رواداری کا اسلامی تصوّر

شوکت عبد القادر

اسلام پر جو اعتراضات کیے جاتے ہیں، ان میں ایک یہ ہے کہ یہ تلوارکے ذریعے پھیلا ہے، بزور قوت غیرمسلموں کو دائرۂ اسلام میں داخل ہونے پر مجبور کرتاہے اور اسلام قبول نہ کرنے کی صورت میں انھیں گردن زدنی قراردیتاہے۔ یہ اعتراض اسلامی تعلیمات کے بالکل برعکس ہے۔ قرآن، حدیث اورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ سے اس کی تائید نہیں ہوتی۔ خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے دور میں بھی کوئی ایسی مثال نہیں ملتی، جس سے پتاچلے کہ قبولِ اسلام کے لیے زور زبردستی کااستعمال ہوا ہے۔

قرآن کریم کی تعلیمات

ارشاد خداوندی ہے:

وَلَوْ شَآئ رَبُّکَ لاٰمَنَ مَن فِیْ الأَرْضِ کُلُّہُمْ جَمِیْعاً أَفَأَنتَ تُکْرِہُ النَّاسَ حَتَّیٰ یَکُونُواْ مُؤْمِنِیْن  ﴿یونس:۹۹﴾

’’اگر تمہارا رب چاہتاتو کرۂ ارض کاہر فردمسلمان ہوتا، کیا تم لوگوں پر جبرکرنا چاہتے ہو یہاں تک کہ وہ سب مسلمان ہوجائیں۔‘‘

فَمَن شَآئ فَلْیُؤْمِن وَمَنْ شَآئ فَلْیَکْفُرْ ﴿کہف: ۲۹﴾

’’تو جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر اختیارکرے‘‘

لآ اِکْرَاہَ فِیْ الدِّیْنِ قَد تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ ﴿بقرہ:۲۵۶﴾

’’دین کے معاملے میں کوئی زبردستی نہیں، بے شک ہدایت گرگہرائی سے واضح ہوگئی ہے‘‘

حسن سلوک

مسلمانوںکو عام انسانوں کے ساتھ حسن سلوک اور عدل وانصاف پر مبنی معاملہ کرنے کی تاکید کی گئی ہے:

لَا یَنْہَاکُمُ اللَّہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوکُمْ فِیْ الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوکُم مِّن دِیَارِکُمْ أَن تَبَرُّوہُمْ وَتُقْسِطُوا اِلَیْْہِمْ اِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ ﴿ممتحنہ:۸﴾

’’اللہ تمھیں اس بات سے نہیں روکتاکہ تم ان لوگوں کے ساتھ نیکی اور انصاف کا برتائو کرو جنھوںنے دین کے معاملے میں تم سے جنگ نہیں کی اور تمھیں تمھارے گھروں سے نہیں نکالاہے،اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتاہے۔‘‘

لَّیْْسَ عَلَیْْکَ ہُدَاہُمْ وَلٰ کِنَّ اللّہَ یَہْدِیْ مَن یَشَآئ ُ وَمَا تُنفِقُواْ مِنْ خَیْْرٍ فَلأنفُسِکُمْ وَمَا تُنفِقُونَ اِلاَّ ابْتِغَآئ وَجْہِ اللّہِ  ﴿بقرہ:۲۷۲﴾

’’انھیں ہدایت دینا تمھاری ذمّے داری نہیں ہے، اللہ جسے چاہتاہے ہدایت دیتاہے اور جو کچھ تم مال خرچ کروگے اس میں تمہارا ہی بھلاہے اور تم صرف اللہ کی خوش نودی کے لیے مال خرچ کرتے ہو۔‘‘

وَاِنْ أَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ اسْتَجَارَکَ فَأَجِرْہُ حَتّّٰی یَسْمَعَ کَلاَمَ اللّہِ ثُمَّ أَبْلِغْہُ مَأْمَنَہُ ذَلِکَ بِأَنَّہُمْ قَوْمٌ لاَّ یَعْلَمُون ﴿توبہ:۶﴾

’’مشرکوں میں سے جو کوئی پناہ طلب کرے تو اس کو پناہ دے، یہاں تک کہ وہ اللہ کا کلام سن لے پھر اس کو اس کے جائے امن پہنچادو یہ اس لیے کہ یہ بے علم لوگ ہیں۔‘‘

حضرت جریر بن عبداللہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

من لایرحم الناس لایرحمہ اللّٰہ ﴿جامع ترمذی، ابواب البروالصلۃ، باب ماجائ فی رحمۃ الناس۔ صحیح مسلم، کتاب الفضائل ، باب رحمۃ صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔ الصبیان والعیال ، صحیح بخاری، کتاب التوحید﴾

’’جوانسانوں کے ساتھ رحم دلی کامعاملہ نہیں کرتا اللہ اس پر رحم نہیں کرتا‘‘

ایک اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

خیرالناس أنفعہم للناس ﴿عبدالرؤف المناوی، فیض القدیر شرح الجامع الصغیر: ۳/۱۸۴ رواہ القضاعی فی مسند الشہاب عن جابر﴾

’’سب سے بہتر شخص وہ ہے، جس سے انسانوں کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچے‘‘

ایک حدیث میں ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

من کان یؤمن باللّٰہ والیوم الآخر فلا یؤذ جارہ

﴿صحیح بخاری، کتاب الاٰدب، باب من کان یؤمن باللّٰہ۔ صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب الحت علی اکرام الجار﴾

’’جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتاہو وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے‘‘

ان احادیث کااطلاق مسلمانوں اور غیرمسلموں سب پر ہوگا۔ رفاہی کام ، خدمت خلق اور حسن معاشرت کی تاکید صرف مسلمانوں کے لیے نہیں کی گئی، بلکہ اس کا حکم تمام انسانوں کے لیے ہے۔ خواہ وہ کسی مذہب و ملت کو ماننے والے ہوں اور کسی بھی عقیدے کے حامل ہوں۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ

آپﷺکا عمل ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے۔ علامہ شبلی نعمانی نے لکھاہے:

‘آپﷺنے مجمع کی طرف دیکھا تو جباران قریش سامنے تھے، ان میں وہ حوصلہ مند بھی تھے جو اسلام کو مٹانے میں سب کے پیش رو تھے، وہ بھی تھے جن کی زبانیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر گالیوں کے بادل برسایاکرتی تھیں، وہ بھی تھے جن کی تیغ و سنان نے پیکر قدسی کے ساتھ گستاخیاں کی تھیں، وہ بھی تھے جنھوںنے آں حضرتﷺکے راستے میں کانٹے بچھائے تھے، وہ بھی تھے جو وعظ کے وقت آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایڑیوں کو لہولہان کردیاکرتے تھے، وہ بھی تھے جن کے حملوں کا سیلاب مدینہ کی دیواروں سے آآکر ٹکراتاتھا، وہ بھی تھے جو مسلمانوں کو جلتی ہوئی ریت پرلٹاکر ان کے سینوں پر آتشیں مہریں لگایاکرتے تھے۔ رحمت عالمﷺنے ان کی طرف دیکھا اور خوف انگیز لہجے میں پوچھا: ’’تم کو کچھ معلوم ہے میں تم سے کیا معاملہ کرنے والا ہوں؟‘‘ وہ اگر چہ ظالم تھے، شقی تھے، بے رحم تھے، لیکن مزاج شناس تھے۔ پکاراُٹھے: ’’تو شریف بھائی ہے اور شریف برادر زادہ ہے۔‘‘ ارشاد ہوا: ’’تم پر کچھ الزام نہیں جائو تم سب آزاد ہو۔‘‘ کفار نے تمام مہاجرین کے مکانات پر قبضہ کرلیاتھا، اب وہ وقت تھاکہ ان کو ان کے حقوق دلائے جاتے ، لیکن آپﷺنے مہاجرین کو حکم دیاکہ وہ اپنی مملوکات سے دستبردار ہوجائیں۔’

﴿سیرۃ النبی ﷺ دارالمصنفین، شبلی اکیڈمی اعظم گڑھ،۲۰۰۳،۱/۳۲۹-۳۷۰﴾

غزوۂ بدر کے قیدی جب صحابہ کرام کے درمیان تقسیم کردیئے گئے تو ان کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کی گئی۔ صحابہؓ نے ان کے ساتھ یہ برتائو کیاکہ ان کو کھانا کھلاتے تھے اور خود کھجور کھاکر رہ جاتے تھے۔ ان قیدیوں میں حضرت معصب بن عمیر کے بھائی ابوعزیز بھی تھے۔ ان کا بیان ہے کہ جب صبح یا شام کا کھانا آتاتو صحابہ کرام روٹی میرے سامنے رکھ دیتے اور خود کھجور تناول فرماتے۔ مجھ کو شرم آتی اور میں روٹی ان کے ہاتھ میں دے دیتا، لیکن وہ ہاتھ بھی نہ لگاتے اور مجھی کو واپس کردیتے۔ یہ صرف اس بنا پر تھا کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تاکید کی تھی کہ قیدیوں کے ساتھ اچھا سلوک کیاجائے۔

﴿ابوجعفر جریر الطبری، تاریخ الرسل و الملوک ﴿تاریخ الطبری﴾ دارالمعارف، قاہرہ مصر، ۲/۴۶۰، ۴۶۱﴾

صحابہ کرام ؓ کا نمونہ

خلیفۂ اول حضرت ابوبکرؓ نے اہل حیرہ سے جو معاہدہ کیا، اس میں یہ الفاظ بھی تھے:

لایہدم لہم بیعۃ واکنسیۃ والاقصرامن قصورھم التی کانوا یتحضون فیہا اذا نزل بہم عدولہم ولایمنعون من ضرب النوا قیس ولامن اخراج الصلبان فی یوم عیدہم

﴿ابویوسف، کتاب الخراج، المطبعۃ السلفیۃ مصر ۱۳۴۶ھ، ص:۱۷۱، فصل بی الکنائس والبیع والصلبان﴾

’’ان کی خانقاہیں اور گرجے منہدم نہیں کیے جائیں گے اور نہ کوئی ایساقلعہ گرایاجائے گا جس میں وہ ضرورت کے وقت دشمنوں کے مقابلے کے وقت پناہ لیتے تھے۔ ناقوس بجانے کی ممانعت نہ ہوگی اور تہوار کے موقع پر صلیب نکالنے سے نہ روکے جائیں گے۔‘‘

حضرت عمرؓ نے اشاعت اسلام کی غیرمعمولی خدمت انجام دی۔ لیکن اس کے باوجود انھوں نے مذہب قبول کرنے کے معاملے میں کسی کے ساتھ زور زبردستی نہیں کی اور اپنے اثر و رسوخ کاسہارا نہیں لیا۔ اس سلسلے میں ان کا ایک دلچسپ واقعہ کتابوں میں مذکور ہے۔ وسق رومی بیان کرتے ہیں:

’’میں حضرت عمر کاغلام تھا وہ مجھ سے کہاکرتے تھے کہ اسلام قبول کرلو اگر مسلمان ہوجاؤگے تو مسلمانوں کی امانتوں کے سلسلے میں مجھے سہولت ہوجائے گی کیوں کہ یہ کام کسی غیرمسلم سے نہیں لیاجاسکتا لیکن میں نے اسلام قبول کرنے سے انکار کردیا۔ آپؓ نے فرمایا: ‘‘دین کے معاملے میں کسی پر کوئی جبر نہیں‘’ پھر جب آپؓ کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپؓ نے مجھے آزاد کردیا اور فرمایا: ‘‘تیرا جہاں جی چاہے چلاجا۔‘‘

﴿ابوبکرحصاص ، أحکام القرآن، المطبعۃ البھیۃ مصر ۷۴۳۱ھ، ۲/۴۴﴾

حضرت حذیفہ بن الیمانؓ نے ماہ دینار والوں کو جو تحریر لکھی تھی اس میں یہ الفاظ تھے:

لایغیرون عن ملۃ ولایحال بینہم و بین شرائعہم

﴿تاریخ طبری:۴/۱۳۷﴾

’’نہ ان کا مذہب بدلاجائے گا اور نہ ان کے مذہبی مراسم میں دخل اندازی کی جائے گی۔‘‘

فتح اسکندریہ کے موقعے پر کثرت سے قبطی اور رومی گرفتارہوئے۔ حضرت عمرو بن العاص نے حضرت عمرفاروقؓ سے ان کے متعلق رائے پوچھی۔ انھوںنے لکھ بھیجاکہ ان کو اختیار ہے مسلمان ہوجائیں یا اپنے مذہب پر قائم رہیں۔ البتہ جو دائرہ اسلام میں آئے گا، اس کو وہی حقوق حاصل ہوںگے، جو مسلمانوں کے ہیں۔ بصورت دیگر اسے جزیہ دینا ہوگا۔ قیدیوں کو سب کے سامنے حاضر کیاگیا۔ فرداًفراً ہر ایک کو بلاکر انتخاب مذہب کی آزادی دی گئی۔ اگر وہ اسلام کااظہار کرتا تو تمام مسلمانوں کی طرف سے اللہ اکبر کا نعرہ بلندہوتا اور اگر وہ عیسائیت پر حسب سابق قائم رہتا تو عیسائیوں میں مبارکباد کی صدا بلند ہوتی اور مسلمان بہت افسوس کرتے کہ ایک شخص ان کے ہاتھ سے نکل گیا اور اس پر جزیہ عائد کردیتے۔                ﴿تاریخ طبری، ص:۱۰۶﴾

حضرت عثمانؓ کے عہد میں حضرت حبیب بن مسلمہ رضی اللہ عنہ جب ایک فاتح کی حیثیت سے تفلیس پہنچے تو وہاں کے باشندوں کے لیے انھوں نے یہ صلح نامہ تحریر کیا:

’’یہ تحریرحبیب بن مسلمہ کی طرف سے اہل تفلیس کے لیے جو حِرزان القرمز کے علاقے منجلیس میں واقع ہے ۔ ان کی جانوں ، ان کی عبادت گاہوں، ان کی خانقاہوں،ان کے طریق ہائے عبادت اور ان کے مذہب کے لیے امان ہے۔ بشرطیکہ وہ اطاعت شعاری کااقرار کریں اور گھروں کے تمام افراد پرایک دینار جزیہ دیں۔ ‘‘

﴿رئیس احمد جعفری ندوی، اسلام اور رواداری، ادارہ ثقافت اسلامیہ لاہور، ۱۹۵۷، ۲/۳۴۰﴾

جان و مال کی حفاظت

جان ومال اور جائیداد کے متعلق جو حقوق ذمیوں کو دیے گئے تھے، وہ محض زبانی نہ تھے بلکہ نہایت سختی کے ساتھ ان کی پابندی کی جاتی تھی۔ شام کے ایک کاشت کار نے شکایت کی کہ اہل فوج نے اس کی زراعت کو پامال کردیا ہے۔ حضرت عمرؓ نے اس کو بہ طور معاوضہ بیت المال سے دس ہزار درہم دلوائے۔  ﴿علامہ شبلی نعمانی، الفاروق، دارالمصنفین ، اعظم گڑھ، ۲۰۰۸، ۲/۱۱۵﴾

حضرت حذیفہ بن الیمان نے ماہ دینار والوں کو جو تحریر لکھی تھی اس میں یہ الفاظ تھے:

الأمان علی أنفسہم وأموالہم وأراضیہم

﴿تاریخ طبری، ۴/۱۳۷﴾

’’اور ان کے جان ومال اور زمین کو امان حاصل ہے‘‘

جرجان کی فتح کے معاہدے میں یہ الفاظ تھے:

ولہم الأمان علی أنفسہم و أموالہم ومللہم وشرائعہم

﴿تاریخ طبری، ۴/۱۵۲﴾

’’اور ان کے جان و مال اور مذہب و شریعت امان میں ہے‘‘

جان کے بدلے جان

سب سے بڑھ کریہ کہ ذمیوں کی جان و مال کو مسلمانوں کی جان ومال کے مساوی قراردیاگیا۔ کوئی مسلمان اگر کسی ذمّی کے قتل کا مرتکب ہوتا تو حضرت عمرؓ اس کی پاداش میںمسلمان کو قتل کرادیتے۔ حق اور انصاف کے معاملے میں کسی طرح کا امتیاز روا نہیں رکھاجاتاتھا۔ علامہ ابوبکرحصاص تحریر فرماتے ہیں:

ان رجلا من المسلمین قتل رجلامن العباد بین فقدم أخوہ علی عمر بن الخطاب فکتب أن یقتل   ﴿أحکام القرآن، ۱/۱۴۵﴾

’’ایک مسلمان نے عبادیوں﴿ایک عیسائی فرقہ﴾ کے ایک آدمی کو قتل کرڈالا، اس کابھائی حضرت عمرؓ کے پاس ﴿معاملہ لے کر﴾ آیا۔ حضرت عمرؓ نے مسلمان کے قتل کا حکم صادر فرمادیا۔‘‘

اظہار رائے کاحق

عہد نبوت اور دور صحابہ میں عوام کو اپنی رائے پیش کرنے اور ظلم وستم کے خلاف آواز بلند کرنے کاحق حاصل تھا۔ اس معاملے میں مسلم اور غیرمسلم کے درمیان کوئی فرق نہ تھا۔ عہد عثمانی میں نجران کے عیسائیوں کے ساتھ مسلمانوں نے کچھ زیادتیاں کیں تو انھوں نے حضرت عثمانؓ کی خدمت میں حاضر ہوکر اس کی شکایت کی۔ چنانچہ انھوں نے حاکم علاقہ ولید بن عتبہؓ کو لکھ بھیجا:

’’عراق میں نجران کے جو باشندے ہیں ان کے اسقف، عاقب اور سردار نے میرے پاس آکر شکایت کی ہے اور مجھے وہ شرط دکھائی ہے جو عمرؓ نے ان کے ساتھ طے کی تھی۔ مجھے معلوم ہواہے کہ مسلمانوں سے ان لوگوں کو کیا نقصانات پہنچے ہیں، میں نے ان کے جزیے میں سے تیس جوڑوں کی تخفیف کردی۔ انھیں میں نے اللہ جل شانہ’ کی راہ میں بخش دیا ہے اور میں نے ان کو وہ ساری زمین دے دی جو عمرؓ نے ان کو یمنی زمین کے عوض صدقہ کی تھی۔ اب تم ان کے ساتھ بھلائی کرو کیوں کہ یہ ایسے لوگ ہیں جنھیں ذمّہ حاصل ہے۔ میرے اور ان کے تعلقات بھی اچھے رہے ہیں۔ عمرؓ نے ان کے لیے جو صحیفہ تحریر کیاتھا، اس کو غور سے دیکھ لو اور اس میں جو کچھ درج ہے اسے پورا کرو۔‘‘

﴿سید صباح الدین عبدالرحمن، اسلام میں مذہبی رواداری ، دارالمصنفین، اعظم گڑھ، ۲۰۰۹، ص:۱۱۴﴾

غیرمسلم رعایاکو حاکم وقت کی سخت گیری اور درشت مزاجی کے خلاف آواز اٹھانے کا حق حاصل تھا۔ حضرت علیؓ کو اپنے گورنر حضرت عمرو بن مسلمہؓ کے سلسلے میں لہجے کی درشتی کی شکایت موصول ہوئی تو انھوںنے لکھا:

’’مجھے معلوم ہواہے کہ تمہارے علاقے کے ذمی دہقانوں کو تمہاری درشت مزاجی کی شکایت ہے۔ اس میں کوئی بھلائی نہیںہے۔ تم کو سختی اور نرمی دونوں سے کام لیناچاہیے، لیکن سختی ظلم کی حد تک نہ پہنچ جائے اور نرمی نقصان کی حد تک ۔ ان پر جو مطالبہ ہو، اسے وصول کیاکرو لیکن ان کے خون سے اپنا دامن محفوظ رکھو۔ ﴿شاہ معین الدین احمدندوی، تاریخ اسلام، فیصل پبلی کیشنزدیوبند، ۱/۲۸۸﴾

ذمیوں نے نہر پٹ جانے کی شکایت کی تو عامل قرطہ بن کعب کو لکھا:

’’تمہارے علاقے کے ذمیوں نے درخواست دی ہے کہ ان کی ایک نہر پٹ کر مٹ گئی ہے، جس کا بنانا مسلمانوں کا فرض ہے، تم اسے دیکھ کر درست کراکے آباد کردو، میری جان کی قسم مجھے اس کا آباد رہنا زیادہ پسند ہے۔ بہ نسبت اس کے کہ وہ ملک سے نکل جائیں یا عاجز و درماندہ ہوجائیں یا ملک کی بھلائی میں حصہ لینے کے قابل نہ رہیں۔‘‘

﴿تاریخ اسلام، حوالہ سابق﴾

عہد صدیقی میں یہ قاعدہ بھی نافذ تھا کہ جو غیرمسلم بوڑھا اور ضعیف ہوجاتااور معاش پیداکرنے سے قاصر ہوتا تو اسے وظیفے کی شکل میں رقم مہیا کی جاتی تھی اور وہ اس سے تاحیات بہرہ یاب ہوتا۔ چنانچہ حضرت خالد بن الولیدنے عہد صدیقی میں حیرہ کی فتح میں جو معاہدہ لکھا اس میں یہ الفاظ موجود تھے:

’’اور میں نے ان کو یہ حق دیاکہ اگر کوئی بوڑھا شخص کام کرنے سے معذور ہوجائے یا اس پر کوئی آفت آئے یا پہلے دولت مند تھا پھر مفلس و قلاش ہوگیا اور اس وجہ سے اس کے ہم مذہب اس کو خیرات دینے لگے تو اس کاجزیہ موقوف کردیاجائے گا اور اس کو اور اس کی اولاد کو مسلمانوں کے بیت المال سے نفقہ دیاجائے گا۔ جب تک وہ مسلمانوں کے ملک میں رہے گا لیکن اگر وہ غیرملک میں چلاجائے گا تو مسلمانوں پر اس کا نفقہ واجب نہ ہوگا۔ ‘‘

﴿کتاب الخراج ، ص:۲۷۱، فصل فی الکنائس و البیع والصلبان﴾

جزیہ کا بار برداشت نہ کرنے والوں کو جو رعایت حاصل تھی، وہ حضرت عمرؓ کے زمانے میں بھی برقرار رہی۔ اسلام نے غیرمسلموں کے ساتھ ہمدردی اور خیرخواہی کرنے کی تعلیم دی ہے۔ البتہ ان کے ساتھ ایسا تعلق اور لگائو رکھنے کی ممانعت ہے، جس کے سبب دین وایمان خطرے میں پڑجائے۔ فرمایا:

یَآ أَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰ مَنُواْ لاَ تَتَّخِذُواْ اٰ بَائ کُمْ وَاِخْوَانَکُمْ أَوْلِیَائٓ اَنِ اسْتَحَبُّواْ الْکُفْرَ عَلَی الاِیْمَانِ وَمَن یَتَوَلَّہُم مِّنکُمْ فَأُوْلَ ئِکَ ہُمُ الظَّالِمُونَ ﴿توبہ: ۳۲﴾

’’اے ایمان والو! اگر تمہارے ماں باپ اور تمہارے بھائی ایمان کے بجائے کفر کو پسند کرلیں تو انھیں اپنا دوست نہ بنائو تم میں سے جو لوگ انھیں اپنا دوست بنائیں گے وہی ظالم ہوں گے۔‘‘

یہ وہ حقائق ہیں، جو اس الزام کو دھونے کے لیے کافی ہیں کہ اسلام کی اشاعت تلوار کے زور پرہوئی یا اس کی تبلیغ و دعوت میں زور وزبردستی سے کام لیاگیاہے۔ اسلام اپنی حقانیت کی بنیاد پر اورمسلمانوں کے اخلاق وکردار اور باہمی رواداری کے نتیجے میں پھیلا اور پھیلتاجارہاہے۔ اِن شاء اللہ پھیلتاہی رہے گا۔

مشمولہ: شمارہ ستمبر 2010

مزید

حالیہ شمارے

جولائی 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau