ایڈس ایک بھیانک مرض ہے۔ اس کی زد میں مرد، عورتیںاوربچے سبھی آرہے ہیں۔ یہ بذات خود مرض نہیں ہے ، بل کہ یہ باب الامراض ہے۔ اس میںانسانی جسم کی قوت مدافعت،جو مختلف بیماریوں کامقابلہ کرتی ہے، ختم ہوجاتی ہے۔ بدقسمتی سے اس کا اب تک کوئی کافی و شافی علاج دریافت نہیں ہوسکاہے۔ اس سے متاثرین کی تعداد روز بہ روز بڑھتی جارہی ہے۔ پوری دنیامیں اس مرض سے ۳۳ ملین ﴿تین کروڑ ۳۰ لاکھ﴾ سے زائد افراد متاثر ہیں۔ ہمارے ملک میں ۲۲ لاکھ مرد اور عورتیں متاثر ہیں۔ بڑی تعداد میں بچے بھی زد میں ہیں۔ ناواقفیت کی وجہ سے بعض غلط فہمیاں بھی پیدا ہورہیہیں، جن کی وجہ سے متاثرین کو سماج اور معاشرے میں طرح طرح کے مسائل کاسامناکرناپڑرہاہے۔ خاص طور سے اس کاعلاج دریافت نہ ہونے کی وجہ سے ایڈس زدہ افراد مایوسیوںکی دلدل میں گرتے جارہے ہیںاور ان کے بارے میں نفرت اور تفریق کے جذبات جنم لیتے ہیںاور ان کو گھر، خاندان اور معاشرے سے الگ تھلگ کردیاجاتاہے۔ حتیٰ کہ بعض اوقات ڈاکٹر حضرات بھی غیرمناسب رویہ اختیار کرتے ہیں۔ ایسی صورت میں ضرورت ہے کہ اس کے بارے میں اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کیاجائے اور لوگوں کو مرض کے بارے میں صحیح واقفیت فراہم کی جائے۔
اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ایڈس زدہ افراد کے مسائل کے تین طریقے ہوسکتے ہیں۔
ایڈس زدہ افراد کے لیے صبر کانسخۂ کیمیا
اسلام بتاتاہے کہ موت ایک ناقابل انکار حقیقت ہے، جس کا سامنا ہرمخلوق کو کرناہے۔ دنیا میں بے شمار افراد ہیں، جو مختلف اسباب کی وجہ سے روزانہ موت کے شکار بن رہے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ صرف ایڈس زدہ افراد کو موت آئے گی۔ لہٰذا ایسی صورت میںجیسے دوسرے افراد حالات کامقابلہ کرتے ہیںاور زندگی کے آخری لمحے تک جینے کاحوصلہ رکھتے ہیں، اسی طرح ایڈس زدہ افراد کو بھی چاہیے کہ زندگی کاحوصلہ باقی رکھیں اور مایوسی میں مبتلا نہ ہوں۔ مصائب ومشکلات سے مقابلہ کرنے کے لیے اسلام نے ایک نسخۂ کیمیا پیش کیاہے، جس کا نام ‘صبر’ ہے۔ خاص طور سے قرآن وحدیث میں ایک پیغمبرحضرت ایوب علیہ السلام کا واقعہ بیان کیاگیاہے، جن کو ایک سنگین بیماری لاحق ہوگئی تھی اور ان کے جسم کے ٹکڑے سڑ سڑ کر گرتے چلے جارہے تھے۔ ایسے حالات میں بھی انھوںنے صبرکادامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔اللہ تعالیٰ نے ان کو شفا عطا فرمائی اور ان کی زندگی کو تمام ایسے مریضوں کے لیے جو سنگین امراض میں مبتلا ہوجائیں نمونہ اور ماڈل بنایا۔ قرآن مجید میں ہے:
