استغفار:مصائب سے حفاظت کا ذریعہ

مفتی فیاض احمد

نکاح کے بعد رخصتی کے وقت جب دلہن کی ڈولی اپنے گھرسے اٹھتی ہے تو اس کے والدین ، رشتہ دار، بہن بھائی اس کی جدائی پر رورو کر اپنا غم ہلکا کرتے ہیںاور خود دلہن بھی اتنے آنسو بہاتی ہے کہ اس کی آنکھیں سوج جاتی ہیں۔ اس کے برعکس جب کسی کے گھر سے جنازہ اٹھتا ہے تو وہ گھرماتم کناں بن جاتا ہے۔اس کے اہل وعیال اور اس گھر کے مکینوں کے آنسوتھمتے نظر نہیں آتے۔ اسی طرح جب کوئی شخص کسی دنیوی حادثے یا نقصان کا شکار ہوتا ہے، تو اس کے دل کے ساتھ آنکھیں بھی اشک بار ہوجاتی ہیں۔ یقینا آنسو ایک ایسی چیز ہے جو ایک غمگین اور مصیبت زدہ شخص کے غم کو دور اور ہلکا کرنے میں نمایاں کردار ادا کرتی ہے۔ یہ آنسو والدین، اساتذہ یا کسی قابل قدراور عظیم المرتبت شخص کی حق تلفی، ان کی شان میں گستاخی یا اپنے سے چھوٹے انسان کی ایذا رسانی پر جب بہتے ہیںتو انھیں ’’معافی‘‘سے تعبیر کیا جاتا ہے۔انھی آنسوؤں کو اگر انسان اپنے گناہوں اور اللہ کی نافرمانی پر ندامت وشرمندگی کے ساتھ بہائے تو انھیں ’’استغفار‘‘ کہتے ہیں۔عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:عینان لا تمسھماالنار عین بکت من خشیۃ اللہ‘‘ دو آنکھیں ایسی ہیں جن کو جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی، ان میں سے ایک وہ آنکھ جو اللہ کے خوف سے آنسو بہاتی ہے۔‘‘ ﴿ سنن ترمذی:۹۳۶۱﴾اور ان آنسؤوں پر جہنم کی آگ حرام کیوں نہ ہو؟اس لیے کہ یہ اللہ کے نزدیک موتی سے زیادہ قیمتی ہوتے ہیں۔

استغفار عذاب الٰہی سے بچنے کا ذریعہ

عام طور پراللہ کا عذاب کثرت معاصی کی بنائ پر نازل ہوتا ہے۔چنانچہ ارشاد ہے: وما أصابکم من مصیبۃ فبما کسبت أیدیکم‘‘ تمھیں جو مصیبتیں پہنچتی ہیں ، وہ تمہارے ہاتھوں کے کرتوت کا بدلہ ہیں‘‘﴿شوریٰ : ۰۳﴾تمہارے بعض گناہوں کا کفارہ تو وہ مصائب بن جاتے ہیںجوتمہیں گناہوں کی پاداش میںپہنچتے ہیں،اگرچہ اس عذاب کے نزول کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اہل ایمان کے گناہ اس عذاب ومصیبت کے ذریعہ معاف ہوجائیں،لیکن عذاب الٰہی کے بغیر گناہوں کے معاف کرانے کا طریقہ‘‘ استغفار‘‘ ہے،جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے استغفار کی بنائ پر عذاب الٰہی کو موقوف کرنے کا اعلان کیا ہے:وماکان اللہ معذبھم وھم یستغفرون ﴿انفال :۳۳﴾‘‘ جب لوگ اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی چاہتے ہوئے استغفار کرتے رہیں گے تو اللہ تعالیٰ ان کو عذاب نہیں دیں گے۔‘‘حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں:کان فیھم أمانان نبی اللہ والاستغفار قال فذھب نبی اللہ وبقی الاستغفار‘‘لوگوں میں اللہ سے عذاب سے بچنے کے دو اسباب تھے، ایک اللہ کے رسول ﷺ اور دوسرا استغفار۔ آپﷺ دنیا سے چلے گئے﴿ ایک سبب ختم ہوگیا﴾ اور دوسرا استغفار باقی ہے۔‘‘﴿سنن بیہقی:۸۸۱۹﴾

استغفار حصول رزق کا سبب

موجودہ دور بھلے ہی ترقی کا دور کہلاتا ہو، لیکن یہ نا قابل انکار حقیقت ہے کہ ہر خاص وعام انسان معاشی تنگی کا شکار ہے۔کیونکہ بے روزگاری، مہنگائی اور معاشی پریشانی عروج پر ہے۔اسی بنائ پر لوگ خود کشی جیسے حرام فعل کے مرتکب ہورہے ہیں۔کئی عورتیں اپنی عزت وعصمت کا نیلام کررہی ہیں۔ہر ایک کھانے کمانے کی ہی فکر میں نظر آرہا ہے۔ حکومتی اور علاقائی سطح پر اس پریشانی کا حل نکالنے کی جدوجہد ہورہی ہے، لیکن ساری کوششیں اور محنتیں بے سود اور فضول معلوم ہورہی ہیں۔حالانکہ اس کا ایک آسان اور انتہاہی سہل حل قرآن وحدیث نے ’’استغفار‘‘ بتلایا ہے۔ارشاد باری ہے: ومن یتق اللہ یجعل لہ مخرجا ویرزقہ من حیث لا یحتسب﴿الطلاق: ۲،۳ ﴾‘‘جوشخص اللہ سے ڈرتا ہے اس کے لیے اللہ تعالی ہر تنگی سے نکلنے کا راستہ بنا دیتے ہیں اور پھر اس کو ایسی جگہ سے روزی عطائ کرتے ہیں،جہاں سے اس کو گمان بھی نہیں ہوتا۔‘‘اسی آیت کی وضاحت کرتے ہوئے آپ ﷺ نے فرمایا :من لزم الاستغفارجعل اللہ من کل ضیق مخرجا ومن کل ھم فرجا ورزقہ من حیث لا یحتسب ﴿ابوداؤد:۸۱۵۱ ﴾ ’’جو شخص استغفار کی پابندی کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے ہر تنگی سے نکلنے کا راستہ بنادیتا ہے اور ہر غم سے اسے نجات عطائ کرتا ہے اور ایسی جگہ سے اس کو روزی دیتا ہے جہاں سے اس کو وہم وگمان بھی نہیں ہوتا۔‘‘ لہٰذا استغفار کے ذریعے اپنے سارے مسائل کا حل تلاش کیا جاسکتا ہے۔

استغفار آپ ﷺ کی سنت

آپ ﷺکی عادت شریفہ تھی کہ آپ کثرت سے استغفار کیا کرتے تھے، حالانکہ آپﷺ کی ذات اقدس گناہوں سے معصوم اور پاک تھی۔ جبکہ استغفار کا تعلق گناہوں سے ہے۔آپﷺ خود فرماتے ہیں: واللہ انی لأستغفراللہ وأتوب الیہ فی الیوم أکثر من سبعین مرۃ ﴿بخاری: ۷۰۳۶﴾ ’’خدا کی قسم میں دن میں ستر مرتبہ سے زیادہ استغفار کرتا ہوںاور اللہ سے توبہ کرتا ہوں۔‘‘ آپ ﷺ کا استغفارکرنا امت کی تعلیم کے لیے تھا کہ گنہگار امت کو بطریق اولیٰ استغفار کرنا چاہیے، لہذا اگر کوئی گناہوں سے پاک بھی ہو تو اسے استغفار کرتے رہنا چاہیئے تاکہ آپ ﷺکی سنت پر عمل کرنے کا ثواب ملتا رہے۔

استغفار اور زندگی کے آخری ایام

جب آپ ﷺ تبلیغ رسالت ، اور احکام خداوندی کے فریضہ کو بحسن خوبی مکمل طور پر انجام دے چکے اوردنیا سے کوچ کا زمانہ قریب آگیا، تو اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کو مخاطب کرکے کہا : فسبح بحمدک ربک واستغفرہ انہ کان توابا﴿ النصر: ۳﴾ ’’ اپنے رب کی تسبیح وتحمید بیان کرنے لگو اور اس سے مغفرت کی دعا مانگو، بے شک وہ بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا ہے۔‘‘اس آیت کے نزول کے بعد آپ ص دوسال سے زائد دنیامیںرہے۔ ﴿معارف القرآن: ۸/۷۶۵﴾ حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہے: کان رسول اللہ ﷺ یکثر أن یقول قبل ان یموت استغفرک وأتوب الیک﴿ مسلم: ۷۴۷ ﴾‘‘ آپ ﷺ وفات سے قبل یہ کلمات ’’اے اللہ میں تجھ سے معافی مانگتا ہوںاورتوبہ کرتا ہوں‘‘کثرت سے پڑھا کرتے تھے۔‘‘ لہٰذا ہر انسان ہر وقت توبہ واستغفار کا اہتمام رکھے کہ آدمی سے بے اختیاری طور پربھی گناہ ہوتے رہتے ہیں، ان کی معافی کا راستہ یہی ہے، لیکن خاص کر زندگی کے آخری ایام میں خصوصیت کے ساتھ اس کا اہتمام کرے اور پوری زندگی کی لغزشوں اور خطاؤں پر ندامت کے ساتھ آنسوبہائے اور اگر ہم نے استغفار کرنا چھوڑ دیا تو اللہ تعالیٰ ایک ایسی قوم کو پیدا کرے گا جو گناہوں کے بعد اللہ کے حضور استغفار کرے گی۔‘‘

مشمولہ: شمارہ اپریل 2011

مزید

حالیہ شمارے

جولائی 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau