چند یاد دہانیاں

اہم اور ضروری

(۲۱ اپریل ۱۹۹۲ کو مجلس نمائندگان میں پیش کیا گیا مختصر مقالہ) 

محترم امیر جماعت و رفقائے کرام! عرصہ دراز کے بعد خود کو اپنوں کے بیچ پاکر ان دنوں میں فطری طور پر بڑی مسرت محسوس کر رہا ہوں۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس نے ایک بار پھر ان صورتوں کو دیکھ لینے اور ان ساتھیوں سے مل لینے کا موقع فراہم کر دیا جن کے دیکھ لینے اور جن سے مل سکنے کی بظاہر کوئی توقع نہیں رہ گئی تھی۔

رفیقو! میری صحت کی ابتری، میری جسمانی نقاہت اور میری ذہنی ناتوانی جس حد کو پہنچ چکی ہے وہ اپنا حال خود بیان کیے دے رہی ہے اس کے باوجود آپ حضرات کی خواہش اور محترم امیر جماعت کی فرمائش ہے کہ اس اہم جماعتی اجلاس میں میں بھی کچھ عرض کروں۔ اس لیے امتثال امر کے طور پر ٹوٹے پھوٹے جملوں میں چند باتیں آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں۔ یہ ایسی باتیں ہیں جو نئی تو نہیں ہیں مگر تحریکی نقطہ نگاہ سے اہم اور ضروری بہرحال ہیں۔ بالخصوص ان جیسے افراد جماعت کے لیے جو یہاں اس وقت جمع ہیں اور جنھیں تحریک و جماعت کے ذمہ دار افراد کہا جاتا ہے۔

پہلی بات

جو عرض کرنا چاہتا ہون، وہ خود اسی لفظ “ذمہ دار” کے مفہوم و مدعا سے تعلق رکھتا ہے۔ لغت میں اس لفظ کے جو معنی بھی ہوں، عام لوگ اس اصطلاح کا جو مفہوم بھی سمجھتے ہوں، دوسری تنظیموں اور جماعتوں کے یہاں اس کے ساتھ عہدہ و منصب کا جو تصور بھی وابستہ پایا جاتا ہو، مگر تحریک اسلامی کے ذمہ دار کہے جانے والوں کو اس لفظ کا مدعا و مقتضا از خود یہ سمجھے اور ذہن نشین کیے رہنا چاہیے کہ تحریک اسلامی کا ذمہ دار وہ ہوتا ہے جس پر تحریکی اور دعوتی ذمہ داریوں کا سب سے زیادہ بوجھ پڑا ہوتا ہے۔ عام ارکان جماعت کے مقابلے میں دو یا تین گنا بوجھ عند اللہ بھی اور عند الناس بھی۔

دوسری بات

جس کی طرف توجہ دلانا ضرورت کا تقاضا محسوس ہوتا ہے، یہ ہے کہ نصب العین اور اس کے صحیح، واضح اور جامع مفہوم کے استحضار کی طرف سے کبھی غافل نہ رہا جائے۔ اس کے یقین اور شعور کو زندہ و بیدار رکھنے کی ہر آن فکر رکھی جائے اور اسے اپنے امکان بھر برابر حرز جاں بنائے رکھا جائے۔ ماحول کی کسی بھی ناسازگاری کو، حالات کی کسی بھی شدت کو، دنیوی مصالح اور مفادات کی کسی بھی کشش کو اپنی دعوتی سرگرمیوں کی کسی بھی ظاہری بے اثری اور ناکامی کو اس امر کی اجازت ہرگز نہ دینی چاہیے کہ یہ شیطانی حربے اور وسوسے ہمارے تحریکی عزائم کو متاثر کر دیں، صورت حال خدا نہ کردہ، کچھ ایسی بنا دیں کہ زبانوں پر تو اقامت دین کے نصب العین کا دعوی اور اعلان حسب معمول پورے زور و شور سے جاری رہے۔ مگر دلوں اور دماغوں میں اس کے ساتھ وابستگی کی لو بتدریج مدھم پڑتی چلی جائے۔ یہاں تک کہ حالات کی اس مار سے بے حال ہو کر کچھ لوگ تو بیٹھ رہنے یا الٹے پاؤں پھر جانے تک کی سوچنے لگیں۔

جہاں تک اس تحریک کے لیے ماحول کی ناسازگاری اور راہ کی ہمت شکن مشکلات کا سوال ہے، ان سے سابقہ پیش آنا تو ممکن یا متوقع ہی نہیں، بالکل ناگریز ہے۔ دین اور دینی تحریکات کی پوری تاریخ میں ہمیشہ ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔ اس امر واقعی کی تفصیل سے قرآن عزیز کے صفحات بھرے ہوئے ہیں۔ گویا روز اول سے سنة اللہ یہی رہی ہے۔ اس لیے آج یہ ہمارے لیے بدل نہیں جائے گی۔ پھر یہ صرف سنة اللہ ہی نہیں ہے، بلکہ حکمة اللہ بھی ہے۔ آزمائشوں کی یہ بھٹی بھڑکائی ہی اس لیے جاتی ہے کہ کھوٹے اور کھرے چھٹ کر الگ ہو جائیں، اور تحریک کو صاف صاف معلوم ہو جائے کہ اس کی اصل طاقت کیا ہے۔ اس آزمائش میں کام یاب ثابت ہونا اور اپنی دعوتی جدوجہد کی ظاہری بے اثری و ناکامی سے بد دل ہو کر نہ رہ جانا اسی وقت ممکن ہے جب اللہ کے دین کی نصرت اور اقامت کا عہد وفا دل و دماغ پر برابر چھایا رہے۔ غالبا وہ تاریخی جملے آپ بھولے نہ ہوں گے جو بانی جماعت مرحوم و مغفور نے فرمائے تھے۔ ان جملوں کے الفاظ کچھ اس طرح کے تھے کہ ‘‘اگر ایک شخص نے بھی میری پکار کو سن کر نہ دیا تب بھی میں اپنی اس پکار کو کبھی بند نہ کروں گا۔ اور اگر موانع و مشکلات نے میرے پاؤں اس طرح جکڑ لیے کہ میں ایک قدم بھی آگے نہ بڑھ سکوں تب بھی میں اپنا رخ منزل مقصود کی طرف کیے زندگی بھر کھڑا رہوں گا’’۔ یہ کوئی شاعری نہیں تھی، بلکہ ایک صاف اور سیدھی سی ایمانی صداقت کا اظہار تھا جس کسی بندہ خدا نے اس کے دین کی اقامت کو اپنی زندگی کا پہلا اور آخری فریضہ تسلیم کر رکھا ہو اس کے عزم کی کیفیت ایسی ہی ہوتی ہے بشرطیکہ وہ اپنے قول میں سچا بھی ہو اور اپنے اس فریضے کے استحضار کا برابر اہتمام بھی رکھے۔ نصب العین کا یہ استحضار جہاں افراد جماعت کو عزم صادق سے سرشار رکھے گا۔ وہیں جماعت کی اجتماعی زندگی کے لیے حفظان صحت کی ضمانت بھی بنا رہے گا۔ جب ہمارے دلوں میں اپنے نصب العین کی سچی محبت اور بے لوث وابستگی گھر کیے رہے گی، اور افکار و جذبات پر اس کے تقاضے چھائے رہیں گے تو جماعت کے اندر رد و کد اور افتراق و انتشار کی نامبارک صورت حال پیدا کر دینے والے مسائل یا تو پیدا ہی نہ ہوں گے یا اگر کبھی پیدا ہو گئے تو انھیں سلجھا لینا چنداں دشوار نہ ہوگا۔

تیسری بات

جسے اس وقت میں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں اور جو ایک خاص اہمیت کی حامل ہے، اس کا تعلق موجودہ ماحول اور اس کی روز افزوں آلودگیوں سے ہے۔ اس سے میری مراد اس خارجی ماحول سے نہیں ہے جس کی آلودگیاں ہوا، پانی، اشیائے خوردنی، غرض ان سب چیزوں کو، جس پر انسانی زندگی کا انحصار ہے، زہر آلود بناتی چلی جا رہی ہیں اور جن کی دہشت سے آج ہر طرف ہاہا کار مچی ہوئی ہے۔ بلکہ اس داخلی ماحول سے ہے جو انسان کے اندرون میں پایا جاتا اور اس کے دلوں اور دماغوں سے تعلق رکھتا ہے۔ خارجی ماحول کی آلودگیوں نے اگر حیات انسانی کے لیے خطرات پیدا کر دیے ہیں تو اس اندرونی اور باطنی ماحول کی آلودگیوں نے حیات انسانیت کی بنیادوں کو زیر و زبر کرکے رکھ دیا ہے۔ ان کی وجہ سے اخلاقی قدروں کی کوئی اہمیت نہیں رہ گئی ہے۔ معروف اور منکر میں کوئی امتیاز باقی نہیں رہ گیا ہے بلکہ معروف کی جگہ منکر نے اور منکر کی جگہ معروف نے لے لی ہے۔ اصول پسندی، دیانت داری، حق شناسی، عدل پروری، ایفائے عہد اور بر و تقوی کا نام تاریک خیالی، ظلمت پسندی اور بنیاد پرستی قرار پا گیا ہے پھر اگر بات یہیں تک محدود رہتی تو شاید کسی غیر معمولی تشویش کی موجب نہ ہوتی۔ مگر صورت حال تو یہ ہو چکی ہے کہ اس سراپا شر و فساد انداز فکر کو نام نہاد ‘‘فلسفیانہ اور دانش وریانہ’’دلائل سے آراستہ کرکے اتنا جاذب نظر اور خوشنما بنا دیا گیا ہے کہ دنیا کی دنیا اس کے سحر سے مسحور ہوتی چلی جا رہی ہے۔

