آج اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ اسلام کے ماننے والے انسانیت کے سچے خادم اور خیر خواہ کی حیثیت سے سامنے آئیں۔ یہ اسلام کے پیغام رحمت کی عملی شہادت کا کام ہے اور اسی کام سے لوگوں کے دل جیتے جاسکتے ہیں، اور راے عامہ پر مثبت اثر ڈالا جاسکتا ہے۔اس تناظر میں اعلیٰ تعلیم یافتہ پروفیشنلز کا یہ تجربہ پوری امت کے لیے ایک خوب صورت نظیر ہے۔ (ادارہ)
ایک مجبور بزرگ خاتون اسپتال کے مین گیٹ پر مایوس کھڑی ہوئی بے بسی سے تک رہی ہے کہ وھیل چیئرکے بغیرکس طرح بیماری و معذوری کے بوجھ کو اسپتال کی اگلی منزل تک پہنچایا جائے ۔ دسیوں کلومیٹر دور ہیلپنگ ہینڈ فاونڈیشن ( HHF)کا کمانڈاینڈ کنٹرول سینٹر اس منظر کو نوٹ کرتا ہے ، اور اسپتال میں موجود اپنے پیشنٹ کیئر سینٹرکو فوری متوجہ کرتا ہے۔ لیجیے، اگلے ہی لمحے ہیلپنگ ہینڈ فاؤنڈیشن کے رضاکار وھیل چیئراور اسٹریچر کے ساتھ حاضر ہیں۔
شہر کے کئی سرکاری اسپتالوں میں ایسے انوکھے مناظر عام ہیں جن سے سرکاری اسپتالوں کے معیار کار ( پرفارمنس) میں بڑی خوش گوار تبدیلیاں پیدا ہوئی ہیں ۔صحت عامہ ( پبلک ہیلتھ )کے میدان میں ہمہ گیر خدمات، تنوع، جدت اور حسن انتظام کے حوالے سے ہیلپنگ ہینڈ فاؤنڈیشن ، حیدرآباد اور اس کے روحِ رواں جناب مجتبیٰ حسن عسکری کے نام روشن حروف سے لکھے جانے کے قابل ہیں ۔
اتفاقی شروعات
ایام کے اوراق پلٹیں تو ہم دیکھیں گے کہ عسکری صاحب ۲۰۰۵ءکے میں ایک نہایت قابل کارپوریٹ مینیجر ہیں جو ملک کی دوسری سب سے بڑی سافٹویئر فرم ( انفوسس ٹیکنولوجیز) میں ایک پراجیکٹ کی بہت اعلیٰ سطح پر ذمہ داری نبھارہے ہیں۔دسیوں گھنٹے کارپوریٹ خدمت، اعلیٰ معاوضہ، پیکیج، مراعات اور آسائشوں کی بارش ۔ پھر اچانک یہ کا یا پلٹ کیسے ؟
میں نے اس امید کے ساتھ سوال پوچھ لیا کہ شاید کسی دل چسپ اور جذباتی کہانی کا انکشاف ہو ۔ ویسی ہی کوئی کہانی جو عموماً ہر چھوٹے بڑے انقلاب کی تہہ میں چھپی ہوتی ہے۔
لیکن معلوم ہوا کہ یہ شروعات نہ تو کسی واقعے کا جذباتی رد عمل تھا ، اور نہ ہی کسی طویل منصوبہ بندی کا نتیجہ ۔
بس حالات کے مارے ایک بندہ خدا کے علاج کا کیس کسی ذریعہ سے مجتبیٰ عسکری صاحب تک پہنچ گیا ۔ انھوں نے اپنا تعاون پیش کرتے ہوئے یہ سوچا کہ کیوں نہ اس کار خیر میں دفتر کے چنددوستوںکو بھی شامل کرلیا جائے۔ ایک ای میل لکھ کرجب فلور پر مختصر حلقے کو بھیجا گیا تو حاصل ہونے والی کامیابی اور اس چھوٹی سی کوشش کے نتیجے نے جو خوشی اور حوصلہ بخشا وہی ایک بڑے کام کی غیر منصوبہ بند اور اتفاقی شروعات بن گیا ۔ ابتدائً بھائی صادق عسکری کے ساتھ ساتھ کچھ اور نوجوان پروفیشنلس کا تعاون بھی شامل رہا ۔
کارپوریٹ کی چکاچوند معاشرےکی بے کسی پر بے حسی کا پردہ ڈال دیتی ہے ۔ ٹیکنالوجی کے ان محلات سے فن و ہنر کی کہکشائیں ضرور جلوہ گر ہوتی ہیں، لیکن سماج کی غربت، بیماروں کی تڑپ اور بیروزگاری کے دکھ سے یہاں کی بصارتیںنآشنا ہوتی ہیں ۔ اسی فریب نظری کے بل پر چالاک سیاست دان یہاں کے لاکھوں قابل سادہ لوحوں کو ہرجانب ہریالی دکھانے میں کامیاب بھی ہوجاتے ہیں ۔
مجتبیٰ صاحب نے اس پرفریب بھرم کو توڑا ۔وہ اپنی میلنگ لسٹ کو مسلسل بڑھاتے رہے اور کارپوریٹ اداروں میں دوستوں کو آگاہ کرتے رہے تا کہ بے کس سماج اور اس کے دکھوں پر توجہ رہے ۔ اور ان کی دعاؤں کے انمول خزانوں پر بھی نظر رہے، جو کسی پیکیج سے کہیں زیادہ قیمتی ہوتی ہیں ۔
اب ہر آنے والاکیس نتائج بھی دیتا اور کچھ نئے معاونین بھی ۔ بڑے فائنانسرس اور عطیہ دہندگان کے بغیر صرف آن لائین رسائی(ای میل) کے ذریعے شروع ہونے والے اس سفر نے بارہ برسوںمیں نہ صرف نیک نامی اور اعتماد سمیٹا بلکہ شہر کے کارپوریٹ اداروں میں ۳۳۰۰ معاونین کا گروپ بھی دیا ۔ شروع میں یہ خدمت غیر معلنہ ضرور تھی لیکن پیاسے چشمے کا پتہ لگا ہی لیتے ہیں کیسوںکی تعداد بڑھتی گئی ۔پروفیشنل ذمہ داریوں کے ساتھ کئی کیسوں کو سمجھ کر تعاون کرنا ایک مشکل کام تھا ۔ چنانچہ آپ نے ۲۰۱۴ میں کارپوریٹ کیریر کو خیرباد کہا اور ہیلپنگ ہینڈ فاؤنڈیشن کے ذریعے مجبوروں کے ہمہ وقتی خادم بن گئے ۔
وسعت و ندرت
ہیلپنگ ہینڈ فاؤنڈیشن کا باضابطہ قیام ۲۰۰۷ء میں عمل میں آیا ۔ پچھلے بارہ برسوںکے سفر پر جب میں نے نظر ڈالی تو وسعت کے ساتھ ساتھ جس چیز نے متاثر کیا وہ اس کی سرگرمیوں کی جدت و ندرت اور حسن انتظام ہے ۔ جدید مینجمنٹ کے وسیع تجربے نے یہاں خوب کام کیا ۔ ہیلپنگ ہینڈ فاؤنڈیشنمیں بے ڈھنگے پن اور نکمے پن کا کوئی گزر نہیں ۔ ہر کام پورے سلیقے کے ساتھ انجام پاتا ہے ۔
جب کیسوں کی تعدادمسلسل بڑھنے لگی اور ہر کیس کے لیے کارپوریٹ اسپتالوں میں علیحدہ فنڈ فراہم کرنا مشکل ہوتا گیا تو سوچا کہ کیوں نہ سرکاری اسپتالوں کا معیار بلند کرکے وہی کام انھیں سے لیا جائے ۔ اس طرح کم وسائل کے ساتھ افادیت کا دائرہ بھی بڑھے گا ۔خیال شان دار سہی، لیکن دشواریوں سے بھرپور تھا ۔ سب سے پہلے ان اسپتالوں کے علاج کو مفید اور معتبر بنانا ضروری تھا ۔ چنانچہ بنیادی کم زوریوں کا تجزیہ اور ان کے حل کی پلاننگ کی گئی، اوراس طرح ایک نیا محاذ کھل گیا ۔
سرکاری اسپتالوں میں ایک غیرسرکاری فاؤنڈیشن کی موجودگی کا یہ تصور نہ صرف نیا بلکہ مشکل تھا ۔ مختلف سطحوں پر مذاکرات اور حکومتی اداروں کو راضی کرنا ایک لمبا مرحلہ تھا ۔ان سخت مراحل سے گزرکر آج ہیلپنگ ہینڈ فاؤنڈیشنشہر کے۳۰ سرکاری اسپتالوں میں اپنا فرنٹ ڈیسک سپورٹ ۲۴گھنٹے فراہم کرنے کے قابل ہے ۔ کونسلنگ ڈیسک کے ذریعے بیماروں کی کونسلنگ کی جاتی ہے اور انھیں یقین دلایا جاتا ہے کہ ان اسپتالوں سے اسی معیار کا علاج یقینی بنایا جائے گا جو نجی اسپتالوں میں ممکن ہے ۔
دو سو ڈاکٹروں کا نیٹ ورک کیس کی نوعیت جانچ کر اس بات کا فیصلہ کرتا ہے کہ کس اسپتال کا رخ کیا جانا چاہیے ۔ دو سو رضا کاروں کی ٹیمیں اسپتالوں اور مریضوں کے درمیان پل کا کام کرتی ہیں، تاکہ مریض اور ان کے متعلقین کو کسی مرحلے پر دفتری فیتہ شاہی یا سرکاری عملے کے اڑیل رویے کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔
سرکاری اسپتالوں کا بوجھل ماحول بھی وحشت زدہ کرنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ ہیلپنگ ہینڈ فاؤنڈیشننے کوشش کی کہ ماحول کو بھی خوش گوار اور دوستانہ بنایا جائے ۔ پیشنٹ کیٗر سینٹر، برائب فری اسسٹنس، کلیننگ اینڈ ڈریسنگ والنٹیر، لاوارث مریضوں کے لیے پرسنل کیئریونٹ، لانڈری اور گاربیج ٹرالیوں کا نظم، ویٹنگ ہالوںمیں سلیقہ مند نشستوں کا نظم، مناسب سائین بورڈ وںکی تنصیب، ضروری روشنی کا انتظام، اہم اطلاعات کے لیے ایل ای ڈی ڈسپلے کی تنصیب، صاف ستھری چادروں کی فراہمی وغیرہ ۔ ہیلپنگ ہینڈ فاؤنڈیشنکی ان متنوع سہولیات نے سرکاری دواخانوں کے ماحول کو نہ صرف خوش گوار بنادیا بلکہ انھیں علاج کے لیے ایک ترجیحی مقام کا درجہ بھی دلوایا ۔
یہی نہیں بلکہ پس ماندہ بستیوں میں پرائمری ہیلتھ سینٹروں کا نیٹ ورک، اور ایچ آئی وی متاثرہ مریضوں کے لیے خصوصی پالیٹیو کیئر سینٹربھی ہیلپنگ ہینڈ فاؤنڈیشنکی منفرد خدمات کا نمونہ ہیں ۔ہیلپنگ ہینڈ فاؤنڈیشنکی خدمات سے روزانہ استفادہ کرنے والے تقریباً ۳۰۰؍لوگ ان سرگرمیوں کی وسعت کا ثبوت ہیں ۔
شہر کی مدر ٹریسائیں
ٹائمز آف انڈیا نے اپنی حالیہ اشاعت میں ہیلپنگ ہینڈ فاؤنڈیشن کے رضاکاروں کی خدمات کو اسی توصیفی نام (شہر کی مدر ٹریسائیں ) کے ساتھ بیان کیا ہے۔ ان سے فیض پانے والے مریض اس اعزاز کو بجا قرار دیتے ہیں ۔ ہیلپنگ ہینڈ فاؤنڈیشن کے رضاکاروں کی اکثریت خواتین پر مشتمل ہے ۔
