آزاد ہندوستان میں علمی احیاء کی تحریک

(ادارہ ٔ تحقیق وتصنیف ِاسلامی، علی گڑھ کے حوالے سے)

مسلمانوں کاعلمی،تحقیقی اورثقافتی سرمایہ اتنا شان دار رہاہے کہ دنیا کی کوئی قوم ان کی ہم سری نہیں کر سکتی۔ تاریخ گواہ ہے کہ اسلام نے اپنے پیروکاروں کو تعلیم اور تحقیق کادرس دیا ہے۔ تعلیم کے بغیرکوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی، جہاں مسلمانوں کا مذہبی وفکری زوال ہوا، وہیں ان کا علمی زوال بھی ہوااور دیگر قوموں کے مقابلے وہ تحقیق و تصنیف کے میدان میں پیچھے گئے۔

ہندوستان کی آزادی کے بعد مسلمانوں میں تعلیمی بیداری آئی ، لیکن اس کی رفتار ہلکی رہی اب بھی مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ ناخواندہ ہے۔مختلف سرکاری اور غیر سرکاری اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ انجینئرنگ ،  کالجز،میڈیکل کالجز ،انڈسٹریل ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ اورپولی ٹیکنیک وغیرہ اداروںمیںمسلمانوں کا تناسب کم ہے ۔ Census 2011مردم شماری کی رپورٹ کے مطابق 42.7%مسلمان ناخواندہ ہیں،جس میں مرد وںکا تناسب37.59% اور خواتین کا تناسب 48.1%ہے۔(1 (

مسلمانوں کے تعلیمی زوال کے مختلف اسباب رہے ہیں،جس میں ملکی تقسیم ، محض روایتی تعلیم ،آپسی مسلکی اختلافات اور حکومت کی بے اعتنائی کے ساتھ معاشی،سماجی ،فکری مسائل بھی شامل ہیں۔ ہندوستا ن کی آزادی کے بعد ملک میں  علمی تحریکیں اٹھیں ،جس کے نتیجے میں یہاں مختلف علمی وتحقیقی مدارس ، مراکزاورادارے قائم کیے گئے ، جو مسلمانوں کی تعلیمی اور تحقیقی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ بنیادی طور پر دو طرح کے ادارے کام کر رہے ہیں۔

(1)مدارس

ہندوستان میں مختلف مکاتب فکر کے مدارس موجود ہیں۔ان میں قدیم وجدید دونوں طرح کے مدارس شامل ہیں ، ان میں نصاب اور نظام تعلیم کی سطح پر اختلاف ہو سکتا ہے۔شمالی ہند کے مشہور مدارس یہ ہیں: دارالعلوم دیوبند (1866ء) (دیوبند،یوپی)،دارالعلوم ندوۃ العلماء (1892ء) (لکھنؤ،یوپی)، جامعۃالاصلاح(1908ء)(سرائے میر،اعظم گڑھ،یوپی) ، جامعۃالفلاح (1962ء) (بلریاگنج،اعظم گڑھ،یوپی)، الجامعۃ الاشرفیہ (1972ء) (مبارک پور،اعظم گڑھ)،جامعہ اسلامیہ سنابل(1980ء)(نئی دہلی) ۔اس وقت برصغیر ہند میں ایک محتاط اندازے کے مطابق ایک لاکھ سے زائد مدارس موجود ہیں۔(2)

(2)ادارے

بیسویں صدی کا آغاز برصغیر کی اقوام میں علمی وتحقیقی اور سیاسی بے داری سے ہوا،جس کے نتیجے میں متعدد تعلیمی،علمی اور تحقیقی ادارے وجود میں آئے۔ان میں بعض ایسے تھے جو آزادی سے کچھ پہلے قائم ہوئے ،لیکن ان کے اثرات آزادی کے بعد زیادہ مرتب ہوئے اور بعض ایسے تھے جو آزادی کے بعد وجود میں آئے۔ان میں ندوۃ المصنفین(1937-38)، علامہ شبلی نعمانی کا قائم کردہ دارالمصنفین (1914ء)اعظم گڑھ، یوپی، اور انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز دہلی(1986ء) اہم ہیں۔ تحقیقی اداروں میں سے ایک ادارہ’ادارۂ تحقیق و تصنیفِ اسلامی،علی گڑھ،یوپی ،ہے،جس نے علم و تحقیق کے میدان میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔

ادارہ ٔتحقیق و تصنیف ِاسلامی کا تعارف

اس ادارے کا شمار ہندوستان کے مشہور و معروف علمی وتحقیقی  اداروں میں ہوتا ہے۔فی الوقت یہ علی گڑھ کے محلہ ’نبی نگر‘ میں  5 ہزار مربع گز زمین پر واقع ہے۔اس کا قیام جماعت اسلامی ہند کی تشکیل کے فوراً بعد (1949ء ) میں’شعبہ تصنیف‘ کے نام سے رام پور،یوپی میں عمل میں آیا۔جون 1955ء میں اسے ’ادارہ تصنیف جماعت اسلامی ہند‘ کے نام سے موسوم کیا گیا۔1970ء میںیہ پان والی کوٹھی ، دودھ پور،علی گڑھ،  میں منتقل ہوا۔ 1981ء میں اسے ایک آزاد ادارے کی حیثیت ملی اور اسے ’ادارہ ٔتحقیق و تصنیفِ اسلامی‘ کے نام سے سوسائٹی ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ کرایا گیا۔اس وقت سے اب تک مسلسل یہ اپنی علمی و تحقیقی خدمات انجام دے رہا ہے۔ مولاناسید جلال الدین عمری لکھتے ہیں:

’’اس ادارے کو ایک آزاد اور مستقل ادارے کی شکل دینے اور اس کے دائرہ کار کو وسیع کرنے کی خواہش اور ضرورت کے پیش نظر جماعت اسلامی ہند کی مجلس شوریٰ نے دسمبر1980ء میں ایک اہم فیصلہ کیا۔اس کے بعد ذمہ دار افراد کی ایک نشست میں اس کی نئی صورت گری کا فیصلہ ہوا ،دستور مرتب ہوا اور اس کے اساسی ارکان طے پائے۔غور وفکر اور بحث و تمحیص کے بعد اس کا نام ’ادارہ ٔتحقیق و تصنیفِ اسلامی‘ طے پایا۔‘‘(3)

اغراض ومقاصد

ادارہ ٔتحقیق و تصنیف ِ اسلامی کا قیام عالم اسلام کی علمی و فکری  رہ نمائی  کے لیے کیا گیاہے۔ اس کے مقاصد درج ذیل ہیں:

(1)دورِ جدید کے تقاضوں کے مطابق کتابیں تیار کرانا اور انہیں شائع کرانے کا نظم کرانا۔

(2) جدید موضوعات پر دیگرزبانوںمیں موجود اہم کتابوں کا اردو،عربی،انگریزی اور ہندی زبانوں میں ترجمہ کرانا۔

(3)ایسے نوجوانوں کی ذہنی اور تصنیفی تربیت کرنا جو قدیم و جدید تعلیم سے سند یافتہ ہوں تاکہ تحقیقی کاموں کے لیے انہیں تیار کیا جا سکے۔

(4)مختلف موضوعات پر اردو،عربی،انگریزی زبان میں رسائل و مجلات کا اجراء کرنا۔

خدمات

ادارہ ٔتحقیق وتصنیف اسلامی کی خدمات کو چارحصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:

(الف)تصنیف وتالیف

ادارہ ٔتحقیق و تصنیف ِ اسلامی نے آغاز  ہی سے اسلام اور مسلمانوں کے لیے علمی و تحقیقی خدمات انجام دیںجن کو کبھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔اس ادارے نے جہاں اسلام اور اس کے احکام کے بارے میں پائی جانی والی غلط فہمیوں کا ازالہ کرنے کی کوشش ۔  وہیں دوسری طرف اس نے غیروں کی طرف سے اسلامی افکارونظریات پر ہونے والی تنقید کا عقلی ،ٹھوس اور مدلل جواب دیا۔  دنیا کے سامنے اسلام کی صحیح تصویر پیش کی ۔خاص کر مستشرقین کی جانب سے اسلامی تعلیمات اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس پر کی گئی  تنقیدوں کوہدف بنایا۔  دلائل سے انہیں غلط ثابت کیا ۔ اس نے جدید دور میں عوام الناس کے ذہنوں میں اٹھنے والے اشکالات اور سوالات کا قرآن و سنت کی روشنی میں معقول جواب دینے کی کو شش کی ۔

ادارہ ٔتحقیق و تصنیف ِ اسلامی نے درج بالااغراض ومقاصد کے حصول کے لیے موضوعات کا تعین کیا اوراپنے طے شدہ منصوبے کے تحت علمی دنیا کے مشہور و معروف مصنفین اور محققین کے ذریعے تحقیقی کتابیں تیار کرائیں۔ان میں سے چند کا تعارف یہاں پیش کیا جارہا ہے۔

(1)مولانا صدرالدین اصلاحی(1916ء-1998ء)

مولانا صدر الدین اصلاحی سیدھا سلطان پور،سرائے میر، اعظم گڑھ،یوپی کے رہنے والے تھے ۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی وطن میں ہی حاصل کی اورپھرثانوی تعلیم کے لیے مڈل اسکول ، بلریاگنج،اعظم گڑھ،یوپی میں داخلہ لیا۔پھر وہ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے مدرسۃ الاصلاح،سرائے میر ، اعظم گڑھ پہنچے اور 1937ء میں یہیں سے فضیلت کی سند لی۔شروع سے ہی انہیں تحریر و تصنیف کا شوق تھا،چناں چہ زمانۂ طالب علمی میں ہی انہوں نے اس کا آغاز کر دیا تھا۔

1949ء میں مرکز جماعت اسلامی ہند نے مولانا صدرالدین اصلاحی کو’شعبہ تصنیف‘ کا پہلا صدر بنایا اور انہیں تحقیق و تصنیف کی ذمہ داری پہلے ملیح آباد میں اور پھر رام پور میں سپرد کی، دیگر لٹریچر کی تیاری کے ساتھ اپنے ہم وطن بھائیوں کے ذہنوں کے مطابق قرآن کریم کا ترجمہ اور تفسیر لکھنا بھی آپ کے منصوبے میں شامل تھا۔1960ء میں  مرکز جماعت اسلامی ہند دہلی منتقل ہوا ۔لیکن یہ شعبہ رام پور میں ہی رہا تومولانا صدرالدین اصلاحی بھی وہیں مقیم رہے پھر 1970ء میں ادارہ کے ساتھ علی گڑھ منتقل  ہوگئے۔جب تک مولانا کی صحت نے ان کا ساتھ دیا وہ ادارہ سے وابستہ رہے،حتیٰ کہ 1984ء میں بیماری اور ضعف کی وجہ سے اس سے سبکدوش ہوئے۔

مولانا کی مشہور و معروف کتاب ’معرکۂ اسلام اور جاہلیت‘ ادارہ تحقیق وتصنیف اسلامی سے 1983ء میں شائع ہوئی اور ’تلخیص تفہیم القرآن‘ کی اشاعت مرکزی مکتبہ اسلامی ،نئی دہلی سے ہوئی تھی۔

(2)مولانا سید جلال الدین عمری(پ1935ء)

مولانا سید جلال الدین عمری 1935ء میں پیدا ہوئے۔اللہ تعالیٰ نے انہیں علمی اور تنظیمی دونوں صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ وہ ایک طرف علمی میدان میں ملک وبیرون ملک میں مشہور ہوئے،وہیں دوسری طرف مختلف ملکی وملی اداروں کے بڑے عہدوں پر فائز رہے ہیں۔وہ بر صغیر کی دینی تنظیموں کے متحدہ پلیٹ فارم آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے بنیادی رکن ہیں اورطویل عرصہ سے جماعت اسلامی ہند کی مجلس نمائندگان اور مجلس شوریٰ کے رکن رہے ہیں۔1990ء سے مسلسل 17 سال تک جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر رہے اور اپریل2007ء سے جماعت کے امیر ہیں۔

مولانا عمری مسلمانانِ ہند کے ادارہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے نائب صدر، شمالی ہند کی مشہور درس گاہ جامعۃ الفلاح ،بلریا گنج ، اعظم گڑھ کے شیخ الجامعہ،سراج العلوم نسواں کالج ،علی گڑھ کے منیجنگ ڈائریکٹراور مشہور علمی و تحقیقی ادارے ادارۂ تحقیق و تصنیف اسلامی کے صدر ہیں۔اس ادارے سے ان کا تعلق آغاز سے ہی رہا ہے۔ مجلہ ’تحقیقات اسلامی‘  میںدرج ہے:

’’مولانا صدرالدین اصلاحی ادارہ تحقیق کے پہلے صدر تھے،جب کہ مولاناسید جلال الدین عمری شروع میں ادارہ تحقیق و تصنیف کے سکریٹری رہے اور اکتوبر2006ء میں صدر ہوئے۔ نومبر 2001ء سے ڈاکٹر فضل الرحمن فریدی ادارہ کے سکریٹری ہیں،جب کہ ڈاکٹر صفدر سلطان اصلاحی کوان کا معاون مقرر کیا گیا ہے۔‘‘(4)