ہمارے لیے یہ آلودگیوں اور فتنوں بھرا ذہنی و فکری ماحول اخلاق و کردار کے پہلو سے تو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اللہ کے فضل و کرم سے اس کے مہلک نظریے اور فلسفے ان چیزوں کے بارے میں ہمیں ہرگز متاثر نہیں کر سکتے۔ مگر دوسرے بہت سے تحریکی امور کی نسبت سے یقینًا یہ ہمارے لیے بھی مسئلہ ہیں، خاصا اہم مسئلہ یہ کہ یہ اپنی بے پناہ قوت کے بل پر ہمارے انداز فکر میں در اندازی کر سکتے ہیں، تحریکی سرگرمیوں کے مابین ترجیحات کی ٹھیک ٹھیک تعیین میں اور کام کے صحیح تر و انسب طریقوں کے انتخاب میں ہمیں ٹھوکر کھلا سکتے ہیں، ذاتی اور ملی مصالح و مفادات کی طرف توجہ دینے کے معاملے میں غیر محتاط بنا دے سکتے ہیں۔ کام یابی اور ناکامی کے صحیح تصورات سے غیر شعوری طور پر بیگانہ کر دے سکتے ہیں۔ جوش و ہوش کے تقاضوں میں توازن کی طرف سے توجہ ہٹا دے سکتے ہیں۔ سست گامی اور بے عملی کو حکمت اور دور اندیشی کا مقتضا باور کرا دے سکتے ہیں اور پھر خوشنما تاویلوں کا ایسا انداز بھی سکھا دے سکتے ہیں کہ آدمی خود اپنے آپ سے چھپ کر رہ جائے۔ جب انسانیت کا اندرونی ماحول ایسے خوف ناک اندیشوں سے بھرا ہوا ہے تو ضروری ہے کہ ہم غیر معمولی حد تک چوکنے رہیں۔ اس بیدار مغزی کا ثبوت دیتے رہیں جس کا مطالبہ ہمارا نصب العین ہم سے کر رہا ہے تاکہ ہماری تحریکی راست فکری اور راست روی پوری طرح محفوظ رہے۔ شیطان کا کید بڑا بے پناہ ہوتا ہے اللہ کے مخلص بندوں کے لیے وہ نہ جانے کیسے کیسے جال بچھاتا رہتا ہے، حق کے طالب کو فضولیات میں الجھا کر رکھ دینے کے لیے پر فریب تاویلوں کا القا کیا کرتا ہے۔ آدمی کو ریاض اور مجاہدے کی راہ سے ہٹا کر تن آسانیوں کا خوگر بنا دینا اس کا محبوب ترین مشغلہ ہے۔ حق و باطل کے آمیزے تیار کرکے بندگان خدا کے ذہنوں میں اتار دینا اس کا آزمودہ اور نہایت کارگر نسخہ ہے۔ وہ اپنی ان کوششوں کو اس وقت تک ترک نہیں کرتا جب تک کہ ابن آدم کو “وهم یحسبون أنهم یحسنون صنعا” (کہف) کے مقام عبرت تک نہ پہنچا دے۔ عام لوگوں کے لیے بھی یہ خطرہ کچھ کم سنگین نہیں ہوتا۔ مگر ان لوگوں کے لیے اس خطرے کی سنگینی کی کوئی انتہا نہیں ہوتی، جو اللہ کے دین کی نصرت اور اقامت کے لیے اٹھے ہوئے ہوں۔ لہذا اس امر کی شدید ضرورت ہے، آج بھی ہے اور ہر آنے والے کل کے دن بھی رہے گی کہ ہم اپنے اندرون کا برابر جائزہ لیتے رہیں۔ پوری دقت نظر سے دیکھتے رہیں کہ نفس اور شیطان کی فریب کاریاں ہمیں اور ہمارے انداز فکر کو اپنا شکار بنا لینے کی کوششوں میں کسی پہلو سے کام یاب تو نہیں ہو رہی ہیں۔ اس جائزے اور خود احتسابی کے بغیر نہ تو فکر و عمل کی راہ راست پر استقامت کے ساتھ چلتے رہتے کی ضمانت ہو سکتی ہے، نہ اس فریضہ اقامت دین کا کم سے کم حق ادا ہو سکنے کی توقع کی جا سکتی ہے۔ جس کی ادائی کا عہد ہم نے اپنے رب سے کر رکھا ہے۔

چوتھی بات

جو عرض کرنے کی ہے، دراصل ایک سوال کے جواب کی حیثیت رکھتی ہے جو اب تک کی معروضات سنتے ہوئے ذہنوں میں ابھر سکتا ہے۔ سوال یہ ابھر سکتا ہے کہ یہ ساری مطلوبہ صفات اپنے اندر پیدا کس طرح کی جا سکتی ہیں؟ ہم اپنی دہری ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھا سکنے کے قابل کیوں کر ہو سکتے ہیں؟ ہمارے اندر اپنے نصب العین سے سچا قلبی لگاؤ کیسے پیدا ہو سکتا اور اس کا استحضار کیسے پیہم بر قرار رہ سکتا ہے؟ ہمارے تحریکی شعور کو بیداری کس طرح حاصل ہو سکتی ہے؟ ہم وقت کے نظریاتی فتنوں کی یلغار سے اپنے ذہنوں کو کس طرح محفوظ رکھ سکتے ہیں؟ اس سوال یا ان سوالوں کا جواب قرآن حکیم کے اندر آپ کو جگہ جگہ مل جا سکتا ہے۔ میں اس وقت اس کے صرف ایک ارشاد سنا دینے پر اکتفا کروں گا۔ “اے ایمان والو! اگر تم اللہ کا تقوی اختیار کرو گے تو وہ تمھارے اندر حق اور باطل کے درمیان تمیز کر لینے والی قوت پیدا کر دے گا۔۔(سورة انفال-۱۹)

یہ کلمات خداوندی اگرچہ چند ہی ہیں مگر ان کے اندر واضح طور پر وہ سب کچھ موجود ہے جو ہم اس وقت جاننا چاہتے ہیں۔ ضرورت صرف اتنی ہے کہ ان کی گہرائیوں میں اتر کر غور کر لیا جائے اور صرف غور ہی نہ کر لیا جائے بلکہ صدق دل سے یہ دعا بھی کی جائے کہ بار الہا! ہم سب کو تقوی کی اس نعمت سے نواز دے اور برابر نوازے رکھے جو بندہ مومن کے لیے حق کا چراغ روشن کیے رہتی ہے تاکہ یہ تیرے کم زور و ناتواں بندے، جو تیرے دین کی اقامت کے لیے اٹھے ہوئے ہیں۔ کہیں بھی اور کبھی بھی نہ ہمت چھوڑ بیٹھیں، نہ کسی غلط رخ کی طرف نادانستہ مڑنے پائیں۔ (آمین)

رفیقو! اس وقت جو کچھ کہہ سکتا تھا کہ چکا۔ ان معروضات کی حیثیت کسی رہ نمائی کی نہیں تھی بلکہ صرف یاد دہانی کی تھی۔ ان کے اندر کوئی نئی بات بھی نہیں تھی۔ بلکہ سب کچھ آپ کا بارہا سنا اور پڑھا ہوا تھا۔ اس کے باوجود میں نے یہ باتیں آپ کے سامنے اس لیے رکھی ہیں کہ آدمی رہ نمائی کا محتاج تو صرف ایک وقت تک ہوتا ہے یا کبھی کبھار ہوجایا کرتا ہے۔ مگر یاد دہانیوں کا محتاج وہ ہمیشہ رہتا ہے۔ و آخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین

(سہ روزہ دعوت، ۱ جون ۱۹۹۲)

مشمولہ: شمارہ اپریل 2023

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223