انھیں پوری اپنائیت کے ساتھ انجان مریضوں کی خدمت کرتے دیکھ کر لوگ حیرت زدہ ہوتے ہیں ۔ کینسر زدہ مریضوں کے رِستے زخموں کی صفائی، لاوارث مریضوں کی دیکھ بھال، سنگین امراض کا شکار سماج سے دور کیے گئے مریضوں( ابینڈنڈ پیشنٹ ) کی خدمت، پیدائشی امراض کاشکار بچوں کی دل جوئی( کنگارو کیئرسینٹر)، غذائی قلت کی شکار حاملہ خواتین کے لیے روزانہ مقوی غذاؤں (ہائی پروٹین ڈائیٹ) کی فراہمی وغیرہ ۔ یہ وہ صبر آزما خدمات ہیں جو دردمند دل کے بغیر ممکن نہیں ۔ اسکارف کے ساتھ شائستہ یونیفار م میں ملبوس خدمت میں مگن رضاکار سماج کے ہر طبقے کی دعاؤں کی حق دار ٹھہرتی ہیں ۔
مہیش ایک ایسے ہی مریض ہیں جو مرض کی نہایت غیر یقینی حالت میں اسپتال لائے گئے ، اور اچھے علاج و تیمارداری کے بعد رخصت ہوئے ۔ وہ کہتے ہیں کہ میرے لیے مشکل ہے کہ ان رضاکاروں کا شکریہ ادا کرسکوں ۔ ان کی خدمات تعریف و تشکر کے اظہار سے پرے ہیں۔
کچھ مریضوں کا یہ تجربہ بھی ہے کہ ڈسچارج کے بعد بھی رضاکار اُن سے احوال معلوم کرتے ہیں، اور ہمت بندھاتے ہیں ۔ فاؤنڈیشن کی خدماتہیلپنگ ہینڈ فاؤنڈیشن بروشروں کے اعداد و شمار کے حوالے سے بیک نظر ملاحظہ فرمائیے ۔
تعداد / استفادہ کنندگان | ۲۰۱۹-۲۰۱۸ |
فیلڈ رضاکاران | ۲۰۰ |
جی پی ایس ایمبولنس | ۱۰ |
ایچ آئی وی، ٹی بی کیئر سینٹر (استفادہ کنندگان) | ۳۰۰ |
مہلک امراض (کینسر اعضا کی منتقلی وغیرہ) کا علاج | ۲۵۵۰ |
پیچیدہ آپریشن | ۲۴۵ |
مریضوں کی ایمرجنسی امداد | ۱۳۶۰ |
ایڈوانس لیب اور ٹیسٹ کے لیے امداد | ۱۲۶۰ |
مریضوں کو مفت ٹرانسپورٹیشن | ۳۳۰۰ |
خون کی فراہمی | ۲۴۰ |
مصنوعی اعضا کی فراہمی | ۲۰ |
وھیل چیئر، ایر بیڈ، واکنگ اسٹک کی فراہمی | ۷۵ |
سرکاری دواخانوں میں خدمات | |
ہائی پروٹین ڈائیٹ کی فراہمی (حاملہ خواتین اور ٹی بی کے مریضوں کے لیے) | ۱۴۵۰ |
پرائمری ہیلتھ سینٹروں کے استفادہ کنندگان | ۹۰۰۰ |
حاملہ خواتین اور زچہ امداد کے لیے رہنمائی | ۵ء۷۲ لاکھ |
بیڈ سائیڈ کیئر | ۸۲۰۸۰ |
مفت گاڑی اور ایمبولنس خدمات | ۹۳۴۰ |
حسن انتظام
ہیلپنگ ہینڈ فاؤنڈیشنکی سب سے نمایاں خوبی اس کا حسن انتظام ( ایڈمنسٹریشن اور مینجمنٹ ) ہے ۔
مستحق مریضوں کی مالی امداد کے لیے اس وقت بھی پس منظر کی تحقیق (بیک گراؤنڈ ویری فکیشن )کے اصول اور جدید طریقہ کا ر استعمال ہوتے تھے جب ادارہ اپنے ابتدائی دور میں تھا ۔ ایسا نہیں ہوتا کہ کوئی غیر مستحق، چالاکی کے بل پر کچھ سمیٹ لے چلے ۔
حسن انتظام کا ہی کمال ہے کہ کم وسائل میں بہترخدمات کا اصول اپناکر سرکاری اسپتالوں کو مفید اور کارآمد بنایا گیا ۔ امسال ۱۵۵۰؍ایسے مریضوں کو خانگی اسپتالوں سے سرکاری اسپتال لاکر شفایابی کے ساتھ رخصت کیا گیا، جنھیں سرکاری اسپتالوں پر اعتبار نہ تھا۔ اس عمل کے دوران کئی امور ملحوظ رکھے جاتے ہیں، جیسے اضافی کنسلٹیشن، کونسلنگ، رضاکاروںکے ذریعے اضافی دیکھ بھال اور اس بات کا یقین اور انتظام کہ کسی پل علاج اگرغیر یقینی ہوجائے تو فوراً نجی اسپتال میں منتقل کیا جائے گا۔
ڈیڑھ ہزار سے زائد مریضوں کو کارپوریٹ اسپتالوں کے چنگل سے بچالیناگویا کئی خاندانوں کو دیوالیہ ہونے سے بچالینا ہے ۔
یہی نہیں ٹی بی اور ایچ آئی وی متاثرین کے لیے جدید ہیلپ لائن، جی پی ایس نیوی گیشن نظام سے آراستہ ۱۰؍عصری ایمبولینس جوراست مرکزی کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹرسے مربوط رہتی ہیں، صلاحیتوں پر مبنی تعاون (skill-based assistance) کا میکنزم، انتظام کے جدید عصری طریقہ کار اورذرائع اور ٹائم مینجمنٹ بھیہیلپنگ ہینڈ فاؤنڈیشنکی پہچان ہیں۔
نتیجہ خیز اور مربوط کاموں کے اعتراف میں عسکری صاحب کوریاستی اقلیتی کمیشن کا ایوارڈ(آؤٹ اسٹینڈنگ ہیلتھ سروس ایوارڈ -۲۰۱۵)اور ریاستی ایوارڈبراے تدارک ٹی بی تفویض کیا گیا اور امسال پدم شری نامزدگی میں بھی آپ کا نام شامل ہے۔
چیلنج اور توقعات
عسکری صاحب سے میں نے وہ سوال بھی پوچھ لیا جس کےبغیر یہ گفتگو ادھوری ٹھہرتی ۔ یعنی یہ کہ کیا وہ اس سفر سے پوری طرح مطمئن ہیں ؟ کیا واقعی ہیلپنگ ہینڈ فاؤنڈیشنکو صرف کامیابیاں ملیں؟ کسی ناکامی نے کبھی حوصلوں کو چیلنج نہیں کیا ؟
’’یقیناً چیلنجوں، دشواریوں اور ناکامیوں کے بغیر کوئی سفر ممکن نہیں ۔ جب ہم نے سرکاری اسپتالوں کا رخ کیا تو پتہ چلا کہ لال فیتہ شاہی کی کرامتیں کیا غضب ڈھاتی ہیں ۔ آج بیشتر اسپتال اور ڈاکٹرس کے مثبت رویے سے ہمیں حوصلہ ضرور ملتا ہے لیکن چند اسپتالوں کے ڈاکٹروں اور عملے کو ہماری موجودگی کھٹکتی بھی ہے ۔ کوشش کے باوجود کچھ اسپتالوں تک ہمیں رسائی نہ مل سکی ۔
وسائل کی فراہمی بھی ایک چیلنج ہے ۔ ضرورت اور وسائل کی خلیج گہری ہے ۔ ہم نے متبادل راستے تلاش کرکے اس خلیج کو کسی حد تک پاٹنے میں کامیابی پائی، لیکن اب بھی ہمیں احساس ہے کہ ہم ان تمام کیسوں کو حل نہیں کرپاتے جو ہم تک پہنچتے ہیں ۔
