علامہ شبلی نعمانیؒ کامؤرخانہ امتیاز

”المامون “کے حوالے سے (2)

مولاناکی جوانی کی رعنائیاںاس کتاب میں گل وصنوبربن کر دکھائی دیتی ہیں،آگے چل کر انھوںنے اوربھی کتابیں لکھیں؛لیکن اس کتاب میں قدم قدم،روش روش پر جو خصوصیات دکھائی دیتی ہیں،وہ شعرالعجم کے علاوہ کسی اورکتاب میں نہیں پائی جاتی ہیں، اِس کے لکھنے میں قلم کی سرشاریاں خود رہنما بنی ہیں؛’’ المامون‘‘ میں تاریخ کے خشک واقعات سمیٹے جارہے تھے،اس کومولانانے اپنے ادب وانشا کے حسن کاصحیفہ بنادیاہے‘‘۔(علامہ شبلی کی المامون پر ایک نظر، معارف، شمارہ: جنوری 1985،ص:42)

 شبلی کےاصولِ تاریخ نویسی

ویسے شبلی کی تاریخی وسوانحی تصنیفات کے مطالعے سے ان کی تاریخ نویسی کے کچھ بنیادی اصول سامنے آتے ہیں،ان کا ذکر کہیں توخود انھوں نے اپنی مختلف تحریروں میں کیا ہے اور بعض ان کی نگارشات کے مطالعے سے اخذ کیے جا سکتے ہیں، ڈاکٹر محمد سہیل شفیق، اسسٹنٹ پروفیسر، شعبۂ اسلامی تاریخ جامعہ کراچی (جنھوں نے  چھ سوسے زائد صفحات پر مشتمل ’’معارف ‘‘ کانوے سالہ (جولائی1916 تا مئی 2005) نہایت ہی قیمتی اشاریہ مرتب کیا اور گزشتہ دنوں ’’معارف ‘‘میں علامہ شبلی نعمانی کی تاریخ نویسی کے حوالے سے شائع شدہ مضامین کو اپنے وقیع مقدمے کے ساتھ ’’معارفِ شبلی‘‘ کے نام سے جمع کرکے شائع کیا ہے )نے اپنے مطالعات کی روشنی میں اُن اصول کی نشان دہی کی ہے ،جنھیں شبلی نے اپنی تاریخی وسوانحی تصانیف میں برتا ہے ،تلخیص وترمیم کے ساتھ ان کا ذکر فائدے سے خالی نہیں ہے:

  1. شبلی کے نزدیک تاریخ کا سب سے بڑا اصول یہ ہے کہ تاریخ صرف سیاسی امور پر مشتمل نہ ہو؛ بلکہ ادبی تہذیب و تمدن کی سرگزشت بھی ہو، جس میں اجتماعاتِ انسانی کی معاشرت، اخلاق، عادات، مذہب؛ ہر چیز کے متعلق معلومات کا سرمایہ مہیا کیا جائے۔
  2. شبلی نے مؤرخ کے لیے صحتِ واقعہ میں روایت کے پہلو بہ پہلو درایت سے کام لینا بھی ضروری قرار دیا ہے؛بلکہ اپنے تمام اصولِ تاریخ نویسی میں سب سے زیادہ زور اسی پر دیا ہے۔
  3. سبب یعنیCause کا سلسلہ تلاش کیا جائے ،کہ اس کے بغیر حقیقت تک رسائی ممکن نہیں۔
  4. شبلی کے نزدیک فلسفہ، انشا پردازی اور تاریخ کی سرحدیں جدا جداہیں، ان میں وہی فرق ہے، جو ایک خاکے، نقشے اور تصویر میں ہوتا ہے۔ مؤرخ کا فرض یہ ہے کہ وہ سادہ واقعہ نگاری سے تجاوز نہ کرے،البتہ شبلی کی خصوصیت یہ ہے کہ سادہ واقعہ نگاری میں بھی پرکاری اور بیان و اسلوب کے حسن کومکمل طورپرملحوظ رکھتے ہیں؛اس لیے تاریخ نگاراگر ایک طرف شبلی ہے اور دوسری طرف کوئی اور،توقاری غیرمحسوس طورپرتحریرِشبلی کی طرف کھنچتاچلاجائے گا۔
  5. شبلی تاریخ کو ملّی تناظر میں دیکھتے ہیں؛ یہی وجہ ہے کہ اُنھوں نے ’’المامون‘‘ کے مقدمے میں لکھاہے: ’’ہندوستان کی بہت سی تاریخیں لکھی گئیں اور مغلیہ و تیموریہ حکومت کے کارنامے بڑی آب و تاب سے دکھائے گئے؛ لیکن ظاہر ہے کہ ہندوستان کی مجموعی تاریخ بھی ہماری قومی تاریخ کا ایک بہت چھوٹا حصہ ہے۔‘‘(ص:2،ط:دارالمصنفین اعظم گڑھ)
  6. اسلام اور مسلمانوں سے متعلق یورپ کے کذب و افترا اور ان کی تاریخی غلطیوں کا ازالہ علامہ شبلی کی زندگی کا خاص مقصد اور مشن تھا، جرجی زیدان کی تاریخِ تمدنِ اسلامی کی مدلل تردیداور دیگر کتبِ سیروتاریخ میں مستشرقین کے اتہامات کاتعاقب شبلی کاخاص امتیازِ تحریرہے۔
  7. ان کی یہ خصوصیت بھی قابلِ ذکرہے کہ جہاںوہ چھوٹے سے چھوٹے تاریخی جزئیے کوبھی دلیل اورحوالے سے مبرہن کرتے ہیں،وہیں وہ جن کتابوں کا حوالہ دیتے ہیں ،ان کے پایۂ اعتبار و استناد کوبھی بیان کرتے جاتے ہیں،حتی کہ ان کے مصنف کے علمی واخلاقی احوال پربھی گفتگو فرماتے ہیں۔
  8. شبلی کے نزدیک مغربی مصنفین کی غلط بیانیوں کی وجہ تعصب کے علاوہ یہ بھی تھی کہ وہ پرانے زمانے کا مقابلہ جدید دور سے کرتے ہیں؛حالانکہ یہ ایک غلط اصول ہے اور مؤرخانہ دیانت داری و ہمدردی کا تقاضا ہے کہ ہم ماضی کو صرف ماضی کی نگاہ سے دیکھیں ۔شبلی نے ’’المامون‘‘کی ابتدامیں اس کی طرف واضح اشارہ کیاہے۔
  9. دوسری وجہ یہ ہے کہ بہت سے مغربی مؤرخین نے بنوامیہ یابنوعباسیہ کے بعض خلفاکے ذاتی اعمال و افعال کوراست طورپر اسلام سے منسوب کرکے مذہبِ اسلام کوموردِالزام ٹھہرانے کی مذموم حرکت کی ہے؛حالاںکہ یہ قطعاً نامناسب ہے؛کیوںکہ اگرعیسائیوں یایہودیوںکی سیاسی تاریخ کامطالعہ کریں، توبداطواربادشاہوںکی ایک لمبی فہرست ملتی ہے؛لیکن کیاان افرادکی وجہ سے ان کے مذہب کوکٹہرے میں کھڑاکرنادرست ہوگا؟
  10. شبلی کے نزدیک یورپ کے تاریخی ذخیرے میں ایک بہت بڑا نقص یہ بھی ہے کہ اس میں راوی کے ثقہ یا غیر ثقہ ہونے کی پروا نہیں کی جاتی؛بلکہ اگر کوئی ایسا موقع پیش آجاتا ہے ،تو ہر قسم کی بازاری افواہیںبھی قلم بند کرلی جاتی ہیں، جن کے راویوں کا نام و نشان تک معلوم نہیں ہوتا، ان افواہوں میں سے وہ واقعات الگ کرلیے جاتے ہیں ،جو عقل کے معیار پر پورے اترتے ہیں، پھر ایک ’’کتاب‘‘ یا تاریخ بنالی جاتی ہے اور یہی اصولِ تصنیف ہے ،جو یورپ کی تصانیف کی بنیاد ہے۔
  11. شبلی اسلامی علوم پر مکمل عبور رکھتے تھے اور اسلامی تاریخ و تہذیب پر ان کی نظر گہری تھی، نئے حالات، رجحانات، تازہ افکار و خیالات اور جدید مسائل و تحقیقات بھی ان کے لیے انوکھے اور نامانوس نہ تھے؛اس لیے مستشرقین کے اعتراضات کی تہہ تک پہنچنے اور ان کے مدلل اور محققانہ جوابات دینے میں انھیں دشواری نہیں ہوئی۔
  12. مواد کی ترتیب و تحلیل اور تنقید و تجزیے کی شرط تحقیق کو اول اول اردو میں شبلی نے ہی برتا اور فنی طور سے برتا؛یہی وجہ ہے کہ شبلی کی تمام تصانیف میں مختلف و متضادروایات کے مابین محاکمہ و نقد ملتا ہے اور صحیح کو غلط سے ممیزکیا جاتا ہے۔
  13. شبلی کاایک امتیازِتصنیف یہ بھی ہے کہ انھوں نے ہر ایک تصنیف کے مواد کے حصول کے لیے سیکڑوں مآخذ کے ہزاروں صفحات کھنگالے اور زیرِ خیال یا زیرِ قلم تالیف کے لیے تمام ممکنہ مراجع کا پتا لگایا، ان کو مختلف کتب خانوں میں تلاش کیا، ان کا مطالعہ کیا، ضروری معلومات اخذ کیں اور ہر طرح سے ان کو حاصل کیا۔یہ ان کے ذوقِ علمی اور شوقِ مطالعہ کی بے پناہی تھی کہ وہ جب کسی موضوع پرلکھنے کامن بنالیتے تھے،تواس سے متعلق مواداور مراجع کے حصول کے لیے نہ صرف متحدہ ہندوستان؛بلکہ بیرونِ ہندکے اسفارکے لیے بھی ہمہ دم تیاررہتے اورجس جگہ کے بارے میں انھیں پتالگتاکہ ان کے کام کی چیزوہاںدستیاب ہے،توہزارجتن کرکے اسے حاصل کرتے۔

