اللہ رب العزت، جس نے انسان کو قوت بیان عطا کی ہے، وہ اس نعمت کے بہترین استعمال کے سلسلے میں رہ نمائی بھی فرماتا ہے۔ سورہ احزاب میں زبان وبیان کے حوالے سے کہا گیا ہے یَـٰۤأَیُّهَا ٱلَّذِینَ ءَامَنُوا۟ ٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ وَقُولُوا۟ قَوۡلًا سَدِیدًا [الأحزاب ٧٠]اے ایمان لانے والو، اللہ سے ڈرو اور ٹھیک بات کیا کرو۔
تفسیر ابن کثیر میں قول سدید کی وضاحت یوں کی گئی ہے
’’اور بات بالکل صاف، سیدھی، سچی، اچھی بولا کریں، جب وہ دل میں تقویٰ اور زبان پر سچائی اختیار کرلیں گے تو اس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ انھیں اعمالِ صالحہ کی توفیق دے گا۔ ‘‘
صاحب تفسیر صراط الجنان مفتی ابو صالح محمد قاسم، قول سدید کی تفہیم یوں کرتے ہیں:
’’ایمان والوں کو تقویٰ اختیار کرنے، سچی اور حق بات کہنے کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا کہ تم اللہ تعالیٰ کے حقوق اور اس کے بندوں کے حقوق کی رعایت کرنے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور سچی، درست، حق اور انصاف کی بات کہا کرو اور اپنی زبان اور اپنے کلام کی حفاظت رکھو، یہ سب بھلائیوں کی اصل ہے۔‘‘
قول سدید کی مزید وضاحت کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:
’’اس سے معلوم ہوا کہ زبان ٹھیک رکھنا، جھوٹ، غیبت، چغلی، گالی گلوچ سے اسے بچانا بڑا اہم ہے۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کے بعد زبان سنبھالنے کا خصوصی ذکر کیا ہے ورنہ یہ بھی تقویٰ میں آچکا تھا۔ یاد رہے کہ زبان کی حفاظت تمام بھلائیوں کی اصل ہے۔ اسی لیے دیگر کاموں کے لیے دو عضو ہیں اور بولنے کے لیے ایک زبان اور وہ بھی ہونٹوں کے پھاٹک میں بند اور 32دانتوں کے پہرے میں قید ہے تاکہ یہ بات پیش نظر رہے کہ زبان کو بے قید نہ رکھا جائے۔‘‘
زبان کے بارےمیں حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جب انسان صبح کو جاگتا ہے تو اس کے تمام اعضا صبح کے وقت زبان سے کہتے ہیں: ہمارے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرنا، اگر توٹھیک رہی تو ہم بھی سیدھے رہیں گے اور اگر تو ٹیڑھی ہوگئی تو ہم بھی ٹیڑھے ہوجائیں گے۔ (ترمذی)
امام غزالیؒ فرماتے ہیں:
’’وہی شخص زبان کے شر سے نجات پاتا ہے جو اسے شریعت کی لگام کے ذریعے قابو کرتا ہے اور اسے اسی بات کے لیے استعمال کرتا ہے جو اسے دنیا اور آخرت میں نفع دے۔ انسان کے اعضا میں سے زبان سب سے زیادہ نافرمان ہے کیوں کہ اسے حرکت دینے اور بولنے میں کچھ بھی تکلیف نہیں ہوتی۔ اس کی آفات اور گم راہیوں سے بچنے میں لوگ سستی کرتے ہیں۔ اسی طرح اس کے جالوں اور رسیوں سے بھی نہیں بچتے حالاں کہ انسان کو گم راہ کرنے میں زبان شیطان کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔‘‘ (احیا علوم الدین)
قول سدید کے بارے میں ڈاکٹر اسرار احمدؒ کی رائے یہ ہے:
’’چوں کہ اس سے پہلے کی آیات میں عام گھریلو زندگی کے معاملات سے متعلق ہدایات دی گئی ہیں، چناں چہ اس سیاق و سباق میں اس حکم کا مفہوم یہ ہوگا کہ اپنے گھریلو معاملات میں بھی تم لوگ تقویٰ کی روش اپنائے رکھو اور اپنی زبان کے استعمال میں محتاط رہو۔ یعنی اپنے اہل و عیال کے ساتھ گفتگو میں بھی راست گوئی اور راست بازی کا خیال رکھو۔‘‘
بعض حضرات کی زبان اوروں کے لیے تو میٹھی اور بہترین ہوتی ہے لیکن جب وہ گھر میں بولتے ہیں تو پھولوں کے بجائے منہ سے کانٹے نکلتے ہیں۔
سورہ بقرہ آیت 83 میں کہا گیا ہے ‘‘ وَقُولُوا۟ لِلنَّاسِ حُسۡنًا ’’ لوگوں سے بھلی بات کہنا۔
جلالین میں اس کی وضاحت یوں کی گئی ہے:
’’مالی مدد چوں کہ تمام انسانوں کے ساتھ ممکن نہیں ہے، اس لیے عوام الناس کے ساتھ خوش گفتاری، نرم خوئی، خندہ پیشانی اور شیریں کلامی کا حکم دیا جارہا ہے اور یہ کام نہایت آسان اور سہل ترین ہے، اس میں نہ کچھ خرچ ہوتا ہے اور نہ کوئی زحمت ہوتی ہے۔ یہ ادنیٰ ترین فریضہ انسانیت ہے۔ اس لیے یہ حکم عام ہے۔ عزیز و اقارب یا کسی مخصوص طبقہ کے ساتھ خاص نہیں ہے۔ خوش خلقی سے سب کے ساتھ پیش آتے رہنا خواہ وہ نیک ہو یابد، فاسق ہو یا صالح، ہاں البتہ احتیاط اتنی ضرور رہے کہ اس خوش خلقی و خندہ روئی سے کہیں مخاطب کی بدعت یا بے دینی کی تائید نہ پیدا ہوجائے۔‘‘
اس تفسیر کا ہندوستانی سماج پر انطباق کیا جائے تو ہمیں یہ راہ نمائی ملتی ہے کہ یہاں آباد غیرمسلموں کے ساتھ ہمارا عمومی رویہ خوش خلقی و خوش گفتار کا ہو۔ چاہے واٹس ایپ پیغامات یا سوشل میڈیا پر عام کیے جانے والے شارٹ (مختصر) ویڈیو کلپس کیوں نہ ہوں۔
کیا سچ کڑوا ہوتا ہے؟
سماج میں یہ بات عام ہے کہ سچ کڑوا ہوتا ہے، لیکن فطرت سے قریب ہوتا ہے۔ سچ اسے پسند ہے جس نے بولنے کی صلاحیت عطا کی ہے۔سچ کی تاکید بار بار قرآن کرتا ہے جو ہدایت کا واحد اور آخری منبع ہے۔ وہ جو اخلاق کے سب سے بلند مرتبہ پر فائزہے وہ بھی سچ کا پاسدار تھا۔ کلام میں سب سے افضل کلام سچ ہے۔ پھر سچ یا سچا کلام کیسے کڑوا ہوسکتا ہے۔ لیکن ہاں، یا تو وہ جو سن رہا ہے اس کا دل و دماغ اتنا سخت ہو کہ کلامِ نرم و نازک کا اس پر کوئی اثر نہ ہو۔ یا پھر وہ شخص جو سچائی بیان کر رہا ہو وہ سچائی کو بیان کرنے کے لیے ایسا لب و لہجہ استعمال کرے جس سے مٹھاس نہیں کڑواہٹ زبان سے نکل رہی ہو۔ ایسی صورت میں بہترین پیغام بھی کڑوا بن جاتا ہے۔ ایسا رویہ اختیار کیے ہوئے بعض عام اور خاص افراد بڑے زعم سے کہتے ہیں: میں سچ بولتا ہوں اس لیے لوگوں کو اچھا نہیں لگتا۔ ایسا کہنے والوں کو یہ فن سکھانا ہوگا کہ سچ کو میٹھا بناکر کیسے بولا جائے۔ سیرت کا مطالعہ یہ آرٹ سکھاتا ہے۔ اسلام، سچ کو بحیثیت پالیسی اختیار کرنے کے لیے نہیں کہتا بلکہ سچ عقیدہ کا حصہ ہے۔
honesty is the best policy پر ایمان رکھنے والے، اپنی پالیسیوں کو بدل بھی دیتے ہیں۔ اور جھوٹ کا اتنا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں کہ سچ کا گمان ہونے لگے۔ آج ہمارے ملک کی سوشل میڈیا میں یہی پالیسی حکم رانی کر رہی ہے۔
ہر بات کو بات نہیں کہتے
دکن کے مشہور شاعر سلیمان خطیب نے ’’بات‘‘ پر ایک خوب صورت نظم لکھی ہے:
یہاں چند ایسے اصول یہاں پیش کیے جارہے ہیں جنھیں اختیار کرکے کوئی فرد بھی اپنے کلام کو پھولوں کا باغ بنا سکتا ہے۔ بات کو خیر و ثواب کا ذریعہ بنا سکتا ہے۔ ماہر نفسیات ایرک برن (Eric Berne) نے قول سدید کو complimentary transaction کہا ہے۔ یعنی صاف ستھری، راست، میٹھی اور سچی بات۔ اس انداز گفتگو کے بالمقابل ulteriorاور cross transaction یعنی ذومعنی جملے اور ضربی گفتگو کا تذکرہ ہم نے اس مضمون کی قسطِ اول میں کیا ہے۔ ہمیں، بالخصوص وہ افراد جو دین کی اقامت کے لیے جد و جہد کر رہے ہیں انھیں complimentary transaction کو اختیار ہی نہیں بلکہ اس آرٹ میں مہارت حاصل کرنا چاہیے۔ اس آرٹ کو کیسے حاصل کیا جاسکتا ہے؟ اس سلسلےکی چند قدیم تھیوریز ہیں ان کا ہم یہاں تذکرہ کر رہے ہیں۔ گفتگو یا تبادلۂ خیال کے چار انداز ہوتے ہیں:
- میں صحیح، آپ غلط I am ok you are not ok
- میں غلط، آپ صحیح I am not ok you are ok
- میں بھی غلط، آپ بھی غلط I am not ok you are not ok
- میں بھی صحیح، آپ بھی صحیح I am ok you are ok
یہ چار مختلف کیفیات دراصل نتیجتاً جس طرح کا احساس گفتگو میں ملوث افراد کے اندر پیدا کرتے ہیں وہ بالترتیب یوں ہیں:
- میری جیت۔ تیری ہار win-lose
- میری ہار۔ تیری جیت lose-win
- میں بھی ہارا، تو بھی ہارا lose-lose
- میں بھی جیتا، تو بھی جیتا win-win
آئیے ان چار کیفیات پر قدرے تفصیلی روشنی ڈالیں۔
۱۔ میں صحیح، آپ غلط:
گفتگو کے دوران ایسی کیفیت بیشتر پیش آتی ہے۔ ایک فریق یہ تصور کرتا ہے کہ اس کی بات صحیح ہے۔ اپنی بات کو صحیح گرداننے والے افراد نفسیات کی زبان میں parent ego (پیرنٹ ایگو) کے حاملین ہوتے ہیں۔ احساس برتری بھی ان کے اندر ہوتا ہے۔ اس طرح کے افراد کو خاندانوں، تعلیم گاہوں، کارخانوں، اداروں اور مختلف اجتماعیتوں میں دیکھا جاسکتا ہے۔ جو افراد ہمیشہ خود کو صحیح ثابت کرتے ہیں وہ جمہوری قدروں کے قائل نہیں ہوتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ بس ان کی ہی چلے۔ ایسا رویہ رکھنے والے افراد کی مثالیں ذیل میں پیش کی جا رہی ہیں۔ ان مثالوں کی روشنی میں آپ چاہیں تو اپنا جائزہ لے سکتے ہیں۔ دیکھیں کہ آپ کس زمرے کے افراد میں شامل ہیں۔ اگر آپ کو اپنے رویے کا اداراک ہوجائے تو آپ اس منفی رویے کی اصلاح کی کوشش کرسکتے ہیں۔ لیکن اپنی اصلاح کےبارے میں آپ کے اندر اس بات پر یقین ہونا ضروری ہے کہ آپ اپنے آپ کو بدل سکتے ہیں۔ بعض افراد کا یہ تصور ہوتا ہے کہ وہ اب اپنی شخصیت کو بدل نہیں سکتے۔ ماہرین نفسیات اس تصور کی تردید کرتے ہیں۔ لیکن ہاں یہ عمل بعض لوگوں کے لیے مشکل ہوتا ہے۔ عزم کریں، عمل کریں اور اللہ سے دعا مانگیں، کوشش اور جہد مسلسل سے تقدیر اور رویے دونوں بدل سکتے ہیں۔ آئیے مثالوں کو پڑھیں اور اپنی تصویر اس میں تلاش کریں۔
مثال ۱: تقریباً 25 سال قبل میں ایک کارپوریٹ ہاؤز کے دفتر گیا تھا۔ وہاں ملاقات کے لیے چیئرمین کے دفتر پہنچا۔ چیئرمین نے اپنے آفس کی دیوار پر ایک خوب صورت پوسٹر چسپاں کیا ہوا تھا۔ پوسٹر پر لکھا تھا: ’’میرے مینجمنٹ کا اصول۔‘‘ اس سرخی کےنیچے دو اصول لکھے ہوئے تھے: اصول نمبر ۱ Boss is always right (باس ہمیشہ صحیح ہے) اصول نمبر ۲: Refer rule no. 1 (پہلے اصول کو اختیار کریں)۔ یہ پوسٹر کہہ رہا ہے کہ چیئرمین کی بات کو ماننا پہلا اصول ہے۔ اس کے علاوہ اس کمپنی میں کوئی اور اصول نہیں ہے۔ اگر کوئی اصول نمبر 2 بھی ہے تو بس یہ کہ اصول نمبر 1 کو اختیار کریں۔ جن تجارتی اداروں یا کمپنیوں میں یہ اصول اور رویہ رائج ہوتا ہے وہاں ملازمین کے مشوروں کی اہمیت نہیں ہوتی۔ اور نہ ہی ملازمین کی اختراعی صلاحتیوں سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ ان اصولوں کو اختیار کیے ہوئے سربراہانِ ادارہ جات اس گمان میں رہتے ہیں کہ ان کی شخصیت، ذہانت اور صلاحیتوں کی وجہ سے کمپنی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ وہ اس کی ذرا بھی ضرورت محسوس نہیں کرتے کہ کمپنی کے ملازمین کو بھی مشورہ دینے کا موقع دیا جائے۔و ہ یہ نہیں سوچتے کہ مینجمنٹ میں جمہوری ماحول کو اختیار کیا جائے تو کمپنی مزید ترقی کرسکے گی اور اب جس سطح پر ہے اس سے چند پائیدان اور اوپر کی جانب بڑھے گی۔
مثال نمبر ۲: سماجی و دینی جماعتوں میں بھی ایسی مثالیں کثرت کے ساتھ ملتی ہیں۔ جناب شاہد صاحب (نام بدل دیا گیا ہے) ایک مقام پر دینی ادارے کے صدر ہیں۔ بالعموم دینی اداروں کے صدر دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ اول مال دار اور دوم علماے کرام۔ اس ادارے کے صدر اس مقام کے مال دار صاحب ہیں۔ ادارے میں صرف ان کی ہی چلتی ہے۔ کمیٹی میں عالم دین بھی شامل ہیں لیکن انھیں بھی شاہد صاحب چپ کر دیتے ہیں۔ بلکہ کمیٹی کاہر ممبر ان کی ہاں میں ہاں ملاتا ہے۔ مشورے کے نام پر اپنی رائے کو تھوپا جاتا ہے۔ شاہد صاحب اپنی ہر رائے کی دلیل اپنے تجربے اور مختلف شہروں اور ملکوں کے اسفار سے دیتے ہیں۔ یہ ادارہ چند دن سرگرمیاں انجام دیتا ہے پھر دم توڑ دیتا ہے۔ جن اداروں کے ذمہ دار عالم دین ہوتے ہیں وہاں بھی اکثر فیصلے ’’مولانا‘‘ ہی کرتے ہیں۔ تقدس شورائیت پر غالب آجاتا ہے۔ اس تقدس میں یہ رویہ پروان چڑھتا ہے کہ میں صحیح آپ غلط۔
مثال نمبر ۳: زاہد ایک نوجوان انجینئر ہے۔ اسے دوستوں اور رشتہ داروں نے یہ بتایا کہ بیوی سے ہمیشہ اپنی بات منوانی چاہیے (حالاں کہ ایسا بہت کم ہو رہا ہے) اب وہ ہر معاملہ میں اپنی پسند کو ہی غالب کرنا چاہتا تھا۔ اس نوجوان کے اس رویے کی بڑی تفصیلات ہیں۔ یہاں تک کہ وہ بیوی کے کپڑوں کے انتخاب میں بھی اپنی مرضی کو تھوپتا تھا۔ یہ کیس شہر بنگلور کے ایک مشہور فیملی کونسلر کے پاس آیا۔ انھوں نے کہا کہ زاہد I am ok کی انتہا کو پہنچ گیا تھا۔ ہم نے یہاں مثال ایک مرد کی دی ہے۔ اس لیے کہ مرد اگر اپنی بیوی کو You are ok کی پوزیشن پر لاتا ہے تو وہ اسے اپنی مردانگی کی توہین سمجھتا ہے۔ (تمام مرد نہیں، چند)۔ کئی لڑکیوں کو بھی اپنے میکے سے ایسی تربیت حاصل ہوتی ہے کہ شادی کے بعد I am ok ہی کی پوزیشن اختیار کریں۔ ہمیشہ خود winner بنیں۔ ہر معاملہ میں بس میری ہی چلے۔ شاید I am ok کی انتہائی صفات رکھنے والی خواتین کے لیے چند برسوں پہلے حیدرآباد میں مردوں کی ملبوسات کا ایک شو روم کھلا تھا۔ اس شو روم پر بڑا سائن بورڈ اس تحریر کے ساتھ لگا تھا: ‘‘مردوں کی ملبوسات کا خواتین کے لیے واحد شو روم۔‘‘
ازدواجی زندگی میں اگر win-lose یا میری چلے یا I am ok you are not ok کی کیفیت کو زوجین میں سے کوئی ایک بھی اختیار کرتا ہے تو کبھی ازدواجی زندگی میں تناؤ پیدا ہوجاتا ہے۔ مسرتیں ادھوری رہتی ہیں۔ دل کے ارماں آنسوؤں میں بہہ گئے والی کیفیت بھی آسکتی ہے۔
مثال نمبر ۴: ایک مختصر فیملی میں شوہر اور بیوی دونوں ملازم تھے۔ ان کا اکلوتا بیٹا تھا۔ بیٹا آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا۔ چند مہینوں سے بچے کے برتاؤ میں کافی تبدیلی محسوس کی جارہی تھی۔ امی ابا کا لاڈلا۔ لیکن امی اور ابا سے تقریباً گفتگو کرنا بند کردیا تھا۔ باپ کو تشویش ہوئی۔ بیٹے کو لے کر وہ میرے پاس آئے۔ میں نے چاہا کہ بچے سے اکیلے میں بات کروں۔ باپ نے ابتدا میں تردد کا اظہار کیا۔ بعد میں تیار ہوگئے۔ میں نے بچے سے گفتگو کے دوران اس کی بدلی کیفیت کا راز جاننے کی کوشش کی۔ پہلے دن ناکام رہا۔ دوسرے دن بھی کام یابی ہاتھ نہ لگی البتہ بچہ کھل کر گفتگو کرنے لگا تھا۔ تیسرے دن مرض کا پتا لگ گیا۔ بچے نے ماں اور باپ دونوں کی شکایت کی۔ کہا: ’’انکل میرا اکلوتا ہونا میرے لیے مصیبت بن گیا ہے۔ رات دن ممی اور پاپا بس مجھے اپنی ہی سناتے ہیں۔ صرف نصیحت، نصیحت اور نصیحت ہی کرتے ہیں۔ نہ میری سنتے ہیں اور نہ ہی مجھے کچھ کرنے دیتے ہیں۔‘‘ اس کیس میں مسئلہ والدین تھے۔ بچے کے والدین گفتگو اور عمل کے ذریعے ہمیشہ اس کیفیت میں رہتے ہیں کہ I am ok۔ بچہ اس کیفیت اور رویے سے تنگ آگیا تھا۔ والدین کے رویہ نے اسے ڈپریشن کا مریض بنا دیا تھا۔
جب میں نے بچے کے والدین سے دریافت کیا کہ آپ ایسا رویہ کیوں اختیار کیے ہوئے ہیں۔ ان کا جواب تھا کہ بچہ ابھی کم عمر ہے۔ وہ حالات سے واقف نہیں ہے۔ ان کی تمنا تھی کہ بچہ چوں کہ اکلوتا ہے لہذا وہ ideal son (مثالی فرزند) بنے۔ خواہش جائز ہے لیکن اس کے لیے اختیار کیا گیا راستہ غلط تھا۔ والدین سے کہا گیا کہ آپ روزانہ صبح شام بچے کی بھی سنیں۔ اسے بازار سے کچھ خریدنے کی ذمہ داری دیں۔ جب بچے کو بھی winner بنایا گیا تو بچے کے اندر چھپی صلاحیتیں باہر نکلیں۔ آج وہ بچہ بڑی تجارتی کمپنی کا مالک ہے۔ ماں باپ کی کم زور کمیونیکیشن کی صلاحیت کا بچوں پر منفی اثر پڑتا ہے۔ گھر میں اگر ہم ہمیشہ ’’میں صحیح‘‘ اور تمام غلط کی کیفیت یا رویے کو اختیار کرتے ہیں تو رشتے کم زور پڑ جاتے ہیں۔ بچوں اور دیگر اہل خانہ میں نفسیاتی امراض جنم لینے کا بھی خدشہ ہوتا ہے۔ اس لیے ہمیشہ ’’میں صحیح‘‘ والی پوزیشن سے گریز کریں۔
‘میں صحیح’ پوزیشن اور دعوتی گفتگو
مثال نمبر ۵: تحریکی زندگی میں ہم دعوتی ملاقاتوں کا اہتمام کرتےہیں۔ مسلمانوں سے بھی اور غیرمسلموں سے بھی۔ جن لوگوں سے ملاقات مطلوب ہے ان کے اعتبار سے وفود تشکیل دیے جاتے ہیں۔ ہم نے ایسی مختلف نوعیت کی ملاقاتوں اور وفود میں شرکت کی ہے۔ مرکزی قائدین جن وفود میں ہوتے ہیں ان میں بھی اور مقامی سطح کی ملاقاتوں کے وفود میں بھی میں نے اکثر متکلم کو ’’میں صحیح‘‘ والی پوزیشن میں پایا ہے۔ اگر متکلم اس پوزیشن پر نہیں آتا ہے تو وفد میں شامل دیگر رفقا یہ کہتے ہیں کہ ’’ملاقات غیر موثر رہی‘‘ یا ’’ملاقات ناکام رہی‘‘۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ دوران گفتگو اگر وفد میں شامل کسی رفیق کو یہ احساس ہونے لگتا ہے کہ متکلم (جو وفد کی قیادت کر رہا ہے) وہ مخاطب (جس سے گفتگو ہو رہی ہے) کو زیر نہیں کر پا رہا ہے، یعنی مخاطب کو یہ احساس نہیں دلایا جارہا ہے کہ ہم صحیح اور آپ غلط ہیں، یا ہم جیتے اور تم ہارے، تو جب ایسی کیفیت پیدا ہوتی ہے تو وہ رفیق فوری گفتگو میں کود پڑتے ہیں اور مخاطب بے چارے کو شکست دینے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ کمیونیکیشن کے اصولوں کے مطابق ’’میں جیتا، آپ ہارے‘‘ کی کیفیت میں رابطہ ٹوٹ جاتا ہے۔ ہمارے قائدین کی ایسی روش نہیں رہی ہے۔ مولانا سراج الحسن صاحب مرحوم، سابق امیر جماعت اسلامی ہند کی ملاقاتوں کو معیاری تصور کیا جاتا ہے۔ مولانا کے ساتھ چند ملاقاتوں میں مجھے بھی شرکت کا موقع ملا تھا۔ آپ کے انداز میں کبھی ‘‘‘میں جیتا‘‘ والی کیفیت نہیں ہوتی تھی۔ دعوتی گفتگو کے لیے ہم درج ذیل آیت سے راہ نمائی حاصل کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ٱدۡعُ إِلَىٰ سَبِیلِ رَبِّكَ بِٱلۡحِكۡمَةِ وَٱلۡمَوۡعِظَةِ ٱلۡحَسَنَةِۖ وَجَـٰدِلۡهُم بِٱلَّتِی هِیَ أَحۡسَنُ [النحل ١٢٥]
’’اے نبی ﷺ، اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقہ پر جو بہترین ہو۔ ’’
مولانا مودودی ؒ اس آیت کی وضاحت یوں کرتے ہیں:
’’دعوت میں دو چیزیں ملحوظ رہنی چاہئیں۔ ایک حکمت دوسرے عمدہ نصیحت۔ حکمت کا مطلب یہ ہے کہ بیوقوفوں کی طرح اندھادھند تبلیغ نہ کی جائے، بلکہ دانائی کے ساتھ مخاطب کی ذہنیت، استعداد اور حالات کو سمجھ کر، نیز موقع و محل کو دیکھ کر بات کی جائے۔ ہر طرح کے لوگوں کو ایک لکڑی سے ہانکا جانا صحیح نہیں۔ جس شخص یا گروہ سے سابقہ پیش آئے، پہلے اس کے مرض کی تشخیص کی جائے پھر اس کا علاج کیا جائے۔‘‘
مولانا مزید لکھتے ہیں:
’’عمدہ نصیحت کے دو مطلب ہیں ایک یہ کہ مخاطب کو صرف دلائل ہی سے مطمئن کرنے پر اکتفا نہ کیا جائے بلکہ اس کے جذبات کو بھی اپیل کیا جائے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ نصیحت ایسے طریقے سے کی جائے جس سے دل سوزی اور خیرخواہی ٹپکتی ہو۔ مخاطب یہ نہ سمجھے کہ ناصح اسے حقیر سمجھ رہا ہے اور اپنی بلندی کے احساس سے لذت لے رہا ہے۔ یعنی اس کی نوعیت محض مناظرہ بازی اور عقلی کشتی اور ذہنی دنگل کی نہ ہو۔‘‘
مولانا مودودیؒ فرماتے ہیں کہ ملاقاتوں کے دوران عقلی کشتی یا دنگل نہ ہو۔ عملی دنیا میں ہم اکثر عقلی کشتی ہی کرتے ہیں۔ ملاقاتوں کے بعد کے جائزے میں یہی معیار ہوتا ہے۔ ہم نے پیمانہ یہی طے کرلیا ہے کہ مخاطب کو شکست ہو۔ اگر چوک ہوجاتی ہے تو جو وفد میں شامل تھے وہ بعد میں مشورے دینے لگتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ان کے فلاں سوال کا فلاں جواب دیا جاتا تو بہتر ہوتا۔ اور جواب جو ہوتا ہے وہ جیت کی نفسیات پیدا کرنے والا ہوتا ہے۔ یعنی ’’ہم جیتیں اور مخاطب ہارے‘‘۔ اس طرح کے رویوں سے رابطہ بہتر نہیں ہوتا بلکہ کم زور پڑ جاتا ہے۔ اس رویے کے ساتھ گفتگو میں مزید نقصانات ہیں جن کی تفصیل اگلے مضمون میں تحریر کی جائے گی۔
البتہ آخر میں یہ وضاحت ضروری ہے کہ دعوتی گفتگو میں جیت داعی اور مد عو دونوں کی ہوجائے ، سے مراد یہ نہیں ہے کہ اپنی دعوت بھرپور طریقے سے تمام تر دلائل کے ساتھ پیش نہ کی جائے اور مدعو کے ساتھ مذہبی مداہنت کا رویہ اختیار کیا جائے۔ بلکہ مراد یہ ہے کہ اس دعوت میں مدعو اپنی ہار نہیں دیکھے بلکہ اس میں اسےاپنی زندگی کی فتح عظیم نظر آئے۔ اس کے لیے مقابلہ آرائی کے بجائے خیرخواہی اور تواضع وانکسار کی ضرورت پڑتی ہے۔امام شافعی جب کسی مباحثےمیں جاتے تو دعا کرتے جاتے کہ اللہ حق کو مخاطب کی زبان سے ادا کرادے۔ (جاری)
مشمولہ: شمارہ اپریل 2021