مولانا عمری نے علومِ اسلامیہ کے بہت سے گوشوں پر مضامین اور کتابیں تصنیف کی ہیں ،البتہ ان کے خصوصی موضوعات قرآنیات، عقائد،دعوت ، معاشرت ،انسانی حقوق اور سیاسی اور عصری مسائل  ہیں۔ ان کی درج ذیل تصانیف اہم ہیں۔

غیر مسلموں سے تعلقات اور ان کے حقوق،اسلام انسانی حقوق کا پاسبان،غیر اسلامی ریاست اور مسلمان،کم زور اور مظلوم اسلام کے سایہ میں،صحت ومرض اور اسلامی تعلیمات،خدا اور رسول کا تصور اسلامی تعلیمات میں،معروف ومنکر،اسلام کی دعوت، عورت اسلامی معاشرے میں،مسلمان عورت کے حقوق اور ان پر اعتراضات کا جائزہ،عورت اور اسلام،مسلمان خواتین کی ذمہ داریاں،اسلام کا عائلی نظام،انسان اور اس کے مسائل،اسلام اور مشکلاتِ حیات،اسلام میں خدمت خلق کا تصور،تحقیقات اسلامی کے فقہی مباحث،تجلیات قرآن،ملک و ملت کے نازک مسائل اور ہماری ذمہ داریاں،سوئے حرم چلا،اسلام اور وحدت بنی آدم اور انفاق فی سبیل اللہ ۔

مولانا جلال الدین عمری نے اپنے مضامین اور تصانیف کے ذریعہ موجودہ دور میں درپیش نئے مسائل کو قرآن وسنت اور فقہ کی روشنی میں حل کرنے کی بہترین کو شش کی ہے۔وہ اپنی تحریروں میں قدماء کے ماخذ  کے ساتھ ساتھ عقلی دلائل بھی پیش کرتے ہیں کہ قارئین کے ذہنوں میں کوئی تشنگی نہ رہ جائے ۔ انہوں نے ثانوی ماخذ کے بجائے اصل مصادر ومراجع  سے کام لیا ہے۔مزید یہ کہ ان کی تحریریں تاثرات پر مشتمل نہیں ہوتیں ،بلکہ وہ اگر اپنی کوئی رائے پیش کرتے ہیں تو قدیم مفسرین ، محدثین اور فقہاء کی آراء بھی بطور دلیل پیش کرتے ہیں۔

مولانا عمری کے افکار ونظریات میں وسعت پائی جاتی ہے۔وہ کسی مخصوص مسلک کی پابندی نہیں کرتے  ،بلکہ عموماً فقہ کے چاروں مکاتب کے تحت کسی مسئلے کا جائزہ لیتے ہوئے ان کی آراء ودلائل نقل کرتے ہیں اور ترجیح مضبوط رائے کو دیتے ہیں۔

(3)مولانا سلطان احمد اصلاحی (2016ء-1953ء)

مولانا سلطان احمد اصلاحی کا شمار جدید دور کے مشہور عالموں اور مصنفوں میں ہوتا ہے۔ان کی پیدائش 1953ء میں ہوئی۔انہوں نے ابتدائی تعلیم بھاٹن پارہ،اعظم گڑھ سے حاصل کی اور اس کے بعد مزید تعلیم کے لیے مدرسہ الاصلاح،سرائے میر،اعظم گڑھ تشریف لے گئے،جہاں سے 1971ء میں فضیلت کی سند حاصل کی۔ان کو ابتداء سے ہی تصنیف وتالیف کا شوق تھا اور اسی کشش نے انہیں’ ادارہ تحقیق و تصنیف‘ آنے پر مجبور کر دیا۔وہ اس ادارے سے کب وابستہ ہوئے؟اس پر ڈاکٹر محمدرضی الاسلام ندوی لکھتے ہیں:

’’مولانا سلطان احمد اصلاحی کے بیان کے مطابق انہوں نے ادارہ تصنیف 31/جولائی 1972ء کو جوائن کیا،جب کہ ان کی سبکدوشی 10/جنوری 2008ء میں ہوئی۔اس طرح ادارہ سے ان کی وابستگی کی مدت پینتیس برس،پانچ ماہ،دس دن قرار پاتی ہے۔‘‘ (5)

مولانا سلطان احمد اصلاحی نے ادارہ تحقیق وتصنیف کے تحت طویل علمی سفر طے کیااور نئے نئے عصری موضوعات کا انتخاب کرتے ہوئے قلم سے خوب دادِ تحقیق دی۔ان کے آغاز مضامین  ماہ نامہ زندگی نو اور سہ ماہی تحقیقات اسلامی وغیرہ میں شائع ہوتے رہے  اور بعد میں انہیں کتابی شکل  دی گئی۔ان کے علاوہ آپ کی مستقل تصانیف بھی ہیں جوادارہ ٔتحقیق وتصنیف کے منصوبہ کے تحت منظرعام پر آئیں۔وہ درج ذیل ہیں:

مومنانہ زندگی کے اوصاف،اسلام کا تصور مساوات،مذہب کا اسلامی تصور،مشترکہ خاندانی نظام اور اسلام،اسلام اور آزادیٔ فکر وعمل،بچوں کی مزدوری اور اسلام،بندھوا مزدوری اور اسلام،اسلام-ایک نجات دہندہ تحریک،عصر حاضر کا سماجی انتشار اور اسلام کی رہ نمائی اور عصر حاضر کی نفسیاتی الجھنیں اور ان کا اسلامی حل ۔

 ڈاکٹرمحمدرضی الاسلام ندوی (پ 1964ء)

ڈاکٹرمحمدرضی الاسلام ندوی ہندوستان کے مشہور ومعروف مصنف اور محقق ہیں۔ان کی پیدائش 27، مئی1964ء میں صوبہ اتر پردیش کے ضلع بہرائچ کے موضع راجہ پور، بلبل نواز میں ہوئی تھی۔ والد کا نام محمد شفیع خاں تھا۔انہوں نے  ابتدائی تعلیم اپنے آبائی وطن ضلع بہرائچ، اتر پردیش میں حاصل کی اور ثانوی تعلیم کے لیے مرکزی درس گاہ رام پور،یوپی تشریف لے گئے۔ اعلیٰ تعلیم کے لیے انھوں نے1975ء میں بر صغیر کی عظیم دانش گاہ دار العلوم ندوۃ العلماء ،لکھنؤ کا رخ کیاجہاں سے 1981ء میں عالمیت اور 1983ء میں فضیلت کی اسناد حاصل کیں۔1989ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی  کے اجمل  خاں طبیہ کالج سے BUMS اور1993ء میں MDکی ڈگریاں حاصل کیں۔ اس طرح سے انہوں نے قدیم اور جدید دونوں طرز کی تعلیم حاصل کی ۔ اس وقت وہ جماعت اسلامی ہندکے شعبۂ تصنیفی اکیڈمی کے سکریٹری اور ہندوستان کے معروف علمی و تحقیقی سہ ماہی مجلہ ’تحقیقات اسلامی‘ کے مدیر معاون ہیں۔

مولانامحمد رضی الاسلام ندوی کو تحقیق و تصنیف کا ذوق قدرت کی طرف سے ملا ۔وہ تقریباًربع صدی سے تصنیف و تالیف کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔اس دوران انہوں نے مختلف قومی و بین الاقوامی سمیناروں اور مذاکروں میں شرکت کی ہے ۔ملک وبیرون ملک کے معیاری رسائل و جرائد میں ان کے علمی و تحقیقی مضامین اور عربی مضامین کے معیاری ترجمے شائع ہوتے رہے ہیں۔موصوف کی اب تک کئی کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں، جن میں تالیفات کے علاوہ  تراجم بھی شامل ہیں۔قرآنیات اور سماجیات ان کی دل چسپی کے خاص موضوعات ہیں۔

ڈاکٹرمحمد رضی الاسلام ندوی ہندوستان کے مشہورتحقیقی ادارے ’ادارۂ تحقیق و تصنیف اسلامی‘،علی گڑھ سے طویل مدت (1994ء تا 2011ء) تک وابستہ رہے ہیں۔اس دوران ان کی درج ذیل تالیفات ادارہ کے تحت شائع ہوئی ہیں۔

قرآن ،اہل کتاب اور مسلمان،حضرت ابراہیم علیہ السلام-امام انسانیت،حقائقِ اسلام-بعض اعتراضات کا جائزہ،کفر اور کافر قرآن کی روشنی میں،اہلِ مذاہب کو قرآن کی دعوت،انبیاء کرام کی دعوت ، گھریلو تشدد اور اسلام اور اکیسویں صدی کے سماجی مسائل اور اسلام ۔

(4)مولانا محمد جرجیس کریمی(پ 1972ء)

مولانا محمد جرجیس کریمی بھی ادارہ تحقیق و تصنیف اسلامی کے رفیق ہیں انہوں نے فیض عالم مئو سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہے۔اس کے بعد 1990ء میں وہ ادارۂ تحقیق و تصنیف اسلامی آگئے جہاں دو برس تصنیفی تربیت پائی۔اس کے بعد ہی وہ ادارہ سے بحیثیت رکن وابستہ ہو گئے۔ انہوں نے مختلف موضوعات کے تحت کتابیں تصنیف کی ہیں جن کی فہرست یہ ہے۔

جرائم اور اسلام(انسداد کی تدابیر اور علاج)،مسلمان کی حقیقی تصویر(غلط فہمیوں کا ازالہ)،اسلام کی امتیازی خصوصیات،توحید اور عدل کا قیام،اتحاد امت کا مسئلہ اور اسلام کی امتیازی خصوصیات ۔موصوف کی دو کتابیں،قرآن اور مستشرقین ،تفہیماتِ قرآن دوسرے اداروں سے شائع ہوئی ہیں۔

ادارۂ تحقیق و تصنیف اسلامی اپنے مقصد کے حصول میں صرف اپنے کارکنوں کی خدمات تک ہی محدود نہیں رہا،بلکہ اس نے غیر رسمی طور پر ان لوگوں کی تحریروں کو بھی اپنے یہاں جگہ دی جو اس کے مقاصد سے ہم آہنگ ہوں۔اسی سلسلے کی ایک کڑی بعض ایسی تصانیف شائع کرنا ہے جن کے مصنفین اس ادارے سے رسمی وابستگی نہیں رکھتے ،مثال کے طور پر:

عہدِ نبوی کا نظام حکومت(پروفیسر محمد یٰسین مظہر صدیقی)،عہدِ نبوی کے غزوات و سرایا(ڈاکٹر رؤفہ اقبال)،تصوف-ایک تجزیاتی مطالعہ(پروفیسر عبیداللہ فراہی)،ایمان و عمل کا قرآنی تصور(پروفیسر الطاف احمد اعظمی)،شیئر زبازار میں سرمایہ کاری (ڈاکٹر عبدالعظیم اصلاحی)

(ب)تصنیفی تربیت

ادارۂ تحقیق و تصنیف اسلامی کا ایک بڑا اور اہم کارنامہ یہ ہے کہ وہ اپنے یہاں ایسے افراد تیار کرتا ہے جو اسلامی علوم میں تحقیق و تصنیف کی خدمات انجام دے سکیں اور جدید دور میں اسلام اور اس کی تعلیمات کی صحیح ترجمانی کر سکیں۔ اس میں فارغینِ مدارس اورکالج اور یونی ورسٹی کے سند یافتہ افراد کو داخلہ دیا جاتا ہے،جن کے قیام اور اسکالر شپ کی سہولت بھی یہاں موجود ہے۔مولانا سید جلال الدین عمری اس پر رقم طراز ہیں:

’’ادارۂ تحقیق و تصنیف نے ایک خاص رخ سے جدید و قدیم تعلیم یافتہ نوجوانوں کے لیے اسلام پر تحقیق و تصنیف کی تربیت کا نظم کیا ہے۔اس نظم کے تحت ہر سال باصلاحیت طالب علموں کا انتخاب کیا جاتا ہے اور انہیں ادارہ میں ہی رکھ کر دو سال تک تحقیق وتصنیف کی تربیت دی جاتی ہے…اگر یہ کام ٹھیک سے چل پڑے تو امید ہے کہ آہستہ آہستہ امت کو اسلام کے بہترین ترجمان فراہم ہوتے رہیں گے۔‘‘ (6)

ادارہ نے تصنیفی تربیت کے لیے دو سالہ کورس متعین کیا ہے۔سال اول میں اسلامی علوم-تفسیر ، حدیث،فقہ اور تاریخ وغیرہ کے بنیادی مصادر کا تفصیلی مطالعہ کرایا جاتا ہے اور سماجی علوم- معاشیات ، سیاسیات،نفسیات اور تاریخ  بطور اختیاری مضامین رکھے گئے ہیں۔طلبہ سے اسی دوران مختلف موضوعا ت پر مضامین لکھائے جاتے ہیں کہ ان کی تحریری صلاحیتوں کو جلا ملے اور سالِ آخر میں انہیں کسی متعین موضوع پر مبسوط تحقیقی مقالہ تحریر کرنا ہوتا ہے۔

ادارہ تحقیق وتصنیف اسلامی کا دو سالہ کورس یقیناً اپنے مقصد میں کام یاب رہا اور اس کے مثبت نتائج سامنے آئے۔ یہاں کے فارغین کی ایک بڑی تعداد ملک وبیرون ملک کی علمی وتحقیقی دنیا میں نمایاں مقام حاصل کر چکی ہے۔ بعض مشہور افرادکے اسماء گرامی اور مصروفیات درج ذیل ہیں :

مولانا سلطان احمد اصلاحی،مرحوم،(مدیر،رسالہ علم وادب،علی گڑھ)ڈاکٹر اسرار احمد خاں(پروفیسر انٹرنیشنل اسلامک یونی ورسٹی، ملیشیا)، ڈاکٹر محمدسعود عالم قاسمی(پروفیسر و ڈین فیکلٹی دینیات،علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی،علی گڑھ)،ڈاکٹر حمید نسیم رفیع آبادی (پروفیسر شعبہ اسلامیات،کشمیر یونیورسٹی)،ڈاکٹر محمد شہاب الدین قاسمی(پروجیکٹ فیلو،شعبۂ اردو، علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی،علی گڑھ)،سید جاوید علی (رائٹر اینڈ نیوز ایڈیٹر،ریڈیو اینڈ ٹیلی ویڑن،نئی دہلی)۔

(ج)تراجم

ادارہ ٔ تحقیق و تصنیف اسلامی نے  نہ صرف یہ کہ اسلام کے تعارف اور متعلقہ جدید موضوعات پر کتابیں تیار کرائیں ،بلکہ اہم کتابوں کا مختلف زبانوں میں ترجمہ بھی کرایا تاکہ ان زبانوں کے جاننے والے بھی اسلام کی صحیح تعلیمات سے واقف ہو سکیں اور اس میں زبان سے ناواقفیت رکاوٹ نہ بنے ۔ ادارے کی طرف سے مختلف مصنفین کی کتابوں کے ترجمے کیے گئے ہیں۔جن میں چند یہ ہیں:

مولانا صدر الدین اصلاحی کے تراجم

معرکہ اسلام اور جاہلیت(Islamic Civilization in its Real Perspective)،دین کا مطالعہ(How to Study Islam?)،راہ حق کے مہلک خطرے(Pitfalls on the Path of Islamic Movement)،اسلام کا نظام معیشت(The Islamic Economic Order)،مسلمان اور دعوت اسلام(Muslims and Dawah of Islam)

مولانا سید جلال الدین عمری کی کتابوں کے تراجم

عورت اور اسلام(Woman and Islam)،مسلم خواتین کی ذمہ داریاں(Muslim Woman: Role and Responsibilities)، مسلمان عورت کے حقوق اور ان پر اعتراضات کا جائزہ(The Rights of Muslim Woman- An Appraisal)،اسلام میں خدمت خلق کا تصور(Islam and Service to Mankind)،اسلام اور وحدتِ بنی آدم(Islam and Unity of Mankind)،اسلام-ایک دینِ دعوت(Islam: The Religion of Dawah)،اسلام کے بنیادی عقائد(Islam: The Universal Truth)،انسان اور اس کے مسائل(Islamic Solution to Human Issues)،اسلام کی دعوت(Inviting to Islam)ان میں سے بعض کتابوں کے تراجم دوسرے اداروں نے شائع کیے ہیں ۔ بعض نے انگریزی کے علاوہ ہندی اور دیگر علاقائی زبانوں میں بھی ترجمے شائع کیے ہیں۔

(د)سہ ماہی مجلہ تحقیقات اسلامی

موجودہ دور کو سائنسی ایجادات،صنعتی ترقیات اور فنی انکشافات کا دور کہا جاتا ہے۔زندگی کے ہر شعبے میں روز بروز نئی  ایجادات ہو رہی ہیں۔انٹرنیٹ کے وسیع سلسلے نے دنیا کی وسعتوں کو سمیٹ دیا ہے۔ اقتصادیات،معاشیات اور میڈیکل سائنس کی دنیا میں نئے مسائل سامنے آئے ہیں۔ان حالات میں احکام شرعیہ کی تشریح ،نئے مسئلوں کے حل کی کتاب و سنت کی روشنی میں تلاش کرنا اوراسی کے مطابق دنیا کی رہ نمائی امت مسلمہ کی ذمہ داری ہے۔اس کا ایک مؤثر طریقہ رسائل و مجلات کی اشاعت ہے۔  واقعہ یہ ہے کہ تحقیق کی دنیا میں رسائل و جرائد کا کردار تصانیف سے کم اہم نہیں۔ مختلف موضوعات مذہب،معاشرت،تہذیب و ثقافت،سیاست اور صنعت وحرفت کے شعبوں میں یہ حوالے سے قارئین کو مواد فراہم کرتے ہیں ۔ان کے مطالعہ سے تحقیق و تنقید کی نئی  راہیں کھلتی ہیں اور معلومات میں اضافہ ہوتا ہے۔

علماء کرام نے صحافتی دور کے آغاز سے ہی رسائل وجرائد پر توجہ کی۔ اسلام ،اس کے عقائد وافکار اورنظامِ سیاست وقانون پر ہونے والے اعتراضات کاعلمی وتحقیقی جواب دینے کی کوشش کی۔  زمانے کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ ہوتا گیا۔ یہ وقت کی اہم ضرورت  ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہو رہے پروپگنڈے کا مفصل جواب دیا جائے ۔آج دلیل کا دور ہے۔ اسی بنا پر ادارہ تحقیق وتصنیف ،علی گڑھ کی جانب سے ایک سہ ماہی مجلہ ’تحقیقات اسلامی‘ کا جنوری، 1982ء میں اجراء کیا گیا۔ جو اس کے بعد سے مسلسل شائع ہو رہا ہے۔

مجلہ تحقیقات اسلامی کے بانی اور موجودہ مدیر مولاناسید جلال الدین عمری ہیں  اورمعاون مدیر ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی ہیں۔ جنوری، 1982ء سے جنوری ،1983ء تک مولانا صدرالدین اصلاحی کانام نگراں کی حیثیت سے دیا جاتا تھالیکن مولانا کی معذرت کے بعد ان کا نام حذف کر دیا گیا۔یہ مجلہ سہ ماہی ہے اور ہر سال اس کے چار شمارے شائع ہوتے ہیں۔ یہ رسالہ 120 صفحات پر مشتمل ہوتا ہے۔ جنوری 2013ء سے اسے انٹرنیشنل اسٹینڈرڈ سیریل نمبر(ISSN:2321-8339)بھی مل گیا ہے،جو جولائی-ستمبر2013 ء سے آنے والے تمام شماروں کے سرورق پر درج ہوتا ہے۔یہ مجلہ 2007ء سے عام استفادے کے لیے انٹرنیٹ پر اپنی آفیشیل ویب سائٹ www.tahqeeqat.net پر موجود ہے اور اس پر اس کے تمام شمارے اپ لوڈ کر دیے گئے ہیں۔

مجلہ تحقیقات اسلامی کے اشاریے بھی شائع ہو چکے ہیں۔ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی نے اس کا سولہ سالہ موضوعاتی اشاریہ (1982-1997)مرتب کیا تھا جو پہلے سہ ماہی خدا بخش جرنل،پٹنہ،شمارہ111،مارچ1998میں اور پھر الگ سے کتابچے کی شکل میں شائع ہوا ہے۔اس کا دوسراپچیس سالہ(25) اشاریہ (1982-2006)موصوف نے ہی تیار کیا ہے جو سہ ماہی تحقیقات اسلامی،ادارہ تحقیق و تصنیف اسلامی، علی گڑھ، شمارہ04،اکتوبر-دسمبر2006ء میں شائع ہوا ہے۔

جناب روؤف احمد، اسسٹنٹ لائبریرین ، ادارۂ تحقیقات اسلامی ،بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی،اسلام آباد (پاکستان) نے مجلہ تحقیقات اسلامی کے پچیس برس (1982-2006)کا’ڈیجیٹل اشاریہ‘ تیار کیاہے۔یہ عناوین، مصنفین اور موضوعات کے اعتبار سے ہے۔ اس میں مطلوبہ مقالہ کو ڈاؤن لوڈ کر نے کی بھی سہولت دی گئی ہے۔

اس مجلہ کا نام ’تحقیقات اسلامی‘ کیوں رکھا گیا؟اس سلسلے میں بانیِ مجلہ،سید جلال الدین عمری لکھتے ہیں:

’’جب یہ بات طے ہو گئی کہ ادارۂ تحقیق کے ترجمان کی ضرورت ہے تو اس کے نام پر غور ہوا اور ’تحقیقات اسلامی‘ کے نام سے اس کا ڈکلریشن حاصل کیا گیا۔خوشی اس بات کی ہے کہ یہ نام ادارہ کے نام اور کام سے مناسبت رکھتا ہے۔‘‘(7)

سہ ماہی مجلہ ’تحقیقات اسلامی‘ کے اجراء کا مقصد اسلام کی تبلیغ وتشریح ہے۔ وہ عصری مسائل پر اسلامی نقطۂ نظر سے تحقیق کرکے نتائج کو جدید علمی معیار کے مطابق دنیا کے سامنے پیش کرنا ہے۔اس رسالہ کو  مسلکی اختلافات اور تنازعات سے پاک رکھا گیا ہے، علمی و تحقیقی دنیا میں ایک نئی مثال قائم کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ فرقہ واریت اور مسلکی وفقہی اختلافات سے بالاتر ہوکر بھی اسلامی زندگی کے ہر پہلو سے رہ نمائی حاصل کی جا ئے ۔ کوشش کی جاتی ہے کہ ہر مضمون سے اسلام کے کسی نہ کسی گوشے کی وضا حت کی جائے یا کسی غلط فہمی کا تدارک کیا جا سکے۔مولانا سید جلال الدین عمری پہلے شمارے میں اس کے مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’ایک ایسے رسالے کی شدید ضرورت محسوس ہوتی ہے جس کا واحد مقصد یہ ہو کہ اسلام کو دورِ جدید کے علمی معیار کے مطابق پیش کیا جائے اور اس کی علمی سطح بھی ایسی ہو کہ اس کے علمی مباحث کو نظر انداز نہ کیا جا سکے۔ہماری پوری کوشش ہوگی کہ ’تحقیقات اسلامی‘ کو اسی معیار کا مجلہ بنایا جائے۔اس کے مقالات اور مضامین کا انداز زیادہ سے زیادہ علمی اور تحقیقی ہو،سطحی اور غیر علمی چیزیں نہ شائع کی جائیں اور جو بات کہی جائے وہ تحقیق کے ساتھ کہی جائے۔اس بات کی بھی کوشش کی جائے گی کہ اس کے مضامین میں تنوع ہو۔اللہ نے چاہا تو اس میں قرآن وحدیث کی تشریح بھی ہو گی،اسلام کی روشنی میں مختلف موضوعات پرتحقیق وتنقید بھی ہوگی،عقائد ونظریات سے بحث بھی ہو گی،تاریخ و سیرت کا مطالعہ بھی ہو گا،اخلاقی ،سماجی،معاشرتی اور سیاسی علوم کا اسلامی نقطۂ نظر سے جائزہ بھی لیا جائے گا اور خالص فقہی مباحث بھی ہوں گے۔‘‘(8)

مجلہ تحقیقات اسلامی کے مضامین کے عنوانات عموماً درج ذیل ہوتے ہیں: حرف آغاز،تحقیق و تنقید، بحث ونظر، قرآن وحدیث، سیر وسوانح، ترجمہ وتلخیص، نقدو استدراک، سیاسیات عالم،روداد سفر ، تعارف وتبصرہ اور خبر نامہ ادارہ تحقیق و تصنیف ۔ان کے علاوہ نئی کتابوں پر دونوں طرح کے تبصرے بھی اس رسالہ میں شائع کیے جاتے ہیں۔اس کے مقالات میں علم کے نمایاں شعبے شامل ہیں یعنی فہمِ قرآن، علم حدیث ، سیرت وسوانح،تاریخ ،عقائد وعبادات،فقہ ،اصول فقہ، فقہی مسائل،فلسفہ وکلام، تصوف، معاشرت ، سیاسیات ،سماجیات ،معاشیات، طب وصحت،اسلام اور مستشرقین اورقدیم و جدیداسلامی تحریکیں۔

مجلہ تحقیقات اسلامی کے مقالات عموماً مبسوط ہوتے ہیں،البتہ بسااوقات بعض اہم مضامین اپنی طوالت کے پیش نظر قسط وار شائع ہوئے ہیں۔اس رسالے کے جنوری،1982ء سے دسمبر،2017ء تک  144 شمارے شائع ہو چکے ہیں۔اس میں جنوری،1982ء سے دسمبر،2016ء تک  734 مقالے شائع ہو ئے ہیں۔تعارف وتبصرہ کو اس میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔دسمبر،2006ء تک مقالہ نگاروں کی تعداد 171 تھی، جن میں25مترجمین ہیں۔

ان مضامین کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے بخوبی ہو سکتا ہے کہ برصغیر کے مختلف علمی رسائل و جرائد میں انہیں نقل کیا ،ان کا انگریزی ،عربی اور بعض دیگر زبانوں میں ترجمہ بھی کیا گیا ۔بہت سے  مقالات کو  کتابی شکل دی جا چکی ہے اورعلمی و تحقیقی مقالات میں ان کا حوالہ دیا جاتا ہے۔بعض کو مختلف یونی ورسٹیز کے ریسرچ اسکالرز نے اپنی تحقیق کا موضوع بنایا ہے۔ خود مجلہ تحقیقات اسلامی پر بعض یونی ورسٹیز کے ریسرچ اسکالرز نے ایم فل کی ڈگری حاصل کی ہے۔جن کا  تذکرہ حسب ذیل ہے:

(1)جناب عبد الودود صاحب نے 2013-15 میں ڈاکٹر فہیم الدین احمد(اسسٹنٹ پروفیسر،شعبہ مطالعات ترجمہ)کی نگرانی میں سند حاصل کی۔ شعبۂ ترجمہ ،اسکول برائے السنہ ، لسانیات و ہندوستانیات ، مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی حیدر آبادسے تحقیقات اسلامی میں مطبوعہ دیگر زبانوں سے ترجمہ شدہ مقالات پر تحقیق کی ۔ ان کے مقالے کا عنوان ’سہ ماہی تحقیقات اسلامی، علی گڑھ میں شائع شدہ تراجم کا تجزیاتی مطالعہ ‘ ہے۔ اس پر انھیں ایم فل کی ڈگری ملی ۔

(2) جناب کاشف رضا صاحب نے (2012-14)میں پروفیسر ڈاکٹر شیر علی(اسسٹنٹ پروفیسر،شعبہ علوم اسلامیہ وعربی)کی نگرانی میں تحقیق کی۔ نظام فاصلاتی تعلیم،شعبہ علوم اسلامیہ وعربی،گورنمنٹ کالج یونی ورسٹی، فیصل آباد (پاکستان) کے تحت ’مجلہ تحقیقات اسلامی کی خدمات کا تجزیاتی مطالعہ‘ کے عنوان سے مقالہ تیار کیا ۔ اس پر انہیں ایم فل (علوم اسلامیہ) کی ڈگری عطا کی گئی ۔

(3)جناب سعید الرحمن صاحب نے (2014)میںڈاکٹر سراج الاسلام حنیف (اسسٹنٹ پروفیسر،شعبہ اسلامک اسٹڈیز)کی زیرِ نگرانی تحقیقی کام کیا۔ شعبۂ علوم اسلامیہ ، عبد الولی خاں یونی ورسٹی (گارڈن کیمپس) مردان (پاکستان) کے تحت بر صغیر ہندو پاک کے اہم علمی و تحقیقی مجلات کو اپنی تحقیق کا موضوع بنایا ۔ ان کے مقالے کا عنوان ’پاک و ہند کے منتخب اردو اسلامی جرائد کی نمایاں خصوصیات اور بنیادی مناہج کا علمی و تجزیاتی مطالعہ ‘ ہے۔ اس پر انہیں پی ایچ- ڈی (علوم اسلامیہ) کی ڈگری تفویض کی گئی ہے۔

سہ ماہی مجلہ تحقیقات اسلامی میں ایک کالم ’ترجمہ وتلخیص‘ کا ہے۔ اس میں دوسری زبانوں میں شائع شدہ اہم مقالات و مضامین کااردو ترجمہ شائع کیا جاتا ہے۔اس میں زیادہ تر مختلف عربی اخبارات و رسائل سے لیے گئے مضامین کے تراجم ہیں۔ 1982ء سے 2016ء تک کل 73 ترجمے شائع ہو چکے ہیں،جس میں مترجمین کی تعداد 30 اور مصنفین کی تعداد 60 ہے۔

تحقیقات اسلامی میں شائع شدہ تراجم مختلف النوع موضوعات کا احاطہ کرتے ہیں۔ان میں قرآن،حدیث،فقہ،سیرت،تاریخ،عبادات،مذاہب،اسلامی علوم،تحریکات اسلامی، ادبیات، سماجیا ت، سیاسیات اور شخصیت وافکار شامل ہیں۔

مجلہ تحقیقات اسلامی نے آغاز سے ہی علمی وتحقیقی حلقوں میں اپنی ایک انفرادی شناخت قائم کر لی تھی۔اس کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے اصحابِ قلم کا تعلق ملک اور بیرون ملک دونوں جگہوں سے ہے۔  اسے ہندوستان کے ممتاز فارغینِ مدارس کے علاوہ کئی معروف یونی ورسٹیوں کے اہلِ قلم حضرات کا تعاون حاصل ہے  دوسری طرف  پاکستان اور بعض دیگر ممالک کے نامور اہلِ علم و دانش کی نگارشات نے اس کی قدر وقیمت میں غیر معمولی اضافہ کیا ہے۔

ادارے اور مجلہ کے بارے میں اہل علم کے تاثرات

درج بالا  مطالعہ سے یہ بات  واضح ہو جاتی ہے کہ آزادی کے بعدمسلمانوں کے علمی وتحقیقی احیاء میں ادارۂ تحقیق و تصنیف اسلامی اور اس کے ترجمان ’مجلہ تحقیقات اسلامی‘کا اہم کردار رہا ہے۔اس کا اعتراف  ملک اور بیرون ملک کے علمی حلقوں نے کیا اور اس کی کوششوں کو سراہا۔ مزید ترقی کے لیے مفیدمشوروں اور قابل قدر تجاویز سے بھی نوازا ۔ڈاکٹر محمد سعود عالم قاسمی اپنے تاثرات کا اظہاران الفاظ میں کرتے ہیں:

’’اس ادارہ نے علماء اور دانش وروں کی ایک ٹیم کو قرآن وحدیث،اخلاق ومعاشرت،معیشت واقتصاد،دعوت وتبلیغ اور سیاست واجتماعیت کے موضوعات پر تصنیف وتحقیق کے لیے لگایا اور ساتھ ہی نئی نسل کی ایک جواں ہمت ٹیم کو اس کام کے لیے تیار کرنے کی مہم کا آغاز بھی کر دیا۔ادارہ نے علمی دنیا میں وہ کارکردگی قائم کی کہ جس نے یہ باور کرا دیاکہ اسلام ایک علمی اور زندہ مذہب ہے اور وہ اقدامی پوزیشن میں ہے۔‘‘(9)

بیرون ملک سے پروفیسر حفیظ الرحمن احسن (مدیر،مجلہ ،سیارہ)اس ادارے کی خدمات کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:

’’ ادارۂ تحقیق و تصنیف اسلامی،علی گڑھ بیش قیمت علمی وتحقیقی خدمات انجام دے رہا ہے۔اس کے مؤقر ترجمان سہ ماہی مجلہ تحقیقات اسلامی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس کا ہر شمارہ اپنے دامن میں نہایت فاضل اہل علم کے بلند پایہ تحقیقی مقالات کو سمیٹے نہایت آب و تاب سے منظر عام پر آتا ہے اور علم وتحقیق کے شائقین کی پیاس بجھاتا ہے۔ہمارے علم کی حد تک اس وقت اردو زبان میں برعظیم ہند و پاک میں اس معیار کا کوئی اور علمی و دینی جریدہ شائع نہیں ہوتا۔‘‘(10)

مولاناسید محمد رابع حسنی ندوی(صدر،آل انڈیامسلم پرسنل لا بورڈ۔ناظم،دارالعلوم،ندوہ العلماء،لکھنؤ ) ادارۂ تحقیق وتصنیف اسلامی  اور اس کے مجلہ پر لکھتے ہیں:

’’ادارۂ تحقیق وتصنیف اسلامی جو اپنے مقصد کی ترجمانی اور نوخیز نسل کی علمی تربیت کے لیے یہ مؤقر علمی رسالہ نکالتا ہے،امت مسلمہ کی فکری غذا اوراسلامی فکر کی آبیاری کے ایک مفید مرکزِ عمل کے طور پر کام انجام دے رہا ہے،نیز وہ اپنے رسالہ کے ذریعہ اسلام کے فکری مقام کی وضاحت اور عصر حاضر کی ضرورت کے مطابق معاصر علمی سطح پر ترجمانی کا اچھا کام انجام دینے کی خصوصی کوشش کر رہا ہے۔‘‘(11)

مولانا ڈاکٹر سعید الرحمن اعظمی(مہتمم ،دار العلوم، ندوۃ العلماء،لکھنؤ۔مدیر،مجلہ البعث الاسلامی) مجلہ تحقیقات اسلامی کی تعریف میں لکھتے ہیں:

’’مجلہ تحقیقات اسلامی جن مقاصد کے ماتحت جاری کیا گیا تھا،الحمداللہ اس کا وہ پوری طرح پابند ہے اور دوسروں کے لیے مشعل راہ اور قابل تقلید ہے۔ہم نے شروع سے اس رسالے کے اجراء کو فکرِ اسلامی کے میدان میں ایک اہم قدم تصور کیا تھا اور اس کے بہت سے مضامین کو عربی زبان کا جامہ پہنا کراپنے عربی مجلہ’البعث الاسلامی‘میں شائع کیا تھا،اور یہ سلسلہ برابر جاری ہے۔‘‘ (12)

پروفیسر خورشید احمد (چیئرمین انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی  اسٹڈیز،اسلام آباد۔مدیر،سہ ماہی،ترجمان القرآن،لاہور)ادارہ تحقیقات اسلامی اور اس کے ترجمان ’تحقیقات اسلامی‘ کے حق میں تعریفی کلمات کے بعد بعض تجاویز پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’میرا خیال ہے کہ تہذیبی تصادم سے جو مسائل پیدا ہو رہے ہیں وہ ملکی اور بین الاقوامی دونوں سطح پر بڑی اہمیت کے حامل ہیں،ان پر فکر وبحث،جستجو اور تحقیق اور اجتہادی بصیرت کے ساتھ کام کیا جائے۔ان معاشی،سماجی اور ثقافتی موضوعات پر بھی کام کی ضرورت ہے جن کا حق ابھی تک ادا نہیں ہوا ہے۔مزید یہ کہ تحقیقات اسلامی میں جہاں اس بات کی ضرورت ہے کہ اسلام کے احکام،انداز اور اصولوں کی روشنی میں سلگتے ہوئے مسائل کے بارے میں رہ نمائی فراہم کی جائے اور دلیل کے ساتھ اس کی افادیت کو واضح کیا جائے،وہیں ہمارے مضامین میں Description کے ساتھ ساتھ Analysisاور پھر تقابل بھی ہونا چاہیے۔  اس کے  آگے بڑھ کر اگر ہو سکے تو Empirical Evidenceکی روشنی میں خیالات،تصورات اور تجاویز کے احتساب،توثیق و تسوید سے بھی گریز نہ کیا جائے۔جدید اسلامی تحقیق میں اس پہلو سے خاصی کمی ہے۔‘‘(13)

ان تاثرات سے بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ادارۂ تحقیق و تصنیف اسلامی اور اس کے ترجمان ’تحقیقات اسلامی‘ نے علمی بیداری میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔

حواشی وحوالہ جات

(1)https://thewire.in/63286/census-literacy-religion/

(2)Youinder Sikand, Bastions of the Believers: Madrasas and Islamic Education in India, Delhi: Penguin Books, 2005, P.45.

(3)عمری،سید جلال الدین،’ادارہ تحقیق اور تحقیقات اسلامی کے پچیس سال‘،سہ ماہی تحقیقات اسلامی،علی گڑھ، جلد25، شمارہ04،اکتوبر-دسمبر 2006ء، صفحہ 05

(4)ادارہ،سہ ماہی تحقیقات اسلامی،علی گڑھ،باب ’تحقیقات اسلامی اور ادارہ تحقیق، جنوری،2005ء ، صفحہ367

(5)’’مولانا سلطان احمد اصلاحی اور ادارہ تحقیق وتصنیف اسلامی،محمد رضی الاسلام ندوی،غیر مطبوعہ مقالہ،                                       (6)عمری،سید جلال الدین،سہ ماہی تحقیقات اسلامی،علی گڑھ،جلد 01، شمارہ  04، اکتوبر- دسمبر1982ء،صفحہ09

(7)عمری،سید جلال الدین،’ادارہ تحقیق اور تحقیقات اسلامی کے پچیس سال‘،سہ ماہی تحقیقات اسلامی،علی گڑھ،جلد25، شمارہ04، اکتوبر-دسمبر 2006ء، صفحہ 15

(8)عمری،سید جلال الدین،سہ ماہی تحقیقات اسلامی،علی گڑھ،جلد01،شمارہ 01، جنوری- مارچ 1982ء،صفحات 07-06

(9)قاسمی،محمد سعود عالم،ماہنامہ ترجمان القرآن،لاہور،جلد 106، عدد04، دسمبر 1982ء،صفحہ 203  (10)ماہ نامہ سیارہ،لاہور،اشاعت خاص، فروری1991ء

(11)تاثرات اور مشورے،سہ ماہی’تحقیقات اسلامی،علی گڑھ، جلد 25،شمارہ 06، اکتوبر- دسمبر 2006ء، صفحہ73

(12)ایضاً، صفحہ65        (13)ایضاً، صفحات 64-63

مشمولہ: شمارہ مارچ 2018

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223