اینجلس اِن بلیو

(آئی آر ڈبلیو ۔ کیرالا، مہاراشٹر)

سید شجاعت حسینی

کیرالہ سے پہنچی ایک تازہ ویڈیو کلپ نے نہ جانے کتنی ہی آنکھوں کو اشک بارکردیا ، اور کتنے ہی لبوں تک دعا ے خیر لے آئی۔ روایتی نیلے یونیفارم میں ملبوس آئی آر ڈبلیو (آئیڈیل رلیف ونگ) کے چند رضاکار کورونا کے اولین شکار ایک بزرگ کے جنازے کی تدفین ضروری احتیاط کے ساتھ کوچی میں انجام دیتے نظر آئے ۔ خوف ، خودغرضی اوراندیشوں کے ماحول میں بھی آئی آر ڈبلیونہ اپنے فرض سے چوکتی ہے اور نہ ہی طبی اصولوں ، حکومتی رہنما خطوط اور انسانی اقدار سے صرف نظر کرتی نظر آئی ۔

کورونا کی عالم گیر قہرمانیوں کا سلسلہ جاری ہے ۔ کہتے ہیں کہ دنیامرمت کے لیے بندہے ۔ ہم نہیں جانتے ہیں کہ اس مرمت کے بعد دنیا کا ظاہری اور اخلاقی حسن کس قدر نکھرے گا ۔ لیکن کوشش ، دعا اور امید ضرور ہے کہ مابعد کورونادنیا ظلم ، جھوٹ ، پروپیگنڈہ ، استحصال اور تفریق سے پاک ہو۔ ایک جانب قومی میڈیا کے کچھ جانے پہچانے چہرے آج بھی سر توڑ کوشش کررہے ہیں کہ کورونا وائرس کی بیماری ختم ہو نہ ہولیکن نفرتوں کی وہ بیماری ہرگزختم نہ ہوپائے جس کی پرورش انھوں نے برسوں کی  ہے۔ دوسری جانب بلا تفریق مذہب ان ہزاروں بے لوث رضاکاروں کی فوج ظفر موج ہے جو بیک وقت ان دونوں بیماریوں سے برسرپیکار ہے ۔ آئیے ایک ایسی ہی سر بکف ٹیم (آئی آر ڈبلیو) سے ملتے ہیں جنھیں مقامی عوام  ’’اینجلس ان بلیو‘‘ (نیلے ملبوس میں فرشتے)کہتی ہے۔

آغاز جنوں ، انداز وفا

۹۰ کی دہائی کے ابتدائی ایام تھے ۔ امیر حلقہ ، جماعت اسلامی ہند کیرالہ ، کے سی عبداللہ مولوی صاحب کی قیادت میں ایک رلیف ونگ کا ابتدائی منصوبہ ترتیب دیا گیا۔ ہدف یہ تھا کہ انسانیت کی خدمت سے سرشاررضاکاروں کے جذبہ خدمت کو منظم شکل دی جائے ۔ تشکیل کے مراحل میں ہی اس منصوبے کو جناب صدیق حسن صاحب کی صورت میں سراپا وژن اور دل دردمند میسر ہوا ۔ جناب کے کے ابراہیم اور جناب اللہ بخش حاجی کی شکل میں انھیں مضبوط دست وبازو کیا نصیب ہوئے، آئی آر ڈبلیو کی جست ، بلند پرواز بن گئی ۔

۱۹۹۲ میں قیام کے فوری بعد لاتورشہر (مہاراشٹر) نے صدا دی جو زلزلے سے دہل چکا تھا ۔اور اس کے بعدملک گیر اسائنمنٹ کی طویل قطار نے انھیں خدمت اور عملی تربیت کے تسلسل سے کبھی جدا ہونے ہی نہ دیا ۔ زلزلہ ، سیلاب ، حادثات ، لینڈ سلائیڈنگ ، وبائی امراض ، بدامنی اور فسادات جیسے مشکل حالات میں رضاکارانہ خدمت ہی اس کے قیام کا وژن تھا ۔ آئی آر ڈبلیووابستگان نے بھی اس وژن کا خوب احترام کیا ۔

آج پی مجیب الرحمان (چیرمین) ، بشیر شرقی (جنرل کنوینر) ، ایم ۔نوفل (جنرل سیکریٹری) ، خواجہ شہاب الدین ، اور وی آئی شمیر پر مشتمل ٹیم ہزاروں رضاکاروں کے جذبہ خدمت کو قیادت کے ایندھن سے ہمہ وقت چارج رکھتی ہے ۔ ایم عبدالکریم صاحب ڈزاسٹر مینجمنٹ ٹیم کے اسسٹنٹ کنوینر ہیں ۔ملک کے مختلف حصوں میں بیشتر رلیف ورک میں وہ شامل رہے اور کئی سرفروشانہ مہمات کی قیادت بھی کی ۔

جفا کوش ووفا کیش

سخت جفاکوشی اور بے لوث خدمت آئی آر ڈبلیو کی وہ نمایاں صفات ہیں جس نے انھیں نہ صرف نیک نامی بلکہ نیلے ملبوس والے فرشتےکے عوامی خطاب سے بھی نوازا ۔

لاتور زلزلہ ۱۹۹۳، آسام فسادات ، اڑیسہ طوفان ۱۹۹۹، گجرات زلزلہ ۲۰۰۱،کشمیر زلزلہ ۲۰۰۵، انڈمان رلیف ورک ، سونامی ۲۰۰۴، نیپال زلزلہ ۲۰۱۵، کشمیر سیلاب ۲۰۱۴، بہار سیلاب ۲۰۰۸، مظفر نگر فسادات ،فانی طوفان سے کورونا وبائی خدمات  تک۔ ملک کے طول و عرض میں برپا ہونے والی شاید ہی کوئی بڑی مصیبت ہو جہاں اس دور دراز ریاست سے مداوا بن کر تربیت یافتہ خدمت گار نہ پہنچےہوں ۔

آئی آر ڈبلیو کی ایک نمایاں خوبی اس کے رضاکاروں کی ہم جہت صفات ہیں جو ہر ضروری پروفیشنل صلاحیت سے لیس ہیں ۔ صرف ڈاکٹر اور پیرا میڈیکل رضاکاروں کی ٹیم ہی نہیں ، بلکہ بچاؤ کے ماہرین (ریسکیو اسپیشلسٹ) ، پلمبنگ ، الیکٹرک ٹیکنیشین، فیلڈ سروے ایکسپرٹ، انجینیر، فائر فائیٹر، ڈزاسٹر مینجمنٹ اسپیشلسٹ ، قانونی ماہرین ، ہیوی وہیکل اور بوٹ ڈرائیوروغیرہ بڑی تعداد میں اس خدمت کا بے لوث حصہ ہیں ۔ یہ بات سچ ہے کہ کیرالہ اعلیٰ انسانی وسائل کے حوالے سے مالامال ہے ، لیکن میں نے عبدالکریم صاحب سے جاننا چاہا کہ جان کے جوکھم کے ساتھ اتنی ہمہ جہت صلاحیتوں کی رضاکارانہ فراہمی آپ کیسے یقینی بنالیتے ہیں !

موصوف کے بقول ان کا پروفیشنل اپروچ ، اقدار اور تربیتی نظام اس کے حقیقی ذرائع ہیں ۔ وہ اپنے تمام رضاکاروں اور ان کی صلاحیتوں کا ریکارڈ رکھتے ہیں ، اس لیے جہاں ضرورت ہو انھیں طلب کرنے میں دشواری نہیں ہوتی ۔ دوسری چیزہے ، ان کا  تربیتی نظام اورتنظیمی اقدار ۔ یہ وہ محرکات ہیں جو انھیں مادی توقعات سے بے نیازہوکر بلا تفریق خدمت کے جذبات سے ہمیشہ سرشار رکھتے ہیں ۔ کئی رضاکار بڑی قدرتی آفات کے موقعہ پرخدمت کے لیے جاتے ہوئےکفن بھی ساتھ لیے چلتے ہیں ۔ اورتیسرا ذریعہ ہے ، پیہم پروفیشنل تربیت کا سلسلہ !فائر فائٹنگ کی تربیت فائر ڈپارٹمنٹ کے ایکسپرٹس کے ذریعے ہوتی ہے ۔ ڈزاسٹر ریسپانس ٹریننگ ، بوٹ ڈرائیونگ ، ہیوی اکوپمنٹ کی فنکشنل ٹریننگ ، ووڈ کٹنگ، ڈرلنگ وغیرہ ۔ ہرممکنہ ضرورت کوقبل از وقت شمار کرتے ہوئے ان کی ایکسپرٹ ٹریننگ کا مسلسل بندوبست کرنا ان کے کیلنڈر کا مستقل جز ہوتا ہے ۔ نتیجتاً مصیبت کی ان مشکل گھڑیوں میں صلاحیتوں کے حوالے سے کسی ناگہانی (سرپرائز) کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ۔ کوئی نہ کوئی رضاکار مسئلہ کے حل کے ساتھ حاضر ہوتا ہے ۔ نہ صرف یہ بلکہ قبروں کی کھدائی ، تدفین کے تمام مراحل کی تربیت بھی ان ٹریننگ سیشنوں کا جز ہوتی ہے ۔ آئی آر ڈبلیو کی خواتین ٹیم بھی ان تمام ٹریننگ سے آراستہ اور ہر محاذ پر ڈٹی نظر آتی ہیں ۔ گیس سیلنڈر کے حادثات سے نمٹنے کی خصوصی تربیت خواتین ونگ کا خاصہ ہے ۔ ان ٹریننگوں کے لیے نہ صرف پروفیشنل ٹرینرس کی خدمات لی جاتی ہیں بلکہ پولیس ، ہیلتھ ڈپارٹمنٹ ، فائر ڈپارٹمنٹ وغیرہ حکومتی اداروں کے ساتھ بھی ربط و تعاون کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔

طوفاں ہیں کہ ٹوٹے پڑتے ہیں

یوں تو آئی آر ڈبلیو کئی محاذوں پر خدمات انجام دے رہی ہے، لیکن الگ الگ خطوں سے سیلاب و طوفان کی پیہم صداؤں نے انھیں اس محاذ پر خصوصی تجربے سے نوازا ہے۔ آسام ، اڑیسہ ، کشمیر ، بہار ، مہاراشٹر، تاملناڈو ، انڈمان اور کیرالہ کی سیلابی اور سونامی آفتوں نے انھیں خدمت اور تربیت کے کم و بیش ہر مرحلے سے گزار دیا ۔ کیرالہ سے تحریک پاکر مہاراشٹر آئی آر ڈبلیو رضاکاروں نے نہ صرف کیرالہ سیلاب کے موقع پرکر کھل کر خدمت کی بلکہ تربیت کے کئی مراحل سے کامیاب گزرے ۔ گذشتہ سال جب مغربی مہاراشٹر سیلابی کرب کو جھیل رہا تھا، تب تربیت یافتہ رضاکاروں کی اسی ٹیم نے اپنے تجربات ، خدمت اور مہارت سے خوب نیک نامی پائی ۔

دو سال قبل کیرالہ کی تاریخ کے سب سے بھیانک سیلاب نے ریاست کوترقی کی شاہراہ پر نہ جانے کتنا پیچھے ڈھکیل دیا تھا ۔ لیکن آج جب ریاست دوبارہ اپنے کھوئے ہوئے استحکام کو پاچکی ہے تو وہ ان’ اینجلس ان بلیو‘ کی بھی ممنون ہے ۔

۲۰۱۸ سیلاب رلیف ورک کی تصویریں اور ویڈیوز دیکھیں تو حیرت ہوتی ہے کہ کیسی کیسی ترکیبیں ان تخلیقی ذہنوں نے ایجاد کرڈالیں ۔ تصور فرمائیے ،سروں پر پھٹے پڑرہے بادل ، مسلسل پیچھے دھکیلتے پانی کے غضب ناک ریلے ، پیروں تلے سےکھسکتی مٹی  ، پہاڑوں سے لڑھکتے تودے اور ان آفتوں کے بیچ زمین بوس مکانوں کی پھسلتی چھتوں کی سخت چادروں تلے دبے زخمی کراہتے لوگ !