اس کے علاوہ ہمارے عمومی پروفیشنلزم کی سطح بھی ایک مسئلہ ہے ۔ٹریننگ اور فالو اپ کے باوجود رضاکاروںکی کچھ تعداد ٹائم مینجمنٹ اور دیگر بنیادی اصولوں کا دھیان نہیں رکھتی، جو کبھی کبھار سخت مسائل کا سبب بن جاتے ہیں ۔ یہ اور بات ہے کہ اکثریت اس حوالے سے پابند اور باشعور ہے ۔‘‘
پیغام عمل
ہیلپنگ ہینڈ فاؤنڈیشن کا سفر ہر اس دلِ درد مند کے لیے ایک پیغام ہےجس کے لیے حوصلہ شکن ماحول ماتم کاسبب نہیں، عزائم کا دروازہ ہوتاہے۔
۱) ملت بے پناہ صلاحیتوں سے مالامال ہے جس کابس عشر عشیر جھلکتا ہے ۔ اور اس کا بھی ایک چھوٹا حصہ استعمال ہوتا ہے۔بالخصوص ہمارے وہ نوجوان پروفیشنلز جو عصری علوم اور جدید مہارتوں سے آراستہ ہیں، وہ چاہیں تو ملک و قوم کی قسمت بدل سکتے ہیں ۔المیہ یہ ہے کہ خدمت کے نام پر کچھ قابل ترین نوجوانوں کوہم وہی سب کام کرتے دیکھتے ہیں جو اجتماعی ترجیحات کی فہرست میںکہیں نہیں ٹھہرتے ۔ یہ رویہ اپنے اوپر ظلم ہے ۔ جہاں کارپوریٹ دفاتر میں ہماری تمنا ہوتی ہے کہ ہماری صلاحیتوںکا موزوں اور بھرپور استعمال ہو، وہی تمنائیں اور کوشش سماجی و اجتماعی سطح پر بھی ہونی چاہئیں۔
۲) مجتبیٰ عسکری صاحب کہتے ہیں کہ مشکلات کے باوجود لمبا عرصہ ہیلپنگ ہینڈ فاؤنڈیشن اور پروفیشنل مصروفیات متوازی چلتی رہیں ۔ لیکن جب منصوبوں کی ضروریات کے تحت سفر کا تقاضا بڑھ گیا تو وہی تقاضا کارپوریٹ کیریئرکا فل اسٹاپ بن گیا ۔
جن کی جاگتی آنکھوں میں بیرون ملک کے رنگین خواب مچلتے ہیں انھیں شاید مجتبیٰ صاحب کے اس انہونے فیصلے پر یقین نہ آئے، لیکن سچ یہی ہے کہ ملک میں رہ کر وقت اور وسائل کی قربانی پیش کرکے ہی ملک کی قسمت بدلنے میں کچھ رول ادا کیا جاسکتا ہے ۔ ورنہ مزے دار بات یہ ہے کہ کئی باشعور لوگوں کے نزدیک اس ملک میں سب سے بڑی ـ’’کامیابی ‘‘ ملک چھوڑ نا اوراور سب سے بڑی ’’قابلیت‘‘ این آر آئی کہلانا ٹھہرتی ہے ۔ اس رجحان اوربیمار ذہنیت کا بدلنا ضروری ہے ۔
۴) عسکری صاحب نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ہیلپنگ ہینڈ فاؤنڈیشنکا دائرہ کار حیدرآباد رہے گا ۔دیگر اضلاع تک پہنچنا ہیلپنگ ہینڈ فاؤنڈیشن کاراست منصوبہ نہیں ۔ مزید یہ کہ صرف صحت عامہ ہی ہمارا ہدف ہے ۔ خدمت کے دیگر میدان ( تعلیم، معاش وغیرہ ) ہمارے منصوبے کا حصہ نہیں ۔ اس طریقہ کار سے اختلاف ہوسکتا ہے، لیکن اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ یہ دور اختصاص ( اسپیشلائزیشن ) کا ہے۔
خدمت کا ہر میدان، اس کی ضرورتیں اور مشوروں کی چوطرفہ باڑھ، کام کرنے والوں کو مسلسل للکارتی ہیں۔ لیکن بہتر یہ ہے کہ توجہ بھٹکتی نہ رہے اور طے شدہ کام جدت اور حسن انتظام سے سنورتا رہے ۔
۵) سرکاری سہولتیں اور ان پر فائز خدمت گاروں ( سرکاری ملازمین) کا احتساب عوام کا حق ہے ۔ سرکاری اداروں کے بوجھل ماحول سے کترا کر نہ صرف ہم ( ٹیکس دہندگان ) اپنی جیب خود کترواتے ہیں بلکہ ان ملازمین کے نکمے پن کو مزید تقویت دینے اور ملت کے قیمتی وسائل اور بالخصوص عطیات ( چیریٹی) کو ان جگہوں پر کھونے کا سبب بن جاتے ہیں جو اصلاً سرکاری ذمہ داریوں کے دائرے میں آتے ہیں۔ اس محاذ پر ہیلپنگ ہینڈ فاؤنڈیشنکا حکیمانہ اپروچ قابل تقلید ہے ۔
۶)ہیلپنگ ہینڈ فاؤنڈیشن کا وسیع کام بس چند باشعور پروفیشنلس کے تعاون سے شروع ہوا تھا ۔ کسی بڑے فائنانسر کی پروا کیے بغیر محض نوکری پیشہ پروفیشنلس ( آن لائن معاونین ) کے نیٹ ورک نے انھیں اعلیٰ مقام تک پہنچایا ۔آجSEEDاوراس کے روح رواں جناب مظہر حسینی کے بشمول کچھ دیگر بڑے معاونین کا تعاون اہم کیسوںکے لیے دستیاب ہے لیکن آج بھی ہیلپنگ ہینڈ فاؤنڈیشنکی ۷۰؍فیصد ضروریات اسی ای میل نیٹ ورک سے تکمیل پاتی ہیں جو بالعموم نوکری پیشہ پروفیشنلس کو ہیلپنگ ہینڈ فاؤنڈیشنسے جوڑے ہوئے ہے ۔ شعور اگر بیدارہو اور نتائج واضح ہوں تو عام افراد کا مختصر اور مخلصانہ تعاون بھی بڑا بابرکت ثابت ہوتا ہے ۔
۷) ہر کام سے پہلے گہری اسٹڈی بھی ہیلپنگ ہینڈ فاؤنڈیشن کی خاصیت ہے ۔ پبلک ہیلتھ سسٹم کے تحت کس بیماری کے کتنے کیس درج ہوتے ہیں ۔ سماج کا کون سا گروپ کس مرض کا زیادہ شکار ہے ۔ کس شہر میں بیماریوں کا کیا تناسب ہے ۔ شعورو بیداری کی صورت حال کیسی ہے ؟ کہاں، کس نوعیت کا تعاون درکار ہے، وغیرہ ۔بڑے کاموں سے پہلے حقائق کا تجزیہ انھیں نتیجہ خیز بناتا ہے اوراگر یہ طرز عمل نہ ہوتو کئی مخلصین کو بھی عین سفر کے دوران بند گلی کا سامنا کرنا پڑجاتا ہے۔
۸) اورپیام یہ بھی ہے کہ چراغ سے چراغ جلتے رہیں ۔
ہیلپنگ ہینڈ فاؤنڈیشنکا وژن صاف ہے ۔ ان کا دائرہ عمل حیدرآباد ہے ۔ شہر کے باہر قدم رکھنا ان کے منصوبے کا حصہ نہیں۔ اس فیصلے کے حق میں دلائل بھی ہیں۔ لیکن اچھے کاموں کا دائرہ دیگر افراد کے ذریعے ہر ریاست تک پھیلنا چاہیے۔ ان سرگرمیوں سے تحریک پانا، ان سے سیکھنا، اپنی توانائیوں کو ٹٹولنا، سماج کی ضرورتوں کو پرکھنا اور ماتم کے بجائے متحرک ہوجانا ہر فرد کے لیے ضروری ہے ۔یقینی بنائیں کہ وقت کے مورخ کو اس پرآشوب دور میں ہماری تاریخ عمل کسی مقام پر کوری نظر نہ آئے ۔ بلکہ چراغ در چراغ روشنیاں پھیلتی رہیں۔
مشمولہ: شمارہ نومبر 2019