بڑھتی بے حیائی کے خلاف

بڑی مہم کی ضرورت

اخلاق انسانیت کا زیور ہیں

انسان اپنی شرم گاہ کو ڈھانپنے کے لیے لباس پہنتا ہے۔ انسان جنسی عمل کو پردے میں انجام دیتا ہے۔ انسان اپنی عفت مآبی کے لیے فکر مند رہتا ہے۔ انسان کے ساتھ جنسی زیادتی بڑا جرم تصور کی جاتی ہے۔ یہ سب انسان کی خصوصیات ہیں کوئی اور جانور ان میں شریک نہیں ہے۔

اللہ تعالی نے انسان کو عزت و تکریم سے نوازا۔ عزت و تکریم کے مظاہر میں حسنِ اخلاق، عدل وانصاف، شرم وحیا، عفت و عصمت اور لباس و حجاب سب شامل ہیں۔ انسان معزّز و مکرّم ہے اس لیے یہ سب اس کی فطرت کا حصہ ہیں۔

ذیل کی دونوں آیتیں ساتھ پڑھیں تو تصویر واضح ہوجاتی ہے:

وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِی آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُمْ مِنَ الطَّیبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى كَثِیرٍ مِمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیلًا.[الإسراء: 70]

(اور ہم نے آدم کی اولاد کوخوب عزت بخشی اور ان کو خشکی اور تری میں سواری دی اور پاکیزہ روزی عطا کی اور اپنی بہت سی مخلوقات پر بڑی فضیلت دی)

یابَنِی آدَمَ قَدْ أَنْزَلْنَا عَلَیكُمْ لِبَاسًا یوَارِی سَوْآتِكُمْ وَرِیشًا وَلِبَاسُ التَّقْوَى ذَلِكَ خَیرٌ ذَلِكَ مِنْ آیاتِ اللَّهِ لَعَلَّهُمْ یذَّكَّرُونَ . [الأعراف: 26]

(اے آدم کی اولاد، ہم نے تم پر لباس نازل کیا ہے کہ تمھارے جسم کی شرم گاہوں کوچھپائے اور تمھارے لیے زینت کا ذریعہ بھی ہو، اور بہترین لباس تقویٰ کا لباس ہے یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے، شاید کہ لوگ اس سے سبق لیں)

لباس اور پردہ انسان کے ساتھ خاص ہے۔ تمام جان داروں میں صرف انسان ہے جو لباس کا استعمال کرتا ہے،کوئی جانور لباس کا استعمال نہیں کرتا ہے۔ جنسی عمل کی پردہ داری انسان کی خصوصیت ہے، کوئی اور جانور اس خصوصیت میں شامل نہیں ہے۔

جانوروں کا لباس کے بغیر گھومنا بے حیائی نہیں ہے، انسان کا بے لباس ہوجانا بے حیائی ہے۔ جانوروں کا سرِ عام جنسی عمل انجام دینا فحاشی نہیں ہے، لیکن انسان اگر ایسا کرتا ہے تو یہ صریح طور پر فحاشی ہے۔

آج انسانی دنیا میں بے حیائی اور فحاشی کی گندی ہوائیں چل رہی ہیں۔ یہ زہرناک ہوائیں انسان کو لباس وحجاب کے تصور سے اور شرم و حیا کے احساس سے عاری کردینے کے درپے ہیں۔

بے حیائی کے علم بردار شرم و حیا اور لباس وحجاب کو اس طرح پیش کرتے ہیں گویا وہ انسانوں کے اپنے بنائے ہوئے بندھن ہیں جن سے اسے آزاد ہوجانا چاہیے۔

وہ انسانوں کو یہ باور کراتے ہیں کہ انہیں کو ان بے جا پابندیوں کے ساتھ نہیں جینا چاہیے۔

انھیں یہ زعم ہے کہ انسان دوسرے تمام جانوروں کی طرح محض ایک جانور ہے۔ اس لیے جانوروں والی آزادی انسان کو بھی حاصل رہنی چاہیے۔

انسانوں کو جانوروں کی قبیل سےسمجھنا نادانی کی بات ہے۔ انسانوں اور جانوروں میں بہت بڑا فرق ہے۔ انسان اختیار اور آزادی رکھتا ہے، جانور بے اختیار اور اپنی مخصوص جبلت کا پابند ہوتا ہے۔ انسان معزّز و مکرّم ہے، جانوروں کو عزت و تکریم کا تصور ہی نہیں دیا گیا ہے۔ انسان کبھی جانور نہیں بن سکتا ہے اور جانور کبھی انسان نہیں بن سکتا ہے۔انسان کے سامنے دو ہی راستے ہیں، یا تو عزت و تکریم کا راستہ اختیار کرے یا ذلت ورسوائی کے راستے پر چلے۔ جانوروں کے سامنے یہ دونوں ہی راستے نہیں ہیں۔

لباس و حجاب انسان کے معزز و مکرم ہونے کی علامت ہے۔انسان بے لباس ہوکر جانور نہیں بن جاتا ہے۔ جس طرح جانور اگر لباس پہن لے تو وہ انسان نہیں بن جاتا ہے۔ البتہ انسان بے لباسی اور بے حیائی کا طریقہ اختیار کرکے اس تکریم کو کھودیتا ہے جو اسے اللہ کی طرف سے خصوصی طور پر عطا کی گئی ہے اور ذلت و رسوائی کا راستہ اختیار کرلیتا ہے جس کا انجام رسوا کن عذاب کی صورت میں سامنے آنے والا ہے۔

قرآن مجید میں اس انسان کو جو کلامِ حق کو سنتا سمجھتا نہیں ہے جانوروں سے تشبیہ دی ہے۔ لیکن بے حیائی اور فحاشی کا طریقہ اختیار کرنے والے انسانوں کو جانوروں سے تشبیہ نہیں دی گئی ہے۔دیکھنا سننا اور سوچنا سمجھنا بند کردینے والا انسان جانوروں کی طرح ہوجاتا ہے۔ سماعت و بصارت اور عقل و فہم سے محرومی میں دونوں یکساں ہوجاتے ہیں۔ فرق صرف اتنا رہتا ہے کہ جانوروں کو وہ سب کچھ حاصل نہیں ہوتا ہے اور انسان ان سے کام نہیں لیتے ہیں، اس طرح دونوں اس محرومی میں برابر ہوجاتے ہیں۔

اس کے برعکس بے حیائی اور فحاشی کا طریقہ اختیار کرنے والے بہترین انسان سے بدترین انسان بنتے ہیں۔ انھیں جانوروں سے تشبیہ نہیں دی جاسکتی ہے، کیوں کہ جانور جس طرح حیا دار اور عفت مآب نہیں کہلاتے اسی طرح بے حیائی اور فحاشی سے بھی متصف نہیں ہوسکتے۔

معزّز و مکرّم انسانی معاشرہ

انسان کی طرح انسانی معاشرےکو بھی عزت و تکریم عطا کی گئی ہے۔انسان جانوروں کی طرح جھنڈ کی صورت میں نہیں رہتا ہے، بلکہ وہ ایک خاندان کا حصہ بنتا ہے۔ جھنڈ میں باہمی تعلقات گہرے اور پائے دار نہیں ہوتے، خاندان ٹھوس اور پائے دار تعلقات سے عبارت ہوتا ہے جو کئی نسلوں تک برقرار رہتے ہیں۔ انسانوں کے درمیان پڑوس کا رشتہ بھی کافی اہم ہوتا ہے۔وسیع تر سماج جو ایک ریاست کی شکل اختیار کرلے انسان کا خاصہ ہے۔غرض انسانی معاشرہ اپنی منفرد ساخت رکھتا ہے۔

انسانی معاشرے کی مضبوطی اور پائے داری کے لیے اخلاقی قدریں نہایت ضروری ہیں۔ عدل وانصاف کا فقدان انسانی معاشرے کو دشمنی اور نفرت کی آگ میں جھونک دیتا ہے۔ اخلاق بے زاری انسانی معاشرے کو عزت و تکریم سے محروم کردیتی ہے۔ اس کے بعد اس میں القوی یأکل الضعیف (طاقت ور کم زور کو کھاجاتا ہے) جیسی صورت حال پیدا ہوجاتی ہے۔ اخلاق سے عاری انسانی معاشرہ درندوں سے کہیں زیادہ خطرناک ہوجاتا ہے۔ درندوں کی چیر پھاڑ کی ایک حد ہوتی ہے جو حیاتیاتی توازن کو بگاڑتی نہیں ہے۔ لیکن انسانی معاشرے کا بگاڑ پوری دنیا کے لیے تباہ کن ہوتا ہے۔ انسان کے اندر تعمیر اور تخریب دونوں ہی کی وہ صلاحیتیں ودیعت کی گئی ہیں جو کسی اور جان دار کے اندر نہیں ہیں۔ اخلاق تعمیر کے راستے کھولتا ہے اور بداخلاقی تخریب کی طرف لے جاتی ہے۔ اخلاق کے راستے انسان سرخ رو اور سربلند ہوتا ہےاور اخلاق سے عاری ہوتے ہی انسان ذلت و پستی کے گہرے کھڈ میں جاگرتا ہے۔

امن کے رکھوالوں کے ہاتھوں جنگ کی تباہ کاریاں اس کا کھلا ثبوت ہیں۔

حیا انسانی معاشرے کی محافظ ہے

آپ ایک ایسے معاشرے کا تصور کریں جس میں شرم و حیا کی عمل داری ہو۔ وہ معاشرہ انسانوں کے لیے پُر امن اور عافیت بخش ہو گا۔ اس میں انسانوں کی عزت اور جان و مال سب محفوظ ہوگا۔ کسی عورت اور کسی بچے کو نہ گھر میں کوئی اندیشہ ہوگا اور نہ گھر کے باہر کوئی ڈر ہوگا۔ اس کے مقابلے میں اس معاشرے کا تصور کریں جہاں شرم و حیا مفقود ہوچکی ہو، خواہشات کا راج ہو، بے راہ روی اور آوارگی کا چلن ہو، اچھے چلن اور بد چلنی کا فرق مٹ چکا ہو، وہاں کسی کی عزت اور کسی کا جان و مال کیسے محفوظ رہ سکے گا؟

وہاں نہ عورت محفوظ ہوگی اور نہ بچے محفوظ ہوں گے۔ نہ گھر جائے امان ہوگا اور نہ باہر امن ہوگا۔

آزادی کا غلط تصور آزادی کے غلط استعمال تک لے جاتا ہے اور آزادی کا غلط استعمال پورے انسانی معاشرے کے لیے بلکہ اعتدال و توازن پر قائم اس دنیا کے پورے ایکو سسٹم کے لیے تباہ کن ہوتا ہے۔ انسان کی پوری تاریخ اس بات کی گواہ ہے۔

فحش کاموں کے سلسلے میں قرآن مجید کا بیانیہ

بے حیائی اور بدکاری کے لیے ہر زبان میں الفاظ موجود ہیں۔ بےحیائی اور بدکاری سے انسانوں کو ہمیشہ سے نفرت رہی ہے اس لیے یہ الفاظ بھی ایسے کاموں سے نفرت پیدا کرنے والے ہیں۔ قرآن مجید کے خاص الفاظ میں ایک لفظ فاحشہ ہے۔ یہ لفظ بے حیائی اور بدکاری کی تمام باتوں اور کاموں کا احاطہ کرتا ہے۔ اس لفظ سے ایسے تمام کاموں سے نفرت کا اظہار ہوتا ہے۔

فاحشہ کے سلسلے میں قرآن مجید کے بیانات بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ قرآن مجید میں ہر طرح کے فحش کاموں کو حرام قرار دیا ہے، وہ بڑے ہوں یا چھوٹے، کھلے ہوں یا چھپے، ان کا فحش ہونا واضح ہو یا مخفی:

قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّی الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ [الأعراف: 33]

(کہہ دو کہ میرے پروردگار نے تو بےحیائی کی باتوں کو ظاہر ہوں یا پوشیدہ حرام کیا ہے)

قرآن مجید میں ہر طرح کے فحش کاموں کے قریب پھٹکنے سے بھی منع کیا گیا ہے:

وَلَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ [الأنعام: 151]

(اور بےحیائی کے کام ظاہر ہوں یا پوشیدہ ان کے پاس نہ پھٹکنا)

قرآن مجید بتاتا ہے کہ فحش کاموں کی طرف اکساہٹ شیطان کی طرف سے ہوتی ہے:

الشَّیطَانُ یعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَیأْمُرُكُمْ بِالْفَحْشَاءِ [البقرة: 268]

(شیطان تمھیں تنگ دستی کا خوف دلاتا اور بےحیائی کے کام کر نے کو کہتا ہے)

وَمَنْ یتَّبِعْ خُطُوَاتِ الشَّیطَانِ فَإِنَّهُ یأْمُرُ بِالْفَحْشَاءِ [النور: 21]

(او ر جو شیطان کے نقش قدم پر چلے گا تو سمجھ لے کہ وہ تو بےحیائی کے کام کر نے کو کہتا ہے)

قرآن مجید ایک اہم اصول یہ دیتا ہے کہ اللہ کی طرف سے کسی بھی فحش کام کی اجازت نہیں ملی ہے، نہ تو اللہ کی طرف سے بھیجی گئی شریعت میں اس کی اجازت ہے اور نہ ہی اللہ کی بنائی ہوئی انسانی فطرت اسے پسند کرتی ہے :

وَإِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً قَالُوا وَجَدْنَا عَلَیهَا آبَاءَنَا وَاللَّهُ أَمَرَنَا بِهَا قُلْ إِنَّ اللَّهَ لَا یأْمُرُ بِالْفَحْشَاءِ أَتَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ [الأعراف: 28]

(یہ لوگ جب کوئی بے حیائی کا کام کرتے ہیں تو کہتے ہیں ہم نے اپنے باپ دادا کو اسی طریقہ پر پایا ہے اور اللہ نے ہمیں ایسا کرنے کا حکم دیا ہے اِن سے کہو اللہ بے حیائی کا حکم کبھی نہیں دیا کرتا کیا تم اللہ کی طرف وہ باتیں منسوب کرتے ہو جن کاتمہیں علم نہیں ہے)

قرآن مجید صاف صاف بتاتا ہے کہ اللہ فحش باتوں سے منع کرتا ہے:

وَینْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ [النحل: 90]

(اور اللہ بے حیائی سے منع کرتا ہے)

اللہ تعالی نے نماز فرض کی ہے، نماز بھی فحش باتوں سے روکتی ہے۔

إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ [العنكبوت: 45]

(یقیناً نماز فحش اور بُرے کاموں سے منع کرتی ہے)

اللہ کے پسندیدہ بندے وہ ہیں جو فحش کاموں سے دور رہتے ہیں:

وَالَّذِینَ یجْتَنِبُونَ كَبَائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ [الشورى: 37]، [النجم: 32]

(جو بڑے بڑے گناہوں اور بے حیائی کے کاموں سے پرہیز کرتے ہیں)

اگر کبھی کوئی فحش کام سرزد ہوجائے اور بندہ اس کے معًا بعد اللہ کو یاد کرکے اپنے گناہوں کی معافی مانگ لے تو اللہ نہ صرف اسے معاف کرے گا بلکہ اس کے لیے جنت کی بشارت ہے۔

وَسَارِعُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِینَ۔ الَّذِینَ ینْفِقُونَ فِی السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ وَالْكَاظِمِینَ الْغَیظَ وَالْعَافِینَ عَنِ النَّاسِ وَاللَّهُ یحِبُّ الْمُحْسِنِینَ۔ وَالَّذِینَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللَّهَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِهِمْ وَمَنْ یغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا اللَّهُ وَلَمْ یصِرُّوا عَلَى مَا فَعَلُوا وَهُمْ یعْلَمُونَ۔ أُولَئِكَ جَزَاؤُهُمْ مَغْفِرَةٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَجَنَّاتٌ تَجْرِی مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِینَ فِیهَا وَنِعْمَ أَجْرُ الْعَامِلِینَ۔ [آل عمران: 133–136]

(دوڑ کر چلو اُ س راہ پر جو تمھارے رب کی بخشش اور اُس جنت کی طرف جاتی ہے جس کی وسعت زمین اور آسمانوں جیسی ہے، اور وہ اُن خدا ترس لوگوں کے لیے مہیا کی گئی۔ جو ہر حال میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں خواہ بد حال ہوں یا خوش حال، جو غصے کو پی جاتے ہیں اور دوسروں کے قصور معاف کر دیتے ہیں ایسے نیک لوگ اللہ کو بہت پسند ہیں۔ اور جن کا حال یہ ہے کہ اگر کبھی کوئی فحش کام ان سے سرزد ہو جاتا ہے یا کسی گناہ کا ارتکاب کر کے وہ اپنے اوپر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو معاً اللہ انھیں یاد آ جاتا ہے اور اس سے وہ اپنے قصوروں کی معافی چاہتے ہیں کیوں کہ اللہ کے سوا اور کون ہے جو گناہ معاف کرسکتا ہو او ر وہ دیدہ و دانستہ اپنے کیے پر اصرار نہیں کرتے۔ ایسے لوگوں کی جزا ان کے رب کے پاس یہ ہے کہ وہ ان کو معاف کر دے گا اور ایسے باغوں میں انھیں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ کیسا اچھا بدلہ ہے نیک عمل کرنے والوں کے لیے۔)

