ہمہ جہتی تحریکی تقاضے اور داخلی استحکام

یہ عنوان ہم میں سے کسی کے لیے نیا نہیں ہے۔ ہم اس سے واقف بھی ہیں اوربہ راہ راست متعلق بھی۔ اس کے باوجود ہمارے ذمے داران نے اس عنوان پر گفتگو ضروری سمجھی ہے۔ اس لیے کہ انسان کی اصل کم زوری یہ نہیں ہے کہ وہ ناواقف ہوتا ہے، بل کہ اس کی اصل اور بنیادی کم زوری یہ ہے کہ وہ واقف ہوتے ہوئے بھی بھول جاتا ہے یا غفلت کا شکار ہو جاتا ہے۔ اِسی لیے بندہ اپنے رب سے یہ دعا کرتا ہے ربنا لا تو اخذ نا ان نسینا او اخطانا۔ چنانچہ یہ موضوع ایک یاد دہانی ہے، جوہم میں سے ہر ایک کے لیے ضروری ہے ۔

جب تحریکوں اور تنظیموں پر ایک طویل مدت گزر جاتی ہے تو ان کے مقاصد کے اندر آمیزش شروع ہو جاتی ہے اورجواُن کا اصل مقصد ہوتا ہے، اس کے ساتھ دوسرے مقاصد بھی شامل ہوتے جاتے ہیں۔ بعض اوقات توصرف ڈھانچا رہ جاتا ہے ،روح غائب ہو جاتی ہے۔ دستور میں درج شدہ نصب العین اور طریقہ کار سے یا تو رشتہ کٹ جاتا ہے یاکم ازکم کم زور ہوجاتاہے۔ اگر یہ سانحہ فرد کے ساتھ ہو تو فرد نا کام و نا مراد ہو تا ہے اور تحریک کے ساتھ ہو تو تحریک نا کام و نامراد ہوتی ہے ۔اس لیے ضروری ہے کہ وقتاً فوقتاً ہم جائزہ لیتے رہیں کہ جس تحریک سے ہم جڑے ہوئے ہیں، اس کے نصب العین سے ہمارا رشتہ کتنا اور کیسا ہے۔ یہی جائزہ اور احتساب ہمیں اور ہماری تحریک کو صحیح خطوط پر گامزن رکھ سکتا ہے۔

تحریک کا اولین تقاضا یہ ہے کہ اس کا ایک واضح نصب العین ہو اور قائدین اور وابستگان کو اس کا صحیح شعور ہو۔ تحریک اسلامی میں لفظ ‘‘اسلامی’’ اس تحریک کے نظریے (Ideology) ، اس کے رُخ اور تحریک کے ہر پہلو (dimension) کی نشاندہی اوررہنمائی کرتا ہے۔ یہ تحریک اللہ کے بندوں کو ان کے رب سے جوڑتی ہے، اُسی کی رضا جوئی اور خوشنودی کے لیے جینے اور مرنے کا سبق سکھاتی ہے، اپنے جیسے انسانوں سے رشتے اور تعلق کا پیمانہ اور اصول بتاتی ہے اور ایک ایسے سماج کو وجود میں لاتی ہے، جس میں افراد صرف اپنی ہی فکر نہیں کرتے بلکہ موجود اور آنے والی نسلوں کو بھی اس راہ پر لگانے کی کوشش کرتے ہیں ۔یہ تحریک ایسے ادارے اور نظام حیات کو وجود میں لاتی ہے، جس میں اس کے نظریے اور اصول کا غلبہ ہوتا ہے اور پوری انسانیت اس سے فیض یاب ہوتی ہے۔ انسان اپنے نفس اور اپنے جیسے انسانوں کی غلامی سے نجات پاتا ہے ، اسے سچی آزادی نصیب ہوتی ہے اور اپنے رب کے دامن میں پناہ لے کر وہ سچی اور ابدی راحت و سکون سے ہم کنار ہوتاہے۔

یہ تحریک ایک ایسی انقلابی تحریک ہے، جو انسان کو اندر سے لے کر باہر تک بدل کر رکھ دیتی ہے ۔ مثبت اور منفی دونوں پہلوئوں سے اسے نکھار تی ہے ۔ ایک اللہ کی بندگی غیر اللہ کا انکار ، انبیائ کی غیر مشروط اطاعت اور دوسری تمام قیادتوں سے بغاوت اور ان کی اطاعت سے انکار اس کی انقلابیت کی روح ہے۔ اس روح کی برقراری و پرورش اصل داخلی استحکام ہے۔

تحریک اسلامی کا اہم ترین تقاضا دعوت ہے ۔ کوئی اسلامی تحریک دعوت کا فریضہ انجام دیے بغیر اسلامی تحریک نہیں کہلاسکتی ۔ دعوت نہ دی جائے تو لوگ جانیں گے کیسے ؟مانیں گے کیسے؟اپنائیں گے کیسے؟ ساتھ آئیں گے کیسے؟ دین کیسے قائم ہوگا؟ اسے غلبہ کس طرح حاصل ہوگا اور اسلامی ریاست کس طرح قائم ہوگی؟ دعوت کے یہ مختلف پہلو اور مراحل ہیں ۔آغاز سے انجام تک ہر مرحلے میں اصل رول دعوت کا ہے۔ اس لیے دعوت غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے۔ بلغ ماانزل الیک من ربک وان لم تفعل فما بلغت رسالتہ، ﴿جوکچھ تمھارے رب کی طرف سے نازل کیا گیا ہے ، وہ لوگوں کو پہنچادو اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اس کی پیغمبری کا حق ادا نہیں کیا﴾

امت کا مقصد وجود دنیا کے لوگوں پر دین حق کی گواہی ہے :

وَکَذَلِکَ جَعَلْنَاکُمْ أُمَّۃً وَسَطاً لِّتَکُونُواْ شُہَدَآئ عَلَی النَّاسِ وَیَکُونَ الرَّسُولُ عَلَیْْکُمْ شَہِیْداً ﴿البقرۃ:۱۴۳﴾

’اور اِسی طرح تو ہم نے تم مسلمانوں کو ایک امتِ وسط بنایاہے، تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو‘

اس دعوت کا ایک پہلو جہاں یہ ہے کہ اللہ کی بندگی کا ماحول بنے ،و ہیں اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ انسانوں کی زندگی انصاف کے اوپر قائم ہو۔ لقد ارسلنا رُسُلَنا بالبینات و انز لنا معھم الکتاب والمیزان لیقوم الناس بالقسطِ یہ نہایت اہم بات ہے اس لیے اس کو نظر وں سے کبھی اوجھل نہیں ہونا چاہیے کہ یہ دین عدل و انصاف کے لیے آیا ہے اور یہ دنیا سچے عدل و انصاف کی محتاج ہے۔

دعوت کے یہ وہ پہلو ہیں جو بنیادی اور مستقل نوعیت کے ہیں۔ لیکن یہ دعوت اور تحریک خلا میں کام نہیں کرتی۔ بلکہ یہ ٹھوس زمین اور زندہ معاشرے میں کام کرتی ہے ۔اس لیے بندگی رب کی دعوت کے ساتھ ساتھ معاشرے کے زندہ مسائل میں دلچسپی رکھتی ہے اور انھیں حل کرتی ہے ۔ یہ تحریک ایک ہمہ گیر نوعیت کی تحریک ہے۔ ہم یہ ضرور چاہتے ہیں کہ علم عام ہو، لیکن اسلامی تحریک کسی مدرسے کا نام نہیں ہے۔ہم نفوس کے تزکیے کی اہمیت کو محسوس کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ تزکیہ ہولیکن اسلامی تحریک کسی خانقاہ کا نام نہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ اسلامی ریاست قائم ہو اور اقتدار صالحین کے ہاتھ میں ہو لیکن اسلامی تحریک کسی سیاسی پارٹی کا نام نہیں۔ اسی طرح ادارے اور تنظیمیں بنانا اور ان کو چلاتے رہنا بھی اسلامی تحریک کا مقصد نہیں ہے۔ اسلامی تحریک کا مقصد تو یہ ہے کہ اللہ کی بندگی قائم ہو اور لوگ اللہ کی خوشنودی حاصل کر کے آخرت کی کامیابی اور جنت کے مستحق بنیں۔دنیا میں عدل و انصاف قائم ہو۔لوگ امن و سکون اور خوش حالی وترقی سے ہم کنار ہوں۔ اگر تحصیل علم ہو تو اسی مقصد کے لیے ، تزکیہ ہوتو اسی نصب العین کے لیے ، سیاست ہو تو اسی لیے اور اگر ادارہ بنایا جائے تو اسی غرض کے لیے ۔ الغرض جو کام بھی ہو اسی بنیادی مقصد کے لیے ہو۔ اگر یہ ہمہ گیر مقصد سامنے ہو تو جزوی کام بھی اپنی جگہ پر ہو سکتے ہیں۔

ساری سرگرمیوں، تمام پروگرام اور منصوبوں اور جدوجہد کا مقصود و مطلوب صرف رضائے الٰہی ہونا چاہیے۔ دعوت کا پھیلائو، اسلامی معاشرے کی تشکیل ، اسلامی ریاست کے قیام کی کوشش اور ان سب کے لیے ایک مضبوط اجتماعیت کے استحکام کی حیثیت، تحریک کے ذرائع کی ہے ۔ دنیا میں ایسی بہت سی تنظیمیں ہیں جو تحریک بن کر نمودار ہوئیں بالآخر وہ صرف تنظیم اور سوسائٹی بن کر رہ گئیں۔ یہ ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی مقصود و مطلوب ہو اور اس کی رضا ہی محور و محرک ہو اور یہ بات ہمیشہ سامنے رہنی چاہیے۔ یہی چیز در اصل متعین کرتی ہے کہ یہ تحریک کہاں تک اس مقصد کے حصول کے لیے سر گرم عمل اورمخلص ہے۔

جب انسان کے حوصلے صرف دُنیوی کامیابی کے ہونے یا نہ ہونے سے بلند اورپست ہونے لگیں تو اس کے معنی یہی ہیں کہ مقصود و مطلوب کے اندر فرق آگیا ہے ،اور اُسے اس پیمانے سے نا پا جا سکتا ہے کہ اس میں اسلامی تحریک کی خصوصیات موجود ہیں یا اس میں کوئی کمی واقع ہوگئی ہے۔ تحریک داخلی طور پر مستحکم ہے یا کمزور ہوئی ہے۔

فرد کا مقصود تو رضائے الٰہی اور فلاح آخرت کا حصول ہے اور یہ ہمیشہ تازہ اور تابندہ رہنا چاہیے۔ لیکن جماعت اور تحریک کامقصد یہ ہے کہ وہ افرادکی سعی و جہد کو اس طرح بہ روئے کار لائے کہ فرد آخرت میں کامیاب ہو اور تحریک دنیا کے اندر کامیابی حاصل کر سکے ۔ اس چیز کو قرآن نے فتح کے لفظ سے تعبیر کیا ہے۔‘‘وہ تجارت جو تمہیں عذاب الیم سے نجات دے’’ کے مخاطب افراد ہیں، جن کی آخری منزل جنت ہے۔ تحریک کی ذمے داری محض اتنی نہیں ہے کہ وہ افراد تحریک کو اللہ کی رضا کی طلب میں مصروف دیکھ کر یہ سمجھ لے کہ اس کا کام پورا ہو گیا۔ تحریک کی ذمے داری یہ بھی ہے کہ عقل و دانش استعمال کر کے اپنے افراد و وسائل کو بہترین طریقے سے صرف کرے۔ تاکہ دنیا میں جسے فتح قریب کہاگیا ہے، اس کے حاصل ہونے کے امکانات پیدا ہوجائیں ۔ اللہ کاارشاد ہے:

وَأُخْرَیٰ تُحِبُّونَہَا نَصْرٌ مِّنَ اللّٰہِ وَفَتْحٌ قَرِیْب ﴿الصف: ۱۳﴾

’اور وہ دوسری چیز جو تم چاہتے ہو، ﴿اللہ﴾ وہ بھی تمھیں دے گا۔ اللہ کی طرف سے نصرت اور قریب ہی میں حاصل ہونے والی فتح‘

اگر فرد اپنا سب کچھ اخلاص کے ساتھ اللہ کی راہ میں لگا دے، لیکن جماعت اپنی منزل تک نہ پہنچ سکے تب بھی فرد کا میاب ہے۔ لیکن اگر فرد کی نیت خالص نہ ہو تو جماعت و تحریک اگر اپنے مقصد میں کامیاب بھی ہو جائے تب بھی فرد نا کام و نامراد ہے۔ اگر ہم نے کامیابی کے ان دونوں معیاروں کو اپنے سامنے رکھا تو داخلی استحکام کے تعلق سے اپنے جائزے اور احتساب میں ہمیشہ آسانی ہوگی۔بلکہ سچی بات یہ ہے کہ جائزہ اور احتساب کا صحیح رخ یہی ہے۔ اگر رضائے الٰہی کے مقصد میں نقص ہے تو فرد خواہ کتنے ہی نعرے لگائے ، جلسے کر لے، تقریر یں کر لے، پوسٹر لگالے ، خدمت خلق کرے بہر حال وہ نا کام ہوگا ۔ اسی طرح جماعت کی حیثیت سے افراد کتنا ہی اچھا کام کر رہے ہوں قربانی کے جذبے سے بھی سر شار ہوں ، نظم و ضبط کے پابند ہوں لیکن جماعت اگر افراد کے جذبے کو صحیح راہوں پر ، صحیح حکمت عملی سے ، صحیح رخ پر نہ لگائے تو بہر حال جماعت اس دنیاکے اندر نا کام ہوگی اور ممکن ہے کہ جماعت کے قائدین اِس بات کے ذمے دار ٹھہریں کہ انہوں نے کیوں ان وسائل و ذرائع کو ضائع کیا او ر صحیح مصرف میں نہیں لگایا۔

اسلامی تحریک میں فرد اور جماعت دونوں ہی اہمیت رکھتے ہیں۔ آخرت کی کامیابی کے لحاظ سے فرد ہی اصل ہیں۔اس لیے جماعت کی تمام کوششوں کو اس بات پر مرکوز ہونا چاہیے کہ فرد کے لیے ایسے مواقع اور امکانات پیدا ہوں جن سے وہ اپنے اس مقصد کو حاصل کر سکے۔

انسانی زندگی مجموعہ ہے باہمی تعلقات کا اور وہ نام ہے معاشرہ اور جماعت کا۔ اس لیے جماعت کے بغیر انسان اپنے مقصد کو حاصل نہیں کر سکتا۔ جماعت نظم اور ڈسپلن کے بغیر قائم نہیں رہ سکتی۔ نظم او ڈسپلن کی پابندی سے فرد کی آزادی پر پابندیاں عائد ہوتی ہیں۔ دوسری طرف فرد کی تعمیر و ترقی میں اس کی آزادی اور اختلاف رائے کا حق بہت معاون ہوتا ہے اور انھی دونوںکے درمیان تصادم و تنازعات پیدا ہوتے ہیں۔ا س کا حل یہی ہے کہ فرد اور جماعت اپنی کوششوں سے مستقل طو رپر اس میں توازن پیدا کرتے رہیں۔ فرد اتنا آزاد نہ ہو جائے کہ ڈسپلن بر قرارنہ رہ سکے اور ڈسپلن اتنی سخت نہ ہو جائے کہ فرد کی آزادی پر قدغن لگ جائے۔

تحریک کے ہمہ جہت تقاضوں کی تکمیل کے لیے مناسب حال افراد کی فراہمی ناگزیر ہے۔ فرد کی تعمیر اور اس کے ارتقا میں ایک صالح اور مضبوط اجتماعیت کا رول بڑا اہم ہے۔ ایک خوشگوار اور مضبوط اجتماعیت میں باہمی اخوت و خیر خواہی ، سمع و طاعت، شوریٰ و احتساب اور نظم و ضبط اہم ستون کی حیثیت رکھتے ہیں۔یہ سب باہم ایک دوسرے سے مربوط ہیں۔ سمع و طاعت کا نظام باہمی اخوت و خیر خواہی کی بنیاد پر ہی مستحکم ہوتا ہے۔ دوسری طرف سمع و طاعت کے لیے شورائی نظام کا بہتر اور خوشگوار ہونا بھی ضروری ہے۔ نظم و ضبط کی بہتری کے لیے احتساب کا عمل برقرار رہنا چاہیے اور نظم و ضبط کے استحکام کے لیے سمع و طاعت کے نظام کاچست ہونا ضروری ہے۔ ان سارے پروسس(process) میں فرد کا رول کلیدی ہوتا ہے اور افراد کی تیاری اور ان کے ارتقائ کے لیے ان کا اس پروسس سے متعلق ہونا اور مستقل گزرتے رہنا بھی ضروری ہے۔

اسلامی اجتماعیت کا قیام یوں تو خود ہی ایک دینی فریضہ ہے و اعتصمو ابحبل اللہ جمیعا ولا تفرقوا لیکن اسلامی انقلاب بر پا کرنے کے لیے بھی اسلامی اجتماعیت کا ہونا لازم ہے ۔ اس کا شمار بھی اہم ترین تحریکی تقاضوں میں ہوتا ہے ۔ کیوں کہ ہمہ جہت تحریکی تقاضوں کی تکمیل کے لیے جن اخلاقی اوصاف و خصوصیات اور جن صلاحیتوں کے افراد کی ضرورت ہوتی ہے وہ ایک اسلامی اجتماعیت میں ہی پروان چڑھتے ہیں۔

اقامت دین کا فریضہ ہر مسلمان پر فرض ہے اور یہ فریضہ تنظیم اور اجتماعی زندگی کے بغیر ادا نہیں ہو سکتا۔ اسلامی انقلاب کا کام تنظیم کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اس لیے دینی و تحریکی لحاظ سے جماعت کی جو اہمیت ہے وہ ہمارے ذہنوں میں محفوظ رہنی چاہیے۔ افراد کی قوتیں ، طاقتیں اور صلاحیتیں تنظیم میں جمع ہو کر کئی گنا بڑھ جاتی ہیں۔ یہاںایک ایک دو نہیں ہوتے بلکہ ایک ایک گیارہ ہو جاتے ہیں۔ اس لیے مختلف قوتوں اور صلاحیتوں کے حامل افراد اگر الگ الگ ہوں تو وہ کارنامہ انجام نہیں دے پاتے، جو ایک اجتماعیت میں باہم مل کر انجام دے جاتے ہیں۔ جماعت کا کام یہ ہے کہ وہ خواب کو حقیقت بنائے۔ تمنائوں اور آرزوئوں کے حصول کو ممکن بنائے۔ جو چیز اُسے ناممکن نظر آتی ہو، وہ ممکن بن جائے اور حقیقت کا روپ دھار لے۔

تنظیم کا کام زیادہ تیز رفتاری سے ہونا چاہیے ۔ جتنی تیز رفتاری سے کام ہوگا، تنظیم اتنی ہی موثر سمجھی جائے گی۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہماری تحریک ہمہ جہت تحریک ہے، اس لیے اس کے کام کی رفتار کم معلوم ہوتی ہے۔ کچھ کہتے ہیں کہ ایک فرد کا ذاتی کام ہو تو وہ جلد انجام پاتا ہے اور زیادہ نفع بخش ہوتا ہے۔ جماعت کا کام سست بھی ہو تا ہے اور اس میں خسارہ بھی زیادہ ہوتاہے۔ اس طرح کی سوچ academiciansکی ہوتی ہے یا کاروباری لوگوں کی ۔ صحیح بات یہ ہے کہ اس طرح کی صورت حال اس تنظیم یا جماعت کی ہوتی ہے جو داخلی طو پر مستحکم نہیں ہوتی ۔ تجزیہ ہمیشہ حقیقت پسندانہ ہونا چاہیے۔ خوش فہمی اور قنوطیت سے بچناچاہیے۔ حقیقت پسند تجزیہ بتاتا ہے کہ تنظیم اگر مستحکم ہو تو کم سے کم محنت اور کم سے کم خرچ سے زیادہ سے زیادہ نفع حاصل ہوتا ہے ۔بڑی سے بڑی صلاحیت رکھنے والا فرد بھی بڑا سرمایہ لگا کر وہ نتیجہ حاصل نہیں کر سکتا جو ایک موثر اور کارگر تنظیم کرتی ہے۔ کیونکہ یہاں تھوڑی تھوڑی محنت اور تھوڑا تھوڑا سرمایہ جمع ہو کر غیر معمولی بابرکت ثابت ہوتے ہیں۔ اسلامی تحریک کا اصل سرمایہ اس کا عقیدہ، ا س کا اخلاقی نظام اور اس کے افرد کا باہم شیر و شکر اور ایک دوسرے کے لیے محبت و ایثار کاپیکر ہونا اور اپنے دین و تحریک کے لیے قربان ہونے کا جذبہ ہوتا ہے۔ اس کے اثرات و نتائج کا مقابلہ فرد اور افراد الگ الگ ہر گزنہیں کر سکتے ۔ اگرتنظیم موثر نہ ہو اور اسے و ہ حکمت میسر نہ ہو، جس سے تنظیم کو موثر بنایا جا سکتا ہے تو اس کا امکان ہے کہ وسائل توموجود ہوں ، افراد بھی میسر ہوں ، بھاگ دوڑ اور کوشش بھی جاری ہو، اس کے باوجود نفع حاصل نہ ہو سکے۔

اسلامی تحریک کی کامیابی کے لیے ایسی تنظیم کار گر نہیں ہو سکتی ہے جو صرف چلتے ہوئے کاموں اور اداروں کو چلاتی رہتی ہو،بلکہ اسے ایسی تنظیم درکار ہوتی ہے، جو maintenance سے زیادہ ارتقا اور پیش رفت پر نظررکھتی ہو۔ اس کے پیش نظر معاشرے کو مسخر کرکے اس پر غلبہ حاصل کرنا ہوتا ہے۔ اگر تحریک اپنے مقصد کو حاصل کر لے یا کامیابی کے قریب پہنچے تو وہ کارگر کہلائے گی ۔ لیکن اگر تحریکی تنظیم یا جماعت انسانی وسائل کو اسلامی انقلاب کی منزل قریب لانے میں نہیں لگاپاتی ہے تو اپنی کوتاہی سے ان کو ضائع کرتی ہے۔ ان کی قوتوں اور صلاحیتوں کو کم تر کاموں اور مقاصد میں لگاتی ہے تو یہ ایک غیر موثر اور غیر کارگر تنظیم کہلائے گی۔ اس لیے تنظیم کے لیے اس کا وہ نصب العین اس کی روح کی حیثیت رکھتا ہے، جو ہمیشہ شعور میں واضح رہے ،نگاہیں اسی پر مرکوز رہیں اور تمام وسائل ، اقدامات اور مساعی اسی کے لیے ہوں۔

تحریکی تنظیم کے لیے وہی کام اصل کام ہے، جو آنے والے کل کی تشکیل اس کے منصوبے اور اس کے مقاصد کے مطابق کر سکے۔ ورنہ تحریک ہمیشہ آج ہی میں گردش کرتی رہے گی اور کل کبھی نہیں آئے گا۔ ہماری ہر پالیسی ، ہمارے ہر فیصلے، ہمارا ہر اقدام، ہمارا ہر ضابطے اور دستور کی ہر شق کو اسی کل ﴿مستقبل﴾ کے لیے ہی وقف ہونا چاہیے۔ جس طرح ایک فرد کی زندگی میں وہی کام کار گرہے، جو آخرت میں نافع ہو، اسی طرح تنظیم کو بھی اپنے کام ، فیصلے اور اقدامات وہی کرنے چاہئیں جو کل کے لیے نفع بخش ہوں۔ فرد ہو یا تنظیم اس کا صرف متحرک ہونا یا نظر آنا کافی نہیں ہے۔ فرد کی اُخروی کامیابی اور تنظیم کی نصب العین سے قربت اور معاشرے پر اس کے مثبت اثرات کا ہونا ضروری ہے۔ اجتماع میں لوگوں کی کثرت، تربیت گاہ میں بڑے بڑے پروگرام کا انعقاد ، اخبارات و رسائل کی اشاعت میں اضافے پر تحریک کو مطمئن نہیں ہونا چاہیے۔ اس کے لیے اطمینان کی بات اس وقت ہو سکتی ہے، جب نتائج معاشرے کے اندرسے نمودار ہوں۔ معاشرے میں دعوت کتنی مقبول ہو رہی ہے، نصب العین کو اپنانے والے کتنا آگے آرہے ہیں، ملت کے اندر نصب العین کے شعور کی بیداری کی رفتار کیا ہے ،تعلیم یافتہ طبقے نے کتنا اثر قبول کیا، عوام میں کتنا نفوذ ہوا، نوجوانوں کی کتنی ذہن سازی ہوئی اور وہ کس قدر تحریک کے دست و بازو بنے، حکومت کے ایوانوں میں کتنی کھلبلی مچی، تحریک کو سمجھ کر کتنی آواز یں حمایت میں اور کتنی مخالفت میں اٹھنے لگیں ،میڈیا کی نگاہیں کتنا پیچھا کرنے لگیں اور جن افراد کی تربیت کی جا رہی ہے انھوں نے ان محاذوں پر کتنے جو ہر دکھائے، ان تمام پہلوئوںکا جائزہ بتائے گا کہ تحریک اپنے مقصد سے کتنا قریب ہو رہی ہے اور اس کا داخلی نظام کتنا موثر اور مستحکم ہے ۔

تحریک کا ایک اہم تقاضا یہ بھی ہے کہ تنظیم کو خود مقصد نہ بننے دیا جائے ورنہ اصل مقصد میں آمیزش ہو سکتی ہے، تبدیلی بھی آ سکتی ہے، اصل مقصد نگاہوں سے اوجھل بھی ہو سکتا ہے۔ معاشرے کو مسخر کرنا اور اسلامی انقلاب کی منزل کو قریب لانا اس جماعت کا اصل مقصد ہے۔ ایسا نہ ہو کہ ہماری طاقت اور وسائل کا بڑا حصہ اسی میں لگ جائے ۔یہ خطرہ ایک دینی جماعت کو لاحق ہو سکتا ہے۔ کیونکہ اسلامی جماعت کا قیام بذات خود بھی ایک مقدس دینی فریضہ ہوتا ہے۔ جب افراد کم ہوتے ہیں تو ان کے اوقات اور صلاحیتوں کا قلیل حصہ تنظیم پر لگتا ہے اور بڑا حصہ دعوت کی توسیع اور مقصد کے غلبے کی کوشش میں صرف ہو تا ہے۔ لیکن جیسے جیسے افراد میں اضافہ ہوتا ہے، تناسب بدلتا جاتا ہے۔ تنظیم بڑھے گی تو اس پر زیادہ قوت اور وسائل یقیناً لگیں گے، لیکن انہیں فطری مقام سے ہٹنا نہیں چاہیے۔ کیونکہ فطری تناسب برقرار نہ رہنے سے تنظیم بوجھل ہونے لگتی ہے اور اس کی تاثیر میں کمی واقع ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ انسان کے اوقات اور صلاحتیں ان چیزوں میں شامل ہیں جن سے تحریک پھیلتی اور معاشرہ کو مسخر کرتی ہے۔ ان کا بڑا حصہ انھی کاموں پر صرف ہونا چاہیے۔ اگر ان کا بڑا حصہ تنظیم پرخرچ ہونے لگے تو اس خوش فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہیے کہ داخلی استحکام پر زیادہ قوت صرف کی جا رہی ہے۔ کیونکہ اس خوش فہمی کے نتیجہ میں تحریک کی معاشرہ کو مسخر کرنے کی قوت کم ہو جاتی ہے ۔ لہٰذا ایسی کوشش ہونی چاہیے کہ اپنی قوت کا استعمال متناسب ہو۔ اس کا کوئی متعین فارمولہ پیش نہیں کیا جا سکتا ۔ قیادت اور افراد جماعت کی سوجھ بوجھ اور تجربے سے ہی اسے درست کیا جا سکتا ۔ ہے، داخلی استحکام کا اہم تقاضا ہے کہ اس مسئلے پر خصوصی توجہ صرف کی جائے۔ گہرائی سے اس بات کا جائزہ لینا ہوگا کہ ہمارے اوقات اورصلاحیتوں کا کتنا بہتر استعمال ہو رہا ہے ۔ بہت سارے کام جو ہم کر رہے ہیں وہ کیوں کر رہے ہیں، اور ان سے کیا حاصل ہو رہا ہے ۔ نصب العین کی طرف پیش قدمی میں ان سے کیا مدد مل رہی ہے۔ اگر ہم نے اس جائزے کی روشنی میں تحریک اور تنظیم کے تناسب کو درست کر لیا تو اِن شائ اللہ تحریک داخلی طو رپر مستحکم بھی ہوگی اور منزل کی طرف پیش قدمی میں تیزی بھی آئے گی۔

تحریک کی پیش قدمی کے لیے بہتر منصوبہ بندی بھی ضروری ہے ۔ خواہشوں اور تمنائوں کا نام منصوبہ نہیںہے ۔ نئے پرانے کاموں کی فہرست مرتب کرنا بھی منصوبہ نہیں ہے۔ منصوبہ وہ ہے جو واضح طور پرطے کرے کہ کیا کرنا ہے اور کس طرح کرنا ہے؟ کون سے وسائل درکار ہوں گے اور یہ وسائل کہاں سے فراہم ہوں گے؟ منصوبہ اس بات کا نام ہے کہ آج وہ کون ساکام کیا جائے، جس سے مستقبل ہماری مرضی کے مطابق ہوجائے۔ منصوبہ بندی کے لیے مستقبل کا اندازہ لازمی او رناگزیر ہے ۔کُل کام کا اندازہ بھی ضروری ہے۔ کام کا جو ہدف ہے اس میں سے جو ممکن ہے اس کا بھی اندازہ ہو نا چاہیے ۔ اہداف بڑے اور بلند ہونے چاہئیں البتہ ترجیحات کا قائم کرنا بہت ضروری ہے ۔ ترجیحات کو ملحوظ رکھے بغیر اگر ہر اچھے کام کو بڑا ضروری اور وقت کا تقاضا سمجھ کر کرنے لگے تو کاموں کا بوجھ جماعت کو بوجھل اور غیر موثر بنا دے گا۔ ہر کام جو پسند آجائے کر لینے کا نہیں ہوتا۔ہم کسی کام کو اس وقت تک ہاتھ میں نہیں لے سکتے جب تک کہ اس کے مناسب حال ذرائع اور افراد میسر نہ ہوں ۔ترجیحات قائم کرنے کے لیے یہ فیصلہ ضروری ہے ۔ فیصلے اگر ناقابل عمل ہوں تو رودادوں اور کاغذات کی زینت بنے رہتے ہیں عملی جامہ نہیں پہنتے۔

جماعت جب پھیلتی اور بڑھتی ہے تو افراد مسائل بھی پیدا کرتے ہیں۔ مختلف قسم کی کمزوریاں سامنے آتی ہیں۔ کمزوریوں پر قابو پانے کی کوشش بر وقت ہونی چاہیے اور ایک حد تک ہی ہونی چاہیے ۔نہ مسائل کو پال کر رکھنا چاہیے اور نہ ایسے افراد کے پیچھے اپنا وقت ضائع کرتے رہنا چاہیے۔ جماعت کبھی بھی تمام کمزوریوں سے پاک نہیں ہو سکتی ۔ اندیشوں سے زیادہ امکانات پر نظر رہنی چاہیے۔ ایک فرد اگر اصلاح قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتا تو اسی میں لگے رہنے کے بجائے بہتر افراد کو اپنانے کی کوشش کرنی چاہیے ۔خوشگوار اور تازہ ہوا کے جھونکے اند ر کی بدبودار فضا کو صحت بخش بنا دیتے ہیں۔

تنظیم کو بوجھل نہیں بنانا چاہیے ۔ہلکی پھلکی چیز تیز رفتاری کے ساتھ آگے بڑھتی ہے، بھاری بھر کم چیز کے لیے چلنا دشوار ہوتا ہے۔اس کے اندر مسائل اور امراض بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ اچھی چیز اگر ضرورت سے زیادہ کھائی جائے تو موٹاپا بڑھتا ہے اور صحت خراب ہوجاتی ہے۔ اجتماعات تنظیم کے لیے ضروری ہیںاگر سر جوڑ کر نہ بیٹھیں گے تو تنظیمی زندگی پیدا نہیں ہو سکتی۔ لیکن اجتماعات کی کثرت تنظیم کوبوجھل بناتی ہے، اس لیے میٹنگوں اور اجتماعات کی کثرت پر قابو پا نا چاہیے۔ مسائل کے حل کے لیے کمیٹیاں بھی ضروری اور مفید ہوتی ہیں، لیکن ان کی کثرت بھی تنظیم کو بوجھل بناتی ہے ۔ اس لیے جو کام افراد کر سکتے ہیں، انہیں کمیٹیوں کے حوالہ نہیں کرنا چاہیے۔

سب سے قیمتی سرمایہ وقت ہے ۔ افراد کے وقت کے استعمال میں اس کی افادیت پر نظر رہنی چاہیے۔ پیسہ اگر زیادہ خرچ ہو جائے یا ضائع ہو جائے تو دو بارہ آنے کا امکان ہوتا ہے، لیکن وقت دو بارہ ہاتھ نہیں آتا۔ روٹین کی تکمیل اور منصوبوں میں درج پروگرام کی انجام دہی کے لیے اجتماعات وغیرہ کا انعقاد یہ دیکھے بغیر کہ کیا فی الوقت اس کی کوئی ضرورت یا افادیت ہے؟ وقت، مال اور صلاحیت کے زیاں کا سبب بنتا ہے۔

انسان کواللہ تعالیٰ نے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت دی ہے اس صلاحیت کا استعمال ضروری ہے ۔ نئی راہوں کی تلاش ، نئی صورت حال پیدا ہو تو ا س سے نمٹنے کے لیے نئی منصوبہ بندی ، پرانے مسائل سے نمٹنے کے لیے ایسی راہ تلاش کرنا کہ اس پر بار بار وقت ضائع نہ کرنا پڑے ، معاشرے میں اپنا وجود محسوس کرانے کی تدابیر پر غور کرتے رہنا اور نئے تجربات کرنا، مرعوبیت و نقالی سے بچنا اور خود اعتمادی کے ساتھ آگے بڑھنا تحریکی افراد کا خاصہ ہوتا ہے۔ ایسے ہی افراد سے تنظیم میں جان پیدا ہوتی ہے اور تحریک آگے بڑھتی ہے۔

تحریک کا ہر کارکن اپنے سماج میں دوسرے لوگوں کے لیے ذمے دار اور ان کا قائد ہوتا ہے اس لیے اسے اپنی ذات اور اپنی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے فکر مند اور کوشاں ہونا چاہیے۔ جو شخص تحریک کے کسی ذمے دارانہ منصب پر فائز ہواسے اور بھی اپنی کارکردگی کو بہتر بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ سب سے پہلی چیز ذمے داری کا احساس ہے۔ کسی منصب پر فائز ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اسے اقتدار حاصل ہو اہے اور جو لوگ اس کے ساتھ چل رہے ہیں، وہ سب اس کے ماتحت ہیں، بلکہ صورت حال یہ ہے کہ وہ ان سب کا،ان کی اصلاح و تربیت کا اوران کی خیر خواہی کا ذمے دار ہے۔ اُن کے ذاتی ، گھریلو اور اجتماعی مسائل کا ذمے دار ہے اور ان سب سے بڑھ کر خود اپنی ذات کی اصلاح و تربیت کے لیے بھی ذمے دار ہے۔ اگر ایسی سوچ اور ایسا طرز عمل وہ اختیار کرتا ہے تو اس کے ساتھ چلنے والے افراد بھی اپنے شعبے میں یا اپنے ادارے میں یا اپنے محلے اور علاقے میں موجود افراد کے درمیان اسی روش پر چلیں گے اور اپنے دعوتی فرائض کو ادا کرتے ہوئے اپنی ذات کے تزکیے اور اس کی تربیت کی فکر زیادہ کریں گے۔

ذمے داری چھوٹی ہو یا بڑی،یہ اسی عظیم الشان ذمے داری کا ایک حصہ ہے جسے شہادت علی الناس کہا گیا ہے۔ جماعت نے جو دائرہ بھی طے کر دیا ہے، اس کے لحاظ سے اسے اپنی ذمے داری کا جائزہ لینا چاہیے کہ وہ کہاں تک اسے ادا کر رہا ہے۔ اسے اِس بات کا بھی احساس ہونا چاہیے اپنے ہر عمل کے سلسلے میں وہ اللہ تعا لیٰ کے سامنے جوابدہ ہے۔ اگر خلق خدا کی نگاہوں سے بچ بھی گیا تو اللہ تعالیٰ کی نگاہوں سے وہ نہیں بچ سکے گا۔

اسلامی تحریک میں منصب کی طلب تو کجا اس کا خوا ہش مند ہونا بھی بڑے خسارے کا سودا ہے ۔یہ خود کشی کا اقدام ہے، جو یقینا حرام ہے۔ لیکن اگر کوئی منصب یا ذمے داری بغیر کسی خواہش اور طلب کے کسی کے حوالے کی جائے تو اسے اللہ پر اور اس کی نصرت و تائید پر اعتماد کر کے خوداعتمادی کے ساتھ قبول کرنا چاہیے اور بہتر سے بہتر انداز میںاس کی ادائی کے لیے اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرتے رہنا چاہیے۔ اُسے چاہیے کہ وہ اپنے لیے بھی روئے اور گڑگڑائے اور دعائیں کرے اور اپنے اُن رفقا کے لیے بھی گڑگڑاکر دعائیں کرے او روئے جو اس کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ یہ خیر خواہی اور اخوت اسلامی کا عین تقاضا ہے۔

ذمے دار کو چاہیے کہ وہ اپنی اور اپنے ساتھیوں کی صلاحیتوں کا صحیح ادراک کرے اور اپنے رفقائ میں کام کی تقسیم ان کی صلاحیتوں کے اعتبار سے کرے۔ ایک اچھی ٹیم کے افراد کی گرچہ یہ خصوصیت ہوتی ہے کہ انہیں جو کام تفویض کیا جائے، اسے ذمے دارانہ طو رپر انجام دینے اور کامیاب بنانے کی کوشش کریں خواہ وہ کام ان کی پسند کا ہو یا نہ ہو۔ لیکن ایک صحت مند اور خوشگوار اجتماعیت کے لیے بہتر یہی ہے کہ صلاحتیوں کے اعتبار سے ہی کام تقسیم کیے جائیں اور ہر فرد جماعت کی اس کے کام کی مناسبت سے تربیت کی جائے اور صلاحیتوں کو پروان چڑھایا جائے۔

بہتر منصوبہ بندی اور کار کردگی کے لیے شورائی نظام کا بہتر ہونا بھی ضروری ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ذمے دار کیسا ہی سمجھ دار اور ذہین ہو لیکن عقل کُل نہیں ہو سکتا۔ ٹیم کے افراد کے فکرو فہم سے استفادہ کیا جائے تو کارکنوں میں خوداعتمادی پیدا ہوتی ہے ۔اجتماعیت پر بھی اعتماد راسخ ہوتا ہے اور ٹیم میں اپنائیت کا احساس بڑھتا ہے، جو اجتماعیت کا بڑا سرمایہ ہے ۔ مشوروں کی روشنی میں فیصلے خواہ اتفاق رائے سے ہوں یا کثرت آرائ سے یا ذمے دار کی صوابدید سے، ان کا احترام ضروری ہے ۔ اس صحت مند روایت کو برقرار رکھنے کے لیے شورائیت میں شفافیت کا لحاظ بھی ضروری ہے۔ اگر ذمے دار جماعت اپنے رفقائ کا خیر خواہ ہو اور اس کا طرز عمل اس کا گواہ ہو تو سمع و طاعت اور نظم و ضبط کا معاملہ بڑی حد تک درست رہتا ہے ۔اگر چہ اسلامی اجتماعیت سمع و طاعت اور نظم و ضبط کو ذمے دار کے رویہ سے مشروط نہیں کرتی، لیکن مضبوط اجتماعیت کے لیے ذمے دار اور قائد کا رول اور رویہ غیر معمولی اہمیت کا حامل ہوتا ہے ۔ تحریک اسلامی میں قائد اور ذمے داروں سے قربت ، محبت اور فدائیت درکار ہوتی ہے اور ان چیزوں کا انحصار قائد اور ذمے دارکی خوئے دلنوازی پر ہے۔ قائد اور ذمے داروں کی رفقائ سے خیر خواہی ،محبت اور ایثار،رفقائ کے اندر بھی اپنے قائد اور ذمے داروں کے لیے محبت، احترام،قربانی اور ان کی اطاعت کا جذبہ بیدار کرتا ہے ۔رفقائ کے ساتھ نرمی اور شفقت کا یہ مطلب نہیں کہ رفقائ کو تفویض کردہ کام کا جائزہ نہ لیا جائے، ٹیم کی کارکردگی کا احتساب نہ ہو۔ اسی طرح قائد اور ذمے دار کے احترام کا مطلب یہ نہیں کہ وہ احتساب سے بالا تر ہوگا۔

جائزے اور احتساب کا ایسا نظام ہوجس میں امیر و مامور سبھی ایک دوسرے کے سامنے جوابدہ ہوں۔یہ عمل ٹیم اسپرٹ کو برقرار رکھتا ہے اور اجتماعیت کو مستحکم کرتاہے ۔ یہ عمل جتنا کمزور ہوگا اجتماعیت اتنی ہی کمزور ہوگی۔ اگر قیادت کا احتساب نہ ہوتو قیادت کمزور ہوگی اور قیادت کمزور ہوگی تو ٹیم بھی کمزور ہوگی اور اگر ٹیم کابھی احتساب نہ ہوتو ایسی ٹیم کا اللہ ہی حافظ ہے۔ قیادت کو چاہیے کہ اپنی ٹیم میں جائزے اور احتساب کی فضا کو نہ صرف بحال رکھے بلکہ پروان چڑھائے اور دوسروں کے احتساب سے پہلے خود اپنا احتساب کرے اور خود کو دوسروں کے سامنے احتساب کے لیے پیش کرے ۔ احتساب کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ ہر فرد خواہ وہ ذمے دار ہو یا کارکن اپنااحتساب خود کرے اور بے دردی کے ساتھ کرے اور اپنے ساتھیوں کا احتساب نرمی اور درد کے احساس کے ساتھ کرے۔

افراد جماعت کی تربیت کے لیے موثر طریقہ یہ ہے کہ ان کے سامنے ایسی مثالیں موجود ہوںجو قابل تقلید ہوں۔ خواہ وہ ساتھیوں میں سے ہوں یا ذمے داروں میں سے۔ کیوں کہ انسان اپنے سامنے کے کردار سے جتنا متاثر ہوتا ہے اور اثر قبول کرتا ہے دیگر کسی ذریعے سے یہ نہیں ہوتا۔ خاص طو رپر جو لوگ قیادت و رہنمائی کا فریضہ انجام دے رہے ہوں، وہ اپنے طرز عمل سے ایسی مثالیں پیش کریں جن کو دیکھ کر دوسروں کی حوصلہ افزائی ہو۔

جماعت کا کوئی ذمے دار ہو یا رفیق بہر حال اس میں کمزوریاں ہوں گی انہیں دیکھ کر مایوس بھی نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن اس کے باوجود قیادت اور ذمے دار حضرات کی یہ ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ اپنی زندگی اور طرز عمل سے قابل تقلید مثالیں پیش کریں۔

اسلامی اجتماعیت کی اساس کا ر قرآن و سنت ہے۔ اس لیے ہم میں سے ہر شخص کو قرآن و سنت سے اپنا تعلق مضبوط کرنا چاہیے۔ خصوصاً ہمارے وہ ذمے دار جنھیں ہماری رہنمائی کرنی ہے ،انہیں رہنمائی قرآن و سنت کی روشنی میں ہی کرنی چاہیے تاکہ تحریک کا رشتہ قرآن و سنت سے ہر سطح پر استوار رہے اور ہر فیصلہ و ہدایت پر خواہ وہ چھوئی ہو یا بڑی، تحریک پورے شرح صدرکے ساتھ گام زن رہے۔ داخلی استحکام اور تحریک کا رخ اور سمت درست رکھنے کا یہی سب سے کارگر نسخہ ہے۔ جماعت و تحریک کے ماحول اور سمت اور تربیت کی کوششوں میں مطابقت کا ہونا ضروری ہے۔ درس قرآن و حدیث اور دوسرے ذرائع سے ہماری تربیت کے لیے جو غذائیں ملتی ہیں، اگر جماعت کے فیصلوں اور رہنمائیوں میں ان کی جھلک نہ ہو اور اس سے مطابقت نہ پائی جائے تو متضاد ذہن کے ساتھ تحریک کی پیش رفت معیارِمطلوب کے مطابق نہیں ہوگی۔ اس سے داخلی استحکام بھی متاثر ہوگا۔ضرورت ہے کہ ذمے دار اور قائدین اس بات پرخصوصی نظر رکھیں کہ جوباتیں وہ اپنے دروس، تقاریر اور تربیتی پروگراموں میں کہہ رہے ہیں ، تنظیم کا ماحول اور رُخ بھی اسی سمت میں ہونا چاہیے۔ جو کچھ کہا جا رہا ہو یہ تو ممکن نہیں کہ تنظیم ہو بہو اس کا نمونہ ہو لیکن کم از کم اس بات کا اہتمام کیا جائے کہ مجموعی طور پر تنظیم کا ماحول اور رُخ انھی تعلیمات کی سمت میںہو ۔

مشمولہ: شمارہ جنوری 2011

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223