بیشتر سیلاب زدہ مقامات پر جے سی بی نہیں پہنچ سکتی تھی ، وہاں سیکڑوں رضاکاروں کی ٹیمیں مل جل کر جے سی بی کا متبادل بن گئی۔ تیشہ فرہاد کی خیالی داستانیں بھول جائیے ۔جذبہ خدمت کے عشق سے سرشاروقت کے ان فرہادوں نے اپنے’تیشوں ‘سے کنکریٹ کی نہ جانے کتنی ضدی چادریں توڑیں اور ٹوٹتی سانسوں کا سہارا بنے ۔ آئی آر ڈبلیو اس رلیف ورک کا نمایا ں ترین نام تھا جس کی پذیرائی کی گونج بین الاقوامی میڈیا تک جاپہنچی ۔کئی این جی اوز نے ان کاموں کو سراہا اور اعزازات سے نوازا۔ ’اینجلس ان بلیو‘ اُن دنوں میڈیا کے نمایاں ترین چہرے تھے ۔ آئی آر ڈبلیو ٹیم کے ایک انتہائی جوکھم بھرے ریسکیو آپریشن کو امول نے اپنے مشہور زمانہ اشتہاری سیریز کا حصہ اس کیپشن کے ساتھ بنایا کہ “Help with Your Relief and Belief”۔

غضب ناک لہروں اورکھسکتے تودوں سے بچوں اور کمزور وں سمیت ہزاروں لوگوں کو بچانا،کنکریٹ کے ملبے تلے پھنسے لوگوں کوبسلامت باہر نکالنا ، میڈیکل امداد ، صاف پانی کی فراہمی ، دور دراز علاقوں تک غذا اور امداد کی فراہمی ، گھروں اسکولوں کنووں کی صفائی ، عارضی پلوں کی تعمیر ، وغیرہ۔ غرض یہ کہ ہر وہ کام جو ضروری تھا ، رضاکاروں نے انجام دیا ۔ حیدرآباد سے ایک ٹیم آئی آرڈبلیو کے شانہ بشانہ کام کرنے پہنچی تھی ۔ ہمارے ساتھی طارق شبیبی سے پتہ چلتا ہےکہ بے لوث خدمات کی کیسی تاریخ رقم ہورہی ہے ۔ پتہ چلا کہ کئی پروفیشنل کمر تک کیچڑ میں لت پت ، شب و روز صفائی اور بچاو کا ہر وہ کام انجام دے رہے ہیں جن کا تصور بھی محال ہے ۔ آئی آر ڈبلیو کے اسٹور میں تمام ممکنہ ضروری اشیاء اور اوزار کاوافر اسٹاک ہوتا ہے ، جن میں کنکریٹ ڈریلرس ، سینیٹائزر، زنجیریں ، ضروری دوائیاں ،کشتیاںوغیرہ شامل ہیں ۔

میں نے ان خوابوں کو بھی ٹٹولنے کی کوشش کی جوہنوز تشنہ تعبیر نہ ہوسکے ۔ عبدالکریم صاحب کہتے ہیں کہ ہیوی ڈیوٹی اکویپمنٹ کے ماہرین کی کمی ہمیں کھٹکتی ہے ۔ ہمارا ہدف ہے کہ ہم ایسے ماہرین بھی اپنی صفوں میں پیدا کریں ۔ہیلی کاپٹر ریسکیو صلاحیت انسانی جانوں کے بچاؤ کا ایک قابل اعتماد ذریعہ ہے جس کی ٹریننگ ہم نہیں لے سکے ۔ اس ٹیلنٹ کا حصول بھی ہمارا ایک ہدف ہے ۔

پیغام عمل

۱۔ ۲۰۰۵۔ساڑھے سات ریکٹر اسکیل زلزلے سے کشمیر دہل گیا تھا ۔کچھ ہی گھنٹے گزرے تھے ۔لوگ اس قیامت خیز مصیبت کا ابھی اندازہ ہی لگارہے تھے کہ معلوم ہوا کیرالہ سے ڈاکٹروں کی ٹیم دہلی پہنچ گئی اور مصیبت زدگان کی خدمت کے لیے آگے روانہ ہورہی ہے ۔ پھر یہ بھی خبر آئی کہ تباہ حال مقامات پر پہنچنے والے رلیف رضاکاروں کے اولین دستوں میں یہ ٹیم بھی شامل تھی ۔

آس پڑوس کے لوگ ابھی حالات کو سمجھ ہی رہے تھے کہ ملک کے جنوبی سرے سے خدمت گار شمالی کنارے تک پہنچ بھی گئے ۔ یہ بات حیرت ناک ضرور ہے لیکن تربیت یافتہ، باشعور اور عہد شعار کیڈر کے ہوتے ہوئے ناقابل یقین نہیں !

۲۔ آئی آر ڈبلیو ۔ کیرالہ کے کام کا آغاز لاتور زلزلے سے ہوا ۔ آج بھی آئی آر ڈبلیو مہاراشٹر اور آئی آر ڈبلیو کیرالہ کے درمیان کوئی باضابطہ تنظیمی تعلق نہ سہی ، لیکن تربیت اور تجربات کی ساجھے داری کا ایک خاص مزاج اور ماحول ہے ۔ مہاراشٹر آئی آر ڈبلیو نے ۲۰۱۸ سیلاب رلیف کے دوران کیرالہ ساتھیوں کے ساتھ مل کرنہ صر ف کام کیا بلکہ بہت کچھ سیکھا تھا، یہی تجربات گذشتہ سال مغربی مہاراشٹر طوفان کے دوران خوب کام آئے ۔ جوکھم بھرے بچاو کے آپریشن، دوردراز مقامات تک رلیف کی فراہمی، کئی گھروں کی تعمیر نو ، حکومتی اداروں کا تعاون وغیرہ ، ان تمام کاموں کو آئی آر ڈبلیو مہاراشٹرنے خوب انجام دیا، اورعوامی سطح پر پذیرائی پائی۔ صالح تجربات اور خیر کا دائرہ کسی تنظیمی الحاق کے بغیر بھی باہمی روابط و تعاون کے ذریعے پھیل سکتا ہے ۔

۳۔ ۲۰۰۴ کی سونامی نے مشرقی ساحل کو تہس نہس کردیا ۔قیامت ڈھانے والی سونامی لہروں کے مقابل سیکڑوں کلومیٹر دور واقع انڈمان کے چھوٹے جزیروں کی بھلا کیا حیثیت ؟صدیق حسن صاحب کا حکم تھا کہ مین لینڈ کے ساتھ ساتھ ان چھوٹے جزیروں کی خبر گیری ضروری ہے جو دنیا سے عملاً کٹ چکے تھے ۔ پی کے شمس الدین اور عبدالکریم صاحب کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ۔ دونوں حضرات فکر مند تھے کہ صرف دولوگ مل کر انجان  جزیروں تک کیسے پہنچیں گے اور کیا کرسکیں گے ؟ صدیق حسن صاحب نے حسب معمول حوصلہ بڑھاتے ہوئے کہا بس نکل جاو ٔ۔ مجھے امید ہے آپ لوگ اپنی ٹیم وہاں خود ہی بنالیں گے ۔ خدا کا نام لے کر دونوں حضرات ایک اجڑے جزیرے پر پہنچ گئے اور پھر شروع ہوئی ایڈوینچر ، ہمت ، حوصلہ اور توکل کی حیرت انگیز داستاں ! کیسے انھوں نے اپنی ٹیم تشکیل دی ، گورنر ہاوز تک رسائی پائی ، حکومتی اہلکاروں کو ساتھ جٹایا ، ملٹری اور نیوی کا تعاون حاصل کیا ، ہٹ بے آئیلینڈ کے لوگوں کو بسلامت نکال لائے جو۱۲ دنوں سے پھنسے زندگی کی امید چھوڑ چکے تھے۔

دو جیالے ہی سہی ، خدا کی مدد ضرورشامل حال ہوتی ہے ، بشرطیکہ توکل کے ساتھ قدم اٹھائے جائیں ۔

۴۔ کشمیر سیلاب نے ایک بڑے علاقے کے گھروں کو غرقاب کردیا تھا ۔ جگہ جگہ پمپ لگا کر پانی کی نکاسی کی مسلسل کوشش جاری تھی لیکن پانی کہیں زیادہ تیزی سے بستیوں اور گھروں میں گھسا چلا آرہا تھا ۔ آئی آر ڈبلیو کی ڈزاسٹر مینجمنٹ ٹیم نے مزید پمپ حاصل کرنے کے بجائے ایک مضبوط ٹرک اٹھا یا جو آف روڈ گھاٹیوں اور پہاڑوں میں دوڑسکے ۔ اسے لے کر ندی کے متوازی پتھروں اور دلدلی زمین پر نکل پڑے ۔ خاصی دور جاکر ندی کے اپ اسٹریم کے بگاڑ کی کھوج لگائی ۔ یہاں کچھ بنگلوں کی اونچی دیواریں اصل دھارے کو روک رہی تھیں ۔ ساتھ ہی سڑک کا ایک اونچا ٹکڑا کئی غضب ناک دھاروں کو اصل اسٹریم سے موڑ رہا تھا۔ ٹیم نے تجویز رکھی کہ ان بنگلوں کی دیواریں اور سڑک کاایک حصہ توڑدیا جائے ۔ لوگ بہت ناراض ہوئے کہ ان کے گھروں کی دیواریں اور شہر کی لائف لائین (سڑک) بلا وجہ توڑنے کی بات ہورہی ہے ۔ اب ٹیم نے اپنے لمبے سروے کی رپورٹ  نقشوں اور چارٹوں کے ساتھ پیش کی اور سمجھایا کہ کیسے نظروں سے دور ڈاؤن اسٹریم ان بے شعور تعمیرات کا کرب جھیل رہی ہے ۔ فیصلہ آپ کریں کہ وقت رہتے ایک مناسب قدم اٹھائیں اور بڑے نقصان سے بچیں ، یا کچھ ہی دیرمیں اپنے بنگلے ہی نہیں اپنے لاڈلوں کو بھی غضب ناک لہروں کے حوالے کردیں ۔ بات سمجھ میں آگئی ۔مقامی انتظامیہ اور پولیس کی رضامندی سے تیزی سے عالیشان دیواریں توڑدی گئیں ۔ سڑک کاٹ دی گئی اور تیز دھاروں کو ان کے اپنے راستے پر نکل جانے کے لیے آزاد کردیا گیا ۔ کئی جانیں اور املاک بچالی گئیں۔

ایک چیز ہوتی ہے خدمت اور دوسری شعوری خدمت ! نری خدمت ، ننھے پمپوں کے سہارے دریاؤں سے لڑنے کے لیے اکساتی ہے ۔ لیکن شعوری خدمت پائیدار حل ڈھونڈھتی ہے لیکن ساتھ ہی تجربہ ، پروفیشنل مہارت ، قوت فیصلہ ، عزم وتوکل ، اور شاندار کمیونکیشن جیسی صفات بھی چاہتی ہے ۔

۵۔  گجرات زلزلے نے کیا قیامت برپا کی فوراً ڈاکٹروں کی ٹیم پہنچ گئی ۔ عارضی ٹینٹ پر مشتمل اسپتال قائم کیا اور خدمت کا سلسلہ شروع کردیا ۔ اس خدمت کو دیکھتے ہوئے ایک فرنچ گروپ نے فوراً منی آپریشن تھیٹرکھڑا کردیا اور ان ڈاکٹروں کے حوالے کیا ۔ اس کے بعد روزانہ ۵۰۰ سے زائد  لوگوں کا علاج ہوتا رہا ۔ مقامی لوگوں کے لیے یہ یقین کرنا مشکل تھا کہ چند گھنٹے پہلے جو لوگ عارضی کلینک کے ٹینٹ کے لیے کھدائی کررہے تھے اور ٹرک سے دوائیاں اور سامان انلوڈ کررہے تھے وہ کوئی اور نہیں بلکہ قابل ڈاکٹر ہی ہیں جو اب علاج کی سرگرمی میں جٹ گئے ۔

سچ ہے ، بے لوث خدمت کا آغازابلیسی انا کے قتل سے ہی ہوسکتا ہے ۔

۶۔ ۲۰۰۸ کوسی ندی کا سیلاب بہار کی تاریخ کا بدترین حادثہ تھا ۔ آئی آرڈبلیو کے رضاکار  رلیف خدمات کے لیے یہاں بھی پہنچ گئے ۔ ندی کی بے قابو  دھاروں کو پار کرکے ایک بستی کے کئی لوگوں کو بچانے کا مشن درپیش تھا ۔مقامی کشتی راں اس جوکھم کے لیے تیار نہ تھے ۔ ایک نوجوان ملاح کو تیار کیا گیا اس تذکیر کے ساتھ کہ اگر ہم بچاو مشن میں کامیاب ہوگئے تو رمضان میں کئی گنا اجر کے حقدار ٹھہریں گے اور اگردرمیان میں ہی جان چلی جائے تو ماہ مبارک میں یہ بھی ایک بڑی سعادت ہی ہے۔ نوجوان تیار ہوگیا ۔ ندی کے تھپیڑوں نے دو مرتبہ انھیں موت کے منہ میں ڈھکیلا ، لیکن خدا کا کرم رہا کہ اس جوکھم سے بچ کرٹیم اپنا مشن مکمل کر آئی ۔

بالعموم ماہ مبارک میں عبادتوں کا تصور تلاوت ، تراویح اور زکوٰۃ تک سمٹ جاتا ہے ۔ یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ رمضان روحانی  بلکہ جسمانی تربیت اور مواساۃ کا درس بھی دیتا ہے ۔ ماہ مبارک کا یہ سبق آج زیادہ اہم ہے ۔

۷۔ عالمی وبا کے کٹھن ایام کے بیچ نفرت انگیز من گھڑت کہانیوں کا سیلاب چینلوں اور وہاٹس ایپ کے توسط سے آگیا، جس نے انسان دوستی کی کئی دل پذیر تصویروں کو محو کردیا۔ ضروری ہے کہ ان سچائیوں کی جھلکیاں زیادہ تواتر کے ساتھ سامنے آئیں ۔ (ملاحظہ فرمائیے : چند دلپذیرجھلکیاں ۔مشمولہ ہفت روزہ دعوت دہلی ۔ ۲۶اپریل)

آئی آرڈبلیو اور جماعت اسلامی ہند کیرالہ نے وبائی چیلنج سے نمٹنے کے لیے فرنٹ لائین ڈاکٹروں کی ایک پوری ٹیم محاذ پر جھونک دی ۔ پیرا میڈیکل خدمات ، کئی بستیوں کا مکمل سروے ، ڈاکٹروں کے لیے پی پی ای کٹیں ، مستحقین کے لیے راشن اور تیار غذا ، عوام میں شعوری  بیداری ، عیادت و تدفین ۔غرض یہ کہ ہر وہ کام کیا ، جس کی انسانیت کو ضرورت ہے ۔ سوچتا ہوں اگر آج یہ محسنین بے لوث خدمت کا جذبہ لے کر نہ اٹھتے تو نہیں معلوم نادار خاندانوں سے کتنے جنازے اٹھ چکے ہوتے ۔

سرد ہوتو سکتی ہے اب بھی آتش نمرود

کوئی ابن ابراہیم پہلے نار تک پہنچے

مشمولہ: شمارہ مئی 2020

مزید

حالیہ شمارے

جولائی 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau