حقوق انسانی اور اسلام

عتیق احمد شفیق

اسلام ہر انسان کو اس بات کا حق دیتاہے کہ وہ زندہ رہے ۔ اسلام نے اس حق کا اتنا خیال رکھاہے کہ کسی دوسرے مذہب میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ وہ صرف انسان کو دوسروں سے ہی نہیں بل کہ پورے سماج کو اس حق کی حفاظت کی تاکید کرتاہے۔

مَن قَتَلَ نَفْساً بِغَیْْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِیْ الأَرْضِ فَکَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعاً وَمَنْ أَحْیَاہَا فَکَأَنَّمَا أَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعاًo﴿مائدہ:۲۳﴾

’’جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کردیا اور جس نے کسی کو زندگی بخشی اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی‘‘

جان بچانے کی مختلف شکلیں ہوسکتی ہیں۔ مثلاً کوئی بیماری کی وجہ سے مررہاہے، اس کے پاس دوا علاج کے لیے رقم نہیں ہے تو ایسے فرد کا علاج کراکے جان بچانا، کوئی ڈوب رہاہے، اس کو بچانا، کوئی بھوک اورافلاس کی وجہ سے مررہاہو تو اس کے افلاس کو دور کرنا اور کھانا کھلاکر اس کی جان بچانا کوئی سردی میں کپڑے نہ ہونے کی وجہ سے ٹھٹھررہاہوتو اس کے لیے گرم کپڑوں کا انتظام کرنا۔ اسلام کی یہ ہدایت عمومی ہے۔ جان کی حفاظت کے لیے وہ کسی نسل، قوم،طن، خطہ، رنگ، مذہب و ملت، ذات پات اوربرادری کی کوئی شرط نہیں لگاتاہے۔ قرآن ایک موقع پر کہتاہے :

وَلاَ تَقْتُلُواْ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّہُ اِلاَّ بِالْحَقo  ﴿انعام:۱۵۱﴾

’’کسی جان کو جسے اللہ نے محترم ٹھہرایاہے ہلاک نہ کرو مگر حق کے ساتھ۔‘‘

اسلام کی یہ تعلیم صرف اخلاقی حد تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اس سے آگے بڑھ کر وہ یہ حکم دیتاہے کہ اگر کوئی انسان کسی بے گناہ کاقتل کرتاہے تو اس کو قتل کردیاجائے:

وَلاَ تَقْتُلُواْ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّہُ اِلاَّ بِالحَقِّ وَمَن قُتِلَ مَظْلُوماً فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّہِ سُلْطَاناً فَلاَ یُسْرِف فِّیْ الْقَتْلِ اِنَّہ’ کَانَ مَنْصُوراًo          ﴿بنی اسرائیل: ۳۳﴾

’’اللہ نے جس جان کو حرام ٹھہرایاہے اسے ناحق نہ مارو اور جو ناحق مارا جائے تو اس کے وارث کو ہم نے اختیار دیاہے اور چاہیے کہ وہ قصاص میں زیادتی نہ کرے اس کی مدد کی جائے گی۔‘‘

اس آیت میں مقتول کے وارث کو حق دیاہے کہ وہ قتل کابدلہ لے۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی ہدایت کردی کہ وہ زیادتی نہ کرے۔ زیادتی نہ کرنے کی ہدایت قرآن اسی وجہ سے دیتاہے کہ عام طورپرمقتولین کے وارث غصے سے بے قابو ہوکر قاتل کی بہ جاے اس کے کسی اور رشتے دار کو قتل کردیتے ہیں یا قاتل کے گھرانے کے کئی افراد جو سامنے آجاتے ہیں، ان سب کو قتل کردیتے ہیں۔ اسلام اس کو درست قرار نہیں دیتاہے۔ وہ صرف اس بات کی اجازت دیتاہے کہ قاتل نے جس طریقے سے قتل کیاہے، صرف اسی طریقے سے قاتل کو قتل کیاجائے۔ یہ تمام معاملات اسلامی عدالت میںپیش ہوںگے اور وہی عمل آوری کرے گی۔

اسلام کے نزدیک بے گناہ کے قتل کامسئلہ اتنا سنگین ہے کہ وہ صرف وارثین ہی کو بدلے کاحق نہیں دیتاہے، بلکہ پورے سماج کو سماجی لحاظ سے اس مجرم سے بدلہ لینے کاذمّے دار ٹھہراتا ہے۔ قاتل خواہ امیر ہو یا غریب عہدے دار ہو یا عام سا انسان ، بادشاہ ہو یا غلام سب اس کے قانون کی زد میں آجاتے ہیں۔

یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ کُتِبَ عَلَیْْکُمُ الْقِصَاصُ فِیْ الْقَتْلَیo﴿بقرہ:۱۷۸﴾

’’اے ایمان والو! تم پر مقتولین کا قصاص ﴿بدلہ لینا﴾ فرض کیاگیاہے‘‘

بعض لوگ قرآن مجید کی اس تعلیم وہدایت سے متعلق اسلام پر الزام تراشیاں کرنے لگتے ہیں کہ اس سے تو مزید انسانوں کی جان تلف ہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ معاملے کو گہرائی سے نہیں لیتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اگر قاتل کو چھوڑدیاجاتاہے تو پھر وہ سینہ چوڑا کرکے گھمنڈ کے ساتھ گھومتا ہے۔ دوسرے لوگ اس سے خوف کھاتے ہیں اور وہ مزید درندگی اور خون ریزی کرتاپھرتاہے۔ اسلام نے قاتل کی سزا اس لیے ٹھہرائی ہے ، تاکہ سماج میں رہنے والے پھر کسی فرد کو کسی کوبے گناہ قتل کرنے کی ہمت نہ ہوسکے اور سماج خون خرابے سے مامون و محفوظ ہوسکے۔

مساوات کا حق

ہرانسان یہ چاہتاہے کہ اسے برابری کاحق ملے، کوئی اسے رنگ ونسل، ملک و وطن، حسب ونسب اور امیری وغریبی کی وجہ سے کمتر نہ سمجھے۔ سیاسی، شہری، تمدنی، معاشی اور سماجی ہر لحاظ سے اس کے ساتھ مساوات کامعاملہ کیاجائے۔ اسے سماج میں بحیثیت انسان ہر سطح پر برابری کا حق ملے۔ اس کے ساتھ کسی بھی سطح پر اونچ نیچ اور چھوت چھات کامعاملہ نہ کیاجائے۔ اس سلسلے میں اسلام کی تعلیم ہے:

یَآ أَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُواْ رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَۃٍ وَخَلَقَ مِنْہَا زَوْجَہَا وَبَثَّ مِنْہُمَا رِجَالاً کَثِیْراً وَنِسَآئ وَاتَّقُواْ اللّہَ الَّذِیْ تَسَآئ لُونَ بِہِ وَالأَرْحَامَ اِنَّ اللّہَ کَانَ عَلَیْْکُمْ رَقِیْباo     ﴿نساء:۱﴾

’’اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے کہ تم کو ایک ہی انسان سے پیدا کیا پھر اس کا جوڑا بنایا پھر ان دونوں سے بہت سے مرداورعورت پیداکیے۔‘‘

دوسری جگہ فرمایا:

یَآ أَیُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنَاکُم مِّن ذَکَرٍ وَأُنثَی وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوباً وَقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوآ اِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِندَ اللَّہِ أَتْقَاکُمْ اِنَّ اللَّہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌo﴿حجرات﴾

’’اے انسانو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک ہی عورت سے پیدا کیا اور ہم نے تم کو قبیلوں اور خاندانوں میں تقسیم کردیاتاکہ تم ایک دوسرے سے متعارف ہوسکو بلاشبہ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ تقویٰ والاہو۔‘‘

ان دونوں آیتوں میں اللہ تعالیٰ یہ بتاتاہے کہ تمام انسان ایک ہی باپ آدم اور ایک ہی ماں حوا کی اولاد ہیں۔ لہٰذا جب سارے انسانوں کے ماں باپ ایک ہی ہیں تو پھر سارے انسان آپس میں بھائی بھائی ہیں اور ان میں کوئی کسی سے برتر یاکمتر نہیں ہے۔ قوموں اور خاندانوں میں تقسیم کرنے کامقصد صرف ایک دوسرے کو پہچاننا اور ایک دوسرے کا تعاون کرنا ہے۔ لہٰذا خاندان کی بنیاد پر کسی خاندان کو دوسرے خاندان پر،کسی برادری کو دوسری برادری پر بڑائی یا فوقیت جتانے کا حق نہیں ہے۔ اللہ کے نزدیک فوقیت کا معیار صرف تقویٰ ہے۔ جو انسان سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا اور اس کے احکام کے مطابق عمل کرنے والا ہوگا، وہی اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ عزت والاہوگا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

الناس کلہم بنو آدم وخلق اللّٰہ آدم من تراب ﴿ترمذی﴾

’’سارے انسان آدم کی اولاد ہیں اور آدم کو اللہ نے مٹی سے پیداکیاتھا۔‘‘

یاایھاالناس، الا ان ربکم واحد لافضل لعربی علی عجمی ولالعجمی علی عربی ولا لاسود علی احمر ولا لاحمر علی اسود الا بالتقویٰ، ان اکرمکم عنداللّٰہ اتقکم

’’لوگوخبردار رہو، تم سب کاخدا ایک ہے ۔ کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر اور کسی گورے کو کسی کالے پر اور کالے کو کسی گورے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں،مگر تقویٰ کے اعتبار سے اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہو۔‘‘

اسلام سے پہلے لوگ آزاد انسانوں کو پکڑکر غلام بنالیتے تھے۔ ان کو جانوروں کی طرح خرید وفروخت کیاجاتاتھا۔ جب اسلام کے نزدیک سب انسان برابر ہیں، تو وہ کس طرح سے آزاد انسانوں کو پکڑنا اور ان کو غلام بنانا درست قرار دے سکتاہے۔ اللہ کے نبی(ص) نے فرمایاکہ میں قیامت کے دن تین لوگوں کے خلاف استغاثہ دائرکروںگا۔ اس میں سے ایک وہ فرد ہوگا، جس نے کسی آزاد انسان کو غلام بنالیاہوگا یا اُسے فروخت کرکے اس کی قیمت کھالی ہوگی۔ قرآن نے غلاموںکو آزاد کرنے کے لیے اکسایاہے اور جہنم سے نجات حاصل کرنے کا ایک اہم سبب بتایاہے۔ مسلمانوں پر مختلف غلطیوں کے کفارے کے طورپر غلام آزاد کرنا ضروری ٹھہرایا۔ چنانچہ قرآن مجید کی اس طرح کی تعلیمات کے نتیجے میں غلاموں کو آزاد کرنے کے سلسلے کاآغاز ہوگیا اور دیکھتے ہی دیکھتے چند سالوں میں غلامی کادور ہی ختم ہوگیا۔

عزت کاحق

ہرانسان عزت واحترام کو پسند کرتاہے اور دنیا کی تمام چیزوں پر اپنی عزت کو محبوب رکھتاہے۔ عزت کو محفوظ و مامون رکھنے کے لیے وہ مال وجان کی قربانی دینے سے بھی دریغ نہیں کرتاہے۔ اسلام نے بھی انسان کی عزت و وقار کو بڑی اہمیت دی ہے۔ حقیقت ہے کہ سماج میں بہت سی بُرائیوں کی جڑ کسی انسان کا دوسرے انسان کو حقیر جاننا اورسمجھنا ہے۔ اگر لوگ ایک دوسرے کو عزت و تعظیم دیں تو پھر کسی طرح کاکوئی جھگڑا نہیں ہوگا، کسی کاقتل نہیں ہوگا، کوئی کسی کو ذلیل و رسوا نہ کرے گا۔ چھوت چھات، بھید بھائو اور اونچ نیچ کی کوئی بات سامنے نہ آئے گی۔ قرآن کہتاہے :

وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْ اٰدَمَ وَحَمَلْنَاہُمْ فِیْ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاہُم مِّنَ الطَّیِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاہُمْ عَلَی کَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلا    o﴿بنی اسرائیل: ۷۰﴾

’’اور ہم نے بنی آدم کو شرف وعزت بخشی اور خشکی وسمندر میں ہم نے انھیں سواری دی اور پاکیزہ رزق دیا اور اپنی اکثر مخلوق پر انھیں فضیلت دی۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو عزت و شرف اورمجدو تکریم کے ساتھ پیداکیاہے۔ لہٰذا کوئی کسی کو حقیر نہ سمجھے ، کوئی کسی کو اپنے سے کمتر نہ سمجھے۔ قرآن تو کسی دوسرے کامذاق اڑانے ، بُرے القاب سے پکارنے تک سے روکتاہے۔

لَا یَسْخَرْ قَومٌ مِّن قَوْمٍ عَسَی أَن یَکُونُوا خَیْْراً مِّنْہُمْ وَلَا نِسَآئ مِّن نِّسَائ عَسَی أَن یَکُنَّ خَیْْراً مِّنْہُنَّ وَلَا تَلْمِزُوا أَنفُسَکُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَاب     ﴿حجرات:۱۱﴾

’’کوئی گروہ دوسرے گروہ کا مذاق نہ اڑائے، ممکن ہے مذاق اڑانے والوں سے وہ بہتر ہوں، جن کامذاق اڑایاجاتاہے۔ نہ عورتیں عورتوں کامذاق اڑائیں، ممکن ہے جن کامذاق اڑایاجارہاہے وہ مذاق اڑانے والیوں سے بہتر ہوں اور اپنے بھائیوں کو عیب نہ لگائو اور نہ ایک دوسرے کو بُرے القاب اور نام سے موسوم کرو۔‘‘

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایک گروہ کو دوسرے گروہ کامذاق اڑانے اور حقیر سمجھنے سے روکاہے۔ اس سے مزید آگے اسلام نے بے گناہوں پرالزام تراشی ،کسی معصوم کو بدنام کرنے ، کسی بے خطا انسان کی عزت و آبرو پر حملہ کرنے کو گناہ بتاکر روکاہے۔

وَمَن یَکْسِبْ خَطِیْئَۃً أَوْ اِثْماً ثُمَّ یَرْمِ بِہِ بَرِیْئاً فَقَدِ احْتَمَلَ بُہْتَاناً وَاِثْماً مُّبِیْناًo ﴿نسائ:۱۱۲﴾

’’اور جس نے غلطی یا گناہ کاارتکاب کیا اور پھر اس نے اس کی تہمت بے قصور پر لگائی تو اس نے بہتان اور واضح حق تلفی کابار اپنے اوپر لادا۔‘‘

وَالَّذِیْنَ یُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَیْْرِ مَا اکْتَسَبُوا فَقَدِ احْتَمَلُوا بُہْتَاناً وَاِثْماً مُّبِیْناًo﴿احزاب: ۵۸﴾

’’جو لوگ مومن مردوں اور عورتوں کو ان کے بن کیے تکلیف پہنچاتے ہیں وہ بہتان اور کھلی ہوئی حق تلفی کابوجھ اٹھاتے ہیں۔‘‘

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

ان من اربیٰ الربا الاستطالۃ فی عرص المسلم بغیرحق ﴿ابوداؤد﴾

’’بدترین زیادتی کسی مسلمان کی عزت پر ناحق حملہ کرناہے۔‘‘

ایک دوسرے موقعے پر فرمایا:

بِحَبِ امْرٍئٍ مِّنَ الشَّرِّانْ یَّحْقِرَاَخَاہُ الْمُسْلِمَ کُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَی الْمُسْلِمِ حَرَامٌ دَمُہ’ وَمَالُہ’ عِرْضُہ’ ﴿مسلم﴾

’’انسان کے لیے یہی بُرائی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلم بھائی کو حقیر سمجھے ، مسلمان پر مسلمان کی ہرچیزیں حرام ہیں، اس کاخون، اس کا مال اور اس کی آبرو۔‘‘

اسلام نے صرف اس کی اخلاقی تعلیم ہی نہیں دی بلکہ ایسے لوگوں کے لیے سزا متعین کی ہے، جو دوسروں کی عزت و آبرو پر حملہ کرے۔

وَالَّذِیْنَ یَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ یَأْتُوا بِأَرْبَعَۃِ شُہَدَائ فَاجْلِدُوہُمْ ثَمَانِیْنَ جَلْدَۃً وَلَا تَقْبَلُوا لَہُمْ شَہَادَۃً أَبَداً  ﴿نور:۴﴾

’’جو لوگ پاک دامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگائیں پھر چار گواہ نہ لاسکیں تو ان کو اسّی درے مارو اور پھر کبھی ان کی گواہی قبول نہ کرو۔‘‘

جائیدا د کاحق

جائیدادکے بغیر انسان کے وجود کاتصور نہیں کیاجاسکتا ہے۔ اسلام نے جس طرح انسان کی عزت و وقار اور جان کی حفاظت کی تلقین کی ہے، اسی طرح اسلام کسی بھی انسان کو اس بات کی اجازت نہیں دیتاکہ وہ دوسرے انسان کے مال کو ہیراپھیری ، دھوکا دھڑی، رشوت اور ناجائز طریقوں سے غصب کرلے ۔ اسلام اس طرح کے تمام طریقوںکو بُرا فعل قرار دیتا ہے۔ قرآن کہتاہے:

یَآ أَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰ مَنُواْ لاَ تَأْکُلُوآأَمْوَالَکُمْ بَیْْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ اِلاَّ أَن تَکُونَ تِجَارَۃً عَن تَرَاضٍ مِّنکُمْo ﴿النساء:۲۹﴾

’’اے ایمان والو! آپس میں ایک دوسرے کامال غلط طریقے سے مت کھائو، اِلّا آنکہ وہ باہمی رضامندی سے لین دین کا معاملہ ہو۔‘‘

وَیْلٌ لِّلْمُطَفِّفِیْنَ oالَّذِیْنَ اِذَا اکْتَالُواْ عَلَی النَّاسِ یَسْتَوْفُونَ oوَاِذَا کَالُوہُمْ أَو وَّزَنُوہُمْ یُخْسِرُونَ oأَلَا یَظُنُّ أُولَئِکَ أَنَّہُم مَّبْعُوثُونَo لِیَوْمٍ عَظِیْمo         ﴿مطففین: ۱-۴﴾

’’خرابی ہے ان لوگوں کے لیے جو ناپ تول میں کمی کرتے ہیں اور جو لوگوں سے پورا پورا ناپ تول کرلیتے ہیں، لیکن جب خود ناپ کر یا وزن کرکے دیتے ہیں تو کم دیتے ہیں، کیا انھیں خیال نہیں کہ وہ ایک بڑے سخت دن کے لیے اٹھائے جائیں گے۔’’

ایک طریقہ رشوت بھی ہے، اس سے بھی اسلام نے روکاہے۔

وَلاَ تَأْکُلُواْ أَمْوَالَکُم بَیْْنَکُم بِالْبَاطِلِ وَتُدْلُواْ بِہَا اِلَی الْحُکَّامِ لِتَأْکُلُواْ فَرِیْقاً مِّنْ أَمْوَالِ النَّاسِ بِالاِثْمِ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونo﴿بقرہ: ۱۸۸﴾

’’آپس میں ایک دوسرے کا مال غلط طریقے سے نہ کھائو اور نہ مال کو حاکموں کے پاس لے جائو تاکہ لوگوں کے مال کاکچھ حصہ جانتے بوجھتے ہڑپ کرلو۔‘‘

دوسروں کے مال ہڑپ کرنے کا سب سے نمایاں طریقہ چوری ،ڈاکا ہے۔ اسلام نے اس سے روکاہے اور اس سے روکنے کی صرف اخلاقی تعلیم ہی نہیںدی ، بلکہ ایسے مجرموں کے لیے قطع ید کی سزا رکھی ہے۔ فرمایا: چوری کرنے والے مرد اور عورت کاہاتھ کاٹ دو۔﴿مائدہ:۴۱﴾

مشمولہ: شمارہ ستمبر 2010

مزید

حالیہ شمارے

جولائی 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau