سماجی خدمت کا جذبہ کئی طرح سے ظاہر ہوتا ہے۔کبھی قانونی مدد کے ذریعے، کبھی اپنی جیب سے ضرورت مندوں کی مالی مدد کرکے، کبھی اپنی طاقت اور صلاحیت کا استعمال کرکے اور کبھی معلومات و تجربات کی بنیاد پر رہ نمائی کرکے اور کبھی دوسروں کو توجہ دلاکر اور دوسروں سے رابطہ کراکے۔ خدمت کے ایسے تمام طریقے سماج کے حق میں بہت مفید ہوتے ہیں۔
قانونی مدد کی شان دار مثال
صحابہ کے بعد تابعین کا زمانہ تھا۔ مدینہ کے قاضی ابوبکر بن حزم تھے۔ ایک بار ایسا ہواکہ ایک دیہاتی شخص نے لوہے کی کچھ انگوٹھیاں چوری کرلیں۔ وہ پکڑا گیا، قاضی نے اسے قید کردیا اور اس کے ہاتھ کاٹنے کا فیصلہ کردیا۔ یہ خبر حضرت عائشہؓ کی شاگرد حضرت عمرہ بنت عبدالرحمٰن تک پہنچی، انھوں نے اپنی باندی امیہ کو قاضی کے پاس بھیجا۔ قاضی صاحب لوگوں کے درمیان براجمان تھے۔ باندی آئی اور ان سے کہا: تمھاری خالہ عمرہ نے پیغام بھیجا ہے کہ اے میرے بھانجے، تم نے ایک دیہاتی کو معمولی سی چیز چوری کرنے کے جرم میں گرفتار کرلیا ہے اور اس کا ہاتھ کاٹنے کا ارادہ رکھتے ہو، سنو ایک چوتھائی دینار سے کم کی چوری میں ہاتھ کاٹنے کی سزا نہیں دی جائے گی۔ قاضی ابوبکر نے حضرت عمرہ کی مداخلت کو قبول کیا اور اس شخص کو رہا کردیا۔ (موطا مالک)
حضرت عمرہؒ خانہ نشین خاتون تھیں۔ حضرت عائشہؓ کے بعد ان کا گھر علم کا مرکز تھا۔ ساتھ ہی وہ پورے شہر کی خبر بھی رکھتی تھیں۔ اس واقعہ میں جب انھیں معلوم ہوا کہ ایک شخص کو ناحق سخت سزا دی جائے گی تو وہ چین سے نہیں بیٹھیں اور اپنی باندی کو پیغام دے کر بھیجا۔ باندی بھی ان کی تربیت یافتہ تھی، اس نے پوری جرأت کے ساتھ سب کے بیچ قاضی صاحب کے سامنے ان کا پیغام سنایا۔ اور اس طرح ایک خاتون کی مداخلت سے ایک شخص ناحق سزا سے بچ گیا۔ یہ مسلم خواتین کے سماجی کردار کی شان دار مثال ہے۔
اسلام پسند خاتون معاشرے میں ہونے والی نا انصافیوں سے لاتعلق نہیں رہ سکتی ہے۔اسےاپنا سرگرم رول ادا کرنا چاہیے۔
اہل اختیار پر اثر اندازی
مظلوموں کو انصاف دلانے اور معصوموں کو ظلم سے بچانے کے لیے یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ مصلحین اہل اقتدار پر اثر انداز ہونے کی کوشش کریں۔ اگر اہل اقتدار کو یونہی چھوڑ دیا جائے اور ان کی بہتر ذہن سازی کی کوشش نہ کی جائے تو نتائج اچھے نہیں ہوسکتے ہیں۔ اسلامی تاریخ کے ابتدائی زمانے میں خواتین اس کام میں بھی پیچھےنہیں رہیں۔
حضرت عائشہؓ کی ایک خاص شاگرد حضرت بریرہؓ تھیں۔ حضرت عائشہؓ نے انھیں خرید کر آزاد کیا تھا اور علم کے زیور سے آراستہ کیا تھا۔عبدالملک بن مروان اموی بادشاہ تھا۔ تخت نشینی سے پہلے وہ مدینہ میں رہتا تھا۔ اس کا بیان ہے کہ میں بریرہؓ کے پاس (علم حاصل کرنے) بیٹھتا تھا۔وہ مجھ سے کہا کرتی تھیں: اے عبدالملک! میں تمھارے اندر ایسے اوصاف دیکھتی ہوں کہ لگتا ہے تم مسلمانوں کے حکم راں بنو گے۔میری تمھیں نصیحت ہے کہ اگر تمھیں اقتدار ملے تو خوں ریزی سے بچنا۔ میں نے اللہ کے رسول ﷺ کو کہتے سنا ہے: جس شخص نے کسی مسلمان کا ناحق تھوڑا سا خون بہایا ہوگا، اسے جنت دیکھ لینے کے بعد اس کے دروازے سے دھکیل کر دور کردیا جائے گا۔ (استیعاب)
یہ ہے ایک دین دار خاتون کا عظیم کردار۔ انھیں اس بات کی بڑی فکر تھی کہ اہل اقتدار درست روش اختیار کریں اور اس کے لیے انھوں نے اثر انداز ہونے کی ممکنہ کوشش بھی کی۔ عبدالملک پر ان کی نصیحتوں کا کتنا اثر ہوا، اس سے قطع نظر ہمارے لیے اہمیت حضرت بریرہؓ کے کردار کی ہے۔
مالی مدد میں پیچھے نہ رہیں
لوگوں نے یہ بات غلط مشہور کردی ہے کہ خواتین فضول خرچی تو بہت کرتی ہیں لیکن اللہ کے راستے میں خرچ کرنے میں کنجوس ہوتی ہیں۔ قرآن مجید میں مومن مردوں کے ساتھ مومن عورتوں کی یہ صفت بتائی ہے کہ وہ خوب صدقہ کرتی ہیں: وَالْمُتَصَدِّقِینَ وَالْمُتَصَدِّقَاتِ (سورة الاحزاب: ۳۵)
ام المومنین حضرت عائشہؓ کے بارے میں ان کے بھانجے حضرت عروہؓ بیان کرتے ہیں: سیدہ عائشہؓ کی شان سخاوت یہ تھی کہ ستّرستّر ہزار درہم (چاندی کے سکّے) تقسیم کردیتیں اور خود اپنی قمیص میں پیوند سی کر پہنتیں۔ (صفة الصفوة)
برزہ بنت رافع بیان کرتی ہیں کہ ام المومنین زینب بنت جحشؓ کو خلیفہ وقت حضرت عمرؓ نے ان کا حصہ بھیجا جو بارہ ہزار درہم (چاندی کے سکّے) پر مشتمل تھا۔ پہلے انھیں یقین نہیں آیا کہ یہ پورا ان کا حصہ ہے، لیکن جب انھیں بتایا گیا کہ یہ پورا انھی کا ہے تو اسے کپڑے سے ڈھانپ دیا اور برزہ بنت رافع سے کہا: اندر ہاتھ ڈال کر ایک ایک مٹھی بھرو اور فلاں اور فلاں یتیموں اور مسکینوں کو دے آؤ۔آخر میں برزہ نے کہا: اس میں ہمارا بھی تو حق بنتا ہے، انھوں نے کہا: جو باقی ہے وہ تمھارا، برزہ نے دیکھا تو پچاسی درہم بچے تھے۔ بعد میں حضرت عمرؓ کو معلوم ہوا تو وہ ان کے گھر آئے، دروازے پر سے سلام کیا اور کہا مجھے معلوم ہوا کہ آپ نے سارا مال تقسیم کردیا، یہ ایک ہزار درہم ہیں انھیں آپ اپنے خرچ کے لیے رکھ لیں۔ انھوں نے اسے بھی تقسیم کردیا۔ (صفة الصفوة)
ایمان کی دولت سے مالا مال خواتین میں اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا جذبہ اتنا سچا اور طاقت ور ہوتا ہے کہ وہ اپنی قیمتی چیزیں بھی دینے میں تردد نہیں کرتی ہیں۔ ایک مرتبہ اللہ کے رسول ﷺ نے خواتین کو راہ خدا میں خرچ کرنے کی ترغیب دی تو انھوں نے اپنے کانوں سے بُندے اور انگلیوں سے انگوٹھیاں اتار کر پیش کر دیں۔(صحیح مسلم)
ہندوستان کی مسلم خواتین نے بھی مختلف مواقع پر اپنے زیورات اتار کر پیش کیے۔ بی اماں کے تذکرے میں بھی یہ بات ملتی ہے کہ ان کی تقریریں سن کر عورتیں اپنے گہنے اتار کر دے دیا کرتی تھیں۔
مالی مدد حاصل کرنے میں مدد کرنا
اگر کسی شخص کی ضرورت پوری کرنے کے لیے آپ فکر مند تو ہیں لیکن اتنی استطاعت نہیں رکھتی ہیں کہ خود اس کی ضرورت پوری کرسکیں، تو دوسری شکل یہ ہے کہ آپ کسی صاحب استطاعت کو اس کی مدد کے لیے آمادہ کریں۔
بلکہ صحیح بات یہ ہے کہ بڑے پیمانے پر لوگوں کی ضرورتیں پوری کرنے کا منصوبہ اسی وقت پایہ تکمیل تک پہنچ سکے گا جب آپ بہت سے لوگوں کو اس مشن میں شریک کرلیں۔
اجتماعی تعاون کی صورتیں
خواتین کا ایک بڑا گروپ مل کر اجتماعی بیت المال تشکیل دے سکتا ہے۔ گروپ کی تمام خواتین اس میں پابندی سے اعانت جمع کرتی رہیں تو بڑی رقم اکٹھا ہوجائے گی۔ اس رقم سے غریب اور ضرورت مند خواتین کی فلاح و بہبود کے بہتیرے کام کیے جاسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر سلائی سینٹر کھول کر عورتوں کو سلائی کا کام سکھایا جائے اور پھر اسی سینٹر سے غریب خاندانوں کو سلے ہوئے کپڑے سستے داموں میں فراہم کیے جائیں۔
موجودہ زمانے میں علاج مہنگا ہوگیا ہے، بعض بیماریوں یا حادثات میں علاج کے لیے درکار رقم عام آدمی کی استطاعت سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں ایک صورت یہ ہوسکتی ہے کہ ہر محلے کی خواتین آپس میں نیٹ ورک تشکیل دیں اور محلے کے غیر مستطیع لوگوں کے علاج کے لیے بروقت رقم جمع کرکے ان کی مدد کر دیا کریں۔ سوشل میڈیا کی سہولتوں نے اس طرح کے گروپوں کی تشکیل آسان کردی ہے۔
کراؤڈ فنڈنگ کی صورت
جدید دور میں ضرورت مندوں کی مدد کرنے کا ایک نتیجہ خیز طریقہ کراؤڈ فنڈنگ کا ہے۔ اس طریقے میں معتبر اشخاص کی طرف سے میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے بڑے پیمانے پر کسی شخص کی ضرورت کی اطلاع دی جاتی ہے اور کسی ایک اکاؤنٹ میں جو عام طور سے ضرورت مند شخص کا ہی ہوتا ہے۔لوگ چھوٹی بڑی رقمیں بھیج دیتے ہیں اور ایک بڑی رقم جمع ہوجاتی ہے۔ اس کا ایک عصری طریقہ یہ ہے کہ ملک کے قوانین کو پیش نظر رکھتے ہوئے ایک ویب پورٹل بنایا جاتا ہے اور اس میں مختلف ضرورت مندوں کے لیے عمومی اعانت کا اعلان کیا جاتا ہے۔ پہلے سے طے شدہ مقدار میں فنڈ جمع ہوجانے کے بعد ویب سائٹ پر اس سلسلے کو روک دینے کا اعلان کردیا جاتا ہے۔ خواتین کے لیے یہ کام بہت آسان ہے۔ وہ گھر بیٹھے بڑے پیمانے پر اسے انجام دے سکتی ہیں۔
ایک مسلم خاتون کی ایک دل چسپ مثال
کراؤڈ فنڈنگ کی ایک مشہور ویب سائٹ پر درج ذیل اعلان نے مجھے اپنی طرف متوجہ کیا:
“میری مدد کریں تاکہ میں ایک مسلم خاتون کی مالی اعانت کرسکوں جو روزانہ قریب چار سو بلیوں اور کتوں کو کھانا کھلاتی ہے۔”
اس سرخی کے نیچے تفصیل کچھ اس طرح تھی:
“لاک ڈاؤن شروع ہونے کے بعد، میں اور میرے دوستوں نے شام کو ٹہلنا شروع کیا۔ ہم اپنے علاقے کی سڑکوں پر ٹہلا کرتے تھے۔ ہم نے نوٹس کیا کہ ہر شام کو ایک عورت سڑکوں پر پھرتے جانوروں کو کھانا کھلاتی ہے۔ ہم ایک دن اس کے پاس گئے، اس نے بتایا کہ کوویڈ شروع ہونے کے بعد ہی سے اس نے یہ کام شروع کیا ہے۔ اس کی ملازمت ختم ہوگئی ہے اور اس نے اپنا سارا سرمایہ ان جانوروں کو کھانا کھلانے میں لگادیا ہے۔ تقریبًا بیس کلو کھانا لے کروہ روزانہ شام میں پندرہ کلومیٹر پیدل چلتی ہے۔ ہم نے دیکھا کہ وہ رمضان کے مہینے میں بھی یہ کام کر رہی ہے۔ وہ مسلمان ہے اور تمام جانوروں کو کھانا کھلانے کے بعد خود افطار کرتی ہے۔ اس نے قریب بیس بلیاں پال رکھی ہیں۔ وہ کرایے کے مکان میں رہتی ہے، اس کےپڑوسی اس کے لیے بہت زیادہ دشواریاں کھڑی کرتے ہیں۔ وہ مضبوط اعصاب کی عورت ہے، اورخود کو ان لوگوں کی حوصلہ شکنی کا شکار نہیں ہونے دیتی ہے۔ میں نے اور میرے دوستوں نے اس کے لیے رقم جمع کرنے کی کوشش کی مگر وہ رقم اس کام کے لیے کافی نہیں ہے۔ اس لیے ہم مزید مدد چاہتے ہیں۔”
https://www.ketto.org/fundraiser/help-me-fund-a-muslim-woman-who-feeds-around-400-dogs-and-cats-everyday
اس مثال سے یہاں یہ بتانا مقصود ہے کہ سماجی خدمت کا شوق پورا کرنے کے لیے کیا کیا راہیں نکل سکتی ہیں۔کوویڈ کے زمانے میں جب کہ باہر پھرنے والے جانوروں کی حالت واقعی قابل رحم تھی، اس عورت کے دل میں شوق پیدا ہوا جانوروں کو کھانا کھلانے کا، اور پھر اسے دیکھنے والوں کے دل میں شوق پیدا ہوا اس عورت کی مدد کرنے اور اس کے لیے کراؤڈ فنڈنگ کی مہم چھیڑنے کا۔ سماجی خدمت کی یہ خصوصیت اہم ہے کہ اس میں چراغ سے چراغ جلتے ہیں۔
سماجی خدمت بذریعہ ہنرمندی
لوگوں کے کام آنے والے ہنر اور صلاحیتیں بھی سماجی خدمت کے میدان میں بہت اہمیت رکھتی ہیں۔ خواتین کو چاہیے کہ اپنے اندر وہ ہنر پیدا کریں جو دوسروں کے لیے نفع بخش ہوں اور ضرورت مندوں کے کام آئیں۔
مدینہ منورہ میں حضرت رفیدہ اسلمیہؓ ایک خاتون تھیں، وہ طب اور نرسنگ میں مہارت رکھتی تھیں۔ مسجد نبوی میں ان کا خیمہ تھا جہاں وہ مریضوں کا علاج اور زخمیوں کی مرہم پٹی کیا کرتی تھیں۔ اس کے علاوہ یتیم بچوں کی رضاکارانہ پرورش بھی ان کا خاص مشغلہ تھا۔ انھیں اسلای تاریخ میں ایک ممتاز سماجی کارکن کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے۔ (تاریخ طبری)
بالواسطہ سماجی خدمت
سماجی خدمت کا ایک طریقہ یہ ہے کہ دوسروں سے کہہ کر ضرورت مندوں کی ضرورتیں پوری کی جائیں، اصحاب اقتدار و اختیار سے قریب لوگوں کے لیے یہ آسان ہوتا ہے، تاریخ میں شاہی محلوں میں رہنے والی ایسی خواتین کا ذکر ملتا ہے جو لوگوں کی حاجت روائی کا ذریعہ بنتی تھیں۔
خناثہ بنت بکار المغافری مراکش کے سلطان اسماعیل کی بیوی تھیں، ان کی خوبیوں کا تذکرہ پڑھتے ہوئے معلوم ہوتا ہے کہ وہ دین واخلاق اور عقل و دانش کے پہلو سے بہت ممتاز خاتون تھیں۔ مورخین کے بقول وہ سلطان کو رعایا کے سلسلے میں توجہ دلایا کرتیں، سلطان کو مسلسل بھلائی کے کاموں پر اکسایا کرتیں، اور لوگوں کی ضرورتیں سلطان سے کہہ کر پوری کراتیں۔ ان کے دروازے پر حاجت مندوں کا جمگھٹا لگا رہتا۔ (أعلام النساء)
دورِ حاضر میں بالواسطہ سماجی خدمت کی بہت سی نئی راہیں کھل گئی ہیں۔
بہت سے لوگوں کی ضرورتیں سرکاری اسکیموں سے پوری ہوسکتی ہیں، لیکن انھیں اس کا علم نہیں ہوتا۔ تعلیم یافتہ اور سماجی خدمت کا تجربہ رکھنے والی خواتین ان اسکیموں سے فائدہ اٹھانے میں ان کی مددگار ہوسکتی ہیں۔
لوگوں کے مسائل حل کرنے کے لیے مختلف این جی اوبھی کام کررہی ہیں۔ سماجی خدمت کا شوق رکھنے والی خواتین مسائل سے دوچار لوگوں اور ان این جی او میں رابطہ قائم کرنے میں مدد کرسکتی ہیں۔
اس سے آگے بڑھ کر مسلم خواتین خود مختلف قسم کی این جی او اور سماجی خدمت کے ادارے قائم کرسکتی ہیں۔ وہ ان کے ذریعے دیانت داری اور حسن کار کردگی کی اچھی مثالیں بھی پیش کرسکتی ہیں۔
کونسلنگ: سماجی خدمت کا انوکھا عصری طریقہ
سماجی خدمت کا ایک اہم شعبہ کونسلنگ بھی ہے۔ کونسلنگ ذہن سازی کا وہ عمل ہے، جس کے ذریعے آدمی اپنا مسئلہ خود حل کرنے کے قابل ہوجاتا ہے۔ کونسلنگ کی کئی قسمیں ہیں: فیملی کونسلنگ، بچوں کی تعلیمی و تربیتی کونسلنگ، بوڑھوں کی کونسلنگ، نفسیاتی مریضوں کی کونسلنگ، حوصلہ بخش زندگی گزارنے کا لیے آرٹ آف لائف کی کونسلنگ وغیرہ۔
اسی طرح تجارت کو ترقی دینے کے لیے، زراعت کے نتائج بہتر بنانے کے لیے، کسی ادارے میں ملازموں کی کارکردگی بہتر بنانے کے لیے اور امور خانہ داری بہتر طریقے سے انجام دینے کے لیے کونسلنگ وغیرہ۔
کونسلنگ کے میدان میں مسلم خواتین گراں قدر خدمات انجام دے سکتی ہیں۔ یہ سماجی خدمت کی ایک اہم جہت ہے۔
روایتی طریقوں کا عصری متبادل تلاش کریں
سماجی خدمت کی بعض صورتیں ایسی ہیں جنھیں آج لوگ قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھتے، لیکن حقیقت میں وہ بڑی قابل قدر ہوتی ہیں۔ جیسے:
رشتہ لگانے والی خواتین
تجہیز و تکفین کا کام انجام دینے والی خواتین
دایہ (رضاعت) کی خدمات پیش کرنے والی خواتین
جدید طرزِ زندگی نے انسان کو جن نعمتوں سے محروم کیا ہے، ان میں یہ خدمات بھی ہیں جو روایتی طرزِ زندگی میں آسانی سے ہر ایک کو حاصل ہوجایا کرتی تھیں۔جدید طرزِ زندگی میں سماجی رابطوں کے کم زور ہوجانے کے سبب ان کا حصول قدرے مشکل ہوگیا ہے۔ البتہ ویب پورٹل اور سوشل میڈیا کے راستے سے ان کے متبادل پیش کرنے کے تجربات بھی ہو رہے ہیں۔ مسلم خواتین کو اسلامی قدروں کی پاس داری کرتے ہوئے ان تجربات میں شامل ہونا چاہیے۔
سماجی خدمت کے درخشاں ستارے
عام طور سے سمجھا جاتا ہے کہ خواتین کی خدمتِ خلق کا دائرہ ان کے گھر اور پڑوس تک محدود ہے۔ سماجی خدمت ان کا میدان نہیں ہے۔ لیکن اسلامی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جب جب خواتین کو موقع ملا، انھوں نے نمایاں سماجی خدمات انجام دیں۔
اسلامی تاریخ کی نام ور خواتین کی جو فہرستیں تیار کی گئی ہیں، ان میں بہت بڑی تعداد ان خواتین کی ہے جنھوں نے سماج کی فلاح و بہبود کے لیے خدمات انجام دیں۔ اسلامی دنیا میں خیر کے کاموں کے لیے وقف کی جانے والی جائیدادوں میں بڑی تعداد ان جائیدادوں کی ہے جو مختلف زمانوں اور علاقوں کی خواتین نے وقف کیں۔
عباسی سلطنت کے آغاز میں ایک بہت مشہور نام خلیفہ ہارون رشید کی بیوی زبیدہ کا ہے۔ وہ غریبوں پر سخاوت اور اہل علم کی سرپرستی میں پیش پیش رہتیں۔ وہ حج کے سفر پر نکلیں تو دولت کا بڑا خزانہ ساتھ تھا۔ مکہ میں حاجیوں کو پانی کی پریشانی ہوتی تھی۔ انھوں نے ہر قیمت پر حاجیوں کے لیے کنویں اور ایک لمبی نہر کھدوانے کا حکم جاری کیا۔ سخت چٹانوں والی زمین میں اس منصوبے کو انجام دینا نہایت مشکل اور بہت زیادہ خرچ طلب تھا، لیکن اللہ کی توفیق سے وہ پایہ تکمیل کو پہنچا۔ اس کے بعد سے قریب کے زمانے تک مکہ کےباشندے اور وہاں جانے والے حاجی سیدہ زبیدہ کے اس انتظام سے فیض اٹھاتے رہے۔ سیدہ زبیدہ نے مکہ و مدینہ کے علاوہ حاجیوں کے مختلف راستوں میں بھی کنویں کھدوائے اور مسافر خانے تعمیر کرائے۔ (تاریخ بغداد)
عباسی سلطنت کے آخری دور میں خلیفہ ناصر لدین اللہ کی والدہ زمرد خاتون کا نام نمایاں نظر آتا ہے۔ کنویں، تالاب ہوں، مسجدیں، مدارس اور مسافر خانے ہوں، زمرد خاتون کے فلاحی منصوبوں میں یہ سب شامل تھے۔ وہ یہ کام اپنی راست نگرانی میں کراتیں۔ وہ بہت زیادہ مخیر خاتون تھیں۔ بغداد کے لوگوں پر ان کے احسانات بہت زیادہ تھے۔ وہ گھرگھر کی خبر رکھتیں اور ضرورت مندوں پر دل کھول کر خرچ کرتیں۔ ان کی وفات پر پورا بغداد غم میں ڈوب گیا۔(مرآة الزمان)
قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ تعمیرات سے لے کر تقررات تک کے تمام اہم کاموں کی وہ براہ راست نگرانی کرتیں۔ مساجد کے لیے بہترین ائمہ اور مدارس کے لیے بہترین اساتذہ کا انتخاب کرتیں۔
ان دونوں کے علاوہ بھی تاریخ کے صفحات میں بہت سی خواتین کے نام ملتے ہیں، جنھیں دولت ملی تو انھوں نے اسے سماجی خدمت میں صرف کیا۔ مدرسے، مسجدیں اور مسافر خانے تعمیر کرائے۔ پرانی عمارتوں کی مرمت کروائی۔ اہل علم کی سرپرستی کی۔ علمی کاموں کی کفالت کا ذمہ لیا۔ اور ان کاموں کے لیے بڑی بڑی جائیدادیں وقف کیں۔
بڑے سماجی منصوبوں کے لیے اقتدار کی پشت پناہی ضروری نہیں ہے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ عام فرد کا لگایا ہوا پودا وہ برگ و بار لاتا ہے کہ شاہان و سلاطین رشک کرتے ہیں، اور اس میں اپنی شرکت کو باعث فخر جانتے ہیں۔ ایسا ہی ایک کارنامہ شمالی افریقہ کی دو بہنوں نے انجام دیا۔
مراکش کے شہر فاس میں ایک یونیورسٹی ہے جس کا نام جامعة قرویین ہے۔ جب یہ بات آتی ہے کہ اعلیٰ تعلیم کے لیے دنیا کی قدیم ترین یونیورسٹی کون سی ہے، تو ایک نام جامعہ قرویین کا بھی پیش کیا جاتا ہے۔ اعلی تعلیم کے اس قدیم ادارے میں یوروپ کے بڑے پادری بھی زیر تعلیم رہے اور عالم اسلام کے بعض چوٹی کے علما بھی یہاں سے وابستہ رہے،جیسے علامہ ابن العربی، علامہ ابن حزم، علامہ ابن رشد اور علامہ ابن خلدون۔ اس جامعہ کی تاریخ یہ ہے کہ قیروان کےایک فقیہ محمد بن عبداللہ الفہری نے اپنے پیچھے اپنی دو بیٹیوں مریم اور فاطمہ کے لیے بڑی دولت چھوڑی۔ مریم اور فاطمہ دونوں بہنوں نے طے کیا کہ اپنی زمین پر خاص اپنی رقم سے ایک بڑی مسجد تعمیر کریں گی۔ جب مسجد کی تعمیر مکمل ہوئی تو انھوں نے اسے ایک بڑی درس گاہ کی شکل دی اور اس وقت کے تمام علوم کی تعلیم کا نظام شروع کیا۔
شہر فاس کی تاریخ بیان کرتے ہوئے ایک جگہ علامہ ابن خلدون لکھتے ہیں: “خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ قیروان کے باشندوں میں سے ایک خاتون شہر فاس میں آکر بس گئی۔ اس کے گھر والوں سے اسے وراثت میں بڑی دولت ملی تھی، اس نے عزم کیا کہ وہ اس دولت کو خیر کے راستے میں خرچ کرے گی۔ اس نے ایک جامع مسجد کا نقشہ بنایا۔ اس کے صحن میں لوگوں کے پینے کے لیے کنواں کھدوایا۔ اس طرح اس نے گویا اپنے بعد آنے والے بادشاہوں کے عزائم کو جلا بخش دی۔”( تاریخ ابن خلدون)
ابن خلدون کا یہ جملہ بڑا معنی خیز ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جو عمارت فاطمہ فہری اور مریم فہری نے اپنی ذاتی دولت سے کھڑی کی تھی، بعد میں آنے والے حکم رانوں اور سلاطین نے اس کی توسیع و ترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور یہ درس گاہ اعلیٰ تعلیم کی قدیم ترین درس گاہ شمار ہوئی۔
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ سماجی خدمت کے لیے بہت زیادہ مال دار ہونا ضروری نہیں ہے، جذبہ صادق ہو تو بہت سی راہیں نکلتی ہیں۔
حضرت سہل بن سعدؓ ایک خاتون کا ذکر کرتے ہیں۔ وہ ہر بدھ کے روز اپنے کھیت میں ساگ بوتیں، اور جمعے کے دن اسے جڑ کے ساتھ اکھاڑ لیتیں، اسے ایک پتیلی میں ڈالتیں، اوپر سے ایک مٹھی جو ڈالتیں اور گھونٹ دیتیں۔ جب ہم لوگ جمعہ کی نماز پڑھ کر نکلتے تو راستے میں اس خاتون کا گھر پڑتا، ہم انھیں سلام کرتے، وہ اپنا بنایا ہوا وہ کھانا ہمارے قریب کردیتیں اور ہم اسے چٹ کرجاتے۔ ان کے اس کھانے کے لیے ہم جمعہ کے دن کا انتظار کیا کرتے۔ (فتح الباری)
جمعے کے لیے دور دور سے آنے والے نمازیوں کے لیے ہلکے پھلکے کھانے کا مفت انتظام کیا جائے، یہ خیال اگر کسی خاتون کے دل میں آتا ہے، تو اس کے سماجی خدمت کے جذبے کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔
ہندوستانی خواتین میں سماجی خدمت کی روایت
ہندوستان میں ایک طرف وہ سماجی خدمات ہیں جو محل میں رہتے ہوئے اورسرکاری خزانے کی مدد سے انجام دی گئیں، اس حوالے سے ہمیں بہت سے نام ملتے ہیں، ہم یہاں چند خواتین کا تذکرہ کریں گے۔
جہاں آرا بیگم شاہ جہاں کی بیٹی تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے وقت کی سب سے دولت مند خاتون تھیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ وہ اپنی ساری دولت بھلائی کے کاموں میں خرچ کیا کرتی تھیں۔آگرہ کی جامع مسجد ان کے پاکیزہ شوق کی بہترین مثال ہے۔ ہندوستان کے غریب عوام سے لے کر مکہ میں جمع ہونے والے حاجیوں تک سب ان کی فیاضی سے بہرہ مند ہوتے تھے۔اس کے علاوہ انھیں تصنیف و تالیف سے بھی دل چسپی تھی۔ ان کی کتاب مونس الارواح چشتی مشایخ کی تاریخ کا اہم ماخذ مانی جاتی ہے۔امور سلطنت میں بھی ان کا بڑا دخل تھا۔ شاہ جہاں ان سےخاص طور سے مشورے لیا کرتا تھا۔
نواب شاہ جہاں بیگم (وفات: ۱۹۰۱ء) بھوپال کی نواب تھیں، دینی علوم میں مہارت اور امور ریاست پر عبور رکھتی تھیں۔ ذہانت، قوت حافظہ اور جود و سخاوت میں وہ ضرب المثل تھیں۔ بھوپال کی تاج المساجد اور مدرسہ جہانگیریہ ا ن کی یادگار ہیں۔ قرآن مجید اور دینی کتابوں کی طباعت و اشاعت کے لیے مطبع شاہجہانی قائم کیا۔نواب شاہجہاں بیگم کی دینی خدمات کا دائرہ ریاست بھوپال سے نکل کر عرب اور انگلستان تک پھیلا ہوا تھا۔ہندوستان سے حجاز تک کے غربا ومساکین کی امداد پرخاص توجہ دی۔ ریاست بھر میں مساجد اور شفاخانوں کا جال بچھادیا اور ان کے بہتر انتظام پر توجہ دی۔
نواب سلطان کیخسرو جہاں بیگم (وفات: ۱۹۳۰ء) بھوپال کی آخری خاتون نواب تھیں، انھوں نے تحصیل علم کے بلند مقامات طے کیے، فارسی کے ساتھ انگریزی زبان بھی سیکھی۔تصنیف و تالیف اور خطابت پر بھی دست رس تھی، وہ چالیس سے زائد کتابوں کی مصنفہ تھیں۔ ذہانت وفطانت، حسن معاملہ اور نرمی ان کی خاص صفات تھیں۔ اپنے دور میں انھوں نے ریاست کی فلاح و بہبود پر خاص توجہ دی۔ اس کے علاوہ علم کی نشر و اشاعت ان کا خاص شوق تھا۔ بہت سے تعلیمی منصوبوں اور تصنیفی پروگراموں کی انھوں نے مالی سرپرستی کی۔ علامہ شبلیؒ کی شہرہ آفاق کتاب سیرت النبی کی تیاری میں ان کے مالی تعاون کا خاص کردار رہا۔وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی پہلی خاتون چانسلر منتخب ہوئیں اور تاحیات اس کی چانسلر رہیں۔ انھوں نے سرسید کی تعلیمی تحریک کا کھل کرتعاون کیا اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے تعمیراتی منصوبوں میں بڑھ کر حصہ لیا۔
یہ تین مثالیں ہیں، ان کے علاوہ بھی کئی ایسی خواتین کے نام ملتے ہیں جنھیں اقتدار حاصل ہوا اور انھوں نے رفاہ عامہ کے لیے قابل قدر خدمات انجام دیں۔
دوسری طرف ہم ان خواتین کا تذکرہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں، جن کے پاس اقتدار نہیں تھا، وہ ہندوستان کے مسلم سماج کی عام خواتین تھیں، لیکن انھوں نے سماجی خدمت کا بیڑا اٹھایا اور تبدیلی کی شان دار تاریخ رقم کی۔
پونے کی فاطمہ شیخ
فاطمہ شیخ ۱۸۳۱ ءمیں پونے میں پیدا ہوئیں۔ انھیں ہندوستان کی پہلی مسلم خاتون ٹیچر ہونے کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے۔ اسی زمانے میں جیوتی راؤ پھلے اور ساوتری بائی پھلے نے پس ماندہ ذاتوں کو تعلیم دلانے کی تحریک شروع کی۔ انھیں سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا اور ان کی برادری کے لوگوں نے انھیں گھر سے نکال دیا۔ فاطمہ شیخ نے اپنے بھائی عثمان شیخ کے ساتھ مل کر ان کے لیے اپنے گھر کے دروازے کھول دیے اور انھیں بھرپور تعاون دیا۔ انھوں نے مل کر لڑکیوں کے ایک اسکول کا آغاز کیا۔ ستیہ شودھک سماج تحریک کے ذریعے انھوں نے گھر گھر جاکر پس ماندہ برادریوں کی عورتوں کو تعلیم حاصل کرنے کے لیے آمادہ کیا۔ اس راستے میں انھیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ دھمکیاں بھی ملتی رہیں اور اذیتیں بھی پہنچتی رہیں، مگر وہ اپنے مشن پر قائم رہیں۔
فاطمہ شیخ کے کردار میں مسلم خواتین کے لیے ایک اہم سبق یہ ہے کہ انھوں نے مسلمانوں کے اپنے مسائل سے اور آگے بڑھ کر ہندوستان کی پس ماندہ ذاتوں کے مسائل کے حل کے لیے تاریخی جدوجہد کی۔ دوسرا اہم سبق یہ ہے کہ انھوں نے غیر مسلم خواتین کے ساتھ مل کر اس تاریخی تحریک میں ناقابل فراموش عملی کردار ادا کیا۔
کلکتہ کی رقیہ بیگم
ملک کے مغربی حصے میں فاطمہ شیخ نے سماجی خدمت کی بہترین مثال قائم کی تو ملک کے مشرقی حصے یعنی بنگال میں رقیہ بیگم نے شان دار نظیر قائم کی۔ وہ ۱۸۸۰ ءمیں بنگال میں پیدا ہوئیں۔
رقیہ کے والد لڑکیوں کی تعلیم کے سلسلے میں شدید قسم کے روایت پسند تھے۔ وہ اپنی لڑکیوں کو اسکول میں تعلیم دلانے کے سخت خلاف تھے۔ جب کہ ان کی لڑکیوں میں تعلیم حاصل کرنے کا شوق جنون کی حد تک پہنچا ہوا تھا۔ رقیہ اور ان کی بہن دونوں اپنے بڑے بھائی سے رات میں چپکے سے انگریزی اور بنگالی زبان سیکھتی رہیں۔
سولہ سال کی عمر میں ان کی شادی ہوئی، ان کے شوہر سخاوت حسین ڈپٹی مجسٹڑیٹ تھے۔ وہ ان کے ساتھ کٹک چلی گئیں، وہاں برہمو سماج کے سادھو چرن رائے کی بیوی ریبا رائے حقوق نسواں کی تحریک چلارہی تھیں، رقیہ بیگم ان سے متاثر ہوکر اس تحریک سے وابستہ ہوگئیں۔ اور مسلمان عورتوں میں تعلیمی بیداری کی مہم چھیڑ دی۔ ان کے شوہر نے ان کی بھرپور حوصلہ افزائی اور مدد کی۔ شوہر کی وفات کے بعد وہ تن من دھن سے سماجی خدمت میں لگ گئیں۔کلکتہ میں انھوں نے لڑکیوں کی تعلیم کے لیے سخاوت میموریل گرلز اسکول قائم کیا۔ اس کے بعد آل بنگال مسلم لیڈیز ایسوسی ایشن تشکیل دی جس نے بنگال میں غریب بچوں کے لیے کئی اسکول قائم کیے۔
رقیہ بیگم نے ایک طرف لڑکیوں کی تعلیم کے لیے اسکول کھولنے کی مہم چھیڑی تو دوسری طرف لڑکیوں میں تحریک چلائی کہ وہ اسکولوں میں داخلہ لیں۔ ان کی کوششوں سے بہت سی عورتوں میں سماجی خدمت کا جذبہ پیدا ہوا۔
تحریک اسلامی سے وابستہ خواتین
ہندوستان کے طول و عرض میں تحریک اسلامی سے وابستہ ایسی متعددخواتین ہیں جو مقامی سطح پر مختلف قسم کی سماجی خدمات انجام دے رہی ہیں۔
حیدرآباد تلنگانہ میں امومت سوسائٹی ہے، خالدہ پروین صاحبہ اس کی روح رواں ہیں۔ امومت سوسائٹی خواتین کی کونسلنگ کرتی ہے، خاندانی تنازعات کو سلجھانے کا کام کرتی ہے۔ خواتین کوروزگار سے جوڑنے کا کام بھی کرتی ہے۔ شہر حیدرآباد میں سماجی خدمات کے لیے امومت سوسائٹی اور خالدہ پروین صاحبہ کی اچھی پہچان ہے۔
وانمباڑی، تامل ناڈو کی امة الوحید فاخرہ ایک این جی او کی صدر ہیں۔ اس این جی او کا نام سہیلیاں ہے۔ اس کے تحت خواتین کو مختلف صنعتی اور تجارتی پروگرواموں میں شامل کرکے روزگار فراہم کیا جاتا ہے، اس کے لیے باقاعدہ ٹریننگ دی جاتی ہے۔ یہ این جی او میرج بیورو اور میرج کونسلنگ کے کام بھی انجام دیتی ہے۔ اس کے علاوہ مائیکرو فائینانس بھی اس کے کاموں میں شامل ہے۔
کرناٹک میں فارورڈ ٹرسٹ (Forum for Women’s Action For Rights and Dignity) ایک فعال این جی او ہے جو ریاست میں خواتین پر ہونے والے مظالم کے خلاف ایکشن لیتی ہے، قانونی چارہ جوئی کرتی ہے اور متاثرہ خواتین کی کونسلنگ انجام دیتی ہے۔ ناسازگار حالات کی وجہ سے خواتین ڈپریشن کا شکار ہوجاتی ہیں، یہ این جی او ان کی مدد کرتی ہے۔ گھریلو تشدد کے معاملات کو نپٹانے میں بھی اس کااچھا رول ہے۔متعدد تحریکی خواتین اس ٹرسٹ سے وابستہ ہوکر سماجی خدمت کا کام انجام دیتی ہیں۔
کیرلا میں ونگس (Women’s Initiative to Nurture Growth of Society) کے نام سے پروفیشنل خواتین کی سرگرم این جی او ہے۔ تعلیمی بیداری مہم، طبی کیمپ، قانونی آگہی، معذوروں کی داد رسی وغیرہ اس کے اہم کام ہیں جو پوری ریاست میں انجام دیے جاتے ہیں۔ مختلف میدانوں سے تعلق رکھنے والی بڑی تعداد میں پروفیشنل خواتین کی موجودگی نے ونگس کی افادیت بہت بڑھادی ہے۔
دہلی میں ٹویٹ (The Women Education and Empowerment Trust) کے نام سے ایک این جی او قائم ہوئی ہے، جس نے اگست ۲۰۲۲ تا جولائی ۲۰۲۳ تک خواتین میں ایک سالہ تعلیمی بیداری مہم شروع کی ہے۔ دس ہزار رضاکار خواتین کے ذریعے ایک لاکھ خواتین کو تعلیم یافتہ بنانے کا پر عزم نشانہ طے کیا گیا ہے۔
یہ چند مثالیں منظم کوششوں کی ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سی خواتین انفرادی غیر منظم کوششیں انجام دیتی ہیں۔
سماجی خدمت کا ذاتی منصوبہ بنائیں
یہ کچھ مختصر مشورے ہیں، جن کو سامنے رکھ کر ہر خاتون سماجی خدمت کا ذاتی منصوبہ بناسکتی ہے۔
سماجی کاموں میں دل چسپی لیں۔
سوشل ورک کا طویل المدت یا مختصر مدتی کورس کریں۔
مختلف امور سے متعلق کونسلنگ کا کورس کریں۔
خواتین کے کام آنے والے بعض ہنرباقاعدہ سیکھیں، اور اسے دوسری خواتین کو سکھانے کے لائق بنیں۔جیسے ، ٹیلرنگ سیکھ کر اس کی تعلیم دینا۔
بعض خواتین قانون کی تعلیم حاصل کرکے اچھی قانون داں بنیں۔
بعض خواتین نفسیات کی اعلی تعلیم حاصل کرکے ماہر نفسیات بنیں۔
سماجی خدمت کےحوالے سے مقامی خواتین کا نیٹ ورک بنائیں۔
سماجی خدمت کا کام کرنے والی خواتین کی مدد کریں اور ان کا حوصلہ بڑھائیں۔
سماجی خدمت میں کام کرنے والی این جی او میں شامل ہوکر سماجی خدمت کا تجربہ حاصل کریں۔
مشمولہ: شمارہ نومبر 2022