شادی بیاہ کی رسوم اوراعتدال
امت مسلمہ کو قرآن مجید میں ’ امت وسط‘ کہا گیا ہے اورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اعتدال کی روش کی تحسین کی ہے۔ آپ ؐ نے فرمایا: ’’ خیر الامور اوسطہا‘‘ یعنی جملہ امور میںاعتدال کا راستہ ہی بہتر ہے۔ امت مسلمہ آج زندگی کے ہر شعبہ میں افراط و تفریط کا شکار ہے، خواہ اس کا تعلق عبادات سے ہو یا معاملات سے۔ شادی بیاہ کے رسم و رواج کے تعلق سے بھی وہ افراط و تفریط میں مبتلا ہے۔ یا تو یہ کوشش کی جاتی ہے کہ جملہ رسوم بہ یک جنبش قلم ختم کردی جائیں یا یہ رویہ اپنایا جاتاہے کہ ہر رسم کو اعلیٰ پیمانے پر انجام دیا جائے۔ ہمارے واعظین بھی جب اسٹیج پر خطابت کے جوہردکھاتے ہیں تو منگنی، بارات، جہیز وغیرہ کو مشرکانہ و کافرانہ عمل قرار دیتے ہیں لیکن پھر یہی واعظین ایسی تمام شادیوں میں شرکت بھی فرماتے ہیں،جن میں یہ تمام کام انجام دئے جاتے ہیںبلکہ علماء کی اکثریت خود ان جملہ رسوم کو انجام دیتی ہے۔
یہ درست ہے کہ موجودہ دور میں شادی بیاہ کی تقریبات میں بہت سی ایسی رسوم کو شامل کرلیا گیا ہے جن کا تعلق اسلام سے نہیں ہے، بلکہ وہ ہندوستانی تہذیب کی علامت ہیں، لیکن سینکڑوں بر س سے یہ رسمیں چلی آرہی ہیں۔’ما الفینا علیہ آباء نا‘ ہم نے اپنے اسلاف کو یہی کرتے دیکھا ہے۔ اس لیے یہ کوشش کہ جملہ رسمیں فوراً ختم ہوجائیں، نہ صرف نا ممکن ہے، بلکہ اصلاح کے عمل کوبھی متاثر کرتی ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اعتدال کی روش اختیار کی جائے ۔بعض رسوم کو ختم کردیا جائے، مثلاً جوتا چرائی ،پان کھلائی،چوٹی سہراوغیرہ ،بعض کی اصلاح کردی جائے ، مثلاً منگنی ، بارات وغیرہ اور بعض رسموں مثلاً جہیز،بھات وغیرہ کو اس وقت تک گوارا کرلیا جائے جب تک ملت کا اجتماعی مزاج تبدیل نہ ہوجائے۔
اسلام انسانوں کے لیے رحمت ہے۔ اس نے اپنے متبعین کو وہی ہدایات و احکام دیے ہیںجن میں خیر اور بھلائی ہے ۔اگر اس نے جہیز کے مطالبےکو حرام قرار دیا ہے تو اس کانعم البدل وراثت کی شکل میں عطا کیا ہے۔ایک طرف سودی کاروبار کو حرام قرار دیا تو دوسری طرف امت کے اجتماعی مزاج میں انفاق اور تعاون باہمی کی فضا پیدا کی۔ اسلامی حکومت کو پابند کیا کہ وہ غیر سودی قرض فراہم کرے اور لوگوں کی ضروریات پوری کی جائیں۔ آج مسجد کے منبرسے سود کے حرام ہونے کا فتویٰ صادر کردیا جاتا ہے، (راقم بھی سود کو حرام سمجھتا ہے ) لیکن اس کا متبادل فراہم نہیں کیا جاتا، اس لیے ہزاروں تقریروں اور سمیناروں کے باوجود امت اس لعنت سے چھٹکارانہیں پاسکی ہے ۔ ذیل میں شادی بیاہ کی چند رسوم کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔
منگنی/سگائی
اس رسم کا مطلب ہے رشتہ مانگنا، رشتہ طے ہوجانے کا اقرار واعلان کرنا۔ معنیٰ و مفہوم کے لحاظ سے اس رسم میں کوئی قباحت نظر نہیں آتی ہے۔ ظاہر ہے ، آپ جس سے رشتہ کرنا چاہیں گے تو اس کے گھر جائیں گے، وہ لوگ آپ کے گھر آئیں گے، باہم گفتگو ہوگی، ایک دوسرے کے حالات سے واقفیت حاصل کی جائے گی، اس آنے جانے میں آپ کے ساتھ آپ کے قریبی اعزہ مثلاً چچا، تایا، بھائی وغیرہ ہوں گے۔ خواتین بھی ہوں گی، تاکہ گھر آنگن دیکھ لیں۔ یہ آنا جانا ایک سے زائد بار بھی ہوسکتا ہے۔ اس موقع پر طرفین ضیافت بھی کریں گے۔رشتہ پسند آجانے کی صورت میںطرفین کے رشتہ دار جمع ہوکر اس بات کا اعلان کردیں گے کہ یہ رشتہ طے پا گیا ہے اور فلاں تاریخ یا مہینہ میں نکاح ہوگا۔ نبی ﷺنے تو یہ ہدایت بھی فرمائی ہے کہ لڑکا اپنی منگیتر کو دیکھ لے۔
اس حد تک یہ رسم درست ہے، البتہ اس موقع پر قیمتی جوڑے دینا ، یا استطاعت سے بڑھ کر ضیافت کرنایا قریبی رشتہ داروں کے علاوہ ایک جم غفیر اکٹھا کرلینا اسراف اور تبذیر ہے۔ اب کوئی کہے کہ منگنی حرام ہے اور قطعاً نہیں ہونا چاہیے تو وہ ایک ایسی بات کہتا ہے جو نا قابل عمل ہے۔البتہ اس رسم میں اسراف سے گریز کرنا چاہئے۔
تاریخ بھیجنا
اس کو بعض علاقوں میں نشانی یا جوڑا بھیجنا بھی کہتے ہیں۔ عام طور پر اس میں ایک لال خط پر لڑکی والوں کی جانب سے نکاح کے لیے متعینہ تاریخ و دن پر لڑکے والوں کو مدعو کیا جاتاہے۔ لڑکی والا اپنے گھر دوچار افراد جمع کرکے یہ خط تحریر کراتا ہے اور کسی عزیز کے ذریعہ اسے بھیجتا ہے۔ لڑکے والا بھی اپنے گھر چند افراد کو جمع کرتا ہے اور وہ خط پڑھ کر سناتا ہے۔ اس حد تک اس رسم میں کوئی قباحت نہیں ہے، البتہ اس موقع پر لڑکی والے کی طرف سے مختلف تحائف ، سونے کی انگوٹھی وغیرہ بھیجنا ظاہر ہے فضول خرچی کے دائرے میں آتا ہے۔
بارات
دولہا کے ساتھ اس کے رشتہ دار، احباب اور اہل محلہ کی ایک بڑی تعداد جاتی ہے۔ اسے بارات کہتے ہیں۔اس ضمن میں بعض افراد کا موقف یہ ہے کہ صرف دوچار افراد ہی جائیں اور نکاح کرکے آجائیں جب کہ دیگر لوگوںکے یہاں کوئی تعداد متعین نہیں ہے۔ یہ سینکڑوں تک پہنچ جاتی ہے۔
شریعت میں نکاح علی الاعلان کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ یعنی نکاح مجلس عام میں ہو تاکہ سب لوگ گواہ بھی رہیںاور دعا گو بھی ہوں۔ یہ افراد صرف لڑکی والوں کی جانب سے ہوں یا دونوں اطراف سے ، اس تعلق سے واضح ہدایات و ر ہ نمائی نہیں ملتی۔
کہا جاتا ہے کہ نبی ﷺکے زمانہ میں بارات کا تصور نہ تھا۔ اس سلسلے میں یہ وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے کہ نبی ؐ کا پورا زمانہ بلکہ خلافت راشدہ تک مسلمان حالت جنگ میں رہے اور حالت جنگ میں مسرت کے مواقع پر بھی شادیانے نہیں بجائے جاتے، نبی ؐ کے زمانہ میں جو شادیاں بھی ہوئیں وہ ایک ہی بستی میں ہوئیں۔ فتح مکہ سے پہلے تک مسلمانوں کی بڑی تعداد مدینہ میں آباد تھی اور پورامدینہ مختصرسے علاقے میں بسا ہوا تھا۔ ایک بستی میں دونوں فریقوں کے موجود ہونے اور حالت جنگ میں رہنے کے باعث کسی بارات کاتصور کیسے کیا جا سکتا ہے۔ اس کے باوجود نکاح عام طور پر مسجد نبوی میں ہوتا اور بیشتر صحابہ کرام ؓ اس موقع پر موجود رہتے۔ یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ آبادی بھی کم تھی اور رشتہ داریاں محدود تھیں۔ رشتہ داروں کی ایک بڑی تعداد کے حالت کفر میں ہونے کے سبب ان سے رشتہ داریاں ختم ہوچکی تھیں۔ آج جب کہ آبادی بڑ ھ گئی ، حالت جنگ بھی نہیں ہے، نکاح بھی سینکڑوں میل دور سے ہوتے ہیں۔ان حالات میں یہ مطالبہ کرنا کہ صرف دو آدمی ہی نکاح کرنے جائیں کسی طرح بھی مناسب معلوم نہیں ہوتا۔ میرے خیال میں اعتدال کا راستہ یہ ہے کہ بہت قریبی اعزہ مثلاً دولہا کے والد، دادا ، نانا، چچا، تایا، ماموں، خالہ ، پھوپھا وغیرہ اس کے ساتھ جاسکتے ہیں۔ یہ تعداد چالیس پچاس تک ہوسکتی ہے۔ دور کے رشتہ دار، دوست اور اہل محلہ کو نہ لے جایا جائے۔
لڑکی والوں کے یہاں کھانا
لڑکی والوں پر دولہا اور اس کے اعزہ کو کھانا کھلانا شریعت نے ضروری قرار نہیں دیا ہے، لیکن نہ کھلانے کا بھی حکم نہیں دیا گیا ہے ۔ایک بستی سے دوسری بستی میں نکاح کے لئے لوگ جائیں، خواہ ان کی تعداد دس ہو یا پچاس اور فاصلہ بھی اتنا ہوکہ کھانے کا وقت درمیان میں آتا ہو۔ اب دو شکلیں ہوں گی ۔ایک شکل یہ کہ لڑکے والا اپنے گھر سے کھانا بنواکر لے جائے یا کسی ہوٹل میں انتظام کرے یا ہر فرد اپنے کھانے کا نظم خود کرے ۔ دوسری شکل یہ ہوگی کہ یہ افراد لڑکی والے کے مہمان ہوں گے اور وہ ان کی حسب استطاعت میزبانی کرے گا ،کیونکہ رشتہ ہو جانے کی صورت میں یہ سب لوگ اس کے بھی اعزہ ہوں گے ۔کیا اسلام نے اعزہ کی میزبانی کو حرام قرار دیا ہے ؟عام طور پر کسی کی موت پر تعزیت کے لئے آنے والوں کو بھی کھانا کھلایا جاتا ہے اور یہ تو خوشی اور مسرت کا مقام ہے ۔البتہ اپنی حیثیت سے زیادہ خرچ کرنا اور کھانا ضائع کرنا ،صرف نام ونمود کے لئے اتنی اقسام کے کھانے پکوانا کے کھانے والوں کو انتخاب میں بھی پریشانی ہوجائے یا مہمانوں کی طرف سے کسی خاص قسم کے کھانوں کا مطالبہ کسی طرح درست نہیں۔
جہیز
شادی کے وقت لڑکی والا اپنی بیٹی کو جو سامان دیتا ہے وہ جہیز کہلاتا ہے۔ بیٹی کو خالی ہاتھ رخصت کرنا تفریط ہے اور زندگی گزارنے کے لیے جُملہ سامان لازماً دینا افراط ہے۔ نبی ﷺکا معمول تھا کہ جب آپ کی بیٹیاں آپ کے پاس آتیں تو آپ انھیںتحفہ دیتے ۔ایک بار آپ کی دودھ شریک بہن شیماتشریف لائیں، ان کی واپسی کے وقت آپ نے انھیںخچر بھر کر سامان عنایت فرمایا۔
اسلام نے وراثت کا حق مقرر کیا ہے۔اگر سماج میں وہ حق دیا جانے لگے تو جہیز کی رسم خود بخود ختم ہوجائے گی، لیکن جب تک وراثت قائم نہیں ہوتی اس وقت تک جہیز نہ دینے پر اِصرار گویا لڑکی کا حق مارنا اور اسے بے یارو مددگار چھوڑناہے۔ ہمارے واعظین جس قدر زور جہیز کے ختم ہونے پر صَرف کررہے ہیں انھیں چاہیے کہ اتنا زور وراثت کو قائم کرنے پر لگائیں۔ اس طرح ایک فرض قائم ہوگا اور ایک منکر ختم ہوجائے گا۔ لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ بہت سےدین دار افراد بھی وراثت میں بیٹی اور بہن کا حق نہیں دیتے۔ اس صورت میں اگر آپ جہیز کو بھی یکسر ختم کردیں گے تو لڑکی کا مالی خسارہ ہوگا۔ اس پر ’ بھات‘ کی رسم کو بھی قیا س کیا جاسکتا ہے۔ ’ بھات‘ بھائیوں کی طرف سے وہ رقم یا سامان ہے جو وہ اپنی بہنوں کو ان کے بچوں کی شادی کے موقع پر دیتے ہیں۔اگر وراثت دے دی جائے تو بھات کی ضرورت باقی نہیں رہے گی اور نہ بہنوں کی طرف سے اس کا مطالبہ ہوگا۔
سلامی
شادی بیاہ کے موقع پرانجام دی جانے والی رسموں میں سے ایک رسم ’ سلامی‘ ہے۔ دولہا کو نکاح کے بعد گھر میں بلایا جاتا ہے، رشتہ دار خواتین اسے تحفہ دیتی ہیں اور وہ ان کو سلام کرتا ہے۔ اس رسم میں بظاہر کوئی برائی نہیں ہے، البتہ اس موقع پر جوان لڑکے لڑکیاں بے شرمی و بے حیائی کا مظاہرہ کرتے ہیں ،جو قابل اصلاح ہے۔ اس رسم کو ’باہمی تعارف‘ کا نام دینا چاہیے۔ شادی کے موقع پر اعزہ جمع ہوتے ہیں ، اس بات کی ضرورت تو بہرحال محسوس ہوتی ہے کہ دولہا کا ان اعزہ سے تعارف ہوجائے، ممکن ہے پھر ملاقات نہ ہو اور اس موقع پر تحفہ وغیرہ دینے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ البتہ وقار، سنجیدگی لازم ہے اور بے پردگی سے گریز کرنا چاہیے۔
ایک مختصر تحریرمیں جملہ رسموں کا جائزہ لینا ممکن نہیں ہے۔ نکاح کا موقع مسرت و خوشی کا موقع ہوتا ہے۔جب کہ کسی کی موت کے موقع پر غم اور رنج کی فضا طاری رہتی ہے۔ دونوں مواقع میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ اس لیے یہ فطرت کے خلاف ہے کہ ہم دونوں مواقع کو یکساں کردیں۔ خوشی کے موقع پر حدود کے اندر رہ کر خوش ہونے، فضول خرچی و ریاکاری سے اجتناب کرتے ہوئے تحفے تحائف دینےاور حسب استطاعت خوش ذائقہ کھانا کھلانے میں کوئی حرج یاگناہ نہیں ہے۔ بلکہ گناہ یہ ہے کہ انسان خوشی کے موقع پر حدود سے تجاوز کرے۔ بے حیائی، بے شرمی اور بے پردگی کے مظاہرے ہوں، تحفوں کے نام پر اسباب ِ زندگی ضائع کیے جائیں، کھانے میں اسراف سے کام لیا جائے اور بہت سا کھانا برباد ہو۔
واعظین، مقررین اور ناصحین سے میری گزارش ہے کہ وہ رفتہ رفتہ اصلاح کی طرف بڑھیں اور ’ حرام‘‘سے روکنے سے پہلے ’حلال‘ متبادل فراہم کریں۔اسلام کا نِظام دراصل ایک گھڑی کی طرح ہے۔ گھڑی کے سارے پرزے ٹھیک ہوں گے تو وہ صحیح وقت بتائے گی اور اگر اس کاچھوٹے سے چھوٹا پرزہ بھی خراب ہوگا تو وہ وقت غلط بتائے گی یابند ہوجائے گی ۔لہٰذا اسلامی نظام قائم ہوئے بغیر کُلّی طور پر اسلام کی معاشرت کا قیام غیر ممکن ہے۔
مشمولہ: شمارہ فروری 2014