پہلا کل ہنداجتماع (رام پور)
تقسیم ملک کے بعد جماعت کا نظمِ جدید جب سے قائم ہوا، رفقا کا پیہم اصرار تھا اور خود جماعت کے مصالح متقاضی تھے کہ کل ہند اجتماع منعقد کیا جائے تاکہ جو رفقا ملک کے مختلف گوشوں میں بکھرے ہوئے ہیں اور بدلے ہوئے حالات میں نئے نئے مسائل سے دوچار ہیں وہ ایک جگہ جمع ہوں اور ایک دوسرے سے تبادلہ خیالات کے ذریعہ ان کے حالات اور طریق کار کو قریب سے سمجھنے کی کوشش کریں۔ لیکن ملک کے عام فساد زدہ حالات، غیر مسلم طبقہ کی بد گمانیوں اور مسلمانوں کی خوف زدگی نے اس طرح کے کسی اجتماع کا موقع نہیں دیا۔ اس لئے ضرورتوں اور دلی خواہشوں کے باوجود کوئی کل ہند اجتماع منعقد نہیں کیا جاسکا۔ البتہ یہ ضرورت تھوڑی بہت حلقہ واری اجتماعات کے ذریعہ پوری کی جاتی رہی۔
پچھلے سال جب حالات کچھ ساز گار ہوئے تو کل ہند اجتماع کی تیاری بھی شروع کردی گئی۔ لیکن جب تیاری تکمیل کے قریب تھی یکایک مرکز کے قریبی اضلاع میں فسادات شروع ہو گئے اور فسادات سے متاثر علاقوں کے اجڑے ہوئے خاندان رامپور منتقل ہونے لگے۔ جن کی طرف جماعت نے توجہ کی، اس طرح باوجود مکمل تیاری کے کل ہند اجتماع کو ملتوی کرنا پڑا۔
لیکن مجلس شوری منعقده ۱۰ جنوری ۱۹۵۱ء میں یہ مسئلہ پھر زیر غور آیا۔ اس وقت تک فسادات کے اثرات بہت حد تک ختم ہو چکے تھے۔ رفقا کے خطوط برابر آرہے تھے اور جماعت کے مصالح بھی تقاضا کر رہے تھے اس لیے مجلس شوری میں طے کیا گیا کہ کل ہند اجتماع رامپور میں کیا جائے۔ جس میں جنوبی ہند کے صرف نمائندے مدعو کیے جائیں اور شمالی ہند کے رفقا کو یہ سہولت دی گئی کہ علاوہ عذر شرعی کے اپنی دیگر قابل لحاظ معاشی اور غیر معاشی مشکلات کی بنا پر مستثنی قرار دیے جاسکیں۔
چنانچہ اس فیصلہ کے بعد اجتماع کے انعقاد کا اعلان کر دیا گیا۔ جس کے لئے جماعتی مصالح اور رفقا کی سہولت کا لحاظ کرتے ہوئے ۲۰، ۲۱، ۲۲ اپریل ۱۹۵۱ء مطابق ۵٫۱۴٫۱۳ ا جمادی الآخر ۱۳۷۰ھ کی تاریخیں مقرر کی گئیں۔ اجتماع گاہ کے لئے شہر رامپور میں سعادت یار خاں صاحب کی کوٹھی متصل تھانہ پاکھڑ کو منتخب کیا گیا اور اجتماع کے ناظم محمد یوسف صاحب صدیقی ٹونک مقرر کیے گئے۔
دوسرا کل ہند اجتماع (حیدرآباد)
تقسیم ملک کے بعد جماعتِ اسلامی ہند کا دوسرا کل ہند اجتماع ۲۷ نومبر تا یکم دسمبر ۱۹۵۲ء حیدر آباد میں منعقد ہوا۔ اس اجتماع کی نوعیت یہ تھی کہ جنوبی ہند (حلقہ جات حیدر آباد دکن، ارکاٹ تمل ناڈو، میسور، مالابار اور بمبئی) کے تو جملہ ارکان کی شرکت ضروری تھی لیکن شمالی ہند (حلقہ جات دہلی ، رام پور، کانپور لکھنو ، اودھ، الہ آباد ) مشرقی یوپی ، بہار، بنگال، راجستھان اور ، وسط ہند) سے صرف قیمین حلقہ جات ، مقامی امرا اور بعض دیگر نمائندوں کو شریک ہونا تھا۔ پھر از روئے ضابطہ جن اصحاب کی شرکت ضروری تھی ان میں ایک معتد بہ تعداد ایسے رفقا کی بھی تھی جنہیں ان کی مختلف مجبوریوں کی وجہ سے شرکت اجتماع سے مستثنیٰ کرنا پڑا، تاہم ارکان ، ہمدردان اور متاثرین وغیرہ جن کے قیام و طعام کا انتظام اجتماع گاہ ہی میں جماعت کے زیر اہتمام کیا گیا تھا ان کی مجموعی تعداد تقریباً ایک ہزار تھی ، جس میں ۵۶ شمالی ہند کے نمائندے تھے اور بقیہ شرکاء جنوبی ہند کے مختلف علاقوں سے تشریف لائے تھے۔ چند اصحاب سیلون (سری لنکا ) سے بھی شرکت کے لیے آئے تھے۔ اجتماع گاہ میں جن خواتین کے قیام و طعام کا انتظام کیا گیا تھا ان کی تعداد ۳۰ تھی اور چند غیر مسلم حضرات بھی تھے، جن کے قیام و طعام کا انتظام قیام گاہ ہی میں جماعت کے زیر اہتمام تھا اور کچھ غیر مسلم ایسے تھے جو شرکت اجتماع ہی کے لیے حیدر آباد آئے تھے اور وہ اجتماعات میں برابر شریک بھی ہوتے رہے لیکن انہوں نے اپنے قیام و طعام کا انتظام اپنے طور سے علیحدہ کیا تھا۔
تیسرا کل ہند اجتماع (دہلی)
میقاتی منصوبہ کی رو سے ۱۹۵۲ء کے بعد ایک کل ہند اجتماع چار سال کے بعد ہونا تھا۔ مگر نا گزیر مجبوریوں کی بنا پر ملتوی ہوتے ہوتے اس کے انعقاد کا فیصلہ تقریباً ایک سال قبل ۱۹۵۹ء میں یہ ہوا تھا کہ اسے اپریل ۱۹۶۰ء میں کیا جائے۔ اس کے لیے موزوں ترین مقام دہلی تجویز ہوا۔ اور تقریباً ہر حیثیت سے اسے ترجیح دی گئی ۔ دوسرے درجہ میں لکھنؤ رکھا گیا۔ مجوزہ آل انڈیا اجتماع کے لیے ناظم کا انتخاب بھی ایک سال قبل ہی عمل میں آگیا تھا۔ یہ ذمہ داری جناب انیس الدین احمد (امیر حلقہ، جنوبی بہار) پر ڈالی گئی۔ ناظمِ اجتماع نے شمالی ہند کے اہم مقامات کا دورہ کر کے اجتماع کے سلسلے میں مفید معلومات اور آراء ومشورے حاصل کیے اور انہیں مجلس شوری کے سامنے پیش کر دیا۔ جس کی بنا پر یہ فیصلہ کر کے اعلان کر دیا گیا کہ موسم کی شدت اور مقامی طلبہ کی امتحانوں میں مشغولیت وغیرہ کے سبب اپریل کے مہینہ کو ناموزوں سمجھ کر اجتماع آئندہ اکتوبر کے اواخر یا نومبر کے اوائل کے لیے ملتوی کر دیا گیا۔ (روداد اجتماع دہلی جماعتِ اسلامی ہند -۱۹۶۰)
چوتھا کل ہند اجتماع (حیدرآباد)
یہ اجتماع ۱۰ تا ۱۲ نومبر ۱۹۶۷ میں ہوا۔ اس اجتماع میں جس بڑی آزمائش کا سامنا ہوا وہ شرکا کی تعداد کے اندازے سے کہیں زیادہ بڑھ جانا تھا۔ لیکن اس امتحان میں اللہ کی توفیق سے زبردست کامیابی ملی۔ماہ نامہ زندگی کے مدیر مولانا سید عروج احمد قادریؒ نے اجتماع کے بارے میں لکھا ہے:
امیر جماعت کا خطبہ صدارت ہو یا قیم جماعت کی رپورٹ، خطابات عام ہوں یا سمپوزیم اور سیمینار یا سوال وجواب کی مجلس، ہر اجتماع میں چالیس پچاس ہزار افراد کی شرکت اور پورے صبر وسکون سے تمام پروگراموں کی سماعت ایسی چیز نہ تھی جو متاثر نہ کرتی۔ ہر دیکھنے والی آنکھ اس منظر سے متاثر ہوئی ۔ سمپوزیم میں جن سنگھی نمائندے کی تقریر ناخوش گوار تھی، اس کے علاوہ سمپوزیم اور سیمینار کی متعدد تقریریں موضوع سے ہٹی ہوئی تھیں لیکن ہزاروں افراد کے مجمع نے ان سب کو صبر وسکون کے ساتھ سنا اور اپنی ناگواری کا کوئی اثر ظاہر نہیں آنے دیا۔ زیبا باغ کا علاقہ شہر حید آباد کے وسط میں نہیں بلکہ ایک کنارے واقع ہے۔ کہیں کہیں اس کا فاصلہ دس میل اور پندرہ میل بھی ہے۔ شرکت کرنے والے ہر اجتماع میں دور دور کا فاصلہ طے کر کے آتے تھے اور ہراجتماع کے بعد دوسرے اجتماع میں آنے والوں کی تعداد گھٹنے کے بجائے بڑھ جاتی تھی۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ شریک ہونے والے لوگ جب اپنے اپنے محلوں میں واپس جا کر اجتماع کا تاثر بیان کرتے ہوں گے تو دوسرے بہت سے لوگوں میں شرکت اجتماع کا اشتیاق پیدا ہوجاتا ہوگا۔ اتفاق ایسا ہوا کہ اجتماع کے ایام میں سرد ہوا چلنے لگی اور اچھی خاصی سردی ہوگئی اتنی کہ ہم شمالی ہند کے رہنے والوں نے بھی نومبر کے دوسرے عشرے میں اس کو غیر معمولی سمجھا۔ حیدر آباد والوں کے لیے تو وہ ٹھنڈک غیر معمولی تھی لیکن اس کے با وجو رات کے اجتماعات میں بھی سامعین کی تعداد کم نہیں ہوئی۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اب جماعتِ اسلامی نے مسلمانوں میں قبولیت حاصل کرلی ہے ۔
۸ ایکڑ کے وسیع رقبہ میں خیموں کی جو چھوٹی سی بستی آباد ہو گئی تھی اس کے انتظامات کی دیکھ بھال کرنے اور اس کو کنٹرول کرنے میں ہمارے رفقا نے ایک بار پھراپنی صلاحیتوں کا بہتر ثبوت فراہم کیا اور انتظام کی اچھی روایت پر حرف نہیں آنے دیا۔ انتظامیہ کی ہریونٹ نے اپنی ڈیوٹی پوری تن دہی اور چوکسی کے ساتھ انجام دی۔جس مورچے پر جو رفیق بھی متعین کیا گیا تو اس نے اپنے منصب کی اہمیت محسوس کی اور اپنے آرام کو تج کر کام پر لگا رہا۔ واچ اینڈوارڈ پر متعین رفقا بھی راتوں میں پوری طرح چوکس رہے۔ اور یہ سب کچھ انھوں نے کسی دنیوی صلہ کی امید یا جذبہ شہرت طلبی کے تحت نہیں کیا بلکہ اپنا فرض سمجھ کر اجر اخروی کی تمنا میں کیا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالی ان کی محنت کا بہترین اجر عطا کرے۔ ان کے جذبہ خدمت کو بڑھائے اور انھیں راہ حق پر ثابت قدم رکھے۔
اندازہ لگایا گیا تھا کہ مندوبین کی تعدادتین ہزار سے زیادہ نہ ہوگی۔ تقریبًا اسی تعداد کے لیے قیام وطعام کا انتظام کیاگیاتھا۔ لیکن اندازے کے برعکس ان کی تعدادتقریبًا دوگنی ہو گئی ۔ یہاں تک کہ خواتین بھی اندازے سے بہت زیادہ آگئیں۔ ایسی صورت حال میں ان کے قیام وطعام کا انتظام کوئی آسان کام نہ تھا۔ اس طرح کے مواقع پرمنتظمین کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں اور نظم میں سخت خلل پڑجاتا ہے،لیکن رفقائے حیدر آباد مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے اس کو حسن و خوبی کے ساتھ سنبھال لیا اور اجتماعات کے پروگرام اپنے وقت پر انجام پاتے رہے کوئی قابل ذکرخلل واقع نہیں ہوا ۔ اس صورت حال میں ان کی خدمات کے مقابلے میں کو تاہیاں نا قابل لحاظ حد تک کم تھیں ۔ حیدر آباد کے بعض صاحب ثروت رفیقوں نے باہر سے آنے والوں کو آرام پہنچانے میں عالی ظرفی کا ثبوت دیا۔ ان دنوں ان کی کاریں اور ان کی پوری کوٹھی گویا ناظمِ اجتماع کے اختیار میں تھی۔اس سے بڑی مسرت حاصل ہوئی۔ اللہ تعالی ان کے جذبہ خیر کو بڑھائے۔ ان تمام پہلوؤں سے کل ہند اجتماع حیدرآباد میرے نزدیک بہت کامیاب اجتماع تھا۔ (زندگی نو ، جنوری ۱۹۶۸)
پانچواں کل ہند اجتماع (دہلی)
یہ اجتماع ۸تا ۱۰ نومبر۱۹۷۴ میں ہوا۔ اس کی خصوصیات ذکر کرتے ہوئے ماہ نامہ زندگی کے مدیر مولانا سید عروج احمد قادریؒ رقم طراز ہیں:
گاندھی درشن ( متصل گاندھی سمادھی ) کے میدان میں ۸ تا ۱۰ نومبر ۱۹۷۴ جماعتِ اسلامی ہند کا پانچواں کل ہند اجتماع منعقد ہوا ۔ اا نومبر کی تاریخ اجتماعِ ارکان کے لیے مخصوص تھی۔ اجتماع گاہ کے خیموں اور کیمپوں میں مقیم شرکائے اجتماع کی کثرت، بیرون ہندسے آنے والے مہمانوں کی خلاف توقع تعداد کی شرکت ، ہندوستان کے متعدد صاحبان علم کی تقاریر، اتنے کثیر مجمع کے قیام و طعام کے انتظام اور جماعتِ اسلامی ہند کی ۲۷ سالہ تاریخ میں پہلی بار اس کے کل ہند اجتماع سے نیشنل پریس کی دل چسپی اور اس کی طرف توجہ کے لحاظ سے جماعتِ اسلامی ہند کا پانچواں کل ہند اجتماع بے شک ایک یاد گار اجتماع تھا۔ دس ہزار مردوں اور پانچ سو عورتوں کے شریک ہونے کا اندازہ لگایا گیا تھا لیکن مندوبین کی تعداد سترہ ہزار اور خواتین کی پانچ ہزار تک پہنچ گئی تھی۔ اندازہ تھا کہ بیرون ہندسے مندوبین دس بارہ افراد شریک ہوسکیں گے۔ لیکن ان کی تعداد ۳۸ تک پہنچ گئی تھی۔ بیرونی مہمانوں اور ہندوستان کے مختلف مذہبی طبقات کے افراد و شخصیات کی خصوصی شرکت دو ایسے امتیازات ہیں، جن سے جماعت کے گزشتہ سبھی کل ہند اجتماعات خالی تھے ۔ غیر مسلم معاونین کی بھی ایک اچھی خاصی تعداد خصوصی مہمان کی حیثیت سے شریک تھی۔ (روداد اجتماع عام دہلی، ۱۹۷۴، ص ۵)
چھٹا کل ہند اجتماع (حیدرآباد)
یہ اجتماع ۱۹۸۱ میں ۲۰ تا ۲۲ فروری، وادی ہدی میں منعقد ہوا۔ یہ اب تک کا سب سے بڑا اور سب سے زیادہ متنوع اجتماع تھا۔ اس میں لوگوں کی غیر معمولی شرکت رہی۔ راشن کارڈ کے مطابق پورے ملک سے آنے والے مندوبین کی تعداد ایک لاکھ سے زائد تھی۔ اور عام اجلاسوں میں سامعین کی تعداد دو لاکھ سے زیادہ ہوجاتی تھی۔ خواتین کے اجلاس میں تیس ہزار خواتین شریک تھیں۔ اس اجتماع کے ساتھ ایک اور فیچر نئی صدی ہجری کی تقریبات کا بھی شامل تھا۔ بیرون ملک سے عالمی سطح کی اسلامی شخصیات نے شرکت کی تھی۔ ملک کی بارہ زبانوں میں قرآن مجید کے ترجموں کا اجرا عمل میں آیا۔توقعات سے دوگنی تعداد اس بار بھی رہی لیکن منتظمین کے حسن انتظام اور رضاکاروں کی بے پناہ محنت کے نتیجے میں خدا کا شکر ہے کوئی بد انتظامی نہیں ہوئی۔ ہزاروں کی تعداد میں غیر مسلم بھی اجتماع میں شریک ہوئے اور اجتماع سے بہت متاثر ہوئے۔
یہ آخری کل ہند اجتماع ثابت ہوا۔ اس کے بعد ریاستی اور متعدد ریاستی اجتماعات ہوئے۔ ارکان جماعت کے کل ہند اجتماعات ہوئے۔ البتہ کل ہند اجتماع عام کی روشن تاریخ اپنے اندر حوصلے بڑھانے کا بڑا سامان رکھتی ہے۔ جماعتِ اسلامی ہند کی تاریخ کا اہم حصہ اس کے کل ہند اجتماعات ہیں۔
مشمولہ: شمارہ نومبر 2024