وَأَیُّوبَ اِذْ نَادَی رَبَّہ’ٓ أَنِّیْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَأَنتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِیْنَ o فَاسْتَجَبْنَا لَہُ فَکَشَفْنَا مَا بِہِ مِن ضُرٍّ وَاٰ تَیْْنَاہُ أَہْلَہ’ وَمِثْلَہُم مَّعَہُمْ رَحْمَۃً مِّنْ عِندِنَا وَذِکْرَی لِلْعَابِدِیْنَ ﴿الانبیاء:۸۳-۸۴﴾
’اور یادکرو جب ایوبؑ نے اپنے رب کو پکارا کہ مجھے تکلیف پہنچتی ہے اور توارحم الراحمین ہے، ہم نے اس کی پکار سنی اور اسے جو تکلیف تھی وہ دور کردی۔ ہم نے اسے اس کے اہل وعیال دیے اور اس کے ساتھ اتنے ہی اور بھی دیے، یہ رحمت ہے ہماری طرف سے اور عبادت گزاروں کے لیے نصیحت۔‘
مرض چھوٹا ہو یا بڑا، قابل علاج ہو یا لاعلاج، ہر حال میں اسلام نے صبر کی تعلیم دی ہے، جو لوگ مذہبی اقدار کی اہمیت نہیں محسوس کرتے، ان کے نزدیک یہ ایک بے معنی نصیحت ہے۔ اس سے ان کے مسائل حل نہیں ہوتے اور وہ ممکنہ تدابیر بھی اختیار نہیں کرتے۔ لیکن صبر کا یہ تصور غلط ہے۔ صبر اس بات کا نام ہے کہ آدمی مشکلات میں جزع فزع اور گھبراہٹ کامظاہرہ نہ کرے۔ شکوہ شکایت کی جگہ جم کر ان کامقابلہ کرے۔ جو تدبیریں اس کے بس میں ہوں ان کو پورے سکون کے ساتھ اختیارکرے اور نتیجے کو اللہ تعالیٰ کے حوالے کردے۔ آدمی کی مضبوط قوت ارادی سے بیماریاں دور ہوتی ہیں۔ صبر کے جذبے کو اسلام آخرت کے اجر و ثواب کے ساتھ تقویت پہنچاتاہے۔ یہاں کی ہر مصیبت کو آخرت میں اجر کاباعث قرار دیتاہے ۔ حدیث میں ہے:
عن ابی ہریرہؓ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم مایصیب المسلم من نصب ولا وصب ولاہم ولاحزن، والااذی، ولاغم حتی الشرکۃ الاکفر اللہ بہا من خطایاہ ﴿بخاری کتاب المرضیٰ باب ماجائ فی کفارۃ المرض﴾
’حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ﴿مسلمان﴾ آدمی کو جو تکان یا مرض، فکر اور حزن، تکلیف اور غم لاحق ہوتاہے، یہاں تک کہ کانٹا جو اسے چبھتا ہے اس کے ذریعے بھی اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو معاف کردیتاہے۔‘
حدیث میں آتاہے کہ ایک مصیبت زدہ مریض کے ثواب کو دیکھ کر قیامت کے روز صحت مند انسان تمنا کرے گا کہ کاش وہ بھی بیمار ہوا ہوتا اور اس اجر وثواب کاحق دار سمجھا جاتا۔
متاثرین کے ساتھ ہم دردی کی تعلیم
ایڈس زدہ فرد کو سہارا دینے کا اسلام نے دوسرا طریقہ یہ بتایاہے کہ اس کے ساتھ ہمدردی کی جائے اور ہمدردی کی جتنی صورتیں ہیں، وہ سب اختیار کی جائیں۔ مثال کے طورپر اس کی عیادت کرنا، خبرگیری کرنا، اس کی مالی مدد کرنا، خدمت کرنا، اس کے علاج کے لیے دوڑ دھوپ کرنا وغیرہ۔ مریض کی تیمار داری کے سلسلے میں اسلام کی واضح تعلیم موجود ہے۔ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد مریضوں کی عیادت فرمائی اور عام مسلمانوں کو حکم دیاکہ مریضوں کی عیادت کرو۔ ایک حدیث ہے:
عن ابی موسیٰ الاشعری قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اطعموا الجائع وعودوا المریض وفکوا المعانی ﴿بخاری باب وجوب عیادۃ المریض﴾
’حضرت ابوموسیٰ اشعری سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بھوکے کو کھانا کھلاؤ، بیمار کی عیادت کرو اور غلام کو آزاد کرو یا ﴿قیدیوں کو چھڑاؤ﴾۔‘
ایک دوسری حدیث میں ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن جن لوگوں سے ان کے اعمال کے بارے میں پوچھے گا، ان میں سے ایک قسم کے لوگ وہ ہیں، جو صحت مند تھے اور ان کے متعلقین میں کچھ لوگ بیمار رہے مگر انھوںنے تیمار داری نہیںکی۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان سے پوچھے گا کہ میں بیمار ہوا مگر تم نے میری عیادت نہیںکی، وہ کہے گا کہ اللہ رب العالمین تو سارے جہاں کا پالنہار ہے تو کیسے بیمار ہوسکتاہے۔ اللہ کہے گاکہ میرا فلاں بندہ بیمار ہوا مگر تو نے اس کی عیادت نہیںکی۔ اگر اس کی عیادت کرتا تو مجھے وہاں پاتا۔ ﴿مسلم کتاب البروالصلۃ﴾
کسی بھی مریض کے ساتھ ہمدردی کاحق صرف اس کی عیادت سے ادا نہیں ہوسکتا ہے، بل کہ اگر وہ دیکھ بھال اور مالی امدادکامحتاج ہے یا اسے جسمانی خدمت کی ضرورت ہے تو یہ ساری صورتیں اختیار کی جائیںگی۔ اسلام نے الگ الگ دائروں میں ان تمام باتوں کی تعلیم دی ہے۔ مثال کے طورپر مریض کے گھر والوں پر اس کی دیکھ بھال اور خدمت کرنا واجب ہے اگرمریض کے والدین ہوں تو ان کی دیکھ ریکھ اور ان کے ساتھ حسن سلوک کا حکم قرآن نے جس اسلوب میں دیاہے۔ اس کی تعبیر کسی اور بان میں ممکن نہیں ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
وََبِالْوَالِدَیْْنِ اِحْسَاناً اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِندَکَ الْکِبَرَ أَحَدُہُمَآ أَوْ کِلاَہُمَا فَلاَ تَقُل لَّہُمَآ أُفٍّ وَّلاَ تَنْہَرْہُمَا وَقُل لَّہُمَا قَوْلاً کَرِیْماًoوَاخْفِضْ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَۃِ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیَانِیْ صَغِیْراًo ﴿بنی اسرائیل:۲۳-۲۴﴾
’والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو، اگر تمھارے پاس ان میں سے کوئی ایک یا دونوں بوڑھے ہوکر رہیں تو انھیں اف تک نہ کہو نہ انھیں جھڑک کر جواب دو، بل کہ ان سے احترام کے ساتھ بات کرو اور نرمی اور رحم کے ساتھ ان کے سامنے جھک کر رہو اور دعا کیا کرو کہ ‘پروردگار! ان پر رحم فرما جس طرح انھوںنے رحمت و شفقت کے ساتھ مجھے بچپن میں پالاتھا۔‘
اگروالدین یا ان میں سے کوئی ایک ایڈس میں مبتلاہوجائے تو محض اس مرض کی وجہ سے ان کے ساتھ حسن سلوک کی یہ تاکید کالعدم قرار نہیں پاتی۔ بل کہ ایسی صورت میں اور زیادہ توجہ کے ساتھ ان کی خدمت کرنالازم ہوگا۔ اِسی طرح زوجین میں سے اگر کوئی ایڈس میں مبتلا ہوجائے تو اس کے حقوق جو شریعت نے متعین کیے ہیں، خاص طور پر ایک دوسرے کے ساتھ حسن معاشرت کی تعلیمات ساقط نہیں ہوجائیںگی بل کہ انسانی ہمدردی کے تقاضے کے تحت ان پر عمل کی تاکید اور زیادہ زور دے کر کی جائے گی۔ بچوں کی دیکھ بھال اور پرورش و پرداخت والدین کا دینی، اخلاقی اورانسانی فریضہ ہے۔ اگر بچوں میں سے کوئی ایڈس زدہ ہوجائے تو والدین کی رحمت و شفقت کا وہ اور زیادہ مستحق ہوجائے گا اور شریعت اسلامیہ نے کسی بھی صورت میں اولاد یا بچوں کے ساتھ رحمت وشفقت سے منع نہیں کیاہے۔ اسلام میں صلہ رحمی کے مستقل احکام ہیںاور حدیث میں وارد ہے کہ صلۂ رحمی کے معنی صرف یہ نہیں ہیں کہ جو صلہ رحمی کرے اس کے ساتھ صلہ رحمی کیا جائے۔ بل کہ جو قطع رحمی کرے اس کے ساتھ بھی صلہ رحمی کرے۔ ﴿بخاری، کتاب الآداب باب لیس الواصل بالمکافی﴾
اس مرض کے بارے میں بعض غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں، جن کی وجہ سے مریض سے نفرت اور دوری کارجحان پیداہوجاتاہے۔ حدیث مذکورکے مطابق ایسے شخص سے قطع رحمی نہ کرنا فضیلت کا باعث ہے۔ ایک دوسری حدیث میں کہاگیاہے کہ رحم رحمن سے مشتق ہے جو اس کو ملائے گا، اللہ اس کو ملائے گا اور جو اس کو کاٹے گا اللہ تعالیٰ اس کو کاٹے گا۔﴿ترمذی﴾
عام حالات میں اگر شریعت اسلامیہ نے دوسروں کے ساتھ نرمی، حسن سلوک اور خیرخواہی کی تعلیم دی ہے تو ایسی صورت میںجب کوئی شخص زیادہ ہمدردی اور رحمت و شفقت کامستحق ہو اس سے بیزاری اور دوری کو اسلامی شریعت کیوںکر گوارا کرسکتی ہے۔ ظاہر ہے کہ دین اسلام کا مزاج یہ نہیں ہے ۔ بل کہ یہ دین تمام مخلوقات کو اللہ تعالیٰ کا کنبہ قرار دیتاہے اور اللہ تعالیٰ خود رب العالمین اور ارحم الراحمین ہے۔ اس نے رسولﷺکو بھی رحمۃ للّعالمین بناکربھیجاہے۔ گویا رحم یا رحمت کی صفت غالب ہے اور اس کاتقاضا ہے کہ انسان ایک دوسرے پر رحمت و شفقت ہی کا رویہ اختیار کرے۔ چونکہ بدقسمتی سے ایڈس کا علاج ابھی تک دریافت نہیں ہوسکا ہے ، اس لیے اس مرض میںمبتلا اشخاص بھی رحم و کرم کے زیادہ مستحق ہیں۔
مرض کو روکنے کی تدابیر اختیار کی جائیں
ایڈس زدہ افراد کے ساتھ ہمدردی کا تیسرا طریقہ اسلام یہ بتاتاہے کہ اس مرض کے روکنے کی جملہ تدابیر اختیار کی جائیں اور اس کے بارے میں پوری سنجیدگی اختیار کی جائے۔ اس کے پیدا ہونے کے جو اسباب ہیں، ان کی گہرائی سے تحقیق کی جائے اور ان سے کلی طورپر پرہیز کیاجائے۔ شریعت اسلامیہ نے مرض پیدا ہونے کے بعد علاج کی ترغیب جتنے اہتمام سے دی ہے، اس سے زیادہ مرض کے لاحق ہونے کے اسباب سے بچنے کی ترغیب دی ہے۔ بل کہ بعض پہلوؤں سے ثابت ہوتاہے کہ علاج سے بہتر احتیاطی تدابیر ہیں اور اسلام نے ان کو اختیار کرنے کی پوری طرح سے تلقین کی ہے۔ مثال کے طورپر ایک حدیث ‘جب رات ہوجائے تو کھانے پینے کے برتنوں کو ڈھانکنے، دروازوں کو بندکردینے اور چراغوں کو بجھادینے کا حکم دیاگیاہے۔’ ﴿مسلم کتاب الاشربہ ، باب استحباب تخمیرالانا نمبر ۵۲۴۶﴾ اس طرح کی تمام ہدایات کا مقصد ممکنہ حادثے کاسدّباب ہے۔ اسلام ایڈس کے معاملے میں بھی سدّباب کی پوری تلقین کرتاہے۔ ایم آئی وی اور ایڈس (HIV ‘ AIDS)کے بڑے اسباب میںایک بڑا سبب جنسی بے راہ روی ہے۔ اس مرض کاآغاز اسی راستے سے ہوا۔ شریعت اسلامیہ میں نکاح سے باہر جنسی تعلقات کی قطعی گنجایش نہیں ہے۔ اسی طرح اس میں ہم جنسی اور جنسی بے رواہ روی کی تمام شکلیں حرام ہیں۔ قرآن مجید میںایک ایسی قوم کے بھیانک انجام کاذکر تفصیل کے ساتھ کیاگیاہے جو جنسی بے راہ روی کا شکارتھی تو اللہ تعالیٰ نے اسے سخت ترین سزا سے دوچار کیا۔ ارشاد ربانی ہے:
وَلُوطاً اِذْ قَالَ لِقَوْمِہٰٓ أَتَأْتُونَ الْفَاحِشَۃَ مَا سَبَقَکُم بِہَا مِنْ أَحَدٍ مِّن الْعَالَمِیْنَoاِنَّکُمْ لَتَأْتُونَ الرِّجَالَ شَہْوَۃً مِّن دُونِ النِّسَآئ بَلْ أَنتُمْ قَوْمٌ مُّسْرِفُونَo وَمَا کَانَ جَوَابَ قَوْمِہٰ اِلاَّ أَن قَالُواْ أَخْرِجُوہُم مِّن قَرْیَتِکُمْ اِنَّہُمْ أُنَاسٌ یَتَطَہَّرُونَo فَأَنجَیْْنَاہُ وَأَہْلَہ’ اِلاَّ امْرَأَتَہُ کَانَتْ مِنَ الْغَابِرِیْنَo وَأَمْطَرْنَا عَلَیْْہِم مَّطَراً فَانظُرْ کَیْْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُجْرِمِیْن ﴿الاعراف: ۸۱-۸۵﴾
’اور لوط کو ہم نے پیغمبر بناکر بھیجا، پھریادکرو جب اس نے اپنی قوم سے کہا ‘کیا تم ایسے بے حیا ہوگئے ہو کہ وہ فحش کام کرتے ہو جو تم سے پہلے دنیا میں کسی نے نہیںکیا؟ تم عورتوں کو چھوڑکر مردوں سے اپنی خواہش پوری کرتے ہو، حقیقت یہ ہے کہ تم بالکل ہی حد سے گزرجانے والے لوگ ہو۔’ آخرکار اس قوم پر برسائی ایک بارش ﴿پتھروںکی﴾ پھر دیکھو ان مجرموں کا کیا انجام ہوا۔‘
ذریعے کے طورپر ہی اسلام میں غیرپاکیزہ اشیائ مثلاً خنزیر کا گوشت، خون اور مردار حرام ہیں۔ مختلف طبی تحقیقات میں ان چیزوں کے ان گنت نقصانات ہیں، جب عام عقل کا تقاضا ہے کہ جراثیم زدہ کھانا نہ کھایاجائے تو جنسی تعلقات کے حوالے سے آخر اتنی آزادی کو کیوں روا رکھاجائے کہ آدمی جیسے چاہے اپنی جنسی تسکین کرے۔ ایڈس کا مرض ایک عام وبا کی شکل میں رونما ہواہے۔ ایسی صورت میں ضروریہے کہ نکاح کے اندر ہی جنسی تسکین کے اسلامی طریقے کو اختیار کیاجائے۔
ایڈس پھیلنے کے بعض دوسرے اسباب بھی ہیں، جیسے خون کی منتقلی، غیرمحفوظ انجکشن، نشہ آور ادویہ کا ایک ہی سرنج سے استعمال وغیرہ۔ ان تمام صورتوں میں تمام ممکنہ احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہیے۔ شریعت میں ممکنہ مرض سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ممانعت نہیں ہے۔ لہٰذا اس مرض میں بھی وہ تدابیر اختیار کی جاسکتی ہیں۔ اسلام میں نشہ آور ادویہ کا استعمال حرام ہیں، چاہے وہ سرنج کے ذریعے استعمال کی جائیںیا کسی اور ذریعے سے۔
بعض اوقات والدین سے یہ مرض بچوں میں منتقل ہوتاہے۔ ایسی صورت میں والدین کی ذمے داری ہے کہ وہ اپنے مرض سے بچے کو بچانے کی بھرپور کوشش کریں اور تمام ممکنہ علاج جاری رکھیں، جن سے ان کا آنے والا بچہ اس مرض سے محفوظ رہے۔ لیکن اگر اس کو مرض لاحق ہوجائے توانتہائی ہمدردی کے ساتھ اس کے جملہ انسانی حقوق کی حفاطت ہونی چاہیے اور جب تک اس کی زندگی ہے اس کو جینے دینے کاپورا حق دینا چاہیے۔
بعض اوقات ایڈس زدہ افراد منفی نفسیاتی ردعمل کے طورپر اپنا مرض جان بوجھ کر دوسروں میں منتقل کردینے کی تدابیر اختیار کرتے ہیں۔ یہ حرکت سراسر جرم ہے۔اُنھیں صرف اور صرف صبر اور استقامت کامظاہرہ کرنا چاہیے۔ اِن شائ اللہ ان کے لیے یہ مرض کفارہ سیّأت کا باعث ہوگا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اُنھیں شہادت کا درجہ حاصل ہوجائے۔ کیوں کہ بعض احادیث میں بعض امراض جیسے طاعون اور پیٹ کے مرض وغیرہ میں موت ہوجانے کو شہادت سے تعبیر کیاگیاہے۔
ایڈس کے حوالے سے یہ بات بھی جاننی چاہیے کہ یہ مرض اس معنی میں متعدی نہیں ہے کہ مرض زدہ آدمی کے ساتھ اٹھنے، بیٹھنے، ساتھ کھانے، ہاتھ ملانے، معانقہ کرنے یا ساتھ رہنے سے بیماری دووسروں میں منتقل ہوجاتی ہے۔ یہ مرض بعض مخصوص طریقوں سے دوسروں میں منتقل ہوتی ہے۔ اس لیے ایڈس زدہ کو قابل نفرت سمجھنا اور اس کو گھر اور معاشرے میںالگ تھلگ کردینا مناسب رویہ نہیں ہے۔ اس سے مریض کو بیماری کی تکلیف کے ساتھ ذہنی ونفسیاتی اذیت سے بھی دوچار ہونا پڑتا ہے۔‘‘
مشمولہ: شمارہ جنوری 2011