توازن و اعتدال ۔ مفہوم اور تقاضے

ہر چیز اپنی رفتا ر سے چل رہی ہے۔یہاںکچھ نہیں تھمتا ،بچپن ،جوانی پھر بڑھاپا،ہر کوئی روٹی کپڑا اور مکان کی لڑائی میں مگن ہے۔پھر ایسے میں اس بات پر حیرت نہیں ہوتی کہ کسی فرد کو کسی کالونی سے نکال دیا جائے، وہ اپنا مکان نہ خرید سکے ،بے جا کسی راہ گزر کو چند لوگ آکر گھیر لیں اور اس کاخون کر ڈالیں ،مسجدیں اجاڑ دی جائیں اور میکدے آباد کردئے جائیں، گناہ گار آزاد گھومیں اور معصوم تختہ دار پر ہوں،با علم لوگ رعایا اور قاتل و لٹیرے رہنما ہو جائیں ۔جھوٹ اور رشوت کا ہر جگہ بول بالا ہو جا ئے، گلستا ں میں گل کی بجائے خار اگ آئیں ۔پہاڑوں کو بموں سے اڑادیا جائے ۔نظام قدرت پر انگلیاں اٹھائی جائیں  اور دین مصطفی کی ہنسی اڑائی جائے۔ہر کوئی اپنی بے ڈھنگی رفتا ر زندگی میں محو ہے۔یہ بے ڈھنگی رفتار زندگی فرد کی انفرادیت سے اجتماعیت میں سرایت ہوئی اور پورانظام زندگی فساد فی البر والبحر کی عملی تفسیر بن گیا۔

سماج کے ساتھ ساتھ تعلیمی اداورںکا بھی یہی حال ہے۔عمومی خیال میںمسائل کچھ اور ہی سمجھے جاتے ہیں۔یہاں ٹوٹی ہوئی میز ،لٹکا ہوا بورڈ ،جمی دھول کی پرتیں،پانی کی غیر فراہمی،لائبریری کی خستہ حالت،ناقابل اساتذہ ،تعلیم کے بعد معاش کا غیر مستحکم انتظام مسائل بنے ہوئے ہیں۔خیرخواہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ کیمپس کی یہی ضرورت ہے اور اسی کو اشو سمجھ کر تمام توانائی صرف کر بیٹھتے ہیں ۔لیکن ذرا ایک لمحہ کے لئے مان لیجئے کہ تمام مسائل حل ہو گئے ہیں آپ کا کیمپس بہترین انفرااسٹرکچر کے ساتھ ،بہترین اساتذہ ،لائبریری میں جمی کتابیں ،پانی اور کھانے کابہترین انتظا م مہیاکررہا ہے۔ اب ان مسائل کو چند دیگر مسائل سے تبدیل کردیجئے ،تصور کیجئے کیمپس میں انسان کو انسان نہ سمجھا جائے، طلبا اپنے لاشعور میں کسی فلسفہ جاہلیت کے پیروکار ہوں ۔ایک مذہب کا ماننے والا دوسرے کے خون کا پیاسا ہو جا ئے ۔ مذہب تو دور ایک طبقہ ،فرقہ ، مسلک،کاسٹ دوسرے کا دشمن ہو۔اسی کے ساتھ معاشرے کے نہایت ذہین اور فطین حضرات ،سیاسی لیڈران ،بات بات کو سیاسی مفاد کا رنگ دے رہے ہوں نظام تعلیم اوباشوں کی جاگیر ہو جائےتو تمام ظاہری نعمتیں مل جانے کے باوجود فرد اور معاشرہ ایک دوسرے کے دشمن ہو جائیں گے۔

موجودہ دنیا کے انسان کی تمام سعی و جہد کا مرکز و محور اس کی اپنی ذات ہے ۔ اس سے سرمایہ دارانہ نظام کو تقویت ملتی ہے۔جب سماج و معاشرے کو فرد تنہا ہو تا ہوا نظر آیا ،تومعاشرے نے نئے قانون وضع کرنے کی کوشش کی ۔ مکمل طریقے سے فرد کی انفرادیت ختم کرنے کی کوشش کی ،اس طرح کے مسائل اس وقت پیدا ہو تے ہیں جب انسان کسی ایک چیز کو نظرمیں بٹھا لے اور دوسرے کو صرف نظر کردے۔ کسی چیز میں بہتات کردے اور کسی میں کمی کردے ۔ تو چا ہے نہ چاہے و ہ افراط و تفریط کے راستے پر چل نکلتا ہے۔زندگی میں بے اعتدالی آجاتی ہے ۔اور ان تمام مسائل کا تعلق عطاکی گئی بہترین نعمت آزادی فکر و عمل سے ہے ۔

’’جب بھی کسی نے اپنے مفادات کو حاصل کرنا چاہا آزادی خیالات و عمل عمدہ اور بہترین ہتھیا ر ثابت ہوا۔ جو فرد اور سماج کو بے لگام بنادیتا ہے۔اور فرد و سماج بے تکلف ہو کر بے لگام سماج کو جنم دیتاہے ۔معاشرہ اس میں ڈھلنے لگتا ہے۔ پھر فرد اور سماج کو ان حا لات کی ایسی عادت لگتی ہے کہ بے لگامی ہی ’’لگام ‘‘کی صورت  اختیار کر لیتی ہے۔ اس طرح ایک بے قید و بند ،بے لگام سسٹم ،فرد خاندان ،گروہ قوم و ملک وجود میں آتا ہے۔‘‘

آزادی کا یہ غلط استعمال آگے جاکر اپنے نئے رنگ دکھاتاہے ۔جو کہ اب دکھا رہا ہے۔ لیکن اسلام کا آزادی فکر و عمل پر بہت آسان اصول ہے’’ لا ضرر ولا ضرار ‘‘نقصان اٹھاؤ نہ نقصان پہنچاؤ ۔ اس میں ہر کسی کو فکر و نظر ،تعلیم، بات چیت کی آزادی ،تنقید و تبصرہ ،مذہب و عقیدہ، تصرف ملکیت ہر معاملے میں آزادی دی گئی اور بنیادی اصول یہ ٹھہرا یا گیا ۔کسی کی ایذا رسائی نہ ہو اور تکلیف نہ پہنچے۔ حصول آزادی میں کسی کی حق تلفی نہ ہو۔ کہیں ایک کی آزادی میں دوسرے کی آزادی نہ ختم ہو جائے۔اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتاہے : ’’بیشک تیرا رب اگر چاہتا تو تما م انسانوں کو ایک امت واحدہ بنا سکتا تھا مگر اب تو وہ مختلف طریقوں ہی پر چلتے رہیں گے اور بے راہ روی سے صرف وہ لوگ بچیں گے جن پر تیرے رب کی رحمت ہے اسی آزادی انتخاب و اختیار کے لئے ہی تو اس نے پیدا کیا تھا‘‘(سورہ ہود)۔اسی طر ح  اسلام سیاسی و معاشی، سماجی و تہذیبی آزادی دیتا ہے۔پیروں میں بیڑیاں اور زنجیریں نہیں ڈالتا ۔یہی اسلام کا نظام عدل ہے۔اسلام زندگی کے ہر گوشے میں صحیح بات کی رہنمائی کرتا ہے اور غلط باتوںسے آگاہ کرتاہے اسی لئے سورہ بقرہ کی اوپر دی ہوئی آیت میں کہ تم کو امت وسط بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ رہو،اس میں فرض کے ساتھ ساتھ امت مسلمہ کی صفت اور اس کا اساسی کردار امت وسط بتایا ہے۔ یہ وہ درمیانی امت ہے جو سماج میں افراط و تفریط ،غیر متوازن افکار کی جڑ پر ضرب لگائے گی اور معاشرہ وسماج میں انفرادی و اجتماعی زندگی میں عدل و توازن قائم کرے گی۔دوسرے مقام پر اللہ نے فرما یا  ’’کونوا قوامین باا لقسط‘‘  تم انصاف کے علمبردار بنو ۔اور دوسری طرف کہا گیا عدل کرو وہ تقویٰ کے قریب ترین ہے ۔اس تعلق سے اللہ تعالیٰ  بیان فرماتا ہے:

’’اللہ نے آسمان سے پانی برسایا اورہر ندی نالہ اپنے ظرف کے مطابق اسے لے چل نکلاپھر جب سیلاب اٹھا تو سطح پر جھاگ بھی آگئے۔اور ایسے ہی جھاگ ان دھاتوں پر بھی اٹھتے ہیں،جنھیں زیور اور برتن وغیرہ بنانے کے لئے لوگ پگھلایا کرتے ہیں ،اسی سے اللہ حق اور باطل کے معاملہ کو واضح کرتا ہے، جو جھاگ ہے وہ اڑ جایا کرتاہے، اور جو چیز انسانوں کے لئے نافع ہے کہ وہ زمیں میں ٹھیر جاتی ہے اس طرح اللہ مثالوں سے اپنی بات سمجھا تا ہے۔‘‘(سورہ رعد) یہاں جھاگ سے مراد تمام غیر فطری اورغیر نافع افکارہیں جو زمیں پر باقی نہیں رہیں گے اس کے برعکس اسلام نفع بخش اور فطری  فکر ہے جسے اللہ کی تائید حاصل ہے، اس کے لئے بقا ہے۔

افراط و تفرط، اور زندگی کے بیشترمیدانوںمیں بے اعتدالی سرایت ہو گئی ہے۔اس دلدل کے تین اھم موضوع پر گفتگو کی گئی ہے۔  (جاری(

مشمولہ: شمارہ اکتوبر 2015

مزید

حالیہ شمارے

اکتوبر 2024

شمارہ پڑھیں

ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں
Zindagi e Nau