یہ آیتیں ان سب لوگوں کو ایک زبردست امید دیتی ہیں جوکسی طرح کے فحش کام میں مبتلا ہوجاتے ہیں اور پھر انھیں لگتا ہے کہ اب ان کے پاک ہونے کا کوئی راستہ نہیں بچا۔یہ آیتیں انھیں امید افزا پیغام دیتی ہیں کہ وہ نہ صرف پاک ہوسکتے ہیں بلکہ جنت کی نعمتوں سے سرفراز بھی ہوسکتے ہیں۔ شرط یہ ہے کہ وہ فوراً توبہ کرکے اپنی اصلاح کرلیں۔ توبہ میں تاخیر ان کے لیے نہایت خطرناک ہوسکتی ہے۔

ایک بدکار قوم کی عبرت ناک مثال

قرآن مجید میں فاحشہ کو بہت بڑی برائی بتایا گیا ہے۔ قرآن مجید میں اس قوم کا ذکر بار بار کیا گیا ہے جو فحاشی کے جرم میں مبتلا ہوئی اور نہایت سخت عذاب کے ذریعے ہلاک کر دی گئی۔

حضرت لوط علیہ السلام نے اس قوم کی اصلاح کی پوری کوشش کی، لیکن اس کی سرکشی بڑھتی ہی چلی گئی یہاں تک کہ وہ بدترین انجام سے دوچار ہوئی اور رہتی دنیا تک کے لیے عبرت بنادی گئی۔

قرآن مجید میں چھ قوموں کے عذاب کا تفصیل سے بار بار ذکر آیا ہے۔ ان قوموں میں بالترتیب حضرات نوح، ہود، صالح، لوط، شعیب اور موسی علیہم السلام بھیجے گئے۔

یہ تمام قومیں عقیدے کے بگاڑ کے ساتھ سنگین قسم کے اخلاقی فساد میں ملوث تھیں۔ بگاڑ کی نوعیت الگ الگ تھی لیکن فساد فی الارض میں سب شریک تھیں۔ اللہ تعالی نے ان کے پاس رسول بھیجے جو ان کے عقیدے اور اخلاق کی اصلاح کی کوشش کرتے رہے۔ لیکن جب وہ اپنی روش پرمصر رہے تو اللہ کے عذاب نے انھیں نیست و نابود کرکے دنیا کے لیے عبرت بنادیا۔خاص طور سے حضرت لوطؑ جس بدکار قوم کے پاس بھیجے گئے، اس پر اللہ کا غضب سب سے زیادہ شدت کے ساتھ نازل ہوا۔ اللہ تعالی نے فرشتوں کو بھیج کر اسے سنگ سار کردیا۔

فَلَمَّا جَاءَ أَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِیهَا سَافِلَهَا وَأَمْطَرْنَا عَلَیهَا حِجَارَةً مِنْ سِجِّیلٍ مَنْضُود [هود: 82]

(پھر جب ہمارے فیصلے کا وقت آ پہنچا تو ہم نے اس بستی کو تل پٹ کر دیا اور اس پر پکی ہوئی مٹی کے پتھر تابڑ توڑ برسائے)

اس قوم کا اصل جرم فاحشہ میں بری طرح لت پت ہوجانا تھا۔ بدکاری جب بہت زیادہ بڑھ گئی تو اللہ تعالی نے عذاب بھیج کر زمین کو ان بدکاروں سے پاک کردیا۔

بدکاری کا نارملائزیشن نہیں ہوسکتا ہے

دورِ حاضر میں بے حیائی کے علم برداروں کی اپروچ یہ ہے کہ وہ برائی کا اشتہار کرتے ہیں، پھر اسے ایک نارمل حالت باور کراتے ہیں، پھر اس کے حق میں قانون سازی کرتے ہیں اور پھر اس کی تجارت کاری کرتے ہیں۔اس طرح برائی کے پھیل جانے کواس کے برائی نہ ہونے کی دلیل بناتے ہیں۔

حضرت لوطؑ جس قوم میں بھیجے گئے تھے، اس میں بدکاری رواج اور فیشن بن گئی تھی۔ لوگ کھلم کھلا فحش کاموں کا ارتکاب کرتے تھے۔ اللہ تعالی نے اس قوم کو سخت عذاب سے ہلاک کرکے ساری انسانیت کو یہ سبق دیا کہ اگر برائی اور بدکاری سماج میں عام ہوجائے اور وہ فیشن اور رواج بن جائے پھر بھی وہ نارمل نہیں ہوتی ہے اور اس کی قباحت ذرا بھی کم نہیں ہوتی ہے۔ بلکہ کوئی برائی یا بدکاری جتنی زیادہ پھیلتی ہے، اس کی شناعت اتنی ہی زیادہ بڑھتی جاتی ہے اور اس کا ازالہ اتنا ہی زیادہ ضروری ہوجاتا ہے۔

بدکاری اور زیادتی لازم و ملزوم ہیں

بدکاری اور زیادتی کے درمیان فرق بتاکر بدکاری کو فروغ دینا اور زیادتی پر واویلا مچانا دنیا کو دھوکہ دینا ہے۔ بے حیائی و بدکاری اور ظلم و زیادتی کے بیچ گہرا رشتہ ہے۔

جس سماج میں بدکاری عام ہوتی ہے وہاں زیادتی کے امکانات بہت زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔ جس سماج میں شرم و حیا کا راج ہوتا ہے اور نکاح کے مضبوط ادارے اور دائرے میں رہتے ہوئے جنسی خواہشات کی تکمیل ہوتی ہے وہاں زیادتی کے امکانات بہت کم ہوجاتے ہیں۔

حضرت لوطؑ کی قوم میں بدکاری عام تھی، اس کے ساتھ ہی وہاں زیادتی بھی عام ہوگئی تھی۔ جب فرشتے انسانوں کے روپ میں حضرت لوطؑ کے گھر پہنچے تو ان کی قوم کے لوگ زیادتی پر اتر آئے۔

جس سماج میں رضامندی کے ساتھ زنا عام اور فحاشی رائج ہوجاتی ہے اس سماج میں جنسی ہراسانی اور زنا بالجبر بھی بڑھ جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب نفس کو ڈھیل دے دی جاتی ہے اورنفس پرستی کا دور دورہ ہوتا ہے، شرم و حیا مانع ہوتی ہے اور نہ خوف خدا رکاوٹ بنتا ہے تو انسان کبھی دولت کی لالچ اور کبھی طاقت کی زور زبردستی سے بھی اپنی خواہشات پوری کرنا چاہتا ہے۔

بدکاری انسان کی ایجاد ہے

حضرت لوطؑ کی قوم بدکاری میں ملوث تھی۔ حضرت لوطؑ نے ان سے کہا کہ تم جس فحش کام کا ارتکاب کرتے ہو وہ تم سے پہلے کبھی کسی انسان نے نہیں کیا۔

وَلُوطًا إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ أَتَأْتُونَ الْفَاحِشَةَ مَا سَبَقَكُمْ بِهَا مِنْ أَحَدٍ مِنَ الْعَالَمِینَ۔ إِنَّكُمْ لَتَأْتُونَ الرِّجَالَ شَهْوَةً مِنْ دُونِ النِّسَاءِ بَلْ أَنْتُمْ قَوْمٌ مُسْرِفُونَ [الأعراف: 80،81] ، [النمل: 54،55]، [العنكبوت: 28،29]

(اور لوطؑ کو ہم نے پیغمبر بنا کر بھیجا، پھر یاد کرو جب اُس نے اپنی قوم سے کہا “کیا تم ایسے بے حیا ہو گئے ہو، کہ وہ فحش کام کرتے ہو جو تم سے پہلے دنیا میں کسی نے نہیں کیا؟۔ تم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے اپنی خواہش پوری کرتے ہو حقیقت یہ ہے کہ تم بالکل ہی حد سے گزر جانے والے لوگ ہو۔)

اس سے معلوم ہوا کہ فحش کام انسانی فطرت سے نمودار نہیں ہوتے ہیں بلکہ انسان اپنی فطرت کو مسخ کرکے یہ کام انجام دیتا ہے۔ ہر فحش کام کسی نہ کسی دور کی ایجاد ہے۔ دورِحاضر میں بھی شیطان کے زیر اثر انسانی ذہن فحاشی کی نئی نئی شکلیں ایجاد کرنے میں اپنی تخلیقی قوتیں صرف کررہا ہے۔ بلکہ دورِ حاضر اس لحاظ سے قدیم بدکارسماجوں کو پیچھے چھوڑ چکا ہے۔

حضرت یوسف علیہ السلام کا قابلِ تقلید نمونہ

عفت وعصمت کی حفاظت کے لیے ایک زبردست قابلِ تقلید نمونہ حضرت یوسف علیہ السلام کا ہے۔ نوجوانی کی جس عمر میں نوجوان خود بخود نفس کی خواہشات کے پیچھے چل پڑتے ہیں اور گناہ کے مواقع تلاش کرتے پھرتے ہیں، حضرت یوسف ؑ گناہ کے گھیرے کو توڑ کر باہر نکل آئے تھے۔ کتنا مشکل موقع تھا کہ جس گھر میں پرورش ہوئی، اسی گھر کی عورت نے انھیں پھنسانے کی ساری کوشش کرڈالی، قرآن کے الفاظ دیکھیے:

وَرَاوَدَتْهُ الَّتِی هُوَ فِی بَیتِهَا عَنْ نَفْسِهِ وَغَلَّقَتِ الْأَبْوَابَ وَقَالَتْ هَیتَ لَكَ

(جس عورت کے گھر میں وہ تھا وہ اُس پر ڈورے ڈالنے لگی اور ایک روز دروازے اچھی طرح بند کر کے بولی “آ جا”)

لیکن اس حال میں حضرت یوسفؑ کی عظمت دیکھیے:

قَالَ مَعَاذَ اللَّهِ إِنَّهُ رَبِّی أَحْسَنَ مَثْوَای إِنَّهُ لَا یفْلِحُ الظَّالِمُونَ

(کہا اللہ کی پناہ میں آتا ہوں، بلاشبہ میرے رب نے مجھے بہترین ٹھکانا دیا، بے شک ظالم بامراد نہیں ہوں گے)

ایک طرف مصر کی ایک حسینہ ان کی طرف بڑھتی ہوئی

وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهِ

(اس نے اس کا پورا ارادہ کر لیا)

دوسری طرف وہ اللہ کی یاد کو اپنی عفت و عصمت کی ڈھال بناتے ہوئے

وَهَمَّ بِهَا لَوْلَا أَنْ رَأَى بُرْهَانَ رَبِّهِ

(اور وہ بھی اس کا ارادہ کرلیتے اگر اپنے رب کی نشانی نہ دیکھ لیتے)

آگے دو لفظوں میں دو بڑی متضاد کیفیتوں کو سمیٹ دیا گیا۔

وَاسْتَبَقَا الْبَابَ

(اور وہ دونوں تیزی سے دروازے کی طرف لپکے)

دو افراد تیزی سے دروازے کی طرف لپکے۔ ایک عورت نفس کی خواہش کا شکار ہوکر اپنے نفس کی ناجائز تسکین کے لیے دوڑی اور ایک مرد اپنے دامن عفت کو بچانے کے لیے دروازے کی طرف تیزی سے دوڑا۔ ایک کی دوڑ گناہ کرنے کے لیے تھی اور ایک کی دوڑ گناہ سے بچنے کے لیے تھی۔

یہ منظر بھی دیکھنے کے قابل ہے جب مصر کی کئی حسیناؤں نے ایک ساتھ مل کر حضرت یوسفؑ کو بہکانے کے سارے جتن کرڈالے اور آخر کار اپنی ناکامی کا اعتراف ان کی عظمت کو تسلیم کرتے ہوئے کیا۔ انھوں نے حضرت یوسفؑ کی عفت پسندی کی انتہا کو بیان کرنے کے لیے فرشتے کا استعارہ لیا اور کہا کہ اتنا باحیا اور باعفت شخص انسان نہیں کوئی معزز فرشتہ ہی ہوسکتا ہے۔

وَقُلْنَ حَاشَ لِلَّهِ مَا هَذَا بَشَرًا إِنْ هَذَا إِلَّا مَلَكٌ كَرِیمٌ

(اور بے ساختہ پکا ر اٹھیں: حاشاللّٰہ، یہ شخص انسان نہیں ہے، یہ تو کوئی بزرگ فرشتہ ہے)

عزیز مصر کی بیوی نے کس بے چارگی سے کہا:

وَلَقَدْ رَاوَدْتُهُ عَنْ نَفْسِهِ فَاسْتَعْصَمَ

( بے شک میں نے اِسے رجھانے کی کوشش کی تھی مگر یہ بچ نکلا )

ایک طرف عزیز مصر کی بیوی ان سے گناہ کروانے پر اس قدر بضد کہ

وَلَئِنْ لَمْ یفْعَلْ مَا آمُرُهُ لَیسْجَنَنَّ وَلَیكُونًا مِنَ الصَّاغِرِینَ

( اگر یہ میرا کہنا نہ مانے گا تو جیل جائے گا اور بہت ذلیل و خوار ہوگا)

دوسری طرف حضرت یوسفؑ گناہ سے بچنے کے لیے اس قدر فکرمند اور بے چین کہ

قَالَ رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ إِلَی مِمَّا یدْعُونَنِی إِلَیهِ وَإِلَّا تَصْرِفْ عَنِّی كَیدَهُنَّ أَصْبُ إِلَیهِنَّ وَأَكُنْ مِنَ الْجَاهِلِینَ

(کہا: اے میرے رب، قید مجھے محبوب ہے بہ نسبت اس کے کہ میں وہ کام کروں جو یہ لوگ مجھ سے چاہتے ہیں اور اگر تو نے ان کی چالوں کو مجھ سے دفع نہ کیا تو میں ان کے دام میں پھنس جاؤں گا اور جاہلوں میں شامل ہو رہوں گا)

کیا جیل کی کوٹھری کسی کو محبوب ہوسکتی ہے؟

لیکن جب بدکاری سے نفرت اس درجے کی ہو جس درجے کی حضرت یوسف کو تھی تو یہ ممکن ہے۔

یہ کیسی عجیب بات ہے! بہت سے لوگ تو بدکاری کرنے کے جرم میں جیل میں ڈالے جاتے ہیں اور محل میں پرورش پانے والے حضرت یوسفؑ بدکاری سے بچنے کی پاداش میں جیل گئے اور خوشی خوشی گئے۔

برسوں بعد حضرت یوسفؑ کو بہکانے کی کوشش کرنے والی سبھی عورتوں کا متفقہ بیان تھا کہ ہم نے ان کے اندر ذرا سی بھی کوئی برائی نہیں دیکھی۔

قَالَ مَا خَطْبُكُنَّ إِذْ رَاوَدْتُنَّ یوسُفَ عَنْ نَفْسِهِ قُلْنَ حَاشَ لِلَّهِ مَا عَلِمْنَا عَلَیهِ مِنْ سُوءٍ

(بادشاه نے پوچھا اے عورتو! اس وقت کا صحیح واقعہ کیا ہے جب تم نے یوسف پر داؤ فریب کر کے بہکانا چاہا تھا، انھوں نے صاف جواب دیا کہ معاذ اللہ ہم نے یوسف میں کوئی برائی نہیں پائی)

حضرت یوسف علیہ السلام کی عفت پسندی ہر دور کےجوانوں کے لیے قابلِ تقلید ہے۔

حضرت مریم علیہا السلام کا پاکیزہ نمونہ

اگرعفت پسند مردوں کے لیے حضرت یوسف علیہ السلام بہترین نمونہ ہیں تو عفت پسند خواتین کے لیے حضرت مریم علیہا السلام بہترین نمونہ ہیں۔ حضرت مریمؑ کے سلسلے میں قرآن مجید میں تفصیلات نہیں ہیں، لیکن قرآن میں بار بار یہ بات اجاگر کی گئی ہے کہ وہ اپنی عفت و عصمت کی حفاظت کرنے والی تھیں۔ پسِ منظر سے قطع نظر ایک مومن خاتون کے لیے بس اتنا سبق کافی ہے کہ اللہ کو حضرت مریمؑ کی عفت و عصمت کی حفاظت کرنے والی یہ ادا بہت پسند آئی۔ اللہ تعالی نے اس کی بدولت انھیں بہت اونچا رتبہ عطا کیا اور ان کی اس صفت کو قرآن مجید میں بار بار ذکر کرکے قیامت تک کے لیے بہترین نمونہ بنادیا۔ اللہ تعالی نے حضرت مریمؑ کی جو عزت افزائی کی ہے اسے دیکھتے ہوئے ہر مومن لڑکی کے دل میں یہ عزم پیدا ہونا چاہیے کہ وہ بھی زندگی بھر اپنی عفت و عصمت کی حفاظت کرے گی۔

اللہ کی پناہ میں آنے کے دو منظر

ایک منظر میں عزیزِ مصر کی بیوی گھر کے دروازے اچھی طرح بند کرکے یوسفؑ کی طرف بڑھتی ہے اور یوسف علیہ السلام معاذ اللہ کہہ کر اللہ کی پناہ میں خود کو محفوظ کرلیتے ہیں۔ (یوسف: 23)

دوسرے منظر میں ایک فرشتہ انسان کے روپ میں حضرت مریم کے پاس ان کی خلوت گاہ میں پہنچتا ہے۔ وہ فرشتہ تو اللہ کے حکم سے ان کے پاس خوش خبری لے کر پہنچا تھا۔ لیکن یہ حضرت مریم کا امتحان بھی تھا۔ اسے دیکھتے ہی انھیں اگرکوئی خیال آیا تو وہ اپنی عفت وعصمت کی حفاظت کا تھا۔ وہ پکار اٹھیں: إِنِّی أَعُوذُ بِالرَّحْمَنِ مِنْكَ إِنْ كُنْتَ تَقِیا [مریم: 18] (اگر تم خدا سے ڈرتے ہو تو میں تم سے خدا کی پناہ میں آتی ہوں)

حضرت یوسفؑ اور حضرت مریمؑ دونوں کے واقعات میں مشترک قدر یہ ہے کہ دونوں نے عفت کو لاحق خطرے کو بہت بڑا تصور کیا۔ اس سے بچنے کی فکر کی اور اس سے بچنے کے لیے اللہ کی پناہ اختیار کی۔

جنسی آزادی اور جنسی آوارگی میں بڑا فرق ہے

اللہ تعالی نے انسان کو مرد و عورت کی صورت میں جوڑے جوڑے بنایا ہے۔ جنسی آزادی یہ ہے کہ قدرت کے بنائے ہوئے نظام کے اندر رہتے ہوئے انسان اپنی مرضی سے اپنے جوڑے کا انتخاب کرے، باہم نکاح ہو، شوہر اور بیوی کا رشتہ قائم ہو۔ مرد اور عورت سے مل کر جو شوہر اور بیوی کی جوڑی بنے اس میں دونوں کی مرضی شامل رہے۔ اس کے علاوہ جو کچھ بھی کیا جائے وہ آزادی نہیں آوارگی اور بے راہ روی ہے۔

وَالَّذِینَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ. إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَیمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَیرُ مَلُومِینَ. فَمَنِ ابْتَغَى وَرَاءَ ذَلِكَ فَأُولَئِكَ هُمُ الْعَادُونَ. [المؤمنون: 5–7] [المعارج: ۲۹–۳۱]

(اور جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ مگر اپنی بیویوں سے یا لونڈیوں جو ان کی مِلک ہوتی ہیں کہ ان کے سلسلے میں انھیں ملامت نہیں۔ اور جو اس کے سوا کے طالب ہوں وہ حد سے نکل جانے والے ہیں)

یہ آیتیں صاف صاف بتاتی ہیں کہ انسان کو جنسی عمل کے حوالے سے کتنی آزادی ہے اور کہاں اس کی آزادی ختم ہوتی ہے اور وہاں سے آوارگی شروع ہوتی ہے۔

اسی لیے زنا اگرچہ ایک مرد اور ایک عورت کے درمیان ان کی باہم مرضی سے ہو لیکن وہ فحش کام ہے:

وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَا إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً [الإسراء: 32]

(اور زنا کے بھی پاس نہ جانا کہ وہ بےحیائی ہے)

آزادی نہیں، آزادی کا صحیح استعمال خوبی ہے

انسان کو اچھے اخلاق اور برے اخلاق میں سے کسی ایک کے انتخاب کی آزادی دی گئی۔ یہ آزادی اپنے آپ میں کوئی خوبی نہیں ہے۔ یہ تو ایک موقع ہے جو اللہ تعالی کی طرف سے ہر انسان کو ملا ہے اور کسی کو حق نہیں کہ وہ کسی انسان کو اس سے محروم کرے۔ اصل خوبی آزادی کا صحیح استعمال ہے۔ کسی شخص کی تعریف میں یہ نہیں کہا جائے گا کہ زندگی بھر وہ اپنی آزادی کا استعمال کرتا رہا۔اگر کسی نے آزادی کا غلط استعمال کیا تو اس کی مذمت کی جائے گی اور اگر کسی نے آزادی کا صحیح استعمال کیا تو اس کی مدح کی جائے گی۔ آزادی ایک موقع ہے اپنے آپ کو خوبیوں سے آراستہ کرنے کا۔ جس نے اس موقع کا غلط استعمال کیا اور برائیوں میں لت پت ہوگیا وہ نامراد اور قابل ملامت قرار پائے گا۔

انسان کو آزادی ملی ہے، جانوروں کو آزادی نہیں ملی ہے۔ اسی لیے جن خوبیوں سے انسان آراستہ ہوسکتا ہے یا جن برائیوں میں انسان ملوث ہوسکتا ہے، جانور نہیں ہوسکتے۔ آزادی انسان کی خصوصیت ہےخوبی نہیں ہے۔ خوبی تو آزادی کا صحیح استعمال ہےاور خرابی آزادی کا غلط استعمال ہے۔

آزادی کا نعرہ اپنے آپ میں یقینًا پرکشش ہے۔ لیکن اصل زور آزادی کے بہتر استعمال پر ہونا چاہیے۔

طاقت میں اضافہ اخلاق کی ضرورت بڑھاتا ہے

جانور کے مقابلے میں انسان طاقت ور اور باختیار ہوتا ہے، اس لیے اسے اخلاق کی ضرورت ہوتی ہے۔ انسان کی طاقت میں اضافہ ہوتا ہے تو اخلاق کی ضرورت بھی بڑھ جاتی ہے۔ اخلاق طاقت کو قابو میں رکھتا ہے۔ موجودہ دور میں ٹکنالوجی کے انقلاب نے انسان کو قدیم انسان کے مقابلے میں بہت زیادہ طاقت ور بنادیا ہے، اس لیے اس دنیا کی حفاظت کے لیے اس کا اخلاق سے آراستہ ہونا پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہوگیا ہے۔

دورِ حاضر کا انسان اخلاق سے عاری ہونے کے بعد دنیا کے لیے حد سے زیادہ تباہ کن اور ہلاکت خیز ہوسکتا ہے۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ انسان جس قدر اپنی طاقت بڑھارہا ہے، اسی قدر اخلاق سے عاری بھی ہوتا جارہا ہے۔

اسلام اخلاق کا پاسبان ہے

دور جدید میں لادینیت (سیکولرزم)نے مذہب کا خاص تصور تشکیل دیا۔ یہ تصور بہت محدود ہے۔ الٰہیات،پوجا پاٹ، تیوہار اور شادی بیاہ کے کلچر تک یہ محدود ہے۔ اخلاق کو مذہب کے دائرے سے بالکل خارج کرکے اسے انسان کی آزادی اور پسند اور ضرورت و افادیت سے جوڑ دیا گیا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ مذہب کے ماننے والوں کے درمیان اب مذہب کا سیکولر تصور فروغ پارہا ہے۔

اسکول کی کتابوں میں مذاہب کے تعارف پر جو مضامین پڑھائے جاتے ہیں وہ مذہب کا نہایت محدود تصور پیش کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر وہ یہ نہیں بتاتے کہ اسلام مکمل نظام حیات ہے اور وہ یہ بھی نہیں بتاتے کہ اسلام میں بےحیائی اور فحاشی کو حرام قرار دیا گیا ہے۔

اس کا عملی نتیجہ یہ ہے کہ بگڑے ہوئے سماجوں میں بدکاری کی بدترین شکلوں اور بے حیائی کے قبیح ترین مظاہر کو بھی مذہب کے منافی نہیں سمجھا جاتا۔ اس طرح بداخلاقی کے خلاف جو سب سے مضبوط دیوار ہوسکتی تھی اس میں سوراخ کردیے گئے۔ اگر ان سوراخوں کو فوراً بھرا نہیں گیا تو یہ انسانیت کا بہت بڑا نقصان ہوگا۔

حقیقت یہ ہے کہ اخلاق کے فروغ کے لیے اور بداخلاقی کے گندے سیلاب کو روکنے کے لیے مذہب کا کردار ناگزیر ہے۔

دینِ اسلام کا تصورِ اخلاق بہت واضح ہے۔ اخلاق کی تکمیل کو اللہ کے رسول ﷺ نے اپنی بعثت کا مقصد قرار دیا۔ حیا کو ایمان کی شاخ بتایا، زنا کو فاحشہ قرار دیا اور یہ بھی بتایا کہ جب کوئی زنا کرتا ہے تو اس وقت وہ مومن نہیں رہتا ہے۔ اسلام میں لباس اور پردے کے سلسلے میں واضح تعلیمات موجود ہیں۔

طاقت ور اصلاحی تحریک کی ضرورت

قرآن مجید نے ایک جلیل القدر پیغمبر حضرت لوط علیہ السلام کو اس قوم میں بھیجا جو بے حیائی اور بدکاری کی ساری حدیں پار کرچکی تھی۔ حضرت لوط علیہ السلام کی دعوت کا نقطہ ارتکاز (focus point) اس بدکار قوم کا جنسی انحراف تھا۔حضرت لوطؑ نے برسہا برس ان کی اصلاح کی کوشش کی۔ قرآن مجید نے کئی مقامات پر حضرت لوطؑ کے اس خاص دعوتی اور اصلاحی مشن کا ذکر کیا ہے۔معلوم ہوا کہ انبیائی مشن صرف عقیدے کی اصلاح اور عبادت کی دعوت تک محدود نہیں رہا۔ اخلاقی برائیوں کا ازالہ بھی انبیائی مشن کا ایک اہم حصہ رہا ہے۔

مدین کی قوم بھی اخلاقی بگاڑ کا شکار تھی۔ ان کی بد اخلاقی مالیاتی معاملات سے متعلق تھی۔ ناپ تول میں کمی ان کی خو بن چکی تھی۔ عاد و ثمود نامی زور آور قومیں ہوں یا فرعون اور اس کا لشکر، یہ طاقت کے نشے میں اخلاقی قدروں کو پامال کررہے تھے اور زمین میں فساد برپا کررہے تھے۔ اللہ تعالی نے ان سب قوموں کی اصلاح کے لیے رسول بھیجے۔رسولوں نے عقیدہ واخلاق دونوں کی اصلاح کے لیے انتھک کوششیں کیں اور ان پر حجت تمام کی۔

موجودہ دور میں جب کہ اخلاقی بگاڑ اور جنسی انحراف ایک عالمی تحریک بن کر پوری دنیا کے انسانی سماج کو شدید قسم کے اخلاقی فساد میں مبتلا کرنے کے درپے ہے، اخلاقی اقدار کو شدید خطرہ لاحق ہے اور شرم و حیا کی دیواریں گررہی ہیں، قرآن مجید میں رسولوں کی روداد یہ پیغام دیتی ہے کہ نبیوں کی وارث مسلم امت کو ایسے ہر سیلابِ بلاخیز کے سامنے مضبوط دیوار بن جانا چاہیے۔

اگر اخلاقی بگاڑ ایک طاقت ور تحریک بن چکا ہو تو اس کا مقابلہ کرنے کے لیے طاقت ور تحریکوں کا برپا ہونا اور زبردست مہمات کا چھیڑدینا ضروری ہے۔ اپنے مقصد و نصب العین کی رو سے، انبیائی جدوجہدکا تسلسل ہونے کی رو سے اور مسلم امت کا سب سے صحت مند و توانا حصہ ہونے کی حیثیت سے بداخلاقی اور بے حیائی کے خلاف مہم چھیڑ دینے کی ذمے داری سب سے پہلے اسلامی تحریک پر عائد ہوتی ہے۔

مشمولہ: شمارہ ستمبر 2024

مزید

حالیہ شمارے

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau