اجتماعیت سے والہانہ وابستگی

لئیق اللہ خان منصوری

’’اسلام -جماعت کے بغیر نہیں، جماعت ۔امیر کے بغیر نہیں اور امیر۔ سمع و طاعت کے بغیر نہیں‘‘۔ حضرت عمر ؓ کا یہ قول اسلام میںاجتماعیت کی اہمیت کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے۔ حضرت عمر ؓ کا یہ قولِ قرآن وحدیث کی بہترین ترجمانی کرتا ہے۔چنانچہ قرآنِ مجید نے اﷲ اور رسول کی اطاعت کے ساتھ اولو الامر کی اطاعت بھی لازم قرار دیا ہے اور اﷲ کے رسول ﷺ نے خود ایک مثالی اجتماعیت قائم فرما کر امت کو اس کا صراحت کے ساتھ حکم بھی دیا ہے۔اس باب میں منقول احادیث کا خلاصہ یہ ہے کہ تمام مسلمانوں کو جماعت بن کر رہنا ہے۔ جماعت بن کر رہنے سے شیطان سے حفاظت ہوتی ہے اوراﷲ کی تائید اور نصرت شامل ہوتی ہے۔بغیر امیر کے تین لوگوں کے سفر کو بھی صحیح نہیں سمجھاگیا۔ الجماعت سے علیحدگی کو دائرۂ اسلام سے خارج ہو جانے کے مساوی ٹھہرایا گیا ہے۔ اس کے ساتھ اسلام میں جو مراسمِ عبودیت ہیں، وہ اجتماعیت کے بغیر پورے نہیں کیے جاسکتے، خواہ وہ نمازو روزہ ہو یا زکوٰۃ و حج۔

نصب العین اور مقصدِ حیات

اسلام کے لیے اجتماعیت کی ضرورت و اہمیت کی وضاحت کے بعدیہ جاننا ضروری ہے کہ اسلامی اجتماعیت کا نصب العین اور اس کے افرادکا مقصدِ حیات کیا ہو۔ جہاں تک اسلامی اجتماعیت کا نصب العین ہے، وہ اقامتِ دین ہے جو ہر نبی کی بعثت کا مقصد رہا ہے۔ سورۃ الشوریٰ میں حضورﷺ کے علاوہ حضرت نوح ؑ ، حضرت ابراہیم(ع)، حضرت موسیٰ ؑ اور حضرت عیسیٰ (ع)کے حوالے سے انبیائ و رسل کے فرضِ منصبی کی نشاندہی کی گئی کہ وہ دین کو قائم کریں اور اس معاملہ میںمتفرق نہ ہوں﴿الشوریٰ۔۳۱﴾۔ جہاں تک اسلامی اجتماعیت کے افراد کے مقصدِ حیات کا تعلق ہے وہ آخرت میںحصولِ جنت اور دنیا میں اسلامی انقلاب ، یعنی اقامتِ دین ہے۔ اس مقصد و نصب العین کا تعین اس لیے ضروری ہے کہ انسان جس چیز کو مقصدِ حیات بناتا ہے، اسی کے لیے وہ خود کو وقف کرتا ہے۔ نصب کہتے ہیںٹکانے کو اور عین کہتے ہیں آنکھ کو۔ نصب العین کے معنی ہوئے جس چیز پر نظر ٹکی ہوئی ہو۔اﷲ تعالیٰ نے ایک بندۂ مؤمن کے مقصد حیات کو یوں بیان کیا کہ ’’میری نماز، میری قربانی، میرا جینا اور میرا مرنا صرف اﷲ رب العالمین کے لیے ہے‘‘﴿الانعام۔۲۶۱﴾۔ زندگی اﷲ کے لیے سے مراد یہ ہے کہ جس کام پر مسلمانوں کو مامور کیا گیا ہے وہ کام وہ کریں۔

اﷲ تعالیٰ نے جہنم سے نجات کے لیے جو شرط رکھی وہ اس کی راہ میں جان و مال کے ساتھ جدوجہد کرنا ہے۔قرآن نے یہ پیرایہ بھی اختیار کیا کہ اہل ایمان کی جان اور ان کا مال تو جنت کے بدلے خود اﷲ تعالیٰ نے خرید لیا ہے۔لہٰذاایک بندۂ مؤمن کے لیے ،جو جنت کا امیدوار ہو، وہ اس دنیا میںانقلابِ اسلامی کے لیے پوری طرح یکسو ہوکر، اجتماعیت سے وابستہ ہو کر اپنی جان اور اپنے مال کو جھونک دینے ہی کا مکلف ہے۔ وہ اپنی پوری توجہ اس بات پر مرکوز کردے کہ جنت کا حقدار بننے کے لیے اس دنیا میں انقلابِ اسلامی کی خاطر کتنی زبردست اجتماعی جدوجہد کی ضرورت ہے۔

کمٹمنٹ

انگریزی میں لفظ کمٹمنٹ کااستعمال فرد کا کسی مقصد کے ساتھ گہرے تعلق کوواضح کرنے کے لیے ہوتا ہے۔اس کی وضاحت ان الفاظ سے کی جاتی ہے: Devotion or dedication to a cause۔ اسلامی اجتماعیت بھی اپنے وابستگان سے زبردست کمٹمنٹ کا مطالبہ کرتی ہے، جیسا کہ سابقہ سطور میں بیان ہوا ہے۔حضرت ابراہیم ؑ کے کمٹمنٹ کو قرآنِ مجید نے لفظِ حنیف کے ذریعے بیان کیا کہ وہ ہر چیز سے کٹ کر صرف اور صرف اﷲ کی طرف یکسو ہو چکے تھے۔اسی کمٹمنٹ نے انہیں ہر آزمائش میں کامیاب کیا۔اسی طرح کا کمٹمنٹ ہر پیغمبر نے پیش کیا۔ اﷲکے رسول ﷺ نے نہ صرف خود اپنی مثال پیش کی بلکہ ایک ایسی جماعت قائم کردی جس کے ہر فرد کا مقصد حیات وہی تھا جو خود حضور اکرم ﷺ کا تھا۔اس سلسلے میں مولانا مودودی ؒ کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو جو صحابہ اکرام ؓ کے کمٹمنٹ کو ظاہر کرتا ہے: ‘‘…پوری جماعت کو اسلامی زندگی کی ایسی تربیت دی گئی کہ اس جماعت کا ہر شخص چلتا پھرتا اسلام بن گیا ۔جسے دیکھ لینا ہی یہ معلوم کرنے کے لیے کافی تھا کہ اسلام کیا اور کس لیے آیا ہے۔ ان پر اﷲ کا رنگ صبغۃ اﷲ و من احسن من اﷲ صبغۃ کا اتنا گہرا اثر چڑھ گیاکہ وہ جدھر جائیں دوسروں کا رنگ قبول کرنے کے بجائے اپنا رنگ دوسروں پر چڑھائیں۔ ان میں کیریکٹر کی اتنی طاقت پیدا کی گئی کہ وہ کسی سے مغلوب نہ ہوںاور جو ان کے مقابلے میں آئے ان سے مغلوب ہو کر رہ جائے۔ان کی رگ رگ میں اسلامی زندگی کا نصب العین اس طرح پیوست کردیا گیا کہ زندگی کے ہر عمل میں وہ مقدم ہو اور باقی تمام دنیوی اغراض ثانوی درجہ میں ہوں۔’’ ﴿تنقیحات۔ مرض اور اس کا علاج﴾

مقصد سے محبت

انسان جس چیز کو اپنا مقصدِ حیات بناتا ہے اس کے لیے وہ ہر طرح کی قربانیاں پیش کردیتا ہے۔ وہ اسی کے لیے جیتا اور مرتا ہے۔ انسان کا مقصد محض خوشحال زندگی ہواور وہ ’کھاؤ، پیو اور موج کرو‘ پر عمل پیرا ہو تو اس کی ساری توانائی اس امر پر صرف ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ مال جمع کیا جائے اور عیش و آرام کی ہر خواہش پوری کرنے کی کوشش کی جائے۔ لیکن ایک بندۂ مؤمن کا مقصدِ حیات جیسا کہ بیان کیا گیا نہایت اعلیٰ اور ارفع ہوتا ہے۔وہ یقیناً کماتا ہے تو صرف جینے کے لیے ، لیکن جیتا ہے اپنے مقصد کے لیے۔اور ان محبتوں میں سب سے غالب محبت اﷲ، رسولﷺ اور راہِ خدا میںجدو جہد کی ہوتی ہے۔اور اپنے مقصد سے اس کی محبت رسمی نہیں ہوتی بلکہ دل و جان سے اسے عزیز رکھتا ہے۔ الغرض اس مقصد کے راستہ میں کوئی اور چیز کبھی رکاوٹ نہیں بنتی۔ اس پہلو پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے مولانا مودودی  نے ارشاد فرمایا تھا: ’’مجاہدہ فی سبیل اﷲ کے لیے﴿صبر اور ایثار کے بعد﴾تیسری صفت دل کی لگن ہے۔محض دماغی طور پر ہی کسی شخص کا اس تحریک کو سمجھ لینا اور اس پر صرف عقلاً مطمئن ہوجانایہ اس راہ میںاقدام کے لیے صرف ایک ابتدائی قدم ہے، لیکن اتنے سے تاثر سے کام چل نہیں سکتا۔ یہاں تو اس کی ضرورت ہے کہ دل میں ایک آگ بھڑک اٹھے۔سینوں میں وہ جذبہ ہونا چاہیے جو ہر وقت آپ کو اپنے نصب العین کی دھن میں لگائے رکھے، دل و دماغ کو یکسو کردے اور توجہات کو اس کام پر مرکوز کردے کہ اگر ذاتی یا خانگی یا دوسرے غیر متعلق معاملات کبھی آپ کی توجہ کو اپنی طرف کھینچیں بھی تو آپ سخت ناگواری کے ساتھ ان کی طرف کھینچیں۔ کوشش کیجیے کہ اپنی ذات کے لیے قوت اور وقت کا کم سے کم حصہ صرف کریں اور آپ کی زیادہ سے زیادہ جدوجہد اپنے مقصدِ حیات کے لیے ہو۔جب تک یہ دل کی لگن نہ ہوگی اور ہمہ تن اپنے آپ کو اس کام میں جھونک نہ دیں گے۔محض زبانی جمع خرچ سے کچھ نہ بنے گا۔‘‘ ﴿روداد، جماعتِ اسلامی ہند، دوم ، ص۳۴﴾

مقصد اور معاش

کمٹمنٹ کا معیار مطلوب تو یہی ہے کہ اپنی تمام محبتوں کو‘‘مقصد سے محبت’’ کے تابع کردے اور اپنی جدوجہد کو اس کاز کے لیے مرکوز کردے، لیکن ایک چیز جو مقصد کی راہ میں عموماً رکاوٹ بنتی ہے وہ فکر ِمعاش ہے۔ قرآنِ مجید نے مال و اولاد کو فتنے سے تعبیر کیا ہے اور اﷲ کے رسول ﷺ نے بھی اس سے آگاہ فرمایا کہ میری امّت کا فتنہ مال ہے۔آج کی مادہ پرستانہ دنیا میں اس مرض کو سمجھنا اور سمجھانا مشکل نہیں۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ ہر کا م کے پیچھے یہی محرک کارفرما ہوتا ہے۔سودی کاروبار ہویا رشوت کا بازار سب اسی کے کڑوے پھل ہیں۔ تعلیم کا مقصد بھی محض حصول معاش ہو کر رہ گیا ہے۔ایسا لگتا ہے کہ ہر فرد کی مصروفیت اور بھاگ دوڑ اسی معاش کے پیچھے ہے۔ جبکہ اسلام نے اس سلسلے میں واضح رہنمائی کی ہے۔ اسلام معاش کو انسان کی ضرورت قرار دیتا ہے اور اسی حد تک اس کے لیے تگ و دو کو جائز قرار دیتا ہے۔رزق کی فراہمی اﷲ تعالیٰ نے خود اپنے ذمے لے رکھی۔ زمین میں کوئی جاندار ایسا نہیں ہے جس کو وہ رزق نہ پہنچاتا ہو۔وہی پروردگار انسان کو بھی رزق فراہم کرتا ہے، لیکن کسی کو کم اور کسی کو زیادہ۔ قرآنِ مجید نے کہا: اللٰہ یبسط الرزق لمن یشائ و یقدر ﴿الرعد :۲۶﴾ ‘‘اﷲجس کو چاہتا ہے رزق کی فراخی بخشتا ہے اور جسے چاہتا ہے نپا تلا رزق دیتا ہے۔’’ قرآن نے تو یہ بات بیان فرمائی کہ جو مال عطا ہوا ہے اس سے آخرت کا گھر بناے کی فکر کرو۔لیکن ساتھ ہی دنیا میں سے بھی اپنا حصہ فراموش نہ کرو۔ وابتغ فیما آتاک اللہ الدار الآخرۃ ولا تنس نصیبک من الدنیا..﴿القصص: ۷۷﴾ ‘‘جو مال اﷲ نے تجھے دیا ہے اس سے آخرت کا گھر بنا نے کی فکر کر اور دنیا میں بھی اپنا حصہ فراموش نہ کر…’’ ۔ آج معاملہ یہ ہے کہ جس رزق کی فراہمی کی ذمہ داری خود اﷲ نے لے رکھی ہے ، اس کے لیے ہر شخص دیوانہ وار محنت کررہا ہے اور جس آخرت کی ذمہ داری انسان کے اپنے عمل پر ہے اس سے وہ غافل ہے اور اﷲ سے امید لگائے بیٹھا ہے کہ وہ غفوو رحیم ہے، وہ معاف کردے گا اور جنت میں داخل فرمادے گا۔جبکہ معاش کے سلسلے میں وہ اﷲ سے امید لگا کر نہیں بیٹھا ہے۔

فکرِ معاش یا فکرِ معاد

صحابہ اکرام ؓ کے پیشِ نظر آخرت تھی۔ وہ ہر کام اسی کو سامنے رکھ کر انجام دیتے۔ جہاں تک معاشی مصروفیت تھی وہ بس بقدرِ ضرورت تھی۔ جبکہ ان کی زندگیوں کا بیشتر حصہ اﷲ کے رسول ﷺکے ساتھ اٹھنے بیٹھنے اور آپ ﷺ کی اطاعت میں گزرتا۔ لیکن بدقسمتی یہ کہ آج ضرورت کو مقصد بنالیا گیا ہے، اور مقصد کو فراموش کردیا گیا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے تنبیہ کی فامّا من طغیٰ ؒو آثر الحیوٰۃ الدنیاؒ فان الجحیم ھی الماویٰ ؒ﴿النازعات:۳۷تا۳۹ )‘‘ تو جس نے سرکشی کی تھی اور دنیا کی زندگی کو ترجیح دی تھی، دوزخ ہی اس کا ٹھکانا ہوگی’’ اسلام یہ نہیں کہتا کہ اپنی ضروریات کو بھول کر اس کام میں لگ جاؤ، بلکہ اس کا مقصود یہ ہے کہ ہماری ضروریات کو مقصد حیات کے تابع ہونا چاہیے۔

ترجیحات کا تعین

انسان کی زندگی میں کئی عوامل ہوتے ہیں۔ اسے اپنے مقصدِ حیات کے حصول کے ساتھ صلہ رحمی بھی کرنی ہے، رشتہ داریاں نبھانی ہیں،گھر چلانا ہے اور جینے کے لیے معاشی جدوجہد بھی کرنی ہے۔ لیکن اس معاملے میں اگرترجیحات سامنے نہ ہوں تو اہم کام غیر اہم یا کم اہم ہوجاتا ہے اور کم اہم چیز اہم ترین بن جاتی ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے اس کے سلسلے میں واضح رہنمائی فرمائی:

قُلْ اِن کَانَ آبَاؤُکُمْ وَأَبْنَآؤُکُمْ وَاخْوَانُکُمْ وَأَزْوَاجُکُمْ وَعَشِیْرَتُکُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوہَا وَتِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَہَا وَمَسَاکِنُ تَرْضَوْنَہَا أَحَبَّ اِلَیْْکُم مِّنَ اللّہِ وَرَسُولِہِ وَجِہَادٍ فِیْ سَبِیْلِہِ فَتَرَبَّصُواْ حَتَّی یَأْتِیَ اللّہُ بِأَمْرِہِ وَاللّہُ لاَ یَہْدِیْ الْقَوْمَ الْفَاسِقِیْن ﴿التوبہ: ۴۲﴾

’’اے نبی ﷺ ، کہدو کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارے عزیز و اقارب اور تمہارے وہ مال جو تم نے کمائے ہیںاور تمہارے وہ کاروبار جن کے ماند پڑجانے کا تمہیں خوف ہے اور تمہارہ وہ گھر جو تم کو پسند ہیں، تم کو اﷲ، اور اس کے رسول ﷺ اور اس کی راہ میں جہاد سے عزیزتر ہیںتو انتظار کرویہاں تک کہ اﷲ اپنا فیصلہ تمہارے سامنے لے آئے، اور اﷲ فاسق لوگوں کی رہنمائی نہیں کرتا۔‘‘

اﷲ کے رسول ﷺ نے مقصد حیات کو فراموش کرکے معاشی مصروفیت میں مگن ہونے پر وعید سنائی ہے۔ حضرت عمر ؓ روایت کرتے ہیں کہ اﷲ کے رسول ﷺنے ارشاد فرمایا:‘‘جب تم لوگ عینہ ﴿حیلۂ شرعی کے سہارے سودی کاروبار﴾کے ساتھ خرید و فروخت کرنے لگو گےبیلوں کی دم پکڑلوگے، کھیتی باڑی میں مگن رہوگے اور دین کے لیے محنت کرنا اور جانی ومالی قربانی دینا چھوڑ دو گے تو اﷲ تم پر ایسی ذلت اور محکومی مسلط کرے گاجو تم سے کبھی نہیں ہٹے گی، جب تک کہ تم اپنے دین کی طرف نہیں پلٹوگے’’  ﴿ابو داؤد﴾

مولانامودودی ؒ ان ترجیحات کے سلسلے میں اﷲ کے رسول ﷺ کی حکمت عملی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیںکہ کچھ اصحاب کو علم و تفقہ کے لیے مخصوص کردیا گیا، کچھ اصحاب کو اس کام کے لیے پوری طرح فارغ کردیاگیااور بقیہ کے سلسلے میںیہ پالسی اختیار کی گئی کہ: ’’پوری جماعت میں یہ جذبہ پیدا کیا جائے کہ ہر ہر شخص اعلائے کلمۃ اﷲ کو اپنی زندگی کا اصل مقصد سمجھے اور وہ اپنے دنیا کے کاروبار چلاتا رہے۔ مگر ہر کام میں یہ مقصد اس کے سامنے ہو۔ تاجر اپنی تجارت میں، کسان اپنی زراعت میں ، صناع اپنے پیشے کے کام میں اور ملازم اپنی ملازمت میںاس مقصد کو نہ بھولے۔ وہ ہمیشہ اس بات کو پیشِ نظر رکھے کہ یہ سب کام جینے کے لیے ہیں اور جینا ا س کام کے لیے ہے‘‘ ﴿تنقیحات۔ مرض اور اس کا علاج﴾

جناب خرّم مراد ؒ  سے ایک انٹرویو میں پوچھا گیا کہ متوازن زندگی کیسے گزاری جائے تو انہوں نے فرمایا کہ ’’متوازن زندگی گزارنے کے لیے چند باتوں سے مدد مل سکتی ہے:

سوچ سمجھ کر زندگی کا رخ اور قبلہ متعین کرنا چاہیے، ہمیشہ اسی رخ اور منزل پر نظریں جمائے رکھنا چاہیے اور جہاں تک ممکن ہو اسی کی طرف پیش قدمی کرنی چاہیے۔

زندگی کے ہر کام اور معاملہ میں یہ دیکھنا چاہیے کہ اصل منزل تک، یعنی آخرت میں جنت اور دنیا میں اسلامی انقلاب تک، پہنچنے کے لیے اس کی اہمیت اور ضرورت کتنی ہے، جتنی ثابت ہو اسی کے لحاظ سے اس کو وقت اور مقام دینا چاہیے۔

قرآن اور سیرت نبوی ﷺ کی روشنی میں اپنے اوقات کا استعمال اور اپنے عمل کی راہیں متعین کرنا چاہیے۔

یقینا ایک مؤمن کی راہ میں نہ تو نفس کی خواہشات رکاوٹ بن سکتی ہیںنہ بیوی بچّے، نہ مال و دولت اور نہ کوئی منصب۔ کیونکہ وہ اپنی جان کو اﷲ کے ہاتھ بیچ چکا ہوتا ہے۔ اس کی زندگی کا نصب العین اعلائے کلمۃ الحق ہے۔ وہ اسی کے لیے جیتا ہے اور اسی کے لیے مرتا ہے اور کہتا ہے کہ میری نماز، میری قربانی، میرا جینا اور میرا مرنا صرف اﷲ رب العالمین کے لیے ہے۔

تحریک سے وابستگی

یہ اﷲ کا فضل ہے کہ ہمیں اس نے تحریکِ اسلامی سے وابستہ فرمایا ہے۔ لیکن جب ہم جائزہ لیتے ہیں تو مطلوب وابستگی نہیں ملتی۔ ہماری وابستگی ہفتہ واری یا دیگر اجتماعات میں شرکت کی حد تک محدود ہوگئی ہے، تحریک سے وابستگی جز وقتی وابستگی بن چکی ہے ۔ہماری مصروفیات کا بیشتر حصہ انہیں کاموں میں لگ رہا ہے۔ جو رفقائ اپنی معاشی مصروفیات کے دوران اپنے مقصد حیات کے بارے میںفکر مند نہ رہ سکیں یا کچھ کام نہ کر سکیںان کے لیے تو بس اتوار ہی کا موقع ملتا ہے۔مجھے تعجب ہوتا ہے کہ رفقائ سے یہ کہا جاتا ہے کہ تحریک کے لیے بھی کچھ وقت فارغ کیجیے،یا کچھ وقت نکالیے۔ جب کہ تحریکِ اسلامی اور اس کا مقصد ہماری اپنی زندگی کا مقصد اور نصب العین ہے۔ہمارا اٹھنا ، بیٹھنا، اوڑھنا اور بچھونا تحریک اور اس کا مقصد ہے۔ ہم جہاں کہیں ہوں، اپنے مقصد حیات کے حصول کے لیے کوشش کرناہم سبھی کی تحریکی ذمہ داری ہے۔جہاں تک ہماری دیگر ضروریات اور مصروفیات ہیں، وہ اس مقصد کے تابع ہیں اور ہمیں اپنی ان ضروریات کے لیے اسی حد تک وقت فارغ کرنے کی ضرورت ہے جتنی کہ واقعی ثابت ہو۔ ہمارا ذہن اس طرح بنے کہ ہمیں اپنی پوری زندگی اپنے مقصد حیات کے لیے کھپا دینا ہے۔اس جدوجہد کے دوران ہمیں اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بھی وقت مینیج manageکرنا ہے۔ نہ یہ کہ ہم دیگر کاموں میں مصروف رہ کر تحریک کے لے وقت کو مینیج کرنے کی بات سوچیں۔ہم تحریک کا کام کرتے ہوئے تعلیم بھی حاصل کریں ، تجارت اور ملازمت بھی کریں ، رشتہ داروں کے حقوق بھی ادا کریں ۔یہ کام بذاتِ خود مقصود نہیں ہیں بلکہ مقصد کے تابع ہیں۔لہٰذا سوچنے اور عمل کرنے کے زاویے کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ اور کسی ایسی مصروفیت میں ہمیں ہرگز نہیں لگنا ہے جس سے ہمارے مقصدِ حیات میں فرق پڑتا ہو یا کام متاثر ہوتا ہو۔۱۵۹۱ئ میں رامپور میں منعقد ہوئے اجتماع سے ’ تحریک اسلامی اور اس کے مقتضیات‘ کے عنوان پر خطاب کرتے ہوئے مولانا حامد علی صاحب نے فرمایا: ‘‘اپنی تن آسانیوں اور راحت طلبیوں کو خیربادکہیے، اپنے دنیوی مشاغل کو مختصر کیجیے، فضولیات سے اپنے اوقات کو پاک کیجیے اور پوری سرگرمی و انہماک کے ساتھ دعوتی و تبلیغی کام میں لگ جائیے۔یہاں تک کہ یہ کام آپ کی زندگی کا ضمیمہ نہیں ، سب سے بڑا اور سب سے اہم مشغلہ بن جائے، جس میں آپ کا زیادہ سے زیادہ وقت اور قوت صرف ہو۔آپ کو اس مقصد کے لیے ہر طرح کا ایثار کرنا ہوگا۔ وقت کا ایثار، دولت کا ایثار، مفادات کا ایثار، راحت و آرام کا ایثار، توقعات و شاندار مستقبل کا ایثار۔ اور آپ اس ایثار میں جس قدر آگے ہوں گے اسی قدرتحریک کے لیے مفید ہوںگے اور اتنا ہی آپ اس کا حق ادا کر سکیں گے۔’’ ﴿رودادِ اجتماع، رامپور ۱۹۵۱؁ ، ص۱۷۷﴾

اجتماعیت میں اطمینان

اس گفتگو کی آخری بات یہ ہے کہ تحریک سے وابستگی رسمی اور مصنوعی نہ ہونے پائے۔ صحابہ اکرام ؓ کا عالم یہ تھا کہ جب اﷲ کے رسول ﷺ کی صحبت میں ہوتے تو اپنے ایمان میں اضافہ اور اجتماعی ماحول میں سکون و اطمینان محسوس کرتے ، اور جب اپنے گھروں کو جاتے تو ایمان کی اس اعلیٰ کیفیت میں کمی محسوس کر کے تڑپ اٹھتے کہ کہیںہمارے اندر نفاق تو نہیں آگیا ہے۔ حضرت حنظلہ ؓ کا وہ واقعہ مشہور ہے کہ جب وہ اس کیفیت میں مبتلاء ہوئے تو ‘‘نافق حنظلۃ، نافق حنظلۃ’’﴿حنظلہ منافق ہوگیا، حنظلہ منافق ہوگیا﴾پکارتے ہوئے اﷲ کے رسول ﷺ کے دربار میں پہنچے۔ حضور ﷺ نے فرمایا کہ یہ ایمان کی علامت ہے۔

آج ہمارا عالم ﴿مستثنیات کو چھوڑ کر﴾یہ ہے کہ اپنے گھروں میں اور اپنی مصروفیات میں ہوں تو نہایت سکون محسوس ہوتا ہے۔ اور جب اجتماعی ماحول میں ہوں تو باہر کی مصروفیات ستاتی ہیں اور اجتماعیت کے ماحول میں بے چینی کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی اجتماعیت کو واقعی معنوں میں اسلامی اجتماعیت بنائیں اور پوری یکسوئی کے ساتھ اقامتِ دین کی اجتماعی جدوجہد میں مصروف ہوجائیں۔تب کہیں جاکر وہ انقلابی کام ممکن ہوسکتا ہے جس کا خواب ہم دیکھتے ہیںکہ اس زمین پر اﷲ کا کلمہ بلندہو اور اس کا یہ دین نافذ ہوجائے، جیسا کہ نبوتِ محمدی ﷺ کے مشن کا تقاضا ہے اور ہم اﷲ کی رضا اور فلاحِ آخرت کے مستحق بن جائیں۔

مشمولہ: شمارہ اگست 2010

مزید

حالیہ شمارے

جولائی 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau