کامیابی کی مثال ایک سیڑھی کی ہے جس پر ہم زینہ بہ زینہ چڑھتے ہیں۔ یہ کوئی دروازہ نہیں جو یک بیک کھل جائے۔ کامیابی کے زینے کو طے کرنے کے لیے تین شرطیں ہیں۔ ان کو پورا کرنے کے بعد سلیقہ اور خوش اسلوبی سے آپ اپنے قدم آگے بڑھا سکتے ہیں اور ہمارے ساتھ اکیسویں صدی میں کامیابی کے سراغ میں نکل سکتے ہیں۔
پہلی شرط: صدق و صفائے قلب
صدق ایک زبان ہے جس میں بہت کم لوگ مہارت رکھتے ہیں۔ ان کی گفتگو روشنی کی مانند دل سے نکلتی ہے اور دل تک راستہ بنا لیتی ہے۔ صدق انسان کی اندرونی پریشانیوں اور تھکن کو دور کرتا ہے ۔ اس کی شخصیت کو کھلی کتاب بناتا ہے۔ سچ کی کرنیں تو دل و جگر سے پھوٹتی ہیں۔ یہ وہ وصف ہے جس کی اداکاری کامیاب نہیں ہو سکتی ۔ صاف و شفاف دل میں اٹھنے والی لہریں جب ساری انسانیت سے محبت کرنے والے زندہ ضمیر سے ٹکراتی ہیں تو صدق کی کرنیں پھوٹتی ہیں اور کرشموں کو جنم دیتی ہیں۔ عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ جو کہ یہودی تھے ’ ان کی اہتمام اور توجہ سے بھر پور نظر نبی پاک ﷺ کے رخِ انور پر جا ٹھہرتی ہے اور پھر نبی اکرمﷺ کی سچائی کا اعلان کیے بغیر نہیں ہٹ پاتی ‘‘میں نے جان لیا کہ یہ کسی جھوٹے شخص کا چہرہ نہیں ہو سکتا’’ (ترمذی)۔ صدق انسان کے اندر کی روشنی ہے جس کا اثر اس کے رویہ سے ظاہر ہوتا ہے۔ یہ تو مثلِ تاج ہے۔ یہ ایسی صفت ہے جو چہرے اور آنکھوں سے جھلکتی ہے۔ ہر مشکل کا حقیقی علاج یہی ہے کہ انسان اپنے اندرون کو سچائی کے رنگ میں رنگ لے، یہ وہ خوشبو ہے جو انسان کے طرزِ عمل سے ظاہر ہوتی ہے اور پھر اسے کامیاب انسان بنا دیتی ہے۔
صدق کی مختلف صورتیں:
یہ روشنی ہمارے سامنے پانچ صورتوں میں ظاہر ہوتی ہے:
1۔ اللہ کے ساتھ صدق: یہ صدق کی اساس ہے ۔ یہیں سے انسان کو روشنی ملتی ہے۔ انسان کو چاہیے کہ اخلاص اور عاجزی کے ساتھ اس کی طرف پلٹے اور اسی سے فریاد کرے۔ اس کی طرف پلٹ کر دیکھو تمہاری خدمت کے لیے زمین سمٹی چلی آئے گی۔ اللہ کے ساتھ صدق بندے کو راست مالکِ ارض و سما سے وابستہ کرتا ہے:إن تَصْدُقِ الله يَصْدُقْك اگر تم اللہ سے کیے گئے اپنے پیمان میں سچے ہو تو اللہ تمہیں ضرور با مراد کرے گا۔
2۔ سچا ارادہ : عملی دنیا میں اقدام کے لیے انسان کے اندرون میں سچا عزم ہونا ضروری ہے۔ ہمارے سامنے آنے والی بیشتر دشواریوں کو عبور کرنے کے لیے ہمیں عزم و ارادہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ انسان کی قوتِ ارادی اس وقت جلوہ گر ہوتی ہے جب وہ بخوبی مشکلات کا سامنا کرتا ہے۔ مشکل گھڑی اور کٹھن معاملات انسان کے ارادے کی پختگی کا پتہ دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: اگر واقعی ان کا ارادہ نکلنے کا ہوتا تو وہ اس کے لئے کچھ تیاری کرتے لیکن اللہ کو ان کا اٹھنا پسندہی نہ تھا، اس لیے اس نے انہیں سست کر دیا اور کہہ دیا کہ بیٹھ رہو یبٹھنے والوں کے ساتھ (توبہ – 46)۔ جب انسان کی شخصیت کے اندر سچائی کے چشمے ابل رہے ہوں تو اسکے بیرون میں عزمِ جواںکی وہ آتشِ شوق بھڑکتی ہے جسے سرد نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے بعد وہ نہ بزدلی دکھا سکتا ہے اور نہ ہی جھجک جھجک کر اور سمٹ سمٹ کر قدم اٹھا سکتا ہے۔ وہ تھکتا نہیں بلکہ جہدِ مسلسل کی ایک تصویر بن جاتا ہے۔ ہاں یہ سچ ہے کہ ارادہ تو انسان کے اندرون میں پیدا ہونے والاایک جذبہ ہے۔
3۔ لوگوں سے سچی محبت: لوگوں سے قلبی تعلق اور محبت ضروری ہے۔ آپ کے اندر یہ سچا جذبہ ہو کہ جو لوگ کسی پہلو سے آپ سےکمتر ہیں ان کے پاس جائیں، ان کے پاس بیٹھیں۔ ان کی پریشانیوں کو سمجھیں۔ آپ نفع و نقصان سے بالاتر ہو کر انسانوں سے بھر پور محبت کریں۔ آپ اپنی پسند اور مرضی ان پر تھوپنے کی کوشش کرنے کے بجائے یہ دیکھیں کہ انہیں کیا پسند ہے۔ ان کے عزائم کیا ہیں۔ ان کے لیے راہ کا روڑا بننے کے بجائے ان کے مددگار بن جائیں۔
دوسروں کے لیے اپنے اندر اچھے جذبات پروان چڑھائیں۔ انہیں اپنے اندر کا سکھ دکھ بیان کرنے کا موقع فراہم کریں۔ کامیابی کی راہ پر چلنے میں لوگوں کی رہنمائی کریں۔ مشکلات اور پریشانیوں سے نکلنے میں ان کی مدد کریں۔ آپ کی نگاہِ لطف و عنایت اپنی زبان سے یہ اعلان کر دے کہ یہ اس سچے دل کا آئینہ ہے جو ان سے بھر پور محبت کرتا ہے۔ آپ کے ہونٹوں کی مسکان لوگوں کے دلوں میں امید کی شمعیں روشن کر دے۔ اور یہ سب اسی وقت ممکن ہے جب آپ لوگوں پر مہربان اور ان سے محبت کرنے والے ہوں۔
4۔ لوگوں کی مخلصانہ رہنمائی: اس معاملہ میں بناوٹی طرزِ عمل کارگر نہیں ہو سکتا۔ آپ کچھ وقت کے لیے اپنی شیریں کلامی سے لوگوں کو دھوکہ دے سکتے ہیں لیکن پھر حقیقت آشکار ہو کر رہتی ہے۔ وہ صادقین جو لوگوں کے لیے تڑپتے ہیں اپنی نگاہوں میں حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کے کردار کو تازہ رکھتے ہیں۔ مدینہ میں حضرت اسید بن حضیر (اس وقت انہوں نے اسلام قبول نہیں کیا تھا) جب مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے تو اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ نے کہا : اے مصعب یہ اپنی قوم کا سردار تمہارے پا س آرہا ہے۔ اس کے بارے میں اللہ سے سچائی اختیار کرنا”۔
5۔ اصول و اقدار سے محبت: یہ صفت انسان کے اندر روح اور اس کی شخصیت سے ابھرنے والی خوشبو کی حیثیت رکھتی ہے۔جن اصول و اقدار کی کارفرمائی انسان کے دل و روح، اس کے کردار اور اس کی گفتار میں ہر جگہ نظر نہ آئے وہ پائیدار نہیں ہوتے۔ اگر آپ کے ہونٹ ہنس رہے ہوں اور دل خنداں نہ ہو تو ایسی بناوٹی ہنسی بہت دیر تک برقرار نہیں رہ سکتی اور دھیرے دھیرے آپ کے تعلقات خراب ہونے شروع ہو جاتے ہیں۔
ایک حقیقت اپنے دل و دماغ میں بسا لیجیے کہ “میں بہت سی چیزیں نہیں جانتا”۔ اسے اپنے دل میں نقش کیجیے اور اپنی ذات کا حصہ بنا لیجیے۔ اس کا صرف ظاہری اظہار کوئی مفید نتیجہ نہیں دے سکتا۔ بہت سے لوگ اس حقیقت کو اپنے ذہن میں بٹھانے میں ناکام رہتے ہیں ، خاص طور پر اس وقت جب ان کا واسطہ اپنے سے فروتر یا کم عمر افراد سے پڑتا ہے۔
یہ بات بھی اپنے دل و دماغ میں نقش کیجیے کہ آپ انسانوں سے معاملہ کر رہے ہیں۔ انسانوں کو مشین سمجھنے والوں نے انسانی رشتوں کی حرمت کو بہت زیادہ پامال کیا ہے۔ غفلت اور غصہ کے اوقات میں ان کا رویہ اور ان کے منہ سے نکلنے والے الفاظ ظاہر کرتے ہیں گویا ان کے مخاطب شعور و احساس سے محروم نبادات و جمادات ہیں۔
اگر آپ کے کردار میں انسانی قدروں کو جگہ نہیں مل سکی تھی تو قبل اس کے کہ وہ دن آئے جب آپ تنہا رہ جائیں ابھی اور اسی وقت ان قدروں کو اختیار کرنے کی عادت ڈالیں۔ حضرت عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ کے اس قول کو سامنے رکھیں : سچے دوست بناؤ اور ان کی صحبت اختیار کرو۔ خوش حالی میں وہ تمہاری محفل کی زینت ہوں گے اور پریشانی میں تمہارے مدد گار۔
ارادہ سچا ہو تو یہ کوئی مشکل کام نہیں ۔ علامہ محمد اقبال نے کہا ہے :
کوئی قابل ہو تو ہم شان کئی دیتے ہیں ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں
دوسری شرط : شخصیت کا یہ توازن بھی تیرا حصہ ہو
یہ مشہور قصہ سب جانتے ہیں کہ ایک غریب کسان نے ایک دن دیکھا کہ اس کی بطخ کا انڈا سنہری رنگ کا ہے ۔ وہ حیران رہ گیا۔ اسے لگا کہ اسے کوئی دھوکہ دینے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس نے انڈا پھینک دینا چاہا لیکن پھر اس نے اپنا ارادہ بدل دیا۔ اور اس انڈے کو جوہری کے پاس لے گیا۔ اس کے لیے یہ بڑی حیرت کی بات تھی کہ انڈا واقعی سونے کا تھا۔ دوسرے دن بھی ایسا ہی ہوا۔ اس کے بعد اس کی لالچ بڑھنے لگی ۔ وہ روز انہ صبح اٹھ کر سیدھے بطخ کی طرف بھاگتا اور اسے ایک سونے کا انڈا مل جاتا۔ دھیرے دھیرے وہ بڑا مالدار ہو گیا۔ جوں جوں اس کی دولت میں اضافہ ہوتا گیا وہ بے صبرا اور مزید لالچی ہوتا گیا۔ اور ایک دن اس نے فیصلہ کیا کہ بطخ کو ذبح کر ڈالے تاکہ سارے انڈے اسے ایک ہی دن مل جائیں ۔ اس نے بطخ کو ذبح کرنے کے بعد اس کا پیٹ چاک کر کے دیکھا تو اس میں سونا تھا ہی نہیں۔ اس کے ہاتھ سے بطخ بھی گئی اور سونا بھی گیا۔
اس قصہ سے سمجھانا یہ مقصود ہے کہ پیداواری صلاحیت (بطخ) کو برقرار رکھنا ضروری ہے تاکہ اس کا بہتر نتیجہ (سونا) حاصل ہو سکے۔ انسان کی بہتر کار کردگی اس حقیقت میں پنہاں ہے کہ پیداواری صلاحیت اور نتائج کے درمیان توازن برقرار رکھا جائے۔ دنیا میں انسان کی مختلف حیثیتیں اور اس پر کئی ذمہ اریاں ہیں۔ ان تمام ذمہ داریوں کے درمیان بہترین توازن کا اہتمام انسان کو سعادت واطمینان کی نوید سنا سکتا ہے۔ انسان تناو کا شکار کیوں ہوتا ہے۔ اکثر اس کی وجہ توازن کی کمی ہے یعنی وہ کسی ایک ذمہ داری کو انجام دینے میں کامیاب ہو جاتا ہے لیکن دوسری ذمہ داری میں ناکام رہتا ہے۔
ایک شخص نے اپنے دوستوں اور پڑوسیوں سے کہا کہ آئندہ سال ایک ملین ڈالر کمانا اس کا ہدف ہے۔ یہ ایک بہترین کاروباری شخص تھا۔ اس نے جسمانی ورزش کے لیے کچھ نئی قسم کی مصنوعات تیار کیں اورانھیں فروخت کرنے کے لیے خوب دورے کیے۔ اپنے سفر میں کبھی کبھی اپنے کسی ایک بیٹے کو بھی ایک ہفتہ کے لیے ساتھ لے کر جاتا۔ اس کی بیوی کو یہ شکایت ہونے لگی کہ بچے سفر سے واپس آتے ہیں تو مزید لاپرواہ ہو جاتے ہیں۔ پڑھائی پر ان کی توجہ برقرار نہیں رہتی۔ سال ختم ہونے تک اس شخص نے ایک ملین ڈالر کا ہدف پورا کر لیا۔ لیکن اس کے کچھ دنوں کے بعد اس نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی۔ اس کے دو بیٹے نشہ آوراشیاء استعمال کرنے لگے۔ تیسرا گھر چھوڑ کر نکل گیا ۔ پھر پلٹ کر نہیں آیا۔ مختصر یہ کہ پورا گھر بکھر گیا۔
عدمِ توازن کی وجہ سے اسے جو نقصان اٹھانا پڑا اس کے مقابلے میں ایک ملین ڈالر کی کوئی حیثیت ہی نہیں ۔ اگر صرف ایک ہی ہدف ہمارے ذہن پر سوار ہو تو ہماری حیثیت اس گھوڑے سے مختلف نہیں ہوتی جس کی دونوں آنکھوں پر پٹی بندھی ہو۔ ہمیں کوئی اور چیز نظر نہیں آتی۔ اور ہمارے اہداف بھی اکثر ایسے ہوتے ہیں جو راستے میں بہت سے اپنوں کو ڈھیر کر چکے ہوتے ہیں گویا : وہ دوست ہو دشمن کو بھی تم مات کرو ہو۔
نہیں کہنا سیکھیں
ہر وقت مصروف رہنے کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ مصروفیت نتیجہ خیز ہی ہوگی۔ ہو سکتا ہے اس مصروفیت کی وجہ سے دوسری ذمہ داریوں کے تقاضے متاثر ہو رہے ہوں۔ ہر وقت ہاں کہنے سے انسان ہنگامی مصروفیات کا عادی ہو جاتا ہے اور دوسری بہت سی بنیادی ضروریات کی تکمیل سے غافل رہتا ہے۔ اور خود کو اس دھوکہ میں مبتلا رکھتا ہے کہ وہ نتیجہ خیز کام کر رہا ہے۔
اپنی ذمہ داریوں کو بھر پور طریقے سے انجام دینے کے لیے ضروری ہے کہ آپ خوش اسلوبی کے ساتھ “نہیں” کہنا سیکھیں۔ ہر صدا پر لبیک کہنے کے بجائے کچھ چیزوں کا انکار آپ کو اس بات کی تربیت دے گا کہ آپ وہ کام کریں جو آپ کرنا چاہتے ہیں نہ کہ وہ جو دوسرے چاہتے ہیں۔ اگر آپ “نہیں” کہتے ہیں تو اس وقت آپ پوری شدت کے ساتھ اپنی مرضی کے کام کو ہاں کہہ رہے ہوتے ہیں اوراپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے خود کو لگاتے ہیں۔ آپ مسکرا کر زندگی اور اس کی ذمہ داریوں کا سامنا کرتے ہیں ۔ اس طرح آپ مستقبل میں اپنا وقت اور اپنی توانائی بہتر کام میں لگاسکتے ہیں۔
اپنی زندگی کا مشن طے کریں
ہماری زندگی کا مشن مختلف ذمہ داریوں کوطئے کرتا ہے۔ مشن وہ ہوتا ہے جس کا سرچشمہ ہمارا ضمیر ہو نہ کہ ہنگامی ضروریات یا رد عمل کے طور پر پیدا ہونے والی کیفیات۔ اپنے مشن سے گہری وابستگی ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو توازن اور فعالیت کے ساتھ ادا کرنا سکھاتی ہے۔ مثلا والدین کو اگر احساس ہو کہ آنے والی نسل کی نشوو نما اور ان کے ارتقاء میں مدد کرنا اور ان کی زندگیوں پر بہترین اثرات چھوڑنا ان کی ذمہ داری ہے تو وہ پوری قوت اور پوری توجہ اس پر صرف کریں گے کہ ان کا کام نئی نسل تک کچھ چیزیں منتقل کرنا نہیں بلکہ ان کے اندر انقلابی تبدیلی برپا کرنا ہے۔
مطلوبہ ذمہ داریوں کی واضح تحدید ہی ہماری ذمہ داریوںمیں توازن کی ضامن بن سکتی ہے۔ اپنے اندرون میں جھانکیں۔ خود سے پوچھیں اور اپنی زندگی کا مشن طئے کریں۔ اس کے بعد اپنی ذمہ داریوں کی بھی تحدید کر سکیں گے۔
عدمِ توازن کے نتیجے میں لوگوں کو تباہ کن مشکلات اور ایسی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو خود ان کے وجود کے لیے تباہ کن ہوتی ہیں۔ اس مرحلے میں ہم اس مشکل سے نکلنے کے لیے کوئی مختصر نسخہ یا عارضی حل تلاش کرتے ہیں لیکن مرض ہے کہ بڑھتا ہی جاتا ہےاور مشکل سے نکلنے کے لیے ہماری بھاگ دوڑ بھی بڑھتی جاتی ہے۔ مختصر نسخہ ممکن ہے کہ وقتی راحت کا سبب بن جائے لیکن مرض کا علاج نہیں کر سکتا۔
اکیسویں صدی میں کامیابی کے سراغ میں نکلنے والوں کے لیے یہ پیغام ہے کہ عارضی نسخہ اس مرض میں کسی بھی صورت کارگر نہیں ہو سکتا ۔ ہنگامی مصروفیات اور ہر کام کو ترجیحی اہمیت کےساتھ قبول کرنے کے مرض سے نجات کے لیے منصوبہ بندی، غورو فکر اور صبر کے ساتھ اقدام کیا جائے تو ہمیں لازماً کامیابی ملےگی۔ البرٹ آئنسٹائن کہتا ہے کہ: ہم جن بڑی مشکلات سے دو چار ہوتے ہیں ان کو حل کرنے کے لیے اتنے ہی درجے کا فکری عمل کارگر نہیں ہو سکتا جن کی وجہ سے یہ مشکلات پیدا ہوئی ہیں۔
بیشترلوگوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ نتائج چاہتے ہیں لیکن ان نتائج کو حاصل کرنے کا طریقہ کیا ہو اس پر غورنہیں کرتے۔ جو انسان یہ چاہتا ہو کہ لوگ اس پر پورا بھروسہ کریں اور اس کے ساتھ احترام سے پیش آئیں وہ دوسروں کے ساتھ نہ تو تکبر کے ساتھ پیش آئے گا اور نہ ہی اپنے معاملات میں شکوک و شبہات اور بے اعتمادی کو جگہ دے گا۔
البرٹ آئنسٹائن کا قول ہے کہ “یہ حماقت ہے کہ آدمی ایک ہی کام کو بار بار ایک ہی طریقے سے انجام دے اور مختلف نتائج کی امید رکھے”۔ یہ حماقت ہی ہے کہ ایک شخص جس کے تعلقات لوگوں سے بہتر نہ ہوں، وہ لوگوں سے مسکرا کر ملنا اور محبت بانٹنا نہ جانتا ہو، جس کا رویہ مثبت نہ ہو وہ یہ توقع کرے کہ لوگوں سے اس کے تعلقات بہتر ہو جائیں گے۔
غور و فکر کی ایک نئی سطح
غورو فکر کا نیا طریقہ انسان کی اندرونی تبدیلی سے شروع ہوتا ہے جس کے مظاہر بیرون میں نظر آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے : حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی (الرعد : 11)۔ جن تباہ کن مشکلات اور بد بختیوں کا سبب ہم دوسروں کو سمجھتے ہیں وہ لمحوں کی پیداوار نہیں ہیں۔ وہ باپ جو یہ سمجھتا ہو کہ اس کی بہت سی تکالیف کا سبب اس کا نو عمر بیٹا ہے، وہ کیسے اس کا رہنما بن سکتا ہے۔ کمپنی کا وہ مینیجر جو یہ سمجھتا ہو کہ اس کی کمپنی کی خراب کارکردگی اس کے ملازمین کی وجہ سے ہے کمپنی کو بہتر طریقے سے کیسے چلا سکتا ہے۔ ہم اپنی اس سوچ کو بدلیں اور خود اپنی ذات سے آغاز کریں۔ اپنے اندر جھانک کر یہ دیکھنا سیکھیں کہ نو عمر بیٹے کی وجہ سے پیدا ہونے والی مشکلات ہمیں اس سے قریب ہونے اور اس کی سوچ کو سننے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔ آپ قریب ہو کر دیکھیں بیٹا اپنے باپ کی بات پر پہلے توجہ دے گا۔ ملازمین اپنے کاموں میں فعال ہو جائیں گے۔ اپنی ذات سے آغاز کریں تو مشکلات کو ایک دوسرے زاویہ سے دیکھ سکیں گے۔ اس بات کا حقیقی بھر پور اعتراف کہ کوتاہی اور کمی دوسروں میں نہیں بلکہ ہماری ذات میں ہے ہمارے کمزور اور جامد تعلقات کو ایسے مضبوط تعلقات میں بدل سکتا ہے جہاں محبت و الفت اور اعتماد اپنی جلوہ سامانیاں دکھاتے ہیں اور مشکلات ختم ہو جاتی ہیں۔
بلندی مطلوب ہے اگر تو اس کی پہلی منزل اپنی ذمہ داریوں کی انجام دہی، اور مشکلات کو حل کرنے کے طریقوں میں توازن کی روش ہے۔ بہتر توازن اطمینان ، خوشی اور قلب و ضمیر کو شادمانی عطا کرتا ہے۔
تیسری شرط: صحیح اصول و اقدار کی آبیاری
آپ کے اندر اصول و اقدار سے والہانہ محبت ہو تو یہ محبت آپ کے وجود کو اقدام و عمل کی حرارت سے مالامال کر ے گی۔ یہ دوسروں کے اندر بھی اقدار سے محبت کا جذبہ پیدا کرے گی۔ اقدار سے محبت نہ ہو تو آپ روح اور زندگی سے خالی صرف ایک ڈھانچہ ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ آپ خود کو اور دوسروں کو بھی اصول و اقدار کی آبیاری کی دعوت دیں۔ یہ وہ برحق اصول و مبادی ہیں جن کی طرف ہمارے سردار پیارے نبیﷺ نے مکہ میں دعوت دی، جن کی طرف طائف کی پہاڑیوں سے آواز لگائی اور جن کی طرف مدینہ میں لوگوں کو پوری قوت، وضاحت اور انکساری کے ساتھ بلایا۔ جب انﷺ کے سامنے ان اصولوں سے سمجھوتہ کی بات کہی گئی تو انہوں نے بآوازِ بلند کہا: اگر وہ میرے دائیں ہاتھ میں سورج اور بائیں ہاتھ میں چاند بھی رکھ دیں اور اس کام کو چھوڑنے کے لیے دباو ڈالیں تب بھی میں اس کام سے نہیں رک سکتا۔
اصول و مبادی محض الفاظ کا نام نہیں ہےکہ لوگوں کے سامنے ہم ان کی جادو گری دکھائیں اور تنہائی میں انھیں پامال کرتے رہیں۔ اصول و مبادی پر تو قوموں کی زندگی اور موت کا انحصار ہوتا ہے۔ یہ انسان کو زندگی عطا کرتے ہیں اور اس کی زندگی کو قیمتی بنا تے ہیں۔ جب قومیں اصول و اقدار کے لیے جیتی ہیں تو انہیں بھرپور اور بامعنی زندگی میسر آتی ہے اور اگر اقدار سے محبت کو پسِ پشت ڈال دیں تو رفتہ رفتہ وہ تباہی کی طرف بڑھنے لگتی ہیں۔
اہم مرحلہ
ہم بچوں کو نظر انداز نہ کریں۔ اقدار کا بیج بونے کے لیے سب سے بڑی زمین بچوں کی دنیا ہے۔ پانچ تا سات سال کی عمرجسے ہم کھیل کود کا مرحلہ سمجھتے ہیں سب سے اہم مرحلہ ہے۔ ہم ذہنوں میں صرف ایسی جزئی معلومات بھرنے سے گریز کریں جن کی کردار سازی اور عملی دنیا میں کوئی تاثیر نہیں ہوتی۔ یہ معلومات اس وقت ذہنوں سے مٹ جاتی ہیں جب عملی زندگی میں کسی اور صورتِ حال کا سامنا ہوتا ہے ۔
اصول و اقدار کا بیج بونے کے چار طریقے
کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ چیخ کر،جبر اور تشدد کے ذریعہ ، دھمکی اور طاقت کے دوسرے طریقوں کا استعمال کر کے کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے حالانکہ ان کا نتیجہ بالکل وقتی ہوتا ہے، یہ رشتوں کو تباہ کرتے ہیں۔ اصول و اقدار مسلط نہیں کیے جاتے بلکہ ان کا بیج بویا جاتا ہے۔ اصول و اقدار کا بیج بونے کے لیے ان چار طریقوں کو ملحوظ رکھیں:
اپنے اندر ان کی آبیاری کریں: اگر آپ کی زندگی میں قدروں کی کھیتی نہ پنپ سکے تو کسی اور زمین پر بھی آپ کی کوشش روح اور منفعت سے خالی ہوگی۔
تدریج: اکثر لوگ ایسے کام کرتے ہیں جن پر انہیں خود اطمینان نہیں ہوتا۔ وہ اندھے کی چال چلتے ہیں۔ ان کی رفتار کو نہ تو اصولوں سے رہنمائی ملتی ہے اور نہ ہی جذبات سے مہمیز۔ لوگوں کی زندگیوں میں غلط قدریں ایک دن رات میں جڑ نہیں پکڑتیں بلکہ بچپن سے ہی ان غلط قدروں کا بیج ان کے اندر پھلتا اور پھولتا ہے۔ان دیرینہ چیزوں کو اکھاڑ پھینکنے میں کچھ وقت لگتا ہے۔ بیک جنبش انہیں ختم نہیں کیا جا سکتا۔
قصےا ورکہانیاں: بہت سی کہانیاں اپنی اندر اصول و اقدار کا سبق رکھتی ہیں اور دلوں پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ دلوں کو موڑنے اور احساس و شعور کو بیدار کرنے میں کہانیاں حیرت انگیز کردار ادا کرتی ہیں۔ کہانیاں اگر انسان کے نفس اور فرد کی شناخت کو مخاطب بنائیں تو بڑی دور رس اور تیز رفتار تبدیلیاں پیدا کرتی ہیں۔ یہ دل و دماغ پر نقش ہو جاتی ہیں۔ اگر کہانیاں عبرت انگریز واقعات سے بھر پور ہوں تو جذبات کو حرکت دیتی اور شوق جگاتی ہیں اور بہت سی اہم باتیں ذہنوں میں منتقل کرتی ہیں۔
عدل : انسانی سماج میں ، ہر سطح پر اور ہر طبقے سے عدل رخصت ہو چکا ہے۔ یہ وہ لفظ ہے جس کے متلاشی بے شمار ہیں۔ یہ وہ زندہ ضمیر ہے جس نے قاضی شریح کو اس بات پر آمادہ کیا تھا کہ وہ زرہ کا فیصلہ ایک عیسائی کے حق میں کریں۔ وہ بھی کس کے مقابلے میں ؟ امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کے مقابلے میں۔ اس فیصلے کے بعد اس عیسائی کے اصول و مبادی کا پیمانہ بدل گیا۔ اس نے عیسائیت چھوڑ کر اسلام قبول کر لیا اور کہا “میں گواہی دیتا ہوں کہ اس جیسے فیصلے انبیائی تعلیمات کے حاملین ہی کر سکتے ہیں۔ امیر المومنین اپنے قاضی کے پاس میرے خلاف مقدمہ پیش کرتے ہیں اور قاضی ان کے خلاف فیصلہ صادر کرتا ہے۔ میں لا إله إلا الله محمد رسول الله کا اقرار کرتا ہوں۔ زندہ ضمیر اور انسانیت سے بھرپور دل سے جب فیصلے صادر ہوتے ہیں تو ایسا ہی عدل سامنے آتا ہے۔
بلندی کو چھو لینے کے لیے بھر پور تیاری ضروری ہے اور ان تین شرطوں کو پورا کر کے ہی بلندی کے سفر کی بھر پور تیاری کی جا سکتی ہے۔
تلاطم خیز موجوں کے درمیان جاری زندگی اور مسافروں کے ہجوم میں مجھے ان صفات سے مالامال انسان کی تلاش ہے۔ ایسے انسان کے لیے میرا مال، میری ملکیت سب کچھ نچھاور ہیں۔ مجھے ایسے انسان سے ملا دو۔ مجھے کسی تصوراتی اور خیالی انسان کی تلاش نہیں ۔ اے کامیاب انسان تو کہاں ہے۔ تم کہاں مل سکو گے؟ تم تک میں کیسے پہونچ سکتا ہوں؟ میں تمھیں دیکھنا چاہتا ہوں، تم سے ملنا چاہتا ہوں۔ سلامتی ہو تم پر ۔
مشمولہ: شمارہ جنوری 2020