موجودہ حالات سے مراد مرکز میں بننے والی نئی حکومت کے بعد کے حالات ہیں۔ حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ ملت اس سے زیادہ تشویش ناک صورت حال سے گزر چکی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آغازِ دورِ خلافت کے مسائل ہوں یا حضرت عثمانؓ کی شہادت کے بعد قاتلان عثمان سے قصاص کا مطالبہ ہو، حضرت علی کے دور کی جنگیں ہوں یا میدان کر بلا میں حضرت حسینؓ کا مع اہل و عیال قربان ہو جانے کا منظر ہو، بنو امیہ کے بعدبنو عباس کی حکومت کا انتقامی دور ہو یا تاتاریو ںکے ہاتھوں بڑے پیمانے پر مسلمانوں کا قتل عام ہو ،آزادی کے بعد تقسیم ملک کے نتیجہ میں لاکھوں مسلمانوں کی شہادت ہو،یاآزادی کے بعد ۶۷سال سے فرقہ وارانہ فسادات میں مسلمانوں کا بہتا ہوا خون ہو،ہماری تاریخ آزمائشوں کی مثالوں سے بھری ہوئی ہے۔ ایک ہزار سال کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان میں مسلمان درج ذیل حیثیتوںکے حامل رہے ہیں:
(الف) حکمراں رہے (ب) یورپی طاقتوں کے غلام رہے
(ج) بزعم خود بادشاہ گر رہے (د) محض ووٹر (رائے دہندگان) رہے
کسی فرد یا قوم کی حیثیت بدل جانے سے اس کی زندگی کارُخ بھی تبدیل ہو جاتا ہے۔ اس کے ساتھ رہنے والی اقوام کے رویہ اور طرز عمل میں بھی نمایاں فرق واقع ہوتا ہے۔ حکمرانوںکا عیب بھی ہنر کا درجہ پاتا ہے۔ غلام کی خوبیاں بھی عیوب میں شمار ہونے لگتی ہیں۔ بادشاہ گر کی اس وقت تک قدر ہوتی ہے جب تک وہ کسی کو بادشاہ بنا نہیں دیتا۔ بادشاہ بنتے ہی بادشاہ گر کی حیثیت ختم ہو جاتی ہے۔ جمہوریت میں رائے دہندگان کی حیثیت اسی وقت تک ہے جب تک وہ اپنی رائے کا استعمال نہیں کر لیتے، ایسے حلقہ انتخاب میں جہاں ان کی آراء کسی تبدیلی پر اثر انداز نہیں ہو سکتیں وہاں وہ قطعاًبے قیمت ہو کر رہ جاتے ہیں۔
موجودہ حالات میں لائحہ عمل پرغورسے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ حالات کیوں پیدا ہوئے؟ہم غور کرتے ہیں تو درج ذیل نتائج سامنے آتے ہیں:
الف) یہ حالات مسلمانوں کے انتشار کا نتیجہ ہیں اِس کا ایک سبب مسلکی اختلافات میں شدت پسندی ہے۔ علماء کامسلکی اعتبار سے شدت پسند ہونا مدارس کے طرزِتعلیم کا نتیجہ ہے جہاں دوسرے مسالک پرغیرمعتدل تنقید ہوتی ہے۔
ب) یہ حالات صحیح تصور دین سے نا واقفیت کا نتیجہ ہیں۔ صحیح تصور دین سے ناواقفیت کا سبب علم دین کی ضرورت اور اہمیت کا احساس نہ ہونا ہے۔ اور یہ عدم احساس اس خیال کا نتیجہ ہے کہ دینی امور کی انجام دہی محض علماء کا کام ہے۔
ج) موجودہ حالات ہماری اخلاقی پستی کا نتیجہ ہیں۔ گرچہ اس سے انکار نہیں کہ ملت میں بعض خوبیاں اب بھی موجو د ہیں۔ لیکن مجموعی حالت اطمینان بخش نہیں۔
د) یہ حالات اپنے مقام و منصب کو بھول جانے کا نتیجہ ہیں۔ یہ حالات ہر اس امت پر آتے ہیں جو خدائی ہدایات کی امین ہوتی ہے ۔جب وہ اپنا مقام و منصب بھول جاتی ہے تو اس پر ظالم حکمراں مسلط کر دئے جاتے ہیں ۔
عمل کی راہیں
مندرجہ بالا اسباب، محض عوامل ہی نہیں ہیں ، بلکہ ان میں امراض کی نشاندہی بھی موجود ہے۔ اگر امراض کی تشخیص درست ہو توایک ایک مرض کا علاج تجویز کیاجاسکتا ہے۔
الف) انتشار کا علاج اتحاد ہے، لیکن یہ اتحاد عوام کا نہیں بلکہ علماء کا ہے۔ ہمارے علماء کو علی الاعلان یہ کہنا چاہئے کہ جو گروہ ایمان مجمل ا ورایمان مفصل کا اقرار کرتا ہے وہ ممکن فقہی اور نظر یاتی اختلافات کے باوجود مسلمان ہے۔ مسلمانوںکو تکلیف پہنچانا گناہ عظیم ہے۔ معروف میں مسلمانوں کے مابین تعاون ضروری ہے ۔اس اعلان کے لئے بڑے دل گردے کی ضرورت ہے، محض اسٹیج کے نمائشی اتحاد سے کام چلنے والا نہیں ہے۔ مدارس کے طرزِتعلیم سے وہ اجزاء حذف کرنے ہوں گے جو کسی مسلمان کو ضال و مضل ثابت کرتے ہیں۔ عوام کوبیدار ہونا چاہیے اور ایسے علماء کی بے اعتدالی پر گرفت کرنی چاہیے جو ملت میں انتشار پیدا کرنے والی تقریرکرتے ہیں۔
ب) صحیح تصور دین سے واقفیت صرف علماء کی ضرورت نہیں ہے ،بلکہ ہر مسلمان کی شرعی ضرورت ہے ۔اس کے لئے تحریک اسلامی کو آگے بڑھ کر امت میں نفوذ کرنا چاہئے، مبلغین و مصلحین کی تربیت کر کے انھیں معاشرے کی اصلاح کاکام سپرد کرنا چاہیے۔ اسلامی معاشرہ کی تشکیل تحریک اسلامی کے پالیسی و پروگرام میں دوسرے نمبر پر درج ہے، لیکن اس پر کماحقہ توجہ نہیں دی جاتی۔ جب تک اسلامی معاشرہ کاقیام نہیں ہوگا اور ملت کا ایک معتدبہ حصہ صحیح تصور دین سے واقف نہیں ہوگا اس وقت تک انتشار پسند عناصر انھیں گمراہ کرتے رہیں گے۔
ج) اخلاقی زوال کا علاج کردار سازی میں مضمر ہے ۔کردار سازی ایک مشکل امر ہے اور بڑی حد تک قیادت کے کردار پر منحصر ہے۔اگر ملت کے افراد کے اندر بلندی کردار پیدا کرنا ہے تو پہلے قائدین کو اس کا عملی نمونہ پیش کرنا ہوگا۔
د) ملت کا مقام و منصب ایک داعی امت کا ہے یہ بات اطمینان بخش ہے کہ اس طرف کچھ توجہ ہوئی ہے، اس میں اضافہ ہو نا چاہیے، دعوت حق کا کام کرنے والوں میں باہم اشتراک و تعاون ہو نا چاہیے ۔ اس ملک میں مسلمانوںنے سیاسی و سماجی مطالبات کے لئے بہت سی انجمنیں بنا ڈالی ہیں، خدمت خلق کے لئے سوسائٹیاں ہیں، بڑے شہروں میں برادریوں کے نام پر انجمنیں تشکیل دی گئی ہیں، ادب اور کلچر کے فروغ کے لئے ادبی بزمیںہیں اردو اخبارات میں اوسطاً روزانہ ایک ادبی نشست کی خبر چھپتی ہے۔ یہ سب اپنی جگہ درست ہے ،لیکن دعوت کا کام کرنے کے لئے پورے ملک میں چندنام ہیں جنہیں انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے۔ جب تک باشندگان ملک کی اکثریت اسلام سے کما حقہ، واقف نہیں ہو جاتی یا کم از کم اسلام کے تعلق سے اس کا خوف دور نہیں ہو جاتا اس وقت تک مسلمانوں کو اچھی نظروں سے نہیں دیکھا جا سکتا۔ جب تک اچھی نظروں سے دیکھا نہ جائے اس وقت تک مخاطب سے معقول رویے کی توقع کرنا خام خیالی ہے۔ اِنسان جس کو بری نظر سے دیکھتے ہیں اس کا برا چاہتے ہیں۔ جیسے ہی قوت حاصل ہوتی ہے اسے نیست و نابود کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔
مشمولہ: شمارہ اگست 2014