اسلامی مملکت میں حکمرانوں کا احتساب

اسلام ایک ایسا معاشرہ قائم کرنا چاہتا ہے جس میں خیروبرکت کا فروغ اور امن وامان کا بول بالا ہو، انسانوں کے تعلقات ان کے پیدا کرنے والے کے ساتھ صحیح بنیادوں پر استوار ہوں اور ان کے باہمی روابط بھی نصح وخیرخواہی، ہمدردی ومواسات ، محبت ومودت اورتعاون وتناصر پر مبنی ہوں۔ ان میں سے کوئی فرد کسی کا کوئی حق پامال کرے نہ اس پر کسی طرح کی ظلم وزیادتی کرے، بلکہ وہ اخوت و بھائی چارگی کے ساتھ اورباہم شیر وشکر ہوکر زندگی گزاریں ۔ان میں سے جو لوگ حکمرانی کے مناصب پرفائز ہوں ان کی ذمے داری ہے کہ مامورین کے ساتھ عدل و انصاف سے کام لیں اور ان کے حقوق ادا کریں اورعوام کا فرض ہے کہ ان کی اطاعت کریں اور ان کے احکام بجالائیں۔ ایک حدیث سے اس کی وضاحت ہوتی ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: الدِّیْنُ النَّصِیْحَۃُ ﴿دین خیرخواہی کا نام ہے﴾ صحابہ کرامؓ  نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولﷺ  ،کس کے لیے؟ فرمایا : لِلّٰہِ وَلِکِتَابِہٰ وَلِرَسُوْلِہ وَلاِئمّۃِ الْمُسْلِمِیْنَ وَعَامَّتِہِمْ ﴿اللہ کے لیے،اس کی کتاب کے لیے، اس کے رسول کے لیے، مسلمانوں کے حکمرانوں کے لیے اور ان کے عوام کے لیے﴾  ﴿بخاری: ۷۵، مسلم: ۵۵﴾

امربالمعروف ونہی عن المنکر امت مسلمہ کا نشان امتیاز

ایک دوسرے کی خیرخواہی کا تقاضا ہے کہ انہیں اچھے کاموں کی تلقین کی جائے اوربرے کاموں سے روکا جائے۔ اچھے کاموں سے مراد وہ کام ہیں جن کااللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ اصطلاح میں انہیں معروف کہا گیا ہے اور برے کاموں سے مراد وہ تمام کام ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہے۔ اصطلاحی طور پرانہیں ’منکر‘ کہا گیاہے۔ دنیاوی معاملات کی درستی اسی پر موقوف ہے، اس لیے امت مسلمہ کو اسی کام پر مامو رکیاگیاہے۔ علامہ ابن تیمیہؒ نے لکھا ہے:

’’انسانوں کے معاملات اسی صورت میں درست رہ سکتے ہیں جب انہیں معروف کا حکم دیا جائے اورمنکر سے روکا جائے، اس لیے کہ ان کے دنیاوی معاملات کا سدھار اس پر موقوف ہے کہ وہ اللہ اوراس کے رسول کی اطاعت کریں اور یہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے بغیر ممکن نہیں۔ اسی کام کی انجام دہی کی بنا پر اس امت کو خیر امت کہا گیا ہے، جسے دوسرے انسانوں کے لیے برپا کیاگیا ہے‘‘ ۔ ﴿ابن تیمیہ، مجموع فتاوی شیخ الاسلام، طبع سعودی عرب، ۲۸/۳۰۶﴾۔

علامہ کا اشارہ سورۂ آل عمران کی ان آیات کی طرف ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَلْتَکُن مِّنکُمْ أُمَّۃٌ یَّدْعُونَ الَی الْخَیْْرِ وَیَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ وَأُوْلٰئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُونَ۔﴿آیت:۱۰۴﴾

’’تم میں کچھ لوگ تو ایسے ضرور ہی ہونے چاہئیں جو نیکی کی طرف بلائیں، بھلائی کاحکم دیں اور برائیوں سے روکتے رہیں۔ جو لوگ یہ کام کریں گے وہی فلاح پائیں گے‘‘۔

کُنتُمْ خَیرَ أُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللّہ۔﴿آیت: ۱۱۰﴾

’’اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت واصلاح کے لیے میدان میں لایاگیا ہے ۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو‘‘۔

قرآن کریم کی ان ہی تاکیدات کی بناپر امربالمعروف ونہی عن المنکر کو دین کے اہم ترین واجبات میں سے شمار کیاگیا ہے۔ امام غزالی ؒ فرماتے ہیں:

الأَ مْرُبِالْمَعْرُوْفِ وَالنَّہْیِ عَنِ الْمُنْکَرِ ھُوَالقُطْبُ اْلاَعْظَمُ فِی الدِّیْن۔

’’معروف کا حکم دینا اور منکر سے روکنا دین کا عظیم ترین ستون ہے‘‘۔ ﴿غزالی، احیائ علوم الدین، دارالکتب العربیۃ الکبری مصر، ۱۳۳۴ھ،۲/۲۶۹﴾۔

اسی کام کے لیے قرآن کریم میں ایک دوسری اصطلاح ’تواصی‘ کی استعمال کی گئی ہے۔ ﴿العصر:۳﴾ اوراس کاشمار اہل ایمان کے نمایاں اوصاف میں کیاگیا ہے۔ مولانا حمید الدین فراہیؒ نے اس لفظ سے خلافت کا وجوب ثابت کیاہے۔ فرماتے ہیں:

’’تواصی ایک رتبۂ کمال وفضیلت ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس امت کے لیے مخصوص فرمایا اور اس امت میں سے بھی خاص طور پر ان لوگوں کے لیے جو اس کے رہ نما ہیں، کیوں کہ امر بالمعروف ونہی عن المنکرکی اصل ذمے داری ان ہی پر ہے۔ اس تواصی کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے اس امت کی شیرازہ بندی فرمائی ہے اور ان کو اختلاف ونزاع کے تمام خطروں سے محفوط کرکے بھائی بھائی بنادیا ہے. امر بالمعروف اورنہی عن المنکر اس امت کے اہم فرائض میں سے ہے ۔لیکن یہ امر واضح ہے کہ اس کی اصل ذمے داری ، جیسا کہ وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ سے متبادر ہوتا ہے، امت کے لیڈروں پر ہے۔ البتہ تواصی ایک فرض عام ہے،جس میں تمام مسلمان برابر کے شریک ہیں۔ ﴿حمیدالدین فراہی ؒ، تفسیر نظام الدین، دائرہ حمیدیہ، سرائے میر، اعظم گڑھ، ص: ۳۴۳۔۳۴۴ ﴿سورۂ العصر﴾

محکمۂ احتساب کا قیام

دین میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی اسی اہمیت کی وجہ سے اسلامی مملکت کی ذمے داری قرار دی گئی ہے کہ وہ اپنے یہاں ایک محکمہ قائم کرے جو معاشرہ پرنظر رکھے اور اس کی سلامت روی کو چیک کرتا رہے۔ وہ معاشرے کے جس طبقہ یا جس فرد میں بھی دین پر عمل کے معاملے میں کوئی کوتاہی محسوس کرے بروقت اس کو متنبہ کرے اوراس کی اصلاح کے لیے کوشش کرے۔ محکمۂ احتساب اسلامی مملکت کا ایک اہم شعبہ ہوتا ہے، جو اس کے مزاج اور ہدف سے پوری طرح ہم آہنگ ہوتا ہے۔ مولانا محمد اسحاق سندیلوی ندویؒ اپنی کتاب ’ اسلام کا سیاسی نظام‘ میں رقم طراز ہیں:

’’حکومت اسلامیہ کااہم ترین مقصد امر بالمعروف و نہی عن المنکر ہے۔ اس کے وجود کا حقیقی مقصد یہی ہے کہ بندوں کا تعلق اللہ تعالیٰ سے درست کرے اور ان کے آپس کے تعلقات رضائے الٰہی کے مطابق رکھنے کی امکانی کوشش کرے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتی تو اس کے وجود کے لیے وجہ جواز مشکل ہی سے مل سکے گی۔ اسی لیے حکومت اسلامی میں محکمۂ احتساب کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ یہ حکومت کا بہت ضروری شعبہ ہے اور اس کا فرض ہے کہ ریاست کے باشندوں کے اخلاق و عادات کی نگرانی کرتا رہے، تاکہ صالح معاشرہ غیر صالح معاشرے میں تبدیل نہ ہوجائے. محکمۂ احتساب کی بنیاد اسلام ہی کے مقدس ہاتھوں سے پڑی ہے۔ غیر اسلامی نظاموں میں اس کا نشان بھی نہیں ملتا۔ سوسائٹی کی اخلاقی حالت کا جو اثر ریاست پر پڑتا ہے اس پرنظرکیجیے تو سیاسی اعتبار سے بھی اس محکمے کی اہمیت بہت زیادہ محسوس ہوتی ہے۔ لیکن غیر اسلامی سیاسیات میں حسن اخلاق کی کوئی قدروقیمت نہیں ہے، نہ انسانی کردار کی بلندی وپستی، پاکیزگی وگندگی سے اسے کوئی سروکار ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں اگر غیر اسلامی ریاستوں میںمحکمۂ احتساب کو نظرانداز کیا جائے اور اس کی ضرورت نہ محسوس کی جائے تو کیا تعجب ہے ۔ ‘‘﴿محمد اسحاق سندیلوی، اسلام کا سیاسی نظام، دارالمصنفین ، شبلی اکیڈمی،اعظم گڑھ، ۱۹۵۷ئ، ص: ۲۵۶۔۲۵۷﴾

عوام کا احتساب

اسلامی مملکت کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کی دینی واخلاقی اصلاح کے لیے کوشاں رہے اور ان کے دینی ودنیاوی معاملات میں کسی پہلو میں کوئی نقص یا انحراف پائے تو بروقت اس کا نوٹس لے اور اسے دور کرے۔ حکمراں اس کام کے لیے اپنے مددگار متعین کرے گا، جو اس فریضے کو کماحقہ انجام دیں گے اور اگر اس سلسلے میں کبھی کسی کی تادیب اور سرزنش کی ضرورت پڑے گی تو حکومت سے مدد لیں گے۔ علامہ ابن خلدون ؒ نے لکھا ہے:

’’احتساب امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے سلسلے کی ایک دینی ذمے داری ہے ۔ یہ مسلمانوں کے سربراہ پر فرض ہے۔ وہ اس کام کے لیے کسی ایسے شخص کو متعین کرے گا جسے وہ اس کا اہل سمجھے گا اور اس پر اس فرض کی ادائیگی متعین طور سے لازم ہوجائے گی۔ وہ اس کام کے لیے اپنے مددگار رکھے گا، منکرات کے بارے میں چھان بین کرتا رہے گا اور ان پر حسب ضرورت تادیب کرے گا اور لوگوں کو آبادی کے مصالح عامہ کی انجام دہی پر ابھارے گا‘‘۔ ﴿ابن خلدون، المقدمۃ، مطبعۃ مصطفی محمد، مصر، ص: ۲۲۵﴾

محکمہ ٔ  احتساب کے ذمے دار کے لیے علمائ نے ’محتسب‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے اور مختلف طرح کے کام اس کی ذمے داریوں میں شامل کیے ہیں۔ بطور خلاصہ انھیں تین عناوین میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:

﴿۱﴾ دینی واخلاقی اصلاح، جیسے لوگوں کو نماز کا حکم دینا،اماموں اور مؤذنوں کی نگرانی، غیر اخلاقی اور غیر شرعی حرکتوں پر تنبیہ۔

﴿۲﴾ ایسے معاملات میں اقدام جو عدالت کے دائرۂ کار سے باہرہوں، یا وہاں بہ مشکل پہنچ سکتے ہوں،جیسے ناپ تول میں کمی، کاروبار میں دھوکہ دہی، اشیائ خوردنی میں ملاوٹ، ناجائز اشیائ کی خریدوفروخت، دین میں خلاف شرع طریقوں کو اختیار کرنا، ذخیرہ اندوزی وغیرہ ۔

﴿۳﴾ مصالح عامہ کی نگرانی، جیسے آبادیوں میں پانی کا مناسب انتظام، مسافروں کے لیے سہولیات کی فراہمی وغیرہ۔

﴿تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجیے فتاویٰ ابن تیمیہ، ۲۸/۶۹، ومابعد، ابوالحسن الماوردی، الاحکام السلطانیۃ، المکتبۃ المحمودیۃ مصر، ص:۲۳۱، ومابعد ،ابن قیم الجوزیۃ، الطرق الحکمیۃ فی السیاسیۃ الشرعیۃ، مطبعۃ الآداب مصر، ۱۳۱۷ھ، ص:۲۱۵ومابعد، سید جلال الدین عمری، معروف ومنکر، مرکزی مکتبہ اسلامی ، دہلی، ۱۹۵۸ئ، ص:۱۸۷۔۱۹۱﴾

حکمرانوں کا احتساب

احتساب کا تعلق صرف عوام ہی سے نہیں ہے اور محکمۂ احتساب کا قیام صرف شہریوں کی اصلاح وتربیت کے لیے نہیں ہوتا، بلکہ اس کا دائرہ حکمرانوں کے احتساب تک وسیع ہے۔ چنانچہ محتسب کی ذمے داری ہے کہ وہ حکمراں کے خلاف شرع افعال پر بھی نظر رکھے اور حسب موقع اسے تنبیہ کرنے میں کوتاہی نہ کرے۔ مولانا محمد اسحاق سندیلوی نے لکھا ہے:

’’اصولی طور پر محتسب کا فرض نگرانی اور تنبیہ تک محدود ہے۔ فیصلہ یا سزا اس کے حدود اختیارات سے خارج ہے۔ اس فریضے کی ادائیگی میں وہ رعایا اورحکام کے درمیان امتیاز نہیں برتے گا۔ یہاں تک کہ خود امیر کے خلافِ شریعت افعال پر بھی اعتراض و تنبیہ کا حق اسے حاصل ہے۔ حالاں کہ ہر ملازم حکومت کی طرح وہ بھی امیر کا ماتحت ہے اور اس کا نصب وعزل بھی امیر کے اختیار میں ہے‘‘۔ ﴿اسلام کا سیاسی نظام، ص: ۲۵۲﴾

اسلامی مملکت میں حکمراں اہم مقام پر فائز ہوتا ہے۔ اگر اس میں صلاح پایا جائے گا تو عوام کے معاملات بھی درست رہیں گے اور اگر اس میں فساد پیدا ہوجائے گا تو عوام کے معاملات بھی فاسد ہوجائیں گے۔ اسی بنا پر اسلام میں حکمراں کے احتساب کا خصوصی اہتمام کیا گیا ہے اور اس کے لیے مختلف تدابیر اختیار کی گئی ہیں۔ ذیل میں ان تدابیر کا تذکرہ کیاجاتا ہے:

احتساب بہ ذریعہ عقائد

اسلامی عقائد جس طرح عام مسلمانوں کی تطہیر قلب اور اصلاح احوال کا ذریعہ بنتے ہیں، اسی طرح حکمراں پر بھی اثرانداز ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ حاضر وناظر اورعلیم وخبیر ہے۔ بندوں کے تمام احوال پر اس کی نظر ہے ۔ وہ انسان کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔ دنیا میں اس کاایک ایک عمل ریکارڈ کیاجارہا ہے ، جسے آخرت میں اس کے سامنے پیش کیا جائے گا اور اس کے مطابق اسے جزا یا سزا دی جائے گی۔ یہ عقائد ایسے محتسب کا کردار ادا کرتے ہیں جو عوام کی طرح حکمراں کو بھی ہر لمحہ چوکنا رکھتے ہیں۔ اس طرح خوداحتسابی کا عمل جاری رہتا ہے۔ کوئی خارجی احتساب نہ بھی ہوتو اس داخلی احتساب کی وجہ سے حکمراں کے لیے ظلم وبدی کی راہ اختیار کرنے کا امکان کم سے کم رہتا ہے۔

متعدد احادیث میں حکمرانوں کو ڈرایاگیا ہے کہ اگر انھوں نے اپنی ذمے داری صحیح طریقے سے انجام نہیں دی تو قیامت میں ان سے باز پرس کی جائے گی، وہ جنت سے محروم کردیے جائیں گے اور جہنم ان کا ٹھکانا ہوگی۔

حضرت عبداللہ بن عمرؓ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

اَلَا کُلُّکُمْ رَاعٍ وَّکُلُّکُمْ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَعِیَّتِہٰ، فَالاِمَامُ الَّذِیْ عَلَی النَّاسِ رَاعٍ وَّھُوَ مَسْئُوْلٌ عَنْ رَعِیَّتِہٰ۔ ﴿صحیح بخاری:۷۱۳۸، صحیح مسلم:۱۸۳۵﴾

’’خبردار ، تم میں سے ہر شخص محافظ اور نگراں ہے اور اس سے ان لوگوں کے بارے میں پوچھ گچھ ہوگی جو اس کی نگرانی میں دیے گئے ہیں۔ حکمراں جو لوگوں کا نگراں ہے، اس سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھ گچھ ہوگی‘‘۔

حضرت معقل بن یسارؓ  بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے:

مَامِنْ عَبْدٍ یَسْتَرْعِیْہِ اللّٰہُ رَعِیَّۃً وَّ یَمُوْتُ یَوْمَ یَمُوْتُ وَھُوَ غَاشٌ لِرَعِیَّتِہٰ الاَّحَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیْہِ الْجَنَّۃَ۔ ﴿صحیح بخاری:۷۱۵۰، صحیح مسلم: ۱۴۲﴾

’’جس شخص کو اللہ تعالیٰ رعایا کی سربراہی عطا کرے اور اس کی موت اس حال میں ہو کہ اس نے ان کے معاملات میں خیانت کی ہوتو اس پر اللہ تعالیٰ جنت حرام کردے گا‘‘۔

ایک دوسری روایت میں یہ الفاظ ہیں:

مَامِنْ اَمِیْرٍ یَلِیْ اَمْرَالْمُسْلِمِیْنَ ثُمَّ لَایَجْہَدُ لَہُمْ وَیَنْصَحُ اِلّاَ لَمْ یَدْخُلْ مَعَہُمُ الْجَنَّۃَ۔ ﴿صحیح مسلم: ۱۴۲﴾

’’جو حکمراں مسلمانوں کے اجتماعی معاملات کا ذمے دار ہو، پھر وہ ان کے کاموں کی انجام دہی میں خود کو نہ تھکائے اور ان کے ساتھ خیرخواہی نہ کرے وہ ان کے ساتھ جنت میں نہیں جائے گا‘‘۔

یہ نبویﷺ  تنبیہات حکمرانوں کی خوداحتسابی میں معاون ومددگار ثابت ہوتی ہیں۔

احتساب بہ ذریعہ مجلس شوریٰ

اسلامی مملکت میں مجلس شوریٰ ایک بااختیار ادارہ ہے۔ اس کے ارکان کا کام صرف یہی نہیں ہے کہ حکمراں جب ان سے کسی معاملے میں مشورہ کرے تو وہ اسے اپنی رائے دے دیں،بل کہ ان کا اصل کام امورِ مملکت کی نگرانی ہے۔ وہ وقتِ ضرورت حکمراں کے تجاوزات پر اسے ٹوک سکتے اور اس کا محاسبہ کرسکتے ہیں۔ ان کی نگاہ احتساب حکمراں کو اپنے حدود واختیارات سے تجاوز کرنے سے باز رکھ سکتی ہے۔اصحاب شوریٰ کا کام یہ نہیں کہ وہ حکمراں کے غلط کاموں میں اس کا ساتھ دیں اور ظلم کے معاملے میں اس کی حمایت کریں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تنبیہ فرمائی ہے:

اِنَّہ‘ سَتَکُوْنُ بَعْدِیْ اُمَرَآئَ،مَنْ صَدَّقَہُمْ بَکِذْبِہِمْ وَاَعَانَہُمْ عَلَی ظُلْمِہِمْ فَلَیْسَ مِنِّیْ وَلَسْتُ مِنْہُ۔ ﴿سنن النساء ی: ۴۲۰۷،۴۲۰۸، الترمذی:۲۲۵۹﴾

’’میرے بعد کچھ لوگ حکمراں ہوں گے۔ جو ان کے جھوٹ میں ان کی تائید کرے اور ان کے ظلم میں ان کی مدد کرے وہ مجھ سے نہیں اور میں اس سے نہیں‘‘۔

احتساب بہ ذریعہ عدالت

عدالت کے ذریعے حکمرانوں کا احتساب اسلامی تاریخ کا روشن باب ہے۔ اسلامی ریاست میں انہیں عدلیہ کے معاملے میں کسی طرح کا استثنائ حاصل نہیں ہوتا۔ ایک عام شہری حکمراں کے خلاف عدالت میں مقدمہ دائر کرسکتا ہے اور اسے ملزموں کے کٹہرے میں کھڑا کرسکتا ہے۔ خلافت راشدہ میں اس کی بہ کثرت مثالیں ملتی ہیں۔

ایک مرتبہ حضرت عمر بن الخطابؓ  اور حضرت ابی بن کعبؓ  کے درمیان ایک معاملے میں نزاع ہوگیا۔ حضرت ابیؓ  نے حضرت زید بن ثابتؓ  کی عدالت میں مقدمہ دائر کردیا۔ حضرت عمرؓ  مدعی علیہ کی حیثیت سے حاضر ہوئے۔ زیدؓ  نے بہ حیثیت خلیفہ ان کی تعظیم کرنی چاہی، حضرت عمرؓ  نے فرمایا: ’’یہ تمہارا پہلا ظلم ہے‘‘۔ دونوں کے پاس کوئی ثبوت نہیں تھا،اس لیے قاعدے کے مطابق حضرت عمرؓ  کو قسم کھانی تھی۔ زیدؓ  نے ان کے رتبے کا پاس ولحاظ کرتے ہوئے ابیؓ  سے درخواست کی کہ امیرالمؤمنین کو قسم سے معاف رکھو۔ اس پر حضرت عمرؓ  نے حضرت زیدؓ  کو مخاطب کرکے فرمایا: ’’جب تک تمھار ے نزدیک ایک عام آدمی اور خلیفہ برابر نہ ہوں تم منصب قضا کے قابل نہیں سمجھے جاسکتے‘‘۔ ﴿شبلی نعمانی، الفاروق، دارالمصنفین، اعظم گڑھ، ۲/۴۹۔۵۰﴾

حضرت علی بن ابی طالبؓ  کی ایک زرہ غائب ہوگئی۔ انھوں نے ایک عیسائی کو اسے بازار میں فروخت کرتے ہوئے پایا۔ انھوں نے فرمایا: یہ زرہ میری ہے۔ عیسائی نے انکار کیا۔ مقدمہ قاضی شریح کی عدالت میں پہنچا۔ انھوںنے حضرت علیؓ  سے گواہی طلب کی۔ وہ نہ پیش کرسکے تو فیصلہ ان کے خلاف سنا دیا۔ اس پر حضرت علیؓ  نے فرمایا: ’’شریح تم نے ٹھیک فیصلہ کیا‘‘۔ یہ سن کر وہ عیسائی بول پڑا: ’’یہ تو پیغمبرانہ عدل ہے کہ امیرالمؤمنین کو بھی عدالت میں آنا پڑتا ہے اور اپنے خلاف فیصلہ بھی سننا پڑتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ زرہ امیرالمؤمنین ہی کی ہے، یہ ان کے اونٹ سے گرگئی تھی تو میں نے اٹھا لی تھی۔ ﴿تہذیب تاریخ ابن عساکر، مطبعہ الترقی دمشق، ۱۳۶۴ھ۶/۳۰۶﴾

خلافت راشدہ کے بعد بھی عدلیہ کی یہ حیثیت قائم رہی۔ اموی خلیفہ ہشام بن عبدالملک کا ایک تنازع ابراہیم بن محمد نامی ایک شخص کے ساتھ ہوا۔ معاملہ عدالت میں پہنچا۔ خلیفہ خود حاضر عدالت ہوا۔ قاضی نے روداد مقدمہ سن کر فیصلہ خلیفہ کے خلاف دے دیا۔ ﴿مہدی محمد مرید، الابحاث السیاسیۃ، طبع تطوان ، ۱۹۵۱ئ،ص:۱۳۲﴾

عباسی خلیفہ منصور کے خلاف کچھ اونٹ والوں نے مقدمہ دائر کردیا۔ قاضی نے خلیفہ کو لکھا کہ ان لوگوں کا حق انہیں دے دو، ورنہ عدالت میں حاضر ہو۔ خلیفہ عدالت میں حاضر ہوا۔ قاضی نے مقدمے کی رواداد سن کر فیصلہ اونٹ والوں کے حق میں اور خلیفہ کے خلاف صادر کردیا۔

﴿حوالہ سابق، ص:۱۳۲﴾

عدلیہ کے ذریعے مسلم حکمرانوں کے احتساب کی بے شمار مثالیں اسلامی تاریخ میں محفوظ ہیں۔ ان کے تذکرے کے لیے دفتر کے دفتر ناکافی ہیں۔

احتساب بہ ذریعہ عوام

اسلامی مملکت میں عوام کو بھی یہ حق حاصل رہتا ہے کہ وہ جب چاہیں اپنے حکمراں کا احتساب کرلیں۔ اس لیے کہ دونوں کے باہمی تعلقات خیرخواہی پر مبنی ہوتے ہیں اور خیرخواہی کا تقاضا ہے کہ اگر حکمراں کسی غلط روش پر چل رہا ہوتو اسے متنبہ کردیا جائے اور اس کی سمت درست کردی جائے۔

حضرت ابوبکرصدیق ؓ  نے بیعت خلاف کے بعد لوگوں کے سامنے تقریر کی تواس میں یہ بھی فرمایا:

فَاِنْ اَحْسَنْتُ فَاَعِیْنُوْنِیْ وَ اِنْ اَسَاْتُ فَقَوِّمُوْنِیْ۔ ﴿کنزالعمال، ج:۵،ص:۳۴۹﴾

’’اگر میں صحیح طریقے سے کام کروں تو میری مددکرو اور اگر اس میں غلط راہ پر جاپڑوں تو مجھے سیدھا کردو‘‘۔

ایک مرتبہ حضرت عمر بن الخطابؓ  نے دوران خطاب لوگوں کو مخاطب کرکے فرمایا: ’’اگر تم میرے اندر کوئی کجی دیکھو تو کیا کروگے؟ ایک صحابی کھڑے ہوئے اور بلند آواز سے کہا: ’’ہم اپنی تلواروں کی دھار سے اسے سیدھا کردیں گے‘‘۔ اس پر حضرت عمرؓ  نے فرمایا: ’’اللہ کا شکر ہے جس نے عمر کی رعایا میں ایسے افراد کو رکھا ہے جو اس کی کجی کو اپنی تلواروں کی دھار سے سیدھا کرسکتے ہیں‘‘۔ ﴿سید قطب، العدالۃ الاجتماعیۃ فی الاسلام، داراحیائ الکتب العربیۃ القاہرہ، ص:۱۸۵﴾

حضرت عمرؓ  ہی کا واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ اس حال میں خطبہ دے رہے تھے کہ ان کے جسم پر دو یمنی چادریں تھیں۔ اچانک حضرت سلمان فارسیؓ  کھڑے ہوئے اور کہنے لگے: واللہ ہم آپ کی بات نہیں سنیں گے۔ حضرت عمرؓ  نے دریافت کیا: کیوں؟ انھوں نے کہا: ’’پہلے یہ بتائیے کہ مالِ غنیمت میں جو یمنی چادریں آئی ہیں، ان میں سے جب ہر ایک کے حصے میں ایک چادر ہی آئی ہے تو آپؓ  کے جسم پر دو چادریں کیسے ہیں؟ حضرت عمرؓ  نے اپنے بیٹے حضرت عبداللہ ؓ  سے گواہی دلوائی کہ دوسری چادر ان کی ہے جسے ان کے باپ نے ان سے مانگ لی تھی۔ تب سلمان فارسیؓ  بولے: ’’ہاں! اب فرمائیے۔ ہم سنیں گے اور اطاعت کریں گے۔ ﴿علی طنطاوی، اخبار عمر، دارالفکر ، دمشق، ص: ۲۰۳۔۲۰۴﴾

حضرت عمرؓ  کا وہ واقعہ مشہور ہے کہ ایک مرتبہ جب انھوں نے خطبہ دیتے ہوئے لوگوں کو اپنی لڑکیوں کا نکاح کرتے وقت زیادہ مہر متعین کرنے سے منع کیاتو ایک عو رت نے انھیں برسرِ منبر ٹوکا اور کہا: ’’اے عمرؓ  ! جب اللہ تعالیٰ نے زیادہ مہر رکھنے سے نہیں روکا ہے تو آپؓ  کو اس کی تحدید کا کیوں کر حق حاصل ہے؟ یہ سن کر حضرت عمرؓ  نے اپنی بات سے رجوع کرلیا اور فرمایا:

امرأۃ أصابت ورجل أخطأ۔

’’ایک عورت نے صحیح بات کہی اورایک مرد نے غلطی کی‘‘۔     ﴿ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، دارطیبہ للنشر والتوزیع الریاض، ۱۴۲۰ھ،۲/۲۴۴﴾

ایک مرتبہ ایک شخص نے بھرے مجمع میں حضرت عمرؓ  کو مخاطب کرکے کہا: اے عمر! اللہ سے ڈرو۔ ساتھ ہی اور بہت کچھ کہا۔ حاضرین میں سے ایک شخص نے اسے روکا اور کہا: بس کرو، بہت ہوگیا۔ حضرت عمرؓ  نے فرمایا: اسے کہنے دو۔ اگر یہ لوگ نہ کہیں گے تو یہ بے مصرف ہیں اور ہم نہ مانیں گے تو ہم ‘‘۔ ﴿ابویوسف: کتاب الخراج، دارالمعرفۃ، بیروت، ص: ۱۲﴾

حکمرانوں کے خلاف خروج

اگر حکمراں احتساب وتنقید کے باوجود اپنی روش نہ بدلیں اور اصلاح قبول نہ کریں تو کیا ان کے خلاف مسلح بغاوت اور خروج جائز ہے؟ اس موضوع پر مسلم سیاسی فکر کے علمی سرمایے میں طویل بحثیں ملتی ہیں۔ ان کا خلاصہ علامہ ابن تیمیہؒ کے الفاظ میں یہ ہے:

’’اہل سنت کا مشہور مسلک یہ ہے کہ وہ حکمرانوں کے خلاف خروج اور ان سے مسلح جنگ کو جائز نہیں سمجھتے، خواہ ان سے ظلم کا ارتکاب ہورہا ہو، جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بہ کثرت مروی صحیح احادیث سے معلوم ہوتا ہے۔ اس لیے کہ ان کے خلاف جنگ کرنے سے جو فساد وفتنہ برپا ہوگا وہ اس فساد سے کہیں بڑھ کر ہوگا جو ان کے ظلم کے سبب اور ان سے جنگ نہ کرنے کی وجہ سے رونما ہورہا ہے‘‘۔ ﴿ابن تیمیہؒ، منہاج السنۃ النبویۃ، ۲/۸۷﴾

اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اقتدار پر قابض حکمراں جو کچھ بھی کرتے رہیں ان کے خلاف کسی کارروائی کی اجازت نہیں ہے۔ بنیادی بات فتنہ وفساد کا ازالہ ہے۔ چنانچہ اگر ظالم حکمرانوں کو ہٹاکر ایک صالح اور عدل پرور حکومت قائم کرنے کا قوی امکان موجود ہو اور اس کے لیے ضروری وسائل بھی فراہم ہوں تو خروج جائز ہے۔ لیکن اگر معاملہ مشتبہ ہو اور کامیابی کے امکانات واضح نہ ہوںتو علمائ وفقہائ نے مختلف طرز عمل اختیار کیے ہیں۔ اس موضوع پر بحث ایک مستقل مقالے کی متقاضی ہے۔

مشمولہ: شمارہ جولائی 2012

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223