۱۹۶۰ میں دہلی کے پریڈ گراؤنڈ میں جماعتِ اسلامی ہند کا کل ہند اجتماع ہوا۔ ناظمِ اجتماع انیس الدین احمد صاحب (امیر حلقہ جنوبی بہار) اور معاون ناظمِ اجتماع عبدالباری، ایم اے صاحب تھے۔ جماعت کے ذمے داروں نے متعدد پہلوؤں سے پریڈ گراؤنڈ کو سب سے مناسب جگہ قرار دیا اور اس کے حصول کے لیے کوششیں شروع کردیں۔ دہلی میں دفعہ ۱۴۴ نافذ تھی۔ ایسے حالات میں اجتماع کی اجازت حاصل کرنا بھی ایک مشکل کام بن گیا تھا۔ عبدالباری صاحب کی طویل روداد سے چند ورق پیش ہیں۔
یوں تو تقریبا ایک سال پہلے ہی ناظمِ اجتماع نے لینڈ اینڈ ڈیولپمنٹ آفیسر کو پریڈ گراؤنڈ کے لیے ایک درخواست دے دی تھی مگر جب آخری طور پر دہلی میں نومبر ۱۹۶۰ء میں اجتماع کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا تو ناظمِ اجتماع نے یہ دیکھ کر کہ اکالی تحریک کی وجہ سے دفعہ ۱۴۴ کا نفاذ تھا ( جس کی میعاد آگے چل کر ایک سال کے لیے اور بھی بڑھادی گئی تھی ) مقامی ڈپٹی کمشنر کو بھی اجتماع کی اجازت حاصل کرنے کے لیے درخواست دے دی ( حالانکہ عام حالات میں اجازت کی کوئی ضرورت نہ تھی محض اجتماع کرنے کی اطلاع دے دینی کافی ہوتی ) اور پولیس ڈیپارٹمنٹ کو اجتماع کی اطلاع کے علاوہ اس بات کی بھی اطلاع دی گئی کہ مخصوص اجتماع سے پیش تر وسط اکتوبر سے شہر کے مضافات میں پبلسٹی کی غرض سے چھوٹے چھوٹے اجتماعات بھی کیے جائیں گے اور لاؤڈ اسپیکر کا بھی استعمال ہوگا۔ دہلی میونسپل کارپوریشن کو بھی پانی، پاخانوں، غسل خانوں اور باورچی خانہ وغیرہ کے سلسلے میں بنانے کی اجازت اور صفائی وغیرہ کے سلسلے میں مدد کی درخواست دے دی گئی۔ ایک درخواست پھر لینڈ اینڈ ڈیولپمنٹ آفیسر کو بھیجی گئی ۔ دہلی کے چیف کمشنر سے ایک انٹرویو طے کیا گیا جس میں ان کے بنگلہ پر مقامی جماعت کے امیر اور مدیر دعوت کو لے کر ناظمِ اجتماع ۶ ستمبر کو ملنے والے تھے ۔ ناظمِ اجتماع کا وفد ۶ ستمبر کو چیف کمشنر سے ملا۔ کامیاب ملاقات کے بعد یہ سن کر مسرت ہوئی کہ دہلی میں اجتماع کیا جا سکتا ہے ۔ حکومت کی جانب سے کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی ۔ اسی اثناء میں لینڈ اینڈ ڈیولپمنٹ آفس سے آفس انجینیر کا ہماری پہلی والی درخواست کا جواب آیا کہ اتنے بڑے پریڈ گراؤنڈ کا کون سا مخصوص حصہ کسی پیمائش کا ہم چاہتے ہیں اور اس مطلوبہ پلاٹ کی چوحدی کیا ہوگی ۔ اور یہ کہ کب سے کب تک کے لیے زمین درکار ہے تا کہ اسی حساب سے وہ اس کا کرایہ مقرر کر کے بتا سکیں اور اس کا پیشگی کرا یہ جمع کرنے کے بعد ہی اجازت ملے گی۔ چنانچہ جواب میں انہیں صحیح پیمائش اور چوحدی کے ساتھ پریڈ گراؤنڈ کے اس مطلوبہ پلاٹ کی توضیح کر دی گئی جو ہمارے آل انڈیا اجتماع کا مقام بننے والا تھا۔ بلکہ جوابی درخواست لے کر میں خود ایک مقامی رفیق کے ہمراہ لینڈ اینڈ ڈیولپمنٹ آفس ( واقع سندھیا ہاؤس نئی دہلی ) گیا اور درخواست میں آفیسر انجینیر کے سامنے مطلوبہ پلاٹ کی تشریح کردی اور یہ کہ کب سے کب تک کے لیے یہ پلاٹ درکار ہوگا۔ وہ بڑے تپاک سے ملے اور وعدہ کیا کہ اس درخواست کو وہ فوراً آگے بھیج دیں گے اور کمشنر صاحب کے پاس سے جلد واپس آجائے گی۔ مگر انہوں نے صاف گوئی سے یہ اطلاع بھی دی کہ ڈپٹی کمشنر اور پولیس کی اجازت حاصل کر کے اجازت نامہ کی نقل یہاں لانے پر ہی گراؤنڈ کی اجازت مل سکے گی ۔ یہ خبر لے کر ہم لوگ واپس آگئے۔
چنانچہ ۱۹ ستمبر کو ایک مقامی رفیق کے ہم راہ ناظمِ اجتماع نے مجھے ڈ پٹی کمشنر کے بنگلے پر بھیجا۔ وہاں اجتماع کی اجازت کے لیے دی ہوئی درخواست کے متعلق دریافت کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ اتنی جلدی جواب کیسے ملے گا اور اجتماع تواا نومبر سے شروع ہوگا۔ اس لیے ایک ماہ بعد دریافت کرنے کو کہا۔ جب انہیں یہ بتایا گیا کہ یہ اجتماع چونکہ آل انڈیا بنیاد پر ہورہا ہے جس کے لیے پبلسٹی، دعوت نامے اور دیگر انتظامات بہت پہلے سے کرنے ہوں گے تو سوچ کر کہا کہ ۱۰ ا کتوبر تک پتہ چلائیے کہ درخواست پر کیا حکم صادر ہوا۔ پریڈ گراؤنڈ کے متعلق تو انہوں نے اکالی تحریک کی وجہ سے کچھ اندیشے ظاہر کیے اور متبادل مقامات اردو پارک، اجمل خاں پارک، رام لیلا گراؤنڈ کی طرف متوجہ کرتے ہوئے اجازت میں فوری اقدام اور سہولتوں کا اشارہ کیا۔ جس پر ہم یہ کہہ کر اٹھ گئے کہ ان مجوزہ مقامات کا جائزہ لینے کے بعد ہی پوزیشن معلوم ہو سکے گی۔ اس کے درمیان ناظمِ اجتماع کی اہلیہ کی سخت علالت کا خط گھر سے آ گیا اور وہ بے چین ہو کر گھر جانے کی تیاری کرنے لگے۔ غرض کہ دو روز میں ضروری ہدایات دیتے ہوئے آفس کا سارا کام میرے سپرد کر کے موصوف ۲۱ ستمبر کی سہ پہر کونئی دہلی سے چتر پور (ہزاری باغ ) کو روانہ ہو گئے ۔ حالانکہ وہ اسی غرض سے واپسی ٹکٹ لے کر گئے تھے کہ ۵ اکتوبر کو دہلی واپس آجائیں گے ۔ مگر علاج و معالجہ نے اتنا وقت کھینچا کہ انہیں مجبوراً ایک طویل مدت تک رک جانا پڑا۔ موصوف کہیں پندرہ اکتوبر کو واپس ہو سکے۔
ناظمِ اجتماع کی غیر موجودگی میں آفس کا کام بھی زیادہ بڑھ گیا تھا اور حکومت کی جانب سے جیسے جیسے اجازت ملنے میں دیر ہو رہی تھی اندیشے بڑھتے جارہے تھے۔ بلکہ انتظامی اقدامات میں التوا کی صورت پیدا ہونے لگی۔ پولیس ڈیپارٹمنٹ نے شہر کے مضافات میں چھوٹے چھوٹے اجتماعات کے مقامات کی فہرست مانگی۔ انہیں جواب دے دیا گیا کہ فہرست مرتب ہونے پر روانہ کر دی جائے گی۔ اس کے علاوہ اجتماع کے متعلق پولیس محلہ کشن گنج میں اپنی پرائیویٹ تحقیقات میں مصروف تھی۔ کچھ مقامی بااثر شخصیتوں کے ذریعہ اس بات کی کوشش بھی جاری تھی کہ حکومت کی طرف سے جلد از جلد اجازت حاصل ہو جائے تو انتظامی راہ کھل جائے گی۔
باوجود یکہ اپنی اہلیہ کی علالت سے متاثر تھے پھر بھی آل انڈیا اجتماع کی ذمہ داری کا احساس ناظمِ اجتماع کو تھا ۔ مکان سے انہوں نے لکھا کہ دوسرے مقامات سے کام نہ چلے گا۔ پریڈ گراؤنڈ ہی کے لیے ہر ممکن سعی کی جائے اور اگر اجازت ملنے میں رکاوٹ حائل ہو تو چیف کمشنرسے بھی ملاقات کی جائے۔
اسی اثنا میں سراغ ملا کہ ڈپٹی کمشنر والی درخواست ہنوز سب ڈویزنل مجسٹریٹ ہی کے ہاں پڑی ہوتی ہے۔ چنانچہ ۷ اکتوبر کی صبح مدیر دعوت کو لے کر میں ایس ۔ ڈی۔ ایم (S.D.M) کے پاس ملنے گیا تو انہوں نے سہ پہر کو دو بجے بلایا۔ جمعہ کا دن تھا۔ نماز سے فارغ ہوتے ہی ہم لوگ تیس ہزاری کورٹ پہنچے۔ ایس ڈی ایم صاحب سندھی تھے مگر اردو سے اچھی طرح واقف تھے بلکہ ان کے کورٹ میں عدالتی کارروائی اردو ہی میں ہوتی ہے۔ نہایت اطمینان سے تقریباً نصف گھنٹہ تک درخواست کے متعلق گفتگو ہوئی ۔ وہ جماعتِ اسلامی ہند سے ناواقف تھے اس لیے طرح طرح کے سوالات کرتے رہے اور انہیں جواب دیا گیا اور جماعت کا مجمل تعارف بھی کرایا گیا ۔ مزید تشفی کے لیے انہوں نے لٹریچر بھی دیکھنے کی خواہش کی۔ پہلی درخواست کے علاوہ دوسری درخواست مزید تفصیلات کے ساتھ مانگی اور دس اکتوبر کو دوسری دفعہ بلایا۔ سنیچر ۱۸ اکتوبر کو کورٹ بند تھا۔ لہذا ہم لوگ پھر دوشنبہ ۱۰ اکتوبر کو دوسری درخواست اور جماعت کے انگریزی اور اردو لٹریچر میں سے دو چار کتابیں لے کر گئے۔ انہوں نے لے کر جواب دیا کہ پولیس کی تحقیقات کے لیے درخواست بھیج دی گئی ہے اور رپورٹ آتے ہی ایک ہفتہ بعد درخواست پر حکم دے دیا جائے گا۔ اسی اثنا میں یہ مجسٹریٹ صاحب ایک ہفتہ کی چھٹی لے کر مکان جانے والے تھے۔ ایک ہفتہ قبل پولیس نے اس درخواست پر جوان کو دی گئی تھی پروگرام کی تفصیلات طلب کی تھی۔ چنانچہ شعبہ تنظیم سے لے کر انہیں پروگرام بھیج دیا گیا۔ پھر جب ایس۔ ڈی۔ایم ۷ اکتوبر کو ہماری درخواست فوارہ تھانہ تحقیقات کے لیے بھیجی تو پھر وہاں سے کانسٹیبل پروگرام مانگنے آیا۔ چنانچہ مدیر دعوت کے ہمراہ فوارہ تھانہ جا کر میں نے پھر پروگرام کی نقل دے دی ۔ وہاں کے اے ۔ ایس ۔ آئی نے اطمینان دلایا کہ رپورٹ بہت جلد بھیج دی جائے گی اور اجازت ملنے میں تو کوئی رکاوٹ نہیں معلوم ہوتی۔ اب مرحلہ آیا ڈ پٹی کمشنر سے اجازت ملنے کا۔ اسی درمیان میں امیر جماعت پھر رامپور سے دہلی تشریف لائے کہ اب تک اجازت نہیں ملی۔ چونکہ دو شنبہ کے بعد بدھ کا دن ڈپٹی کمشنر سے ملنے کا تھا اس لیے ایک مقامی رفیق کو لے کر میں ۱۲ اکتو بر بدھ کو پھر ڈ پٹی کمشنر کے بنگلہ پر گیا ( اسی اثناء میں ان کی دی ہوئی ایک ماہ کی وہ مدت بھی ختم ہوگئی تھی جس کے بعد انہوں نے درخواست کا نتیجہ پتہ چلانے کے لیے کہا تھا ) ۔ اس روز وہ کہنے لگے کہ ابھی تو اجتماع ہونے کو بہت دن ہیں، ۱۵ روز پہلے بتادیا جائے گا کہ درخواست پر کیا حکم صادر ہوا ۔ جب انہیں اجتماع کی اہمیت اور وسیع پیمانے پر انتظامات کی دشواریاں جتائی گئیں تو انہوں نے جواب دیا کہ ان کی بھی تو اپنی دشواریاں ہیں، انہیں ابھی سے کیا معلوم کہ ۱۱ نومبر تک کیا ہو جائے گا۔ اس پر ہم لوگوں نے صراحت کر دی کہ اگر حالات ناسازگار ہوں گے یا شہر کی فضا کسی وجہ سے خراب ہوگی تو ہم خود اجتماع نہ کریں گے۔ دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ آپ ہمیں ابھی اجتماع کی مشروط اجازت دے سکتے ہیں اور ہم سے معاہدہ لے سکتے ہیں کہ اگر آپ فضا نا مناسب دیکھیں گے تو اجتماع نہ ہونے دیں گے۔ مگر ڈ پٹی کمشنر صاحب اس تجویز پر فرمانے لگے کہ میں اس مسئلہ پر گفتگو اور بحث نہیں کرنا چاہتا ۔ اپنا ایڈمنسٹریشن میں خود سمجھتا ہوں ۔ بس اب آپ لوگ جائیے اجتماع کی تاریخ سے پندرہ دن پیش تر درخواست پر حکم صادر ہو جائے گا کہ اجازت ملی یا نہیں۔ ڈپٹی کمشنر کا یہ رویہ دیکھ کر اجتماع کے متعلق ایک تشویش پیدا ہو گئی اور اخبار دعوت میں مجوزہ مقام کا اعلان اس لیے نہیں کیا جا رہا تھا کہ اجازت کے بغیر تعین کیسے ہو؟ اور جیسے جیسے دیر ہورہی تھی اور اس معاملے میں دعوت کو خاموش دیکھ کر پورے ہندوستان کے رفقا بیزاری و بے قراری کے خطوط اس طرح بھیجنے لگے کہ آخر اعلان کیوں نہیں ہو رہا ہے کہ کہاں اجتماع ہوگا؟ ہوگا بھی کہ نہیں یا پھر ملتوی کیا جائے گا؟ دفتر کی یہ پوزیشن ہوگئی اور مجبوراً اجتماع کی ساری سرگرمیاں متاثر ہورہی تھیں ۔
ڈپٹی کمشنر کی ملاقات کے بعد ایک عجیب کش مکش اور الجھن دماغ میں پیدا ہوگئی۔ آتے ہی میں نے مدیر دعوت سے ملاقات کی اور انہیں ساری گفتگو سے آگاہ کیا۔ خوش قسمتی سے پہلی ستمبر سے دفتر دعوت میں ٹیلی فون لگ گیا تھا۔ اور چونکہ ناظمِ اجتماع کا دفتر بھی زیادہ دور نہ تھا۔ اس ٹیلی فون نمبر نے بڑا کام کیا۔ فوراً چیف کمشنر کے پرسنل اسسٹنٹ (PA) کو فون کیا گیا کہ ہم لوگ جماعتِ اسلامی ہند کی طرف سے ۱۳ اکتوبر کی صبح ضروری کام سے ملنا چاہتے ہیں اگر ممکن ہو تو طے کرادیں۔ اس وقت چیف کمشنر کھانا کھا کر آرام فرمارہے تھے اس لیے اٹھنے کے بعد تک کے لیے پی ۔ اے (PA) نے اس معاملہ کو ملتوی رکھا اور سہ پہر کو اس مہربان نے ملاقات طے کرا دیا ۔ ملنے والوں میں میرے اور مدیر دعوت کے علاوہ نائب قیم جناب سید حامد حسین کا نام بھی دے دیا گیا تھا۔ حالانکہ ملاقات کی مشغولیت ۱۳ اکتوبر کی صبح زیادہ تھی۔ تاہم چیف کمشنر نے طے کرتے وقت ساڑھے دس بجے کا وقت تو دے دیا مگر بھی کہہ دیا تھا کہ شاید کچھ دیر تک انتظار کے لیے بیٹھنا بھی پڑ جائے۔ ملاقات طے ہونے کے بعد ہی فوراً میں نے حکومت سے مراسلہ والی فائل اٹھا کر ایک تفصیلی درخواست بنام چیف کمشنر تیار کر ڈالی جس میں اجازت کے سلسلے میں اب تک کا سارا اقدام اور حکام کا سارا رویہ وضاحت کے ساتھ درج تھا۔
ہم تینوں اس درخواست کو لے کر مقررہ وقت پر ۱۳ اکتوبر کی صبح چیف کمشنر کے بنگلے پر گئے ۔ واقعی اس روز مشغولیت زیادہ تھی اور ہمیں مزید انتظار بھی کرنا پڑا۔ تاہم چیف کمشنر نے نہایت سنجیدگی سے ہماری ساری باتیں سنیں اور درخواست کو بھی غور سے پڑھ کر رکھ لیا۔ ہماری اس بات پر انہوں نے بھی تائید کی کہ آل انڈیا اجتماع کی انتظامی کارروائیوں کے لیے کافی وقت چاہیے۔ اور ڈپٹی کمشنر کو بہر حال درخواست پر فیصلہ دے دینا چاہیے۔ خواہ اثبات میں ہو خواہ نفی میں ہو ۔ تاکہ اس کے مطابق منتظمین انتظام کر سکیں۔ انہوں نے ہمیں اس بات کا اطمینان دلایا کہ وہ ڈپٹی کمشنر سے دریافت کر کے اس بات کی فوراً کوشش کریں گے کہ درخواست کا جواب ہمیں جلد از جلد مل جائے۔ اس امید افزا انٹرویو کے علاوہ مدیر دعوت نے مجبوراً اپنے شمارہ مورخہ ۱۸ راکتوبر ۱۹۶۰ء کے ایک اداریہ میں بھی چیف کمشنر کو توجہ دلاتے ہوئے آل انڈیا اجتماع کے متعلق دہلی ایڈ منسٹریشن کے رویہ کا تذکرہ شائع کیا جو پڑھنے کے لائق ہے۔
امیر جماعت کے حکم سے میں نے عید گاہ کا بھی جائزہ لے لیا اور ایک عارضی نقشہ اجتماع گاہ کا وہاں کے لیے بھی بنا ڈالا ۔ اسی طرح ایک متبادل نقشہ اردو پارک کے لیے بھی تیار کر لیا۔ تا کہ اگر پریڈ گراؤنڈ میں اجتماع کی اجازت نہ ملے تو پھر کسی متبادل مقام پر کرنے میں زیادہ وقت نہ صرف ہو۔ یہ تھی اس وقت کی صورت حال کہ ۱۵ را کتوبر کو گیارہ بجے دن میں ناظمِ اجتماع مکان سے واپس آگئے۔ اسی روز ایک اڑتی ہوئی خبر یہ بھی معلوم ہوئی کہ حکومت کے کسی ڈیپارٹمنٹ کی کسی میٹنگ میں یہ طے ہوا ہے کہ جماعتِ اسلامی ہند کو اجتماع کی اجازت دی جائے۔ مگر جب تک آفیشل (Official) خبر نہ ملتی اس خبر سے ہمیں اطمینان نہ تھا۔ بالآخر ۱۹ اکتوبر کو عصر بعد حکومت کا ایک نامہ برایس۔ ڈی۔ ایم کی طرف سے انگریزی میں یہ تحریری پیغام لے کر آیا کہ بحوالہ آپ کی درخواست مورخہ ۱۳ اکتوبر بنام چیف کمشنر آپ کے ۱۱ تا ۱۴ نومبر ۱۹۶۰ء کو اجتماع کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے بشرطیکہ جگہ کی اجازت جگہ کے مالکان سے لے لیں ۔“ اس پیغام کی ایک کاپی براہ راست سپر نٹنڈنٹ آف پولیس کو بھی دی گئی تھی۔ اجازت ملنی تھی کہ ۱۹ اکتوبر کی شب سے کام بڑھ گیا۔ رات ہی رات اس اجازت نامے کی بارہ کا پیاں ٹائپ کر لی گئیں تا کہ مختلف درخواستوں کے ہم راہ منسلک کی جاسکیں ۔ ایک درخواست لینڈ اینڈ ڈیولپمنٹ آفیسر کے نام اور ایک میونسپل کارپوریشن کے نام بھی تیار کر لی گئی۔ ٹائپ کرنے میں ایک مقامی رفیق وقتا فوقتا مدد کرتے رہے۔ دو تین دنوں کی دوڑ دھوپ کے نتیجہ میں لینڈ اینڈ ڈیولپمنٹ آفس میں یہ بات سامنے آئی کہ پریڈ گراؤنڈ کے مطلوبہ پلاٹ کا کرایہ جس کا طول ۷۰۰ فٹ اور عرض ۵۰۰ فٹ ہوگا، تقریبا ساڑھے سات ہزار روپیہ ادا کرنا ہوگا اور اتنی ہی رقم بطور ضمانت جمع کرنی ہوگی جو بعد میں واپس کر دی جائے گی۔ اور یہ کہ اس رقم کو بذریعہ چالان پیشگی جمع کرنے کے بعد ہی پریڈ گراؤنڈ پر اجتماع کرنے کی اجازت ملے گی۔ البتہ اگر رقبہ گھٹا کر چھوٹا پلاٹ لیا جائے تو کرا یہ اس قدر کم ہو جائے گا۔ لہذا ہم لوگ یہ کہہ کر واپس آئے کہ مطلوبہ پلاٹ کے سائز کو فائنل طور پر طے کر کے کرایہ وغیرہ کے متعلق طے کر کے لوٹیں گے تو چالان لے کر جمع کریں گے۔
مشمولہ: شمارہ نومبر 2024