قرآنِ حکیم کی چند آیاتِ انفس و آفاق کے اُردو تراجم پر ایک نظر

اللہ تعالی نے اپنی حکمت سے انسا نوں کی ہدایت کے لئے مختلف قسم کے وسائل کا انتخاب فرمایا، چنانچہ آنکھیں کھول دینے اور بصیرتوں کو وا کردینے کا ایک واضح طریقہ یہ اپنایا کہ قرآن میں مختلف  نشانیاں بیان کرکے،اپنی مخلوق و کاریگری پر تدبر کرنے پر اُکسایا۔قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فطر ت کے مظاہر اور نفوس میں پوشیدہ رازوں کی طرف انسان کو غور و فکر کی دعوت دی ہے۔ قرآن میں ۵۰سے زائد آیات میں غور و تدبّر کرنے اور عقل و فکر استعمال کرنے پر اکسایا گیا  ۱؎۔ ۷۵۰دفعہ مسلمانوں کی توجہ سائنسی حقائق او ر مشاہدات کی طرف مبذول کرائی گئی ہے  ۲؎ ۔

إِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَاخْتِلاَفِ اللَّیْلِ وَالنَّہَارِ لآیَاتٍ لِّأُوْلِیْ الألْبَابِ الَّذِیْنَ یَذْکُرُونَ اللّہَ قِیَاماً وَقُعُوداً وَعَلَیَ جُنُوبِہِمْ وَیَتَفَکَّرُونَ فِیْ خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہَذا بَاطِلاً سُبْحَانَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ   (سورہ آل عمران،آیت۱۹۰،۱۹۱)

’’زمین و آسمان کی پیدائش میں اور رات و دن کے باری باری آنے میں ان ہوشمندوں کے لئے بہت نشانیاں ہیں جو اٹھتے  بیٹھتے اور لیٹتے ہر حال میں خدا کو یاد کرتے ہیں اور آسمان و زمین کی ساخت میں غور و فکر کرتے ہیں۔پروردگار  یہ سب کچھ تو نے فضول اور بے مقصد نہیں بنایا۔توپاک ہے پس ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچالے‘‘۔

مذکورہ بالا آیت میں غور و فکر کرنے والوں کا دوزخ کے  عذاب سے پناہ مانگنا قابلِ غور ہے۔اوراس سے قرآن میں آیات ِکائنات کے تذکرہ کا مقصد بھی متعین ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ فطرت سے متعلق قرآن کی تمام آیات کا مقصد دراصل توحید،رسالت اور آخرت پر استدلال کرنا ہے۔

اس مضمون میں ہم ایسی ہی چند آیات کے اردو تراجم کاتجزیہ تقابلی مطالعہ کے ذریعہ پیش کریں گے جن میں فطرت کے نو منکشف رازوں کی طرف واضح اشارے ملتے ہیں۔ اس تجزیہ کا مقصد قرآنی  الفاظ میں پنہاں علمی اعجازات کا  اظہارکرنا ہے۔اورقرآن کے ایک ایک لفظ میں جو معنوی وسعتیں ہیں اس سے قرآنی محاسن اجاگر ہوتے ہیں اور ساتھ ہی دوسری زبان میں اسطرح کی جامعیت کے ساتھ ترجمہ کرنے کی مشکلات کا بھی اندازہ ہو جاتا ہے۔اسطرح تقابلی مطالعہ سے قرآنی الفاظ کے مختلف مفاہیم سامنے آتے ہیں اور  فہمِ قرآنی میں نئی گہرائی پیدا کرتے ہیں۔اس تقابلی مطالعہ کے لیے میں نے چار تراجمِ قرآن کا انتخاب کیا، جو کثرت سے برّصغیر میں پڑھے جاتے ہیں۔ان ترجموں میں مولانا احمد رضا خان بریلویؒ، مولانا محمد بن ابراھیم جوناگڑھیؒ،مولاناابوالاعلی مودودیؒ اور مولانا محمود حسن ؒ کے تراجم شامل ہیں۔

تجزیہ کا طریقہ یہ اپنایا گیا کہ ایک منتخب موضوع کے تحت قرآن کی آیت کے سامنے چاروں حضرات کے تراجم نقل کئے اور ان کے محاسن کابغیر کسی جانبداری کے جائزہ لیا گیا۔ تقابلی مطالعہ ملاحظہ فرمائیں۔

ارضیات

قُلْ أَئِنَّکُمْ لَتَکْفُرُونَ بِالَّذِیْ خَلَقَ الْأَرْضَ فِیْ یَوْمَیْنِ وَتَجْعَلُونَ لَہُ أَندَاداً ذَلِکَ رَبُّ الْعَالَمِیْنَ ۔وَجَعَلَ فِیْہَا رَوَاسِیَ مِن فَوْقِہَا وَبَارَکَ فِیْہَا وَقَدَّرَ فِیْہَا أَقْوَاتَہَا فِیْ أَرْبَعَۃِ أَیَّامٍ سَوَاء  لِّلسَّائِلِیْنَ(سورہ حٰم السجدہ،آیت ۹،۱۰)

’’تم فرماؤ کیا تم لوگ اس کا انکار رکھتے ہو جس نے دو دن میں زمین بنائی اور اس کے ہمسر ٹھہراتے ہو وہ ہے سارے جہان کا رب اور اس میں اس کے اوپر سے لنگر ڈالے(بھاری بوجھ رکھے) اور اس میں برکت رکھی اور اس میں اس کے بسنے الوں کی روزیاں مقرر کیں یہ سب ملا کر چار دن میں ٹھیک جواب پوچھنے والوں کو‘‘۔(مولانااحمدرضاخان بریلویؒ)

آپ کہہ دیجئے!کہ کیا تم اس (اللہ) کا انکار کرتے ہو اور تم اس کے شریک مقرر کرتے ہو جس نے دو دن میں زمین پیدا کردی، سارے جہانوں کا پروردگار وہی ہے۔اور اس نے زمین میں اس کے اوپر سے پہاڑ گاڑ دئے اور اس میں برکت رکھ دی اور اس میں (رہنے والوں کی)  غذاؤں کی تجویز بھی اسی میں کر دی (صرف) چار دن میں، ضرورت مندوں کے لئے یکساں طورپر۔(مولانا محمد جوناگڑھیؒ)

اے نبیؐ! اِن سے کہو، کیا تم اُس خدا سے کفر کرتے ہو اور دوسروں کو اُس کا ہمسر ٹھیراتے ہو جس نے زمین کو دو دنوں میں بنا دیا؟ وہی تو سارے جہان والوں کا رب ہے۔اُس نے (زمین کو وجود میں لانے کے بعد) اوپر سے اس پر پہاڑ جما دیے اور اس میں برکتیں رکھ دیں اور اس کے اندر سب مانگنے والوں کے لیے ہر ایک کی طلب و حاجت کے مطابق ٹھیک اندازے سے خوراک کا سامان مہیا کر دیا یہ سب کام چار دن میں ہو گئے۔(مولانامودودیؒ)

تو کہہ کیا تم منکر ہو اُس سے جس نے بنائی زمین دو دن میں اور برابر کرتے ہو اس کے ساتھ اوروں کو وہ ہے رب جہان کااور رکھے اس میں بھاری پہاڑ اوپر سے اور برکت رکھی اس کے اندر اور ٹھہرائیں اس میں خوراکیں اس کی چار دن میں پورا ہوا پوچھنے والوں کو۔(مولانامحمودحسنؒ)

اس آیت میں وَجَعَلَ فِیْہَا رَوَاسِیَ مِن فَوْقِہَا َ کا ترجمہ توجہ طلب ہے۔

’’اور اس میں اس کے اوپر سے لنگر ڈالے ، اور اس نے زمین میں اس کے اوپر سے پہاڑ گاڑ دئے، اُس نے (زمین کو وجود میں لانے کے بعد) اوپر سے اس پر پہاڑ جما دیے، اور رکھے اس میں بھاری پہاڑ اوپر سے‘‘۔

پہاڑ جمادینے میں اور رکھ دینے میں وہ فہم نہیں ہے جو لنگر ڈالنے میں یا گاڑدینے میں ہے۔پہلے معنوں میں مولانا مودودی ؒاورمولانا محمود حسنؒ نے ترجمہ کیا جبکہ مولانا احمد رضاؒ اور جوناگڑھیؒ نے دوسرے معنوں میں۔یہاں دوسرے معنی زیادہ مطابقت رکھتے ہیں۔جتنے پہاڑ اوپر سے نظر آتے ہیں اس کی جڑیں زمین میں بھی پیوست ہیں اور لفظ لنگر ڈالنے میں وہ پورا مفہوم ہے جس میں اوپر سے پھینکنے کے عمل کی بھی نشاندہی ہوتی ہے۔

پہاڑوں کی ساخت کی حقیقت سامنے آنے کے بعد اس فقرہ کی اہمیت و اعجاز اور بھی نمایاں ہوگیا ہے۔علمِ ارضیات کی رو سے آج یہ ایک مشہور حقیقت ہے کہ پہاڑوں کی ساخت ایسی ہے کہ زمین کی سطح کے نیچے تک پھیلے ہوئے ہیںاوردوسری ارضیاتی ساختوں میں کافی گہرائی تک ان کی جڑیں ہیں۔اور یہ پہاڑ زمین کی سطح پر ہلکی تشکیل اور سمندورں کے پیندوں میں بھاری تشکیل کے درمیان مساوی سکونی توازن برقرار رکھتے ہیں جسے Isostatic Balance کہا جاتا ہے۳؎۔

پہاڑوں کی ساخت

جدید معلومات کے مطابق طویل پہاڑی سلسلے زمین میں میخوں کی طرح پیوست ہیں جیساکہ اوپر کے خاکہ میں دکھایا گیا ہے۔یہ زیرِ زمین تقریباً ۸۰میڑ گہرائی تک دھنسے ہوئے ہیں۔ اس کی روشنی میں میخوں یا لنگر سے ترجمہ کرنا زیادہ مناسب ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن حکیم کے ایک ایک لفظ کے چُناؤ میں کیا کیا حکمتیں پوشیدہ ہیں۔اور ساتھ ہی اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا مکمل مفہوم ترجمہ میں برتنا کتنا مشکل ہے اور کتنی معلومات کا تقاضہ کرتا ہے۔

اس طرح رَوَاسِیَ میں لنگر ڈالنے کا مفہوم ہے جو احمد رضا ؒکے ترجمہ میں ملتا ہے اور اس لنگر سے مراد ‘ پہاڑ ہیں جس کا ذکر باقی مترجمین نے کیا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ قرآن میں پہاڑوں کی تخلیق سے متعلق  جتنے مقامات پر بھی تذکرہ ملتا ہے اور  رَوَاسِیَ کے علاوہ بھی اگر دوسرے الفاظ ملتے ہیں،تب بھی اس میں زمین میں گڑھے ہونے کا مفہوم شامل ہے مثلاً وَالْجِبَالَ أَوْتَاداً(سورۃ النباء، آیت ۷) یعنی  ’’اور پہاڑوں کو میخوں کی طرح گاڑ دیا‘‘، وَالْجِبَالَ أَرْسَاہَا(سورۃ النازعات، آیت ۳۲) یعنی ’’اور پہاڑ اس میں گاڑ دئے‘،  وَإِلَی الْجِبَالِ کَیْفَ نُصِبَتْ(سورۃ الغاشیہ، آیت ۱۹) یعنی ’’پہاڑوں کو نہیں دیکھتے کہ کیسے گاڑ دئے گئے‘‘اور  وَجَعَلْنَا فِیْہَا رَوَاسِیَ شَامِخَاتٍ وَأَسْقَیْنَا کُم مَّاء  فُرَاتاً(سورۃ المرسلات، آیت ۲۷) یعنی ’’اور ہم نے اس میں اونچے اونچے لنگر ڈالے اور ہم نے تمہیں خوب میٹھا پانی پلایا‘‘۔

جبکہ ہم انھیں آیات کے ترجمے دیکھتے ہیں تو ایک ہی مترجم مختلف مقامات پر مختلف الفاظ کا انتخاب کرتے نظر آتے ہیں،ایک مقام پر مکمل مفہوم ادا کرنے والا لفظ ہے دوسرے مقام پر نامکمل ہے۔مثلاً احمد رضاؒ نے سورۃ النحل میں ’’ لنگر ڈالے ‘‘ لکھا تو سورۃ النازعات میں ’’پہاڑوں کو جمایا‘‘سے ترجمہ کیا۔اسی طرح مودودی نے لفظ رَوَاسِیَ کے لیے ہی سورۃ  النمل میں ’’پہاڑوں کی میخیں گاڑدیں‘‘ سے ترجمہ کیا تو سوۃ المرسلت میں ’’پہاڑ جمائے‘‘لکھا۔ کلام معجز کا ترجمہ مشکل ہوجاتا ہے۔

فلکیات

أَوَلَمْ یَرَ الَّذِیْنَ کَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ کَانَتَا رَتْقاً فَفَتَقْنَاہُمَا وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاء  کُلَّ شَیْء ٍ حَیٍّ أَفَلَا یُؤْمِنُونَ وَجَعَلْنَا فِیْ الْأَرْضِ رَوَاسِیَ أَن تَمِیْدَ بِہِمْ وَجَعَلْنَا فِیْہَا فِجَاجاً سُبُلاً لَعَلَّہُمْ یَہْتَدُونَ    (سورۃالانبیاء ،آیات ۳۰ ،۳۱)

’’کیا کافروں نے یہ خیال نہ کیا کہ آسمان اور زمین بند تھے تو ہم نے انہیں کھولا اور ہم نے ہر جاندار چیز پانی سے بنائی تو کیا وہ ایمان لائیں گے، اور زمین میں ہم نے لنگر ڈالے کہ انھیں لے کر نہ کانپے اور ہم نے اس میں کشادہ راہیں رکھیں کہ کہیں وہ راہ پائیں‘‘۔(مولانااحمد رضا ؒ)

’’کیا کافر لوگوں نے یہ نہیں دیکھاکہ آسمان و زمین باہم ملے جُلے تھے پھر ہم نے انہیں جُدا کیا اور ہر زندہ چیز کو ہم نے پانی سے پیدا کیا کیا یہ لوگ پھر بھی ایمان نہیں لاتے۔اور ہم نے زمین میں پہاڑ بنادئے تاکہ وہ مخلوق کو ہلا نہ سکے، اور ہم نے اس میں کشادہ راہیں بنادیں تاکہ وہ راستہ حاصل کریں‘‘ ۔

(مولانا محمد جوناگڑھیؒ)

’’کیا وہ لوگ جنہوں نے (نبیؐ کی بات ماننے سے) انکار کر دیا ہے غور نہیں کرتے کہ یہ سب آسمان اور زمین باہم ملے ہوئے تھے، پھر ہم نے اِنہیں جدا کیا، اور پانی سے ہر زندہ چیز پیدا کی کیا وہ (ہماری اس خلّاقی کو) نہیں مانتے؟اور ہم نے زمین میں پہاڑ جما دیے تاکہ وہ انہیں لے کر ڈھلک نہ جائے اور اس میں کشادہ راہیں بنا دیں، شاید کہ لوگ اپنا راستہ معلوم کر لیں‘‘۔ (مولانامودودی ؒ)

’’کیا نہیں دیکھا ان منکروں نے کہ آسمان و زمین منہ بند تھے پھر ہم نے ان کو کھول دیا اور بنائی ہم نے پانی سے ہر ایک چیز جس میں جان ہے۔پھر کیا یقین نہیں کرتے‘‘۔ (مولانا محمو د حسن ؒ)

کَانَتَا رَتْقاً فَفَتَقْنَاہُمَا کا ترجمہ آسمان اور زمین بند تھے تو ہم نے  انہیں کھولا، آسمان و زمین باہم ملے جُلے تھے پھر ہم نے انہیں جُدا کیا، آسمان اور زمین باہم ملے ہوئے تھے، پھر ہم نے اِنہیں جدا کیا، آسمان و زمین منہ بند تھے پھر ہم نے ان کو کھول دیا سے کیا گیا ہے۔

اس آیت میں لغوی تحقیق کریں تو رَتْقاًکے مندرجہ ذیل معنی سامنے آتے ہیں۔

کسی چیز کا گڈمڈ شدہ اور جُڑی ہوئی ہونا۵؎ جوڑنا، بند کرنا ۶؎

اورفَتَقَ کے معنی یہ آئے:کسی چیز کو بڑا شگاف ڈال کر کھول دینا جیسے نافہء مشک کو کھولا جاتا ہے، الگ کرنا۷؎، پھاڑنا (کپڑے کی سلائی)،ادھیڑنا۸؎

مولانااحمد رضاؒ اورمولانا محمودحسنؒ نے بند ہونے اور کھولنے کے معنوں میں ترجمہ کیا جبکہ مولانا جونا گڑھی ؒ اورمولانا مودودیؒ نے باہم ملے ہو ئے ا ور جُدا ہونے کے معنوں میں کیا ہے۔یہاں پہلے معنی’ منہ بند تھے’ یا  ‘ بند تھے‘ کا مفہوم غیر واضح ہے جبکہ ‘باہم ملے ہوئے تھے اور ان کے جُدا ہونے’کا مفہوم واضح ہے اور حالیہ دور کے انکشافات کے مطابق بھی ہے جیساکہ بِگ بینگ تھیوری سے ہمیں پتہ چلتا ہے۔اس تھیوری کے مطابق کائنات کا ظہور ایک انتہائی کثیف اور اعظم ترین درجہء حرارت والے مادہ کے پھٹنے سے ہوا ہے۔ ۹؎

مفسرین کے درمیان اس کا مطلب بیان کرنے میں اختلاف ہے۔ قدیم مفسرین کے نزدیک آسمان کے کھولنے سے مراد آسمانی بارش کا نزول اور زمین کے کھولنے سے مراد پیداوار کا اُگنا ہے۔  تمام مفسرین نے اس کے معنی کو یہیں تک محدود رکھا۔اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت میں بھی یہی معنی بیان ہوئے۔اور کسی نے بھی اس سے مختلف معنی مراد لینا گوارہ نہیں کیا۔

مولانا مودودیؒ نے اس آیت کی جدید علمی انکشافات کے مطابق تفسیر کی ہے۔ لکھتے ہیں:

’’ رَتْقاکے معنی یکجا ہونا، اکٹھا ہونا، ایک دوسرے سے جُڑا ہوا ہونا، متصل اور متلاصق ہونا اور فتق کے معنی پھاڑنے اور جُدا کرنے کے ہے۔ بظاہر ان الفاظ سے جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ کہ کائنات کی ابتدائی شکل ایک تودے (Mass) کی تھی، بعد میں اس کو الگ الگ حصوں میں تقسیم کرکے زمین اور دوسرے اجرامِ فلکی جُدا جُدا دنیاؤں کی شکل میں بنائے گئے‘‘۔

قدیم زمانے میں لوگوں کے لئے ا ٓسمان و زمین کے رتق و فتق، پانی سے ہر زندہ چیز کے پیدا کیے جا نے اور تاروں کے ایک ایک فلک میں تیرنے کا  مفہوم کچھ اور تھااور موجودہ زمانے میں طبیعیات، حیاتیات اور علمِ ہئیت کی جدید معلومات نے ہمارے لئے ان کا مفہوم کچھ اور کر دیا۔اور نہیں کہہ سکتے کہ آگے چل کر انسان کو جو معلومات ہونی ہے وہ ان الفاظ کے کن معانی پر روشنی ڈالیں گی۔بہرِ حال موجودہ زمانے کا انسان ان آیات کو اپنی جدید ترین معلومات کے مطابق پاتا ہے۔

اس آیت میں مفسرین نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی رائے کے احترام میں قدیم تفسیر کی ہے لیکن یہاں یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ یہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کا اجتہاد ہے نہ کی نبی کا قول۔اس طرح ابن عباس رضی اللہ عنہ کی تاویل میں علمائے اُمت کے لئے یہ سبق ہے کہ وہ قرآن میں علم و شعور کی روشنی میں تدبر و تفکر کریں اور لوگوں میں اللہ کے کلام کی عظمت کااحساس دلائیں۔یہ بات تکریمِ صحابہ رضی اللہ عنہم کے خلاف نہیں ہے بلکہ انھیں سے سیکھا ہوا منہج ہے۔ظاہر ہے اس وقت حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے لئے یہ ممکن نہ تھا کہ وہ اس آیت کی جدید معلومات کے مطابق تفسیر فرمائیں انھوںنے ذاتی مشاہدہ سے جو نتیجہ اخذ فرمایا وہ اُس دور کے اعتبار سے ایک عظیم کوشش تھی۔ضرورت اس بات کی ہے کہ آج بھی علماء اسی نہج پر تدبّر فرمائیں اورقرآن کے علمی اعجازات کو اشکاراکریں۔

فلکیات کے تحت ایک اور آیت ملاحظہ ہو۔

وَالسَّمَاء  بَنَیْنَاہَا بِأَیْدٍ وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ۔وَالْأَرْضَ فَرَشْنَاہَا فَنِعْمَ الْمَاہِدُوْناَ (سورۃالذاریات،آیت۴۷،۴۸)

’’اور آسمان کو ہم نے ہاتھوں سے بنایا اور بیشک ہم وسعت دینے والے ہیں۔ اور زمین کو ہم نے فرش کیا تو ہم کیا ہی اچھے بچھا نے والے‘‘۔ (مولانااحمد رضا ؒ)

’’آسمان کو ہم نے (اپنے) ہاتھوںسے بنایا ہے اور یقیناًہم کشادگی کرنیوالے ہیں۔ اور زمین کو ہم نے فرش بنادیا ہے۔پس ہم بہت ہی اچھے بچھانے والے ہیں‘‘۔(مولانا محمد جونا گڑھیؒ)

’’آسمان کو ہم نے اپنے زور سے بنایا ہے اور ہم اِس کی قدرت رکھتے ہیں۔ زمین کو ہم نے بچھایا ہے اور ہم بڑے اچھے ہموار کرنے والے ہیں‘‘۔ (مولانامودودی ؒ)

’’اور بنایا ہم نے آسمان ہاتھ کے بَل سے اور ہم کو سب مقدور ہے، اور زمین کو بچھایا ہم نے ،سو کیا خوب بچھانا جانتے ہیں ہم‘‘۔(مولانا محمودحسنؒ)

مولانااحمد رضاؒ اور مولانا جونا گڑھیؒ نے أید  کا ترجمہ’ ہاتھ‘ سے کیا۔جو عربی محاورہ کی رو سے کمزور معلوم ہوتا ہے۔ عربی میںیَدٌ(ہاتھ) کی جمع اَیَادِی ہے اور أَیْْد زور یا قوت کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے جیساکہ سورہ ص، آیت ۱۷ میں آیاہے  وَاذْکُرْ عَبْدَنَا دَاوُودَ ذَا الْأَیْدِ إِنَّہُ أوَّابٌ اورہمارے بندے داؤد کو یاد کریں جو بڑی قوت والا تھا۔

مولانا محمودحسنؒ نے ‘ہاتھ کے’ بَل‘ سے ترجمہ کیا جس میں کم از کم ہاتھ کی قوت کی طرف اشارہ ہے۔ہاتھ کے بَل کی تفسیر میں مولانا شفیع عثمانیؒ نے معارف القرآن میں لکھا ہے کہ: لفظ أَیْد قوت اور قدرت کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔

اس مقام پر قوت یا قدرت کے معنوں میں ترجمہ کرناسورہ حٰم السجدہ،آیت ۱۱ کی رُو سے بھی قابلِ ترجیح ہے،جسکا ترجمہ ہے:

’’پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا جو اُس وقت محض دھواں تھا اُس نے آسمان اور زمین سے کہا وجود میں آ جاؤ، خواہ تم چاہو یا نہ چاہو۔دونوں نے کہا:ہم آ گئے فرمانبرداروں کی طرح۔‘‘

اس آیت میں واضح ہے صرف حکم کی تعمیل میں زمین و آسمان وجود میں آگئے۔وَإِنَّا لَمُوسِعُونَ یہاں پرمُوسِعُون کا ترجمہ ہم وسعت دینے والے ہیں، ہم کشادگی کرنے والے ہیں، ہم اِس کی قدرت رکھتے ہیں اور ہم کو سب مقدور ہے سے کیا گیا ہے۔

یہاں مُوسِعُ اگر وَسَعَ سے ہے تب ‘طاقت و قدرت رکھنے والےکا مطلب آتا ہے ۔ مولانامودودی ؒ نے اپنی تفسیر میں مُوسِعُ کے دو معنی بیان کیے،ایک طاقت و قدرت رکھنے والے دوسرے وسعت دینے یا وسیع کرنے والے کے۔دوسرے معنوں کے اعتبار سے لکھتے ہیں ‘‘۔’’ مطلب یہ ہے کہ اس وسیع کائنات کو ہم ایک دفعہ بنا کر نہیں رہ گئے ہیں بلکہ مسلسل اس میں توسیع کررہے ہیںاور ہر آن اس میں ہماری تخلیق کے نئے نئے کرشمے رونما ہورہے ہیں۔ایسی زبردست خلاق ہستی کو تم نے اعادہ خلق سے عاجز کیوںسمجھ رکھا ہے؟ ‘‘

تفسیر میں آ پ نے دونوں معنی بیان کیے لیکن ترجمہ میں طاقت وقدرت سے ترجمہ کیا۔اسطرح’’ زور‘‘ اور’’ قوت‘‘ سے ایک ہی مضمون کو دو مرتبہ بیان کیا۔ یہاں مُوسِعُون َ کا مکمل ترجمہ کسی نے بھی نہیں کیا۔ مُوسِعُو نَ اسم فاعل ہے جس میں استمراریت ہوتی ہے یعنی پھیلاؤکا عمل جاری ہے۔ان معنوںکے اعتبار سے میری حقیر دانست میں مکمل مفہوم اسطرح ہوسکتا ہے،’’ہم نے آسمان کو اپنی قوت سے بنایا اور بلا شبہ ہم اس میں توسیع کر رہے ہیں۔‘‘ انگریزی میں حامدعبد الرحمن الکاف اصلاحی صاحب نے اپنی تفسیر قرآن  The Simplified Quranمیں اسی طرز پر ترجمہ کیا۔

“We have built the sky with the power and We are expanding it.”

جدید معلومات کی رو سے کائنات پھیل رہی ہے جس کا انکشاف ۱۹۲۶ء میں ایڈوین  ہیبل(Edwin Hubble)نامی سائنسداں نے کیا۔ایڈوین ہبل نے یہ دریافت کیا کہ کائنات مسلسل یکساں شرح سے پھیل رہی ہے اور اس کے پھیلنے کی شرح ۵۰۰کلومیڑفی سکنڈ فی میگا پارسیک ہے۱۰؎ ۔(1 میگاپارسیک3.26  ملین نوری سال کے برابر ہوتا ہے۔)

نباتیات

الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الْأَرْضَ مَہْداً وَسَلَکَ لَکُمْ فِیْہَا سُبُلاً وَأَنزَلَ مِنَ السَّمَاء ِ مَاءً فَأَخْرَجْنَا بِہِ أَزْوَاجاً مِّن نَّبَاتٍ شَتَّی۔(سورہ طٰہ، آیت ۵۳)’’

وہ جس نے تمہارے لئے زمین کو بچھونا کیا اور تمہارے لئے اس میں چلتی راہیں رکھیں اور آسمان سے پانی اُتارا تو ہم نے اس سے طرح طرح کے سبزے کے جوڑے نکالے‘‘۔(مولانااحمدرضاؒ)

’’اسی نے ز مین کو فرش بنایا اور اس میں تمہارے چلنے کیلئے راستے بنائے اور آسمان سے پانی بھی وہی برساتاہے پھر اس برسات کی وجہ سے مختلف قسم کی پیداوار بھی ہم ہی پیدا کرتے ہیں‘‘۔

(مولانا محمد جونا گڑھیؒ)

’’وہی ہے جس نے تمہارے لئے زمین کا فرش بچھایا اور اس میں تمہارے چلنے کو راستے بنائے اور اوپر سے پانی برسایا پھر اس کے ذریعہ سے مختلف اقسام کی پیداوار نکالی‘‘ ۔ (مولانامودودیؒ)

’’وہ ہے جس نے بنا دیا تمہارے واسطے زمین کو بچھونا اور چلائیں تمہارے لئے اس میں راہیں اور اُتارا آسمان سے پانی پھر نکالی ہم نے اس سے طرح طرح کی سبزی‘‘ ۔ (مولانامحمودحسنؒ)

أَزْوَاجاً مِّن نَّبَاتٍ شَتَّی کا ترجمہ طرح طرح کے سبزے کے جوڑے، مختلف قسم کی پیداوار، مختلف اقسام کی پیداوار اور طرح طرح کی سبزی سے کیا گیا۔

لفظ زوج کے معنی: شوہر بیوی کیلئے زوج ہے۔ اور بیوی شوہر کیلئے زوج ہے اور دونوں کواکٹھے بھی زوج  ہی کہتے ہیں۔جس مخلوق میں نر اور مادہ کا وجود ہے اس میں زوج کا وجود ہے۔ اس میں زوج کا تصور بھی موجود ہے۔ چونکہ زوج میں مصاحبت یا ساتھی ہونے کا تصور بھی موجود ہے لہٰذا چند ہم جنس جاندار چیزوں کے اکٹھا ہو جانے پر بھی زوج کا اطلاق ہوتا ہے۔ اس صورت میں زوج کا معنی قسم، تقسیم یا فرقہ ہوتا ہے۔ ازواج کا لفظ مختلف قسم کے ہم جنس مجموعوں پر بھی بولا جاتا ہے۔ ۱         ؎

وَکُنتُمْ أَزْوَاجاً ثَلَاثَۃ(سورۃ الواقعہ، آیت ۷)

’’تم لوگ اُس وقت تین گروہوں میں تقسیم ہو جاؤ گے‘‘۔

لفظ شتّٰی کے معنی پراگندہ ہونا، بکھرا ہوا ہونا، متفرق ہونا اور جُدا جُدا ہونا۔ اگر ایک ہی چیز کے منتشر اجزاء کا اظہار مقصود ہو تو شتّٰی استعمال ہوتا ہے۔اَنبَتَ کے معنی اُگانا ہے۔ اس لفظ میں خوراک وغیر کا خیال رکھ کر نہایت اچھی طرح پرورش کرنے کا مفہوم بھی شامل ہے۔ نَبَتَ کے ایک اورمعنی جوکچھ زمین اُگائے۔انبت البقل کے معنی سبزی کا اُگنا۔۱۲؎

انبت کے ان معنی کی روشنی میں  نَّبَاتٍ شَتَّی کا مکمل ترجمہ جوناگڑھیؒ اور مودودیؒ نے لفظ ‘’پیداوار‘ سے کیا۔ جبکہ’ ’سبزے‘ اور’ ‘سبزی‘ کا اطلاق زمین سے پیدا ہونے والی ایک محدود قسم پر ہوتا ہے۔لفظ ‘انبت ‘میں تربیت و پرورش کے معنون کو بھی مدنظر رکھا جائے تو’نَّبَاتٍ‘ سے کھیتی مراد لے سکتے  ہیں۔ان معنوں کی روشنی میں دیکھا جائے توأَزْوَاجاً مِّن نَّبَاتٍ شَتَّی میں جوڑے کا لفظ احمد رضاؒ نے ہی استعمال کیا۔لیکن تفسیر میں جوڑے سے مراد قسم قسم کی سبزی ہی لیتے ہیں۔ اسکی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اس وقت نباتات میں نر اور مادہ کا تصورمحال تھا۔بہر حال جہاں تک ترجمہ کا تعلق ہے مولانا احمدرضاؒ کے ترجمہ میں یہ فطری حقیقت در آئی ہے۔دوسرے مترجمین نے أزْوَاجاً کا ترجمہ ‘مختلف قسم کے ’ہم جنس مجموعوں‘ کے معنی میں کیا ہے۔ یہ بھی درست ہے لیکن سائنسی حقائق کے نقطہء نظر سے ‘طرح طرح کی ’پیداوار کے جوڑے‘مکمل ترجمہ ہو سکتا ہے جو کسی نے نہیں کیا۔

نباتات میں جوڑوں یعنی نر اور مادہ کا تصور گزشتہ صدی پرانا ہے۔جرمنی کے ایک ما  ہر نباتیات Wilhelm Hofmeisterنے۱۸۵۱ء میں واضح کیا کہ نباتات میں نر اور مادّہ ہوتے ہیں اور ان میں بالیدگی کی صلاحیت نر اور مادہ کی وجہ سے ہے۔۱    ۳        ؎

یہاں پر شَتَّی لفظ میں بھی مختلف یا متفرق ہونے کے معنی ہے لہٰذاأَزْوَاجاًکیلئے دوبارہ وہی معنی نہ لیکر ‘زوج ‘یعنی جوڑے کے معنی میں ترجمہ کرنے سے زیادہ وسیع مفہوم پیدا کرتا ہے۔

فَأَخْرَجنَا بہِ  میں’ہ‘کی ضمیرپانی کی طرف ہے جسکو مولانا محمد جوناگڑھی نے ترجمہ میں ضمیر کو کھول کر’’اس برسات کی وجہ سے‘‘ لکھا جس سے مفہوم میں وضاحت پیدا ہوگئی کہ پانی کے ذریعہ سے زمین سے پیداوار ہوئی۔

جنس کا تعین

أَلَمْ یَکُ نُطْفَۃً مِّن مَّنِیّ یُمْنَی ثُمَّ کَانَ عَلَقَۃً فَخَلَقَ فَسَوَّی فَجَعَلَ مِنْہُ الزَّوْجَیْنِ الذَّکَرَ وَالْأُنثَی۔    (سورۃ القیامہ، آیت ۳۷ تا ۳۹)

’’کیا وہ ایک بوندنہ تھا اس منی کا کہ گرائی جائے پھر خون کی پھٹک ہوا تو اس نے پیدا فرمایا پھر ٹھیک بنایا تو اس سے دو جوڑے بنائےمرد  اور عورت‘‘۔(مولانااحمد رضاؒ)

’’کیا وہ ایک گاڑھے پانی کاقطرہ نہ تھا جو ٹپکایا گیا تھا پھر وہ لہو کا لوتھڑا ہو گیا پھر اللہ نے اسے پیدا کیا اور درست بنا دیا پھر اسے جوڑے یعنی نر و مادّہ بنائے‘‘۔(مولانا محمد جوناگڑھیؒ)

’’کیا وہ ایک حقیر پانی کا نطفہ نہ تھا جو (رحمِ مادر) میں ٹپکایا جاتا ہے پھر وہ ایک لوتھڑا بنا پھر اللہ نے اس کا جسم بنایا اور اس کے اعضاء درست کئے پھر اس سے مرد اور عورت کی دو قسمیں بنائیں۔(مولانا مودودیؒ)بھلا نہ تھا وہ ایک بوند منی کی جو ٹپکی پھر تھا لہو جما ہوا پھر اس نے بنایا اور ٹھیک کر اُٹھایا پھر کیا اس میں جوڑا نر اور مادّہ‘‘۔ (مولانا محمود حسنؒ)

اس آیت  میں ’ہ‘کی ضمیر کس چیز کی طرف ہے یہ وضاحت تین مفسرین نے نہیں کی۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا ادراک صدیوں قبل تو دور کی بات آج سے۰ ۲ سال قبل بھی بر صغیر میں بچہ کی جنس کے تعین کا ذمہ دار عورت کو ٹھہرایا جاتا رہا ہے۔جدید سائنس اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ بچہ کی جنس کا تعین مرد کی منی کرتی ہے۔ مرد کے خلیہ میںX اورY کروموزومس ہوتے ہیں جو کہ عورت کےX سے ملاپ کرتے ہیں۔ XXکے ملاپ کی صورت میں لڑکی اورXY  ملاپ کی صورت میں لڑکا پیدا ہوتا ہے۔ دونوں صورتو ں میں عورت Xہی مہیا کرتی ہے جبکہ مرد کے کروموزوم کی تبدیلی سے جنس کا تعین ہوتا ہے۱۴؎۔

کنز الایمان کے مفسر نعیم الدین مرادآبادی صاحبؒ نے مِنہ سے مراد منی’ یا ‘انسان‘ لیا ہے۔ انسان عورت بھی ہو سکتی ہے۔ منی کی طرف’ہ‘ کی ضمیر کا لو ٹانا جدید سائنسی علوم سے عین مطابقت رکھتا ہے محمود حسنؒ نے فَجَعَلَ مِنْہُ الزَّوْجَیْنِ الذَّکَرَ وَالْأُنثَی کا ترجمہ یوں کیا:’’ پھر کیا اس میں جوڑا نر اور مادّہ‘‘۔ یہاں مِنْہکا ترجمہ ‘اس میں ‘ سے کیوں ہوا اس کی کوئی معقول وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔مِنْہ کا ترجمہ ‘اس سے ہونا چاہئے تھا۔ اس ترجمہ سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ’ہ‘   کی ضمیر فَخَلَقَفَسَوَّی یعنی انسان کے بننے اور ٹھیک ہونے کے بعد اس کی جنس بنائی، اس طرح ہو رہا ہے۔ یہ ترجمہ سائنس اور ادب دونوں لحاظ سے کمزور ہے۔

فَجَعَلَ کا ترجمہ سب نے ‘پھر بنایا ’کیا میری حقیر دانست میں اس کاایک اور ترجمہ ایسا بھی ہو سکتا ہے، ‘پس (اسی منی) سے دو جوڑے:نر اور مادہ بنائے‘۔ اس طرح ترجمہ کرنے سے کلام کا آغاز جس سے ہوا، اختتام بھی اسی پر ہو رہا ہے اور منی سے زوجین کے بننے کی حقیقت میں بھی زور پیدا ہو رہا ہے۔

یہاں ضمیر کا مرجع منی کی طرف لوٹانے کو قرآ ن کی مندرجہ ذیل آیت سے بھی تقویت ملتی ہے۔جہاں زیادہ وضاحت کے ساتھ بیان ہوا ہے کہ نر اور مادہ کی تخلیق ٹپکنے والی بوند(یعنی مرد کی منی) سے کی گئی۔ارشاد ہے:

وَأَنَّہُ خَلَقَ الزَّوْجَیْنِ الذَّکَرَ وَالْأُنثَی مِن نُّطْفَۃٍ إِذَا تُمْنَی۔(سورۃ النجم، آیت ۴۵،۴۶)

’’اور یہ کہ اُسی نے نر اور مادہ کا جوڑا پیدا کیا، ایک بوند سے جب وہ ٹپکائی جاتی ہے‘‘۔

حوالہ جات

۱۔آیات، شمارہ سوم ،صفحہ۱۹، جلد اول

۲۔قرآن کے جدید سائنسی انکشافات، پروفیسر ڈاکٹر فضل کریم، ص۶

۳۔قرآن کے جدید سائنسی انکشافات، پروفیسر ڈاکٹر فضل کریم، ص ۲۵۷

۴۔تفہیم القرآن، جلد ۴،ص ۴۴۳

۵۔مترادفات القرآن، ص ۱۴۶،مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

۶۔المنجد

۷۔مترادفات القرآن، ص ۶۴۱، مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

۸۔المنجد

۹۔ “The Big Bang Model”, Encyclopaedia Britannica

۱۰۔https://asd.gsfc.nasa.gov/archive/hubble/overview/hubble_bio.html

۱۱۔مترادفات القرآن، ص۲۴۹،عبدالرحمٰن کیلانی

۱۲۔المنجد

۱۳۔https://news.ucsc.edu/2017/01/flora-unveiled.html

۱۴۔http://www.sciencemag.org

 

مشمولہ: شمارہ اپریل 2018

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223