”المامون“۔۔۔۔۔۔۔ایک تجزیاتی مطالعہ

شبلی نے ان اصولوںکواپنی تمام تر تاریخی وسوانحی تصانیف میں خوبی کے ساتھ برتاہے،اس سلسلے کی ان کی سب سے پہلی تصنیف ’’المامون‘‘ہے،جوعلی گڑھ میں ملازمت کے ابتدائی دنوںکے دوران لکھی گئی ہے۔’’المامون‘‘کے مقدمے میں شبلی نے پہلے اُن اسباب و علل پرروشنی ڈالی ہے،جو اس کتاب کے لکھنے کے لیے محرک ثابت ہوئے۔شبلی کویہ احساس ہواکہ اردوزبان بتدریج ایک علمی زبان کے طورپرابھررہی ہے اورمستقبل میں اس کادائرۂ اثرمزید وسیع ہونے والاہے؛لیکن اس وقت تک علماکے طبقے میں اردوکووہ توجہ حاصل نہ تھی،جوعربی اور فارسی زبان کوحاصل تھی،عام طورپرتدریس و تالیف کے لیے انہی زبانوںکااستعمال ہورہاتھا،جبکہ دوسری جانب نئی نسل تیزی سے اردوزبان کونہ صرف قبول کررہی تھی؛بلکہ اس زبان میں تصنیف وتحریر کابھی باقاعدہ سلسلہ شروع ہوچکاتھا،نوجوان طبقہ اردوزبان میںپڑھنااور لکھناچاہتاتھا،مگر اس کے سامنے اسلامی تاریخ کاکوئی ایساذخیرہ نہیں تھا،جس پروہ اعتمادکرتا،چوںکہ وہ عربی زبان سے ناواقف تھا؛اس لیے اپنی قومی تاریخ سے نابلدرہ گیااورانشاپردازی کے دوسرے شعبوںمیں مصروف ہوگیا۔

اسی پس منظرمیںعلامہ نے اسلامی حکومتوںکی ایک مبسوط و مفصل تاریخ لکھنے کاتہیہ کیا؛لیکن اس سلسلے میں بعض وجوہ سے وہ اس ترتیب کوملحوظ نہ رکھ سکے،جوان کے ذہن میںتھی اور مختلف اسلامی خلفااور حکمرانوںمیں جوان کے نزدیک عظیم الشان تھے،ان سب کی سوانح مرتب اندازمیں نہ لکھ سکے، خلفاے راشدین میں وہ حضرت عمربن خطابؓ،بنوامیہ میںولیدبن عبدالملک،بنوعباس میں مامون رشید،اندلس کے بنوامیہ میں عبدالرحمن ناصر،بنوحمدان میں سیف الدولہ،سلجوقیوںمیںملک شاہ، نوریہ میں نورالدین زنگی،ایوبیہ میں سلطان صلاح الدین ایوبی،موحدینِ اُندلس میں یعقوب بن یوسف اور ترک حکمرانوںمیں سلیمانِ اعظم کونامور فرماں روا تسلیم کرتے ہیں ،گو انھوںنے حضرت عمربن خطابؓکی سوانح لکھنے کاعزم کررکھا تھا، جسے بعدمیںنہایت ہی دیدہ ریزی واہتمام سے پورابھی کیا، مگر مامون رشیدسے آغازکر نا خودان کی طے کردہ ترتیب کے خلاف تھا،سوانھوںنے کتاب کے مقدمے میں اس کااظہارکرتے ہوئے معذرت بھی کی ہے:’’اس بات کامجھ کوافسوس ہے کہ چندمجبوریوںکی وجہ سے اس سلسلے میں ترتیب کی پابندی نہ کرسکا اور خلفاے راشدین و بنوامیہ کوچھوڑکر پہلے اس خاندان کولیا، جو ترتیباًتیسرے نمبرپرتھا،آیندہ بھی شایدمیں ترتیب کی پابندی نہ کرسکوں؛لیکن یہ قطعی ارادہ ہے کہ اگر زمانہ نے مساعدت اور عمرنے وفاکی،تواس سلسلے کے کل حصے جس طرح ہوسکے گا، پورا کروں گا‘‘۔ (ص:5)اسی طرح انھوںنے ہارون رشیدکے بالمقابل مامون کو خلفاے بنوعباسیہ کا’’ہیرو‘‘قراردینے کی وجہ بھی بیان کی ہے۔

پہلا حصہ

اصل کتاب دوحصوںمیں منقسم ہے ،پہلے حصے میںانہی احوال وواقعات کاذکرہے ،جوعموماً اس قسم کی کتا بوںمیں بیان کیے جاتے ہیں،مامون کی زندگی کے تمام ترسانحات کونہایت ہی حزم و احتیاط سے بیان کیاگیاہے اوراس سلسلے میں شبلی نے ابن جریرطبری،مسعودی،واقدی،ابن الاثیرجزری،ابن خلدون ، ابوالفداء،ذہبی،ابن قتیبہ اور بلاذری وسیوطی وغیرہ عرب مؤرخین کی کتابوںکے ساتھ مغربی مصنفین میںگبن،کارلائل،بکل اورہیگل وغیرہ کی تصانیف کوبھی پوری باریک بینی سے پڑھا ہے ، ہرتالیف میں ان کایہ طریقہ رہاہے،جس کی وجہ سے ان کی تحریروںمیں مستندمعلومات اور جدیدطریقۂ استنتاج وطرزِنگارش کے بہترین نمونوںکے ساتھ مغربی مؤرخین کے سہووتعصبات پرمعقول گرفت بھی پائی جاتی ہے۔

اس حصے میں خلافتِ اسلامیہ پراجمالی روشنی ڈالنے کے بعدبنوامیہ و بنوہاشم کی باہمی آویزش اور پھربنوعباس کی سلطنت کے آغازکوبیان کیاگیاہے،اس کے بعدمامون کی پیدایش،تعلیم و تربیت،اس ضمن میںاس کی بے مثال ذہانت و فطانت اور حاضردماغی کے مختلف واقعات،ہارو ن رشیدکامامون پرحد درجہ اعتمادواعتبار،مامون کی ولی عہدی،مامون و امین کی جانب سے لکھے جانے والی دستاویزات ، مامون و امین کے درمیان برپاہونے والے سیاسی اختلافات، نزاعات، معرکے،مامون کی افواج کے ذریعے بغدادکامحاصرہ،امین کاقتل اور مامون کاتختِ خلافت پربراجمان ہونا،مامون کے دورِحکومت میں رونما ہونے والی مختلف بغاوتوںکاذکراورمامون کاان سے بخوبی نمٹنا،مامون کے عہدکی فتوحات اور اس کی وفات کے احوال بیان کیے گئے ہیں۔

دوسراحصہ

دوسرے حصے میںعہدِ مامونی کے سیاسی انتظامات،سماجی حالات،مامون کی نجی و سیاسی زندگی کے نشیب و فراز،اس کے خصائص و عادات،اس کی علمی حیثیت،فکری مبلغ،علم حدیث،تفسیر،فقہ،ایام العرب ، ادب،انساب،فلسفہ،شعر وشاعری،ریاضی ،فنونِ لطیفہ وغیرہ میںمامون کی مہارت اوراس کے طرزِ زندگی پرتفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے،چوںکہ مامون مصنف کاہیروہے؛اس لیے انھوںنے اس کی زندگی کے ہر واقعے اور ہر پہلو کونہایت وضاحت اوردلائل کے ساتھ پیش کیاہے اوربسااوقات توایسا معلوم ہوتاہے کہ وہ اس ہیروکی خامی کوبھی اپنے زورِبیان اور قوتِ استدلال سے خوبی بناکر پیش کررہے ہیں۔

اس حصے کا آغاز بغداد -جوخلفاے بنوعباسیہ کادارالخلافہ تھا-کی سیاسی،سماجی،علمی و جغرافیائی حیثیت پر گفتگوکی گئی ہے،اس کے بعدمامون کے زمانے میں حکومت کے ذرائعِ آمدنی کی تفصیلات کابیان ہے،ملکی آبادی میں امن و امان کی فضاکاعام ہونا،مامون کی بیدارمغزی اور رعایاکے احوال و کوائف سے باخبری،عدل وانصاف کے قیام پر زوراور اقلیتوںکے حقوق کی رعایت وغیرہ کو بیان کیاگیاہے اوراس ضمن میں کئی ایسے واقعات ذکرکیے گئے ہیں،جن سے معلوم ہوتاہے کہ مامون نہایت ہی قابل اور عوامی مفادات کومدنظررکھنے والاحکمران تھا،اس کی انصاف پسندی اور عوام کی بے خوفی کے حوالے سے یہ واقعہ قابلِ ذکرہے:’’ایک دن ایک شکستہ حال بڑھیانے دربارمیں آکرزبانی یہ شکایت پیش کی کہ’’ ایک ظالم نے میری جائدادچھین لی ہے‘‘مامون نے کہاکہ’’ کس نے اوروہ کہاں ہے؟ ‘‘ تو اس نے اشارہ سے بتادیاکہ’’ وہ آپ کے پہلومیں ہے‘‘۔مامون نے دیکھاتوخوداس کا بیٹاعباس تھا، وزیر اعظم کوحکم دیاکہ عباس کو بڑھیا کے برابرلے جاکر کھڑاکردے اوردونوںکے اظہارسنے،شہزادہ عباس رک رک کرآہستہ گفتگوکرتاتھا؛لیکن بڑھیاکی آوازبے باکی کے ساتھ بلندہوتی جاتی تھی۔ وزیر اعظم نے روکاکہ’’ خلیفہ کے سامنے چلاکر گفتگوکرناخلافِ ادب ہے‘‘مامون نے کہا’’نہیں! جس طرح چاہے،آزادی سے کہنے دو، سچائی نے اس کی زبان تیزکردی ہے اور عباس کوگونگابنادیاہے‘‘۔آخرمقدمہ کا فیصلہ بڑھیاکے حق میں ہوااورجائدادواپس دلادی گئی‘‘ ۔ (ص:113)

مامون نہایت ہی ذکی الحس،بیدارمغزاور دوراندیش حکمراںتھا،وہ اپنے عاملوںاور گورنروں کو مختلف مواقع پر جوفرامین لکھ کربھیجاکرتاتھا،وہ وقتی احکام ہونے کے علاوہ حکمت و تدبرکے عمدہ نمونے ہواکرتے تھے،علامہ نے اس کے بعض تاریخی فرامین کوذکرکیاہے۔اس حصے میںمامون کے عہدمیں ہونے والی بغاوتوںکے اسباب وعوامل پر بھی تفصیلی گفتگوکی گئی ہے،اس ضمن میں شبلی نے جن اسباب کی نشان دہی کی ہے،کوئی ضروری نہیں کہ ہر مؤرخ ان سے متفق ہو ؛ لیکن یہ حقیقت ہے کہ شبلی نے نہایت تحقیق کے بعدان کاذکرکیاہے اورمعقول توجیہات پیش کی ہیں۔مامون کے علمی ذوق اور علومِ اسلامیہ کے علاوہ فلسفہ و حکمت کے حصول وترویج میں اس کے حد درجہ انہماک کوتفصیل سے بیان کیاگیاہے،وہ خودبھی ایک بڑاعالم فاضل انسان تھااور حکمراںہونے ، رات دن انتظاماتِ سیاسی میں مصروف رہنے کے باوجودعلماوفضلاکی مجلسیں برپاکرواتا،ان کے ساتھ مذاکرے کرتا،مختلف مسائل و موضوعات پرماہرینِ علوم و فنون سے کتابیں اور تصنیفات تیارکرواتااور اہلِ علم کی حددرجہ قدرکرتاتھا،اس ذیل میں علامہ نے مستندحوالوںسے مامون کی علمی قابلیت اورذہنی استحضارکے دلچسپ واقعات بیان کیے ہیں۔

مامون گوشبلی کاہیروہے اوروہ اس کے کمالات اور محاسن کودل کھول کربیان کرتے ہیں،مگر چوںکہ وہ ایک غیر جانب دارمؤرخ ہیں،سوانھوںنے اس کی خوبیوںکے دوش بدوش اس کی شاہانہ خامیوں،بے جا شان وشوکت اور عیش وطرب کی مجلسوںکوبھی تفصیل سے بیان کیاہے،جہاںوہ اپنی ذاتی زندگی میں ایک خوش اخلاق انسان تھا،وہیں اس کے اندرروایتی شاہانہ چونچلے بھی پائے جاتے تھے،مثلاً یہی کہ اس کی ایک شادی میںکل پانچ کروڑدرہم خرچ ہوئے، مسلسل اُنیس دنوںتک بارات کی خاطرداری ہوتی رہی،مہمانوںپرمشک و عنبرمیں بسائی ہوئی گولیاں نچھاورکی گئیں،جوکاغذکے ٹکڑوںمیں ملفوف تھیں اور ان پرغلام،باندی،نقد،املاک،خلعت،اسپِ خاصہ اور جاگیروغیرہ کی خاص تعداد لکھی ہوئی تھی اوریہ عام حکم تھاکہ جس کی گولی پرجولکھاہو،اسے اسی وقت دلادیاجائے،مامون کے لیے جوفرش بچھایاگیا،اس میں سونے کے تاراستعمال کیے گئے تھے اور گوہرویاقوت سے مرصع تھا، مامون جب اس پر براجمان ہوا، تواس کے پاؤںپربیش قیمت موتی نچھاورکیے گئے،زفاف کی شباب جب دولہادولہن بیٹھے،تولڑکی کی دادی نے دونوںپرہزارقیمتی موتی نچھاورکیے۔یہ ساری تفصیلات خود شبلی نے مختلف تاریخی کتب کے حوالوں سے بیان کی ہیں،جوبظاہرکسی کوبھی اچھی نہیں لگیں گی اوراس فضول خرچی کوکوئی بھی نگاہِ تحسین سے نہیں دیکھ سکتا،خودشبلی کوبھی اس کا بخوبی احساس ہے،مگرمامون بہرحال ان کاہیروہے؛اس لیے لکھتے ہیں:’’مامون کی ایک شادی کی تقریب جس شان وشوکت سے اداہوئی،وہ اس عہدکی مسرفانہ فیاضی اور حشمت و دولت کاسب سے بڑھاہوانمونہ ہے۔عربی مؤرخوںکا دعویٰ ہے کہ گزشتہ اور موجودہ زمانہ اس کی کوئی نظیرنہیں لاسکتا،ہماری محدودواقفیت میں اب تک کسی نے ان کے اس فخریہ ادعاپراعتراض کرنے کی جرأت نہیں کی ہے‘‘۔(ص:151)

سیدصباح الدین عبدالرحمن نے شبلی کے اس بیان کی مدافعت کی ہے:’’(شبلی)اس مسرفانہ فیاضی سے بیزاری کااظہارکرکے اس کی تفصیل کونظراندازکردیتے،تویہی ان کے لیے مناسب ہوتا،مگرایک مؤرخ کی حیثیت سے وہ اس موقع کی شان وشوکت اور حشمت سے متاثرہوئے،تواس سے صرفِ نظرکرنا بھی صحیح نہیں تھا‘‘۔(علامہ شبلی کی المامون پر ایک نظر، معارف، شمارہ: جنوری1985، ص : 32)ویسے یہ حقیقت ہے کہ علامہ نے مامون کی نجی زندگی کے بھی ہر پہلوپر کھل کرلکھاہے اور حتی الامکان مؤرخانہ غیرجانب داری کا بھی ثبوت دیا ہے؛ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ وہی مامون جومیدانِ جنگ میں ایک جری و بہادرانسان اور علمی مجلسوںمیں باریک سے باریک نکتوںکوحل کرنے والاشناورہے،وہی  عیش وطرب کی مجلسوںکابھی صدرنشین بناہواہے۔

اس بارے میں شبلی لکھتے ہیں کہ آغازِ خلافت میں بیس مہینے تک وہ نغمہ و سرودسے بالکل محترزرہا،مگر چند روز کے بعد شوق پیداہوا،مگراتناہی کہ احتیاط کے ساتھ کبھی کبھی سن لیتاتھا،یہ حالت بھی چاربرس تک قائم رہی،پھرتوایسی چاٹ پڑگئی کہ ایک دن ان صحبتوں کے بغیر بسرنہیں کرسکتاتھا۔اس سلسلے میں عام انسانی فطرت کوسامنے رکھتے ہوئے شبلی کاکہناہے:’’لیکن اگر انصاف سے دیکھیے تواس میں تعجب کی کیابات ہے،آزادی،حوصلہ مندی،لطافتِ طبع،جوشِ شباب ہمیشہ زہدکی حکومت سے باغی رہتے آئے ہیں‘‘۔(ص:155)اس ضمن کے سارے واقعات شبلی نے اس دل آویزی کے ساتھ بیا ن کیے ہیںکہ ان میں مخصوص قسم کی طرب ناکی وسحرانگیزی پیداہوگئی ہے۔بالکل اسی طرح جب وہ غم و اندوہ کے مناظروواقعات کی نقشہ کشی کرتے ہیں،توایسامعلوم ہوتاہے کہ لخت ہاے جگرکوبکھیرکررکھ دیاہے ،یقیناً یہ اسلوب ِشبلی کا امتیاز ہے، سید صباح الدین عبدالرحمن نے لکھاہے:’’مولانانے اس(مامون)کی وفات کی سوگواری کی جودردناک تصویر کشی کی ہے،اس میں ان کے قلم کاوہی زورہے،جومامون کے شبستانِ عیش کی مرقع آرائی میں ہے،فرق صرف غمناکی اور نشاط انگیزی کاہے۔مولانانے اپنے زمانے کی کم مایہ اردونثرنگاری میں اپنے قلم کاجواعجازدکھایاہے،اس کی مثال اردوکے ان کے معاصر اہلِ قلم کے یہاں کم ملے گی‘‘۔(معارف،جنوری 1985،ص:41)

شبلی نے مامون کے مذہبی افکاروخیالات کوبھی موضوعِ گفتگوبنایاہے؛لیکن ان پرکھل کرنہیں لکھا ہے ، شیعیت کی طرف اس کے رجحان،متعہ کے جوازکی عام منادی اور قرآن کے حادث ہونے کے عقیدے کی اشاعت وترویج پر اصراراوراس سلسلے میں علماوائمۂ وقت کے ساتھ کی جانے والی زیادتیاں یقیناً مامون کے شدیدترین فکری انحرافات ہیں۔اہلِ بیت سے اس کی محبت یقیناً قابلِ تعریف اورلائقِ تقلیدہے،اس نے بنوہاشم کے ساتھ جس دادودہش کا معاملہ کیا،اس میں بھی کسی کواشکال نہیں ہوسکتا،نبی پاکﷺسے اس کوجوگہری عقیدت ومحبت تھی،وہ بھی قابلِ رشک ہے؛لیکن برامکہ کی صحبت اور پھر فضل بن سہل جیسے اعلیٰ درجے کے درباری ارکان جومتشیع تھے اور پھربعدمیں معتزلہ کی رسائی وحاشیہ نشینی نے اسے اپنے موروثی عقائدونظریات سے بہت حد تک دورکردیاتھا،یہ چیزاچھی تھی کہ اس کی علمی انجمن میں مسلمانوںکے علاوہ عیسائی،یہودی،مجوسی اور ہندوہر مذہب کے ماہرینِ فن جمع تھے،جومختلف علوم وفنون کی تحقیق ،تدقیق و ترجمہ نگاری پرمامورتھے،مگرنظریاتی اور فکری طورپرمامون کادوسروں سے متاثر ہوجانا اندوہ ناک تھااوراس کے نقصانات سنی مسلمانوں کو اٹھانے پڑے،شبلی نے صراحت کی ہے کہ مامون کامتعہ کے عام جوازکااعلان کروانا’’شیعہ پن کے جوش‘‘میں تھا،جوبالآخرقاضی یحی بن اکثم کے جرأت مندانہ مکالمے کی وجہ سے منسوخ ہوا،اسی طرح فلسفہ میں حد درجہ استغراق نے اس کوبہت سے مسائل ونظریات میں معتزلی الفکربنادیاتھا،جن میں سے ایک قرآن کے حادث ہونے کاعقیدہ بھی ہے،جس پراس کواصرارتھااوراس کی وجہ سے اس نے علماے اسلام پربے پناہ مظالم ڈھائے۔

دوسرے حصے میں مامون کے عہدکی یورپی سلطنتوںکابھی اجمالی جائزہ لیاگیاہے،اس کے علاوہ مختلف سرکاری عہدوںاور مناصب اوران پرمامورہونے والے افرادکی ذمے داریوںکی تفصیلات، مامون اوراس کے اہلِ دربارکے متعدددلچسپ لطائف اوراخیرمیں مامون کے عہدکے بہت سے اہلِ فضل وکمال کاذکرِجمیل ہے۔ اس کتاب میں شبلی نے واقعات و جزئیات کے نقدوتحلیل کے بعدمختلف موقعوںپر جورائیں قائم کی ہیں،ان سے بعض دفعہ بعض قاری یامؤرخ کو اختلاف بھی ہوسکتاہے؛لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ شبلی نے’’ المامون‘‘ کے ذریعے سے اسلامی تاریخِ حکومت وسیاست کی بہترین مرقع نگاری کی ، اردو زبان میں تاریخ نگاری کی انتہائی مہتم بالشان بنیاداٹھائی اور پھر بعدکے تصنیفی مرحلوںمیں اسے قوی سے قوی تر کرتے گئے۔

”المامون“کاعربی ترجمہ

’’المامون‘‘اپنی مذکورہ ٔ بالامتنوع خوبیوںکی وجہ سے اس بات کی حق دارتھی کہ’’ الفاروق‘‘ و’’سیرۃ النبیﷺ‘‘وغیرہ کی طرح اس کتاب کابھی عربی ودیگرزبانوںمیں ترجمہ کیاجاتا؛تاکہ اس کی رسائی کادائرہ بڑھے اوراتنی قیمتی تصنیف کے ذریعے زیادہ سے زیادہ لوگوںکواستفادہ کاموقع نصیب ہو؛ لیکن اب تک ’’المامون‘‘کا عربی ترجمہ بھی نہیں ہواتھا۔اللہ تعالیٰ نے یہ سعادت خطۂ اعظم گڑھ کے ہی کے ایک باکمال فرداورعربی زبان وادب و تحقیق کے فاضل ڈاکٹراورنگ زیب (اسسٹنٹ پروفیسرشعبۂ عربی،جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی) کے حق میں مقدر کر رکھی تھی،سوانھوںنے اس اہم تالیف کے عربی ترجمے کابیڑہ اٹھایا اوراس کے شایانِ شان اس کام کوپایۂ تکمیل تک پہنچایاہے،’’المامون‘‘کایہ ترجمہ حال ہی میں ’’دارالکتب العلمیہ‘‘بیروت سے شائع بھی ہوگیا ہے۔ ترجمہ شگفتہ،سلیس اور خوب صورت ہے ، ترجمے کے الفاظ میں بھرپورروانی ہے ،تعبیرات وتراکیب کوبوجھل بنانے سے احتراز کیا گیا ہے ،جس کی وجہ سے ترجمے میںاصل کتاب کالطف پیداہوگیا ہے۔

مترجم نے مؤلف کے مقاصدومفاہیم کوفصیح اورواضح زبان میںمنتقل کیاہے ،ترجمے کوپڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ فاضل مترجم نے  اصل متن کوکئی بار پڑھااوراس کے بعداسے عربی کاجامہ پہنا یا ہے ، علامہ شبلی نعمانی نے نہایت دقتِ نظری سے تاریخی مآخذتک رسائی حاصل کرکے ان کے حوالے درج کیے ہیں اور جگہ جگہ بعض واقعات یاجزئیات کی توضیح کے لیے حاشیے اورنوٹس بھی تحریرکیے ہیں، مترجم نے اصل مراجع سے رجوع کرکے جن حوالوںمیںاصل کتاب کاصفحہ نمبردرج نہیں تھا،ان کاصفحہ نمبراور اگرکہیں کوئی سہو واقع ہواہے،تواس کی تصحیح بھی کردی ہے۔کتاب کے شروع میں ’’المامون‘‘ کی تنقیدوتجزیہ پر مشتمل دبستانِ شبلی کے معروف محقق اورصاحبِ قلم سیدصباح الدین عبدالرحمن کے وقیع مقالے(جس کاحوالہ اوپر دیا گیا ہے ) کاترجمہ بھی شامل کردیاہے؛تاکہ قاری اصل کتاب کوپڑھنے سے پہلے اس کی اہمیت اور قدر ومنزلت سے آگاہی کے ساتھ اس کے مشمولات سے بھی اجمالی واقفیت حاصل کرلے۔

ڈاکٹر اورنگ زیب اعظمی نے اب تک علامہ شبلی نعمانی کی متعدداہم تاریخی وعلمی تحریروںکاعربی ترجمہ کیاہے ، جن میںسے کئی شائع ہوچکیںاوربعض اشاعت کے مرحلے میں ہیں،جبکہ انھوں نے ’’مقالاتِ شبلی‘‘ جلد ششم کے مقالات (کتب خانہ اسکندریہ،اسلامی کتب خانے ، اسلامی حکومتیں اورشفاخانے ، مکینکس اورمسلمان) کاعربی ترجمہ (ترجمہ: ڈاکٹر ہیفاشاکری ، اسسٹنٹ پروفیسرشعبۂ عربی جامعہ ملیہ اسلامیہ)اپنے زیراہتمام شائع کیا ہے،اس سے قبل2014ء میں ’’شبلی صدی‘‘  کے موقع پراپنے زیرِ ادارت شائع ہونے والے ’’مجلۃ الہند‘‘مغربی بنگال کا شبلی نمبردو م ضخیم جلدوں میں(ایک ہزارسے زائدصفحات پر مشتمل) شائع کرچکے ہیں، جس میںعلامہ شبلی نعمانی کی حیات اوران کی خدمات کے مختلف گوشوںپر مختلف محققین اور اصحابِ قلم کے مقالات اوراردومقالوںکے عربی ترجمے شامل کیے گئے ہیں،ان عظیم الشان خدمات کے لیے  ڈاکٹراورنگ زیب اعظمی شکریے کے مستحق ہیں۔

مشمولہ: شمارہ اکتوبر 2017

مزید

حالیہ شمارے

نومبر 2024

شمارہ پڑھیں

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223