوں میں سرگ (دنیا کی تخلیق) اور پرتی سرگ یعنی قیامت کے بعد کی ازسر نو تخلیق یعنی رشیوں اور دیوتاؤں کا نسب نامہ ،حال اور منو منتر یعنی عہد عظیم و نشانو چرت یعنی قدیم راج گھرانوں کی تاریخ ملتی ہے، پرانوں کی تعداد ۱۸ ہے جن کے نام یہ ہیں۔
۱۔سکنڈ پران: پرانوں میں سب سے طویل ہے اور شیو دیوتا کے بیٹے سکنڈ کے حالات و واقعات پر مبنی ہے۔
۲۔بھاگوت پران: یہ سب سے زیادہ پڑھا جانے والا پران ہے ،اسکو شریمد بھگوت پران بھی کہتے ہیںوشنو دیوتا کے سبھی اوتا ر کا تذکرہ موجودہے۔
۳۔پدم پران: قدیم پرین پران ہے جیسے گیتا مہا آتمیا بھی کہا جاتا ہے اس پران کے پانچ حصہ ہیں۔
۱۔رشی پلستیا ۲۔ زمین اور جغرافیہ ۳۔علم کونیات اور سرزمین ہند کے بارے میں ہے۔
۴۔ شری رام کے حالات
۵۔ شیو دیوتا اور پاروتی کے درمیان ہونے والے مکالمے کو بیان کیا ہے۔
۴۔ بھوشیہ پران: اس پران میں بادشاہ اور مستقبل کے حالات کی خبر ملتی ہے۔
۵۔ متسیہ پران: قدیم پرانوں میں سے ایک ہے اس پران میں وشنو کے اوتار متسیہ (مچھلی) کا ذکر ملتا ہے۔
۶۔ وشنو پران: یہ پران وشنو دیوتا پر ہے اس پران میں رام اور کرشن کے مختصر حالات کے ساتھ ساتھ وید کی شاخوں سے متعلق معلومات بھی ملتی ہے۔
۷۔ برہما پران: اس پران میں بنگال میں واقع مقدس مقام پر شوتما تیرتھ Purushottama Tirthaکے بارے میں ہے یہ دو حصوں پر مشتمل ہے پہلا حصہ پوروابھاگ، دوسرا حصہ اتربھاگ کہلاتا ہے۔
۸۔ برہما کانڈ پران : یہ پران تخلیق کائنات سے متعلق ہے،اور قدیم ہندو تہذیب ثقافت کے بارے میں معلومات فراہم ہوتی ہے۔
۹۔ برہماویورت پران: اس پران میں شری کرشن ،شری گنیش اور مختلف دیوتاؤں کی حمد و ثنا کا طریقہ بیان کیا گیا ہے۔
۱۰۔ گرودا پران: اس پران میں وشنو اور گرودا نامی رشی کے مکالمے کو بیان کیا گیا ہے۔
۱۱۔ ہری ومسا پران: یہ پران مہابھارت کا حصہ ہے، وشنو اوتار قدیم ریاستوں کی تفصیلات اور کلیگ کے متعلق پیشن گوئیاں ملتی ہیں۔
۱۲۔ شیو پران: شیو دیوتا کی مختلف صورتیں عبادت اور حمد و ثنا کے متعلق داستان شیو پران میں ہے۔
۱۳۔ لنگ پران : برہما وشنو، شیو کے واقع کا تذکرہ ہے۔
۱۴۔ نادریہ پران: اس پران میں قدیم رشی نادر کا تذکرہ موجود ہے۔
۱۵۔ وایوںپران: چوبیس ہزار شلوک پر مبنی ہے،یہ وایو دیوتا سے منسوب ہے۔
۱۶۔ مارکنڈیہ پران:یہ پران جیمنی اور مشہور رشی مارکنڈیہ کے درمیان مکالمے کو بیان ہے۔
۱۷۔ ورہا پران: وشیو کے اوتار ورہا کا قصہ بیان کیاہے۔ یہ دو حصوں پر مشتمل ہے۔
۱۔ پوروابھاگ ۲۔ اتربھاگ
۱۸۔ومنا پران:و شیو کے اوتار ،ومناقصائص پر مشتمل ہے ان میں شیو کی حمد وثنا کی گئی ہے۔
شاستر و سوتر۔ شاستر سے مراد ہندوں کا وہ قوانین ہے جس کو اس مذہب میں فقہ کا درجہ حاصل ہے۔
ویدوں کے مذہبی اعمال و رسوم کے ان اصول و قوانین کا مجموعہ جو زبانی یاد رکھنا مشکل تھا، اس لئے مذہبی اور سماجی نظام کو تشکیل دینے والوں نے ان کو کتابی صورت میں مرتب کیا۔
سوتروں میں یگ،ہون،اور کس دیوتا کی کس طرح پوجا کی جائے تمام اصول کو بیان کیا گیا ہے، اور روز مرہ سے متعلق ویدوں کے تمام اصول و قواعد کو تفصیل سے پیش کیا ہے۔
شاستر اور سوتروں کی تعداد زیادہ ہے،اس لئے اشولائن گرہیہ سوتر،بودھائن سوتر،بھاردواج گرہیہ سوتر،گوتم دھرم سوتر،آپستمبہ دھرم سوتر،وشنو دھرم سوتر،وششٹھ دھرم سوتر اور منو دھرم شاستر شامل ہیں۔
منو اسمرتی کی قدامت کے سلسلے میں Gavin Floodلکھتے ہیں کہ:
“Traditionally the Manusmriti or Manvadharmshastra is recognized as the oldest and most important of all versified dharmshastra.” ۱۹؎
روایتی طور پر منو اسمرتی یا مانو دھرم شاستر سبھی دھرم شاستروں میں سب سے زیادہ اہم اور قدیم و مستند دھرم شاستر کے طوپر جانی جاتی ہےدھرم شاستر میں سب سے مقدس منو دھرم شاستر ہے، جیسے منواسمرتی بھی کہتے ہیں، منو اسمرتی میں سماجی رسم و رواج اور قوانین بیان کئے گئے ہیں، اس کتاب کے مصنف منو ہیں، لیکن ان کی شخصیت تاریخی لحاظ سے غیر یقینی ہے منو اسمرتی نے ہندوستانی تہذیب پر گہرے اثرات مرتب کئے ہیں، منو اسمرتی میں ہندو معاشرہ ،ذات پات کے نظام،ورن آشرم وغیرہ کا ذکر ہے۔
منو سمرتی میںبارہ ابواب ہیں،جو کل ۲۶۸۵ شلوکوںکامجموعہ ہے جیسا کہ Encyclopedia میں مذکور ہے: Manusmriti consists of 2,685 slokas verses divided
۲۰؎ into twelve book
منو اسمرتی 2685شلوکوں پر مشتمل ہے اور 12ابواب میں تقسیم ہے۔
رامائن۔رامائن کو دھرم شاستر (ماخذشریعت) کا درجہ حاصل ہے یہ ہندو کی عظیم رزمیہ کتاب ہے جس کی تصنیف مشہور رشی بالمیک نے کی تھی رامائن میں چونکہ قدیم ہندو تہذیب و تمدن کی جھلک موجود ہے رامائن میں شری رام چند کا قصہ ہے اس کہانی میں رام ہنومان کی مدد سے راکشسوں کے راجہ راون کو مار کر اپنی بیوی سیتا کو چھڑاتے ہیں۔
رامائن میں رام چندر کی زندگی کے مختلف پہلووں کو پیش کیا گیا ہے اور مذہبی سماجی سیاسی خانگی صورت حال پر بھی روشنی ڈالی ہے۔
’’رامائن میں۷ کانڈ اور چوبیس ہزار اشلوک ہیں اسی وجہ سے اسکو چتر شانتی سہتری سنہتا بھی کہا جاتا ہے ،اس میں ۶ کانڈ ہیں جیسا کہ اسکے دیباچے میں کہا گیا ہے اور ساتواں کانڈ بعد میں اضافہ ہوا ہے‘‘ ۲۱ ؎
رامائن کے مذکورہ کانڈ وں کے نام درج ذیل ہیں۔
۱۔بال کانڈ ۲۔اترکانڈ ۳۔سندر کانڈ ۴۔ارنے کانڈ ۵۔یدھ کانڈ ۶۔ایودھا کانڈ ۷۔کشکندھا کانڈ
مہابھارت۔مہابھارت بھی رزمیہ شاعری کی شاہکارکتاب ہے، یہ وید ک ادب میں شمار نہیں کی جاتی ہے دولاکھ پندرہ ہزار اشعار پر مشتمل مہا بھارت دنیائے ادب کی طویل ترین نظم ہے۔
مہابھارت ۱۸ حصوں پر مشتمل ہے ہر حصے کو پرو کہا جاتا ہے ۱۸ پروں میں اشلوک کی تعداد ایک لاکھ ہے۔ ۲۲؎ مشہور روایت کے مطابق مہا بھارت جیسے شعری مجموعے کا تخلیق کار دوے یاپن ویاس کو تسلیم کیا جاتا ہے ۲۳؎
مہابھارت کی کہانی وشنو کے اوتار شری کرشن ان کے حلیف پانڈو اورر کوروں کے گرد گھومتی ہے :شنکر ترپاٹھی مہارت کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’ایک قدیم روایت کے مطابق اس عظیم الشان کتاب کے مصنف دواپاپن ویاس تھے لیکن اس کی زبان اسلوب اور بیان میں عدم یکسانیت صاف ظاہر کرتی ہے کہ یہ کسی ایک دماغ یا کسی ایک دور کی تصنیف نہیں ہے اس کی موجودہ صورت اصل نظم میں وقتا فوقتاً اضافوںکا نتیجہ ہے زمانے کی رفتار کے ساتھ اس میں کافی تبدیلیاں کی گئی ہیں اضافہ ہوتے رہے اور برہمنوں نے اسے فلسفیانہ مذہبی، ناصحانہ اور علم الاصنام کے عظیم الشان مواد سے مالا مال کردیا ‘‘۲۴ ؎
گیتا۔وہ عظیم شعری مجموعہ جس کو ہندوستانی تاریخ میں پانچویں وید کے نام سے یاد کرتے ہیں، اسکی چھٹی کتاب کے اٹھارہ ابواب یعنی ۲۳ ویں باب سے لیکر ۴۰ ویں باب تک کا خاص حصہ بھگوت گیتا کہلاتا ہے۔
مہابھارت کا ایک حصہ کو کرشن کے مشہور ومعروف وعظ و نصیحت تعلیم و روحانیت اور اخروی نجات جیسے مضامین پر مشتمل ہے،بھگوت گیتا کے نام سے مشہور ہے۔
عماد الحسن فاروقی رقم طراز ہیں:
’’ مہابھارت کا ہی ایک حصہ وہ مشہور و معروف فلسفیانہ وعظ ہے،جو بھگوت گیتا کے نام سے مشہور ہے،یہ کتاب جو مہابھارت کی چھٹی کتاب کے اٹھارہ ابواب ( ۲۳ ویں باب سے چالیسویں باب تک)پر مشتمل ہے‘‘ ۲۵؎
گیتا کے دو حصہ ہیں : ۱۔ فلسفیانہ ۲۔مذہبی
فلسفیانہ حصے میں خدا ،روح ،جسم ،حیات روحانیت اور عقیدت و محبت کی حقیقت کو بیان کیا گیا ہے۔
مذہبی حصے میں کرم یوگ نتیجہ عمل بھگتی اور نفس کشی وغیرہ کی تعلیم دی گئی ہے۔
مذکورہ بالا کتابیں ہی ہندو مت کے مذہبی سرمایہ کے طور پر جانی جاتی ہیں ،اور انہی پر ہندو مت کے عقائد وعبادات اور تہذیب و ثقافت کی بنیاد ہے۔
حوالے و حواشی
۱؎ پجیاسری چندر سیکھاریندرا سرسوتی سوامی، ہندو دھرما:دی یونیورسل وے آف لائف، بھارتیہ ودیا بھون ممبٔی۱۹۹۵،ص۳ ۵
۲؎ پنڈت جواہر لال نہرو ، دی ڈسکوری آف انڈیا،دہلی آکسفورڈ یونیورسٹی پریس ،آکسفورڈ نیویارک،ص ۷۵
۳؎ مہاتما گاندھی، ہندو دھرما، اورینٹ پیپر بیکس،انصاری روڈ نئی دہلی، ص ۴ /ابرار احمد قاسمی،ہندوستانی مذاہب،آروراپرنٹرس پبلیشرز،دہلی۲۰۰۵ء،ص ۲۰
۴؎ ایضاً ۵ ؎ پروفیسر میاں منظور،تقابل ادیان و مذہب، محمد سعید اقبال علمی بک ہاوس منظور پرنٹنگ پریس لاہور ،ص ۱۲
۶؎ مرتب قیام الدین ،البیرونی کا ہندوستان،تر جمہ عبد الحی ،باب ۱۲، مطبع حاجی حنیف اینڈ سنزلاہور،طیب پبلشرز، یوسف مارکیٹ غزنی سٹریٹ اردو بازار لاہور ۲۰۰۵ ،ص ۷۴
۷ ؎ عبد الحمید نعمانی ،ہندوازم، جلد اول،ص ۱۵،نعمت کمپوزنگ ہاوس ،دہلی
۸ ؎ سوامی ویدانند سرسوتی،وید اور قرآن ،اسلامی سہتیہ پرکاشن۱۹۹۸ء، ص ۱۵
۹ ؎ ایس رادھا کرشنن،انڈین فلوسفی، جلد اول،نیویارک ،ص ۶۳
۱۰؎B.B paliwal ,Massage of vadas,Delhi Dimonad pocket Books 2006 p.13
۱۱ ؎ سہ روزہ دعوت کی خصوصی پیش کش ، ہندوستانی مذاہب نمبر، محمد صاحب کا مضمون ’’وید کا تعارف‘‘ ص۲۵
۱۲؎ رماشنکر ترپاٹھی،قدیم ہندوستان کی تاریخ،ترجمہ سید حسن نقوی،قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان،حکومت ہند، ویسٹ بلاک ۔۱ ٓر۔کے ۔پورم ، نئی دہلی،ص ۵۴
۱۳؎ یجر وید ادھیائے۱،منتر ۲۰
۱۴؎ قیام الدین احمد،البیرونی کا ہندوستان ،مترجم عبدالحی ،مطبع حاجی حنیف اینڈسنز لاہور،یوپبلشرز یوسف مارکیٹ غزنی سٹریٹ اردو بازار لاہور ۲۰۰۵،ص ۶۳
۱۵ ؎ ہندوستانی مذاہب نمبر،اپنشد ایک تعارف، ص ۵۱
۱۶ ؎ وامن شیورام آپٹے،سنسکرت شبد کوش ،ص۱ ۲۴،کل پرکاشن دریا گنج نئی دہلی
۱۷؎ وامن شیورام آپٹے،سنسکرت شبد کوش ،ص ۶۶۶
۱۹؎ گاوین فلوڈ،دی بلیک ویل کمیونین۴ ٹو ہندوازم،بلیک ویل پبلیشنگ،ص۱۰۷
Bowker,johhn,The oxford Dictionary of world Religions, NewYork,oxford University press 1997,p.616 ۲۰؎
۲۱ ؎ رماشنکر ترپاٹھی،قدیم ہندوستان کی تاریخ،ترجمہ سید حسن نقوی ،ص ۸۹۔۹۰
۲۲؎ البیرونی کا ہندوستان ۶۸
۲۳؎ البیررونی کا ہندوستان ص ۷۰
۲۴؎ رماشنکرترپاٹھی،قدیم ہندوستان کی تاریخ،ص۹۲
۲۵؎ عماد الحسن فاروقی،دنیا کے بڑے مذہب ،مکتبہ جامعہ لمیٹڈ،قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان ،ص۳۵
مشمولہ: شمارہ نومبر 2018