بہت عجیب ہے یہ قربتوں کی دوری بھی

نقل مکانی کی دشواریوں سے کسی کو مفر نہیں ہے۔ پچھلے دنوں اس قیامت سے مجھے بھی گزرنا پڑا۔ نیا گھر، نیا محلہ، نئے لوگ، صاف ستھرائی، بکھرے ہوئے سامان کی ترتیب و تہذیب، یعنی بالکل نئے سرے سے زندگی کے سارے لوازمات کا انتظام! نئے گھر میں ابھی پہلا دن ہی تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ میں نے حیران ہوکر دروازہ کھولا۔ سامنے ایک بزرگ و باوقار خاتون کھڑی تھیں۔ چہرے پر مسکراہٹ سجی تھی مگر سانس پھولی ہوئی تھی، غالباً ناہموار سیڑھیوں پر چڑھائی کا اثر تھا۔ ایک طرف کو خفیف سا جھکاؤ بائیں گھٹنے میں تکلیف کی چغلی کررہا تھا۔ ادھر میں اپنی دروں بیں شخصیت کے ساتھ سوالیہ نشان بن کر ایک مجسمے کی طرح کھڑا تھا۔ دو تین گہری سانسیں لے کر انھوں نے سلام کیا اور مسکرا کر بولیں، ’’ہم نیچے ہی رہتے ہیں۔ آپ لوگ ابھی ابھی آئے ہیں۔ آدمی نیا نیا آتا ہے تو بہت معمولی معمولی باتوں کے لیے خواہ مخواہ پریشان ہو جاتا ہے، آپ لوگوں کو کسی بھی چیز کی…(پھر ذرا سانس لے کر اور شہادت کی انگلی کے اشارے کے ساتھ ایک ایک لفظ پر زور دے کر) کسی…بھی… چیز… کی… ضرورت ہو تو بلا تکلف کہہ دیجیے گا۔‘‘ اچھا تو یہ ہماری پڑوسن ہیں! شفٹنگ کی پریشانیوں میں میرا دماغ خراب انٹرنیٹ کنکشن کے دوران بفر کرتے کسی ویڈیو کی طرح چل رہا تھا۔ میں نے اہلیہ کو آواز دی۔ ہم دونوں نے آنٹی کو خلوص کے ساتھ یہ سوچے بغیر اندر بلانے کی کوشش کی کہ اگر وہ آ ہی جاتیں تو اپنے چڑیا گھر میں ہم انھیں بیٹھاتے کہاں، پورا گھر کباڑ کا ڈھیر جو بنا ہوا تھا۔ خیر، جہاں دیدہ آنٹی کے انکار نے ہمیں شرمسار نہیں ہونے دیا، وہ بس اتنا ہی کہنے آئی تھیں اور پھر…پھر کیا؟ انہی اونچی اونچی، بے ہنگم سیڑھیوں سے نیچے اتر کر وہ اپنے گھر تشریف لے گئیں۔ ہاں! جاتے جاتے نئے گھر اور نئے ماحول کی ساری اجنبیت ختم کرتی گئیں۔

بعد ازاں یہ سوچ کر کہ یہ لوگ ابھی ابھی آئے ہیں، پتہ نہیں کھانے کا کوئی انتظام ہے یا نہیں، بغیر کسی استفسار کے خوب ساری بریانی بھجوادی جسے ہم دو وقتوں تک کھایا کیے۔ فریج آنے میں تاخیر ہوئی تو ٹھنڈا پانی وہیں سے ملا۔ انھیں ہمارے وائی فائی لگوانے کے ارادے کی بھنک لگ گئی تو میری اہلیہ کو باصرار روک دیا کہ ہمارا والا استعمال کیجیے۔ میری زبردستی پر اہلیہ نے وائی فائی کا بل شیئر وغیرہ کرنے کی طرف تمہیداً کچھ اشارہ ہی کیا تھا کہ پوری اپنائیت سے ناراض ہونے لگیں۔ ان کے خاوند بھی انہی کی طرح شگفتہ مزاج ہیں۔ شروع کے دو تین ہفتے آتے جاتے جب ملتے تو سلام کا جواب دیتے ہی بآواز بلند اعلان کرتے کہ کوئی بھی کام ہو، کسی چیز کی بھی ضرورت ہو تو بلا جھجک بتائیے گا۔ الحمدللہ اپنائیت،تعلق خاطر ، عزت اور اعتماد کا یہ رشتہ دھیرے دھیرے بڑا مضبوط ہوگیا ہے۔ اہلیہ محترمہ بھی آنٹی پر لٹو ہیں، مجھ جیسے سست، آرام طلب، خاموش مزاج اور گوشہ نشین آدمی کو بھی اس وقت تک کوئی ’مسئلہ‘نہیں تھا جب تک یہ تعلق میرے کاموں کی فہرست میں اضافے کا باعث نہ بن گیا۔آپ ہی بتائیے کیا یہ ظلم نہیں ہے کہ گھر میں پکوڑی، کچوری، چھولے بھٹورے، بریانی، جو کچھ بنے، اور کیسی ہی زوروں کی بھوک لگی ہو، لیکن پہلے مجھے ڈیلیوری بوائے بن کر پڑوسیوں کا خراج ادا کرنا پڑتا ہے تب کہیں جاکر دو نوالے نصیب ہوتے ہیں؟ کبھی آنا کانی کروں تو اس طرح کے فقرے سننے کو ملتے ہیں، ’’آنٹی کی کھیر تو بہت اہتمام سے ٹھونسی گئی تھی اور اب یہ ذرا سے پکوڑے لے جانے میں نخرے سوجھ رہے ہیں۔‘‘ سچ کہوں تو پہلے پہل اس بیگار پر بھی یک گونہ خوشی ہی ہوتی تھی کہ چشم بد دور میری عالمہ فاضلہ بیوی پڑوسیوں کے حقوق کا شعور رکھتی ہے، بعد میں عقدہ کھلا کہ نہیں، ہر ہر ڈش کی ترسیل پر آپ تکلف کیوں کرتی ہیں کے بعد آنٹی (اور ان کی چھوٹی بیٹی) جس محبت سے محترمہ کے فن طباخی کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملاتی ہیں یہ سب اس کا کمال ہے۔ آنٹی کی بڑی بیٹی جب سسرال سے گھر آئیں تو بڑے اہتمام سے اہلیہ محترمہ سے ملاقات کرائی گئی کہ ہمارے پڑوس میں کتنے اچھے لوگ رہنے آئے ہیں۔ بعد میں ہم دونوں خوب ہنسے کہ بھلا ہم میں ایسی کونسی اچھائی ہے جس کا چرچا ہورہا ہے اور اس نتیجے پر پہنچ کر اللہ کا شکر ادا کیا کہ ہمارے ہم سائے حسن ظن کے ساتھ اپنی نیک فطرت کا عکس ہم میں دیکھ رہے ہیں ورنہ شاعر کے الفاظ میں اس دور کے حالات تو کچھ ایسے ہیں:

مرے پڑوس میں ایسے بھی لوگ بستے ہیں

جو مجھ میں ڈھونڈ رہے ہیں برائیاں اپنی

دور جدید اور بڑھتے فاصلے

اچھا پڑوس اور اچھے پڑوسی یقیناً اللہ کی نعمت ہیں۔ البتہ یہ محسوس ہوتا ہے کہ بڑے بڑے شہروں کی اونچی اونچی بلڈنگوں میں انسان نے اس نعمت سے خود کو محروم کرلیا ہے۔ ماہرین عمرانیات اس واقعے کو تسلیم کرتے ہیں اور اس کی علمی توجیہ پیش کرتے ہیں۔ ان کے مطابق گاؤں کا فطری ماحول لوگوں کے درمیان قربت کے لیے سازگار تھا۔ ان face-to-face societies میں کھانے پینے سے لے کر تحفظ تک، بچوں کی پرورش و نگہداشت سے لے کر جذباتی آسودگی اور تفریحی سرگرمیوں تک ہر کام میں پڑوسیوں کا عمل دخل ہوتا تھا۔ کنویں پر، بازار اور عبادت گاہوں میں ملاقاتیں بھی ہوتی رہتی تھیں۔ لوگوں کے پاس ایک دوسرے کے ساتھ گزارنے کے لیے وقت بھی تھا۔ جرمن مفکرFerdinand Tönnies کہتے ہیں کہ روایتی معاشرہ (Gemeinschaft) ذاتی اور جذباتی تعلقات سے عبارت تھا، محبت اور اعتماد کی ایک عام فضا تھی، مشترکہ اقدار اور رسوم و رواج سے یہ تعلقات اور مضبوط ہوتے رہتے تھے۔ جدیدیت، صنعتی ترقی، سرمایہ داری اور شہریانے (Urbanisation) کے ساتھ سب کچھ بدل گیا۔ ایک نیا سماج (Gesellschaft) وجود میں آیا جہاں آپسی تعلقات غیر شخصی(Impersonal)، رسمی، اور وقتی نوعیت کے ہوگئے۔ آج انسان محض باہمی مفادات کے رشتوں سے منسلک ہے۔ یعنی روایتی معاشرے کی خصوصیت وہ ذاتی اور جذباتی روابط تھے جو زندگی بھر قائم رہتے تھے اور لائف اسٹائل بدلنے سے، جیسا کہ ذکر ہوا، یہ گہرے تعلقات ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئے۔ اب گھر میں نمک، مصالحہ، مرچ اور دودھ ختم ہوجائے تو پڑوسی کا دروازہ کھٹکھٹانے کے بجائے موبائل پر انگلیوں کی کھٹ پٹ سے منگوایا جاسکتا ہے۔ زندگی اتنی تیز رفتار ہوگئی ہے کہ بے قاعدہ اور بلا وجہ ملاقاتوں کا وقت کسی کے پاس نہیں ہے۔ ذاتی تعلقات اور گپ شپ کی جگہ ڈیجیٹل روابط نے لے لی ہے۔ یوں سماجی زندگی باہمی انحصار کے بجائے ”پرائیویسی، خود مختاری اور میری زندگی میں دخل مت دو اور مجھے بھی تمھاری زندگی میں دخل دینے کا کوئی شوق نہیں ہے“کی بنیادوں پر استوار ہوگئی۔ کبھی میرؔ کو یہ پریشانی تھی کہ ان کے زور و شور سے رونے پر ہم سایہ سو نہیں سکے گا مگر آج کے میرؔ اطمینان سے دھاڑیں مار مار کر روسکتے ہیں، کسی ہم سائے کی نیند (یا موبائل اسکرولنگ) پر کوئی اثر الا ما شاء اللہ نہیں پڑنے والا! چنانچہ ایسی خبریں اب معمول بن گئی ہیں کہ پڑوسی کے انتقال پر کئی دن اور ہفتے گزر گئے، مردہ لاش کا تعفن پھیلا تو پولیس بلائی گئی، لیکن پڑوس میں موجود زندہ لاشوں کے تعفن پر کسی نے توجہ نہیں دی۔

مختصراً یہ کہا جاسکتا ہے کہ آج محلوں میں ایک دوسرے سے گہرے اور ذاتی تعلقات رکھنے والے پڑوسی نہیں رہتے بلکہ قریب قریب بنائے گئے جیل نما فلیٹوں میں اجنبیت کی بڑی بڑی فصیلوں کے درمیان لوگ اس شان بے نیازی سے رہتے ہیں کہ ایک دوسرے سے تعارف کی نوبت بھی بمشکل آتی ہے۔ رمز ؔعظیم آبادی نے بھی کیا خوب کہا ہے:

اپنا ہم سایہ ہے لیکن فاصلہ برسوں کا ہے

ایسی قربت اتنی دوری جس میں حیرانی بھی ہے

یہ صورتحال ایک لمحۂ فکریہ ہے۔ مجبوریوں کے تحت سکڑتے سمٹتے خاندانوں کے ساتھ اب اگر نئی نسلیں محلے کے بزرگوں کی شفقت اور دوستوں کی محبت و انسیت سے بھی محروم ہو جائیں تو ایک متوازن شخصیت کی تعمیر و تربیت میں نہ جانے کیسے کیسے خلا رہ جائیں گے!

محلہ، پڑوس اور نئی نسل کی اٹھان

بیسویں صدی کی ابتدائی دہائیوں میں یہ بات محسوس کی گئی کہ شکاگو کے چند مخصوص محلوں میں جرائم کی شرح بڑھی ہوئی ہے اور ان میں نابالغ بچوں کے ذریعہ انجام دیے جانے والے جرائم کی تعداد بھی خاصی ہے۔ ماہرین عمرانیات کلیفارڈ شا (Clifford R. Shaw) اور ہینری مکے (Henry D. McKay) نے اس کو اپنے مشاہدے و تحقیق کا موضوع بنایا اور Social Disorganisation Theory پیش کی۔ انھوں نے پایا کہ مخصوص محلوں میں جرائم کی شرح کے بڑھے ہونے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ وہاں کے رہنے والے روحانی یا نفسیاتی طور پر کمزور ہیں۔ ان محلوں میں بھی لوگ، ذاتی طور پر، اتنے ہی اچھے اور برے ہیں جتنے دوسرے محلوں میں رہنے والے ہوتے ہیں۔ اسی طرح غربت یا آبادی میں کسی خاص نسلی گروہ کا تناسب بھی جرائم کی بنیادی وجہ نہیں ہے۔ ان کے مطابق جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح کی اصل وجہ محلے اور پڑوس کا ماحول ہے۔ ان علاقوں میں جہاں سماجی تعلقات مضبوط نہیں ہیں، سماجی ادارے اپنا کام نہیں کررہے ہیں، وہاں جرائم کی شرح زیادہ ہے۔ اپنے مشاہدات و نتائج کو شا اور مکے نے اپنی کتابJuvenile Delinquency and Urban Areas(۱۹۴۲)میں پیش کیا ہے۔

اس تحقیق کو رابرٹ سیمپسن(Robert J. Sampson)، اسٹیفن راڈن بش (Stephen Raudenbush)، اور فیلٹن ارلز(Felton Earls)نے آگے بڑھایا اور Collective Efficacy Theory پیش کی۔ وہ خصوصیت سے اس بات کا مطالعہ کرنا چاہتے تھے کہ جرائم کی شرح کو کم کرنے کے لیے سب سے قوی عامل کیا ہے۔ انھوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ جن محلوں میں لوگ ایک دوسرے کو جانتے ہوں، ایک دوسرے سے ذاتی تعلقات رکھتے ہوں، ایک دوسرے پر اعتماد کرتے ہوں، ایک دوسرے کی فکر کرتے ہوں، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ایک دوسرے کی زندگی میں برائے اصلاح مداخلت کرنے کے لیے تیار ہوں، وہاں جرائم کی شرح کم ہوتی ہے۔ اپنے نتائج تحقیق کو سیمپسن، راڈن بش اور ارلز کو اپنے مقالے Neighborhoods and Violent Crime: A Multilevel Study of Collective Efficacy(۱۹۹۷)میں پیش کیا ہے۔

ان دونوں عمرانی تحقیقات کا ماحصل یہ ہے کہ ایک محلے میں باہمی ربط و ضبط، محبت و اخوت اور اعتبار و اعتماد کی فضا نئی نسلوں کی تربیت اور نشو و ارتقاء میں فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہے۔ جن محلوں میں انسان دوسرے انسانوں سے مضبوط انسانی رشتے نبھاتے ہیں، اجتماعی ذمہ داری کا احساس رکھتے ہیں اور اخوت و محبت کی فضا کے لیے جو مشترکہ اقدامات درکار ہیں ان سے گریز نہیں کرتے اس محلے کے بچوں میں بگاڑ اور جرائم میں ملوث ہونے کے امکانات نسبتاً کم ہوتے ہیں۔

میرے خیال میں ان نتائج کو صرف بگاڑ اور جرائم میں کمی کی توجیہ تک محدود کردینا صحیح نہیں ہے۔ پڑوسیوں کے درمیان باہمی قربت، الفت و اخوت کا بچوں کی تربیت اور ان میں اعلی اخلاقی قدروں کی پیدائش و افزائش میں بھی اہم کردار ہوتا ہے۔

حقوق ہم سایہ: ہدایاتِ آسمانی

خود کفیل ہونے کے دھوکے میں مبتلا ہوکر انسان کا خود غرض ہوجانا اور اپنے آس پڑوس سے بے نیاز و بے پرواہ ہوکر آپ اپنی ذات میں گم رہنا دور حاضر کا ایک المیہ ہے۔ انسانوں کے بہتر مستقبل کے لیے اس فتنے کا سدباب ضروری ہے۔ صف ماتم بچھانے سے آگے بڑھ کر اگر واقعتاً مسئلے کو حل کرنا مقصود ہے تو اس بات کا شعور ناگزیر ہے کہ لوگوں کے لائف اسٹائل میں یہ صالح تبدیلی لانے کا کام الہی ہدایات کی روشنی ہی میں سرانجام دیا جاسکتا ہے۔

اس بات پر کوئی تعجب نہیں ہونا چاہیے کہ پیغمبروں نے ہر دور میں انسان کو پڑوسیوں کے حقوق کا خیال رکھنے کی تعلیم دی ہے۔ تورات (احبار ۱۹: ۱۸) اور انجیل (متی ۲۲: ۳۹) کے جو نسخے آج متداول ہیں ان میں یہ مذکور ہے کہ پڑوسی سے اسی طرح محبت کرو جیسا اپنی ذات سے کرتے ہو۔ تورات (خروج ۲۰: ۱۶) میں خدا کے دس اہم ترین احکام میں سے ایک حکم پڑوسی کے بارے میں جھوٹی گواہی سے بچنا ہے۔ عہد نامہ قدیم میں حضرت سلیمانؑ سے منسوب کتاب امثال میں ایک جگہ (۳: ۲۹) حکم دیا گیا ہے کہ پڑوسی، جو بھروسے کے ساتھ تمھارے قریب رہتا ہے، اس کے خلاف برے منصوبے نہ بنانا اور دوسری جگہ (۱۴: ۲۱) کہا گیا کہ جو اپنے پڑوسی سے بغض رکھے اور اسے حقیر جانے وہ گناہ کا ارتکاب کرتا ہے۔

رہی بات آسمانی ہدایت کے آخری، کامل اور غیر محرف ایڈیشن اسلام کی تو جس طرح یہاں پڑوسیوں کے حقوق کا خیال اور ان کے ساتھ احسان کی تعلیمات ملتی ہیں اور جس شدت اور اصرار کے ساتھ ملتی ہیں، اس کی مثال کسی اور جگہ نہیں ملتی۔قرآن مجید (۴: ۳۶) نے پڑوسیوں کے ساتھ احسان کی تعلیم دی ہے چاہے وہ رشتہ دار ہوں یا نہ ہوں۔ ایک حدیث میں ذکر آیا ہے کہ اگر تم چاہتے ہو کہ اللہ تم سے محبت کرے تو تین باتوں کا اہتمام کرو، ان میں سے ایک بات یہ ہے کہ اپنے پڑوسی کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ (سلسلة الأحادیث الصحیحة۲۹۹۸)اسی طرح حضور اکرمﷺ کا ارشاد ہے کہ ”جو کوئی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے پڑوسی کو کوئی تکلیف نہ پہنچائے۔“ (صحیح بخاری ۶۰۱۸) ایک حدیث میں کہا گیا کہ ”وہ مومن نہیں جو خود تو پیٹ بھر کر کھائے اور اس کا پڑوسی بھوکا رہے۔“ (طبرانی ۱۲۷۴۱) اس حدیث سے یہ تعلیم بھی ملتی ہے کہ’مجھے تو پتہ ہی نہیں تھا‘والا رویہ قابل قبول نہیں ہے۔ پڑوسیوں کے حالات سے باخبر رہنا ہماری ذمہ داری ہے۔ اور مطلوب مومنانہ روش یہ ہے کہ باخبر رہنے کے ساتھ ساتھ پڑوسی کے کام آیا جائے، اس کے مسائل کو حل کرنے میں آگے بڑھ کر خوش دلی سے اپنا تعاون پیش کیا جائے۔ آہ ؔسنبھلی کا شعر ہے:

خدا کرے کہ سنے تو زبان خاموشی

ترے پڑوس میں کچھ بے زبان رہتے ہیں

اور پھر یہ حدیث تو دل دہلا دیتی ہے کہ نبی کریمﷺ نے تین مرتبہ قسم کھاکر کہا، ”واللہ وہ ایمان والا نہیں، واللہ وہ ایمان والا نہیں، واللہ وہ ایمان والا نہیں۔“ لوگوں نے عرض کیا ”کون یا رسول اللہ؟“ فرمایا، ”وہ جس کے شر سے اس کا پڑوسی محفوظ نہ ہو!“ (صحیح بخاری ۶۰۱۶) حقوق ہم سایہ پر اسلام نے کتنا زور دیا ہے اس کا اندازہ اس حدیث سے بھی ہوتا ہے جس میں حضور اکرمﷺ ارشاد فرماتے ہیں کہ ”حضرت جبرئیلؑ مجھے پڑوسی کے بارے میں بار بار اس طرح وصیت کرتے رہے کہ مجھے خیال گزرا کہ شاید پڑوسی کو وراثت میں شریک کردیں گے۔“ (صحیح بخاری:۶۰۱۴)

مسلم معاشرے کی چند روشن قندیلیں

آج مسلمانوں میں ان مثالی تعلیمات کی جھلک پائی جاتی ہے یا نہیں، اس بات کا اندازہ لگانے کے لیے میں نے اپنے طلبہ کو ایک اسائنمنٹ دیا۔ اس موضوع پر طلبہ نے اپنی یادوں کے سمندر کو کھنگال کر جو کچھ پیش کیا اس سے ہمہ جہت اخلاقی زوال کے اس دور میں بھی مسلم معاشرے کے چند تابناک پہلو ہمارے سامنے آتے ہیں۔ ان یادداشتوں کو مکمل طور پر پیش کرنے کا موقع نہیں ہے البتہ ایک مختصر سی جھلک درج ذیل ہے۔ واضح رہے کہ نام احتیاطاً بدل دیے گئے ہیں۔

زاہد (دہلی) لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ ان کے کچن کا نل خراب ہوگیا۔ پانی پورے کچن میں پھیل گیا۔ زاہد اور اس کی امی نے ساری کوششیں کر ڈالیں لیکن پانی رکنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ امی نے زاہد سے کسی پلمبر کو بلانے کے لیے کہا لیکن شام ڈھل گئی تھی اور کسی کو بلانے کا وقت نہیں تھا۔ اتنے میں پڑوس کے انکل کام سے لوٹے تو زاہد کے گھر کو جل تھل دیکھ کر خود اس کے پاس آئے اور احوال دریافت کیے، پھر اپنے گھر سے کچھ سامان وغیرہ لاکر بڑی محنت سے پانی کے بہاؤ کو روکنے میں کامیابی حاصل کی۔ جاتے جاتے زاہد کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہہ گئے کہ بیٹا اس طرح کی کوئی پریشانی کی بات ہو تو فوراً بتادیا کرو۔

شاہ زیب (اتر پردیش) بتاتے ہیں کہ ندوہ سے عالمیت مکمل ہونے پر گھر والوں نے دعوت کا اہتمام کیا۔ سارے انتظامات چھت پر کیے گئے تھے لیکن عین وقت پر تیز بارش شروع ہوگئی۔ سارا کیا کرایا چوپٹ ہوجاتا لیکن ایک پڑوسی نے، جن کا گھر نسبتاً کشادہ ہے، فوراً مسئلے کو حل کرتے ہوئے پیش کش کی کہ دعوت ان کے گھر پر منعقد کرلی جائے۔ خود لگ کر انھوں نے سارے انتظامات جلدی جلدی مکمل کرائے اور طے شدہ پروگرام متاثر نہیں ہونے پایا۔

شمیم (جھارکھنڈ) نے لکھا کہ ان کے گھروالوں نے پڑوس کی ایک لڑکی کی شادی میں ہر طرح کا تعاون پیش کیا تھا۔ یہاں تک کہ ضرورت پڑنے پر لڑکی کے والد کے لیے قرض حسنہ کے طور پر کچھ رقم کا انتظام بھی کیا گیا۔ شمیم نے یہ بھی بتایا کہ ذاتی مشکلات کے ایک دور میں خود اس کو روپوں کی ضرورت پڑی تو پڑوس میں رہنے والا ایک دوست کام آیا۔ جب بعد میں شمیم نے شکریے کے ساتھ قرض لوٹانا چاہا تو اس دوست نے لینے سے انکار کردیا۔

رمضان (راجستھان) اپنے والد کے بارے میں رقم طراز ہیں کہ وہ اپنی آمدنی کا ایک حصہ آس پڑوس کے لوگوں کی ضرورتوں کی تکمیل اور مسائل کے حل کے لیے مختص رکھتے ہیں۔ ضرورتمند پڑوسیوں کی مالی امداد کرتے رہتے ہیں۔ کبھی کسی بچے کی اسکول کی فیس بھردی، کبھی کسی کے دواخانے کا خرچ اٹھالیا، آپریشن یا ایکسڈنٹ کے موقع پر مدد کردی، اس مناسبت سے کئی مرتبہ انھوں نے اسپتالوں میں دن رات تیمارداری کے فرائض بھی انجام دیے ہیں۔ رمضان کی امی بھی محلے کے بچوں کو قرآن سکھاتی ہیں، انھیں دعائیں یاد کراتی ہیں اور ان کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دیتی ہیں۔

غفران (کرناٹک) نے لکھا کہ ان لوگوں کے پڑوس میں ایک بوڑھے میاں بیوی رہا کرتے تھے۔ اکیلے اور بے اولاد تھے۔ اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ شوہر پر فالج کا حملہ ہوا اور جسم کا بایاں حصہ شل ہوگیا۔ اس موقع پر غفران کے گھر والوں نے ہمسائیگی کے حقوق ادا کیے۔ غفران کے والد اپنی دکان سے ضرورت کے سامان اور راشن وغیرہ کا انتظام کرتے رہے۔ اس کے علاوہ، جب بڑے میاں کی طبیعت مزید بگڑ گئی تو، غفران کے والد نے انھیں نہلانے دھلانے حتی کہ رفع حاجت کرانے اور صاف صفائی کرنے کی ذمہ داری بھی اٹھالی۔ بڑے میاں کے انتقال کے بعد بی بی بالکل اکیلی ہوگئیں۔ غفران کی والدہ ان کی تنہائی کی ساتھی بن گئیں۔ وہ بی بی کے گھر جاتیں، ان کی خیریت لیتی رہتیں، صاف ستھرائی کرتیں، راشن منگادیتیں، کھانا پکادیتیں اور ہر طرح سے ان کا خیال رکھتیں، انھیں کسی کمی کا احساس نہ ہونے دیتیں۔

عمران (مہاراشٹر) کے پڑوسی ایک سڑک حادثے کا شکار ہوگئے، بہت دنوں تک علاج چلا، یادداشت پر بھی اثر ہوا۔ اس دوران عمران کے گھر والوں نے ان کے علاج کے لیے مالی امداد بھی کی، اسپتال میں تیمارداری اور خبر گیری کے فرائض بھی انجام دیے اور اس مشکل گھڑی میں ان کے گھر والوں کے ساتھ ہر ممکن تعاون پیش کیا۔عمران مزید لکھتے ہیں کہ ایک مرتبہ ان کے پڑوس میں ایک بزرگ کی طبیعت بہت خراب ہوگئی۔ اتفاق سے اس وقت ان کے تین بیٹوں میں سے صرف ایک گھر پر تھا جس نے عمران کے گھر رابطہ کیا۔ رات کے ۱۲ بج رہے تھے۔ رکشا کا انتظام کرکے بزرگ کو اسپتال لے جایا گیا۔ بعد میں ان کا انتقال ہوگیا۔ مرحوم کے اعزہ و اقربا کو اطلاع دینے سے لے کر تجہیز و تکفین کے تمام مراحل میں عمران کا خاندان پیش پیش رہا۔

فرقان (دہلی) نے لکھا کہ ایک مرتبہ تیز بارش اور آندھی کی وجہ سے پڑوسی کے گھر ٹنکی گر کر ٹوٹ پھوٹ گئی۔ ان کے پاس سردست نئی ٹنکی لگوانے کے پیسے نہیں تھے۔ فرقان کے والد نے اس موقع پر نئی ٹنکی لگوادی۔ اب وہ صاحب دہلی سے جاچکے ہیں لیکن اب بھی فرقان کے والد سے ربط میں ہیں۔ایک مرتبہ فرقان کے والد ہفتے بھر کے لیےشہر سے باہر تھے۔اس دوران فرقان کی امی کی طبیعت خراب ہوگئی۔ کم عمری کی وجہ سے فرقان کو کچھ نہیں سوجھ رہا تھا، دوسری طرف امی بستر سے لگ گئی تھیں۔ اگلے روز ایک پڑوسی نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ وہ خیریت لینے آئے تھے کہ کل پورے دن گھر کا دروازہ بند رہا کیا بات ہے؟ انھیں فرقان کی امی کی بیماری کا علم ہوا تو تیمارداری کے لیے اپنی بیوی کو بلا بھیجا۔ وہ آئیں تو فرقان کے لیے کھانا بنایا اور ان کی امی کے لیے کھچڑی پکائی۔ پڑوسی ایک ڈاکٹر کو بھی لے آئے۔ جب تک فرقان کے والد نہیں لوٹے تب تک وہ لوگ دیکھ بھال کے لیے آتے رہے۔ فرقان نے اپنی امی سے سن کر ایک بیس پچیس سال پرانا واقعہ بھی نقل کیا ہے۔ ان کے پڑوس میں ایک غیر مسلم خاندان رہتا تھا۔ ایک دن اس گھر میں دس سالہ بچی مینکا بے ہوش ہوگئی۔ سب لوگ کام پر گئے ہوئے تھے، گھر میں کوئی مرد نہیں تھا جو دوڑ دھوپ کرتا۔ فرقان کی امی کو خبر ہوئی تو وہ اپنے بھائی کے ساتھ پڑوسی کے گھر گئیں۔ فرقان کے ماموں مینکا کو اسپتال لے گئے۔ وہ لوگ غریب تھے۔ ماموں ہی نے علاج کرایا اور سارا خرچ اٹھایا۔ فرقان کے نانیہال والوں نے اسپتال سے آنے کے بعد بھی بچی اور اس کی ماں کا خاص خیال رکھا۔

مسلم معاشرے کی یہ حسین تصویریں اس دورِ بے حسی میں امید کی روشن کرنیں ہیں۔ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ہمہ جہت فکری و اخلاقی زوال کے باوجود مسلم معاشرے کے عملی رویوں میں الحمدللہ حقوقِ ہم سایہ کے حوالے سے اسلامی تعلیمات کی ایک جھلک ملتی ہے۔ ڈاکٹر جاوید جمیل نے اپنی کتاب Muslims Most Civilised, Yet Not Enough میں اس بات کو مرکزی موضوع بنایا ہے کہ دور حاضر میں مسلمان اور مسلم معاشرے زندگی کے گوناگوں محاذوں پر اسلام کے اعلیٰ معیار پر تو پورے نہیں اترتے لیکن بہت سے پیمانوں (مثلاً شرح جرائم اور خاندانی استحکام وغیرہ) پر اعدادوشمار کی روشنی میں تقابلی مطالعہ کیا جائے تو دیگر اقوام سے بدرجہا بہتر ثابت ہوتے ہیں۔ حقوق ہم سایہ کے پاس و لحاظ کی مناسبت سے بھی یہ بات صحیح نظر آتی ہے۔ یہ مقامِ شکر تو یقیناً ہے لیکن مقامِ اطمینان نہیں ہے۔ اسلام کا معیار بہت اونچا ہے لہذا ہماری منزل ابھی دور ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حقوق ہم سایہ پر قرآن و سنت کی اسلامی تعلیمات کو عام کیا جائے۔ اس قولی شہادت کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی ضروری ہے مسلمانوں میں حقوق ہم سایہ کی پاسداری کے اسلامی شعور کو مزید پختہ کیا جائے تاکہ مسلم معاشرے اسلام کی اعلیٰ اخلاقی قدروں کی عملی شہادت دے کر انسانیت کے لیے روشنی کا مینار ثابت ہوں۔ ذہن میں ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ جس طرح شا، مکے، سیمپسن، راڈن بش، اور ارلز نے شکاگو کے محلوں کو اپنی تحقیقی کاوشوں کا مرکز بنایا، کیا ہمارے محققین ہندوستان کے مختلف شہروں میں مسلم محلوں کو اپنی تحقیق کا موضوع نہیں بناسکتے تاکہ اسلام کی ایک مثبت تصویر اعداد و شمار کی روشنی میں ٹھوس علمی و تحقیقی بنیادوں پر پیش کی جاسکے؟ ملک عزیز میں نفرت کی سیاست کرنے والوں نے ملی جلی آبادیوں میں مسلمانوں کے لیے کرایے کے مکان کا حصول بھی مشکل بنادیا ہے، ایسی زہرآلود فضا میں علمی شہادت کا یہ کام مسلم تعلیمی و تحقیقی اداروں پر فرض ہے۔

مشمولہ: شمارہ نومبر 2025

مزید

حالیہ شمارے

دسمبر 2025

Dec 25شمارہ پڑھیں

نومبر 2025

Novشمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے زندگی نو کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے ای میل / وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 400 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ ای میل / وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9818799223